دعا سے متعلق بہت ہی اہم معلومات

https://darululoom-deoband.com/urduarticles/archives/3721

دعا نیکی کے کاموں میں سے ہے


            جس طرح نماز، روزہ، زکاة، حج وغیرہ اعمال صالحہ ہیں؛ اسی طرح دعا بھی عمل صالح ہے۔ مسند الہنداحمد بن عبد الرحیم شاہ ولی اللہ محدث دہلوی -رحمہ اللہ- (۱۷۰۳-۱۷۶۲ء) اپنی مشہور تصنیف: ”حجة اللہ البالغہ“ میں، ”المبحث الخامس، مبحث البرّ والإثم“ کے تحت متعد ابواب ذکر کیے ہیں۔ ان بابوں میں سے ایک باب: ”باب أسرار أنواع من البرّ“ میں رقم طراز ہیں:


            ”وَمِنہَا: الدُّعَاء فَإِنَّہُ یفتح بَابًا عَظِیمًا مِن المحاضرةِ، وَیجعَل الانقیاد التَّام والاحتیاج إِلَی ربِ الْعَالمین فِی جَمِیعِ الْحَالَات بَین عَیْنَیْہِ، وَہُوَ قَولہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ: ”الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِ“․ (حجة اللہ البالغہ:۱/۲۶۳)، ناشر: دار ابن کثیر، دمشق- بیروت)


            ترجمہ: اور ان (بر کی انواع) میں سے دعا (بھی) ہے۔ بے شک دعا نسبت حضوری کا بڑا دروازہ کھولتی ہے اور وہ کامل تابعداری کو اور ہر حال میں ربّ العٰلمین کے سامنے محتاج ہونے کو سامنے کرتی ہے اور وہ آپ… کا فرمان ہے: ”دعا عبادت کا مغز (جوہر)ہے“۔


دعا عبادت ہے


            عام عبادتوں کی طرح دعا بھی ایک قسم کی عبادت ہے؛ بل کہ دعا تو عبادت کا مغز، جوہر اور خلاصہ ہے۔ ہمیں یہ شبہ نہیں کرنا چاہیے کہ دعا میں ہم اپنی ضروریات وحاجات کو اپنے ربّ کے سامنے پیش کرکے، ان کے پورے ہونے کی درخواست کرتے ہیں؛ لہٰذا دعا ہماری ضروریات میں سے ہے،وہ عبادت نہیں ہے۔ بے شک دعا میں ہم اپنی ضروریات مانگتے ہیں؛ مگر اس میں اللہ تعالی کے حکم کا اتباع بھی ہے؛ اس لیے وہ عبادت؛ بل کہ عین عبادت ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر -رضی اللہ عنہ- ارشاد نبوی نقل کرتے ہیں: ”الدُّعَاء ُ ہُوَ العِبَادَةُ“․(سنن ترمذی:۳۳۷۲)ترجمہ: دعا ہی عبادت ہے، (یا)عبادت ہی دعا ہے۔


            مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں: ”․․․․ دعا اور عبادت اگرچہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں، مگر مصداق کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں کہ ہر دعا عبادت ہے اور ہر عبادت دعا ہے۔ وجہہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے کسی کے سامنے انتہائی تذلل اختیار کرنے کا اور ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کا محتاج سمجھ کر، اس کے سامنے سوال کے لیے ہاتھ پھیلانا، بڑا تذلل ہے جو مفہوم عبادت کا ہے۔ اسی طرح ہر عبادت کا حاصل بھی اللہ تعالی سے مغفرت اور جنت اور دنیا اور آخرت کی عافیت مانگنا ہے۔ اسی لیے ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جو شخص میری حمد وثنا میں اتنا مشغول ہو کہ اپنی حاجت مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے؛ تو اس کو مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا (یعنی اس کی حاجت پوری کردوں گا)۔ (رواہ الجزری فی النہایہ)


            ترمذی ومسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِکْرِی وَمَسْأَلَتِی، أَعْطَیْتُہُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِی السَّائِلِینَ․“ (ترمذی:۲۹۲۶) یعنی جو شخص تلاوت قرآن میں اتنا مشغول ہو کہ مجھ سے اپنی حاجات مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے؛ تو میں اس کو اتنا دوں گا کہ مانگنے والوں کو بھی اتنا نہیں ملتا۔ اس سے معلوم ہو کہ ہر عبادت بھی وہی فائدہ دیتی ہے جو دعا کا فائدہ ہے“۔ (معارف القرآن:۷/۶۱۰-۶۱۱)


دعا بہت محبوب چیز ہے


            یہ بات اللہ تعالی کو بہت محبوب ہے کہ اس کا بندہ، اس کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ سوالی بن کر، دست دعا دراز کرے اور اپنے غنی وبے نیاز آقا سے مانگے۔ ایک حدیث ہے: ”لَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَمَ عَلَی اللّٰہِ تَعَالَی مِنَ الدُّعَاءِ“․(ترمذی:۳۳۷۰) ترجمہ: اللہ تعالی کی نظر میں، کوئی چیز دعا سے بڑھ کر محبوب نہیں ہے۔


اللہ سے مانگیے؛ وہ ذات کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی

از: مولاناخورشید عالم داؤد قاسمی


حرف آغاز


            دعا عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی: پکارنا، مانگنا، التجا کرنا، التماس کرنا، مدد طلب کرنا وغیرہ ہیں۔ دعا کا اصطلاحی معنی انسان کا اپنی تمام ضروریات وحاجات کا اپنے خالق ومالک یعنی اللہ تعالی سے مانگنا ہے۔


            اس امت کو پروردگار عالم نے مختلف خصوصیّات سے نوازا ہے۔ ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کو دعا مانگنے کا حکم دیا ہے اور اس کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے؛ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے دعا اہمیت اورافادیت بڑی ہے۔ دعا کے ذریعہ انسان اپنی حاجات وضروریات کو اپنے خالق ومالک کے سامنے بغیر کسی جھجھک کے پیش کرکے، اپنی مراد مانگ سکتا ہے۔ جو شخص دعا نہیں مانگتا، اللہ تعالی اس سے ناراض ہوتے ہیں اور اس کے لیے عذاب کی وعید وارد ہوئی ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:


            ﴿وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ﴾ (سورہ مومن:۶۰)


            ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو اور میں تمھاری درخواست قبول کروں گا، جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں، وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے۔


            مفتی محمد شفیع صاحب -رحمہ اللہ-(۱۹۷۶-۱۸۹۷ء) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”یہ آیت امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا ہے اور جو دعا نہ مانگے اس کے لیے عذاب کی وعید آئی ہے۔ حضرت قتادہ (رحمہ اللہ) نے کعب احبار (رحمہ اللہ) سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیاء (علیہم السلام)کی تھی کہ ان کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں، میں قبول کروں گا۔ امّت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امّت کے لیے عام کردیا گیا ۔“ (معارف القرآن:۷/۶۱۰)


            ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: ﴿أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ﴾ (بقرة:۱۸۶)


            اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفتی صاحب فرماتے ہیں: ”(باستثناء نامناسب درخواست کے) منظور کرلیتا ہوں (ہر) عرضی درخواست کرنے والے کی، جب کہ وہ میرے حضور میں درخواست دے۔ سو (جس طرح میں ان کی عرض معروض کو منظور کرلیتا ہوں) ان کو چاہیے کہ میرے احکام کو (بجاآوری کے ساتھ) قبول کیا کریں (اور چوں کہ ان احکام میں کوئی نامناسب نہیں؛ اس لیے اس میں استثناء ممکن نہیں) اور مجھ پر یقین رکھیں (یعنی میری ہستی پر بھی، میرے حاکم ہونے پر بھی، میرے حکیم ہونے پر اور رعایت ومصالح پر بھی اس طرح) امید ہے کہ وہ لوگ رشد (وفلاح) حاصل کرسکیں گے۔“(معارف القرآن:۱/۴۵۱)


            دعا میں گریہٴ وزاری، بے بسی ولاچاری اور مخلصانہ توجہ اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔ قرآن شریف میں ہے: ﴿أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَہٌ مَعَ اللّٰہِ قَلِیلًا مَا تَذَکَّرُونَ﴾(نمل:۶۲) ترجمہ: (یہ بہتر ہیں) یا وہ جو بے قرار کی (فریاد) سنتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم کو زمین میں صاحب تصرف بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) خدا ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم غور کرتے ہو۔


            امام قرطبی نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے مُضْطَرّ (دنیا کے سہاروں سے مایوس ہوکر،خالص اللہ تعالی ہی کو فریادرس سمجھ کر، اس کی طرف متوجہ ہو)کی دعا قبول کرنے کا ذمہ لے لیا ہے اور اس آیت میں اس کا اعلان بھی فرمادیا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سہاروں سے مایوس اور علائق سے منقطع ہوکر، صرف اللہ تعالی ہی کو کارساز سمجھ کر، دعا کرنا سرمایہٴ اخلاص ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک اخلاص کا بڑا درجہ ہے۔ وہ جس کسی بندہ سے پایاجائے، وہ مومن ہو یا کافر اور متقی ہو یا فاسق فاجر، اس کے اخلاص کی برکت سے، اس کی طرف رحمت حق متوجہہ ہوجاتی ہے، جیسا کہ حق تعالی نے کفار کا حال ذکر فرمایا ہے کہ جب یہ لوگ دریا میں ہوتے ہیں اورکشتی سب طرف سے موجوں کی لپیٹ میں آجاتی ہے اور یہ گویا آنکھوں کے سامنے اپنی موت کو کھڑا دیکھ لیتے ہیں، اس وقت یہ لوگ پورے اخلاص کے ساتھ، اللہ کو پکارتے ہیں کہ اگر ہمیں اس مصیبت سے آپ نجات دیدیں ؛ تو ہم شکرگزار ہوں گے؛ لیکن جب اللہ تعالی ان کی دعا قبول کرکے خشکی پر لے آتے ہیں؛ تو یہ پھر شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ (معارف القرآن :۶/۵۹۵)


            حدیث کی کتابوں میں بہت سی حدیثیں ملتی ہیں، جن سے دعا کی حقیت، اہمیت اور افادیت کا پتہ چلتا ہے۔ رسول اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- ہر وقت اللہ تعالی کے ذکر میں رطب اللسان رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان ہمہ دم دعاؤں میں مشغول رہتی تھی۔ کبھی ان دعاؤں سے دنیوی واخروی بھلائی اپنے لیے اور اپنی امت کے لیے طلب کرتے تھے اور کبھی دنیوی واخروی شرور سے پناہ چاہتے تھے۔ ہمیں بھی دعا مانگنے کا معمول بناکر، اپنے اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر کرلینا چاہیے!


دعا سے آقا اور بندیکا رشتہ مضبوط ہوتا ہے


            چاہے جتنی خوش حالی آجائے اور جتنا آرام وسکون کی زندگی گزررہی ہو، دعا سے بندے کو کبھی بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے؛ بل کہ جتنا ممکن ہوسکے، دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔دعا بھی ایک عبادت ہے۔ پھر عبادت سے کیسی غفلت؟!اگر ہم غفلت کرتے ہیں؛ تو یہ پروردگار کی نافرمانی ہے۔ دعا سے جہاں آقا اور بندہ کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور تعلق استوار ہوتا ہے، وہیں اس سے بندہ اپنی بے مائیگی وضعف، عجز وانکساری اوراطاعت وبندگی کا اعتراف کرتا ہے۔ ایک روایت ہے : ”فإذا قال: ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ﴾ (الفاتحہ:۵) قال: ہذَا بَینی وَبینَ عَبدِی، وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ․“ (صحیح مسلم:۳۹۵) یعنی نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے جب بندہ ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ﴾کی تلاوت مکمل کرتا ہے؛ تو اللہ عزّ وجلّ جواب میں فرماتے ہیں: ”ہذَا بَینی وَبینَ عَبدِی، وَلِعَبْدِی مَا سَأَلَ․“ یعنی یہ آیت مجھ سے اور میرے بندے سے متعلق ہے اور میرے بندے کے لیے ہر وہ چیز ہے جو اس نے مانگا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ناراضگی

            اللہ تعالی نے اپنے بندے کو مانگنے کا حکم دیاہے۔ اب اگر کوئی بندہ نہیں مانگتا ہے؛ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ اپنے رب کا نافرمان ہے؛ اس لیے اللہ تعالی نہ مانگنے والے بندے سے ناراض ہوتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ -رضی اللہ عنہ- فرماتے ہیں کہ رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا: ”إِنَّہُ مَنْ لَمْ یَسْأَلِ اللّٰہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ․“(ترمذی:۳۳۷۳)ترجمہ:جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔

اللہ تعالی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا 

            انسان مصیبت وپریشانی کی صورت میں کسی شناسا شخص کے پاس جاتا ہے، تاکہ وہ اس کی ضرورت پوری فرمائے۔ کبھی وہ شناسا شخص اس کی ضرورت کی تکمیل کردیتا ہے اور کبھی زجر وتوبیخ کے ساتھ واپس کردیتا ہے۔ یہ تو بہت ہی کم سننے میں آتا ہے کہ ایک شخص کسی کی مدد سے ناکام ہوگیا؛ تو وہ اس پر شرم محسوس کرے اور اظہار افسوس کرے کہ وہ اس کی مدد نہیں کرسکا اور اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا!مگر رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- کے فرمان کے مطابق، اللہ تعالی کو شرم آتی ہے کہ ان کا بندہ، ان کے سامنے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر، خیر کا سوال کرے، پھر اللہ تعالی ان ہاتھوں کو ناکام اور خالی لوٹا دیں۔ حدیث یہ ہے: ”إِنَّ اللّٰہَ یَسْتَحْیِی أَنْ یَبْسُطَ إِلَیْہِ عَبْدُہُ یَدَیْہِ یَسْأَلُہُ بِہِمَا خَیْرًا فَیَرُدَّہُمَا خَائِبَتَیْنِ․“ (مصنف ابن أبی شیبہ:۲۹۵۵۵) ایک دوسری روایت ہے: ”إِنَّ اللّٰہَ حَیِیٌّ کَرِیمٌ یَسْتَحْیِی إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَیْہِ یَدَیْہِ أَنْ یَرُدَّہُمَا صِفْرًا خَائِبَتَیْنِ“․(ترمذی:۳۵۵۶) ترجمہ:بلاشبہ اللہ تعالی نہایت ہی حیا اور کرم والے ہیں۔ جب بندہ اپنے ہاتھوں کو (مانگنے کے لیے) اٹھاتا ہے؛ تو اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے کہ وہ ہاتھوں کو خالی اور ناکام واپس کردے۔


دعا ہر وقت نفع بخش ہے


            کوئی مصیبت، بلا،حوادث، بیماری، پریشانی وغیرہ آچکے ہوں یا ان کے آنے کا اندیشہ اور خدشہ ہو؛تو آدمی کو فورا اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس پاک ذات کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعا کرنی چاہیے۔ اسے اللہ تعالی کی ذات سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ذات برحق دعا قبول فرمائیں گے اور ان حوادث کو دور اور دفع فرماکر نجات دیں گے۔ ایک حدیث ہے: ”إِنَّ الدُّعَاءَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ، فَعَلَیْکُمْ عِبَادَ اللّٰہِ بِالدُّعَاءِ“․(ترمذی:۳۵۴۸) ترجمہ: ”بے شک دعا نفع بخش ہوتی ہے ان حوادث میں جو آچکے ہیں اور ان حوادث میں (بھی) جو اب تک نہیں آئے ہیں؛ لہٰذا دعا تم پر لازم ہے اے خدا کے بندو۔“


خوش حالی میں کثرت سے دعا کا فائدہ


            ہر ذی شعور اس سے واقف ہے کہ صرف اللہ تعالی کی ذات غنی وبے نیاز ہے اور بندے سب کے سب فقیر ومحتاج ہیں۔ بظاہر ایک بندہ چاہے جتنا بھی خوش حال ہو،اسے اللہ کے سامنے ہر دم عجز وانکساری اور فقیری ومحتاجی کے ساتھ دست دعا پھیلانا چاہیے۔ اس طرح سے اللہ تعالی اور بندے کا تعلق مضبوط رہتا ہے۔ پھر جب بندہ مصائب وآلام اورسختی وپریشانی سے دوچار ہو اور اس وقت دعا کرتا ہے؛ تو اس کی دعا فورا قبول کی جاتی ہے۔


            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَسْتَجِیبَ اللّٰہُ لَہُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالکَرْبِ فَلْیُکْثِرِ الدُّعَاءَ فِی الرَّخَاءِ“․(ترمذی:۳۳۸۲) ترجمہ: جس شخص کو یہ بات خوش کرتی ہے کہ اللہ تعالی سختیوں میں اور بے چینیوں میں اس کی دعا قبول کریں؛ تو اس کو چاہیے کہ خوش حالی میں کثرت سے دعا کرے۔


            شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حدیث مذکور کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”أَقُول: وَذَلِکَ أَن الدُّعَاء لَا یُسْتَجَاب إِلَّا مِمَّن قویت رغبتہ، وتأکدت عزیمتہ، وتمرن بذلک قبل أَن یُحِیط بِہِ مَا أحَاط“․ (حجة اللہ البالغہ:۲/۲۴۱، ناشر: دار ابن کثیر دمشق- بیروت) اس عبارت کی تشریح میں استاذ محترم مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری رحمہ اللہ، سابق شیخ الحدیث: دار العلوم، دیوبند رقم طراز ہیں: ”خوش حالی میں بکثرت دعا کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ دعا اسی کی قبول ہوتی ہے، جو قوی رغبت اور پختہ ارادہ سے دعا کرتا ہے اور آفت میں پھنسنے سے پہلے دعا کا خوگر ہے۔ جیسے مصائب میں لوگ آشنا کی مدد پہلے کرتے ہیں اور صاحب معرفت وہ ہے جو بے غرضی کے زمانہ میں بھی آمد ورفت رکھتا ہے“۔ (رحمة اللہ الواسعہ:

:دعا پہلے اپنے لیے کیجیئے 

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ کسی کے لیے دربار الٰہی میں دعا کرتے؛ تو پہلے اپنے لیے دعا کرتے تھے۔ اس طرح دعا کرنے والے کی محتاجگی کا اظہار ہوتا جو بے نیاز اللہ کو پسند ہے۔ جب بھی ہم کسی کے لیے دعا کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول پر عمل کرتے ہوئے، پہلے اپنے لیے دعا کریں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آپ… کا معمول نقل کرتے ہیں: ”أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَانَ إِذَا ذَکَرَ أَحَدًا فَدَعَا لَہُ بَدَأَ بِنَفْسِہِ“․ (ترمذی:۳۳۸۵) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو یاد کرتے؛ تو اس کے لیے دعا کرتے، (لیکن دعا) اپنی ذات سے شروع کرتے۔


غافل کی دعاقبول نہیں کی جاتی


            یہ درست ہے کہ اللہ تعالی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ مگر دعا مانگتے وقت انسان کا دل ودماغ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اسے یقین کرنا چاہیے کہ اللہ اس کی دعا قبول فرمائیں گے۔ پھر اس شخص کی دعا قبول ہوگی، ان شاء اللہ۔ اگر دعا مانگنے والا ایسا نہیں کرتا؛ بل کہ وہ غفلت، بے توجہی، تذبذب اور شش وپنچ کی حالت میں دعا کرتا ہے؛ تو اسے اپنی دعا کی قبولیت کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ایک حدیث شریف میں نبی اکرم… کا فرمان ہے: ”ادْعُوا اللّٰہَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَجِیبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ“․(ترمذی:۳۴۷۹) ترجمہ: اللہ سے دعا مانگو اس حال میں کہ تم دعا کی قبولیت کا یقین رکھتے ہو۔ جان لو کہ اللہ غافل اور لاپرواہ دل سے کی جانے والی دعا کو قبول نہیں کرتا ہے۔


دعا میں عزم مصمم ضروری


            یہ بات ہمیشہ بندے کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ وہ محتاج وفقیر ہیں اور صرف اللہ تعالی غنی وبے نیاز ہیں؛ لہٰذا دعا کرتے وقت بندے کو چاہیے کہ یقین واعتماد، عزم مصمم اور پختہ ارادے اور عجز وانکساری کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوکر، اس امید کے ساتھ مانگنا شروع کرے کہ یہی رحیم وکریم ذات عطا کرنے والی ہے۔ یہی ذات مرادیں پوری کرتا ہے، اس کے علاوہ کوئی عطا نہیں کرسکتا۔ پھر ان شاء اللہ ایسے بندے کی دعا قبول ہوگی۔ رسول اکرم… کا فرمان ہے: ”إِذَا دَعَا أَحَدُکُمْ فَلْیَعْزِمِ المَسْأَلَةَ، وَلاَ یَقُولَنَّ: اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِی، فَإِنَّہُ لاَ مُسْتَکْرِہَ لَہُ“․ (صحیح بخاری:۶۳۳۸) ترجمہ: جب کوئی شخص تم میں سے دعا مانگے؛ تو وہ (پختہ) ارادے کے ساتھ مانگے۔ یہ نہ کہے کہ اے اللہ!اگر تو چاہے؛ تو عطا فرما؛ کیوں کہ وہ اللہ پر جبر نہیں کرسکتا ہے۔


جن کی دعائیں اللہ تعالی خاص طور پر قبول فرماتے ہیں


            حدیث شریف میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر موجود ہے، جن کی دعائیں اللہ تعالی خاص طور پر قبول فرماتے ہیں۔ ان کی دعائیں خاص طور پر اس لیے قبول فرماتے ہیں کہ وہ بغیر کسی غفلت کے پورے اخلاص سے دل لگا کر، اللہ تعالی کے سامنے دست دعا دراز کرتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں۔ وہ لوگ جن کی دعا خصوصیت سے قبول کی جاتی ہیں، وہ یہ ہیں:


            مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور والدین کی دعا اپنی اولاد کے لیے۔ (ترمذی:۱۹۰۵) حج کرنے والے کی دعا، جب تک کہ وہ سفر حج سے واپس نہ آجائے، اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے جانے والے کی دعا، جب تک کہ وہ لوٹ نہ آئے، مریض کی دعا، جب تک کہ وہ صحت یاب نہ ہوجائے اور ایک بھائی کی دعا دوسرے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں۔ (الدعوات الکبیر للبیہقی:۶۷۱)


دعا کی قبولیت کا مطلب


            دعا کے قبول ہونے کا مطلب کیا ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ مومن کی دعا رد نہیں ہوتی؛ بل کہ اللہ تعالی ان کی ہر دعاقبول فرماتے۔ مگر قبولیت کی مختلف شکلیں ہیں۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ بندے نے دعا میں جو مانگا وہی بعینہ مل جائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ بندے نے جو چیز مانگی، وہ اللہ تعالی کے نزدیک مصلحت کے خلاف تھی؛ لہٰذا اسے قبول نہ کرکے، اللہ تعالی نے اسی کے مثل کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو اس بندے سے دفع کردیا۔ تیسری شکل یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بندے کی مانگی ہوئی دعا کے بدلے، اس کے نامہٴ اعمال میں نیکی درج کردیتے ہیں۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ اگر کوئی دعا ”گناہ“ یا ”قطع رحمی“ پر مشتمل ہوتی ہے؛ تو اللہ تعالی اسے قبول نہیں کرتے ہیں۔ نبی اکرم… فرماتے ہیں:


            ”مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَیْسَ فِیہَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِیعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاہُ اللّٰہُ بِہَا إِحْدَی ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَہُ دَعْوَتُہُ، وَإِمَّا أَنْ یَدَّخِرَہَا لَہُ فِی الآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ یَصْرِفَ عَنْہُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَہَا“․ (مسند احمد:۱۱۱۳۳)


            ترجمہ: جب بھی کوئی مسلمان کوئی ایسی دعا کرتا ہے، جو گناہ اور قطع رحمی پر مشتمل نہ ہو؛ تو اللہ اس شخص کے لیے اس دعا کے بدلے، تین میں سے ایک (ضرور) عطا فرماتے ہیں: (۱) یا اسے اس کی مانگی ہوئی چیز بہ عجلت (مہیا)کردی جاتی ہے، (۲) یا کبھی اس دعا کو اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ بنادیتے ہیں، (۳) یا کبھی اس کے مثل کوئی مصیبت (وغیرہ جو آنے والی ہوتی ہے)اس سے دور کردیتے ہیں۔


دعا کی قبولیت کے خاص احوال واوقات


            جب بندہ عجز وانکساری اور گہرے تعلق وربط کے ساتھ، اللہ کے سامنے دست دعا پھیلاتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس کی دعا ہر وقت اور ہر حال میں قبول فرماتے ہیں۔ پھر کچھ خاص احوال واوقات ہیں، جن میں خاص طور پر دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت مولانا محمد منظور نعمانی (۱۹۹۷-۱۹۰۵ء) نے اپنی مشہور کتاب ”معارف الحدیث“ میں دعا کی قبولیت کے ان خاص احوال واوقات کو مختصرا تحریر فرمایا ہے: ”فرض نمازوں کے بعد،ختم قرآن مجید کے بعد،اذان و اقامت کے درمیان،میدان جہاد میں جنگ کے وقت،باران رحمت کے نزول کے وقت، جس وقت کعبة اللہ آنکھوں کے سامنے ہو، ایسے جنگل بیابان میں نماز پڑھ کے جہاں خدا کے سوا کوئی دیکھنے والا نہ ہو، میدان جہاد میں، جب کمزور ساتھیوں نے بھی ساتھ چھوڑدیا ہو اور رات کے آخری حصے میں۔․․․․ شب قدر میں اور عرفہ کے دن میدان عرفات میں اور جمعہ کی خاص ساعت میں اور روزہ کے افطار کے وقت، اور سفر حج اور سفر جہاد میں اور بیماری اور مسافر ی کی حالت میں دعاؤں کی قبولیت کی حاض توقع دلائی گئی ہے۔“ (معارف الحدیث:۵/۱۰۵)


دعا قبول نہ ہونے کی کچھ وجوہات


            جب دعا قبول نہیں ہوتی ہے؛ تو اس وقت بندے کے دل میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟ قبولیت دعا کی مختلف شکلیں ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ اگر بندے کے ذہن میں وہ شکلیں مستحضر رہیں گی؛ تو دل میں یہ سوال عام طور پر پیدا نہیں ہوگا۔ مگر کچھ وجوہات بھی ہیں، جن میں سے کسی کے پائے جانے سے دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ وہ وجوہات یہ ہیں:


            گناہ اور قطع رحمی کی دعا کی جائے؛ تو دعا قبول نہیں ہوتی۔ دعا میں عجلت طلبی کی ممانعت آئی؛ لہٰذا اس سے بھی دعا قبول نہیں ہوتی۔ غفلت کی حالت میں دعا مانگنے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کسی کا کھانا حرام ہو، پینا حرام ہو، پہننا حرام ہو اور حرام غذا سے ہی اس کا نشو ونما ہوا ہو؛ تو بھی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے:معارف الحدیث:۵/۹۶-۹۷)


ماثورہ دعائیں

            ”․․․․ماثورہ دعائیں دو قسم کی ہیں: ایک: وہ دعائیں ہیں جن کے ذریعہ بندہ دنیا وآخرت کی بھلائیاں طلب کرتا ہے اور مختلف چیزوں کے شر سے پناہ چاہتا ہے۔ دوسری: وہ دعائیں ہیں جن سے مقصود قُوی فکریّہ (دل ودماغ) کو اللہ کے جلال وعظمت کے تصور سے لبریز کرنا ہوتا ہے، یا نفس میں فروتنی اور انکساری پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے؛ کیوں کہ باطنی حالت کا زبان سے اظہار، نفس کو اس حالت سے خوب آگاہ کرتا ہے، جیسے بیٹے سے کوئی غلطی ہوجائے اور وہ اپنی غلطی پر نادم ہوکر، باپ سے عرض کرے: ”ابا جان!واقعی مجھ سے غلطی ہوگئی، میں خطاکار ہوں، اپنی غلطی پر نادم ہوں، آپ مجھے معاف کردیں“! تو اس اعتراف سے غلطی کا خوب اظہار ہوتا ہے اور کوتاہی نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔“(تحفة الالمعی:۸/۴۳)

حرف آخر

            اگر ایک شخص کسی سے کچھ مانگتا ہے؛ تو وہ شخص کبھی دیتا ہے اورناراض اورغصّہ ہوتا ہے کہ یہ بندہ میرے ہی یہاں کیوں مانگنے آیا؟ کیا اس کو کسی اور کا دروازہ معلوم نہیں؟ بسا اوقات لوگ مانگنے والے کو برے الفاظ سے مخاطب کرکے، ذلیل ورسوا بھی کرتے ہیں۔ مگر ہمارا خالق ومالک، غفار وستار، رحیم وکریم اور وہّاب ورزّاق اللہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس سے مانگیں اور خوب مانگیں۔ اگر ہم اس پاک ذات سے نہیں مانگتے ہیں؛ تو وہ ہم سے ناراض ہوتا۔ جب ہم اس پاک ذات سے مانگتے ہیں؛ تووہ خوشی ومسرت کے ساتھ، نہایت ہی مہربان بن کر، اپنے خزانہٴ غیب سے ہماری ضروریات وحاجات کا بہترین انتظام فرماتے ہیں۔ ہمیں عزم مصمم کرلینا چاہیے کہ ہم اسی پاک پروردگار کے سامنے دست سوال دراز کریں گے اور اپنی حاجات وضروریات کے تکمیل کی درخواست اسی سے کریں گے؛ تاکہ ہمیں کسی انسان کے سامنے ذلیل ورسوا نہ ہونا پڑے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

لَا تَسْاَلَنَّ بَنِی آدَمَ حَاجَةً                                                        وَسَلِ الَّذِیْ اَبْوَابُہ لَا تُحْجَبُ

اللہُ یَغْضَبُ إِنْ تَرَکْتَ سُوَالَہ                                                      وَابْنُ اٰدَمَ حِیْنَ یُسْاَلُ یَغْضَبُ

            ترجمہ: اولادِ آدم کے سامنے کوئی ضرورت پیش مت کرو # اور اس ذات سے مانگو جس کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ اگر آپ اللہ سے مانگنا چھوڑدیں؛ تو وہ غصہ ہوتے ہیں # جب کہ اولادِ آدم سے مانگا جاتا ہے؛ تو وہ غصہ ہوتے ہیں۔

            اکبر حسین اکبر الہ آبادی (۱۸۴۶-۱۹۲۱ء)نے کیا ہی خوب صورت طریقے سے اس حقیقت کو بیان کیا ہے:

خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے، اے اکبر!

یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی

خود نمائی دینی و تحریکی زندگی کا کینسر

خود نمائی دینی و تحریکی زندگی کا کینسر 

محمد رضی الاسلام ندوی

       کینسر ایک انتہائی مہلک مرض ہے _کسی اندرونی عضو میں لاحق ہوجائے تو بہ ظاہر آدمی صحت مند دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ مرض اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا رہتا ہے، پھر اگر یہ اس عضو میں جڑ پکڑ لے اور دوسرے اعضا میں بھی سرایت کرجایے تو زندگی کی امید باقی نہیں رہتی اور موت یقینی ہوجاتی ہے _
          دینی اور تحریکی زندگی میں ٹھیک ایسا ہی مہلک مرض 'خود نمائی' ہے _ آدمی بہ ظاہر نیک کام کرتا  ہے، اس کی تقریروں اور تحریروں سے خلقِ خدا خوب فیض اٹھاتی ہے اور اس کی سرگرمیوں سے اسلام کا بڑے پیمانے پر تعارف ہوتا ہے، لیکن یہ مرض اس کی تمام نیکیوں کو غارت کرکے رکھ دیتا ہے _
            حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :"قیامت کے دن سب سے پہلے تین افراد کو لایا جائے گا، ایک عالم ہوگا، دوسرا مجاہد اور تیسرا مال دار _اللہ ان کو اپنے احسانات یاد دلایے گا، وہ اپنی خدمات گناییں گے، لیکن اللہ تعالی فرمائے گا کہ تم نے یہ سارے کام دکھاوے، نمود و نمائش اور لوگوں سے داد وصول کرنے کے لیے کیے تھے ، اس کا صلہ تمھیں دنیا میں مل چکا ، پھر انھیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا_ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے انہی لوگوں کے ذریعے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی _"(حدیث کا خلاصہ) 
         راوی (شُفَیّ الاصبحی) بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنانی چاہی تو اس کے مضمون کی ہیبت سے حدیث سنانے سے پہلے ہی 4 مرتبہ بیہوش ہوئے، بہت مشکل سے انہیں ہوش میں لایا جا سکا _ بعد میں اسی راوی نے یہ حدیث دمشق میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے سنائی تو ان کی حالت بھی غیر ہوگئی اور بہت مشکل سے ان کی طبیعت بحال ہوئی _(ترمذی :2382)
           مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ "گوشوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے لیے اس فتنہ سے بچنا نسبۃً بہت آسان ہے، مگر جو لوگ پبلک میں آکر اصلاح اور خدمت اور تعمیر کے کام کریں، وہ ہر وقت اس خطرے میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ معلوم کب اس اخلاقی دق کے جراثیم ان کے اندر نفوذ کرجاییں _" انھوں نے لکھا ہے کہ" اس مرض سے بچنے کے لیے انفرادی کوشش بھی ہونی چاہیے اور اجتماعی کوشش بھی...... اجتماعی کوشش کی صورت یہ ہے کہ جماعت اپنے دائرے میں ریاکارانہ رجحانات کو کبھی نہ پنپنے دے، شوقِ نمائش کا ادنی سا اثر بھی جہاں محسوس ہو فوراً اس کا سدِّ باب کرے _جماعت کا داخلی ماحول ایسا ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کی تعریف اور مذمّت ہر دو سے بے نیاز ہوکر کام کی ذہنیت پیدا کرے اور اس ذہنیت کی پرورش نہ کرے جو مذمّت سے دل شکستہ ہو اور تعریف سے غذا پائے _ 

دوران تلاوت غنہ کرنے سے دماغی کینسر سے حفاظت

دوران تلاوت غنہ کرنے سے دماغی کینسر سے حفاظت

ابوالحسن قاسمی

آج انکھوں کے معائنے کے سلسلے میں آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا ڈاکٹر عمران صاحب تھے پہلے میں نے نظر چیک کروائی نظر چیک کروانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے آنکھوں میں کچھ قطرے ڈالے ، پھر مشین سے چیک کیا پھر دوبارہ قطرے ڈالے پھر چیک کیا تو اسی دوران کہنے لگے کہ آپ کا تلاوت کا معمول کیا ہے ؟ میں نے انہیں بتایا کہ جب میں فجر کی نماز پڑھانے جاتا ہوں تو راستے میں جاتے ہوئے میں سورہ یاسین کی تلاوت کرتا ہوں ، نماز پڑھا کے واپس گھر آتا ہوں تو روزانہ کا معمول ہے کہ ایک پارہ تلاوت کرتا ہوں جو کم از کم ہے اور باقی اذکار اور معمولات بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں وہ کہنے لگے کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے ایک تو اونچی آواز سے تلاوت کیا کریں دوسرا یہ کہ بیٹھ کے تلاوت کیا کریں اور تیسرا یہ کہ وہ حروف جن پہ غنہ ہوتا ہے وہ غنہ آپ كو صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے میں ان کی بات بہت توجہ سے سن رہا تھا کہنے لگے کہ یہ جو ہم غنہ کرتے ہیں اور آواز ناک میں جاتی ہے تو اس کی وجہ سے آنکھوں کے ارد گرد اور پیشانی پہ جو چھوٹی چھوٹی وینز اور چھوٹی چھوٹی رگیں ہیں ان کا جال پھیلا ہوا ہے غنہ کرنے سے ان رگوں پہ دباؤ پڑتا ہے اور ایک اثر پڑتا ہے ان سے ایک قسم کی لہریں اٹھتی ہیں جو لہریں انسان کو دماغی بیماریوں سے اور کینسر کی بیماری سے محفوظ بھی رکھتی ہیں اور یہ غنہ کرنا ان بیماریوں کا علاج بھی ہے۔
 سبحان الله

مکاتب میں تعلیم کا نقصان

 مکاتب میں تعلیم کا نقصان 

چند باتوں سے مکتب کی تعلیم کمزور ہو جائے گی اس خیال فرمائیں ۔

 تبدیل مدرس: یعنی معمولی معمولی غلطیوں پر اور بدگمانی کی بنیاد پر بلا تحقیق مدرس کو بدل دینا یہ صحیح نہیں ہے ۔

 تبدیل نصاب: یعنی بار بار نصاب کو بدلتے رہنا یہ صحیح نہیں ہے، ہاں طریقہ بدل سکتے ہیں ۔

 تبدیل جماعت: یعنی ایک مدرس کو کم سے کم ایک جماعت پانچ سال تک پڑھانے کا موقع دینا چاہیے تاکہ وہ اس جماعت کا ماہر بن جائے ہاں بچے بدلتے رہیں گے ۔

 تبدیل مکتب: یعنی ایک محلے میں دو تین مکتب ہو تو بچوں کا ادھر ادھر ہونا اس لیے اجازت نامہ کے بغیر داخلہ نہ کریں ۔

 طرفین (استاد اور طلبہ) کو کثرت سے غیر حاضری کا عادی بننا: 

 بچوں پر ظلم کرنا یعنی معصوم بچوں کو مارنا نہیں چاہیے شفقت سے پڑھانا چاہیے ۔

 دوران درس موبائل فون کا بغیر ضرورت کے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

 کم تنخواہ یہ بھی ایک سبب ہے ۔

 آزادی سے اچھا کام کرنے والوں کی آزادی میں خلل نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے ۔

 آپس کا اختلاف : یہ بھی بڑی خطرناک چیز ہے اتفاق اور محبت سے کام کرنا چاہیے ۔

 بے فکری: یہ بھی بڑا خطرناک مرض ہے ۔

 جماعت بندی نہ بنانا ۔

 بلیک بورڈ کا استعمال نہ کرنا ۔

 غلط طریقہ: صرف رٹنے رٹانے سے کام یعنی آواز کی نقل وحرکت کرانا ۔

 بچوں کے اوقات کو مفید نہ بنانا ۔

 نظام الاوقات نہ بنانا ۔

 کثرت طلبہ: ایک استاد کے پاس کم سے کم تعداد ہونا چاہیے اگر زیادہ تعداد ہو تو دوسرے مدرس کا انتظام کرنا چاہیے ۔

 مخلوط جماعتیں ہو تو صحیح نظام بناکر کام کرنا چاہیے ۔

 اخلاص اور اخلاق کی کمی اللہ والوں کی صحبت میں رہ کر اس کو بھی دور کرنا چاہیے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی خدمت صحیح نیت کے ساتھ صحیح ترتیب کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین

نوٹ: الفاظ کی کمی بیشی سے معافی چاہتا ہوں کیونکہ بندہ حافظ ہے الحمدللہ اردو میں کمزور ہو ۔
دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس کمی کو بھی دور فرمائیں

حق. اور باطل کی پہچان کامعیار

حق. اور باطل کی پہچان کامعیار
حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری
 خلیفہ ومجاز قطب الاقطاب 
حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله تعالى نے ارشاد فرمایا کہ
 اگر کسی مسئلہ کے حق و باطل ہونے میں شبہ ہو اور معلوم نہ ہو کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر

اس وقت یہ دیکھاجائے کہ کس کی طرف اہل نظر اور مشائخ ہیں اور کس کی طرف بازاری لوگ اور عوام ؟

 ارشاد فرمایا کہ جدھر عوام ہیں اگرچہ وہ بظاہر دینی اور روحانی کام معلوم ہورہا ہے لیکن اس سے بچو اور جدھر اہل اللہ اور مشائخ ہوں اس کی طرف ہو جاؤ، اس میں ضرور خیر ہوگی؛ اس لئے کہ مشائخ کا دل ظلمت و تاریکی کی طرف مائل نہیں ہوتا ۔
( تذکرۃ الخلیل ص 250)

یہ اولادیں آپکے لیے قرآن پڑھیں گی

آپکو کیا لگتا ہے آپکے مرنے کے بعد آپکے رشتےدار آپکے دوست آپکی اولاد آپکے بہن بھائی قرآن پڑھ پڑھ کے آپکو بخشوا لیں گی 

 یہ اولادیں آپکے لیے قرآن پڑھیں گی 
جو آج آپکے کہنے پر نماز پڑھنے نہیں اٹھتی 
یہ رشتےدار آپکے لیے دعا کریں گے جن سے آپکی لڑایاں ہی ختم نہیں ہوتیں؟
 یہ دوست، یہ بہن بھائی آپکے لیے صدقہ خیرات کریں گے جو عید کے عید ملتے ہیں ؟

اے بھولے انسان خلوص کے زمانے گزر گئے ہیں
 یہ افراتفری کا دور ہے
 یہاں لوگ زندوں کو بھولے بیٹھے ہیں
 مرنے کے بعد کون یاد رکھے گا
 اپنی آخرت کی فکر خود کریں
 اپنے لیے قرآن خود پڑھیں
 یہی عقلمندی ہے اور اپنے ہاتھ سے صدقہ خیرات کر کے رخصت ہوں..

بیماری اور امراض کے علاج کیلئے وظیفہ

بیماری کیلئے وظیفہ


بیماری کا علاج جیسے دوا سے ہوتاہے اسی طرح مسنون دعاؤں اور کلمات سے بھی اللہ تعالیٰ بیماریوں کو ٹالتے ہیں، آپ علاج کے لیے درج ذیل امور پر عمل کیجیے:

1- حسبِ استطاعت کثرت سے صدقہ کیجیے؛ کیوں کہ صدقہ کرنا بہترین علاج ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کیا کرو، صدقہ بیماری کو دور کرتا ہے؛ اس لیے حسبِ توفیق صدقہ ادا کرتے رہیں۔

جامع الأحاديث (11/ 277):

''تصدقوا وداووا مرضاكم بالصدقة؛ فإن الصدقة تدفع عن الأعراض والأمراض، وهي زيادة في أعمالكم وحسناتكم''. (البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عمر)

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ دو اور اپنے مریضوں کا صدقے کے ذریعے علاج کرو ؛ اس لیے کہ صدقہ پریشانیوں اور بیماریوں کو دور کرتاہے اور وہ تمہارے اعمال اور نیکوں میں اضافے کا سبب ہے۔

2- روزانہ صبح نہار منہ سات دانے مدینہ منورہ کی عجوہ کھجور کھائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی بیماری بہت جلد ختم ہوجائے گی۔ حدیث شریف میں ہے:

''عن سعد قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من تصبّح بسبع تمرات عجوة لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر. متفق عليه. وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن في عجوة العالية شفاء، وإنها ترياق أول البكرة. رواه مسلم.''

ترجمہ:حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص صبح کے وقت عجوہ (کھجور) کے سات دانے کھائے اس دن اسے نہ تو زہر نقصان پہنچائے گا نہ ہی جادو۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک عالیہ (مدینہ منورہ کی بالائی جانب) کی عجوہ (کھجور) میں شفا ہے، اور اسے نہار منہ کھانا "تریاق" (زہرکا علاج) ہے۔ (مسلم)

3- مسنون دعاؤں کی کوئی مستند کتاب (مثلاً: مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب کی کتاب "مسنون دعائیں") خرید لیجیے، اور اس سے صبح وشام حفاظت کی دعائیں اور بیماری وغیرہ کی دعائیں پڑھنے کا اہتمام کریں۔

4- "یا سلام" کا کثرت سے ورد کریں، امید ہے اللہ پاک جلد صحت سے نوازیں گے۔

5- درج ذیل اذکار صبح و شام سات سات مرتبہ پابندی سے یقین کے ساتھ پڑھ کر دونوں ہاتھوں میں تھتکار کر سر سے پیر تک اپنے پورے جسم پر پھیردیں ان شاء اللہ ہر قسم کےسحر، آسیب اور نظرِ بد کے اثراتِ بد سے حفاظت رہے گی:

درود شریف، سورہ فاتحہ، آیۃ الکرسی، سورہ الم نشرح، سورہ کافرون، سورہ اخلاص، سورہ فلق، سورہ ناس اور درود شریف

6- درج ذیل دعا صبح و شام پڑھنے کا اہتمام کریں:

" أَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْعَظِيْمِ الَّذِيْ لَيْسَ شَيْءٌ أَعْظَمَ مِنْهُ، وَبِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِيْ لَايُجَاوِزُهُنَّ بَـرٌّ وَّلَا فَاجِرٌ، وَبِأَسْمَآءِ اللهِ الْحُسْنىٰ كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ۔ "

اس کے علاوہ پنج وقتہ باجماعت نمازوں کا اہتمام کریں اور ہمیشہ باوضو رہنے کی کوشش کریں۔ فقط واللہ اعلم

شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین اور نیوتہ کا حکم

شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین اور نیوتہ کا حکم


 *تحفہ کے لین دین کی اِفادیت واہمیت اور اسلامی تعلیمات:*

تحفہ اور ہدیہ کا لین دین اپنی ذات میں ایک جائز بلکہ کئی اعتبار سے ایک بہت ہی مفید عمل ہے، یہ معاشرے کا اہم جُز ہے، اس کے متعدد فوائد ہیں: اس سے محبتیں پیدا ہوتی ہیں، باہمی نفرتیں اور رنجشیں ختم ہوتی ہیں، تعلقات اور رشتوں میں استحکام اور پائیداری آتی ہے بلکہ یہ مضبوط اور خوشگوار تعلق کی علامت ہوا کرتا ہے۔
دینِ اسلام نے بھی باہمی ہدیے اور تحفے کے لین دین کو اہمیت دی ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے، البتہ دین اسلام نے ہدیہ اور تحفہ کے لین دین سے متعلق ہدایات اور تعلیمات بھی بیان فرمائی ہیں، چنانچہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ *’’ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے باہمی محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘* جیسا کہ السنن الکبریٰ بیہقی میں ہے:
12297- عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «تَهَادَوْا تَحَابُّوا». 
اسی طرح صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس کے بدلے میں ہدیہ بھی عنایت فرماتے تھے:
2585- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيْهَا.
اسلام نے تحفے اور ہدیے کے لین دین سے متعلق سنہری تعلیمات اسی لیے بیان فرمائی ہیں کہ اگر اس کو حدود اور احکام کا پابند نہ بنایا جائے تو زندگی کا یہ مفید عمل متعدد خرابیوں کا باعث بن کر اپنی اِفادیت اور اہمیت کھو بیٹھتا ہے، گویا کہ تحفے اور ہدیے سے متعلق دینی تعلیمات در حقیقت اس کی اہمیت اور افادیت برقرار رکھنے کے لیے ہیں، کیوں کہ دورِ حاضر میں یہ ایک ایسی بے جان رسم بنتی جارہی ہے جس سے متعدد خرابیاں پیدا ہونے لگی ہیں۔ 

🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین سے متعلق دینی تعلیمات اور حدود:*
واضح رہے کہ شادی بیاہ میں تحفہ اور ہدیہ کا لین دین اپنی ذات میں جائز اور ایک مفید عمل ہے، البتہ اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے تاکہ دینی تعلیمات کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے:
1⃣ تحفہ کا لین دین خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور باہمی محبت وتعلق کی پاسداری کے طور پر ہونا چاہیے کیوں کہ جب تحفہ خلوصِ نیت سے صرف اللہ کی رضا کے لیے دیا جائے تو وہ محبتوں کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے متعدد فوائد سامنے آتے ہیں۔ اس لیے تحفہ دیتے وقت بدلہ ملنے کی نیت نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ سوچ ہونی چاہیے کہ دوسرے کو تحفہ اس وقت دینا ہے جب وہ بھی دے گا کیوں کہ یہ دونوں مذموم اور قابلِ اصلاح نیتیں ہیں۔  
2⃣ اگر کوئی شخص ایسا تحفہ اس لیے دیتا ہے کہ میری خوشی کے موقع پر مجھے بھی ملنا چاہیے تو ظاہر ہے کہ اس میں قرض کا معنی آجاتا ہے جس کی وجہ سے معاملہ کوئی اور رخ اختیار کرلیتا ہے جبکہ یہ معاملہ اصولی طور پر تحفے کا تھا، تو قرض کی صورت میں پھر قرض کے احکام کی رعایت لازم ہوگی، جس میں کمی بیشی سے سود کا اندیشہ ہوتا ہے کیوں کہ تحفہ دے کر زیادہ قیمتی تحفے یا اضافی رقم کا مطالبہ سود کے زمرے میں آئے گا جس کا ناجائز ہونا واضح ہے۔ اس لیے اگر واقعی قرض ہی دینا ہے تو پھر معاملہ صاف ہونا چاہیے اور پھر قرض کے احکامات کی پاسداری ہونی چاہیے۔

🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین کی مروّجہ خرابیاں:*
ماقبل کی تفصیل کی رو سے شادی بیاہ میں بھی تحفے کے طور پر رقم کا لین دین جائز بلکہ کئی اعتبار سے بہترین عمل قرار پاتا ہے جس کی تفصیل بیان ہوچکی، لیکن اس معاملے میں مذکورہ بالا شرعی تعلیمات نظر انداز کرنے کی وجہ سے ایک افسوس ناک صورتحال سامنے آئی ہے کہ:
☀️ بہت سے لوگ شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین محض ریاکاری اور دکھلاوے کے طور پر کرتے ہیں، جس سے مقصود نام ونمود ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ریاکاری ایک سنگین گناہ ہے۔
☀️ بہت سے لوگ تحفے کا لین دین نہ چاہتے ہوئے بھی محض رسم پوری کرنے کی غرض سے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی ملامت سے بچا جاسکے، ظاہر ہے کہ دینی تعلیمات کی رو سے یہ طرزِ عمل مفید نہیں بلکہ حوصلہ شکنی اور اصلاح کے قابل ہے۔
☀️ بہت سے علاقوں میں شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین بدلے کے طور پر ہونے لگا ہے کہ اس بنیاد پر تحفہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہماری شادی کے موقع پر ہمیں بھی تحفہ دے گا، بلکہ بعض جگہ تو باقاعدہ تحفہ دینے والوں کے نام اور رقم تک لکھے جاتے ہیں تاکہ ان کی شادی کے موقع پر یہ بدلہ چکایا جاسکے، اور جس نے تحفے میں رقم نہیں دی تو اس کو بھی بدلے میں تحفہ نہیں دیا جاتا۔
☀️ بعض قوموں میں شادی کے موقع پر تحفہ تحائف دینا ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شادی کے موقع پر تحفہ نہ دے تو اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اس کو ملامت کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات تو تعلق بھی ختم کردیا جاتا ہے۔
بعض جگہ نیوتہ کے نام سے یہ رواج ہے کہ شادی بیاہ میں تحفے کے طور پر جو رقم دی جاتی ہے تو اپنی شادی کے موقع پر اس سے زیادہ رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اور یہ مطالبہ پورا نہ کرنے والوں سے گلے شکوے کیے جاتے ہیں اور انھیں ملامت کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ تحفے کے معاملے کو قرض کے معاملے میں تبدیل کردیتا ہے اور قرض میں اضافے کا مطالبہ سود ہے۔ 
ایسی تمام تر باتیں دینی تعلیمات اور مزاج کے سراسر خلاف ہیں، اسلام ہمدردی، خلوص اور باہمی تعاون کا درس دیتا ہے، اور انھی خرابیوں کا نتیجہ ہے کہ یہ اہم اور مفید عمل معاشرے میں ایک بوجھ اور بے جان رسم بن کر رہ گیا ہے جس سے محبتوں کی بجائے نفرتیں جنم لے رہی ہیں۔

🌻 *شادی بیاہ میں تحفے کے لین دین کی موجودہ صورتحال اور نیوتہ کی رسم کا حکم:*
ماقبل کی تفصیل سے یہ صحیح مسئلہ واضح ہوجاتا ہے کہ شرعی تعلیمات کی رعایت کرتے ہوئے اپنی ذات میں یہ جائز ہے لیکن آجکل معاشرے میں شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کے لین دین میں متعدد خرابیاں آچکی ہیں اور لوگ مذکورہ بالا دینی تعلیمات کی رعایت بھی نہیں کرتے بلکہ نیوتہ کے نام سے باقاعدہ ایک غیر شرعی رسم جاری ہے، اس لیے موجودہ صورتحال میں ان خرابیوں کی اصلاح کیے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اس لیےاس رسم سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ اس سے متعلق استاد محترم حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دام ظلہم کی مستند ترین ترجمہ وتفسیر ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
آسان ترجمۂ قرآن سورۃ الروم آیت 39:
وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّيَرۡبُوَا۟ فِىۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ‌ۚ وَمَاۤ اٰتَيۡتُمۡ مِّنۡ زَكٰوةٍ تُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ۔
▪ *ترجمہ:*
اور یہ جو تم سود دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے۔ اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے ارادے سے دیتے ہو، تو جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ ہیں جو (اپنے مال کو) کئی گنا بڑھا لیتے ہیں۔

☀️ *تفسیر:*
واضح رہے کہ اس آیت میں ربا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مشہور معنی سود کے ہیں، لیکن اس کے ایک معنی اور ہیں اور وہ یہ کہ کوئی شخص اس نیت سے کسی کو کوئی تحفہ دے کہ وہ اس کو اس سے زیادہ قیمتی تحفہ دے گا، مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر نیوتہ کی جو رسم ہوتی ہے اس کا یہی مقصد ہوتا ہے، چنانچہ بہت سے مفسرین نے یہاں ربا کے یہی معنی مراد لیے ہیں، اور فرمایا ہے کہ اس آیت میں نیوتہ کی رسم کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اس قسم کا تحفہ جس کا مقصد قیمتی تحفہ حاصل کرنا ہو اس کو سورة مدثر (آیت نمبر : 6) میں بھی ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن)

ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ شادی بیاہ میں تحفہ تحائف کا لین دین شرعی احکام وحدود کے تحت لانے کی اشد ضرورت ہے، بصورتِ دیگر اس سے اجتناب ہی کرنا چاہیے۔ 

🌻 *فائدہ برائے اہلِ علم:*
ماقبل میں ’’آسان ترجمہ قرآن‘‘ کی تفسیر میں جن دو آیات (یعنی سورۃ الروم آیت: 39 اور سورۃ المدثر آیت: 6) کا ذکر ہوا ان کی روشنی میں نیوتہ کی ممانعت سامنے آتی ہے اور تفاسیر میں بھی ان مقامات کی تفسیر میں اس کا ذکر ملتا ہے حتی کہ متعدد حضرات صحابہ کرام وتابعین عظام سے منقول تفسیر میں بھی اس طرف اشارہ ملتا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
☀️ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
▫️395- مَنْ كَرِهَ أنْ يُعْطي الشَّيء وَيَأخُذ أَكْثَرَ مِنْهُ:
▫️23111- حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ: «وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِ لِتَزْدَادَ.
▫️ 23112- حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ: حدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عِكْرِمَةَ يَقُولُ: لَا تُعْطِ الْعَطِيَّةَ فَتُرِيدُ أَنْ تَأْخُذَ أَكْثَرَ مِنْهَا.
▫️ 23113- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُبَيْطٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ: «وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِ لِتُعْطَى أَكْثَرَ مِنْهُ.
▫️ 23116- حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ نَافِعِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِي قَوْلِهِ: «وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِي شَيْئًا تَطْلُب أَكْثَرَ مِنْهُ.
▫️ 23117- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: الرَّجُلُ يُعْطِي لِيُثَابَ عَلَيْهِ: «وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوَا عِنْدَ اللهِ».
▫️ 23118- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: الْهَدَايَا.
▫️ 23119- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُعْطِي قَرَابَتَهُ لَيَكْثُرَ بِذَلِكَ مَالَهُ.
☀️ السنن الکبریٰ بیہقی میں ہے:
13715- وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ سَابُورَ عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَكْثِر» قَالَ: لَا تُعْطِ رَجُلًا لِيُعْطِيَكَ أَكْثَرَ مِنْهُ.

دعائے انس پر تحقیق

حضرت انس رضی اللہ عنہ جناب رسول اللہﷺ کے مشہور صحابی ہیں، ان کی دعا کا واقعہ کتب احادیث و تاریخ میں مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
علامہ ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق:( ج، 52 ص 259 ط، دارالفکر، بیروت ) میں روایت کیا ہے کہ ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے تھے۔ حجاج نے حکم دیا کہ ان کو مختلف قسم کے چار سو گھوڑوں کا معائنہ کرایا جائے۔ حکم کی تعمیل کی گئی، حجاج نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا: فرمائیے ! اپنے آقا یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس قسم کے گھوڑے اور ناز و نعمت کا سامان کبھی آپ نے دیکھا؟ فرمایا: بخدا ! یقینا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بدرجہا بہتر چیزیں دیکھیں اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جن گھوڑوں کی لوگ پروَرِش کرتے ہیں، ان کی تین قسمیں ہیں، ایک شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ حق تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے گا اور دادِ شجاعت دے گا۔ اس گھوڑے کا پیشاب، لید، گوشت پوست اور خون قیامت کے دن تمام اس کے ترازوئے عمل میں ہوگا۔ اور دُوسرا شخص گھوڑا اس نیت سے پالتا ہے کہ ضرورت کے وقت سواری کیا کرے اور پیدل چلنے کی زحمت سے بچے (یہ نہ ثواب کا مستحق ہے اور نہ عذاب کا)۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کی پروَرِش نام اور شہرت کے لئے کرتا ہے، تاکہ لوگ دیکھا کریں کہ فلاں شخص کے پاس اتنے اور ایسے ایسے عمدہ گھوڑے ہیں، اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور حجاج! تیرے گھوڑے اسی قسم میں داخل ہیں۔ حجاج یہ بات سن کر بھڑک اُٹھا اور اس کے غصے کی بھٹی تیز ہوگئی اور کہنے لگا: اے انس! جو خدمت تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی ہے اگر اس کا لحاظ نہ ہوتا، نیز امیرالموٴمنین عبدالملک بن مروان نے جو خط مجھے تمہاری سفارش اور رعایت کے باب میں لکھا ہے، اس کی پاسداری نہ ہوتی تو نہیں معلوم کہ آج میں تمہارے ساتھ کیا کر گزرتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ تجھ میں اتنی ہمت ہے کہ تو مجھے نظرِ بد سے دیکھ سکے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند کلمات سن رکھے ہیں، میں ہمیشہ ان ہی کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات کی برکت سے مجھے نہ کسی سلطان کی سطوت سے خوف ہے، نہ کسی شیطان کے شر سے اندیشہ ہے۔ حجاج اس کلام کی ہیبت سے بے خود اور مبہوت ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد سر اُٹھایا اور (نہایت لجاجت سے) کہا: اے ابو حمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھادیجئے! فرمایا: تجھے ہرگز نہ سکھاوٴں گا، بخدا! تو اس کا اہل نہیں۔پھر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت آیا، آبان جو آپ رضی الله عنہ کے خادم تھے، حاضر ہوئے اور آواز دی، حضرت رضی الله عنہ نے فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا: وہی کلمات سیکھنا چاہتا ہوں جو حجاج نے آپ رضی الله عنه سے چاہے تھے مگر آپ رضی الله عنه نے اس کو سکھائے نہیں۔ فرمایا: ہاں! تجھے سکھاتا ہوں، تو ان کا اہل ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دس برس خدمت کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی تھے، اسی طرح تو نے بھی میری خدمت دس سال تک کی اور میں دُنیا سے اس حالت میں رُخصت ہوتا ہوں کہ میں تجھ سے راضی ہوں۔ صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو، حق سبحانہ وتعالیٰ تمام آفات سے محفوظ رکھیں گے۔
دعاء کے الفاظ بھی مختلف روایات میں کمی بیشی کے ساتھ اس طرح ہیں:
بِسْمِ اللهِ عَلٰی نَفْسِیْ وَدِیْنِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی اَھْلِیْ وَمَالِیْ وَوَلَدِیْ، بِسْمِ اللهِ عَلٰی مَا اَعْطَانِیَ اللهُ، اَللهُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہ شَیْئًا۔ اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ وَاَعَزُّ وَاَجَلُّ وَاَعْظَمُ مِمَّا اَخَافُ وَاَحْذَرُ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاوٴُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّرِیْدٍ، وَّمِنْ شَرِّ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللهُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، اِنَّ وَلِیَّ اللهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۔”
دعاء انس کی اسنادی حیثیت:
دعاء انس کا واقعہ پانچ اسناد سے مختلف کتب میں نقل کیا گیا ہے، تعدد طرق سے " حسن " کے درجہ میں ہوجاتی ہے، جو کہ قابل حجت ہوتی ہے۔
تاریخ دمشق: (259/52، ط: دار الفکر)

علامہ شبیر احمد عثمانی رح کے وفات پر اکابر علماء دیوبند کی تعزیتی کلمات

علامہ شبیر احمد عثمانی رح کے وفات پر اکابر علماء دیوبند کی تعزیتی کلمات

آپ رح کو تعزیتی جلسوں میں زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ۔ 
حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ نے دارالعلوم دیوبند میں حضرت علامہ عثمانیؒ کی یاد میں تعزیتی جلسہ سے خطاب فرماتے ہوئے علامہ عثمانیؒ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ :
"شیخ الاسلام حضرت علامہ عثمانی مرحوم کی شخصیت بے مثال تھی ، علم و فضل میں آپ کا پایہ بلند تھا اور ہندوستان کے چیدہ علماء میں سے تھے ۔ ہم میں سیاسی اختلافات ضرور پیدا ہوئے مگر وہ اپنی جگہ ہیں ، علامہ مرحوم کے منتخب علم و فضل اور بلند پایہ شخصیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ یقیناً ان کی یہ دائمی مفارقت ہم سب کے لئے باعثِ رنج و ملال ہے علامہ عثمانی مرحوم نے دارالعلوم میں تعلیم پائی حضرت شیخ الہندؒ اور بہت سے اکابر دارالعلوم سے انہیں نسبتی تعلق تھا اور علمی طور پر ان کی شخصیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ تقریر و تحریر کا خداداد ملکہ علامہ مولانا مرحوم کا حصہ تھا اور بہت سی خوبیوں کے حامل تھے" ۔

حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلویؒ نے مدرسہ امینیہ کے تعزیتی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :
"مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی وفات حسرت آیات ایک سانحہ عظمیٰ اور واہیہ کبریٰ ہے مولانا مرحوم وقت کے بڑے عالم ، پاکباز محدث ، مفسر اور خوش بیان مقرر تھے "۔

حضرت علامہ سید سلیمان صاحب ندویؒ نے فرمایا :
"شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ایسے نادرہ روزگار صاحب کمال صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کے علمی کارنامے دنیا میں حیاتِ جاوداں رہیں گے ۔ زبانِ خلق نے ان کو شیخ الاسلام کہہ کر پکارا جو اسلامی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا لقب رہا ہے ان کے علمی کمال کا اندازہ تفسیر عثمانی اور فتح الملھم سے لگایا جاسکتا ہے ۔ دیوبند کے حلقے میں مولانا شبیر احمد عثمانی کو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے علوم و معارف کا شارح اور ترجمان کہا جاتا ہے وہ ایک بڑے خطیب ، محدث ، مفسر ، متکلم اور بلند پایہ سیاستداں تھے ان کی وفات پورے عالم اسلام کے لئے عظیم سانحہ ہے "۔

حضرت مولانا عبد الماجد صاحب دریابادیؒ نے علامہ عثمانیؒ کی وفات پر اپنے اخبار "صدق " میں تحریر فرمایا :
"استاذ العلماء شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ شارح صحیح مسلم و مفسر قرآن کا غم آج سارے عالم اسلامی کا غم ہے حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بعد شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کی ذات اب اپنے رنگ میں فرد رہ گئی تھی ۔ اپنے وقت کے زبردست متکلم ، نہایت خوش تقریر واعظ ، محدث ، مفسر ، متکلم سب ہی کچھ تھے "۔ 

حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ نے دارالعلوم دیوبند کے تعزیتی جلسہ میں مفصل تقریر فرمائی اور شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کے علمی کمالات و فضائل بیان فرمائے ۔ مختصراً ملاحظہ فرمائیے : 
"جماعت علماء میں شیخ الاسلام علامہ عثمانی مرحوم نہ صرف ایک بہترین عالم و فاضل ہی تھے بلکہ ایک صاحب الرائے مفکر بھی تھے آپ کا فہم و فراست اور فقہ نفس بے نظیر تھا ۔ آپ اُس علمی ذوق کے امین تھے جو اکابر دارالعلوم سے بطور وراثت آپ کو ملا تھا ۔ حضرت قاسم العلوم والخیرات کے مخصوص علوم پر آپ کی گہری نظر تھی اور درسوں میں ان کے علوم کی بہترین تفہیم کے ساتھ تقریر فرماتے تھے علوم میں نظر نہایت گہری اور عمیق تھی علمی لائنوں میں آپ کا درس و تدریس اور مختلف مدارس عربیہ ، مدرسہ فتحپوری دہلی ، دارالعلوم دیوبند ، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے ہزار ہا طلباء کو یکے بعد دیگرے افادہ ایک امتیازی شان رکھتا تھا ، تصنیفی لائنوں میں آپ کی متعدد تصانیف اور قرآن حکیم کی تفسیر بصورتِ فوائد اور مسلم شریف کی عربی شرح یادگار زمانہ رہیں گی جو پوری دنیائے اسلام میں نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی ہے ۔ سیاسی لائن میں آپ نے تقسیمِ ملک سے پہلے اپنی مدبرانہ سیاسی قابلیت سے ریاستِ حیدرآباد کو ایسے وقت میں بعض مہلک مذہبی فتنوں سے بچانے کی سعی جمیل فرمائی جبکہ اس کے معاملات بہت زیادہ خطرے میں تھے ۔ آزادی ملک کی جدوجہد میں آپ نے کافی حصہ لیا اور آپ کی فصیح و بلیغ تقریروں سے لاکھوں باشندگان وطن آزادی وطن کی حقیقت سے آگاہ ہوئے ۔ تقسیم ملک کے بعد آپ نے پاکستان کو اپنا مستقل وطن بنالیا اور کراچی میں مقیم رہ کر پاکستان کی بہت سی دینی و علمی خدمات انجام دیں ۔ پاکستان کے اربابِ حکومت پر آپ کی علمی اور سیاسی خدمات کا خاص اثر تھا اور وہاں کی گورنمنٹ کے ہائی کمانڈ میں آپ کو عالمانہ اور حکیمانہ حیثیت سے خاص عظمت حاصل تھی ۔ آپ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور مذہبی قانون کمیٹی کے صدر تھے بلاشبہ وہاں کی حکومت نے آپ کے ساتھ حیات اور ممات کا معاملہ کیا جو ایک قدر شناس حکومت کو اپنے ایک مخلص خیر خواہ اور ملک کے ایک ممتاز عالم دین کے ساتھ کرنا چاھئیے ۔ علامہ اولاً دارالعلوم کے ایک مایہ ناز فرزند تھے پھر اس کے قابل مدرس بنے اور آخر کار ادارہ کے صدر مہتمم ہوئے ۔ اس لئے ان کے حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں کہ ہم ان کے لئے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کریں ان کی وفات نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کا ایک شدید حادثہ ہے میں خود اور تمام دارالعلوم دیوبند اس غم میں برابر شریک ہیں ۔ دارالعلوم کو تعطیل دی گئی اور ختم قرآن کرایا گیا ۔ کلمہ طیبہ کا وِرد کیا گیا اور ایک تعزیتی جلسہ بھی دارالعلوم میں کیا گیا جس میں تمام اساتذہ ، طلباء اور کارکنانِ دارالعلوم شریک ہوئے "۔( رسالہ دارالعلوم دیوبند بحوالہ انوارِ عثمانی ) 
#جماعت_شیخ_الھند

نماز میں غفلت کا واقعہ اور عبرت

آج سے تقریبا ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے جب مجھے overthinking کی بہت بری عادت تھی۔ اتنی بری کہ میری نماز بھی غفلت میں گزرتی۔ اکثر تشہد میں سورہ فاتحہ پڑھ رہی ہوتی یا ایک سوچ کے زیر اثر نماز شروع کرتی اور نماز ختم ہو جاتی مگر سوچ جاری رہتی۔ میں چونک جاتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ مجھے فکر تھی مگر میں عادت سے مجبور بھی تھی۔ 
پھر ایک دن ایسے ہی نماز کے بعد قران پڑھنے لگی ایک آیت سامنے آئی۔ اس آیت میں مجھے حقیقی معنوں میں جھنجھوڑ کر رکھ دیا 
"اور ویل ہے نمازیوں کے لیے" الماعون:4
 ویل جہنم کے گڑھے کا نام ہے نمازیوں کے لیے ویل؟ اگلی آیت بتا رہی تھی کہ ایسے نمازوں کے لیے ویل ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہوتے ہیں۔(الماعون:5) ان کو علم نہیں ہوتا کہ وہ نماز میں کیا پڑھے۔

 نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ اللہ کی یاد کو اپنے دن میں قائم کرنے کے لیے۔ میں یہ نہیں کر رہی تھی۔ میں تو 'نماز' میں اللہ کو یاد نہیں رکھ پا رہی تھی۔ اگلی آیت میں تھا کہ وہ لوگ جو دکھاوا کرتے ہیں۔(الماعون:6)
دکھاوے کی نماز اللہ کی نظر میں زیرو ہوتی ہے اور بعض اوقات مائنس میں چلی جاتی ہے۔اور ایسے نمازی جو دوسروں تک عام ضرورت کی چیز
(پہنچنے) سے روکتے ہیں۔(الماعون:7)

یہ آیات نماز کی غفلت کو دور کر رہی تھی۔ یہ آیات کچھ باتیں سکھاتی ہیں۔
1۔ نماز پڑھنا کافی نہیں ہوتا اللہ کی یاد کو قائم کرنا ہوتا ہے۔ 
2: غفلت کی نماز یا دکھاوے کی نماز جہنم کی گڑھوں تک لے جاتی ہے۔
3: صرف اللہ کی عبادت فرض نہیں دوسروں سے بھلائی کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز اور دیگر عبادت کیونکہ دوسروں سے بھلائی کرنا بھی عین عبادت ہے۔

چار کام جو ہمیں کرنا ہے

چار کام جو ہمیں کرنا ہے
عید الاضحی کے تعطيل کے موقع پر حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے طلباء دارالعلوم کو وعظ ونصیحت فرماتے ہوئے کہا اس وقت آپ لوگ  ایّام تشریق کی چٹھی میں گھر جارہے ہیں ان ایّام کو ضا ئع نا کرے تکبیرات کا خوب اہتمام کرے یہ  چٹھی آپ کو حضرتِ ابراھیم کی یاد میں دی جارہی
اس وقت  آپکو چار کام کرنے ہیں 

1۔ *پہلی بات یہ ہے کہ آپ سب ہر جگہ یہ صدا  لگائیں اور اپنے خاندان اور محلے کے بزرگوں سے کہیں  کہ اِس وقت كا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی آئندہ نسل كو دین سے وابستہ کی فکر کرے* 

2۔ *دوسری بات یہ کہ  اُردو زبان ہم بلکل بھولتے  چلے جارہے ہیں اور یہ اندیشہ پیدا ہونے لگا ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں عربی تو کیا اُردو زبان بھی سمجھیں گی يا نہیں ،اِس کی فکر کی ضرورت ہے* 

3۔ *تیسری بات یہ ہے کہ معاشرے  کی اصلاح کیجئے ، شادیوں میں کس کس طرح کے جہیز کی شرطیں لگائی جاتی ہیں ، نہ جانے کیسے کیسے رسوم قبیحہ مسلمانوں میں رائج ہو گئے ہیں  آپ اِس کی اصلاح کا بیڑا اٹھا لیجیئے
4۔  *چوتھی بات یہ ہے کہ غیر مسلموں کے سامنے حُسنِ  اخلاق اور  سنجیدگی کا نمونہ پیش کر یں  ان کو اپنے سے اور مذہب سے مانوس کریں 
 _یہ چار باتیں آپ اپنی زندگی کے پروگرام میں شامل کر لیجیۓ اور اس کام کو انجام دینے کے لیے ساری محنت اور کوشش  کر ڈالے_ 


ماخوذ  از تعمیرِ حیات 10 ستمبر 1985


ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات

*ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لئے ‏قران پاک کے 100 مختصر مگر انتہائی موثر پیغامات*
 

1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو، 
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83

2  غصے کو قابو میں رکھو
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134

3  دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،
سورۃ القصص، آیت نمبر 77

4  تکبر نہ کرو، 
سورۃ النحل، آیت نمبر 23 

5  دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو، 
سورۃ النور، آیت نمبر 22

6  لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو، 
سورۃ لقمان، آیت نمبر 19

7  اپنی آواز نیچی رکھا کرو،
سورۃ لقمان، آیت نمبر 19

8  دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو، 
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11

9  والدین کی خدمت کیا کرو،
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23

‏10  والدین سے اف تک نہ کرو،
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23

11  والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،  
سورۃ النور، آیت نمبر 58

12  لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،  
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282

13  کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،  
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36

14  اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280

15  سود نہ کھاؤ،  
سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278

16  رشوت نہ لو،  
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42

17  وعدہ نہ توڑو،  
سورۃ الرعد، آیت نمبر 20

‏18  دوسروں پر اعتماد کیا کرو،
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

19  سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،  
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42

20  لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،  
سورۃ ص، آیت نمبر 26

21  انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،  
سورۃ النساء، آیت نمبر 135

22  مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو، 
سورۃ النساء، آیت نمبر 8

23  خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں، 
سورۃ النساء، آیت نمبر 7

24  یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو، 
سورۃ النساء، آیت نمبر 2

‏25  یتیموں کی حفاظت کرو،
سورۃ النساء، آیت نمبر 127 

26  دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو، 
سورۃ النساء، آیت نمبر 6

27  لوگوں کے درمیان صلح کراؤ، 
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10

28  بدگمانی سے بچو، 
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

29  غیبت نہ کرو، 
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

30  جاسوسی نہ کرو، 
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12

31  خیرات کیا کرو، 
سورۃ البقرة، آیت نمبر 271

32  غرباء کو کھانا کھلایا کرو
سورة المدثر، آیت نمبر 44

33  ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو، 
سورة البقرۃ، آیت نمبر 273

34  فضول خرچی نہ کیا کرو،
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67

‏35  خیرات کرکے جتلایا نہ کرو،
سورة البقرۃ، آیت 262

36  مہمانوں کی عزت کیا کرو،
سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27

37  نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،  
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44

38  زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو، 
سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36

39  لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو، 
سورة البقرة، آیت نمبر 114

40  صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں، 
سورة البقرة، آیت نمبر 190

41  جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو، 
سورة البقرة، آیت نمبر 190

‏42  جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ، 
سورة الأنفال، آیت نمبر 15

43  مذہب میں کوئی سختی نہیں، 
سورة البقرة، آیت نمبر 256

44  تمام انبیاء پر ایمان لاؤ،
سورۃ النساء، آیت نمبر 150

45  حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو، 
سورة البقرة، آیت نمبر، 222

46  بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ، 
سورة البقرة، آیت نمبر، 233

47  جنسی بدکاری سے بچو،
سورة الأسراء، آیت نمبر 32

48  حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،  
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247

49  کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو، 
سورة البقرة، آیت نمبر 286

50  منافقت سے بچو، 
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  14-16

‏51  کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو، 
سورة آل عمران، آیت نمبر 190

52  عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے، 
سورة آل عمران، آیت نمبر 195

53  بعض رشتہ داروں سے  شادی حرام ہے،  
سورۃ النساء، آیت نمبر 23

54  مرد خاندان کا سربراہ ہے،
سورۃ النساء، آیت نمبر 34

55  بخیل نہ بنو، 
سورۃ النساء، آیت نمبر  37

56  حسد نہ کرو، 
سورۃ النساء، آیت نمبر 54

57  ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، 
سورۃ النساء، آیت نمبر  29

58  فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو، 
سورۃ النساء، آیت نمبر  135

‏59  گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو،
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  2

60  نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو، 
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2

61  اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی، 
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  100

62  صحیح راستے پر رہو، 
سورۃ الانعام، آیت نمبر  153

63  جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو، 
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  38

64  گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو، 
سورۃ الانفال، آیت نمبر  39

65  مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے، 
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3

‏66  شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو، 
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  90

67  جوا نہ کھیلو، 
سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  90

68  ہیرا پھیری نہ کرو، 
سورۃ الاحزاب، آیت نمبر  70

69  چغلی نہ کھاؤ، 
سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر  1

70  کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو، 
سورۃ الاعراف، آیت نمبر  31

71  نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو، 
سورۃ الاعراف، آیت نمبر  31

72  آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو، 
سورۃ التوبۃ، آیت نمبر  6

73  طہارت قائم رکھو، 
سورۃ التوبۃ، آیت نمبر  108

74  اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،  
سورۃ الحجر، آیت نمبر  56

‏75  اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے، 
سورۃ النساء، آیت نمبر  17

76  لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ، 
سورۃ النحل، آیت نمبر  125

77  کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،
سورۃ فاطر، آیت نمبر  18

78  غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو، 
سورۃ النحل، آیت نمبر  31

79  جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو،
سورۃ النحل، آیت نمبر  36

‏80  کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)، 
سورۃ الحجرات، آیت نمبر  12

81  اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو، 
سورۃ النور، آیت نمبر 27

82  اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے، 
سورۃ یونس، آیت نمبر 103

83  زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو، 
سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63

84  اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔ 
سورة توبہ، آیت نمبر 105

85  اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، 
سورۃ الکہف، آیت نمبر  110 

‏86  ہم جنس پرستی میں نہ پڑو، 
سورۃ النمل، آیت نمبر 55

‏87  حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو، 
سورۃ توبہ، آیت نمبر 119

88  زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو،
سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37

89  عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں، 
سورۃ النور، آیت نمبر 31

90  اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے، 
سورۃ النساء، آیت نمبر 48

91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو، 
سورۃ زمر، آیت نمبر  53

92  برائی کو اچھائی سے ختم کرو، 
سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34

93  فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو، 
سورۃ الشوری، آیت نمبر 38

‏94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے، 
سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13

95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔ 
سورۃ الحدید، آیت نمبر 27

96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے، 
سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11

97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ، 
سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8

98 خود کو لالچ سے بچاؤ،
سورۃ النساء، آیت نمبر 32

99  اللہ سے معافی مانگو  وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ، 
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  199

100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو، 
سورۃ الضحی، آیت نمبر  10

الماعون اسٹور کرایہ اور نیکی

*الماعون...!*
چندروز قبل ایک انکل جی کے گھر جاناہوا. میں ان کے باغیچے میں بیٹھا ہوا تھا، اس دوران بیل بَجی؛ ایک بچہ آیا اس نے بیلچہ مانگا، انکل نے ایک چھوٹا سا الماری نما کمرہ کھولا، جس کے دروازے پر بڑا کرکے *”الماعون“* لکھا ہوا تھا. 

 بیلچہ نکالا اور دے دیا. ساتھ ہی ایک چھوٹی سے نوٹ بک نکالی اس میں تاریخ، وقت لکھ کر پھر  بچے کا نام اور ولدیت لکھ لی. کچھ دیر ہی گزری تھی پھر بیل بجی، ایک محلے دار آۓ انہوں نے پانی والا پاٸپ مانگا، انکل نے کمرہ کھولا پاٸپ نکالا، دے دیا اور نوٹ بک پر اس صاحب کا نام لکھ لیا. 

میں یہ سارا منظر دیکھتارہا. پھر ہم ظہر کی نماز پڑھنے چلے گٸے. جب نماز پڑھ کر واپس آٸے تو ایک لڑکا کلہاڑی اور ”ترینگل“ لیے منتظر تھا. انکل نے دونوں چیزیں لیں، نوٹ بک نکالی، اس لڑکے کا نام تلاش کرکے *”وصول“* لکھا اور تاریخ ڈال دی. 
اب مجھ سے رہانہیں گیا؛ میں نے ان سے پوچھا: 
*”آپ یہ چیزیں کراۓ پر دیتے ہیں“؟* 
 وہ مسکراٸے اور بولے: یہ سب چیزیں سارے محلے والوں کو ضرورت پڑنے پر دے دیتاہوں، انکا کرایہ بالکل ہے لیکن یہ کرایہ اللہ کے کھاتے میں ہے، 

کیا تم نے *سورہ ماعون* نہیں پڑھی؟ اللہ تعالیٰ کہتاہے :
*فَوَيۡلٞ لِّلۡمُصَلِّينَ* کہ افسوس ہے بربادی ہے ان نمازیوں کیلیے جو *وَيَمۡنَعُونَ ٱلۡمَاعُونَ* عام استعمال کی چیزیں مانگنے پر دوسروں کو نہیں دیتے. تو بیٹاجب سے مجھے یہ آیت سمجھ آٸی ہے میں نے یہ سٹور *”الماعون“* بنادیاہے... 
 اور ساری عام استعمال کی چیزیں، کلہاڑی،کدال،بیلچہ، کسی، ہتھوڑا، پاٸپ وغیرہ ساری چیزیں جو کہ پہلے سے میرے گھر موجود تھیں میں نے یہاں جمع کردی ہیں. 

اب محلے میں جس کو جو چیز چاہیے ہوتی ہے وہ آکر لے جاتاہے، نوٹ بک پر انکا نام اورتاریخ لکھ دیتاہوں. جب چیز واپس آجاۓ وصولی ڈال دیتاہوں... 
میں خوشگوار حیرت سے انکی باتیں سن رہاتھا. انہوں نے چاۓ کاگھونٹ بھرا اور بولے: *کچھ چیزیں میں نے خریدی ہیں، جبکہ بہت سی چیزیں تو محلے والے خود ہی مجھے دے گٸے کہ آپ انہیں ”الماعون“ میں رکھ لیں۔ جب ضرورت ہوگی لے جاٸیں گے،جب کسی اور کوضرورت ہوگی وہ لے جاٸیں گے“*

*احباب گرامی!*
مجھے انکل کا یہ ”الماعون“ والا آٸیڈیا بہت پسند آیا۔ ہم بھی ہرروز ایک دوسرے سے چیزیں مانگتے ہیں لیکن اکثر ہم نہیں دیتے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مالک کریم نے نمازیوں کو تو خاص طور مخاطب کرکے لین دین کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ کرنے پر *”ویل“* یعنی جہنم کی آگ سے ڈرایا ہے. 
چنانچہ آپس میں استعمال کی چیزیں ضرور ایک دوسرے کودینی چاہیں. 
البتہ ایک قومی بیماری *”چیز واپس نہ کرنا“* کا علاج کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اسکا ایک فوری حل تو ”نوٹ بک“ ہے۔ تاکہ یاددہانی رہے۔یوں چیز واپس مانگ لی جاۓ. 
چیز مانگ کر لے جانے والے کو بھی عقل مندی دکھانی چاہیے بروقت واپس کرنی چاہیے ورنہ وعدہ خلافی، ایذاۓ مسلم جیسے گناہوں کا مرتکب ہوگا. 
آج_کی_بات 
اگر چیز آپکے استعمال میں ہے۔ آپ نہیں دے سکتے تو کسی جھوٹے بہانے سے انکار مت فرماٸیں۔ہمیشہ سچ بولنا چاہیے...! 

شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے سوال کیا گیا کہ حضرت زندگی کا خلاصہ کیا ھے



حضرت والا نے جواب میں 20 نکات ارشاد فرمائے۔

(1)- ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کیا کرو۔
(2)-کوشش کرو کہ پوری زندگی میں کوئی تمہاری شکایت کسی دوسرے انسان سے نہ کرے۔ پروردگار سے تو بہت دور کی بات ہے۔
(3)-خاندان والوں کے ساتھ کبھی مقابلہ مت کرنا۔ نقصان قبول کر لینا ،مگر مقابلہ مت کرنا۔بعد میں نتیجہ خود مل جائے گا۔
(4)-کسی بھی جگہ یہ مت کہنا کہ میں عالم ہوں، میرے ساتھ رعایت کی جائے۔ یہ ایک غیر نامناسب عمل ہے۔کوشش کرو دینے والے بن جاؤ۔
(5)-سب سے بہترین دسترخوان گھر کا دسترخوان ہے، جو بھی تمہاری نصیب میں ہوگا بادشاہوں کی طرح کھا لوگے۔
(6)-اللہ کے سوا کسی سے امید مت رکھنا۔
(7)-ہر آنے والے دن  میں اپنی محنت میں مزید اضافہ کرنا۔
(8)-مالداروں اور متکبروں کی مجالس سے دوری اختیار کرنا مناسب ہے۔
(9)-ہر دن صبح کے وقت صدقہ کرنا ،شام کے وقت استغفار کا ورد کرنا۔
(10)-اپنی گفتگو میں مٹھاس پیدا کرنا۔
(11) اونچی آواز میں چھوٹے بچے سے بھی بات مت کرنا ۔
(12)-جس جگہ سے تمہیں رزق مل رہا ہے اس جگہ کی دل وجان سے عزت کرنا، جس قدر ادب کروگے ان شاءاللہ رزق میں اضافہ ہوگا۔
(14)-کوشش کرو کہ زندگی میں کامیاب لوگوں کی صحبت میں بیٹھا کرو، ایک نہ ایک دن ضرور تم بھی اس جماعت کا حصہ بن جاؤگے۔
(15)-ہر فیلڈ کے ہنر مند کی عزت کرنا ،ان کے ساتھ ادب سے پیش آنا چاہئے ،خواہ وہ کسی بھی فیلڈ کا ھو۔
(15) والدین، اساتذہ اور رشتے داروں کے ساتھ جس قدر اخلاق کا معاملہ کروگے اس قدر تمہارے رزق اور زندگی میں برکت ھوگی۔ 
(16)-ہر کام میں میانہ روی اختیار کرنا۔ 
(17)-عام لوگوں کے ساتھ بھی تعلق رکھنا اس سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ 
(18)-ایک انسان کی شکایت دوسرے سے مت کرنا، ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شکایت کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ 
(19)-ہر بات کو مثبت انداز میں پیش کرنا ،اس سے بہت سے مسائل حل ھو جائیں گے۔
(20)-بڑوں کی مجلس میں زبان خاموش رکھنا۔

اخیر میں درج ذیل دعا سکھائی کہ مشکل وقت میں اہتمام کے ساتھ پڑھا کرو بہت فائدہ ھوگا- (ان شاء اللہ) "رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا۔۔۔"

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم