دعائے انس پر تحقیق

حضرت انس رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہﷺ کے مشہور صحابی ہیں، ان کی دعا کا واقعہ کتب احادیث و تاریخ میں مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
علامہ ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق:( ج، 52 ص 259 ط، دارالفکر، بیروت ) میں روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے۔ حجاج نے حکم دیا کہ ان کو مختلف قسم کے چار سو گھوڑوں کا معائنہ کرایا جائے۔ حکم کی تعمیل کی گئی، حجاج نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا: فرمائیے ! اپنے آقا یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس قسم کے گھوڑے اور ناز و نعمت کا سامان کبھی آپ نے دیکھا؟ فرمایا: بخدا ! یقینا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدرجہا بہتر چیزیں دیکھیں اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جن گھوڑوں کی لوگ پروَرِش کرتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں، ایک شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے گا اور دادِ شجاعت دے گا۔ اس گھوڑے کا پیشاب، لید، گوشت پوست اور خون قیامت کے دن تمام اس کے ترازوئے عمل میں ہوگا۔ اور دُوسرا شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کیا کرے اور پیدل چلنے کی زحمت سے بچے (یہ نہ ثواب کا مستحق ہے اور نہ عذاب کا)۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کی پروَرِش نام اور شہرت کے لئے کرتا ہے، تاکہ لوگ دیکھا کریں کہ فلاں شخص کے پاس اتنے اور ایسے ایسے عمدہ گھوڑے ہیں، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور حجاج! تیرے گھوڑے اسی قسم میں داخل ہیں۔ حجاج یہ بات سن کر بھڑک اُٹھا اور اس کے غصے کی بھٹی تیز ہوگئی اور کہنے لگا: اے انس! جو خدمت تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا، نیز امیرالموٴمنین عبدالملک بن مروان نے جو خط مجھے تمہاری سفارش اور رعایت کے باب میں لکھا ہے، اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کر گزرتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظرِ بد سے دیکھ سکے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلمات سن رکھے ہیں، میں ہمیشہ ان ہی کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی برکت سے مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت سے خوف ہے، نہ کسی شیطان کے شر سے اندیشہ ہے۔ حجاج اس کلام کی ہیبت سے بے خود اور مبہوت ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد سر اُٹھایا اور (نہایت لجاجت سے) کہا: اے ابو حمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھادیجئے! فرمایا: تجھے ہرگز نہ سکھاوٴں گا، بخدا! تو اس کا اہل نہیں۔پھر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا، آبان جو آپ رضی الله عنہ کے خادم تھے، حاضر ہوئے اور آواز دی، حضرت رضی الله عنہ نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا: وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حجاج نے آپ رضی الله عنه سے چاہے تھے مگر آپ رضی الله عنه نے اس کو سکھائے نہیں۔ فرمایا: ہاں! تجھے سکھاتا ہوں، تو ان کا اہل ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس خدمت کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی تھے، اسی طرح تو نے بھی میری خدمت دس سال تک کی اور میں دُنیا سے اس حالت میں رُخصت ہوتا ہوں کہ میں تجھ سے راضی ہوں۔ صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو، حق سبحانہ وتعالیٰ تمام آفات سے محفوظ رکھیں گے۔
دعاء کے الفاظ بھی مختلف روایات میں کمی بیشی کے ساتھ اس طرح ہیں:
بِسْمِ اللهِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی اَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی مَا اَعْطَانِیَ اللهُ، اَللهُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہ شَیْئًا۔ اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاوٴُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ، وَّمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللهُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اِنَّ وَلِیَّ اللهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۔”
دعاء انس کی اسنادی حیثیت:
دعاء انس کا واقعہ پانچ اسناد سے مختلف کتب میں نقل کیا گیا ہے، تعدد طرق سے " حسن " کے درجہ میں ہوجاتی ہے، جو کہ قابل حجت ہوتی ہے۔
تاریخ دمشق: (259/52، ط: دار الفکر)

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم