ر وقت نکاح کے تعلق سے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کے اقوال

*بر وقت نکاح کے تعلق سے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کے اقوال*

                    *نکاح*
اگر بارہ تیرہ سال میں بچے بچیاں بالغ ہو رہے ہیں اور 25 - 30 سال تک نکاح نہیں ہو رہا ہے تو یہ جنسی مریض بھی بنیں گے اور گناہ بھی کریں گے۔

                   *نکاح*
 وقت پہ نکاح اولاد کا حق ہے ، اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار کرتی ہے۔

                  *نکاح*
ہر غیر شادی شدہ جوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی طلب رکھتے ہیں اور یہ ایک فطری ضرورت ہے لہذا اپنے بالغ بچے بچیوں کے نکاح کا  بندوبست کریں۔

                  *نکاح*
بھوک پیاس کے بعد بالغ انسان کی تیسری اہم ضرورت جنسی تسکین ہے ، اور جب جائز ذریعہ نہ ہو تو بچہ / بچی گناہ اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

                  *نکاح*
بدقسمتی کی انتہا ، اسکول ، یونیورسٹیز میں بڑی بڑی لڑکیاں لڑکے بغیر نکاح علم حاصل کر رہے ہیں ، اور والدین کو نکاح کی پرواہ ہی نہیں۔

                  *نکاح*
انسان کی جنسی ضرورت کا واحد باعزت حل نکاح ہے ، اور  اگر نکاح نہیں تو زنا عام ہوگا یہ عام فہم نتیجہ ہے۔

                  *نکاح*
 اپنی بچیوں کے سروں پہ دوپٹہ ڈالنے کا مقصد تب پورا ہوگا جب ان کا نکاح وقت پہ ہوگا۔

                  *نکاح*
اللہ تعالی نے معاشرتی اعمال میں سے نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے۔

                  *نکاح*
نکاح انسانوں کا طریقہ ہے ، جانور بغیر نکاح کے رہتے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔

                  *نکاح*
والدین اپنی اولاد پہ رحم کریں اور وقت پہ نکاح کا بندوبست کریں۔

ہدایت : *یہ کوئی فحش پوسٹ نہیں ہے ایک درس ہے جو ہر والدین کی ضرورت ہے ، بےحیائی کو روکنے کا اور گناہوں سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کا ذریعہ ہے*

اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔

(جزاکم اللہ خیرا)
گروپ آؤ دین سیکھیں

ہندستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں

"گاہے گاہے باز خواں"
(ہندستان میں مسلمانوں کی 
موجودہ صورت حال اور حضرت 
تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں)
ملک کی ٓازادی میں علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا جو کردار رہا ہے وہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے۔آرایس ایس اور کٹر ہندو تنظیمیں لاکھ تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش کریں لیکن حق کے متلاشی کو اصل حقیقت تک رسائی ہو ہی جاتی ہے۔ملک کی آزادی کے آخری دور کی جدوجہد میں علمائے دیوبند کا نام سر فہرست ہے۔ان علماءمیں قائد کی حیثیت سے شیخ الھند مولانا محمودالحسن دیوبندی ؒ ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اورمولانا عبید اللہ سندھیؒ کا نام آتا ہے۔ان کی قیادت میں علماءو طلبائے دیوبند آزادی ہند کی تحریک چلا رہے تھے ۔ہندوستان کو آزادی تو مل گئی لیکن تقسیم کے ساتھ۔ یعنی پاکستان کے نام سے ایک علاحدہ ملک بھی وجود میں آگیا۔ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری ان ہی علماءکی رہی جنہوں نے بٹوارے کی مخالفت کی تھی۔ چنانچہ ہمیں صرف تصویر کا ایک رخ دکھایا گیا یعنی ہمیں صرف یہ بتایا کہ علمائے دیوبند ملک کے بٹوارے کے مخالف تھے۔ مسلمانوں کے لئے علاحدہ مملکت کا مطالبہ دیندار طبقے کی طرف سے نہیں کیا گیاتھا بلکہ یہ مطالبہ محمد علی جناح کا تھا جو ایک سیکولر آدمی تھے اور مذہب کا نام صرف اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے لیا کرتے تھے۔علماءنے جناح کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ افسوس صد افسوس کہ ہندستان کے مسلمانوں کو صرف آدھا سچ بتایا اور باقی آدھا سچ کسی سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جید علما دیوبند کا ایک بہت بڑا طبقہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں کانگریس سے بدظن تھا. کانگریس کو مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سمجھتا تھا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کٹر دشمن ہندوﺅں کا غلبہ تھا لیکن معلوم نہیں کہ کیوں اس تاریخی حقیقت کو ہندستانی مسلمانوں سے چھپایا گیا؟
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جمیعة علماء ہند کو بار بار متنبہ کیا کہ: ہندوﺅں پر بھروسہ کرنا غیردانشمندی ہے۔انگریزوں سے زیادہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں. برسراقتدار ہونے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناکچھ رعایت کا معاملہ کرتے ہیں لیکن اگر یہ ہندو برسراقتدار آگئے تو وہ مسلمانوں کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے.
خلافت کا معاملہ مسلمانوں کا ایک شرعی مسئلہ ہے لیکن تحریک خلافت کے دوران جو طریقہ کار اختیار کئے گئے نیز تحریک کو گاندھی کے ذریعے اچک لئے جانے کے سبب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تحریک سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔ چناں چہ ایک مجلس میں فرمایا کہ تدابیر کو کون منع کرتا ہے تدابیر کریں مگرحدود شرعیہ میں رہ کرچونکہ مسلمانوں نے تدابیر غیر شرعیہ کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا ہے تو اس صورت میں اول تو کامیابی مشکل ہے اگر ہو بھی گئی تو ہندوﺅں کو ہوگی اور اگر مسلمانوں کو ہوئی توہندو نما مسلمانوں کو ہوگی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ 278) 
 تحریک خلافت کے دوران ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کی غرض سے مسلمان بہت سی غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ماتھے پہ قشقے لگائے اور جئے کے کفریہ نعرے بلند کئے۔ ہندوﺅں کی ارتھی کو کندھے دیئے۔ مساجد میں کافروں کو بٹھاکر منبر رسول ﷺ کی بے حرمتی کی۔ رام لیلا کا انتظام کیا. ایک عالم دین نے انکشاف کیا کہ اگر ختم نبوت نہ ہوتی گاندھی مستحق نبوت تھا
 یہ تمام قابل اعتراض امور مولانا کو سخت ناپسند اور ناگوار گزرے. اس لئے آپ کے ملفوظات میں بار بار ان باتوں کی مذمت ملے گی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ109)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان لیڈروں نے گاندھی کے اقوال کو حجت بنا لیا ہے۔ وہ لیڈر اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ جوں ہی *گاندھی کے منھ سے کوئی بات نکلے اس کو فوراً قرآن و حدیث پر منطبق کردیا جائے.
 فرماتے ہیں:
 اس تحریک میں کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو کسی مسلمان یا عالم کی تجویز ہو، دیکھئے ہوم رول گاندھی کی تجویز ،بائیکاٹ گاندھی کی تجویز ،کھدر گاندھی کی تجویز، ہجرت کا مسئلہ گاندھی کی تجویز غرض کہ جملہ تجویزیں اس کی ہیں‘ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس نے جو کہا لبیک کہہ کر اس کے ساتھ ہوگئے‘ کچھ تو غیرت آنی چاہئے۔ ایسے بدفہموں نے اسلام کو سخت بدنام کیا ہے۔ سخت صدمہ ہے ‘سخت افسوس ہے‘ اس کی باتوں کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
(الافادات یومیہ جلد اول صفحہ 89-90)
اس سلسلے میں آپ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ سہارن پور میں ایک وعظ ہوا ۔ایک مقرر نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سوراج مل گیا تو ہندو اذان نہ ہونے دیں گے تو کیا بلا اذان نماز نہیں ہوسکتی۔ کہتے ہیں گائے کی قربانی بند کر دیں گے تو کیا بکرے کی قربانی نہیں ہوسکتی‘ کیا گائے کی قربانی واجب ہے۔
 یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرزفکر پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ:
اس مقرر کے بیان میں ایک بات باقی رہ گئی، اگر وہ یہ بھی کہہ دیتا تو جھگڑا ہی باقی نہ رہتا کہ اگر ہندوﺅں نے اسلام اور ایمان پر زندہ رہنے نہ دیا تو کیا بغیر اسلام اور ایمان کے زندہ نہ رہیں گے.
یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے دوست نما دشمن ہیں. (الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 86)
ہندو مسلم اتحاد کے جوش میں کچھ مسلمانوں نے مشہور متعصب ہندو لیڈر سردھانند (جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے خلاف شدھی کی تحریک چلائی) کو جامع مسجد دہلی میں لے جا کر اس کا وعظ کروایا.
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ وہ یہ حرکت کر کے منبر رسول ﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں.
 ۔تحریک خلافت کے دوران ہندوﺅں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنے لیڈروں کی جئے بولا کرتے تھے۔
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لفظ جئے چوں کہ شعار کفر ہے اس لئے مسلمانوں کا یہ فعل بھی شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض تھا۔
(الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 611 )
جو لوگ آپ کی تحریک خلافت میں عد م شمولیت پر اعتراض کرتے تھے آپ انہیں جواب دیتے کہ *اگر تمہاری موافقت کی جائے تو ایمان جائے ہے اس میں حدود شریعت کا تحفظ نہیں.
( الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 65)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہندو مسلمانوں کے اول درجہ دشمن تھے۔ آپ کے ملفوظات میں جہاں کہیں ہندوﺅں کا ذکر آیا ہے آپ نے ان کے لئے سخت ترین الفاظ استعمال کئے ہیں. مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات پر ہندوﺅں سے سخت گلہ شکوہ تھا کہ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑی اور وہ بھی اس میں برابر کے شریک تھے مگر جنگ آزادی کے خاتمے پر وہ نہ صرف انگریزوں سے مل گئے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کی مخبری کرکے انہیں پھانسی پر چڑھوادیا. 
۔اسی سلسلے میں فرمایا کہ:
”یہ قوم (ہندو) نہایت احسان فراموش ہے. مسلمانوں کو تو اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ انگریزوں کی خدمت کے صلے میں جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا وہ ظاہر ہے. دیکھو غدر سب کے مشورے سے شروع ہوا جو کچھ بھی ہوا مگر اس پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا. بڑے بڑے رئیس و نواب ان کی (ہندو) بدولت تختہ پر سوار ہوگئے پھر تحریک کانگریس میں مسلمان شامل ہوئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ اس کا صلہ شدھی کے مسئلے سے ادا ہوا۔ آئے دن کے واقعات اسی کے شاہد ہیں کہ ہر جگہ مسلمانوں کی جہاں آبادی مسلمانوں کی قلیل دیکھی پریشان کر دیا مگر ان باتوں کے ہوتے ہوئے بھی بعض بدفہم اور بے سمجھ ان کو دوست سمجھ کر ان کی بغلوں میں گھستے ہیں۔)
الا فاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (529)

اور ایک مجلس میں ہندوﺅں کے اس طرزعمل کے متعلق فرمایا کہ ہندوﺅں کی قوم عالی حوصلہ نہیں ان کے وعدے وعید کا اعتبار نہیں. انگریزوں سے اگر دشمنی کی بنا یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ہیں تو ہندو ان سے زیادہ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں.
(الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (493-494)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سگرچہ انگریزوں کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیتے تھے لیکن ہندوﺅں کے مسلم کش رویے کو دیکھتے ہوئے آپ اس قطعی نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندو انگریزوں سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں.
۔ایک مرتبہ فرمایا کہ:
گورے سانپ سے زیادہ زہریلا کالا سانپ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر گورے سانپ کو گھر سے نکال دیاجائے تو کالا تو ڈسنے کو موجود ہے اور جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا ہی مشکل ہے.
 الافاضات یومیہ جلد ششم صفحہ (197)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہندوﺅں کے اس وجہ سے مخالف تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ ایک مجلس میں فرمایا کہ 
بعض کفار پر تو مجھے بہت ہی غیض ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق سکھایا۔ شدھی کا مسئلہ اٹھایا. مسلمانوں کو عرب جانے کی آواز اٹھائی. قربانی گاﺅ پر انہوں نے اشتعال دیا. یہ لوگ مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں بلکہ ایمان ‘ جان و مال مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔
(الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 150)

۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ:
جب تک ہم کلمہ پڑھتے ہیں تمام غیرمسلم ہمارے دشمن ہیں۔ اس میں گورے کالے کی قید نہیں 
 ۔مولانا اس امر پر حیرت کا اظہار فرماتے کہ
ہندستان میں دو کافر قومیں موجود ہیں پھر کیا بات کہ ایک ہی قوم سے اس قدر دشمنی دوسرے قوم سے کیوں نہیں؟ (الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 177)

ایک اور مجلس میں فرمایا:
بعض لوگ کفار کی ایک جماعت کو برا کہتے ہیں اور بعض دوسری کو‘ میں کہتا ہوں دونوں برے ہیں‘ فرق صرف یہ ہے کہ ایک نجاست مرئیہ ہے اور دوسری غیرمرئیہ لیکن ہیں دونوں نجاست. ( ایضاً صفحہ 256)

مولانا کے نزدیک اہل کتاب کی دشمنی اور مشرکین کی دشمنی کے درمیان ایک فرق موجود تھا ۔آپ کے خیال میں اہل کتاب دین کے دشمن نہیں دنیا کے دشمن ہیں گو اس کے ضمن میں وہ دین کی دشمنی بھی کرجاتے ہیں- اس کے مقابلے میں مشرکین دین کے دشمن ہیں. اس کا معیار یہ ہے کہ جس قدر قوت اور سطوت اہل کتاب کو حاصل ہے ‘اگر مشرکین کو حاصل ہوجائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کا بیج تک نہ چھوڑیں۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 83)

 ایک اور موقع پہ فرمایا کہ: 
اگر ہندوﺅں کو انگریزوں کی طرح قوت حاصل ہوتی تو ہندوستان میں ایک بچہ بھی زندہ نہ چھوڑتے۔ 
(الافاضات یومیہ جلد سوم صفحہ 71)
ہندوﺅں کی مسلم دشمنی کو مدنظر مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نتیجے پر پہنچے تھے کہ قیامت آجائے ہندو کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ اور ہمدرد نہیں ہوسکتے۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 638)
( #ایس_اے_ساگر )

آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو!

آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو!



[ یہ تحریر ایک گروپ سے موصول ہوئی ہے۔ اس میں فارغین مدارس اور منتظمین مدارس کے حوالے سے بڑی فکر انگیز اور قابل توجہ باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ مضمون نگار نے ان باتوں کو حضرت مفتی تقی عثمانی کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے ؛ لیکن خدا جانے انہوں نے اپنا نام کیوں ظاہر نہیں کیا! مضمون خواہ کسی کا ہو ، اور باتیں خواہ کسی کی نقل کی گئی ہوں ؛ لیکن باتیں ہیں واقعی اور مبنی بر حقیقت! 
درست املا اور رموز اوقاف املا کے اہتمام اور کسی قدر ظاہری ترتیب و تہذیب کے بعد تحریر پیش ہے۔ خالد سیف اللہ صدیقی] 



     ہمارے شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ایک مرتبہ اپنے صحیح بخاری کے درس میں طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ "آج جس طالب علم کو بھی دیکھو وہ جب مدرسے سے عالم بن کر نکلتا ہے تو وہ یا تو کسی مدرسے میں کل وقتی استاذ بن جاتا ہے یا وہ اپنا مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتا ہے ؛ اس لیے ہر گلی ، ہر موڑ ، ہر چوک چوراہے پر مدرسہ ہی مدرسہ دیکھنے میں آتا ہے ، جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اتنے سارے مدارس کھلنے کی وجہ سے مخیر حضرات کی کمی ہوگئی۔ اور دوسرا عام لوگوں کا ذہن یہ بن گیا کہ وہ جب بھی کسی مولوی کو دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں فورًا یہ بات آجاتی ہے کہ یہ مانگنے کے لیے آیا ہوگا۔اس لیے آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو! آپ مدرسے کو کل وقت نہ دو! آپ جز وقتی بن جاؤ اور دین کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط بناؤ ،  اور جو مدارس دینیہ کھلے ہوئے ہیں ان کے معاون بن جاؤ! ان کے ہاتھ مظبوط کرو! ان کے ساتھ تعاون کرو! اگر آپ لوگ تعاون کروگے تو اس سے ایک تو آپ کی حلال کمائی کی وجہ سے برکتیں آئیں گی اور دوسرا یہ کہ عام لوگ بھی متوجہ ہوں گے"۔
     آج کل ہم مولوی لوگ جتنا معاشی اعتبار سے پیچھے پڑگئے ہیں شاید ہی کوئی اور طبقہ ہو جو اس قدر پریشان حال ہو، اس کی وجہ کم از کم میرے ذہن میں تو یہ ہے کہ ہم نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم صبح سے شام ، شام سے صبح تک صرف مدرسے کی چار دیواری میں قید ہوکر رہ گئے ہیں ، اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے۔ اور ایک مہینہ کی تنخواہ لے کر اگلے دن سے پھر دوسرے ماہ کے مکمل ہونے کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ استاذ جو علم بچوں کو پڑھا رہا ہے وہ اللہ کی رضا نہیں بلکہ اپنے گزر بسر کا وسیلہ بنایا ہوا ہے اور اس وجہ سے علم کا نور ختم ہوجاتا ہے۔
      آج کیا وجہ ہے کہ ہمارے مدارس میں حضرت شیخ الہند نہیں پیدا ہورہا ؟ حضرت مدنی ، حضرت سندھی ، حضرت لاھوری جیسے اکابرین امت نہیں پیدا ہو رہے؟ جب کہ تعلیم وہ ہی ہے ، کتابیں وہ ہی ہیں ، اوقات وہ ہی ہیں ، ہر چیز وہ ہی ہے ؛ لیکن تقوی و پرہیزگاری ختم ہوگئی۔ کتابوں کا ، اساتذہ کا ، صندلیوں کا ،مدرسے کی چار دیواری کا ، مطبخ کا ، مسجد کا ، باورچی کا ، والدین کا ، عزیز و اقارب کا ، رشتے داروں کا ادب ختم ہوگیا۔ احترام کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ تقویٰ و پرہیز گاری اور اللہ کے سامنے گڑگڑانا ختم ہو گیا۔
     آج ہمارے طلبہ کو اگر اساتذہ دیکھ رہے ہیں تو وہ ایسی نماز پڑھیں گے جیسے جبرئیل کے بھتیجے ہوں ؛ لیکن استاذ کی نظر اگر تھوڑی سی ایک طرف ہوئی اور تو وہ کھیلنے کودنے میں شروع ہو گیا۔
    حضرت شیخ الہند رحمہ اللّٰہ کے متعلق ایک رسالے میں میں نے پڑھا تھا کہ حضرت بچپن میں دوران طالب علمی اس طرح چھپ کر تہجد کی نماز ادا کرتے تھے کہ اگر کہیں سے یہ محسوس ہوتا کہ کوئی انھیں دیکھ رہا ہے تو وہ بالکل ساکن ہوجاتے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ نیند میں ہوں۔ یہ تھا خشیت الٰہی ، جس کی وجہ سے اللہ پاک نے انہیں وہ مقام عطا فرمایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔
     اے اہل مدارس! خدارا اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں! بچوں کی اصلاح کی طرف توجہ دیں! اساتذہ جو قوم کے معمار ہیں ان کو آسودہ بنائیں! ان کی معاشی حالت بہتر بنانے کی کوشش کریں! تاکہ وہ یک سوئی محنت و لگن کے ساتھ اپنے کام کو کام سمجھتے ہوئے اپنے علم کو اپنی نئی نسل کے اندر منتقل کریں! اور اپنے استعداد سے وہ ان طلبہ کو بھرپور مستفیض کرسکیں۔
     آج مدرسے کا مہتمم مدرسے کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور جو استاذ اس کے آگے پیچھے نہیں ہوتا ، اسکے ہر اچھے برے کی تعریف نہیں کرتا ، چاہے وہ کتنا ہی محنت کرنے والا کیوں نہ ہو۔۔وہ حضرت مہتمم صاحب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ؛ لیکن اس کی جگہ ایک کم علم اور کام چور استاذ ہے لیکن مہتمم صاحب کا خاص ہے تو وہ حضرت کے سامنے "ہیرو" ہے۔
     اس لیے آج ہمارے اساتذہ نے بھی اپنے کام کو چھوڑ کر حضرات کی خوشامد کو اپنا مشن بنالیا ہے جس کی وجہ سے علم کی برکتیں ہم سے روٹھ گئیں۔
     پھر اساتذہ کو دیکھیے! اگر مہتمم صاحب یا ناظم اعلیٰ صاحب میں سے کوئی مدرسے میں موجود ہوگا تو ہم دل و جان سے پڑھائی میں مصروف رہیں گے لیکن جیسے ہی ہر دو حضرات میں سے کوئی ایک بھی ایک طرف ہوا ، ہم اپنے اسباق وہیں چھوڑ کر تکیے کے ساتھ ٹیک لگاکر موبائل چلانا شروع کردیں گے۔
     مجھے بتائیے کہ جب مہتمم اور اساتذہ کی یہ حالت طلبہ دیکھیں گے تو وہ کیا سبق سیکھیں گے؟ کیوں کہ طلبہ ہوں یا گھر میں چھوٹے بچے وہ اپنے بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔ جو کام ہم گھر یا مدرسہ میں کریں گے ہماری نئی نسل وہ ہی کام سیکھے گی۔
       اب اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہم اپنے پیشے سے سچے ہیں؟ جب ہماری دلوں سے اخلاص رخصت ہوگیا۔ سچائی روٹھ گئی۔ لگن سے کام کرنا چھوڑ دیا ، تو وہ طلبہ حضرت مدنی و امروٹی بنیں گے یا وہ ایک چھوٹی سی مسجد میں لوگوں کے غسل ، جنازے اور تدفین اور ختموں کے منتظر رہیں گے ؟
      دست بدست گذارش ہے کہ مہتممین حضرات ہوں یا اساتذہ اپنی انا کی خاطر ان معصوم طلبہ کا مستقبل تباہ نہ کیجیے اور ساری زندگی مدرسے کی چار دیواری اور مسجد کے محراب میں بیٹھ کر نہ گزارئیے بلکہ اپنا کام محنت و لگن سے سرانجام دیں اور اس کے بعد اپنی معیشت کو مضبوط کرکے ان دینی مدارس کے ہاتھ مضبوط کیجیے!▪️

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم