*معافی مانگنے کے اصول وضوابط*
〰〰〰🌺〰〰〰

آج کے دن مسلمانوں میں معافی تلافی کا سلسلہ جاری و ساری ہے اس کے لئے میسج کا استعمال بہت زیادہ ہورہا ہے.

اس میں کوئی شک نہیں کہ معافی طلب کرنا اور معاف کرنا بہت اچھا طریقہ ہے مگر اس کے کچھ لوازمات و آداب ہیں:-

⚫(1) *معافی طلب کرتے ہوئے معافی مانگنے کی سچی نیت ہو*

⚫(2) *طبیعت میں حق تلفی و حقوق العباد کو تلف کرنے سے ندامت حقیقی ہو*

⚫(3) *جس سے معافی مانگی گئی اس کا پتہ بھی ہو.میسج میں معافی مانگتے ہوئے بعض دفعہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میسج کس کو جارہا ہے*

⚫(4) *پھر شرعا معافی اسی وقت تصور کی جائے گی جب دوسرے کی طرف سے رپلائی بھی آئے کہ میں نے معاف کردیا.اگر رپلائی نہیں آیا تو معافی نہ ہوگی*.

⚫(5) *یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کسی کا کوئی نقصان کیا جس کا ہرجانہ شریعت لازمی کرتی ہو تو اس کی ادائیگی یا اس کی معافی بھی لازم ہے*

⚫ (6) *پھر جس نے حق العبد تلف کیا تو بندے سے معافی کے ساتھ ساتھ اللہ عزوجل سے بھی معافی مانگنا لازم و ضروری ہے۔*

⚫(7) *شب برات کے موقعہ پر چونکہ معافی تلافی کے میسج ہول سیل کی صورت میں آتے ہیں.*

 *میری رائے کے مطابق* 

  معافی تلافی کا میسج اسے ہی کیا جائے جس کے بارے آپ کو لگے کہ میں نے اس کے جان ،مال ،عزت کو نقصان پہنچایا.

پوری کنیٹکٹ لسٹ کو میسج کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ میسج پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں اور *جس پر معافی مانگنا ضروری تھا اس کا میسج بھی پڑھنے سے رہ جاتا ہے یوں وہ معافی کا تمغہ ملنے سے محروم ہوجاتا ہے*...

*🔵طلحہ عزیر پاکیزہ اورنگ آبادی🔵*


⚫🔴⚫🔴⚫🔴⚫

کیا انسا ن کو مذہب کی ضرورت ہے ؟
از: ابو صالح شیخ ادریس ندوی
ہم اگر  اپنے ارد گرددیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ ہم خود اپنے تمام افعال پر قادر نہیں ہیں ۔بلکہ چند ضابطے  ایسے ہیں جن کے ماننے پر ہم مجبور ہیں ،ایسے ضابطے  ہی قانون کہلاتے ہیں ۔دنیا میں ہم مختلف قسم کے قانون دیکھتے ہیں  ،مگر وہ تمام دو قسم کے ہو تے ہیں   :اول وہ قانون  جو قدرتی ہیں ،دوم وہ جو وضعی ہیں۔قسم اول  میں ایسے قانون  ہیں جس میں انسان  کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا ۔مثلا آگ ہر چیز کو جلاتی ہے ۔پانی ہمیشہ  پستی نیچے کی جانب بہتاہے ،درخت اسی وقت تک سرسبزہ  رہتےہیں جب تک ان کو ان کی غذایعنی کھا د پانی ہوا دھوپ وغیرہ  ملتی  رہے ۔ستارے اور سیارے ہمیشہ اپنے مقررہ دور پورے کرتے ہیں ،یہ ایسے قانون  ہیں جس میں انسان تبد یلی نہیں کرسکتا ،دسرے  قانون وضعی :یہ ایسے قانون  ہیں جو کہ خود انسان کے بنا ئے ہو ئے ہیں ،اس وجہ سے اس میں ہر وقت  تبدیلی ممکن ہے اور ہو تی بھی رہتی ہیں ۔مگر سوال یہ ہو تا ہے کہ قانون  کی ضروت ہی کیاتھی ؟اگر سر سری طور پر دیکھا  جائے تو قانون ترقی اور آزادی میں رکاوٹ معلو م ہوتے ہیں ،مگر غور سے دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ نظام عالم کا دورومدار انہیں قانون   پر ہے ۔فرض کروکہ آج نظام ششمسی کے سیارے آفتاب کی کشش سے آزاد ہو جائیں تو نتیجہ کیا ہو گاکہ اجرام فلکی کا کہیں پتہ بھی نہ ہوگا ۔یایوں سمجھوکہ ایک بڑے ملک میں کوئی زبردست گورنمنٹ نہ ہو ،ہر شخص آزادہو ،کسی کے افعال کا کسی کو تعرض کا حق نہ ہو تو یقینا اس ملک کی حا لت وحشی سے وحشی ملک سے بھی بد تر ہو جائے گی،وہاں ہر کوئی اپنی من مانی زندگی بسر کرےگا ،اور پھر وہاں خون ریزی قتل وغارت گری ،اور ہر طرح کا شروفساد عام ہوجا ئے گا ،اور پھر وہاں نام تو انسانوں کے ہوں گے لیکن حقیقتا وہاں جا نوروں کا بسیرا ہو گا ،بہر حال صاف ظاہر ہے کہ امن وامان ،حفاظت مال ،کسب معاش کے لئے یہ لازمی ہے کہ سو سائٹی کا ہر فرد واحد چند قانون  کی پابندی کو اپنا  فرض سمجھے ۔کیوں اس میں اس کی جان ومال ، بہن بیوی،اور ماں بیٹی کی حفاطت ہے ،اور مذہب بھی کسی پابندی وتشدد،اور جکڑ بندی کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ مذہب بھی دراصل نام ہے چند قانون  کا جن پر عمل کرنے سے گویا اپناہی فائدہ ہے،اسی لئے پر عمل کرنا ہر ایک کے لئےضروری ہے ،اور اگر ہم اس پر عمل نہ کریں تو خود ہم کو نقصان پہونچے گا ۔اور مذہب ہم کوتو راستبازی کی تعلیم دیتاہے ۔ماچھے اخلا ق سے پیش آنا ،غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرنا ،کمزوروں کا سہارابننا غمزدوں کے درد کا درماں بننا ،محبت کےساتھ آپس میں شیر وشکر بن کر رہنا ،اور ہرایک کا بھلا چاہنا،ان سب باتوں کی ہی تو مذہب تعلیم دیتاہے ،تو اس میں پریشانی کیا ہے ۔؟
اب دو ایک مذہب کا تاریخی مطالعہ کرکے دیکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے لوگوں کیا فائدہ ہوا ۔
پانچ سو قبل مسیح ہند  کے میدانوں میں ایک اایسی قوم بسی ہو ئی ملتی ہے جو تہذیب وتمدن کے نام سے ناآشنا ہے ۔وہ بھوت پلید کے پر ستش کو  واجب قرار دیتی ہے،اخلا قی اعتبار سے بھی اس کی بہت پست حالت ہے ،اس میں دوسروں کے مقابلہ میں برتری کا خیال مطلق نہیں پا یا جاتاہے ۔دفعتہ ایک مصلح پیداہوتا ہے یہ اپنے عیش وآسائش کو ترک کردیتاہے بیو ی بچوں خو خیر آباد کہہ دیتاہے ،سلطنت پر لا ت مارتاہے ،سا ت برس تک جو گی بن کر تلاش نجات میں گھومتاہے ،اور گوتم بدھ کے نام سے ایک سیدھے سادھے مذہب تعلیم  کرتاہے اور ایک وقت آتاہے کہ اس مذہبی تعلیم کی وجہ سے وہ قو م جو غیر مہذب تھی مہذب بن جا تی ہے ،اوراولا تواس کو معمولی حیثیت کے لوگ قبول کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ بڑے بڑے مہا راجہ بھی  یہی مذہب  اختیار کرلیتے ہیں ۔او رآج بھی تقریباڈھائی ہزار برس کے بعد بدھ مت کے ماننے والے دنیا میں ایک بڑی تعداد میں موجودہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ بدھ  مت نے لو گوں کو رسم ورواج ،طریق معاشرت میں ایک بڑی تبد یلی پید اکردی تھی اور اس کے متبعین  کا اخلاقی معیا ر بہت بلند کردیا تھا۔
(ابھی اس کا پھر کیا حال ہے ہم اس وقت کی بات نہیں کرہےہیں )
اس سے بھی قریب تر زمانہ کی مثا ل لو ۔توظہور اسلام سے پہلے عرب کی حالت دیکھو ۔ان لوگوں میں دنیا کے تمام عیوب موجو د تھے ،دختر کشی ،شراب بخور ی ،اور بہت سی بیماریاں تھی جن کو چھوڑنا ان کے لئے بہت مشکل تھا ،اسی  عالم میں ایک مہتاب طلوع ہوتاہے ۔تعلیم وتلقین کا معجزہ نما اثر دیکھو ۔جہالت کا بادل دھوا ں بن کر اڑجاتاہے ،مذہب ہی کی برکت تھی کے وحشی عرب ایک طرف ایرانیوں کی عظیم الشان سلطنت کو فتح کرلیتےہیں ،اور دوسری طرف یورپ کو ایک مدت تک تہذیب وتمدن کا سبق دیتے ہیں، انہوں  نے صرف ممالک ہی کو نہیں فتح کیا بلکہ دلوں کو بھی فتح کیا اور علو م وفنون کو ترقی دی ۔اور عربوں کی ترقی کی خاص وجہ یہ تھی کہ اسلام  کے بعد ان  کی قوتوں کا ستعمال ٹھیک موقعوں پر کیاجانے لگا ،بہادری ان میں پہلے سے تھی لیکن اب اس کا استعمال غیر ممالک میں کئے جانے والے ظلم کے خلاف استعمال  کیا جانے لگا ،دماغی قوت ان میں پہلے سے ہی موجود تھی لیکن اس کا استعمال اب علوم وفنون میں استعمال ہونے لگا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض دنیاکے کسی بھی مذہب کو لو اور اسے تاریخی روشنی میں دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ہر مذہب نے اپنی اپنی حیثیت سے انسانی تہذیب وتمدن کو ترقی دی ہے اور اپنی تعلیم کا ایک ایسا نظام اخلاق چھوڑا ہے جس پر اس کے ماننے والے عمل کرتے رہے ہیں ۔ی(یہ الگ بات  ہے کہ اس کے ماننے والوں نے بعد میں  اس میں بہت سی خرابیوں کو داخل کردیا ،کچھ نے تو کم فہمی یا لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کیا ،او رکچھ نے اپنے پیٹ پوجا کے لئے کیا )اور جس طرح قانون وضعی میں یہ بات پائی جا تی ہے کہ د وممالک کے قوانیں میں  ایک دوسرے سے مشاہبت ہو تی ہے اسی طرح مذہب عالم کے احکاما ت  میں بھی بہت کچھ ایک دوسرے سے مشابہ ہو تے ہیں مگر یہ بات ہر چھوٹے حکم پر صادرق  نہیں آسکتی ۔لیکن مجموعی طور پر مذیب کی ترقی میں جتنا کام مذہب نےکیاہے اتناکسی نے نہیں کیاہے
دنیا کے تمام مذاہب کا پیغام :۔
اب ہم اور ایک دوسرے اندازسے سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں کیا انسان کوواقعی کسی  مذہب کی ضرورت ہے ؟
جب سے دنیا بنی ہے یا کم سے کم جب سے اس دھرتی پر انسانوں  کا رہنا شروع ہواہے ،تب سے ہر آدمی کا دل دو  طرف کھینچتاہے :کبھی خود غرضیاور برائی کی طرف توکبھی دوسروں کی بھلائی کی طرف ،کبھی سوارتھ کی طرف تو کبھی پروپکا ر کی طرف ۔برائی اور بھلائی ،بدی اور نیکی ،پاپ اور پن ،گناہ اور ثواب ان دونوں راستوں کے ہی الگ الگ نام ہیں ۔کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کے دل پر یہ دونوں کبھی کبھی اپنا اثر نہ ڈالتے ہو ں ۔یہ دونوں اپنی اپنی طرف آدمی کے دل کو برابر کھنچتے رہتے ہیں ؛اور یہی کھینچا تانی اندر کی کشمکش دنیا کی سب سے بڑی جنگ یا دنیا کا سب سے بڑا سنگرا م ہے ۔اس سنگرام میں خود غرضی یا سوارتھ ،بدی یا برائی کو اپنے اندر سے نہ مٹا سکنا سب سے بڑی ہار ہو تی ہے ۔اسی طرح دوسروں کی بھلائی یعنی پروپکا ر یا نیکی کو اپنی زندگی میں جگہ دیناسب سے بڑی  جیت ہے ،اور جگہ نہ دے سکنا ہر آدمی کی اور تما م انسانی دنیا کی بھلائی ہے ۔اس میں ساری دنیا کی ترقی اور سکھ اور چین کے راستے کھلتےہیں ۔اور یہ ہا ر اس لئے سب سے بڑی ہا ر مانی جاتی ہے کیوں کہ اس میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں اوریہی انسانی دنیا کے بڑے بڑے دکھوں کا اور بربادی کا اصلی سبب ہے ۔
اس  جیت میں دنیا کی بھلائی اور اس ہا ر میں دنیا کے دکھوں  اور بربادی کی جڑ اس لئے ہے کہ اگر ہم آدمی کی زندگی پر گہری نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتاہے کہ دنیا کے آدمی سب ایک دوسرے سے ایسے ہی بندھے اور جکڑے ہو ئے ہیں جیسے ہمارے بدن کے الگ الگ حصےہاتھ پیر آنکھ اور کا  ن ایک دوسرے سے۔اس طرح دنیا کی تما م چیزیں اور خاص طور سے آدمیوں کے سارے گروہ آپس میں ایک دوسرے سے ایسے اٹوٹ اور گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ، ان کا اصلی فائدہ اور نقصان الگ ا  لگ نہیں کیا جاسکتا۔ہم سب مل کر ایک کنبے یا کٹمب کی طرح ہیں ،جس کی بنیا دیں میل محبت ،ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور ایک دوسرے کی سیوا پر قائم ہیں او رجس کو سب سے بڑا نقصان ایک دوسرے سے نفرت کرنے اور لڑنے سے پہنچتاہےاور جتنا  آدمی اس سچائی کو جان لیتاہے اتناہی وہ اس جیت میں کا میاب ہو تا ہے ،او راس کے بعد اس کے اندر سے اپنے اور پرائے کا بھید کم ہو جاتاہے یا یو کہئے اس کے اپنے پن اور پرائے پن کا خیال گھٹتا اور سکڑ جاتاہے ،اور اس کے دل میں ایک  کرکے اپنے گاؤں ،اپنے شہر ،اپنے دیس اور بڑھتے بڑھتے ساری دھرتی کے آدمیوں کے ساتھ اپنا پن بیٹھنے اور جمنے لگتاہے ۔اسے دوسروں کے بھلے میں اپنی بھلائی اور دوسروں کی بربادی میں اپنی بربادی ،دوسروں کے سکھ میں اپنا سکھ اور دوسروں کے دکھ میں اپنا دکھ دکھائی دینے لگتاہے۔دنیا کے سب دیسوں میں سب آدمیوں کے اس بات کو سمجھ لینے پر ہی دنیا بھر کی سچی شانتی ،سچے امن ،اور سچے سکھ کا دارومدارہے ۔
لیکن مصیبت یہ ہے کہ آدمی کے اندر اس سمجھ کے پیدا ہونے میں بہت دیر لگتی ہے ،خاص کر قوموں اور ملکوں میں اس کا خیال پید اہو نا بہت ہی مشکل ہو تاہے ، اس لئے یہ کھچاتانی مٹ نہیں پا تی اور اس کے جاری رہنے سے دنیا کو بڑے بڑے نقصان پہونچتے رہتےہیں ۔بے چینی بے امنی اور بربادی بڑھ جا تی ہے ،گروہ بندی، کٹ بندی بڑھتی ہے ،اور اتنا ہی سماج کے آتما کے ٹکڑے ٹکڑے ہو نے لگتے ہیں ،جھگڑے بڑھتے ہیں دکھ ،غریبی ،اور بربادی پھیلتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتاہے کہ باہر کے سب لڑائی جھگڑے آدمی کی اس نا سمجھی کا ہی نتیجہ اور اندر کی اس  کھینچا تانی کی ہی  پرچھائیں  ہوتے ہیں ۔اس ناسمجھی کی طرف لو گوں کا دھیان دلانے اور انہیں اس کھینچا تانی کے دور کرنےاورآپس میں مل جھل کر محبت سے رہنے کا صحیح  راستہ  بتانے کا کا م مذہب( دھرم) کرتے ہیں  ۔اس لئے تو علامہ اقبال ؒنے کہاتھا ۔
مذہب نہیں سکھا تا آپس میں بیر رکھنا                                        ہندی ہے ہم وطن ہے  ساراجہاں ہمارا
الغرض اس كے علاوه مذہب کے انسانی زندگی میں اور بہت سے فوا ئد ہیں ان تما م فوائد ،باریکیوں اور نزاکتوں ایک دو تین صفحا ت کے مضمون میں سمیٹنا ناممکن ہے۔۔۔۔۔





صراط مستقیم ارو مضامین کا خزانہ

 السلام علیکم 
دوستوں  ہمارے اس بلاگ پر آپ کو مختلف قسم کے مضامیں پڑھنے ملے گے جو معتدل فکر پر مبنی ہونگے

دور اندیشی

ہندوستانی مسلمانوں کو حکمت عملی بدلنی ہوگی 
ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کبھی بھی مسلمانوں کو ہندوستان میں اتنی کسمپرسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنی کہ آج کل کررہے ہیں، حالات سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمان آج ہندوستان میں کس مقام پہ کھڑے ہیں، ہر شعبے میں ان کی تعداد گھٹ گئی ہے، پارلیامنٹ، پولیس، بیوروکریسی، ویسے تعداد تو پہلے بھی کبھی ان کی مجموعی آبادی کے اعتبار سے مناسب نہیں رہی ہے، لیکن پھر بھی 2014 الیکشن کے بعد مزید کمی آ گئی ہے، رہی سہی کسر بقیہ صوبوں میں بی.جے.پی کی حکومت آنے سے پوری ہوگئی ہے.
اگر اس وقت پورے ہندوستان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ چھوٹے عہدوں سے لے کر بڑے عہدوں تک ہر جگہ سنگھ کے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں، ہندوستان کے لئے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات کیا ہوگی کہ ملک کے سب سے زیادہ معزز اور محترم تینوں اعلی عہدوں پہ بھی انہیں کے لوگ فائز ہیں، یہ سب کیسے ہوا، کیوں ہوا، اس کی پوری الگ داستان ہے، ہاں بنیادی بات صرف اتنی سی ہے کہ کل کی وہ تنظیم جس پہ کبھی پابندی عائد تھی اور جسے پبلک ملک مخالف تسلیم کیا کرتی تھی، وہی آج ملک کے سیاہ وسفید کی مالک اور سب سے بڑی نیشنلسٹ پارٹی ہے.
کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے پر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کا ماحول کافی زہر آلود ہوچکا ہے، یہاں کی فضاؤں میں نفرت گھل چکی ہے، برادران وطن کا آپس میں ایک دوسرے کے تئیں اعتماد اٹھ چکا ہے، اب تو لوگ ٹرینوں میں مرغے کا بھی گوشت لے جاتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں کہ کیا پتہ کب گائے کے گوشت کے نام پہ ان کے ساتھ حادثہ ہوجائے، جانچ کا کیا ہے، وہ تو بعد میں ہوتی ہی رہی گی.

اس طرح کی صورت حال میں مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ آ کھڑا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان کیا کریں، کیا الگ سیاسی پارٹی بنالیں، یا پھر جو قومی اور ملکی سطح کی پہلے سے موجود پارٹیاں ہیں انہیں میں اپنا مستقبل ڈھونڈنے کی کوشش کریں، سوال کا جواب تو تھوڑا سا مشکل ہے، کیونکہ جتنے لوگ ہیں اتنے ہی ان کے آراء ہیں، اور ہر ایک کے پاس اپنے دلائل ہیں، لیکن جہاں تک میرا ماننا ہے وہ یہ ہے کہ اصل چیز پاور ہے، اور یہ پاور جب تک چھوٹے لیول سے لیکے بڑے لیول تک مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہوگا، مسلمان اسی طرح لاچاری اور مجبوری کی زندگی گزارتے رہیں گے.
ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے پاور کا حصول سیاست کے ذریعہ قدرے مشکل ہے،  کیونکہ جیسے ہی مسلمان میدان میں آتے ہیں، نفرت کا بازار گرم ہوجاتا ہے، فرقہ وارانہ سیاست عروج پہ پہونچ جاتی ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں کو نہایت ہی خاموشی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ لانگ ٹرم پلاننگ کی جائے، اور اس پلاننگ کا بنیادی تھیم مسلم بچوں کو بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ اور میڈیا میں پہونچانا ہو، اور یہ کام اس وقت تک کبھی نہیں ہوسکتا ہے جب تک مسلمانوں میں ذمہ داری کا شعور بیدار نہیں ہوگا، ذمہ داری کا احساس ہی انسان کو کچھ کرنے پہ آمادہ کرتا ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ہر شخص کو ذمہ دار قرار دیا ہے، اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں کل قیامت کے دن سوال کئے جانے کے بارے میں بھی بتلایا ہے، یقینی طور پہ ہندوستان میں اپنی شناخت کو نہ صرف تلاش کرنا بلکہ اس کی بقاء کے لئے جد وجہد کرنا بھی تمام مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری (Collective Responsibility) ہے.
یہ بات ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہندوستان میں اصل حکومت بیوروکریٹ ہی چلاتے ہیں، سیاسی چہرے تو صرف مہرے ہوتے ہیں جو وقت وقت پر بدلتے رہتے ہیں، آر.ایس.ایس نے بیوروکریسی پر اپنی پکڑ بنانے کے لئے بہت محنت کی ہے، ادارے اور انسٹیٹیوشنز قائم کئے، بہترین کوچنگ سینٹرز کی بنیاد رکھی، گراؤنڈ لیول پہ کام کیا، ہماری مسلم جمعتیوں یا تنظیموں کی طرح صرف ہوائی باتیں نہیں کیں، اور آج حالت یہ ہے کہ پولیس، بیوروکریسی اور عدلیہ غرضیکہ ہر جگہ انہیں کے افراد بیٹھے ہوئے ہیں، مسلمان کہتے ہی رہ گئے "ان الحکم الا للہ"، کہ صرف اللہ کا ہی حکم چلے گا، بقیہ اس کے سامنے کوئی بھی قانون کوئی بھی دستور نہیں مانا جائے گا، نتیجہ کے طور پہ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو لاء (قانون) کی تعلیم دلائی ہی نہیں، یا جس نے تعلیم حاصل کی بھی، معاشرے نے اس سے بے اعتنائی برتی، یہی وجہ ہے کہ مسلمان سپریم کورٹ، ہائی کورٹس یا دیگر نچلی سطح کے کورٹس میں بطور جج بہت کم ہی دکھائی دیتے ہیں، مسلمانوں کے لئے اس سے زیادہ افسوس کی بات اور کیا ہوگی کہ ان کے خود کے پرسنل لاء کا کیس ایک غیر مسلم لڑتا ہے، جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ تیس کروڑ مسلمان مل کے ایک بہترین وکیل بھی پروڈیوس کرنے کے قابل نہیں ہیں، جو خود ان کے ہی بورڈ کا دفاع کرسکے.
بیوروکریسی، عدلیہ اور میڈیا جمہوریت کے اہم ستون ہیں، اور جب تک مسلمان ان تینوں ستونوں پہ اپنا قبضہ نہیں جمائیں گے، انہیں ہندوستان میں مضبوطی عطا نہیں ہوگی، اگر مسلمان ان تینوں اداروں پہ قابض ہوجائیں جو ایک طریقے سے پالیسی سازی کا کام انجام دیتے ہیں تو یقینا مستقبل بڑا خوشگوار ہوسکتا ہے، ورنہ نوشتئہ دیوار تو پھر کچھ اور ہی ہوگا.
ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس افراد نہیں ہیں، یا مسلمانوں کے بچے پڑھنے والے نہیں ہیں، مگر یہ ایک بہت ہی تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے جو پڑھنے والے بچے ہیں، یعنی جو محنت سے پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر مڈل کلاس طبقے سے یا بالکل غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں، جن کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی ہے کہ وہ بہترین کوچنگ سینٹرز میں ایڈمیشن لے سکیں یا یو.پی.ایس.سی کی تیاری کے لئے کتابیں ہی خرید سکیں، اور پھر گھریلو اور معاشی ہریشانیاں اتنی ہوتی ہیں کہ وہ چاہ کر بھی تیاری نہیں کرپاتے ہیں، حالانکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد، اور زکوة فاؤنڈیشن وغیرہ ایسے بچوں کے لئے کافی مددگار ہیں، مگر پھر بھی یہ ناکافی ہیں، مسلمانوں کو مزید اسی طرز پہ کام کرنے کی ضرورت ہے، زکوة فاؤنڈیشن مشعل راہ ہے، اسی طرز پہ دیگر قسم کے انسٹیٹیوشنز قائم کرنے اور زکوة کے پیسے کو ایک بہتر مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، جو مسلم بچوں کو نہ صرف بیوروکریسی کے لئے تیاری کروائے، بلکہ جیوڈیشری، لاء، میڈیا اور دیگر چیزوں میں بھی اپنے افراد کے داخلے کے لئے کوشش کرے.
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں، بالکل سیاست میں رہیں، بلکہ قومی دھارے سے جڑ کے بھی رہیں، کیونکہ پولیٹکس بھی ضروری ہے، مگر جس طرح ہر شخص کے لئے کچھ Priorities یعنی "اولویات" ہوتے ہیں، ویسے قوموں کے بھی ہوتے ہیں، جب تک ان Priorities کو ایک بہترین فارم میں آرگنائز نہیں کیا جائے گا، قومیں تنزلی کا شکار ہوتی رہیں گے.
ہندوستان میں مسلم قوم بھی تنزلی کا شکار ہے، اس صورتحال میں اس کے لئے لازمی اور ضروری امر ہے کہ وہ اپنے لئے ایک ایسی اسٹریٹجی تیار کرے جو اس کے لئے لانگ ٹرم میں مفید ثابت ہو، اور یہ اسٹریٹجی اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان تعلیم کے ذریعہ ہندوستانی دھارے کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کریں، اور یہ کوشش اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ سیاست ایک بے ہنگم چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں، اس میں ہر پانچ سال پہ تقدیریں بدل جایا کرتی ہیں، جب کہ دیگر اداروں یا محکموں میں ایک مرتبہ داخل ہونے کے بعد پھر رٹائرمنٹ کے ذریعہ ہی نکلنا ممکن ہے، ہاں تبادلہ، ٹرانسفر یا کچھ دنوں کے لئے معطلی کی بات الگ ہے.
ایک آخری بات جو کہنی بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تحفظ شریعت یا تحفظ ملک و ملت وغیرہ ناموں سے جو دھرنے اور پروٹسٹ آرگنائز کئے جاتے ہیں ان سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ کہیں نہ کہیں سنگھ ہی کو فائدہ پہونچاتے ہیں، اس کے بالمقابل میرا ماننا یہ کہ ظالم کا مقابلہ سیکولر فریم ورک کے ذریعہ کیا جائے، میں جب رعنا ایوب، رویش کمار، تیستا سیتلواد، وغیرہ کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ عدم تشدد ہندوستانیوں کے خمیر میں شامل ہے، حکومتیں اپنی مفاد کے لئے کتنا ہی ظلم کیوں نہ کریں، سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست کے لئے ملک کو کتنا ہی زہر آلود کیوں نہ بنا دیں، مگر ہمیشہ ہندوستان میں ایک قسم کی سول سوسائٹی موجود رہے گی جو ہم مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرتی رہے گی، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان آوازوں کو دبنے نہ دیں، ان پر کمزوری کا غلبہ نہ ہونے دیں، بلکہ ان آوازیں میں اپنی آوازیں بھی شامل کریں، اور انصاف کی لڑائی مل کے لڑیں، کیونکہ جب بھی ہم تنہا اپنے حقوق کے لئے آگے آئیں گے تو میڈیا کا ایک سیکشن ایسا بھی ہوگا جو اسے کمیونلائز کرنے کی کوشش کرے گا، اس لئے بہتر ہے کہ ہم ہر لڑائی ان لوگوں کے ساتھ مل کے لڑیں جو ہماری حمایت میں آگے آتے ہیں، یہ لوگ انتہائی تاریک راتوں میں امیدوں کے چراغ ہیں، اور ان چراغوں کی حفاظت کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے

طلبائے مدارس کیلئے ایک فکر انگیز پیغام

     
            کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد  بھی ساتھ ؟


مولانا   خالد سیف اﷲ رحمانی
مدارس کے فارغین کو عصری تعلیمی اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے عصری علوم کو حاصل کرنا چاہئے یا نہیں ؟ اس میں علماء و اربابِ دانش کے درمیان فکر و نظر کا اختلاف پایا جاتا ہے ، ایک گروہ کا خیال ہے کہ دینی مدارس کے فارغین کو عصری دانش گاہوں میں شریک نہیں ہونا چاہئے ، اِس کے دو نقصانات ذکر کئے جاتے ہیں ، ایک یہ کہ اس سے دینی خدمت کے میدان میں افراد کم ہوجائیں گے اور مدارس کا جو بنیادی مقصد ہے وہی حاصل نہیں ہوسکے گا ، دوسرے : جب مدارس کے یہ فارغین عصری درسگاہوں میں جائیں گے تو وہ وہاں کے ماحول سے متاثر ہوجائیں گے ، اُن کی وضع قطع تبدیل ہوجائے گی اور وہ اصل ڈگر سے ہٹ جائیں گے ، یہ دونوں باتیں بے اصل نہیں ہیں ؛لیکن موجودہ حالات میں طلبہ کی اتنی بڑی تعداد مدارسِ اسلامیہ سے فارغ ہورہی ہے کہ اُن کو جگہ نہیں مل پاتی ؛ بلکہ بعض دفعہ تو غول کا غول بڑے شہروں میں ملازمت کی تلاش میں مدرسوں اور مسجدوں کا چکر لگاتا ہوا نظر آتا ہے اور جب جگہ فراہم نہیں ہوتی ہے تو سخت مایوسی کا شکار ہوتا ہے ، اُن میں سے کچھ تو چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگ جاتے ہیں ، کچھ ہمت ہارکر بے دلی کے ساتھ کمیٹیوں کے تحت ایک طرح کی غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور کچھ اور — جو کسی قدر ذہین و باصلاحیت ہوتے ہیں — بے ضرورت مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں ، بچوں کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ اگر ایسے دس مدرسوں کو جمع کردیا جائے تب بھی طلبہ کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوسکے ، گذشتہ دنوں مجھے ایک ایسے شہر جانے کا موقع ملا جہاں چھ سات منزلہ بلڈنگ تھی اور اس میں سے ایک ایک منزل میں تین مدرسے قائم تھے ، ظاہر ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر قائم ہونے والے یہ مدارس اُمت پر بوجھ ہیں اور بہت سی دفعہ یہ مدارس کے بارے میں بدگمانی کا سبب بھی بنتے ہیں ؛ اس لئے آج سے تیس چالیس سال پہلے تک تو یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ اگر مدارس کے فضلاء دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے تو دینی خدمت گذاروں کی کمی ہوجائے گی ؛ لیکن اب یہ صورت حال نہیں ہے ، رہ گیا دیہاتوں میں معلمین کا دستیاب نہیں ہونا تو یہ علماء کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے ؛ بلکہ اس لئے ہے کہ دیہاتوں میں سہولتوں کے مہیا نہ ہونے ، حق الخدمت کے ناقابل بیاں حد تک کم ہونے اور خود فضلاء میں داعیانہ جذبہ مفقود ہونے کی وجہ سے علماء و ہاں جانے کو تیار نہیں ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عصری دانش گاہوں میں جانے والے بہت سے فضلاء مدارس اپنی اس پہچان کو قائم نہیں رکھ پاتے ، جو مدرسہ کی تعلیم و تربیت کی بنیاد پر انھیں حاصل ہوئی تھی ؛ لیکن اس سلسلہ میں خود مدارس کو غور کرنا چاہئے کہ اُن کے طریقہ تعلیم و تربیت میں کیا کمی ہے کہ وہ اپنا رنگ دوسروں پر ڈالنے کے بجائے خود دوسروں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں ؛ حالاںکہ جو نوجواں دینی جماعتوں اور تحریکوں سے مربوط ہوتے ہیں وہ بہت جلد اپنے فکر و عمل میں اس درجہ پختہ ہوجاتے ہیں کہ ان پر مخالف ماحول کی کوئی آنچ نہیں آتی ، دوسرے : اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ عصری تعلیمی اداروں میں بھی ایسے اہل علم کی ضرورت ہے ، جو دین سے واقف ہوں ، اِس کی ضرورت پرائمری سطح سے لے کر یونیورسیٹیوں تک ہے ، اگر مدارس کے فضلاء کو اس میدان میں خدمت کا موقع مل جائے خواہ سرکاری ادارے ہوں یا پرائیوٹ ، تو ان کی تعلیم و تربیت طلبہ پر بہتر اثر ڈالتی ہے ، ہندوستان کی بعض یونیورسیٹیوں میں آج سے پچاس سال سے پہلے کمیونسٹ اور بے دین اساتذہ کا غلبہ تھا ، اسلامک اسٹیڈیز میں ایسے اساتذہ اسلامیات پڑھاتے تھے جو برملا قرآن و حدیث کا انکار کرتے تھے اور اسلام کے بارے میں طلبہ کے ذہن میں زہر گھولتے تھے ؛ لیکن گذشتہ کم از پچیس سالوں سے یہ صورت حال بدل چکی ہے اور اب عصری جامعات میں مدارس کے علماء نمایاں مقام حاصل کررہے ہیں ، یہاں تک کہ بعضوں نے آئی ، اے ، ایس اور آئی ، پی ، ایس بننے میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں ، ان میں سے بعض تو اپنی دینی وضع قطع کے ساتھ مخالف ماحول میں خدمت کررہے ہیں اور بعض وہ ہیں جو اگرچہ اپنی اس روایتی شناخت پر قائم نہیں رہ سکے ؛ لیکن کم سے کم ان کی وہ سوچ باقی رہی ، جو وہ مدارس سے لے کر گئے تھے ، اس کے نتیجے میں اِلحاد اور بددینی کی فضا دور ہوئی ، آج مختلف اقلیتی یونیورسیٹیوں میں اِس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں ، جو لوگ اتنے کمزور کردار اور کوتاہ فکر کے حامل ہوں کہ عوام کی ناک کی طرح اُن کی شکل بدلتی رہتی ہو ، اگر عصری اداروں میں نہ جائیں اور مدرسہ و مسجد کے علاوہ زندگی کے کسی اور شعبہ چلے جائیں ، تب بھی ان کا یہی رویہ سامنے آتا ہے ۔
اس لئے دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مدارس کے فضلاء کو دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی سہولت کے لحاظ سے عصری تعلیمی اداروں سے بھی استفادہ کی کوشش کرنی چاہئے ، خود تحریک مدارس کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے سر سید احمد خاں مرحوم کو خط لکھا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ مدرسہ عربیہ دیوبند سے تعلیم حاصل کرکے طلبہ علی گڑھ جائیں نیز آپ نے سرسید احمد خاں کی خواہش پر اپنے داماد عبد اللہ انصاری کو شعبہ دینیات کے ذمہ دار کی حیثیت سے وہاں بھیجا تھا ؛ اِس لئے معتدل رائے یہی ہے کہ جن فارغین مدارس کو فراغت وقت میسر ہو ، مالی استطاعت ہو اور مزید حصولِ علم کی پیاس ہو تو وہ اِس نیت سے عصری تعلیمی اداروں سے استفادہ کریں کہ وہ اِسے کسب ِمعاش کے ساتھ ساتھ کسب ِمعاد کا اور خدمت ِدنیا کے ساتھ ساتھ خدمت ِدین کا بھی ذریعہ بنائیں گے ۔
اِدھر کچھ عرصہ سے مدارس کے فضلاء مزید حصولِ تعلیم کے لئے عصری جامعات کا رُخ کررہے ہیں ، عام طورپر ان کا داخلہ شعبہ اسلامک اسٹیڈیز ، شعبہ عربی اور شعبہ اُردو میں لیا جاتا ہے اور اپنے سابقہ تعلیمی پس منظر کی وجہ سے وہ اِن شعبوں میں امتیازی مقام حاصل کرتے ہیں ، بعض اوقات یہ اُن کے لئے روزگار کا وسیلہ بھی بن جاتا ہے اور اس سے خود اُن کی ذات اور خاندان کو فائدہ پہنچتا ہے ؛ لیکن اُن کی یہ تعلیمی کاوش اسلام اور مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ، اگر اُن کا داخلہ دوسرے تعلیمی شعبوں جیسے قانون ، معاشیات ، میڈیا ، تاریخ وغیرہ میں ہونے لگے تو اس سے اُن کو بھی فائدہ ہوگا اور قوم و ملت کو بھی ، وہ اِن شعبوں میں اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی کرسکیں گے ، جو غلط فہمیاں اسلام کے خلاف پھیلائی جارہی ہیں ، اُن کو دُور کرسکیں گے اور آئندہ اگر انھیں اِن ہی شعبوں میں تدریس کا موقع مل گیا تو وہ ایک بصیرت مند مسلمان قانون داں ، مسلمان صحافی اور مسلمان ماہر معاشیات وغیرہ تیار کرسکیں گے ، یہ یقینا ایک بڑا کام ہوگا ؛ لیکن یہ فضلاء اِن شعبوں میں کس طرح داخلہ لیں اور ان نامانوس مضامین کو کیوںکر پڑھیں ؟ اُس کے لئے برج کورس کا ایک طریقہ کار سوچا گیا ، اب حکومت مختلف اقلیتی یونیورسیٹیوں میں ایسے برج کورس کا راستہ کھول رہی ہے ؛ تاکہ مدارس کے فضلاء کو خصوصی تعلیم و تربیت کے ذریعہ دوسرے شعبوں میں داخلہ کے لئے تیار کیا جائے اور وہ امتحان پاس کرکے اِن شعبوں میں داخل ہوں ، یہ ایک بہتر قدم ہے اور اگر اِس کا صحیح استعمال ہوتو اس کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
چنانچہ ملک کی پہلی اقلیتی یونیورسٹی ’’ مسلم یونیور سٹی علی گڑھ ‘‘ —جس کی ایک روشن تاریخ اور تعلیمی خدمت کا زبردست ریکارڈ ہے — نے بجاطورپر ’ برج کورس ‘ کے قیام میں پیش قدمی کی اور وہاں مدارس کے فضلاء داخلہ لینے لگے ، جو لوگ دینی وعصری تعلیم کے امتزاج کے سلسلے میں معتدل فکر رکھتے ہیں اور وسیع اُفق میں اسلام کی ترجمانی اور نئی نسل کی تربیت اور ذہن سازی کے بارے میں سوچتے ہیں ، ان کے لئے یقینا یہ خبر بڑی خوش آئند تھی ؛ لیکن افسوس کہ بقول علامہ اقبالؒ :
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب ِخنداں سے نکلی جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
میں سمجھتا تھا کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما

لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ
بجائے اِس کے کہ دین دار ماہرین فن کے ذریعہ اِن فضلا کی تعلیم و تربیت کی جاتی ، وہاں ایک ایسے صاحب کو اِس کام پر مامور کردیا گیا جن کا نام ’’ شاذ ‘‘ ہے اور جو واقعی اسم بامسمیٰ ہیں ، ان کی فکر ’ الف ‘ سے ’ ی ‘ تک شذوذ ، تفرد ، توارت سے بغاوت اور سلف ِصالحین کے مسلمات سے انکار بلکہ اُن کی بے توقیری پر مبنی ہے ، اِس کی تفصیل یہ ہے کہ دین کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت ِرسول پر ہے ، قرآن مجید متن ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے اور حدیث پیغمبر کی زبان اور عمل سے قرآن مجید کی تشریح ہے ، خود قرآن نے آپ کے شارحِ قرآن ہونے کی حیثیت کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا ہے ’’ وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیَّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ‘‘ ( النحل : ۴۴) اور پھر آپ کی یہ تشریحات آپ کی طرف سے نہیں ہیں ؛ بلکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں ؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کے بیان کی ذمہ داری بھی لی ہے : ’’ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ‘‘( القیامۃ : ۲۰) تو قرآن ہی کی طرح بیان قرآن یعنی حدیث بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے ، اسی لئے ارشاد فرمایا گیا : ’’ کہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں ، اپنی طرف سے نہیں فرماتے ؛ بلکہ وحی الٰہی کی بناپر فرماتے ہیں : ’’ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ ، اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘(النجم : ۳-۴) یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ جو کچھ تلاوت کرتے ہیں ، وہ اللہ کی وحی کی بناپر ، اگر ایسا کہا جاتا تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ صرف قرآن اللہ کی طرف سے ہے ، جس کی تلاوت کی جاتی ہے ؛ بلکہ فرمایا گیا کہ آپ جو کچھ بھی بولتے ہیں ، یہ سب اللہ کی طرف سے وحی ہے ، خواہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر الفاظ اُتارے ہوں جیساکہ قرآن مجید ہے ، یا اللہ تعالیٰ نے آپ ا کے سینے پر اپنی مرضیات کا القا کیا ہو اور آپ نے اُس کو اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہو ، جیساکہ حدیثیں ہیں ؛ اسی لئے حکم ربانی ہو ا کہ رسول جو کچھ بھی عطا فرمائیں ، اُسے قبول کرو اور جن باتوں سے بھی روک دیں ، اُن سے بچو ، خواہ یہ حکم اور ممانعت قرآنِ کریم مذکور ہو یا نہ ہو: ’’ مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْ‘‘ ( الحشر : ۷) اِس لئے یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید کے بیشتر احکام پر رسول اللہ ا کی وضاحتوں کو نظر انداز کرکے عمل نہیں کیا جاسکتا ۔
آپ ا نے دین کی وضاحت اپنے قول سے بھی فرمائی ہے اور عمل سے بھی ، جن لوگوں نے آپ کے اقوال کو اپنے کانوں سے سنا ہے ، اور جن باتوں کو سمجھنے میں دشواری ہوسکتی تھی ، اُن کے بارے میں استفسار کیا ہے ، نیز آپ کے ایک ایک عمل کو سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے اور آپ کی خاموشی سے کسی قول یا فعل پر آپ کی رضامندی کو محسوس کیا ہے اور پھر قرآن مجید اور رسول اللہ ا کے فرمودات و معمولات کو لوگوں تک پہنچایا ہے وہ ہیں اصحابِ رسول ، اُن کے ارشادات حدیث کے لئے شرح و وضاحت کا درجہ رکھتے ہیں اور گویا حدیث رسول ہی کا ایک حصہ ہیں ؛ اِسی لئے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے بعد بہت سارا اختلاف دیکھوگے ، اُس وقت وہ لوگ حق پر ہوں گے ، جنھوںنے میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ اختیار کیا ہوگا : ’’ ما انا علیہ واصحابی‘‘ (ترمذی ، ابواب الایمان ، حدیث نمبر : ۲۶۴۱) نیز آپ کا ارشاد ہے کہ تم اُس طریقے کو اختیار کرو ، جو میرا اورمیرے خلفاء راشدین کا ہے ، ’’ علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ (ترمذی ، ابواب العلم ، حدیث نمبر : ۲۶۷۲) اِس طرح کتاب اللہ ، سنت ِرسول اور صحابہ کے وہ اقوال جو صرف اُن کے اجتہاد پر مبنی نہ ہوں اور جن میں عقل و قیاس کا دخل نہ ہو ، ایک اکائی کا درجہ رکھتے ہیں ، اِن میں سے ایک پر دوسرے کو چھوڑ کر مکمل عمل ہو نہیں سکتا ، نہ قرآن پر پورا پورا عمل کیا جاسکتا ہے ، اگر حدیثیں نظر انداز کردی جائیں ، اور نہ منشاء نبوی کو پوری طرح سمجھا اور عمل میں لایا جاسکتا ہے ، اگر صحابہ کی توضیحات سے صرفِ نظر کرلیا جائے ۔
قرآن و حدیث میں بعض اُمور کو اِس درجہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اُن کا ایک ہی معنی متعین ہے ، عام طورپر اُن کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ؛ لیکن کچھ احکام ایسے الفاظ میں دیئے گئے ہیں ، جن میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہے ، ایسے مسائل میں بعض وہ ہیں جن پر خود اُمت کا اتفاق ہے ، اِس اتفاق کو اصطلاح میں ’ اجماع ‘ کہتے ہیں ، یہ بھی شریعت کی ایک اہم دلیل ہے ؛ کیوںکہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ میری اُمت کسی غلط بات پر مجتمع نہیں ہوسکتی : ’’ لا یجتمع أمتی علی ضلالۃ‘‘ (ترمذی ، ابواب الفتن ، حدیث نمبر : ۲۱۶۷) اور یہ بات عقل میں بھی آتی ہے کہ کسی بات پر تمام اہل علم کا متفق ہوجانا کسی بنیاد و دلیل کے بغیر نہیں ہوسکتا ؛ اس لئے یہ بھی دین میں حجت ہے اور اس سے آیات و احادیث کی غلط معنی آفرینی ، دور اذکار تاویل اور ہوا ہوس پر مبنی تشریح کا دروازہ بند ہوتا ہے ۔
کتاب و سنت ، آثار صحابہ اور اُمت کی اجماعی و اتفاقی آرا کو سامنے رکھ کر اور جن آیات و احادیث میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال تھا ، یا رسول اللہ ا کے مختلف افعال کا موقع و محل واضح نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر تعارض تھا ، یا اُن کا صریحاً کتاب و سنت میں ذکر نہیں ہے اور غور و فکر کی مختلف جہتیں اُن کے سلسلہ میں موجود ہیں ، اُن سب کو سامنے رکھتے ہوئے اُمت کے معتبر ، بالغ نظر ، خشیت ِالٰہی سے مامور مخلص اور دیدہ ور علماء نے عام مسلمانوں کی سہولت کے لئے زندگی کا پورا نظام مرتب کیا اور جن مسائل کا تعلق اعتقادات و ایمانیات سے تھا ، اُن کو علم کلام کا نام دیا گیا اور اُن سے شغف رکھنے والے متکلمین کہلائے ، اور عملی زندگی کے احکام و قوانین کو ’’ فقہ ‘‘ کا نام دیا گیا اور اس کی خدمت کرنے والے فقہاء کہلائے ، نیز جن لوگوں نے قرآن و حدیث کی اخلاقی تعلیمات اور تزکیہ نفوس سے متعلق اُمور کو جمع کیا اور اُن کو سامنے رکھ کر افراد کی تربیت کی ، اُن کو صوفیاء کہا گیا اور اُن کے اس علم کو ’’ تصوف ‘‘ کا نام دیا گیا ، اس میں شبہ نہیں کہ تصوف میں بعد کے دین ناآشنا لوگوں نے بعض عجمی تصورات و رواجات کو اپنا لیا ، جو درست نہیں ہے ؛ لیکن بہتر حال وہ اپنی اصل کے اعتبار سے اسلامی اخلاق ہی کی مرتب شکل ہے اور اسی لئے اِس کو ’’ علم الاخلاق‘‘ بھی کہتے ہیں ؛ لہٰذا کلام ، فقہ اور بدعات و بے جا رسومات سے پاک تصوف دراصل قرآن و حدیث ہی کی عملی صورت گری سے عبارت ہے ، یہ ایک ایسی مرتب اور منضبط شکل ہے کہ اُس کے ذریعہ دین کے تمام شعبوں پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے ۔
جناب راشد شاذ صاحب بہ مشکل قرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے کا اقرار کرتے ہیں ؛ لیکن حدیث رسول کے منکر ہیں ، صحابہ کے اقوال و افعال کی اُن کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ، اُمت کے اجماع اور اتفاق کو حجت ماننا اُن کے نزدیک ایک غلط مفروضہ ہے اور جب دین کے یہ بنیادی ماٰخذ اُن کی نظر میں غیر معتبر اور ناقابل تسلیم ہیں تو ظاہر ہے کہ علم کلام ، فقہ اور تصوف کا ان کے یہاں کیا گذر ہوگا وہ تو اُن کی نظر میں دریا بُرد کردیئے جانے کے لائق ہے ، اس لئے وہ اپنی کتابوں میں قدم قدم پر ایمان و عقیدہ کی تشریح کرنے والے متکلمین ، قرآن مجید کی شرح ووضاحت کا فریضہ ادا کرنے والے مفسرین ، اجتہاد و استنباط کے ذریعہ عملی زندگی سے متعلق احکام مرتب کرنے والے فقہاء نیز صوفیا اور سلف صالحین کا استہزا کرتے ہوئے خوب محظوظ ہوتے ہیں ، اُن کو مطالعہ تاریخ بھی انھیں یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں سب سے بُری قوم مسلمان ہیں ، اِس اُمت کی بد اعمالیاں ، بد اطواریاں اور کوتاہیاں اُن کی نگاہوں کے سامنے اِس طرح ہیں کہ گویا دوپہر کی دُھوپ ؛ لیکن اس اُمت کی اخلاقی خوبیاں اور اُن کے علمی و فکری کارنامے ان کی نظر میں اتنے کم ہیں کہ دور بیں کی آنکھوں سے بھی نظر نہیں آئیں ۔
یہ جو میں نے عرض کیا کہ وہ قرآن کے کتاب ِالٰہی ہونے کا بمشکل اقرار کرتے ہیں ، یہ ’’ بمشکل ‘‘ کا لفظ بے وجہ نہیں ہے ، وہ قرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تشریح و تفسیر میں ایسی بے جاتاویل و توضیح کی راہ اختیار کرتے ہیں ، جو گذشتہ چودہ سال کے عرصہ کے سلف صالحین کی تشریح سے یکساں مختلف ہے ، قرآن مجید ابدی کتاب ہے اور قیامت تک کی انسانیت کی ہدایت کے لئے ہے ؛ لیکن شاذ صاحب کی خنجر بے داد سے قرآن مجید کی یہ حیثیت بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور وہ قرآن کے بعض احکام کو رسول اللہ ا کے عہد کے لئے مخصوص مانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اب یہ احکام تبدیل کردیئے جائیں ، جیسے قرآن نے بیٹیوں کے مقابلہ بیٹوں کا حصہ دوہرا رکھا ہے ؛ کیوںکہ خاندان کی ساری مالی ذمہ داریاں بیٹوں پر رکھی گئی ہے اور بیٹیوں کو اُن سے فارغ رکھا گیا ہے ، شاذ صاحب کا خیال ہے کہ اب دونوں کا حصہ برابر کردینا چاہئے ، گویا قرآن کو بھی وہ اس کے دوام و استمرار اور آفاقیت کے تصور کے ساتھ نہیں مانتے ؛ چوںکہ مسلم سماج میں رہتے ہوئے اور اسلام کا نام پر لے کر قرآن مجید کا سِرے سے انکار ممکن نہیں تھا ؛اس لئے انھوںنے بہ تکلف اس کے کتاب ِالٰہی ہونے کا اقرار تو کرلیا ؛ لیکن یہ بھی اُن کے لئے کڑوا گھونٹ ہے جو اُتارے حلق سے نہیں اُترتا ، اِس سلسلہ میں اُن کی کتاب ’’ ادارکِ زوالِ اُمت‘‘ نہایت گمراہ کُن کتاب ہے اور فکری شذوذ و انحراف کی ایک افسوس ناک مثال ہے ، جو اُمت کو الحاد ، مذہب بیزاری اور خدابیزاری کی طرف لے جاتی ہے ، افسوس اور بالائے افسوس یہ بات ہے کہ کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے مدارس اسلامیہ کے ’’ برج کورس ‘‘ کے لئے ایسے شخص کو ذمہ دار مقرر کیا ہے ، جن کی دینی و عصری تعلیم کے درمیان پل بننے کی اُمید تو کم ہی ہے ؛ لیکن اس بات کا پورا پورا اندیشہ ہے کہ یہ شعبہ اسلامی اقدار اور دینی مسلمات سے انکار کے درمیان ضرور پل بن جائے گا ، اور یہ اندیشہ واقعہ کی جو صورت اختیار کررہا ہے ، جیساکہ اس شعبہ کے فارغین کی تحریری نمونوں سے معلوم ہوتا ہے ۔
یونیور سٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے نام پر ایسی اسلام مخالف حرکتوں کو روکے ، اور مدارس کا فریضہ ہے وہ اپنے فضلاء کو حقیقی صورت حال سمجھائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سونا سمجھ کر بے قیمت پیتل خرید کرلیں ، نیز خود فضلا کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی تحریک سے متاثر نہ ہوں ، اس حقیر نے جب اخبار میں دیکھا کہ مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی میں بھی برج کورس شروع ہونے جارہا ہے تو دل کانپ اُٹھا کہ کہیں یہ شاذ صاحب کے ایجنڈے کی توسیع تو نہیں ہے اور میں نے مانو کے محترم وائس چانسلر سے اس موضوع پر گفتگو بھی کی ، مجھے بڑی خوشی ہے کہ انھوںنے اِس حقیر کے نقطۂ نظر کو قبول کیا اور کہا کہ یہاں ہرگز ایسا کچھ نہیں ہوگا ، خدا کرے دوسری اقلیتی یونیورسیٹیاں میں اس کو پیش نظر رکھیں ، اگر ایک شخص شراب کہہ کر شراب بیچے تو ہمیں ایک جمہوری ملک میں اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ؛ لیکن اگر شراب کو شہد کہہ کر بیچا جائے تو سچائی کا اظہار اور حقیقت کی وضاحت ضروری ہے ؛ کیوںکہ یہ ایک دھوکہ ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ کوئی شخص پوری اُمت کو اپنے دھوکہ کا شکار بنادے ، اوربالخصوص ایسی صورت میںکہ یہ کسی شخص کے ذاتی افکار کا مسئلہ نہیں رہ گیا ہے ؛ بلکہ ایک ایسی دانش گاہ — جسے مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے پالا ہے ، اس کے اقلیتی کردار کو بچاے کے لئے زبردست جدوجہد کی ہے اور آج بھی اس کا یہ کردار داؤپر لگا ہوا ہے — کو ایسے نادرست افکار کے رنگ میں رنگنا ملت ِاسلامیہ کی گرانقدر کوششوں کے ساتھ بے وفائی ہے ، اس پس منظر میں یہ سطور لکھی گئی ہے ، وما ارید الاصلاح واﷲ ھو المستعان

دیوبندیت کس کا نام ہے

تھوڑا دیوبندیت کو دیکھتے ہیں آخر یہ ہیں کون۔۔؟؟؟
‏‏1857 کی انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں علماء و مجاہدین کی قیادت کرنے والا اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ علماء کے مرشد کا لقب پانے والا حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ دیوبندی تھا
برصغیر میں شرک و بدعت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں توحید و سنت کا علم لہرانے والا بانی دارالعلوم دیوبند قاسم نانوتویؒ دیوبندی تھا
 ‏انگریز کے اقتدار کے خلاف حضرت نانوتوی کی قیادت میں پہلی عسکری کاروائی کے دوران شہید ہونے والا پہلا مجاہد حافظ محمدضامنؒ دیوبندی تھا
کفر و دجل اور عیسائیت کا سرخم کرنے والا فقہیہ امت رشید احمد گنگوہیؒ دیوبندی تھا
انگریز کو کتے کی طرح دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کرنے والا اورتحریک ریشمی رومال کی قیادت و راہنمائی کرنے والا گلستان دیوبند کا پہلا پھول حضرت شیخ الہند محمود حسنؒ دیوبندی تھا
وطن سے بہت دور جزیره مالٹا میں طویل مدت تک پس دیوار زنداں رہنے والے
شیخ الہندؒ حسین احمد مدنیؒ مولانا عزیز گلؒ و دیگر احبابؒ دیوبندی تھے
عقائد و نظریات اسلامی کے مقابلے میں کفر و شرک کو مات دینے والا مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ دیوبندی تھا
‏رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور کی دیوار کے سائے میں 18 سال احادیث شریف پڑھانے والا سیدنا حسین احمد مدنیؒ دیوبندی تھا
امت کی صراط مستقیم پر رہنمائی کے لیے تصانیف کے انبار لگانے والا حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ دیوبندی تھا
‏ختم نبوت کے منکر جھوٹےمدعی نبوت مرزا قادیانی کوذلیل و رسوا کرکے اس کے کفر کو طشت از بام کرنے والا
انور شاہ کاشمیریؒ دیوبندی تھا
تحریک ختم نبوت میں لاہور کی سڑکوں پر  دس ہزار لوگوں کی قربانی دینے والوں کی قیادت کرنے والاعطا اللہ شاہ بخاریؒ دیوبندی تھا
افغانستان کی سرزمین پر خلافتِ راشدہ کا نمونہ پیش کرنے والا ملا عمر مجاہد دیوبندی تھا
اسلام کا پیغام دنیا میں کونے کونے تک پہچانے والی تبلیغی جماعت کا بانی مولانا الیاسؒ دیوبندی تھا
فضائل اعمال لکھ کر عام مسلمانوں میں نیک اعمال کی رغبت پیدا کرنے والا شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلویؒ دیوبندی تھا
قومی اسمبلی میں قادیانیت کے خلاف معرکتہ آراء مقدمہ لڑ کر سرخرو ہونے والا مفتی محمودؒ دیوبندی تھا
غالی رافضیت کے کفر کو برسرِعام برہنہ کرنے والا حق نواز جھنگوی دیوبندی تھا

مقالہ نگاری کے اصول

پی ایچ ڈی مقالہ نگار سکالرز کی عمومی غلطیاں
بالعموم یہ باور کیا جاتا ہے کہ کوئی بات محض حوالہ جات سے لکھ دینا تحقیق ہے. اپنی تحقیق کو زیادہ وقیع بنانے کے لیے عام طور پر سکالرز ایک بات کو مختلف مراجع سے انہیں کے الفاظ میں بار بار لکھتے ہیں اور اسے تحقیق سمجھتے ہیں مثلاً ابن حجر لکھتے ہیں أمام ابن کثیر ابن تیمیہ کے شاگرد تھے
دوبارہ یہ بات صفدی کے الفاظ میں تیسری بار یہی بات ابن تغری بردی کے الفاظ میں اور چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں بار یہی بات ہر دفعہ مختلف حوالے سے پورے صفحہ ڈیڑھ پر یہی ایک بات دھرائی جاتی ہے اور الگ الگ کتابوں کے حوالے دے کر سمجھا جاتا ہے کہ تحقیق ہو گئی ہے.
یہ احمقانہ طریقہ ہے. درست طریقہ یہ ہے کہ یوں لکھیں
تمام مستند مآخذ اس امر پر متفق ہیں کہ ابن کثیر نے ابن تیمیہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا
اور نیچے حاشیہ میں مآخذ کا حوالہ دے دیں

خریداری کے بہترین اصول

سستی خریداری کیسے کریں..."
از شیخ ادریس ندوی
محترم ابا عائش  صاحب نے پوچھا
"مردوخواتین میں سے سستی خریداری کون کرتاہے"
گزارش ہے کہ
مردو خواتین میں سستی خریداری وہ کرتاہے جوعموما خریداری کرتارہتاہے یعنی جس کاتجربہ زیادہ ہو
سستی خریداری کرنےکی بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ کوعام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں اور معیار کاکچھ نہ کچھ علم ضرور ہو
اگرآپ خریداری کرنانہیں جانتے توچندچیزوں کاخیال ضرور رکھیے جویقیناآپ کےلیے کسی نہ کسی درجے میں مفید ثابت ہوسکتی ہیں

* کوشش کیجیے کہ خریداری ایسی دکان سے کریں جہاں "ایک دام(فکس پرائز)" ہو ایسی دکانوں پرعمومامنافع کی شرح بہت مناسب ہوتی ہے,

* کوئی بھی چیز خریدنےسے قبل دوتین دکانوں سے مطلوبہ چیز کی قیمت ضرور معلوم کرلیں اس سے آپ کی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا,خریداری کاتجربہ بھی بڑھے گا اور مارکیٹ میں آپ کاتعارف بھی ہوجائے گا  اور قیمتوں کےبارے میں معلومات بھی بڑھیں گی,

* خریداری کےلیے بڑے مالز یابڑی بڑی اور ظاہری چمک دھمک والی دکانوں کی بجائے عام دکانوں کی ترجیح دیجیے بشرطیکہ ان کامعیاراچھاہو
بڑی دکانوں کےاخراجات بہت ہوتے ہیں اور شہرکا مالدارطبقہ ان کارخ کرتاہے جس وجہ سے ان کےمنافع کی شرح عام دکانوں سے زیادہ ہوتی ہے,

*جن دکانوں سے عموما خریداری کرتے ہیں ان دکانداروں کی نفسیات اور ڈیلنگ کےطریقہ کار سے واقفیت کی کوشش کیجیے اور معاملہ اسی کو مدنظر رکھ کر کریں،

* ہمیشہ اچھے معیار کوترجیح دیجیے
اس کی قیمت  کچھ زیادہ ضرور ہوتی ہے لیکن بار بار خریدنےسے جان چھوٹ جاتی ہے اور مالی اوسط سستی چیز کےبرابر پہنچ جاتی ہے,

* اگر آپ کسی واقف کارسے خریداری کرتے ہیں توایک مرتبہ بازار کی قیمتیں ضرور معلوم کریں ممکن ہے وہ آپ کےتعلق یاسادگی کاناجائزفائدہ اٹھارہاہو
قیمتیں معلوم کرنےکابہترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے چیزلیں کہ یہ گھرپسندکروالوں پھربازار میں دکھاکراس کاریٹ معلوم کرلیں دودھ کادودھ پانی کاپانی ہوجائےگا,

*اگرآپ شادی وغیرہ کی خریداری کرنےجارہےہیں تودکاندار کویہ کبھی مت کہیں کہ"شادی کاسامان لیناہےذرااچھےوالادکھانا" آپ کایہ ایک جملہ اس کی قیمت میں پچاس فیصد تک اضافہ کردےگا,

* خریداری کےلیے اچھامعیار رکھنےوالےچھوٹے دکانداروں کونسبتا ترجیح دیں ایک تووہ آپ کوچیزمناسب قیمت پردیں گے دوسراان کےساتھ آپ کاتعاون بھی ہوجائے گا یہ لوگ سرمایہ دارنہیں ضرورت مندہوتے ہیں اور ضرورت مندوں کامنافع حسب ضرورت ہوتاہے,

خریداری کےلیے ایسی جگہ کوترجیح دیں جہاں ایک چیز کی کئ کئ دکانیں ایک ساتھ ہوں
ایسی جگہوں پر ہمیشہ مقابلہ بازی کی فضاہوتی ہے اوردکاندار چاہ کربھی زیادہ منافع نہیں رکھ پاتا کیونکہ گاہک کےساتھ والی دکان پرچلےجانےکاڈرلاحق رہتاہے اور اکثراوقات چیز انتہائی کم منافع پرمل جاتی ہے،

*کوئی چیز پسندآجانےپر دکاندار کےسامنے اطمینان اور خوشی کااظہار کبھی مت کریں اس سے دکاندار کم منافع پرسمجھوتے کوتیارنہین ہوتا کیونکہ اسے معلوم ہوتاہےکہ گاہک کےمطمئن ہوجانےپرفروخت کےنوے فیصد چانس بڑھ جاتے ہیں اور گاہک کوغیرمطمئن دیکھ کردکاندار کم سےکم ریٹ لگاتاہے...!!

تصانیفِ مولاناالطاف حسین حالی

تصانیفِ   مولاناالطاف حسین حالی  
الطاف حسین حالی کی تمام تر تصانیف مندرجہ ذیل ہے
1.   تریاق مسموم
2.   طبقات الارض
3.   مسدس حالی
4.   حیات سعدی
5.   حیات جاوید
6.   یادگار غالب
7.   مقدمہ شعروشاعری
8.   حب الوطن
9.   برکھارت
10.                  منطق پر رسالہ لکھا۔ جو 1854 میں تلف ہوا
11.                  طباق الارض کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا جو مبادی جیولوجی پر تھا
12.                  اصولِ فارسی

مذہبیات[

1.   مولود شریف
2.   تریاق مسموم: پادری عماد الدین کے لیے جواب تھا
3.   رسالہ خیر المواعظ
4.   شواہد الہام

اخلاقیات[

1.   مجالس النساء: لاہور میں لکھی، طالبات کے لیے، جو 400 روپے انعام کی حقدار سرکار کی جانب سے قرار پائی اور برسوں نصاب میں شامل رہی۔

سوانح[

1.   سوانح حکیم ناصر خسرو
2.   حیات سعدی
3.   تذکرۂ رحمانیہ: مولانا عبد الرحمن کی وفات پر چھپی
4.   یادگار غالب: اس کتاب نے غالب کو آب حیات کے مقابل اصل مقام سے روشناس کروایا
5.   حیات جاوید

مضامین و انشا[

1.   مضامین حالی
2.   مقالات حالی
3.   مکاتیب حالی

تنقید[

1.   مقدمۂ شعرو شاعری
2.   دیوان حالی
3.   مجموعۂ نظم حالی
4.    ضمیمہ اردو کلیات حالی
5.   انتخاب کلام داغ: حالی نے اس پر کام شروع کیا مگر مکمل نہ کرسکے جس کی تکمیل بعدمیں سجاد حسین اور محمد اسماعیل پانی پتی نے کی۔


ہم اب اس کے بعد دو تصانیف کو تفصیلا پیش کریں گے ۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم