تبلیغی جماعت کے موجودہ اختلافات کے سلسلے میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ

مجلس علمیہ آندھرا پردیش کے اجلاس میں تبلیغی جماعت کے موجودہ اختلافات کے سلسلے میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ

ہر زمانے میں علمائے حق کا یہ شیوہ رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ حق کی موافقت اور حمایت کی ہے، جب کہ غلط کو غلط کہنے میں بھی ذرا جھجھک محسوس نہیں کی۔لیکن اب بات جو سردست سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان حالات میں جب کہ ایک بڑی تنظیم کے احباب دو حصوں میں بٹ چکے ہیں، علماء کی ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ دونوں کے درمیان اتفاق کی کوئی صورت نکالنے کی سعی کریں، یا کم از کم دونوں کو خود سے مربوط رکھ کر گمراہی سے بچانے کی پوری فکر کریں.

*”تبلیغی جماعت“ کا یہ کام نہ فرض ہے اور نہ واجب، بلکہ شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے بقول مستحب ہے، اگر علماء کسی ایک طرف فریق نہ بھی بنیں تو انہیں کوئی عذاب ہونے والا نہیں ہے، پھر سمجھ لیں کہ موافق ہونا اور فریق بننا دونوں میں فرق ہے، علماء کے ذہن میں یہ بات ضرور رہنی چاہیے کہ کس طرف خطائیں سرزد ہورہی ہیں،اور کون راہِ حق سے دور جارہا ہے، لیکن علماء کو ان کا فریق مخالف بھی نہیں بننا چاہیے، اس طرح علماء کے ہاتھوں سے ایک بڑا طبقہ چلا جائے گا، جب کہ امارت والوں کی طرف منسوب ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو صرف ذاتی اعتقاد کی بنا پر اُدھر کو ہوئی ہے، ورنہ حقیقتا ان کے عقائد کا ان عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اب بھی نفس تبلیغ کو اپنے پیش نظر رکھتے ہیں.*

رہی بات جماعت کے اصولوں میں ترمیم کو قبول کرنا، (مثلا چالیس دن کی جگہ اڑتالیس دن یا نوے دن کی جگہ چوراسی دن) تو یہ ایسا حرام کام نہیں ہے، جس کی بنا پر ان سے اعتزال کا حق علماء کو حاصل ہو، ہر ادارے میں نصاب کی تبدیلی ہوتی ہے، لیکن معیوب نہیں سمجھی جاتی، اگر تبلیغی جماعت میں یہ تبدیلی بعض قدامت پسند لوگوں کے نزدیک معیوب ہے بھی تو اس قدر نہیں جس کی بنا پر ان سے ترک تعلق کرلیا جائے۔

 *علماء کا مقام امارت اور شوری سے بلند ہونا چاہیے، موجودہ دعوت وتبلیغ کی محنت یہ دین کی ایک محنت ہے، سارا دین اس میں منحصر نہیں ہے، بلکہ دین کی اور بھی بہت سی محنتیں ہیں، بہت موٹی سی بات ہے کہ علمائے کرام کے لیے دیگر بڑی محنتیں بھی موجود ہیں، بلکہ علمائے کرام کا درجہ امارت اور شوری سے بہت بڑھ کر ہے، کسی ایک کا فریق بن کر دوسرے میں شامل ہونا واقعی علماء کے شایان شان نہیں ہے، علماء کو یکجٹ ہوکر عوامی کام

سے بلند ہونا چاہیے.*

 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام میں محنت کرنے والے علماء نے اس سے اوپر سوچنا بند کردیا ہے، بلکہ اکثر ائمہ تو تبلیغی جماعت کے احباب کے ہاتھ تلے کام کرتے ہیں، وہ جس کام کا حکم دیں گے یہ لوگ وہی کریں گے، اگر ان کے کام میں شریک ہوں گے تو انہیں امامت پر رکھا جائےگا، بصورت دیگر انہیں معزول کردیا جائے گا، کاش علماء متحد ہوکر اپنے اثر ورسوخ کی بنا پر عوام کی سرپرستی فرماتے!!!

 *تبلیغی جماعت میں عوام کی کثر ت ہے، اس لیے علماء کی بے احترامی اور ان کے مقام سے نا واقفیت اس کا ایک عام مرض ہے، اس میں امارت وشوری کسی کی تخصیص نہیں ہے، اس لیے اس اختلاف کو تو بھی کچھ ہی سال گذرے ہیں، جب کہ ان کے اتحاد کے وقت بھی ائمہ پر ان کا تسلط بہت پہلے سے جاری تھا، جوامام ان کی حمایت میں ہو اور ان کے ساتھ جڑ کر کام کرے وہ اسی کو امام سمجھتے تھے، پھر یہ بات بھی اس میں بہت پہلے سے گردش کررہی ہے کہ اصل دین کا کام یہی دعوت کا ہے، جو لوگ پیسے لے کر دین کا کام کرتے ہیں وہ در حقیقت دین کا سودا کررہے ہیں۔بات شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے کی ہے، ایک عالم صاحب نے حضرت کو خط لکھا کہ ہمارے علاقے میں علمائے کرام کی بے احترامی کے واقعات تبلیغی جماعت کے احباب کی طرف سے پیش آرہے ہیں، بعض ائمہ معزول بھی کئے گئے، حضرت نے جواب دیا کہ چونکہ اس جماعت میں عوام کی کثرت ہے، اس لیے یہ تو ہونا ہی ہے، تمہاری کیا بات کرتے ہو، خود میں اور مولانا عبدالقادر رائے پوری (رحمہما اللہ) کچھ دن مرکز نظام الدین میں گزارتے ہیں، میں نے ایک دفعہ خود اپنے کانوں سے یہ بات سنی ہے کہ یہ دونوں بڈھے (بوڑھے) مرکز میں کھاپی کر سوتے رہتے ہیں اور دعوت کا کام نہیں کرتے!* 

*آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء وسیع ذہنی کے ساتھ ان معاملات پر غور فرمائیں، ایک محدود سوچ رکھنے والا ہی وقت کے فقیہ العصر پر معاملات سے نا واقفیت کا الزام لگاسکتا ہے، خدارا اپنی سوچ کو وسیع کریں، اپنے کام کے دائرے کی وسعت کو سمجھیں، تبلیغ میں محدود رہنا یہ عوام کا طریقہ ہے، نیز اسی میں ان کی عافیت ہے، لیکن علماء کے لیے یہ تنگ نظری سخت نقصان دہ ہے۔ فھل من مدکر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب

درود شریف کے اندر ایک پورا نظام پوشیدہ ہے

درود شریف کے اندر ایک پورا نظام پوشیدہ ہے


ہم اپنی لغت میں اسے ’’ نظام محبت‘‘ اور ’’ نظام رحمت‘‘ کہہ سکتے ہیں… 
درودشریف پڑھتے ہی یہ پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے… 
مختصر طور پر اس نظام کو سمجھ لیں… درودشریف پڑھنے والے نے … اللہ تعالیٰ سے محبت کا ثبوت دیا…
کیونکہ درودشریف پڑھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے…
 یہ ہوئی پہلی محبت…

درود شریف پڑھنے والے نے حضور اقدس ﷺ سے محبت کا ایک حق ادا کیا… یہ محبت ایمان کے لئے لازمی ہے…
جب تک رسول اللہ ﷺ کی محبت … ہمیں ہر چیز سے بڑھ کر حاصل نہیں ہوگی… اس وقت تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا… اعتبار والا ایمان وہی ہے جس میں حضور اقدسﷺ سے محبت… سب سے بڑھ کر ہو…

ہمیں حضور اقدس ﷺ کی ظاہری صحبت حاصل نہیں ہوئی … 
مگر ہم آپ ﷺ کی محبت تو پا سکتے ہیں… یہ محبت ہمیں جس قدر زیادہ نصیب ہوگی اسی قدر ہمارے دل میں… 
آپﷺ کی زیارت، شفاعت، صحبت اور تذکرے کا شوق بڑھے گا… درودشریف میں بندہ اپنی اسی محبت کا اظہار کرتا ہے… تو یہ ہوئی دوسری محبت…

ہم نے محبت سے درود شریف پڑھا تو… درودشریف کی خدمت پر مامور ملائکہ نے اسے محبت سے اُٹھایا اور سنبھالا … ان عظیم ملائکہ یعنی فرشتوں کے عجیب و مختلف حالات حدیث شریف کی کتابوں میں آئے ہیں… یہ معزز فرشتے درود شریف کو اُٹھانے، سنبھالنے اور پہنچانے کی خدمت انجام دیتے ہیں …
بہت تیزی اور محبت سے سر انجام دیتے ہیں…
فرشتوں کو درودشریف سے محبت ہے…
اس کا ثبوت قرآن مجید میں موجود ہے…
  یہ ہوئی تیسری محبت

پھر اللہ تعالیٰ نے ایک وسیع طاقت اور سماعت رکھنے والا ایک فرشتہ (ایک روایت میں دو فرشتے) مقرر فرما رکھا ہے… جو درودشریف پڑھنے والے کو … بڑی محبت بھری دعا دیتا ہے اور کہتا ہے ’’ غفرانک اللّٰہ ‘‘…
اللہ تعالیٰ تیری مغفرت فرمائے… فرشتے کی اس دعاء پر دیگر فرشتے آمین کہتے ہیں … اور اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرماتا ہے… 
 یہ ہوئی چوتھی محبت…

فرشتوں نے یہ درودشریف حضور اقدس ﷺ تک… درود شریف پڑھنے والے کی ولدیت کے ساتھ پہنچا دیا کہ…
یا رسول اللہ ﷺ ! فلاں بن فلاں نے آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا ہے… آپ ﷺ اس صلوٰۃ و سلام کا محبت کے ساتھ جواب ارشاد فرماتے ہیں … سبحان اللہ! حضرت آقا مدنی ﷺ کا جواب … آپ ﷺ کی ہمارے لیے دعاء رحمت… اور ہمارے لیے سلام… یہ ہوئی پانچویں محبت…

اب ان پانچ محبتوں کے بعد… محبت کے مے خانہ کا اصل دور شروع ہوتا ہے … وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ توجہ خاص فرماتا ہے… اور پھر اس بندے پر محبت اور رحمت کی بارش فرما دیتا ہے…
 دس خاص رحمتوں کا نزول… دس درجات کی بلندی …
 دس گناھوں کی معافی… اور معلوم نہیں کیا کیا انعامات…

تو زمین سے لے کر عرش تک… کیسا زبردست ’’نظام محبت و رحمت‘‘ متحرک ہو گیا… اب جس بندے کو یہ نعمت نصیب ہوئی… اس کا کون سا مسئلہ ہے جو حل نہیں ہوگا اور کون سی پریشانی ہے جو دور نہیں ہوگی
محبت سے درود شریف پڑھ لیجئے۔


● اَللّٰــھُمَّ صَـــلِّ عَلٰی مُـحَـمَّـدٍ وَّعَـلٰٓی اٰلِ مُـحَـمَّـدٍ کَـمَا صَـلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْـرَاھِــیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْـرَاھِــیْمَ اِنَّـکَ حَـــمِیْدٌ مَّــجِیْدٌ ● 

●اَللّٰــھُمَّ بَـارِکْ عَلٰی مُـحَـمَّـدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُـحَـمَّـدٍ کَـمَا بَـارَکْـتَ عَلٰٓی اِبْـرَاھِــیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْـرَاھِــیْمَ اِنَّـکَ حَـــمِیْدٌ مَّـــجِیْدٌ

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم