سعودی عرب: چاند نظر .عید کب ہوگی

سعودی عرب: چاند نظر نہیں آیا، عید اتوار کو ہوگی

 جمعہ 22 مئی 2020 19:56

سپریم کورٹ نے جمعےکو چاند نظر نہ آنے کی تصدیق کردی(فوٹو سبق)

  

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت متعدد عرب ممالک میں جمعہ 22 مئی 29 رمضان کو عید کا چاند نظر نہیں آیا.  عید الفطر اتوار 24 مئی کو ہوگی.

العربیہ اور سبق  کے مطابق  ہفتے کو رمضان کا 30 واں روزہ ہوگا اور عید الفطر اتوار 24  مئی  کو منائی جائے گی.
سعودی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایوان شاہی نے اعلان کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے جمعہ کو چاند نظر نہ آنے کی تصدیق کردی اور عیدالفطر اتوار 24 مئی کو ہوگی.
قبل ازیں العربیہ نے اپنے نمائندے کے حوالے سے بتایا تھا کہ تمیر شہر کی رویت ہلال کمیٹی نے چاند نظر نہ آنے کا اعلان کیا ہے.اخبار 24  نے حوطہ سدیر میں المجمع یونیورسٹی کی رصد گاہ کے حوالے سے بتایا کہ جمعے کو چاند نظر نہیں آیا.

ماہرین فلکیات کا کہنا تھا کہ اس سال رمضان  30 دن کا ہی ہوگا.

اس سے قبل ماہرین فلکیات نے دعوی کیا تھا کہ فلکیاتی نظام کے مطابق جمعہ 22 مئی  کو چاند نظر نہیں آسکتا کیونکہ چاند سورج غروب ہونے سے قبل ہی چھپ جائے گا.
ماہرین فلکیات کا کہناتھا کہ اس سال رمضان  30 دن کا ہی ہوگا.
قطر میں بھی عید کا چاند نظر نہیں آیا ، عید الفطر اتوار کو ہو گی.
المرصد ویب سائٹ کے مطابق 6 ممالک آسٹریلیا، فلپائن، جاپان، انڈونیشیا، ترکی اور ملائیشیا میں پہلے  ہی اعلان کردیا گیا تھا کہ ہفتے کو رمضان کا 30 واں روزہ ہوگا اور عید اتوار 24 مئی کو منائی جائے گی. ان ممالک میں سے کسی میں بھی 29 رمضان جمعہ کو عید کا چاند نظر نہیں آیا.

غدار مصطفی کا تعارف.. سلطنت عثمانیہ


ایک غدار مصطفی کمال اتاترک کی وجہ سے
جب سلطنت عثمانیہ انتہائی کمزور پڑ چکی تھی تو ایک غدار مصطفی کمال اتاترک نے یہودیوں امریکہ روس برطانیہ نیوزی لینڈ کے ساتھ اتحاد کرلیا اور انہوں نے عثمانیہ کے آخری سلطان پر دباؤ ڈالا اور ان کی فیملی ان کے نوکروں اور ان کی افواج سمیت انہیں ترکی سے نکال دیا اورآئندہ ترکی واپس آنے پر پابندی لگا دی اور اسطرح تین براعظموں پر پھیلی سلطنت توٹ گی سلطنت ٹوٹنے سے 40 ملک وجود میں آئے تھے اتنی بڑی سلطنت تھی  سلطنت ختم کرنے کے بعد مصطفی کمال اتاترک ترکی کا سلطان بن گیا اور وہ سارے کاموں جو یہودیوں نے نے بتائے تھے اس نے ان کے تحت ترکی پر نافذ کرنا شروع کر دیںے اور جو ظلم اور جبر مصطفی کمال اتاترک نے ترکی پر کیا سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے بعد ان پر جو ظلم ڈھائے ان گنت ہیں

غدار مصطفی کا تعارف

مصطفی کمال کے فاشزم نے ترکی کو بے راہ روی، بے دینی اور آوارگی کا مرکز بنادیا تھا۔
مصطفی کمال کی مجہول الحال شخصیت کو اتاترک کا لقب ان  شرائط کی بنیاد پر ملا تھا:

تین معاہدے جو سلطنت عثمانیہ کے آخری سلطان سے کروائے گئے تھے جن کے تہت ترکی پر 100 سال کی پابندی لگادی گئی تفصیل یہ ہے

*اسلامی شعائر کا خاتمہ*

*اسلامی قانون کا خاتمہ*

*ترکی معدنی ذخائر نہ نکال سکے*
*اور نہ بحری ٹیکس لے سکے۔*

مصطفی کمال اتاترک کا ظلم

یہ ترکی کی ہی سپاہ  تھی جس نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے ترکی میں تمام دینی ادارے اور مساجد بند کر دیں۔ عربی زبان پڑھنے اور پڑھانے پر پابندی عائد کر دی تھی حتیٰ کہ عربی زبان میں آذان دینے پر بھی  پابندی عائد کر دی تھی جب وزیر اعظم عدنان میندریس نے عربی زبان اور دینی ادارے بحال کئیے تو  فوج نے تختہ الٹ کر انھیں سرعام تح
تختئہ دار پر لٹکا دیا  ۔ عورتوں کے حجاب پر پابندی کردی ۔ ترکی کی فوج میں اسی سال تک نماز پڑھنے پر پابندی عائد رہی جو رجب طیب ایردووان  نے ہٹائی ہے۔

مصطفی کمال کے دور میں اتنا جبر تھا کہ 40 سال قبل وہاں تعلیم کے لئے جانے والے ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا: وہاں کوئی نماز پڑھتا نظر آجاتا تو سیکولر حضرات ایکشن میں آجاتے۔ میں نے نماز پڑھنا چاہی تو دوستوں نے مشورہ دیا کہ اپنے ساتھ ایک تولیہ رکھو۔ حمام میں جاکر وضو کرو، پھر وہیں *چھپ کر نماز پڑھ لو۔* اس لئے کہ ترک حمام خوبصورتی، صفائی اور تعمیراتی حسن کا شاہکار ہوتے ہیں۔ اس دور میں اگر کسی شخص کی جیب سے اسلامی سال کی جنتری نکل آتی تو اسے جیل ہوجاتی تھی۔خلافت عثمانیہ کے دور میں شیخ، خطیب، واعظ، عالم، مفتی، قاضی، یہ چھ تعلیمی ڈگریاں تھیں۔مصطفی کمال نے یہ ساری ڈگریاں ختم کردیں۔
اس دور میں لوگوں نے ایمان کی شمع روشن کئے رکھی۔ مسلمانوں نے بظاہر شراب خانہ نظر آنے والی جگہوں میں دین پڑھانے کے حلقے جمائے رکھے۔ رات دو سے صبح 6 بجے تک وہاں قرآن کی کلاس لگتی۔ ٹرینوں میں کیبن بک کرواتے، ایک اسٹیشن سے دوسرے تک کا ٹکٹ لیتے۔دروازہ بند کرکے اس میں پڑھنا پڑھانا جاری رکھتے۔ کھیتوں میں قرآن کی درس گاہیں جمتیں۔ دنیا کو اعتدال، نرمی اور محبت کا درس دینے والے ان سیکولرز کے جبر سے بچنے کے لئے تہہ خانوں میں قرآن کی کلاسیں ہوتیں۔
*شیخ محمود آفندی وہاں کے بہت بڑے اور مشہور نقشبندی شیخ ہیں۔* انہوں نے 18 سال تک لوگوں کو بلایا مگر انہیں ایک نمازی نہ ملا۔ 18 سال بعد موسی امجا نامی شخص نے اپنے بچے پڑھانے کے لیے بھیجے انھی شاگردوں میں رجب طیب اردگان تھے جنھوں نے ترکی کو ایک راحت کی سانس دی ہے

ابھی ترکی پر سو سال کی پابندی لگائی گئی تھی اس کے تحت ترکی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی نہیں کرسکتا حتی کہ کے ترکی بحری ٹیکس بھی وصول نہیں کر سکتا نہ ہی اپنی زمین سے تیل کے ذخائر نکال سکتا ہے جو کہ ترکی میں بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے یہ بھی ان پر پابندی لگائی گئی تھی تھی سو سال کی پابندی تھی وہ 2023 میں ختم ہوجائےگی اس بات کا یہودیوں کا کو بہت ڈر ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ جس طرح سے ترکی رجب طیب اردگان بہادر اور تمام امت اے مسلماں کی امید اور آواز بنا ہوا ہے اور ترقی کررہا ہے اپنا سر اٹھا رہا ہے 2023 میں پابندی ختم ہوگئی تو نہ جانے پتہ نہیں ترکی ہمارے ساتھ کیا کرے گا اس بات کا ڈر اندر  کھائے جا رہا ہے یہودیوں کو اور انشاءاللہ 2023 میں سلطنت عثمانیہ دوبارہ بحال ہوگئی انشاءاللہ 2023 کے بعد دنیا بہت زیادہ بدلنے والی ہے۔

ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے

-سوچ کا زاویہ

ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے

1 : اندھا
2 : فقیر
3 : عاشق
4 : عالم

بادشاہ نے ایک مصرعہ کہہ دیا:

"اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

اور سب کو حکم دیا کہ اس سے پہلے مصرعہ لگا کر شعر پورا کرو۔

1 : اندھے نے کہا:

"اس میں گویائی نہیں اور مجھ میں بینائی نہیں،
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

2 : فقیر نے کہا:

"مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں،
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

3 : عاشق نے تو چھوٹتے ہی کہا:

"ایک سے جب دو ہوئے پھر لطف یکتائی نہیں،
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

4 : عالم دین نے تو کمال ہی کردیا:

"بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں،
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں"

سوچ کا زاویہ ہر ایک کا جدا ہوتا ہے، ہر کسی کا فکری انداز اسکے مطالعے، مجالست اور تربیت کی مناسبت سے ہوتا ہے. غالبا" یہی جداگانہ انداز فکر قدرت کی نعمت ھے۔

کوشش اور توفیق


*کوشش اور توفیق •*

ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﺩﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﺗﺎﺛﺮﺍﺕ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺗﮭﮯ.
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮﺟﮧ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﺼﻠﮯ ﮐﯽ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ،
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮨﻤﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﭘﺎﺋﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ.

ﻣﮕﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺗﻮ ﭘﮍﮬﻮﮞ ﮔﺎ ﻧﺎﮞ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﻧﮏ ﮔﯿﺎ.

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺁﭖ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟

اس نے جواب دیا:
ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﻧﺎﮞ! ﮨﻢ ﺟﺘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺖ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮨﻢ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﮞ، ﻭﮦ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺗﻮ ﮨﻢ ﮐﯿﺴﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ.

ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺘﺎ ﺭﮨﺎ،
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ.

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺁﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﮯ؟
ﺟﯽ! ﻣﮑﻤﻞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻋﻠﻢ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ.

ﺍﭼﮭﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺑﮩﻼﯾﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺑﮭﺎﮔﮯ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ.

ﺟﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ! ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻞ گئے ﺗﮭﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ،
ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮﺍ،،
ﭘﮭﺮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﺍ،
ﺩﯾﮑﮭﻮ!
ﺍﯾﮏ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ، ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﻮﺷﺶ.
ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮐﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﻮﺷﺶ ﮨﮯ.
ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺟﺐ ﺑﮭﺎﮔﮯ ﺗﻮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻞ گئے،

ﺍﺏ ﺫﺭﺍ ﻏﻮﺭ سے ﺳﻮﭼﻮ!
ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻮﺳﻒ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻋﺎﻡ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻠﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺁﭖ ﺑﮭﺎﮔﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ...
ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻋﻠﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﺎﻟﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺁﭖ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺑﮭﺎﮔﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﭼﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﺎﮐﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻮﻝ ﺳﮑﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮭﺎﮔﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﺁﭖ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ، ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﺐ ﮔﻨﺎﮦ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ "ﺗﻮﻓﯿﻖ " ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻞ گئے، ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﻮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﮯ،
ﻭﮦ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺳﺐ ﺳﻦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ،
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺎﺕ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﯽ:
ﺗﻮ ﺑﮭﺌﯽ!
ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭ، ﺟﺐ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ، ﯾﻮﮞ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ.

ﺗﻮ ﺟﺘﻨﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﮐﺮﻭ،
ﺑﺎﻗﯽ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮﺍ،
ﻭﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﻼﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺻﻒ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻞ ﭘﮍآ

ڈاکٹر خالد الشافعی مصری ہیں


ڈاکٹر خالد الشافعی مصری ہیں اور مصر کے نیشل اکنامکس سٹڈی سنٹر میں منیجر ہیں۔ ان کے ایک حادثاتی تجربے سے کچھ سیکھیئے۔ لکھتے ہیں
:اسی گزرے اٹھارہ مارچ کو عصر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل تھا کہ میرا توازن بگڑا، گرا اور پاؤں ٹوٹ گیا۔
ہسپتال گیا، ایکسرے کرایا، ڈاکٹر نے تشخیص کیا کہ پاؤں میں ٹخنے اور انگلیوں کو آپس میں جوڑنے والی ہڈی (پانچویں میٹیٹسل بیس) ٹوٹ گئی ہے۔
پاؤں پر پلستر ٹانگ اور گھٹنے کو ملا کر چڑھا دیا گیا۔ ڈاکٹر نے نوید سنائی کہ پلستر ڈیڑھ سے دو مہینے تک چڑھا رہے گا۔
میں بڑا حیران۔ یہ ڈاکٹر کہتا کیا ہے؟ بس ایک چھوٹا سا کنکر میرے پیر کے نیچے آیا تھا۔ نہ کسی گاڑی نے مجھے ٹکر ماری ہے اور نہ ہی میں کسی اونچائی سے گرا ہوں۔
اس دن شام کو گھر واپس پہنچنے پر مجھ پر بہت ساری حقیقتیں کھلنا شروع ہوئیں، بہت سارے سبق اور بہت ساری عبرتیں ملنا شروع ہوئیں۔
زندگی میں پہلی مرتبہ مجھ پر پاؤں کی اہمیت آشکار ہونا شروع ہوئی اور مجھے اپنے پاؤں کی ایسی ایسی خدمات اور ایسے ایسے استعمالات کا پتہ چلنا شروع ہوا جنہیں میں نے آج تک محسوس بھی نہیں کیا تھا۔
میرے لیئے حمام جانا ایسا مشن بن گیا جس کیلئے باقاعدہ تیاری، منصوبہ سازی، ترتیب اور شدید توجہ کی ضرورت ٹھہری۔
وضو کرنا، نماز پڑھنا، حوائج ضروریہ کیلئے جانا ایسے کام بن گئے جن کیلئے مافوق الخیال تیاریاں کرنا پڑتی تھیں۔
اس حادثے کے دوسرے دن فجر کے وقت حمام چلا گیا، وضو کے بعد ایسا گرا کہ ابھی تک یقین نہیں آیا کہ بچ کیسے گیا ہوں، حالانگہ یہ والا گرنا سیدھی سیدھی موت یا کم از کم فالج تھا۔
گھر میں میری اکیلے نقل و حرکت بند ہوگئی، ضروری ٹھہرا کہ کوئی نہ کوئی میری خدمت یا میرا خیال رکھنے کیلئے ہمہ وقت موجود رہے۔ سارے گھر والوں کیلئے باہر آنا جانا باقاعدہ صلاح مشورے، باری بندی اور ترتیب سے مشروط ٹھہرا۔ پورے گھر کا نظام اس چھوٹے سے حادثے کی وجہ سے درہم و برہم ہو گیا۔
میرے لیئے حمام بہت دور کی چیز بن گئی اور کچن تو دوسرے بر اعظم پر واقع مقام بن گیا۔
مجھے پہلی بار ایسے لوگوں کے محسوسات جاننے کا تجربہ ہوا جنہیں کسی مرض نے یا ان کی پیراں سالی نے بٹھا دیا ہو، یا جن کی زندگی دوسری کی مدد کی محتاج بن گئی ہو یا دوسروں کی مدد کے بغیر ناممکن بن کر رُک گئی ہو۔
یقین کیجیئے میں ایک پاؤں کی اتنی اہمیت بھی ہو سکتی ہے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرا ایک پاؤں کیا خراب ہوا میری زندگی ہی معطل ہو کر رہ گئی، میرا سب کچھ ہی بدل کر رہ گیا۔
ایک دن کچھ وقت کیلئے گھر پر اکیلا تھا۔ بوڑھوں والے واکر کو پکڑ کر ایک ٹانگ کے ساتھ کچن میں گیا، اپنے لیئے ایک چائے بنا کر ہٹا تو مجھ پر ایک نئی اور ایسی حقیقت کھلی جو کبھی بھی میرے دماغ نہ آ سکتی، اور وہ یہ کہ: چائے کا کپ پکڑ کر واپس کیسے جاؤں تاکہ مزے سے ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ کر پی سکوں۔ اب یہ عقدہ کھلا کہ چاۓ کا کپ پکڑ کر اپنے پیروں پر چلتے ہوئے آنا بھی ایک ایسی نعمت ہے جس پر بہتوں کا خیال ہی نہیں جاتا۔
ایک چھوٹے سے کنکر نے میری زندگی کے سارے معمولات ہی بدل کر رکھ دیئے۔
صبح کو اپنے پیروں پر چل کر نکلا تھا شام کو دوستوں کے کندھوں پر سوار لوٹا۔
دو اپریل کی رات کو مجھے ٹوٹے ہوئے پیر والی ٹانگ میں شدید اور ناقابل برداشت درد ہوا۔ آدھی رات کو بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے۔ جلدی سے پلستر کاٹا گیا، سی ٹی سکین ہوا تو پتہ چلا کہ ٹانگ کی اندرونی وریدوں میں خون کا بہاؤ رُک گیا تھا جو پلستر کے ساتھ حرکت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا عموماً ہو جاتا ہے۔
درد کی شدت سے میری دھاڑیں نکل رہی تھیں۔ اس بار مجھے ایک نئے تجربے سے گزرنا پڑا۔ مجھے یکے بعد دیگرے پیٹ میں کئی ٹیکے لگائے گئے۔ ان ٹیکوں کا اپنا درد ایک نئی قیامت تھی۔ اور اس قیامت خیز حالت میں، میں اس ٹیکے کے بارے میں نہیں جو میرے پیٹ میں لگا ہوتا تھا، بلکہ اس ٹیکے کے بارے میں سوچتا تھا جو لگائے جانے کیلئے ابھی تیار ہو رہا ہوتا تھا۔
مجھے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ کھانسی کا شدید دورہ پڑا تو ڈاکٹر کو شک گزرا کہ وریدوں میں خون کی رکاوٹ اندرونی سوجن پیدا کر رہی ہے اور ہو نہ ہو اس حالت میں میرے پھیپھڑے متاثر ہو چکے ہیں۔ مسجد کے سامنے پاؤں کے نیچے آنے والا کنکر اب میرے حلق میں اٹک جانے والا کانٹا بن گیا تھا۔ وعظ اور عبرت کی پوسٹیں لگانے والے کاتب کی زندگی بذات خود خوفناک قسم کی پوسٹ بننے جا رہی تھی۔
میرے آنکھوں کے سامنے میری گزری زندگی کے سارے مناظر فلم کی طرح چلتے تھے۔ جو بات رہ رہ کر یاد آتی تھی وہ یہ تھی کہ جب میں عام سی زندگی جیتا تھا تو کتنی بے بہا نعمتوں میں گھرا ہوتا تھا۔ رہ رہ کر خیال آتا کہ اُن نعمتوں کا ویسا شکر ادا کیوں نہ کرتا تھا جیسا اُن کے شکر کا حق بنتا تھا۔
ہسپتال میں میرے ساتھ والے کمرے میں داخل ایک بزرگ کے کمرے سے ابھی ابھی انسٹرومنٹ ہٹا کر لیجا رہے تھے۔ مجھے اوروں کا نہیں اپنا خاتمہ نظر آنا شروع ہو گیا تھا۔
ہسپتال میں ہر ایک بیڈ ایک کہانی تھا اور ہر کہانی کے پیچھے سبق، خواب، کامیابیاں، ناکامیاں اور امیدوں کے بنتے بگڑتے قصے۔
ہسپتال میں انواع و اقسام کے لوگ: مریض یا ملازمین۔ اور مریضوں کی پھر آگے قسمیں: اپنی صحت اور زندگی سے مایوس، یا پھر بھر پور امید والے بے خوف لوگ۔ ورثاء سب ہی خوف اور امید میں لٹکے ہوئے۔
ملازمین کی بھی اقسام: ڈاکٹر اپنی ڈگری کی قیمت سے واقف وجاہت اور متانت کے عکاس۔ نرسیں لگ بھگ سب کام نمٹاتے ہوئے مگر قدر و قیمت نہ پانے کی شاکی۔ صفائی کرنے اپنی حالت اور دگرگوں مالی حالت کے ہاتھوں ناکام زندگی سے شاکی اور اُکھڑے اُکھڑے۔
ہسپال میں ہر مریض کی ساری زندگی جیسے رُکی ہوئی، سب پریشانیوں پر بھاری بس ایک پریشانی کہ کسی طرح ہسپتال سے نکل کر گھر پہنچ جائے۔ ملازمین کیلئے مریضوں کے درد اور بیماریاں بس ایک کام اور روٹین۔ ادھر ڈیوٹی ختم اُدھر وہ گھر روانہ۔ بھلے مریض کی جان ایسے نکلے یا ویسے۔
بہرحال میں نے جیسے تیسے رات ٹیکوں اور سرنجوں کے درد سہتے گزاری۔ جنہیں روز کے ٹیکے لگتے ہیں کے بارے میں سوچ سوچ کر مجھے ان سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔
میرے سینے کے ایکسریز لیئے گئے اور اب دوسری صبح کا انتظار تاکہ ڈاکٹر نتیجہ بتائے۔
دوسرے دن میری ساری زندگی ڈاکٹر کے دو کلموں پر اٹکی ہوئی تھی جس نے ایکسریز دیکھ کر رپورٹ دینا تھی۔ ڈاکٹر ایکسرے اٹھائے وارڈ میں داخل ہوا اور میں نتیجہ جاننے کیلئے جاں بلب سولی پر لٹکا ہوا۔
“الحمد للہ، ایکسرے بالکل کلیئر ہیں”۔ اور اس کے ساتھ ہی خوفناک اور ڈراؤنی فلم کا اختتام۔
اچھا، اصلی بات تو ابھی وہیں کی وہیں۔ پاؤں ٹوٹا ہوا، پلستر لگانا ممنوع ٹھہرا۔ اب پاؤں کے علاج کی جگہ وریدوں کا علاج فوقیت پا چکا۔ مطلب صاف صاف یہی بنتا تھا کہ اب اپنے پیروں پر چلنے پھرنے کیلئے انتظار اور بھی لمبا ہو گا۔
پلستر نہ ہونے کی وجہ سے پاؤں سوج کر کُپا بن گئے، ساتھ ساتھ ٹانگ بھی نیلی پڑ گئی تھی۔
سارا زور ایک ٹانگ پر پڑنے کی وجہ سے، ٹھیک والی ٹانگ کے پاؤں اور گھٹنے میں شدید درد رہنے لگا۔
پیروں کی بجائے ہاتھوں سے سہارا لینے کی وجہ سے ہاتھ دُکھنے لگے، حرکت کم ہوئی تو وزن تیزی سے بڑھنا شروع ہو گیا۔
مہینہ بھر ٹوٹے پاؤں کو حرکت نہ دینے کی وجہ سے پیر کے مسلز تقریباً مرے ہوئے جیسے بن گئے۔
انسان کی کمزوری اور ضعیفی پر پڑھا تو بہت تھا مگر کمزوری اور ضعف ایسا ہوتا ہے سے واسطہ اب پڑا تھا۔ اور یہ سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح لمبے سے لمبا ہوتا جا رہا تھا۔
جب میں عام بندے کی طرح چل سکوں گا کے بارے میں سوچنا خواب سا لگتا تھا۔ مجھے رہ رہ کر یاد آتا تھا کہ جب کوئی مجھ سے حال احوال پوچھتا تھا تو میں اکثر یکسانیت سے اکتایا ہوا مختصراً کہہ ڈالتا تھا کہ “بس ٹھیک ہوں”۔ اور یہ “بس ٹھیک ہوں” کتنی عظیم نعمت ہوتی ہے مجھے اب پتہ چل رہا تھا۔ دیکھیئے: کسی نعمت کو “بس” کہہ دینا انسان کو اس نعمت کی قدر ہی بُھلا دیتا ہے۔ خبردار، کہیں ایسا نہ ہو کہ نعمت کی قدر کا احساس اُس نعمت کے چِھن جانے کے بعد ہو۔ کسی نعمت کو کبھی بھی اتنا ہلکا نہ لیا جائے کہ اس نعمت کو نعمت سمجھنے کا شعور ہی جاتا رہے۔
مجھے بیماری اور جیل کی قید نے ٹھیک طریقے سے مطلب سمجھایا ہے کہ “اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے بے شک آدمی بڑا ظالم ناشکرا ہے”۔
میرے فیس بک کی ڈی پی پر میری چلتے ہوئے کی فوٹو لگی ہوئی ہے- میں جب بھی فیس بک کھولتا ہوں اور اپنی فوٹو پر نظر پڑتی ہے تو مجھے اپنے “بس ٹھیک ہوں” کے الفاظ عظیم القدر نعمت لگتے ہیں۔
ایک اور بات بتاؤں؟ آج پینتیسواں دن ہے اور ابھی تک میرا ماتھا سجدے کیلئے زمین پر نہیں پڑ سکا۔ چارپائی پر بیٹھے بیٹھے وضو اور لیٹے لیٹے نماز ہو رہی ہے کیونکہ اب میرا بیٹھنا بھی منع ہو چکا ہے۔ نماز کا شوق مجھے پاگل کیئے جا رہا ہے۔
مصبیبتوں کے بھی کیا رنگ نکلتے ہیں: مصیبت تاکہ صبر کرنا آ جائے، مصیبت جو شکر کرنا سکھا دے، مصیبت جو اجر و ثواب کا باعث بن جائے، مصیبت جو سرزنش بن جائے، مصیبت جو گئے گزرے اوقات کی جانچ پڑتال کرنا بتا دے اور مصیبت جو ثابت قدمی سکھا دے۔
آخر میں، میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کیلئے اپنی امی سے معافی مانگتا ہوں، کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ پڑھ کر بہت روئے گی۔ میں آج تک اپنی بیماریوں اور پریشانیوں کے سارے راز اُس سے اس لیئے چھپاتا آیا ہوں کہ وہ میری وجہ سے کبھی بھی کبیدہ خاطر نہ ہونے پائے۔
اے اللہ اپنے ہر مریض بندے کو ایسی شفا دے جس کے بعد کوئی دوسری بیماری نہ ہو- آمین یا رب

منقول

```Be_miSaaal```

*چھوٹا دھماکہ۔پھر، بڑا دھماکہ*

: *چھوٹا دھماکہ۔پھر، بڑا دھماکہ* 

کرونا وائرس اصل میں وہ چھوٹا دھماکہ ہے، جسکے بعد ایک بڑا ۔۔۔ بلکہ آخری دھماکہ ہوگا _ اصل میں اس وائرس کے زریعے، تمام دنیا میں اسکی ویکسین لگوانا لازمی قرار دے دیا جائے گا _ آپ بغیر ویکسین لگوائے  اور سرٹیفیکیٹ حاصل کیے ہوئے، نہ ہوائی سفر کرسکیں گے، نہ حج و عمرہ، نہ زیارتوں کو جا سکیں گے ، یہاں تک کہ نکاح نامہ یعنی شادی بھی نہ ہوسکے گی _ بچوں کو اسکول میں داخلہ نہیں ملے گا _ اس کام میں پہلے سے شامل بل گیٹس جیسے مخیر حضرات دل کھول کر غریب ممالک کی امداد کریں گے _

اب آپکی شاید سمجھ میں یہ بھی آ جائے ، کہ ایک کمپیوٹر سافٹویئر کی صلاحیت رکھنے والے دنیا کا امیر ترین شخص، اپنا کام چھوڑ کر ویکسین کی فیلڈ میں کیوں گھس گیا تھا

اس کام میں پانچ سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے _ مگر اسکے بعد تمام لوگوں کی رگوں میں یہ ویکسین دوڑ رہی ہوگی، یوں سمجھیں کہ ایک سرکاری وائرس دوڑ رہا ہوگا ، جسے کبھی بھی، کسی بھی طرح سے متحرک کیا جاسکے گا _ کبھی بھی کہیں بھی کوئی وبا پھیلائی جاسکے گی، اور کم خرچ اور بالا نشین انداز سے ایسا حملہ کیا جاسکے گا، کہ جس میں نہ ہتھیار استعمال ہونگے ، نہ املاک کو نقصان پہنچے گا _

اسی دوران دشمن کو ویکسین بیچ کر اور قرضہ دے کر مزید اپنے جال میں پھنسایا  جا سکے گا _ تو بھائیوں، کرونا یا کووڈ-19, کا کام صرف آپکو ویکسین لگوانے کے لیے تیار کرنا ہے _ اصل دھماکہ اس کے بعد ہوگا _ اللہ ہم سب کو دجال کی چالوں اور فتنہ سے محفوظ رکھے _

*ایک* *نئی* *تھیوری* ...: کرونا وائرس، 5G اور ایجنڈہ نینو چپ ۔ ۔ ۔ ۔ !

اکانومسٹ میگزین اپریل 2020 شمارے میں 5 خفیہ پلانز کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس تحریر میں پانچوں یہودی پلانز کو ڈی کوڈ کیا جائے گا۔

نمبر 1 : *Everything* *is* *Under* *Control*

اس کے معنی ہیں
"ہر چیز طے شدہ منصوبے کے مطابق ہمارے کنٹرول میں ہے"۔

ایک طرف پوری دنیا کرونا سے ڈر کر گھروں میں بیٹھی ہوئی ہے، حکومتیں سکڑ کر دارالحکومتوں تک محدود ہو گئیں،
عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے، کئی ممالک کو اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے خطرے کا سامنا ہے

لیکن آپ دیکھیں وہیں یہودی میگزین فخریہ کہتا ہے کہ Everything is Under Control.

یہ بات عقلمندوں کے کان کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے۔
کرونا وائرس کے ذریعے جس جال کو بچھایا گیا ہے وہ بالکل توقعات کے عین مطابق پورا ہو رہا ہے
تبھی تو یہودی میگیزین فخریہ کہتا ہے کہ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ان کے کنٹرول میں ہے۔

نمبر 2 : *Big* *Government*

اس سے مراد عالمی حکومت ہے۔
اس بڑی حکومت کو یہودی دانا بزرگوں کی خفیہ دستاویزات
دی الیومیناٹی پروٹوکولز میں
"سپر گورنمنٹ" کے نام سے بار بار بیان کیا گیا ہے۔
  جن کے مطابق پوری دنیا کی ایک ہی "عالمی سپر گورنمنٹ" بنائی جائے گی
جس کا حکمران فرعون و نمرود کی طرح پوری دنیا پر اپنے مسیحا کے ذریعے حکمرانی کرے گا

یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھوں گا کہ ان کی عالمی حکومت بن چکی ہے۔
یہ اقوام متحدہ ہے۔
صرف اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔
ان کا منصوبہ یہ ہے کہ مستقبل میں کسی بھی وقت دنیا میں کرائسز پیدا کرکے (جیسے اس وقت ہیں) اقوام متحدہ کو ایک عالمی سپر حکومت میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے جو بھی ادارے ہوں گے انہیں وزارتوں میں تبدیل کرکے اسے عالمی سپر گورنمنٹ قرار دے دیا جائے گا اور اس حکومت کی باگ دوڑ یہودی النسل ایسے شخص کے ہاتھ دی جائے گی
جو دجال کے لیے ہیکل سلیمانی تعمیر کرے گا اور یہودیوں کو چھوڑ کر باقی پوری دنیا کی اقوام کو اپنا غلام بنا لے گا۔

اب موجودہ دور میں آ جائیں،

برطانوی وزیراعظم سے لیکر بہت سے عالمی رہنماؤں نے اب کھل کر کہنا شروع کر دیا ہے کہ
ایک عالمی حکومت بننی چاہیے۔ یہ سب اسی عالمی سپر گورنمنٹ بنانے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

اب اگر اقوام متحدہ کا کوئی ایسا حکمران بن جائے جو ویکسین دینے کا اعلان کر دے
تو دنیا کا کون سا ملک ہو گا جو اس کی حکمرانی تسلیم نہ کرے گا ؟؟

نمبر 3 : *Liberty*

لبرٹی کا مطلب ہے "آزادی"۔
یہاں آزادی سے مراد دنیا کو جو آزادی حاصل ہے اس کا کنٹرول اس "خفیہ ہاتھ" کے پاس ہے
جو اکانومسٹ نے بطور علامت اپنے کور فوٹو پر نمایاں کیا ہے۔

یہ وہ "خفیہ ہاتھ" ہے جو پردے میں رہ کر پوری دنیا کو چلاتا ہے۔

آپ اس ہاتھ کو یہودیوں کے 13 خفیہ خاندان سمجھیں

جو پوری دنیا کی معیشت، زراعت، میڈیا، حکومت الغرض ہر چیز کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں، ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف یہ تمام ادارے ان کے فنڈز سے چلتے ہیں،

اقوام متحدہ کا خرچہ پانی یہی دیتے ہیں، اقوام متحدہ کے تمام بڑے اداروں کے سربراہاں ان کے اپنے لوگ اور یہودی النسل ہیں۔
نمبر 4 : *وائرس*

یعنی کہ "کرونا وائرس" کا کنٹرول بھی اسی "خفیہ ہاتھ" کے پاس ہے۔ جب پوری دنیا وائرس کے خوف سے کانپ رہی ہے
تو یہ لوگ کون ہیں جو کہتے ہیں کہ وائرس ان کے قابو میں ہے؟
اسرائیلی وزیر دفاع خود کہتے ہیں کہ ہمیں وائرس سے کوئی پریشانی نہیں ہے.
کیونکہ جب 70 فیصد آبادی کو کرونا متاثر کر لے گا تو پھر ازخود ختم ہو جائے گا۔
یعنی وہ پہلے سے جانتے ہیں کہ اتنے فیصد آبادی متاثر ہو گی لیکن ساتھ ہی کسی قسم کی انہیں پریشانی بھی نہیں ہے،
یہ اس بات کی علامت ہے کہ پردے کے پیچھے وہ بہت کچھ جانتے ہیں جب ہی تو بالکل مطمئن ہیں،
اسی لیے نہ لاک ڈاؤن کرتے ہیں نہ ہی انہیں کوئی پریشانی ہے بلکہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ وائرس ان کے قابو میں ہے۔

نمبر 5 : *The* *Year* *Without* *winter*

اس کو اگر ڈی کوڈ کریں تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس سال دنیا کو موسم سرما گھروں میں قید رہ کر گزارنا پڑ سکتا ہے۔
یاد رہے اس وقت سال کا چوتھا مہینہ اپریل چل رہا ہے
لیکن انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ اس سال موسم سرما نہیں ہو گا
یعنی دنیا موسم سرما کے مزے اس سال نہیں لے سکے گی ۔

یہاں یہ بتانا ضروری سمجھوں گا کہ کرونا وائرس پر بنی فلم Contagion میں بھی ایک ڈائلاگ بالکل ایسا ہی سننے کو ملتا ہے۔

ایک لڑکی ویکسین کی عدم دستیابی پر اکتاتے ہوئی کہتی ہے کہ یعنی اس سال میرا موسم سرما برباد ہو جائے گا
کیونکہ مجھے گھر میں قید رہ کر گزارنا ہو گا۔

اکانومسٹ میگزین، کانٹیجئین فلم اور موجودہ صورتحال کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔

اسکے علاوہ ۔ ۔ ۔۔

کچھ اور عوامل بھی ہیں جنہیں ابھی تک اکانومسٹ میگزین نے نمایاں نہیں کیا۔
شاید اگلے مہینے کے شمارے میں ظاہر کر دیں۔ میں آپ کو پہلے ہی آگاہ کر دیتا ہوں۔

*پہلا* *پروجیکٹ* *5G* *ہے* :

سب سے پہلے 5G انسٹالیشن ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران دنیا کے بیشتر ممالک میں چپکے سے کی جا رہی ہے۔

عالمی میڈیا کو اس کی رپورٹنگ سے روکا گیا ہے۔ میڈیا پر آپکو 5G کے متعلق کوئی خبر نہیں ملے گی۔

لندن  میں مکمل لاک ڈاؤن ہے لیکن وہاں 5 جی انسٹالیشن کا عملہ پھر بھی دن رات پولز پر ٹاورز نصب کرنے میں مصروف ہے۔

پاکستان میں ٹیلی نار اور زونگ کمپنیوں نے اشتہارات کے ذریعے 5جی کی پروموش شروع کر دی ہے۔

آخر یہ 5G کیا بلا ہے؟

یہ دراصل انٹرنیٹ اسپیڈ کی تیز ترین رفتار ہے
جو اگر کسی علاقے میں لگا دی (انسٹال) کر دی جائے تو اس پورے علاقے کو ایک "سپر کمپیوٹر" کے ذریعے ہر وقت وڈیو پر دیکھا جا سکے گا،
علاقے کا کوئی فرد ایسا نہیں بچے گا جس کی جاسوسی ممکن نہ ہو۔

موبائل سے لیکر ٹی وی. ایل سی ڈی یا ایل ای ڈی ، فرج، آٹو پارٹس اور گھر کی تمام اشیاء میں نصب چھوٹے خفیہ کمیروں کے ذریعے چوبیس گھنٹے ہر فرد کی جاسوسی ممکن ہو جائے گی۔

ملٹری سطح پر یہ کام پہلے ہی دنیا کی بڑی افواج کرتی رہی ہیں
لیکن عوامی سطح پر اسے لانے کا بہت زیادہ سائنسی نقصان بھی ہے

کیونکہ اس ٹیکنالوجی کی شعائیں انسانی دماغ کے لئے انتہائی خطرناک ہیں،

ماہرین کے مطابق 5G سگنلز میں رہنے والا انسان ایسا ہو گا جیسے اسکا دماغ مائیکرو ویو اوون میں پڑا ہوا ہو۔
یہ انسان کو مختلف ذہنی بیماریوں کا شکار کر دے گی
لیکن خفیہ ہاتھ کو اس کی پرواہ نہیں کہ انسانوں کے دماغ پر کیا بیتتی ہے،
انہیں صرف پوری دنیا کو ڈجیٹلائیز کرنا ہے اور اس مقصد کے لئے لاکھوں انسانوں کو مارنا پڑا تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

دوسرا پروجیکٹ *Nano* *Chip* بذریعہ ویکسین :

حال ہی میں ایک آرٹیکل پڑھا جس میں بل گیٹس نے 1 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا۔

یہ اعلان پوری دنیا کو ڈجیٹلائیز کرنے کے متعلق تھا۔ سوال یہ ہے کہ پوری دنیا کو ڈجیٹلائز کیسے کیا جائے گا؟

اسکا جواب ہے 5G اور Nano chip سے۔

دیکھیں 5G کے ٹاورز بظاہر تو آپ کو انٹرنیٹ کی تیز سپیڈ دینے کے لئے ہوں گے
لیکن ان کا اصل خفیہ مقصد انسانوں میں لگی نینو چپ
(بہت زیادہ چھوٹی چپ)
میں جمع ہونے والا ڈیٹا
(یعنی آپ کی دماغی سوچ) کسی خفیہ جگہ جمع کرنا ہو گا۔
وہ "خفیہ ہاتھ"جسے آپ اکانومسٹ میگزین پر دیکھ سکتے ہیں پوری دنیا کے انسانوں کے دماغوں میں پیدا ہونے والی سوچ کو کسی نامعلوم جگہ پر اپنے "سپر کمپیوٹر" کے ذریعے دیکھے گا۔

میں وثوق سے کہہ دیتا ہوں
وہ یہودیوں کا مسیحا ہو گا جو "اقوام متحدہ کی سپر گورنمنٹ" سنبھالتے ہی ان ٹیکنالوجیز سے انسانوں کے دماغ بھی پڑھ لے گا
بلکہ کسی کے بولنے سے پہلے اس کے خیالات بھی جان لے گا۔

بالکل ایسی ہی ایک حدیث بھی ملتی ہے کہ دجال ایک جگہ سے گزرے گا جہاں کسی شخص کے والدین فوت ہو گئے ہوں گے،
وہ شخص سوچ رہا ہو گا کہ کاش میرے والدین دوبارہ زندہ ہو جائیں،

دجال اس کی یہ سوچ اور خواہش پہچان لے گا اور اس کے بولنے سے پہلے ہی اس کے پاس جا کر اسے کہے گا کہ اگر میں تمہارے والدین کو زندہ کر دوں تو کیا تم مجھے خدا مان لو گے۔
وہ شخص بولے گا ہاں کیوں نہیں،

پھر دجال اپنے شیاطین کو حکم دے گا وہ اس شخص کے والدین کے مردہ اجسام میں داخل ہو کر زندہ ہو کر کھڑے ہو جائیں گے اور اس شخص کو کہیں گے کہ بیٹا یہ (دجال) تمہارا رب ہے اس کی بات مان لو، اس کی اطاعت کرو۔

یہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دجال اور اس کی قوتوں کو شیاطین کی مدد حاصل ہو جائے گی۔
یعنی وہ کسی ایسی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے جس سے دنیا میں موجود  غیر مرئی مخلوق یعنی "جنات" سے ان کا رابطہ ممکن ہو جائے گا اور اسی کی مدد سے دجال  شیطانوں سے مدد لے گا۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
اللہ روئے زمین کے تمام شیاطین کو دجال کے تابع کر دے گا
(تاکہ اس فتنہ عظیم سے دنیا کے آخری بہترین مسلمانوں کی آزمائش کرے)۔ 

اب اس سارے منظرعام کو اگر مختصر بیان کیا جائے تو یہ کچھ ایسا ہو گا کہ؛

"خفیہ ہاتھ" کامیاب ہو رہا ہے، ہر چیز طے شدہ منصوبے کے مطابق ان کے کنٹرول میں ہے۔
کرونا وائرس سے دنیا کو لاک ڈاؤن کروا کے وہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو رہے ہیں،

ساتھ ہی انہوں نے چپکے سے 5G انسٹالیشن شروع کر دی ہے

اور بل گیٹس نے نینو چپس کی شروعات کے لئے اقوام متحدہ سے 1 بلین ڈالر کا معاہدہ بھی کر لیا ہے ،

اس معاہدے میں ویکسین بنے گی اور اسی ویکسین کے اندر اتنی چھوٹی نینو چپ ہو گی کہ جو انسان کو خوردبین سے ہی نظر آ سکتی ہے،
وہ دنیا کے ہر انسان کو دی جائے گی۔ *Contagion* فلم میں جو ویکسین سب کو دی جاتی ہے وہ ناک میں ڈالی جاتی ہے اور ساتھ ہی ایک ڈجیٹل کڑا ہاتھ میں پہنا دیا جاتا ہے

جس سے ان کو کسی "خفیہ جگہ" سے مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔

اب مجھے پورا یقین ہے
بل گیٹس بھی اقوام متحدہ کو چلانے والے "خفیہ ہاتھ" کے ساتھ مل کر ایسی ہی ویکسین بنائے گا جو ناک یا منہ میں ڈالی جائے گی اور اسی کے ذریعے نینو چپ بھی ہر انسان کے جسم میں داخل کی جائے گی۔
چونکہ چپ انتہائی چھوٹی ہے اور کسی بھی ویکسین کے ذریعے جسم میں ڈالی جا سکتی ہے
لہذا کسی انسان کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ وہ چپ زدہ ہو چکا ہے۔

دجال کو دنیا میں خوش آمدید کہنے کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

جو پہلے سے اس فتنے سے آگاہ ہوں گے وہی اس سے بچ پائیں گے ۔

جو لاعلم ہوں گے وہ پھنس جائیں گے، بہک جائیں گے، گمراہ ہو جائیں گے،
سیلابی پانی میں تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔

خواتین و حضرات سے درخواست ہے کہ اس دجال کے فتنے کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنے کی بھر پور کوشش کریں
اور اس فتنے سے بچنے کے لئے دین اسلام میں جو راہنمائی دی گئی ہے اسے اپنی زندگیوں میں فوری طور پر اختیار کریں
تاکہ کہیں بے خبری میں اپنی دنیا و آخرت اپنے ہاتھوں سے برباد نہ کر لیں
دجال کے فتنے سے بچنے کے لئے سورہ الکہف کی پہلی دس آیات کی روزانہ تلاوت کریں اور دجال کے فتنے سے بچنے کی مسنون دعائیں یاد کر کے اپنے معمول کے اذکار میں
شامل فرمائیں

اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کرنے اور قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے

آمین ثم آمین یا رب

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم