تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن حق ہیں ‏

تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن حق ہیں
     
     پہلا قانون فطرت:
اگر کھیت میں” دانہ” نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے “گھاس پھوس” سے بھر دیتی ہے.
اسی طرح اگر” دماغ” کو” اچھی فکروں” سے نہ بھرا جاۓ تو “کج فکری” اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔ یعنی اس میں صرف “الٹے سیدھے “خیالات آتے ہیں اور وہ “شیطان کا گھر” بن جاتا ہے۔

دوسرا قانون فطرت:
جس کے پاس “جو کچھ” ہوتا ہے وہ” وہی کچھ” بانٹتا ہے۔
* خوش مزاج انسان “خوشیاں “بانٹتا ہے۔
* غمزدہ انسان “غم” بانٹتا ہے۔
* عالم “علم” بانٹتا ہے۔
* دیندار انسان “دین” بانٹتا ہے۔
* خوف زدہ انسان “خوف” بانٹتا ہے۔

تیسرا قانون فطرت:
آپ کو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہو اسے “ہضم” کرنا سیکھیں، اس لۓ کہ۔ ۔ ۔
* کھانا ہضم نہ ہونے پر” بیماریاں” پیدا ہوتی ہیں۔
* مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں” ریاکاری” بڑھتی ہے۔
* بات ہضم نہ ہونے پر “چغلی” اور “غیبت” بڑھتی ہے۔
* تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں “غرور” میں اضافہ ہوتا ہے۔
* مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے “دشمنی” بڑھتی ہے۔
* غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں “مایوسی” بڑھتی ہے۔
* اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں” خطرات” میں اضافہ ہوتا ہے۔

اپنی زندگی کو آسان بنائیں اور ایک” با مقصد” اور “با اخلاق” زندگی گزاریں، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔
خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں!

عصر ‏حاضر ‏اور ‏نوجوان ‏

نوجوانوں کی اہمیت

قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہویا ملکی سطح کا، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے ۔روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا،عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی ہو یا عسکری، ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم وملک اور تنظیم انھی پر اپنی نگاہیں اور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

اب قرآن مجید کی طرف رجوع کریں گے کہ وہ نوجوانوں کی اہمیت اور کردار کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردر اس طرح سے بیان کرتا ہے: ’’ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی‘‘۔ یہ وہ نوجوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کاا علان کیا ۔

اللہ تعالیٰ ان کے عزائم وحوصلے اور غیر متزلزل ایمان اور ان کے عالم گیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے: وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا o(الکھف ۱۸:۱۴) ’’ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں ور زمین کا رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بے جا بات کریں گے‘‘۔

ان چند نوجوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردار ادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے نمونۂ عمل ہے ۔ اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسٰی ؑ پر ایمان لانے والے چند نوجوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسٰی ؑ کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنھوں نے کٹھن حالات میں حضرت موسٰی ؑ کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے: فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْءِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ ط وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِج (یونس ۱۰:۸۳)’’موسٰی ؑ کو اسی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربراہ لوگوں کے ڈر سے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘ ۔

مذکورہ بالا آیت میں ذریۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بہت ہی جامع اور معنی خیز ہے۔ سیدمودودیؒ نے ذریۃ کی تشریح پُرمغز انداز میں اس طرح کی ہے: ’’متن میں لفظ ذریۃ استعمال ہوا ہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ نوجوان سے کیا ہے۔ دراصل اس خاص لفظ کے استعمال سے جو بات قرآن مجید بیان کرنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پُرخطر زما نے میں حق کا ساتھ دینے اور علم بردارِ حق کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کی جراء ت چند لڑکوں اور لڑکیوں نے تو کی مگر ماؤں اور باپوں اور قوم کے سن رسیدہ لوگوں کو اس کی تو فیق نصیب نہ ہوئی۔ ان پر مصلحت پرستی اور دنیوی اغراض کی بندگی اور عافیت کوشی کچھ اس طرح چھائی رہی کہ وہ ایسے حق کاساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے جس کاراستہ ان کو خطرات سے پُر نظر آرہاتھا ‘‘۔(ترجمہ قرآن مع مختصر حواشی، ص ۵۶۵۔ ۵۶۷)

احادیث رسولؐ میں بھی نوجوانوں کے کردار اور ان کے لیے رہنما اصول کثرت سے ملتے ہیں۔ نو جوانی کی عمر انسان کی زندگی کا قوی ترین دُور ہوتا ہے ۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتا ہے۔ انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کامیابی اس کے قدم چومے گی اور اگر اس عمر میں وہ کوتاہی اور لاپروائی برتے گا تو عمر بھر اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جوانی کی عمر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر فرد کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں قیامت کے دن خصوصی طور سے پوچھا جائے گا ۔حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فر مایا: ’’یعنی قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے ۔ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جوعلم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ (ترمذی باب صفۃ القیامۃ)

اس حدیث مبارکہ میں چارسوال جوانی سے متعلق ہیں۔ ایک عمر کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس میں جوانی کادور بھی شامل ہے۔ مال کمانے کا تعلق بھی اسی عمرسے شروع ہوتا ہے۔ حصول علم کاتعلق بھی اسی عمر سے ہے۔ نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے ۔اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں نوجوان علمی تشنگی کو اچھی طرح سے بجھا سکتا ہے۔ اسی دور کے متعلق علا مہ اقبال نے ع ’شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہے کاری‘ فرمایا ہے ۔عمر کے اسی مرحلے میں نوجوان صحابہؓ نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ۔یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے بار گاہِ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا ۔دورِ شباب ہی میں حضرت علیؓ ،حضرت مصعب بن عمیرؓ ، حضرت عمار بن یاسرؓ ، اور چارعباد اللہ جن میں ابن عمرؓ ،ابن عباسؓ، ابن زبیرؓاور ابن عمرو ابن العاصؓ نے اللہ کے رسولؐ سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،اور امام غزالی جیسے مجدد علوم کی گہرائیوں میں اترے ،اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سرزمین کو جہاں فرعون کے انمٹ نقوش ابھی بھی بہر تلاطم کی طرح باقی ہیں دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایا۔ مولاناابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا اور سید مودودی نے ۲۳سال کی عمر میں ہی الجہاد فی الاسلام جیسی معرکہ آراکتاب لکھ کر تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جن کا اس وقت نہ صرف غیر مسلم بلکہ مسلمان بھی شکار تھے ۔ اللہ کے رسولؐ نے اسی عمر کو غنیمت سمجھنے کی تلقین کی ہے ۔ کیونکہ بڑے بڑے معر کے اور کارنامے اسی عمر میں انجام دیے جاسکتے ہیں۔ حضرت عمر بن میمونؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: ایک جوانی کوبڑھاپے سے پہلے، صحت کوبیماری سے پہلے، خوش حالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کومشغولیت سے پہلے، زندگی کوموت سے پہلے۔ (ترمذی )

نوجوانوں کو درپیش مسائل

ذیل میں ہم ان چند اہم مسائل کا تذکرہ کریں گے جن کاسامنا ہر مسلم نوجوان کر رہا ہے۔

مقصد زندگی اور اسلام

ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے اپنے کتاب Have you Discovered its Real Beautyمیں ایک واقعے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے ایک ہوٹل میں کرس نام کے ایک شخص سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انھوں نے حیران ہوکر جواب دیا کہ مجھ سے آج تک کسی نے بھی اس طرح کا سوال نہیں کیا اور اس کے بعد اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میری زند گی کا کوئی مقصد نہیں ہے اور زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہے کیا ؟۔

عصرِجدید میں جب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو ان کا بھی جواب کرس کی طرح ہی ہوتاہے۔ مقصدِ زندگی کے تعلق سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں Eat, Drink and be Happy’یعنی خوب عیش کر لے کیو نکہ عالم دوبار ہ نہیں ہے‘جیسے فرسودہ اور پُرفریب نعروں پر نہ صرف یقین کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اسلام کا مقصد زندگی کے حوالے سے واضح موقف ہے۔ زندگی کی غرض و غایت کے متعلق قرآن وحدیث میں جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن میں ایک جگہ انسان کو یہ ہدایت دی گئی کہ: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط (میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ البقرہ ۲:۳۰) ، تو دوسری جگہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo(میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ الذاریات ۵۱:۵۶)کہہ کر اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میں زندگی کا مقصد ومدعا بیان کیا ہے۔ ایک جگہ اگر حُسنِ عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط (جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ الملک ۶۷:۲)، تو دوسری جگہ مقصد اور کامیاب زندگی کو تزکیۂ نفس پر موقوف ٹھیرایا گیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo(فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ الاعلٰی۸۷:۱۴)۔ زندگی کی غرض غایت کے متعلق احادیث سے بھی خوب رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’دنیا بہت مٹھا س والی اور سرسبز و شاداب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمھیں خلافت کا منصب عطا کیا ہے تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘ (مسلم، کتاب الذکر)۔ اللہ کے رسولؐ نے یہ بھی فر مایا: ’’عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کیا ‘‘۔ (ترمذی)

وحی الٰہی سے دُ وری اور نوجوان

اس وقت امت کے نوجوانوں میں سب سے بڑا لمیہ یہ ہے کہ وہ الہی تعلیمات سے نابلد اور دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔نوجوا ن طبقہ عموماً قرآن مجید کو ایک رسمی اور مذہبی کتاب سمجھتا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ان کا تصور یہ ہے کہ اس کے ساتھ اگر تعلق قائم بھی کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ تلاوت ہی تک محدود رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب زمانہ حال کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کتاب انقلا ب ہے۔ یہ عصر حاضر کے چیلنجوں کا نہ صرف مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے۔ قرآن جہاں انسان کو آفاق کی سیر کراتا ہے وہیں یہ ہمیں انفس کی ماہیئت وحقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے ۔ جہاں عبادت کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے وہیں سیاسی معاملات کے لیے بھی رہنما اصول بیان کرتا ہے۔ جہاں اخلاقی تعلیمات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہیں یہ اقتصادی نظام کے لیے بھی ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ جہاں حلال وحرام کے درمیان تمیز سکھاتا ہے وہیں یہ حق و باطل کے در میان فرق کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ نوجوان اس کتاب انقلاب کے بغیر حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا اسی کتاب کو کا میابی اور نجات کا واحد ذریعہ سمجھنا چاہیے۔

کیرئیر ازم اور نوجوان

عصرِ حاضر میں تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیشہ (profession) مقام (placement) اور پیسہ و سرمایہ بٹورنا رہ گیا ہے ۔ہر نوجوان انھی تین چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے۔ آج سائنس ٹکنالوجی اور دوسری طرف علمی انفجار کا دور مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دھن نے ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے کہ ہر نوجوان دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر تا اور ہر ایک کیرئیر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے ۔وہ سماج میں ر ہنے والے دوسرے افراد سے ہی کیا وہ تو اپنے بغل میں رہنے والے ہمسایے سے بھی بے گانہ ہے کیو نکہ وہ اس خود ساختہ اصول پر عمل کرتا ہے کہ مجھے اپنے علاوہ کسی اور سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔ وہ چاند پر کمندیں ڈالنے کے لیے ہر وقت کو شاں رہتا ہے لیکن اپنے مقصد وجو د سے ناآشنا ہے ۔وہ قابل ذکر اسناد کا حامل تو ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دوسروں کے لیے حمایت اور ہمدری کا جذبہ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس وافر مقدار میں معلومات ہوتی ہیں لیکن علم حق سے محروم رہ کر زندگی اس گدھے کی طرح گزارتا ہے جس کی پیٹھ پر کتا بوں کا بوجھ لاد دیا جائے لیکن بیچارے گد ھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی پیٹھ پر کس قسم کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔

اسلام کیرئیر اور مستقبل کو خوب سے خوب تر بنانے اور نکھارنے سے منع نہیں کر تا ہے۔ اسلام توقاعدے اور سلیقے کے ساتھ منظم اور اچھے طریقے سے کیر ئیر بنانے پر زور دیتا ہے ۔ اور اس بات کی بھی تلقین کر تا ہے کہ حُسنِ عمل(excellence) کسی بھی لمحے آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے، البتہ اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں سے منہ پھیر کر زندگی گزارے۔ اندھی کیر ئیر پرستی ایک نوجوان کو سماج سے الگ تھلگ کر دیتی ہے ۔اس سے قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ منع کیا ہے ۔اللہ تعالی نے اس حوالے سے حضرت لقمان کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فر مایا: وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ(لقمان ۳۱:۱۸) ’’اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو‘‘۔صعر اصل میں ایک بیماری کانام ہے جو عرب میں اُونٹوں کی گر دنوں میں پائی جاتی ہے ۔یہ بیماری جب اونٹ کولگ جاتی ہے تو وہ اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح کیر ئیر پرستی کے شکار نوجونوں کا رویہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کیر ئیر پرستی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

عصری مسائل اور نوجوان

آج امت کا نوجوان بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھر اہوا ہے ۔ ایک طرف غیرمتوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تودوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ۔ ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل ہیں تو دوسری طرف بے روز گاری کے مسائل نے پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اسی طرح ناقص تعلیم و تر بیت، حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کردہ مسا ئل علاوہ ازیں نت نئے افکار کے پیدا کرد ہ مسائل اور الجھنوں کا انبار لگا ہو ا ہے جن سے اُمت کا یہ اہم طبقہ دو چار ہے ۔یہ واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے ۔ کیونکہ ان کو اس سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل رہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہو سکے۔

اس سلسلے میں ماں باپ ،علما اور دانش وروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ کردار اداکریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں ملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکے ۔ اس حوالے سے اللہ کے رسول ؐکا وہ تربیتی منہج سامنے رکھنا چاہیے جس کی بدولت انھوں نے نوجوانوں کی ایک بہترین ٹیم تیار کی تھی ۔ جس نے بعد میں بڑے بڑے معرکہ سرانجام دیے ۔ اللہ کے رسولؐ نوجوانوں کی ان کے رجحان اور طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت کر کے ذمہ داریاں سونپتے تھے ۔

اللہ کے رسولؐ کاتربیتی منہج بڑا شان دار اور منفرد انداز کا ہے۔ آپؐ ا ن کی کردار سازی پر بہت توجہ فر ماتے تھے ۔اور نہ صرف ان کے خارجی مسائل حل کرتے تھے بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل بھی حل کرتے تھے ۔ ایک دن قریش کا ایک نوجوان رسولؐ اللہ کی خد مت میں آیا اور بلا خوف و تردد عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے۔ صحابہ کرامؓ اس نوجوان کی بے ہودہ جسارت پر بپھر گئے اور اس کو سخت سے سخت سزا دیناچاہی مگر رسولؐ نے بالکل منفرد انداز اختیار کیا۔ آپؐ نے اس نوجوان کو قریب بلایا اور کہا: کیا تم یہ بات اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ نوجوان نے کہا :میر ی جان آپؐ پر قربان ہو، یہ بات میں اپنی ماں کے لیے کبھی پسند نہیں کر سکتا۔ پھر آپؐ نے اس کی بہن ، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اس طرح کے سوالات کیے۔ بعد میں اس سے پوچھتے، کیا تم اسے ان کے لیے پسند کرتے ہو۔ وہ ہر بار یہی کہتا: میری جان آپؐ پر قربان ہو، خدا کی قسم! یہ بات میں ہر گز پسند نہیں کر سکتا ۔پھر آپؐ نے ا س نوجوان کو اپنے قریب بلایا اور اس کے لیے اللہ سے دعا کی جس کے بعد وہ کبھی بھی اس بے ہودہ کام کی طرف مائل نہیں ہوا(مسند احمد)۔ اس واقعے سے ہم کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل کو کس طرح پیار سے سمجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے ۔

اخلاق باختگی اور نوجوان

آج فحاشی وعریانیت ، ننگا ناچ اور حیا سوز ذرائع ابلاغ ہر گھر اور خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ۔ بے شمار رسائل وجرائد اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں ۔انٹر نیٹ پر اَن گنت حیا سوز ویب سائٹس موجود ہیں جن تک ہر نوجوان کی رسائی باآسانی ہو جاتی ہے ۔ گھر سے لے کر کالج تک اور کالج سے لے کر بازار تک بے حیائی پر مبنی ماحول کا سامنا ہے۔ ایسا معا شرہ اور فضا نوجوان کی جنسی خواہشات کو بر انگیختہ کر دیتی ہیں ۔ بے حیائی اخلاق باختگی ایک ایسی وبا ہے جو بڑی تیزی کے سا تھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے جس کی بدولت آج نوجوانوں میں خوف تناؤ، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ۔ برائیوں ، پریشانیوں بے حیائی اور فحاشی اور رذائل اخلاق دیمک کی طرح نوجوانوں کو کھا ئے جارہے ہیں ۔اطمینانِ قلب ، تطہیر ذہن ،حیا پسندی، پاک دامنی اور حُسن اخلاق سے نوجوانوں کو متصف کرنا وقت کا ایک تجدید ی کام ہوگا ۔ بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام و حقائق اور رسالت محمدیؐ کا وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقے کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب اور اِن نفسیاتی اُلجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بُری طرح گرفتار ہے اور اس کی عقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے۔(نیاطوفان اور اس کا مقابلہ، ص۲۶)

اسلام نہ صرف برائیوں کو قابو میں کرنا چاہتا ہے بلکہ ان کا قلع قمع بھی کرتا ہے جن میں نوجوان طبقہ مبتلا ہے۔ اسلام نے برائیوں سے دور رہنے کی سخت تاکید کی ہے ۔ اب اگر برائیوں کو جاننے اور اس کے انجام بد سے باخبر ہونے کے باوجود اجتناب نہیں کریں گے تو اللہ کے رسولؐ کا یہ مبارک ارشاد ذہنوں میں مستحضر رکھنا چاہیے کہ ’’لوگوں نے اگلی نبوت کی باتوں میں جو کچھ پایا اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب تم کو شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو‘‘۔(بخاری، عن ابن مسعود )

اعتدال وتوازن کا فقدان

اعتدال وتوازن ہر کام میں مطلوب ہے۔ جس کام میں اس کا فقدان ہو وہ صحیح ڈگر پر زیادہ دیر اور دُورتک نہیں چل سکتا ۔ جب اور جہاں بھی اعتدال اور توازن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو وہیں انتہاپسند ی اور غلو،شدت پسندی اور تخریب کاری کا عمل شروع ہو نا لازمی ہے ۔ اعتدال پسندی و توازن کھانے پینے ، چلنے پھرنے ، بات چیت ، سو نے جاگنے ،محنت ومشقت ،مال کمانے ، سیروتفریح، حتیٰ کہ عبادات میں بھی مطلوب ہے ۔ اسلام اعتدال وتوازن کا دین ہے ۔ یہ جہاں شدت پسندی سے روکتا ہے وہیں غلو کرنے سے اجتناب کی تلقین کر تا ہے ۔اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن جگہ جگہ اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے رہنما اصول فراہم کرتا ہے ۔ اُمت مسلمہ کے حوالے سے قرآن کاموقف یہ ہے کہ یہ امت وسط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ۲:۱۴۳)۔ ا للہ تعالیٰ نے نہ صرف اُمت کے ہر فرد کو اعتدال وتوازن پر قائم رہنے کی تاکید کی بلکہ پیغمبر اعظمؐ کوبھی اعتدال کی روش اختیار کر نے کی تلقین کی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ (اعراف ۷:۲۹) ’’اے محمدؐ! کہہ دیجیے کہ میرے رب نے اعتدال کی راہِ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔شدت پسندی، غلو اور افراط وتفریط سے اجتناب کرکے نوجوانوں کو اعتدال کی روش کو اپنانا چاہیے۔

تعلیم وتر بیت کا فقدان

ایک اور مسئلہ جس کی وجہ سے نوجوان مختلف مسائل اور مشکلات میں گھر اہوا ہے وہ ماں باپ کی ناقص تعلیم وتربیت ہے ۔ جو نوجوان بھی ماں باپ کی تعلیم وتربیت سے محروم رہ جا ئے گا لازمی طور سے مسائل اوراُلجھنوں کا شکار ہو گا ۔ایک نوجوان کی اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی تعلیم وتربیت سے محرو م رہے ۔اس کے ماں باپ تعلیم وتر بیت اور اس کو صحیح رہنمائی کرنے میں کوتاہی یا بے اعتنائی برتیں۔ حقیقی معنوں میں یتیم اسی کو کہا جاتا ہے جیسے عربی کاایک مشہور شعر ہے ؂

لیس الیتیم من انتھی ابوہ من ھم الحیات وخلفاہ ذلیلا

ان الیتیم ھو الذی تلقی لہ اماتخلت او ابا مشغولا

(یتیم وہ نہیں ہے جس کے والدین فوت ہو چکے ہوں اور اس کو تنہا اوربے سہارا چھوڑ رہے ہوں۔ یتیم تو وہ ہے جس کی ماں نے اس سے بے اعتنائی بر تی ہو اور باپ مصروفِ کار رہا ہو )۔

اسلام نے بچوں کی پرورش اور پرداخت کے ساتھ ساتھ ماں باپ پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی ہے کہ ان کو تعلیم وتر بیت اور اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کراکے صحت مند معاشرے کے لیے بہترین اور کار آمد افراد تیار کریں۔جہاں ماں باپ کو اس بات کے لیے مکلف ٹھیرایاہے کہ سات سال سے ہی بچوں کو نماز کی تلقین کریں وہیں ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مناسب وقت پر نکاح کا اہتمام کریں کیونکہ یہ ان کے بچوں کی عزت وعصمت اور پاک دامنی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

ناقص نظامِ تعلیم

رائج نظام تعلیم بر طانوی مفکر لارڈ میکاولے کے افکار ونظر یات پر مبنی ہے۔ عصر حاضر میں تنگ نظری ، مقامیت ، مادیت ،اخلاقی بے راہ روی اور عورت کا استحصال ، نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے جرائم، نیز خود کشی کے گراف میں اضافہ، یہ سب ناقص نظام تعلیم کی دین ہے ۔نظام تعلیم میں ان خرابیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے اس کو صحیح رُخ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ فرد اور سماج دونوں کی اصل ضروریات کو پورا کرسکے ۔

ہر قوم وملت کی تعمیروترقی بامعنی اور اقدار پر مبنی نظام تعلیم پر منحصر ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قوم یا ملت کا بہتر مستقبل نظام تعلیم پر ہی منحصر ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ایک مشہور ماہر تعلیم سے پوچھا گیا آپ ملت کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے ۔تو ان کا جواب تھا:(مجھے اپنا نظامِ تعلیم دکھاؤ جو بتا سکتا ہے کہ اس کامستقبل کیا ہوگا )۔

رائج نظام تعلیم کے بر عکس اسلام کا نظام تعلیم الٰہی ہدایات پر مبنی ہے جو کسی بھی کمی یا نقص سے پاک ہے۔ اس میں فرد کی تعمیر و تطہیر کے لیے جامع ہدایات موجود ہیں ۔یہ فرد کی شخصیت کو منور کرتا ہے۔اس نظام تعلیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زندگی کے بنیادی اور اہم سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے، مثلاً میں کون ہوں؟ میری زندگی کامقصد کیا ہے؟ مجھے پیدا کرنے والا کون ہے ؟ اس نے مجھے دنیامیں کیوں بھیجا ؟اور وہ کیا کام لینا چاہتا ہے ؟۔ خالق اور مخلوق کے درمیان اور پھر مخلوق اور مخلوق کے مابین کیا تعلقات ہیں ؟

اسلامی تا ریخ سے ناواقفیت اور نوجوان

اپنی تہذیب و تاریخ اور علمی ورثہ سے مانوس و باخبر رہنا اشد ضروری ہے ۔ جو قوم اپنی تاریخ اور علمی ورثے سے غفلت برتتی ہے۔ تو وہ صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے یا مٹادی جاتی ہے۔ اپنی تاریخ سے ناآشنا ہوکر کوئی بھی قوم یا ملت بہتر مستقبل اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتی ۔ اس وقت اُمت مسلمہ کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا یہ اہم سر مایہ اپنی تاریخ سے بالکل نابلد ہے ۔ ملت کے نوجوانوں کو اسلامی فتوحات کا کچھ علم نہیں۔ خلفاے راشدین کے کارناموں سے کوئی واقفیت نہیں ۔ وہ رسولؐ کے جانباز ساتھیوں کی زندگیوں سے کو سوں دُور ہیں ۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ امام غزالی، ابن خلدون ،ابن تیمیہ جیسی نامور شخصیات کون تھیں؟ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ سید قطبؒ ، حسن البناؒ اور سید مودودیؒ نے کیا کیا خدمات انجام دیں ۔ملت کے اس طبقے کو اسلام کے سرمایۂ علم اور تاریخ سے جوڑنا وقت کی اہم ترین پکار ہے ۔

گلوبلائزیشن کے اثرات اور نوجوان

عالم کاری(Globalization) کے ذریعے مغرب پوری دنیا میں آزاد تجارتی منڈی قائم کر چکاہے جس کے نتیجے میں سیکولرزم اور الحادی نظریات کی تخم ریزی ہو رہی ہے۔ عالم کاری ایک ایسا رجحان ہے کہ مغرب اس کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں آزاد معیشت اور تجارتی منڈی کو فروغ دے رہا ہے ۔ گلیمر کی اس دنیا میں اہلِ مغرب اپنی تہذیب کے اثرات بھی تیزی کے ساتھ مرتب کررہے ہیں ۔ا س تہذ یب کی ظاہری چمک دمک نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے حالانکہ یہ تہذیب اقبال کے الفاظ میں :

فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید

ضمیرِپاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف

عالم کاری کے ذریعے سے مغرب جن چار چیزوں کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کے لیے مصروف عمل ہے وہ یہ ہیں : تہذیب، ٹکنالوجی، معیشت،جمہوریت اور اس کے علاوہ سرمایہ داروں اور ایم این سیز (Multi National Companies)کو بھی خوب پذیرائی مل رہی ہے ۔ ان سبھی اداروں نے سب سے زیادہ جس طبقے کو اپنی گرفت میں کر رکھا ہے وہ نوجوان طبقہ ہے ۔

مسلم نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام عالم گیر نظام زندگی ہے، یہ خالق کائنات نے انسان کے لیے بنایا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنا تعارف قرآن مجید میں رب العالمین سے اور اپنے رسولؐ کا تعارف رحمۃللعالمین سے کراتا ہے،اور قرآن پاک کو ھُدًی لِّلنَّاسِ کہتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تہذیب ایسی تہذیب ہے جس میں متبادل ہونے کی صفات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ بقول اقبال ؂

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

موجودیت ‏دور ‏میں ‏مساجد ‏میں ‏خواتین ‏کی ‏امد ‏حقائق ‏اور ‏خدشات


خواتین نصف آبادی ہیں۔قرن اول میں خواتین سماجی کاموں میں ایکٹیو رہی ہیں ،لیکن بدقسمتی سے عصر حاضر میں ان کا رول بہت ہی کم دیکھنے کو مل رہا ہے۔خواتین کی مسجد میں آمد پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن عام طور پر اس موضوع پر جو کتابیں لکھی جاتی ہیں؛ وہ فقہی نوعیت کی ہوتی ہیں۔اس کے برعکس 32صفحات کی زیر تبصرہ کتاب ’’مساجد میں خواتین کی آمد(ایک تاریخی و فقہی مطالعہ)‘‘ نصف انسانیت کی عمومی اصلاح کی غرض سے لکھی گئی ہے،اگرچہ کتابچہ کو دو حصوں، فقہی اور تاریخی میں تقسیم کیا گیا ہے، لیکن بنیادی مقصد نصف انسانیت کی اصلاح ہے۔کتاب کے مصنف علمی گھرانے کے چشم و چراغ مولانا الیاس نعمانی ہیں۔کتابچہ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
’’یہ ایک ایسے مسئلہ سے اعتنا ہے جس پر راقم کے نزدیک امت کے اس آدھے حصہ (خواتین) کی عمومی اصلاح و تربیت کا بڑی حد تک مدار ہے؛ جس کی آغوش میں امت کا مستقبل یعنی نسل نو کو پروان چڑھنا ہے۔‘‘ (صفحہ : 5)
پہلے باب ’’مساجد اور خواتین (عہد نبوی سے اب تک کا ایک تاریخی مطالعہ)‘‘میں مصنف نے امت مسلمہ میں مسجد کی اہمیت اور حیثیت بیان کی ہے کہ مسجد تعلیم گاہ بھی ہے اور تربیت و تزکیہ کا مرکز بھی، جہاں مختلف محفلیں لگتی ہیں، یعنی ایک بستی کی زندگی مسجد ہے۔ پھر مصنف نے دکھایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خواتین کس طرح مساجد میں اچھی خاصی تعداد میں شرکت کرتی تھیں۔اس کا ثبوت مسلم شریف کی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں خواتین کی کئی صفیں مسجد نبوی میں نماز ادا کرتیں۔مصنف لکھتے ہیں:
’’خیال رہے کہ یہ صفیںخاصی لمبی ہوتی تھیں، اس لیے کہ مسجد نبوی کی اولین تعمیر کے وقت ہی مسجد کی چوڑائی تیس میٹر تھی، اور غزوہ خیبر کے بعد جب مسجد کی توسیع ہوئی تو مسجد کی چوڑائی پچاس میٹر ہوگئی۔ایک میٹر میں بسہولت دو خواتین نماز کے لئے کھڑی ہوتیں، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نماز باجماعت میں خواتین کی کتنی تعداد شریک ہوتی تھی۔‘‘ (صفحہ : 9)
بلکہ بخاری شریف کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین رات کی نفل نمازیں بھی دیر تک مسجد میں پڑھتی تھیں ، اسی طرح ابن ماجہ کی روایت میں ایک سیاہ فام خاتون کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو مسجد نبوی میں جھاڑو لگاتی تھیں، مصنف لکھتے ہیں کہ دور نبوی میں بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کواپنی خواتین کو مساجد میں بھیجنے میں تردد تھا، لیکن نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تعلیمات تھیں کہ ’’اللہ کی بندیوں کو مسجد آنے سے نہ روکو۔‘‘ لہذا کوئی بھی صحابی اپنے اہل خانہ کو مسجد آنے سے نہیں روکتا تھا، یہ وہ دور تھا جب کفار اور منافقین مسلمانوں کو تنگ کرتے، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کا مساجد جانا جاری رکھا، اس کے بعد مصنف طبقات ابن سعد، مسند احمد کی روایات سے ثابت کرتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے دور میں بھی خواتین مساجد جاتیں، اس سلسلے میں مصنف اس بات کا جائزہ لیتے ہیں جو بات بہت مشہور ہوگئ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں خواتین کو مسجد آنے سے روکا گیا، مصنف لکھتے ہیں کہ جس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نماز کی امامت کراتے ہوئے مسند احمد کے حوالے سے حملہ کیا گیا اس وقت ان کی اہلیہ مسجد میں ہی نماز ادا کر رہی تھیں۔مسند احمد کی صحیح حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حیات طیبہ میں جو آخری نماز مسجد نبوی میں ادا فرمائی تھی، جس میں ان پر جان لیوا حملہ ہوا تھا؛ اس نماز میں بھی ان کی اہلیہ مسجد میں موجود تھیں۔ظاہر ہے اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالی ٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں خواتین کی مسجد آمد پر پابندی لگا دی ہوتی تو ان کی آخری باجماعت نماز میں ان کی اہلیہ مسجد میں کیسے موجود ہوتیں۔‘‘(صفحہ : 11)
صحیح مسلم کی ایک روایت جس کا تعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھرانے سے ہے؛ مصنف لکھتے ہیں:
’’ایک اور روایت بھی ( جس کا تعلق بھی حضرت عمر فاروقؓ کے ہی گھرانے سے ہے ۔) یہ ثابت کرتی ہے کہ خواتین کی مسجد حاضری پر کوئی ممانعت نہیں کی گئی تھی ، یہ روایت صحیح مسلم ودیگر کتب حدیث میں درج ہوئی ہیں ، اس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث نبوی نقل کی کہ: ’’اگر تمھاری خواتین مساجد میں حاضری کی اجازت تم سے چاہیں تو انہیںمنع نہ کرنا ، یہ سن کر ان کے صاحبزادے حضرت بلال بن عبداللہ نے عرض کیا کہ ’’بخدا ہم تو روکیں گے۔‘‘حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے اپنے بیٹے کی زبان سے یہ بات سنی تو ان پر ایسی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ان کے ایک اور صاحبزادے حضرت سالم کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد کوایسے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کبھی اور نہیں سنا، پھر فرمایا: ’’میں تمہیں رسول اللہﷺ کا کاارشاد سناتا ہوں اور تم کہتے ہو کہ بخدا ہم تو روکیں گے۔‘‘اسی حدیث کی مسند احمد کی روایت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے ان صاحبزادے سے ایسے ناراض ہوئے کہ پھر وفات تک ان سے گفتگو نہیں فرمائی ۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں بتاتی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں خواتین کی مسجد حاضری پر پابندی نہیں لگائی تھی ، اس لیے کہ اگر یہ پابندی لگ گئی ہوتی تو کبھی بھی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور ان کے صاحبزادے کے درمیان یہ گفتگو نہ ہوئی ہوتی ، اور نہ آپ اپنے صاحب زادے پر اس طرح خفا ہوئے ہوتے ۔ حضرت عمر ؓکی جانب اس پابندی کی نسبت کے غلط ہونے کا ایک اور ثبوت عہد عثمانی میں تراویح کی نماز میں خواتین کی حاضری بھی ہے۔(صفحہ : 12)
بہر حال ان تمام دلائل وروایات سے یہ بات بالکل ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب خواتین کی مسجد آمد پر پابندی لگائے جانے کی نسبت بالکل غلط ہے ۔ حیرت ہے ان روایات کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ بات پھیلائی جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں خواتین کے مساجد پر پابندی لگائی گئی، اس باب میں مصنف نے خلافت راشدہ کے بعد کئی محدثات کا تذکرہ کیا ہے ،جو مساجد میں حدیث کا درس دیا کرتی تھیں، اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کی مسجد آمد کا سلسلہ عہد نبوی کے بعد بھی جاری رہا، یہ سلسلہ آج تک عالم اسلام کے اکثر حصہ میں جاری ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب سے اس کو ممنوع قرار دیے جانے کی جو بات ہمارےیہاں شہرت پا گئی ہے، بےدلیل و بے بنیاد ہے۔
کتاب کے دوسرے باب میں مصنف نے مساجد میں خواتین کی آمد کےشرعی حکم کے بارے میں مختصر مگر جامع بحث کی ہے۔مصنف کہتے ہیں کہ فقہائے اسلام کی اکثریت چند شرطوں کے ساتھ مساجد میں خواتین کو اجازت دیتی ہے، البتہ احناف کے یہاں اس سلسلے میں دو رائیں پائی جاتی ہیں۔متقدمین کے بعض اقوال اس کو جائز قرار دیتے ہیں، مثلاً امام سرخسیؒ نے اپنی کتاب المبسوط میں امام ابوحنیفہ ؒکے حوالے سے خواتین کے لیے مسجد میں اعتکاف جائز کہا ہے، مصنف نے اعتراض کرنے والوں کے ہر اعتراض کا تشفی بخش جواب دیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ دیگر فقہا کی مانند متقدم فقہائے احناف بھی اس کو جائز مانتے تھے۔ آج بھی ترکی ، مصر و عراق جیسے ممالک میں علمائے احناف خواتین کو مسجد آنے سے نہیں روکتے۔ ہمارے اصحاب افتاءخواتین کے لیے مسجد حاضری کو ممنوع ( مکروہ تحریمی ) قرار دیتے ہیں، اس فتوے کی بنیاد صر ف ’’فتنےکا اندیشہ ‘‘ہے۔اس سلسلے میں مصنف نے فتنہ کے اندیشہ کو کم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چار تدابیر کی ہیں؛ ان کو بیان کیا ہے۔اس باب میں مصنف لکھتے ہیں؛ کیا یہ جو فتنہ کا اندیشہ کہا جاتا ہے،کیا یہ واقعی اتنا شدید فتنہ ہے؟ لکھتے ہیں:
’’ہمارے ملک میں سیکڑوں بلکہ شاید ہزاروں مساجد میں خواتین حاضر ہوتی ہیں، پورے عالم اسلام میں ایسی بلامبالغہ لاکھوں مساجد ہوں گی لیکن وہاں اس طرح کا فتنہ نظر نہیں آتا۔‘‘ (صفحہ : 20)
خانۂ کعبہ اور مسجد نبوی میں خواتین حاضر ہوتی ہیں،وہاں کوئی فتنہ نہیں ہوتا۔مصنف مزید لکھتے ہیں کہ:
’’ گذشتہ چند دہائیوں میں ہمارے یہاں طالبات کے مدارس بڑی تعداد میں قائم ہوئے ہیں ،جن میں بلا مبالغہ روزانہ لاکھوں طالبات تعلیم حاصل کرتی ہیں اور ہزاروں مدرسات پڑھاتی ہیں لیکن اس قدر فتنہ کہیں نظر نہیں آتا۔‘‘(صفحہ : 20)
اسی طرح دینی جلسوں،دروس قرآن میں خواتین آتی ہیں لیکن فتنہ نہیں ہوتا، مصنف لکھتے ہیں:
’’فتنہ کی جس’’شدید نوعیت‘‘کی بنیاد پر خواتین کی مسجد حاضری کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے، وہ ہمیں حقیقت واقعہ میں کہیں نظر نہیں آتی بلکہ ایک موہوم شے ہے۔‘‘ (صفحہ : 20)
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواتین کی مسجد حاضری ضروری نہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ خواتین مسجد آئیں، کتاب کے تیسرے باب میں مصنف نے اسی مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے۔لکھتے ہیں:
’’اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسجد صرف عبادت گاہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بہترین تعلیم گاہ، تربیت کدہ اور دعوتی مرکز ہے، اس میں نہ آنا اصلاح، تعلیم وتربیت کے بے بدل نظام سے محرومی ہے، ہمارے آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی مسجدیں اپنا یہ کردار ادا کرتی ہیں، آپ کو مسجد میں جتنے حضرات نماز کے پابند نظر آتے ہیں ان سے دریافت کیجیے کہ نماز اور دیگر دینی احکام کی پابندی کا یہ ذوق ان کے اندر کہاں سے پیدا ہوا؟ دین داری کا یہ رجحان ان کے اندر کیسے پنپا؟ اکثریت کا جواب آپ کو مسجد کے اس کردار کا پتہ دے گا، وہ مسجد کے ماحول اور اس میں ہونے والے بیانات کا تذکرہ کریں گے۔‘‘(صفحہ : 22)
مصنف مزید لکھتے ہیں:
’’ مسجد کے اس ’’خیر‘‘سے استفادہ مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے کتنا ضروری اور مفید ہے اس کا اندازہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہدایت سے ہوتا ہے، عید کی نمازوں میں خواتین کی شرکت کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تاکید کے ساتھ دیتے تھے، ایک صحابیہ نے غالباً اسی مؤکد حکم کی وجہ سے دریافت کیا کہ اگر کسی خاتون کے پاس جلباب (اوڑھنی) نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عید کی نماز میں شرکت نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ تو نہ ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی اور خاتون اسے جلباب دے دے، اور وہ اس موقع کے ’’خیر‘‘ اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو۔(بخاری:324)‘‘(صفحہ : 24)
اس باب میں مصنف امت مسلمہ کی توجہ اس طرف دلاتے ہیں کہ عمومی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کا رخ مسجد کی طرف ہو وہ دینی معاملات میں ایکٹیو حصہ لیں، لکھتے ہیں:
’’ مردوں کی طرح خواتین کی عمومی دینی اصلاح کے لیے بھی مسجد کا وجود اور وہاں ان کی حاضری لازمی وضروری ہے، اس کا کوئی قابل عمل متبادل نہیں ہے۔‘‘مصنف ان حضرات کو جواب دیتے ہیں جو کہتے ہیں کہ خواتین کے لیے مسجد کے علاوہ بھی کہیں ایسی مجلسیں منعقد ہو سکتی ہیں جیسے کوئی گھر وغیرہ۔
-1جس طرح مردوں کے لیے کوئی اور مقام مسجد کا کامیاب وعملی طور پر آسان متبادل نہیں ہوسکتا اسی طرح خواتین کے لیے بھی نہیں ہوسکتا،
تجر بہ اس کا شاہد ہے۔
-2 کیا آپ کو جس فتنہ کا ڈرمسجد میں خواتین کی آمد سے لگ رہا ہے، وہ کسی اور مقام پر جانے سے مانع نہ ہوگا ؟ یہ کیسا فتنہ ہے جو مدارس و اسکولوں میں جانے سے مانع نہیں ہوتا؟ کسی پڑوسی کے گھر میں جانے سے نہیں روکتا؟ کسی دینی جلسہ اور درس کے حلقہ سے باز نہیں رکھتا ، بس مسجد کا نام آتے ہی ہمیں اس کی موہوم شدید نوعیت کا احساس ہونے لگتا ہے۔‘‘(صفحہ : 25)
زیرِ تبصرہ کتاب میں کہیں بھی مناظرانہ طریقۂ کار نہیں اپنایا گیا ہے بلکہ یہ دل کی پکار لگتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف اصلاح معاشرہ کے تئیں بہت فکر مند ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ تعمیر معاشرہ میں خواتین نہایت ہی اہم رول ادا کر سکتی ہیں۔
یہ کتاب وقت کی اہم ضرورت ہے، اللہ کرےکہ یہ کتابچہ امت مسلمہ کو اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلانے میں اہم رول ادا کرے۔کتاب مکتبہ احان، لکھنؤ نے شائع کی ہے۔کتابچہ کی قیمت 30 روپے ہے۔فون نمبر
9793118234 سے حاصل کیاجا سکتا ہے۔

حضرت ‏ٹیپو ‏سلطان ‏اور ‏مذہبی ‏رواداریاں

سلطان ٹیپوؒ اور مذہبی رواداریاں  
سرزمین ِہند کی پر امن فضاؤں میں آزاد نہ سانس لیتے ہوئے دورِفرنگی کا تذکرہ چھڑتا رہتاہے، اور مجاہدینِ وطن و شہدائے چمن کی قربانیوں کی یاد دہانیوں اور مدح سرائیوں کی مجلسیں جمتی رہتی ہیں ۔ یہ مجلسیں اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتیں؛ جب تک کہ ٹیپو سلطان کا تذکرہ نہ ہو۔
یہ سچ ہے کہ سلطان جنگ ِآزادی کے سرخیل تھے؛لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی خوبیاں ان میں موجود تھیں جن سے لوگ ناآشناہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ سلطان کو ایک متعصب اور ہندو دشمن ظالم حکمراں کی حیثیت سے پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں؛ حالانکہ حقیقت بالکل برعکس ہے۔غلط فہمیاں تو انگریز موٴرخین نے من گھڑت اور جھوٹی باتیں لکھ کر پھیلائی تھیں۔ ان کے جھوٹ کا اندازہ کرنے کے لیے صرف یہی ایک مثال کافی ہوگی : ایک انگریز موٴرخ نے لکھا ہے کہ: ٹیپوسلطان نے صرف ”کورگ“ شہر میں ستر ہزار لوگوں کو قبولِ اسلام پر مجبور کیا تھا؛حالانکہ عہدِ ٹیپو میں سرزمینِ”کورگ“ فقط پچیس سے تیس ہزار کی آبادی پر مشتمل تھی۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۲)
مندروں پر عنایات
ٹیپوسلطان نے مسجدوں اور مندروں کے درمیان کبھی کوئی امتیاز روا نہیں رکھا،جس طرح مسجدوں پر سلطان کی نظریں رہیں، اسی طرح مندروں پر بھی ان کی عنایات رہیں ،جن کا اندازہ درج ذیل چند مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے :
تعلقہٴ ننجن گڑھ کے کلالے نامی گاوٴں میں واقع لکشمی کانتھ مندر میں چاندی کے چار پیالے، ایک پلیٹ اور ایک اگالدان اب بھی دیکھا جاسکتا ہے،جو ٹیپوسلطان شہید نے اس مندر کو بطور نذرانہ دیا تھا۔
 خود سری ر نگاپٹنم کے رنگناتھ مندرکو سلطان نے ایک کافور دان اور چاندی کے سات پیالے دیے تھے اور یہ چیزیں آج تک اس مندر میں موجود ہیں۔ مقدم الذکر شہر کے ایک اور مندر سرکینشور کو ایک مرصع پیالہ -جس کے نچلے حصے میں پانچ قیمتی جوہرات جڑے ہوئے تھے- عطا کیااور نارائن سوامی مندر کو قیمتی جواہرات سے آراستہ بہت سے برتن ،ایک نقارہ اور بارہ ہاتھی عنایت کیے تھے ۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۸)
مندروں کی حفاظت
سلطان مندروں پر فقط خزانے لٹا کر عہدہ برآنہ ہوئے؛بلکہ مشکل اوقات میں کئی مندروں کی حفاظت بھی کی ہے۔ڈنڈیگل تعلقہ پر حملہ کرتے ہوئے سلطان نے اس کے عقبی حصہ سے گولہ باری کروائی تھی جس کامقصد صرف یہ تھا کہ راجہ کا وہ مندر حملوں کی زد میں نہ آنے پائے جو قلعہ کے اگلے حصہ میں واقع تھا۔
 ملیبار میں گروایوار پر قبضہ کے دوران وہاں کے ایک مندر کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کرنے والے کچھ مسلمان سپاہیوں کو سلطان نے سزائیں بھی دلوائیں اور اسی وقت مندر کی مرمت بھی کروائی ۔
کانجی ورم کے اُس مندر کی تکمیل کے لیے (جس کی بنا ۱۷۸۰ء میں سلطان حیدر علی نے رکھی تھی؛مگر تکمیل نہ ہوسکی تھی )سلطان نے دس ہزار روپیہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس موقع پر ہونے والی آتش بازیوں کے مصارف بھی خود برداشت کیے تھے۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۸)
مندروں اور سوامیوں کا احترام 
جب رگھورناتھ راوٴ کی قیادت میں مرہٹہ در اندازوں اور فتنہ پردازوں نے سرنگیر کے ایک مندر پر حملہ کیا ،بیش قیمت املاک لوٹ کر لے گئے اور سارہ دیوی نامی مورتی کو باہر پھینک دیا جس کے نتیجہ میں مندر کے سوامی اور متولی شنکر گرواچاریہ فرار ہوکر شہر کارکل میں پناہ گزیں ہوئے اورسلطان سے حالات کی شکایت کی ، تو سلطان نے جواباًایک خط سوامی کے نام ارسال کیا جس میں آپ نے اس قدر احترام کے ساتھ سوامی کو تسلی دی کہ خلاف ِمعمول گروجی کے نام کو اپنے نام پر مقدم کیا اور اسی پربس نہیں؛ بلکہ ان کواپنے زیر قبضہ دیہاتوں میں سے کسی بھی چیز کے لینے کا اختیار دیا ،نیز اس علاقہ کے گورنر سے دو سو اشرفیاں مع غلہ دالوئیں اور سارہ دیوی کو احترام کے ساتھ اس کی جگہ نصب کرواکر اس تقریب کے موقع پر ایک ہزار فقراکو کھاناکھلوایا۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۵)
ہندو عہدیداربڑے عہدوں پر
سلطان ہندووٴں کو فقط دورہی سے نوازتے نہیں رہے؛ بلکہ انھیں بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز کررکھا تھا۔سلطنت ِخداداد کا وزیرِ خزانہ ہندو برہمن ”پورنیا“تھا ۔یہی ”پورنیا“ باعتبار اختیارات کے وزیر اعظم میر صادق کے بعدسلطان کا نائب ِدوم بھی تھا۔
سلطان کا ذاتی منشی اورمعتمد ِخاص ”لالہ مہتاب رائے سبقت “نامی ایک ہندوبرہمن تھا ،جومیدانِ جنگ میں بھی شاہی کیمپ میں رہتا تھااور اخیر تک سلطان کا وفادار رہا۔
میسور کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ہری سنگھ تھا،جس کابھائی بھی باوجودہندو ہونے کے حکومت کا ایک بڑا عہدیدار تھا ۔کورگ کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ایک برہمن تھا ۔علاوہ ازیں تین ہزار کی ایک فوج سردار سیواجی کی کمان میں رہتی تھی ۔ اسی طرح اور بھی کئی مناصب ِعلیا پر غیر مسلموں کو فائز کررکھاتھا۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۴)
ہندو اورمسلم کے حقوق میں مساوات 
سلطان ٹیپو نے جس طرح عبادت گاہوں میں برابری اور مساوات کا معاملہ کیا ،اسی طرح انسانی حقوق میں بھی بلا تفریق ہندو ومسلم کے مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال قائم کی ۔جہاں انہوں نے کرشناراوٴ اور اس کے بھائیوں کو غداری کی سزا میں تختہٴ دار پر لٹکا یا، وہیں محمد قاسم اور عثمان خان کشمیری کو بھی موت کے گھاٹ اتار ا۔جہاں سلطان نے عیسائی غداروں اور نمک حراموں کے پیشوااور قائدین کو موت کی سزا دی، وہیں ان مسلمان عورتوں کو بھی قتل کیا جنہوں نے انگریز سپاہیوں کے ساتھ بدکاری کی تھی۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۳)
 اہل السنة والجماعة سے عقائد میں بنیادی فرق کی بنا پرمہدوی فرقہ کو سلطان غیر مسلم ہی گمان کرتے تھے،نیز یہ لوگ سلطنت ِخدادادکے لیے آستین کے سانپ تھے، ان میں سے بھی بہتیرے لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کر رکھا تھا۔ جب ان کی انگریزوں کی خفیہ حمایت پر ایک مدت ِدراز گذر گئی اور ذکر بالجہر کا وہ خاص غیر شرعی طریقہ- جس کے یہ لوگ قائل تھے -پوری پوری رات اڑوس پڑوس کے لوگوں کی تکلیف کا باعث بننے لگا، اور برملا حکم عدولیاں کرنے لگے، تو سلطان نے ان کو جلا وطن کردیا۔
عیسائیوں کے ساتھ سلطان کا سلوک 
عیسائیوں کے ساتھ بھی سلطان کا رویہ کچھ مختلف نہ تھا۔ سلطان نے کئی فرانسیسی عیسائیوں کواپنی سلطنت میں عہدے سپرد کررکھے تھے۔ آرمینیہ کے عیسائی تاجروں کو بھی اپنے ملک میں آکر تجارت کرنے کی اجازت ہی نہیں؛ بلکہ ان کی مالی پشت پناہی بھی کی۔ گُو اسے تارکین ِوطن عیسائیوں کو دوبارہ اپنی سلطنت میں لاکر بسایا ۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۴۵)
رعایاکے دل میں سلطان کی عقیدت ومحبت 
رعایا میں سلطان ٹیپوکی عقیدت اس قدر تھی کہ ہندومذہب کے دوفرقوں واڈگلائی اور ٹنکالائی کے درمیان اختلاف ہونے پر خودہندووٴں نے سلطان کو اپنا حکَم اور ثالث بنایا تھا ۔بھلا اگر سلطان ظالم اور ہندو دشمن ہوتے تو یہ صورت ِحال کیوں کرممکن ہوتی؟
سلطان کی مذہبی رواداری ہی تو تھی جس نے رعایاکے سینوں میں عقیدت و محبت کے وہ شمع فروزاں کیے تھے جنہیں دیکھ کر انگریز بھی ششدر تھے۔سلطان نے جس جگہ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اسی جگہ سلطان کے سیکڑوں فدائین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ،جن میں عورتیں بھی تھیں اور جوان لڑکیاں بھی۔جب سلطان کا جنازہ اٹھایاجانے لگا تو راہ میں ہندو عورتیں ماتم کرتے ہوئے اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں ۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۴۳)
اسی لیے ظفر علی خان نے کہا تھا:
قوتِ با ز و ئے ا سلا م تھی اس کی صولت
اس کی دولت کے دعا گوؤں میں شامل تھے ہنود
سلطان کی مذہبی رواداری اور بلا تفریق ِمذہب رعایا سے حسن ِسلوک ملاحظہ فرمائیں اور دوسری طرف ہندوفرقہ پرستوں کے منہ سے نکلا ہوا زہر دیکھیے،تاریخ کے مسخ کرنے اور اسے مٹانے کی زندہ مثال آپ کو واضح طورپر سمجھ میں آجائے گی۔جولوگ تحمل مزاجی اور برداشت کی دولت سے محروم ہیں،اور جو تعصب کے ناپاک نالے کے گندے کیڑے ہیں، جو سانپ وبچھو کی طرح ہمیشہ زہر اگلتے رہتے ہیں،وہ کہہ رہے ہیں کہ سلطان ہندو کُش اورمتعصب ظالم حکمران تھا۔کاش ایک نظر اپنے دامن پر بھی ڈال دی ہوتی!
ع دامن تو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
افسوس اس پربھی ہے کہ سر زمین ِہند کے اس عظیم سپوت کے حالات ِزندگی اور اس کے قابل ِرشک کارنامے باشندگانِ ملک تک صحیح معنوں میں پہنچائے نہیں گئے ہیں، ورنہ ممکن نہ تھا کہ سلطان کومتعصب اور ہندو دشمن ظالم حکمران کہا جاتا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی رواداری،غیرمسلموں کی خوشی وغم میں شریک ہونے اور ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنے میں سلطان اس قدر آگے نکل گئے تھے کہ بعض مواقع پر فقہی اعتبار سے اس پر بحث بھی کی جاسکتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ خود مسلمانانِ ہنداپنے سلاطین وحکمرانوں کے کارناموں اور ان کی عدل پروری کی داستانوں سے ناواقف ہیں۔اگر ٹیپو سلطان کے مسئلہ میں سنجیدگی اختیار نہ کی گئی اور اسے پڑھااورپڑھایا نہ گیاتو وہ دن دور نہیں جب ٹیپو سلطان جیسا عادل حکمران بھی ظالم سمجھا جانے لگے گا اورمسلمانِ ہند وکیلِ صفائی بن کر وضاحتیں دے رہے ہونگے؛لیکن اس وقت تک پانی سر سے اوپرہو چکا ہوگا!

قبر میں واحد سہارا


اﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﭘﮭﭩﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﻣﻮﺯﮮ ﭘﮩﻨﺎ ﺩﯾﻨﺎ، ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺟﺎﺋﮯ۔

ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﻣﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻏﺴﻞ ﻭ ﮐﻔﻦ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﺴﺐ ﻭﻋﺪﮦ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﻋﺎﻟﻢ ﺩﯾﻦ ﻧﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ کہ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮐﻔﻦ ﭘﮩﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﯿﺎ جس کی ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﻋﻠﻤﺎ ﺷﮩﺮ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﻧﮑﻞ ﺳﮑﮯ۔

ﻣﮕﺮ ﮨﻮﻧﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﻔﻈﯽ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﮔﺌﯽ، ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻭﺍﺭﺩ ﻣﺠﻠﺲ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺧﻂ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﯾﺎ جس میں ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﯾﻮﮞ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺗﮭﯽ کہ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ، ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ ﮐﺜﯿﺮ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺩﻭﻟﺖ، ﺟﺎﮦ ﻭ ﺣﺸﻢ، ﺑﺎﻏﺎﺕ، ﮔﺎﮌﯼ، ﮐﺎﺭﺧﺎﻧﮧ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻣﮑﺎﻧﺎﺕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﻣﻮﺯﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﺟﺎ ﺳﮑﻮﮞ۔

ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺕ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ، ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮐﻔﻦ ﮨﯽ ﻟﯿﮑﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﻟﮩﺬﺍ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺩﻭﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﺭﺛﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻔﺎﺩﮦ ﮐﺮﻧﺎ، ﻧﯿﮏ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﭺ ﮐﺮﻧﺎ، ﺳﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺑﻨﻨﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﻮ ﻭﺍﺣﺪ ﭼﯿﺰ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮨﻮﻧﮕﮯ....

التماسِ دعا:
اَللّٰهُمَّ صَلِ٘ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَّمَدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد۔ 
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّد ٍوَّعَلٰی آلِ مُحَّمَدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد۔

پاکستان کے سب سے بڑے ناول نگار اور "اداس نسلیں " کے مصنف کا جنازہ ‏۔ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ ‏ہمارے ‏لئے ‏قابل ‏عبرت

پاکستان کے سب سے بڑے ناول نگار اور "اداس نسلیں " کے مصنف کا جنازہ 

جنازے میں صرف پچاس ساٹھ لوگ تھے، سلام پھیرا گیا، مولوی صاحب نے دعا کرائی اور لوگوں نے تعزیت کے لیے لواحقین کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا، 

مرحوم کا ایک ہی بیٹا تھا، وہ لندن میں تھا، وہ وقت پر پاکستان نہ پہنچ سکا چنانچہ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس سے پرسا کیا جا سکتا، لوگوں نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر گرمی کی وجہ سے ایک ایک کر کے چھٹنے لگے، 

تدفین کا وقت آیا تو قبرستان میں صرف چھ لوگ تھے، مستنصر حسین تارڑ، یہ مرحوم کے عزیز ترین دوست تھے۔ یہ وہاں موجود تھے، دوسرا شخص مرحوم کا پبلشر تھا، یہ پچھلی دو دہائیوں سے ان کی کتابیں چھاپ رہا تھا لہٰذا یہ بھی وہاں رک گیا اور باقی چار لوگ گھریلو ملازم تھے، یہ آخری وقت تک صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے، 

میت قبر میں رکھی گئی، گورکن نے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور یوں ملک کے سب سے بڑے ادیب، بڑے ناول نگار کا سفر حیات اختتام پذیر ہو گیا، ایک کہانی تھی جو4 جولائی 2015ء کو ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں دفن ہو گئی۔

یہ کون تھا؟ یہ " عبداللہ حسین " تھے، 

وہ عبداللہ حسین جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں، پاکستان نے 68 سالوں میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک ناول نگار پیدا کیا اور وہ ناول نگار عبداللہ حسین تھے، 

عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، اصل نام محمد خان تھا،
1952ء انھوں نے قلم اٹھایا اور ’’اداس نسلوں‘‘ کے نام سے اردو زبان کا ماسٹر پیس تخلیق کر دی

’’اداس نسلیں‘‘ آج تک اردو کا شاندار ترین ناول ہے، یہ ناول عبداللہ حسین نے 32 سال کی عمر میں لکھا، صدر پاکستان ایوب خان نے انھیں 34 سا کی عمر میں ادب کا سب سے بڑا اعزاز ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ دیا 

یہ برطانیہ شفٹ ہو گئے، یہ 40 سال برطانیہ رہے، برطانیہ میں قیام کے دوران مزید دو ناول لکھے، دو ناولٹ بھی تخلیق کیے اوردرجنوں افسانے بھی لکھے، عبداللہ حسین نے ایک ناول انگریزی زبان میں بھی لکھا، یہ سارے افسانے، یہ سارے ناولٹ اور یہ سارے ناول ماسٹر پیس ہیں۔
یہ خون کے سرطان میں مبتلا تھے، بیماری سے لڑتے رہے یہاں تک کہ 4 جولائی 2015ء کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال فرما گئے، 

بیگم کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے، وہ برطانیہ میں ہی رہ گئیں، 
بیٹا لندن میں رہتا تھا، وہ جنازے پر نہ پہنچ سکا، عطاء الحق قاسمی نے احباب کو اطلاع دی، یوں پچاس ساٹھ لوگ ملک کے سب سے بڑے ادیب کی آخری رسومات میں شریک ہو گئے، یہ المیہ عبداللہ حسین کی موت کے المیے سے بھی بڑا المیہ تھا۔

ہم لوگ اس المیے سے دو سبق سیکھ سکتے ہیں، ایک سبق ہم عام لوگوں کے لیے ہے اور دوسرا ریاست کے لیے۔ ہم لوگ بہت بدقسمت ہیں، ہم کام، شہرت اور دولت کی دھن میں خاندان کو ہمیشہ پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، ہم کیریئر بناتے رہتے ہیں، شہرت سمیٹتے رہتے ہیں اور اس دوڑ کی دھوپ ہمارے خاندان کی موم کو پگھلاتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب زندگی کی شام ہوتی ہے تو ہمارے طاقوں میں پگھلی ہوئی موم کی چند یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا، 

میں  بے شمار ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے بچوں کے بچپن کو اس لیے انجوائے نہ کر سکے کہ یہ بچوں کے اعلیٰ مستقبل کے لیے سرمایہ جمع کر رہے تھے۔

بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے اپنی پوری جمع پونجی لگا کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھجوا دیا، بچے جہاں گئے وہ وہاں سے واپس نہ آئے اور یوں ان کے جنازے ملازمین ہی نے پڑھے اور ملازمین ہی نے انھیں دفن کیا، 

میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو پوری زندگی شہرت جمع کرتے کرتے مر گئے اور ان کے جنازے میں ان کا کوئی عزیز، رشتے دار اور دوست تھا اور نہ ہی وہ لوگ جو زندگی میں ان کے ہاتھ چومتے تھے اور اپنی ہتھیلیوں پر ان کے آٹو گراف لیتے تھے۔

میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو امن، انصاف، خوش حالی اور مطمئن زندگی کے لیے خاندان کو ملک سے باہر لے گئے، آخر میں خود واپس آ گئے، خاندان وہیں رہ گیا اور جب انتقال ہوا تو بچوں کو چھٹی ملی اور نہ ہی فلائیٹ.

اور میں ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جو زندگی میں غرور کا غ ہوتے تھے، جنھوں نے زندگی اقتدار کا الف اور شہرت کی ش بن کر گزاری لیکن جب یہ مرے تو دس دس سال تک کوئی ان کی قبر پر فاتحہ کے لیے نہ آیا، کسی نے ان کے سرہانے دیا تک نہ جلایا 

چنانچہ پہلا سبق یہ ہے، آپ اپنی اولاد، اپنے خاندن کو کبھی تعلیم، روزگار، کام، شہرت، اقتدار اور سیکیورٹی کے نام پر اپنے آپ سے اتنا دور نہ کریں کہ یہ آپ کے جنازے میں شریک نہ ہو سکیں اور آپ کی قبریں دس دس سال تک ان کے قدموں کو ترستی رہیں۔،آپ کو اپنے فکری زوال اور مغربی دنیا کے ذہنی عروج کی وجوہات معلوم ہو جائیں گی۔


تعلیم م،تراویح، اور ‏قران ‏کی ‏تعلیم ‏پر ‏اجرات ‏لینے ‏کے ‏جوازکا معقول ‏جواب ‏

انتہائی توجہ طلب 

 نکاح اور ولیمہ کی تقریب کے لیے شادی ہال رینٹ پہ لیے جاتے ہیں۔
نکاح ایک شرعی حکم ہے مگر شادی ہال کا مالک پھر بھی پیسے مانگتا ہے۔

حج اور عمرہ ایک عبادت اور شرعی حکم ہے مگر ایئر لائن کمپنیز اور ٹریول ایجنٹس پھر بھی پیسے مانگتے ہیں۔

ختنے کروانا ایک فطری و شرعی حکم ہے مگر ڈاکٹرز پھر بھی پیسے مانگتے ہیں۔

قربانی ایک شرعی فریضہ ہے مگر قصائی پھر بھی پیسے مانگتے ہیں۔

تعلیم ایک شرعی حکم ہے مگر ٹیچرز پھر بھی پیسے مانگتے ہیں۔

مسجد بنانا نیکی کا کام ہے مگر مستری و مزدور پھر بھی پیسے مانگتے ہیں۔

قرآن و حدیث کی اشاعت ایک اہم فریضہ ہے مگر پبلشرز پھر بھی قیمت مانگتے ہیں۔

تو نہ کسی کو ان کے تقوے پر شک ہوتا ہے ، نہ کوئی انہیں دنیا دار لالچی کہتا ہے ، نہ وہ دین فروش بنتے ہیں اور نہ ہی ریٹ فکس کرنے کو حرام کہا جاتا ہے۔

اور نماز پڑھانا
خطبۂ جمعہ
عیدین
تراویح 
درس و تقریر 
قرآن پڑھانا
یہ سب بھی شرعی احکام ہیں 
مگر مگر مگر 
جب امام ، خطیب ، مدرس ، یا مقرر ہر طرف سے مجبور ہو کر ، اپنے دل و ضمیر پر پتھر رکھتے ہوئے اس مہنگائی کے دور میں اپنی ضروریات کی وجہ سے تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کردے یا تنخواہ طے کر لے یا تنخواہ لیٹ ہونے پر اظہارِ ناراضگی کردے 
تو بس پھر 

وہ دنیا دار بن جاتا ہے
دین فروش کہلواتا ہے 
لالچی ہوتا ہے
تقوی سے خالی ہوتا ہے۔

اسلام کے شہزادو! 
صرف علماء کرام اور ائمۂ مساجد کے ساتھ ہی ہمارا دوہرا معیار کیوں ہے؟
حالانکہ مسجد خوبصورت ہو ، مزین ہو ، ہر سہولت اس میں ہو ، مگر امام و خطیب نہ ہو 
تو جانتے ہیں آپ!

وہ مسجد اصلاح کا مرکز نہیں بن سکتی
وہ تربیت گاہ نہیں کہلا سکتی
لوگ اس سے دین نہیں سیکھ سکتے 
امام کے بغیر مسجد میں بھی پڑھی ہوئی نماز ایک ہی شمار کی جائے گی
مگر مسجد کچی ہو یا کجھور کے پتوں سے بنی ہو مگر امام وخطیب موجود ہو تو 
امام کے ساتھ پڑھی ہوئی ایک نماز ، 27 نمازوں کے برابر اجر دلواتی ہے
وہ تربیت گاہ بھی بن جاتی ہے 
دین کا مرکز بھی کہلواتی ہے
اور اسلامی تعلیمات کا سر چشمہ ہوتی ہے
لیکن پھر بھی کچھ لوگوں کا نظریہ ہے مسجد میں ٹائل اور اے سی لگوانا ایسا صدقہ جاریہ ہے جو مسجد کے امام و خطیب پر خرچ کرنے سے افضل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون 
تو جناب عالی یہی سوچ ہے جس نے آج اسلام کا نام بدنام کر رکھا ہے
اس لیے اپنے علماء کرام اور ائمہ مساجد کی قدر کریں
انکی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھیں۔
اللہ پاک سمجھ عطا فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم