تنقید برداشت نہ کرنے کا بدترین مزاج*

*تنقید برداشت نہ کرنے کا بدترین مزاج*

فقیہ العصر، نمونۂ سلف حضرت مولانا خالد سیف اللّٰہ رحمانی مدظلہ کا دردمندانہ اور فکر انگیز پیغام، مسلمان دانشوران، علما اور ذمہ داران غور فرمائیں _ :

امت کا یہ بگڑتا ہوا مزاج ہے کہ ایک تو برائیوں کو روکنا جن لوگوں کی ذمہ داری ہے ، وہ بدترین قسم کے نفاق اور چاپلوسی میں مبتلا ہیں ، اور اسلام دشمن حکمراں کو محدّث اور مُلہَم جیسے القاب سے نواز رہے ہیں ، جن کا استعمال رسول حق ترجمان نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں فرمایا تھا ، یہ کیسی جسارت ، بے شرمی اور چاپلوسی ہے ، یہ تو مسلمان حکمرانوں کا حال ہے ؛ لیکن افسوس کہ عمومی طور پر مسلمانوں میں تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے ، اور مسلمانوں کے تمام طبقات اس مرض کا شکار ہیں ، حلقۂ تصوف میں تو پتہ نہیں کہاں سے یہ بات زبان زد عام و خاص ہوگئی کہ پیر مغاں جو بھی کہہ دے مرید کو قبول کر لیناچاہئے :
بہ مئے سجادہ رنگیں کن گرت پیرمغاں گوید
حالاں کہ علماء حقانی اور مشائخ ربانی اپنے مقتدیٰ سے بھی اختلاف کرتے رہے ہیں ، سرخیل صوفیاء شیخ اکبر امین عربی پر مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ نے جو تنقیدیں کی ہیں اور ’’ فصوص الحکم‘‘ کے مضامین پر نقد کیا ہے ، وہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے ۔
نیز صحابہؓ سے بڑھ کر راہ سلوک کا رہبر کون ہو سکتا ہے ، اور فقہاء مجتہدین سے بڑھ کر دین و شریعت کا رمز شناس کیا کوئی اور ہو سکتا ہے ؟ لیکن انہوں نے کبھی اپنے متبعین سے ایسی بے چون و چرا پیروی کا مطالبہ نہیں کیا ؛ مگر اب ملت کے ہر شعبہ میں یہی مزاج در آیا ہے ، چاہے مذہبی و ملی تنظیمیں ہوں ، مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں ہوں ، تعلیمی و تربیتی ادارے ہوں ، یہاں تک کہ مساجد کے نظم و نسق کے ذمہ دار ہوں ، ہر جگہ یہی صورت حال ہے کہ ذمہ داروں کے اندر معمولی تنقید سننے کا بھی حوصلہ نہیں ہے ، حد یہ ہے کہ اب یہ مزاج ہماری دینی درسگاہوں میں بھی پہنچ گیا ہے کہ بہت سے اساتذہ کو اپنے طلبہ کا سوال کرنابرداشت نہیں ہوتا ، یہ کسی بھی قوم کے لئے بہت ہی بدبختانہ بات ہے ، اور اس کے علمی و فکری زوال کا پیش خیمہ ہے کہ لوگوں میں برائی کو برائی کہنے کا حوصلہ باقی نہ رہے ، وہ اہل اختیار کی خوشامد اور چاپلوسی کے عادی ہو جائیں ، نہ صرف یہ کہ غلطی پر خاموش رہیں ؛ بلکہ ارباب اختیار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے رات کو دن اور دن کو رات کہنے کو بھی تیار ہو جائیں ، اور دوسری طرف ارباب اختیار اپنے آپ کو تنقید سے بالا تر سمجھنے لگیں ، اورمشورہ لینا اور مشورہ سننا ان کو بارِ خاطر ہو ۔
یقیناََ سربراہ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؛ لیکن اس کی بھی حدود ہیں ، سیدنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا : میری بات سنو ! اللہ تعالٰی تم پر رحم فرمائے ، مجمع میں سے ایک صاحب کھڑے ہوئے ، کہنے لگے : خدا کی قسم ! نہ ہم آپ کی بات سنیں گے اور نہ مانیں گے ، یہ کوئی اور صحابی نہیں تھے ؛ بلکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی تھے ، حضرت عمرؓ کو ان جیسے صحابی کے احتجاج پر حیرت ہوئی اور انہوں نے حضرت سلمان فارسیؓ سے اس کا سبب دریافت فرمایا ، حضرت سلمانؓ نے کہا : اس لئے کہ آپ نے امتیاز سے کام لیا ہے ، آپ نے ہم لوگوں کو ایک ایک چادر دی ہے اور خود دو چادریں اوڑھ رکھی ہیں ، یہ چادریں بیت المال کی جانب سے تقسیم کی گئی تھیں ، حضرت عمرؓ نے فرمایا : کہاں ہیں عبداللہ بن عمرؓ ؟ حضرت عبداللہ اُٹھے ، آپ نے ان سے دریافت کیا : یہ دوسری چادر کس کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : میری ، پھر آپ نے مجمع کے سامنے وضاحت فرمائی کہ جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں ، میں دراز قامت آدمی ہوں ، میرے حصہ میں جو چادر پڑی تھی ، وہ چھوٹی پڑ گئی ، میرے بیٹے عبداللہ نے اپنے حصہ کی چادر بھی مجھے دے دی ، میں نے ان دونوں چادروں کو ملا لیا ہے ، حضرت سلمان فارسیؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگے : اللہ تعالٰی کا شکر ہے امیر المؤمنین ! اب ہم آپ کی بات سنیں گے بھی اور اس پر عمل بھی کریں گے : فقل ، الآن نسمع ( اعلام الموقعین :۱؍۱۲۸ ) یہ ایک بہترین مثال ہے اس مزاج کی ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تربیت فرمائی تھی ، ایسا نہیں تھا کہ قوم کا سربراہ یہ سمجھتا کہ میں جو کچھ کہوں ، قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے بے چون و چرا تسلیم کر لے اوراس کو حق نہیں ہے کہ مجھ سے حساب لے ، نہ لوگوں کو اپنے سربراہ کو ٹوکنے اور روکنے میں تأمل ہوتا تھا ، خواہ وہ کتنا ہی مقدس ہو ، یہی مزاج فقہاء تک پہنچا ، جو نہایت فراخدلی کے ساتھ اور کسی ناگواری کے بغیر اختلاف رائے کو سنتے تھے ، اس پر غور کرتے تھے ، اس کو اہمیت دیتے تھے ، اور اگر ان کی بات معقول محسوس ہوتی تو بے تکلف اسے قبول کرتے تھے ، اور جس نے غلطی کی نشاندہی کی ہو ، اسے اپنا محسن سمجھتے تھے ۔
جہاں تعمیری تنقید کی جاتی ہو اور اسے قبول کیا جاتا ہو ، وہاں انسان کے اندر خود احتسابی پیدا ہوتی ہے ، اپنی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع ملتا ہے ، اگر اس نے کوئی قدم غلط اٹھا لیا ہو تو وہ دبے پاؤں اس سے واپس ہو سکتا ہے ، محرومِ منزل ہونے سے خود کو بچا سکتا ہے ، رفقاء کے درمیان باہمی اعتماد قائم رہتا ہے ، دیر پا اتحاد پیدا ہوتاہے ، اور اگر افراد بدل بھی جائیں تو ادارے اور جمعیتہ باقی رہتی ہیں ؛ اس لئے ایسے واقعات سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اپنے دائرہ میں شفافیت اور کُھلا پن کاماحول پیدا کریں ، جبر و ظلم کے ذریعہ نہیں ؛ بلکہ محبت اور پاکیزگی کردار کے ذریعہ اپنے ماتحتوں کا دل جیتیں اور اپنے مقصد کو اپنی شخصیت سے زیادہ عزیز رکھیں ۔

(مولانا خالد سیف اللّٰہ رحمانی)

*غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت کے حدود*

*غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت کے حدود*

*ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی*

           جس سماج میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہوں، ان کا آپس میں ملنا جلنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا، دینی نقطہ نظر سے پسندیدہ ہے _ مذاہب کا اختلاف اپنی جگہ _ ہر شخص تنہا بارگاہ الہی میں حاضر ہوگا اور اس سے اس کے عقائد و اعمال کی جواب دہی ہوگی _مسلمانوں کے لیے  سماج میں رہنے والے تمام انسانوں سے انسانی اور سماجی تعلقات رکھنا مطلوب ہے_ دوسری طرف ان سے یہ بھی مطلوب ہے کہ وہ عقائد اور عبادات کے معاملے میں کسی طرح کی مداہنت یا مشابہت قبول نہ کریں اور ابہام اور اشتباہ سے حتّی الامکان بچنے کی کوشش کریں _
            اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت کے کیا حدود ہیں؟
         واضح رہے کہ تقریبات دو طرح کی ہوتی ہیں :
      (1) سماجی، غیر مذہبی، مثلاً شادی بیاہ، جشن ولادت، ملازمت ملنے کی خوشی میں پارٹی ، کسی دوکان کا افتتاح، کسی کی وفات، یا سماج کے افراد کے یکجا ہونے کا کوئی اور موقع_
        (2)خالص مذہبی، جن میں کسی مخصوص مذہب کے مراسم ادا کیے جاتے ہیں _
            درج بالا سوال کا اصولی طور پر جواب یہ ہے کہ  مسلمانوں کے لیے غیر مسلموں کی سماجی تقریبات میں شرکت جائز، جب کہ مذہبی تقریبات میں شرکت ناجائز ہے _
                 بعض تقریبات کو سماجی اور مذہبی کے خانوں میں الگ الگ کرنا ممکن نہیں، کہ بعض غیر مسلم اپنی سماجی تقریبات میں مذہبی مراسم بھی انجام دیتے ہیں اور مذہبی تقریبات کو سماجی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں _ ایسی تقریبات، جن پر مذہبی رنگ غالب ہو، ایک مسلمان کے لیے ان میں شرکت نہ کرنا اَولی ہے _ لیکن اگر مذہبی رنگ غالب نہ ہو تو وہ شریک ہو سکتا ہے، البتہ مراسمِ عبادت کی مخصوص مجلس سے دور رہے_
              تکثیری سماج میں رہنے والے مختلف مذاہب کے پیروکار فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مقصد سے اپنی تقریبات میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مدعو کرنے لگے ہیں _ مسلمان عید ملن پارٹی میں، ہندو دیوالی، دسہرا کے فنکشن میں اور عیسائی کرسمس کی تقریب میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بلاتے ہیں _ یہ تقریبات اب خالص مذہبی نہیں رہ گئی ہیں، بلکہ ان میں مذہبی اور سماجی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں _
           ایسی تقریبات میں اگر کوئی مسلمان خیر سگالی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جذبے سے، سماجی تعلقات بڑھانے کے ارادے سے، یا دعوتی مقصد سے شرکت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، لیکن اسے اس موقع پر ان کاموں میں شریک ہونے سے بچنا چاہیے جن کا مذہبی رنگ ہو ، بلکہ اگر حسب موقع وہ اپنی علیحدگی کی وضاحت کرسکے تو اس سے دعوتی مقصد بھی پورا ہوگا_ مثلاًً اگر کرسمس کی تقریب میں اس سے کیک کاٹنے کو کہا جائے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ہم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کی خوشی میں کیک نہیں کاٹتے تو حضرت عیسٰی کی پیدائش پر بھی یہ سب کرنا مناسب نہیں سمجھتے _
        دوسروں کی تقریبات میں ہمیں اپنی شرائط پر شرکت کرنی چاہیے، نہ کہ ہم ان میں جاکر بغیر حدود کی رعایت کیے ہر وہ کام کرنے لگیں جو دوسرے ہم سے کروانا چاہتے ہیں _
       اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کو ہمیں اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے :
       "حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے_ ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں، جو شخص ان سے اپنا دامن بچا لے جائے، اس نے اپنے دین کو محفوظ کرلیا_"

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم