سود کی خباثت کے اثرات

ایک مظلومانہ پکا رسنوعزیزساہوکارو!
ابو صالح شیخ ادریس  ندوی
لوگو:سنو  اگر تمہا رے سینے میں دل ہیں تو سنو، اگر انسانیت کےواسطے کچھ ہمدردی اور خیر خواہی ہو  توسنو ،تمہیں دولت کی جھنکار ،سیم وزر کے انبار اور مال ومتاع کی محبت  نے کیوں بہرا، اندھااورحواس باختہ  کردیا ہے ،یہ  سسکتی اور بلکتی ہوئی انسانیت کی مظلومانہ پکار ہے ،جس  کی زندگی سمندری بھنور میں ہچکولے کھارہی ہے ،کیا تم انسانیت کی پکار بھی نہیں سنوگے وہی انسانیت جس  سے یہ کائنات روشن اور منور ہے ،اور یہ چمن قائم ہے اگر انسانیت کی روح اس کائنات سے نکل جائے تو یہ کائنا ت درندوں کا زو(Zoo)اور ویران کھنڈر بن جائے،کیاآپ جانتے ہیں؟ ستر سالہ بوڑھا ،جس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ ،اور جس کی بینائی میں دھندلاہٹ ہے،تپتی ہوئی دوپہر شعلہ برساتی ہوئی دھوپ میں ٹھیلہ دھکیلتے ہوئےپسینہ سے شرابور ، گلی گلی کیوں گھومتاہے ؟اس لئے کہ سود کی رقم اداکرکے، اپنی بیوی ،بیٹی کی عزت کو سر بازار نیلام ہونے سے بچایا جاسکے، آج کے ساہوکار اور مالدار بھی کیسے ظالم ہیں، کہ انسانیت کی ہمدردی، اورخیرخواہی کو بالائے طاق رکھ کر،مال کی لالچ میں  سود پر قرض دیتے ہیں، اوراس مہلک بیماری نے نہ جانے کتنی پاکدامن ماؤں کو ہوسناک نظروں کا شکار، اور بڑےلوگوں کے گھر میں جھاڑو مارنے پر مجبور کردیااورنہ جانے کتنے ضعیف العمر باپوں سے دن کا سکون اور رات کی نیند چھین لی، اورنہ جانےکتنی ہی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں سودی قرض کی ادائیگی میں مالداروں کے ہاتھ تارتار ہوگئے ،اور کتنے ہی حسین تندرست نوجوان  سودی قرض اداکرتے کرتے بڑھاپے کی دہلیز تک جا پہونچے، اور کتنے ہی انسانوں نے  کسماتے ،اور تڑپتے ہوئے ،خون پسینہ ایک کرنےکےباوجود سود ادانہ ہونے کی بنا پر کسی ریل کے نیچے اپنی بوٹیوںکو بکھیر دیا یا اپنےآپ کوکسی رسی  کےپھندےپر لٹکا دیا ،یاکسی جلتے ہوئے شعلہ میں کود پڑے،اور زیادہ سے زیادہ اگر کسی کو اپنی زندگی عزیز ہی تھی تو  قرض کے ادائیگی کیلئے چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ کھسوٹ ،قتل وغارت گری جیسے خطرناک امراض میں مبتلا تو ہو ہی گیا، جس کی وجہ سے پورا انسانی معاشرہ سکون واطمینان کی سانس لینے سے محروم ہوتاچلاگیا،  اور آج بھی یہ سب کچھ ہورہاہےا،ور ہوتاہی رہے گا، اوران سب کا سبب چند ساہوکاروں(مالداروں) کی نادانی، شقاوت قلبی، اور ہمدردی کافقدان بنا، ائے کا ش اب تو ہو کوئی جو سسکتی انسانیت پر ہمدردی کرکے ان نادانوں کو اس سے روکے اور منع کرے یاخود یہ نادان ہوش وہواس اور غوروفکر سے کام لیں ، یہ اس مظلو م انسانیت کی ایک پکا رہی نہیں بلکہ اس کی جان کے بقا کاسوال ہے، ہوسِ زر میں ڈوبے ہوئے ان ساہوکاروں کے نام اور مالداروں کی طرف جو محبت و انسانیت ،حیا ،و وفا ،سیرت و صور ت ،اوراخلاقی اقدار، غرض ہرخیرپر مال ودولت کو ترجیح دیتے ہیں، جن کی حریصانہ فرمائشوں اور شیطانی مطالبات نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیو ں کو گھٹ گھٹ کر مرنے پر مجبور کردیا ہے،اور کئی انسان کو خودکشی کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتاردیاہے ، ان کے مطالبات صرف قرض خواہوں تک ہی محدود  نہیں رہتے بلکہ ان کےمرنے کے بعد ان کی  اولادوں تک یہ سلسلہ جاری رہتاہے جو اس بوجھ کو پورا نہ کرنے کی صورت میں ظلم وتشددکا نشانہ بنتی ہیں یا زندہ لاش بن جاتی ہیں یا اس مصیبت سے نجات پانے کیلئےخود کشی کرلیتی ہے ۔ سودکےانہیں خطرناک ،انسانیت سوزنتائج کیوجہ سے انسانوں کے شفیق پروردگارنےاس سےمنع کیااورسخت سےسخت وعیدیں اورڈانٹ سنائی ،تاکہانسانیت اس کھائی میں نہ جاپڑے،لیکن افسوس ۔جس کا اندیشہ تھا وہی ہوگیا ،جہاں ڈرتھاوہی شام ہوگئی ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ کو اس کی سنگینی کااحساس دلایاجائے۔


مذہب اور انسان


مذہب اور  انسان 
از:ابوصالح شیخ ادریس ندوؔی ولی اللٰھی ؔ

مذہب کے ساتھ انسان کے تعلقات کی  دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان مذہب کے مطابق ہوجائے،اپنے ہر فعل وعمل اور پنی ہر حرکت ونظر کو مذہب کے عینک سے دیکھے  اور دوسرا یہ کہ مذہب کو اپنے مطابق بنالے۔اور اپنے خواہشات کے مطابق مذہب کو پیش کرے ۔انبیاء کا زمانہ اس اعتبار سے بہترین ہوتاہے کہ وہ مذہب کو زمانے کی روش میں ڈھالنے کے بجائے لوگوں کو مذہب کے ساچے میں ڈھالتے ہیں اور اس اعتبار سے  آخری نبی ورسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اس اعتبار سے بھی بہترین زمانہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کی عظیم اکثریت مذہب کے مطابق ہوجاتی تھی۔ اس کی ایک وجہ مسلمانوں کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ایمان اور عمل کا جو معیار پیدا کرتی تھی وہ کسی دوسری چیز سے ممکن ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہردور کے لیے ایک معیار ہے اور اسوہ قرار پایا ۔ لیکن ہمارے زمانے کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے زمانے کا غالب رجحان مذہب کے مطابق ہونے کا نہیں، مذہب کو اپنے مطابق بنانے کا ہے۔ اس سلسلے میں عوام اور خواص کی کوئی تخصیص نہیں۔ اقبال مرحوم نے کیا خوب کہا تھا:
                                خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں                ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اقبال کے اس شعر کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسئلے کی سنگینی بہت بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کا انحراف معمولی انحراف ہوتا ہے۔ عوام کی آنکھوں پر پڑنے والے پردے دبیز نہیں ہوتے۔ لیکن ”فقیہانِ حرم“ کا انحراف ”مدلل“ ہوتا ہے۔ یعنی اہلِ علم مذہب کو اپنے مطابق بناتے ہیں تو اس کا پردہ چاک کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی خرابی اُپنی حد تک محدود رہتی ہی، لیکن اہلِ علم کی خرابی کئی کئی نسلوں کو لے ڈوبتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مذہب کے مطابق بن جانے اور مذہب کو اپنے مطابق بنانے کے معاملات اور نفسیات میں کیا فرق ہے؟اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ مذہب کی کائنات  میں خدا مرکز کائنات ہے۔ اس کائنات میں خدا خالق ہی، مالک ہی، رازق ہی، پیدا کرنے والا ہی، مارنے والا ہی، جزا دینے والا ہی، سزا دینے والا ہی، اس کے ہونے سے ہر شے میں معنی ہیں۔ جن لوگوں کی کائنات فکری اور عملی اعتبار سے خدا مرکز کائنات ہوتی ہے وہ ساری زندگی خود کو مذہب کے مطابق بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اس لیے کہ مذہب ان کے لیے زندگی کی واحد برتر حقیقت ہوتا ہے۔ اس کائنات میں انسان اور مذہب کا تعلق ذرے اورآفتاب کا ہوتا ہے۔ ذرہ جتنا آفتاب کی روشنی میں ہوتا ہے اتنا ہی منور ہوتا ہے۔ لیکن اب ہماری کائنات خدا مرکز کائنات نہیں۔ عقیدے کی سطح پر خدا آج بھی ہماری کائنات کے مرکز میں موجود ہے لیکن عمل کی سطح پر ہماری کائنات انا مرکز کائنات ہے۔ اس کائنات میں ہماری انا ہی سب کچھ ہے۔ اس تضاد کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ”آرزو“ مکّے اور مدینے کی ہوتی ہے لیکن ہماری ”جستجو“ ہمیں واشنگٹن ، لندن ،دبئی اور قطر لیے جارہی ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہمارے لیے صرف ایک فکری حقیقت ہے، اور یہ فکر عمل پیدا نہیں کررہے۔ ہمارا عمل جس چیز سے پیدا ہورہا ہے وہ خدا نہیں ہماری ”انا کی استعماری قوت“ ہے۔ اس صورت حال میں ہم مذہب کو اپنے مطابق نہیں بنائیں گے تو اور کیا کریں گے؟انسان کا ایک ازلی و ابدی مسئلہ یہ ہے کہ وہ روحانی اور نفسیاتی سطح پر خود کو ناکافی، ادھورا، نامکمل یا Imperfect محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ صرف مذہب اسے کافی بناسکتا ہے، صرف مذہب اس کے ادھورے پن کو رفع کرسکتا ہے، اور صرف مذہب اسے کامل یا Perfect بناسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب انسان کے لیے سانس لینے کی طرح ناگزیر ہوجاتا ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ ہمارا تصورِ زندگی اتنا اتھلا اور ہمارا شعور اتنا سطحی ہوگیا ہے کہ ہم روحانی اور نفسیاتی سطح پر اپنے آپ کو کامل یا Perfect کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ مذہب کے ساتھ شدید وابستگی کا بھی کوئی تقاضا ہمارے اندر نہیں ابھرتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم مذہب کی سطح پر جانے کے بجائے اسے اپنی سطح پر گھسیٹ لاتے ہیں۔ لیکن ہماری سطح کیا ہے؟ فی زمانہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے آپ کو دو سطحوں پر کامل یا Perfect دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک معاشرتی سطح پر اور دوسرے معاشی سطح پر۔ یہاں معاشرتی سطح کی نشاندہی بھی غیر ضروری ہی، اس لیے کہ ہماری معاشرتی سطح بھی ہماری معاشی حیثیت سے متعین ہورہی ہے۔ اس سطح پر اکثر صورتوں میں مذہب کے ساتھ تعلق کے بجائے مذہب کے ساتھ بے تعلقی اہم ہوجاتی ہے۔ اس طرح مذہب خودبخود ہمارا حاکم بننے کے بجائے محکوم بن جاتا ہے۔اس معاملے کا ایک پہلو اقبال کے اس شعر میں موجود ہے جو آپ کالم کے آغاز میں ملاحظہ کرچکے ہیں، یعنی خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق اس شعر میں سب سے اہم لفظ ”توفیق“ ہے۔ لیکن توفیق کا مطلب کیا ہے؟ توفیق دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو فراہم کی جانے والی وہ روحانی مدد ہے جس کے ذریعے مذہب پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔ ایک اور سطح پر توفیق کا مطلب الہام کے ذریعے معنی تک رسائی ہے۔ توفیق کی دو ہی صورتیں ہیں، یا تو انسان اللہ تعالیٰ سے خود توفیق طلب کرتا ہے، یا اللہ تعالیٰ عنایت و انعام کے طور پر انسان کو خود توفیق سے نواز دیتے ہیں۔ لیکن دونوں صورتوں میں توفیق کی ضرورت کا شدید تقاضا انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اس تناظر میں زیرِبحث مسئلے کا مفہوم یہ ہے کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق عطا ہوتی ہے تو وہ خود کو مذہب کے مطابق بناتا ہے۔ اور الہام کی قوت سے قرآن و حدیث کو سمجھتا ہے۔ لیکن جب انسان توفیق سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ مذہب کو اپنے مطابق بنانے لگتا ہے اور اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ عقل کی قوت سے سمجھنے کی غلطی کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ فقیہانِ حرم کی بے توفیقی کا مطلب اللہ تعالیٰ کی مددِ خاص سے محرومی اور الہام کی روایت سے کٹ کر رہ جانا ہے۔ یہ تجزیہ ہمارے عہد کا المیہ اور اس کی ایک علامت ہے۔
                                              قوت فکر وعمل     پہلے فنا ہوتی ہےپھر                    کسی قوم کےعظمت پہ زوال آتاہے


کیا رہبانیت انسانیت کی معراج ہے

·            
کیا رہبانیت اور جوگیت انسانیت کی معراج ہے؟
از :ابوصالح شیخ ادریس ندوی ولی اللٰھی

بہت سے مذاہب میں آرزؤوں اور تمناؤوں سے اپنے آپ کو خالی کر لینا انسانیت کی سب سے بڑی سعادت سمجھا جا تا تھا۔ مہاتما بدھ کی جانب یہ منسوب کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت کو مدعاؤں سے خالی کر لینا، نہی نروانا کا سب سے بڑا مقدس نصب العین ہے یاپھر رہبانیت اور جوگیت جو انسانیت کی معراج سمجھی جاتی ہے اس کے معنی بھی اپنے کو دنیا سے بالکل علیحدہ کر لینا ہی ہے۔کلیسا کے باغیوں نے کلیسا پر الزام لگایا تھا اور یقینا یہ الزام بیجا نہ تھا کہ اس نے آدمی کو آدمی نہیں، پتھر فرض کر لیا تھا کہ آرزؤوں اور تمنا ؤوں سے دست برداری کی توقع پتھروں ہی سے کی جا سکتی ہے، ان ہی کے سینے ارمانوں اور خواہشوں سے خالی ہو سکتے ہیں۔

عیسائی مذہب میں انسانیت کی معراج یہ تھی کہ وہ فرشتہ ہو جائے یعنی اس مذہب میں لذائذ حیات اور انسان کے فطری احساسات کے تقاضوں کو غلط یا صحیح طریقے سے دبانے کی کوشش جاری تھی۔ سمجھا یہ جا تا تھاکہ بہیمی اور حیوانی کثافتوں کی چادر اس غریب فرشتہ کو اوپر سے لپٹ گئی ہے۔ اس چادر کو چاک کر کے اپنی ملکوتی کے چمکانے میں جو زیادہ کامیاب ہو گا ،وہی اپنی اصل حقیقت سے زیادہ قریب ہو تا چلا جائے گا۔مطلب یہ کہ وہی یورپ جس کا آسمان بھی آج معاش ہے اور زمین بھی اس کی معاش ہی ہے۔ آج جو مجسم معاشیات یا کہیے تو کہہ سکتے ہیں کہ صرف شکم ہی شکم بن کر رہ گیا ہے۔اس یو رپ کا حال اپنے ملکوتی عہد میں اس معاشیات کے متعلق یہ تھا۔جیساکہ اس ملک کے ایک معاشی مورخ نے لکھا ہے:

”معیشت ان کے (یعنی انہیں قدیم ملکوتی عیسائیوں) کے نزدیک کبھی فی نفسہ قابل توجہ نہ بنی۔ مقاصد معینہ (فرشتہ بننے کی مہم اور اس کے مقدمات) کے لئے ذریعہ کی حیثیت سے قدروں کے ہمہ گیر نظام میں اس معیشت غریب کی جگہ کہیں حاشیہ پر تھی۔“

انتہا یہ ہے کہ جدید معاشی دور کا آغاز جن بزرگوں کی اصلاحی آواز کی بدولت جیسا کہ اسی ملک کے لوگوں کا بیان ہے، ظہور پذیر ہوا ہے۔ میری مراد پروٹسٹنٹ فرقہ اور ان کی اصلاحی اقدامات سے ہے دوسرے نہیں۔ اسی صلاحی پیغام کے سرخیل اعظم یعنی جناب لوتھر تک کے مواعظ اور خطبات میں اس وقت تک اس قسم کے فقرے بے جھجک استعمال ہو تے تھے،مثلا لوتھر کا مشہور مقولہ ہے ۔ وہ کہا کرتا تھا

”دولت ان ہی ٹھیٹھ گدھوں کو (اللہ میاں) دیتے ہیں جنہیں وہ کچھ ارزانی نہیں فرماتے۔“

اورظاہر بھی یہی ہے کہ کلیسا کے مذہب سے لو تھر جتنا بھی بیزار ہو لیکن اس مذہب کا تو وہ بہر حال معتقد بلکہ سرگرم وکیل اور حامی تھا۔ جس کا نصب العین آدمی کو فرشتہ بنانا قرار دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں اگر دولتمندوں کو لو تھر صاحب گدھا یا ٹھیٹھ گدھے کے نام سے مو سوم کر تے تھے تو جس کا نصب العین ملک(فرشتہ) ہونا ہو، اس بلند نصب العین کو چھوڑ کر اپنی ساری توانائی دولت مند ہونے پر خرچ کر دی ہو اپنی اس حماقت کی وجہ سے اگر سمجھنے والے اس گدھا سمجھتے تھے تو غلط کیا سمجھتے تھے۔

لیکن خیر یہ تو پرانی بات ہے۔ صدیوں کی کشمکش کے بعد فرشتہ بنانے والے مذہب کے جوئے سے اس مسلک والوں نے اپنے آپ کو آزاد کر لینے میں جب کامیابی حاصل کی تو جیسا کہ ٹاؤنی نے لکھا ہے:

”مذہب نے انسانی طمع پر بہت سے قیود عائد کر رکھے تھے۔ سولہویں صدی کی تجارتی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے (مذہب)کے اقتدار کا مقابلہ کیا گیا اور سترہویں صدی کے اخیر تک مذہب آئندہ معاشیات پر حکمراں نہ رہ سکا۔ تاہم اس کے اقتدار کی دھجیاں باقی رہ گئیں.... لیکن اٹھارہویں صدی کے پر زور مقابلہ میں طلب و رسد کے قانون اور نفع و راحت کے نام پر معاشیات اور مذہب کے درمیان طلاق واقع ہو گئی۔“ (داستان دہقان ص۳۲۶)

یعنی کلیسا اور دنیا کے درمیان ان کے نزدیک تضاد تھایعنی ان کا خیال یہ تھا کہ مذہب محض ایک پرسنل اور شخصی مشغلہ کی حیثیت سے جینا چاہے تو جی سکتا ہے لیکن زندگی کے عمومی اور اجتماعی شعبوں میں اس کے دخل اندازیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس کامطلب یہ تھا کہ انسان اپنی ذاتی مفاد کے حاصل کرنے میں خدائی اور اخلاقی پابندیوں سے بالکل آزاد ہے اور مذہبی حدود اس کے خواہشات کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا باعث نہیں بن سکتے۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ سرمایہ داری کی آڑ میں طاقتوروں نے کمزوروں کا وہ جنازہ نکالا کہ سرمایہ داری کے حمایت کرنے والے بھی چیخ اٹھے ۔ان ہی ظلم و عدوان اور کمزوروں کے استیصال کو دیکھ کر آدم اسمتھ (AADAM SMATH) نے کہا: ”اپنے اپنے طور پر اپنے ذاتی مفاد کے حاصل کرنے میں گو ہر شخص آزاد ہونا چاہیے لیکن(اگر مذہب نہیں) تو قوانین عد ل و انصاف میں تو ردوبدل نہ کرنا چاہیے۔“

لیکن دولت کے حوالے سے لوگوں کی جنوں کی حدتک دیوانگی نے اور سرمایہ داری کے عفریت نے سود کی شکل میں عدل و انصاف کی وہ پامالی کی کہ دنیا کانپ اٹھی۔آدم اسمتھ کا وعظِ عدل و انصاف حرص وطمع اور ھل من مزید کے سیل رواں میں بہہ گیا۔ جیسا کہ ایک مشہور معاشی مورخ ٹاؤ نی نے لکھا ہی:                      

”اٹھارہویں صدی کے پر زور مقابلہ میں اس کی (یعنی آدم اسمتھ) کی تعلیم کا بنیادی اصول بھی فراموش کردیا گیا۔“

 انسان کو فرشتہ بنانا اور اس کو دنیا وی زندگی سے الگ کردینے کانتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ انسان مذہب سے بیزار ہوگئے اور پھر اس کے رد عمل کے طور پر جو معاشی فلسفہ پیش کیا وہ بھی کمزوروں اور مفلوک الحال لوگوں کے لئے ظلم وستم کا ایک پہاڑ بن کے کھڑا ہو گیا۔اس کے بر خلاف اسلام کا نقطئہ نظر بھی ملاحظہ فرمائیے جو اعتدال کی دعوت دیتا ہے۔

 اسلام نے مذہب اور دنیا کو الگ نہیں کیا اس سے بڑھ کر اسلام کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اللہ نے کسی بھی مذہب میں اس کو فرض نہیں کیا جیسا کہ قرآن کی سورہ حدید کی آیت ۲۷ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :”رہبانیت جسے انہوں نے خود تراش لیا ہے نہیں فرض کیا ہے ہم نے اس کو ان پر۔“ اس کامطلب صاف ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے علم و عمل کا جو نظام بنی آدم کو مذہب اور دین،دھرم وغیرہ کے ناموں سے ملتا رہا ہے اس میں اس غیر فطری نظریہٴ حیات کا کبھی مطالبہ نہیں کیا گیا۔یقینا اس آیت سے صرف اسلام ہی کی براء ت رہبانیت سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ مذہب کی پوری تاریخ سے اس کی بے تعلقی کا اظہار کیا گیاہے۔قرآن کی اس آیت کی بنیاد پر ہر مسلمان اس بات کے ماننے اور یقین کر نے پر مجبور ہے کہ عیسائی مذہب ہو یا یہودی دین، ابراہیمی ملت ہو یا نوحی دعوت کسی کا رہبانیت سے کچھ تعلق نہیں ہے۔

سورہ نساء آیت نمبر ۵ میں اللہ تعالیٰ حصول معاش کا یہ واضح دستور ارشاد فرماتا ہے:” مر دوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں اور عورتوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں۔“ یہ آیت حصول دنیا کے سا تھ ساتھ اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ عورت بھی جو کمائے وہ اس کا حصہ ہے۔لیکن ہاں یہ تمام کسب معاش ان شرعی حدود کے اندر ہوں جوقرآن و حدیث اور فقہ اسلامی میں مذکور ہیں۔ عزت و آبرو گنوا کر،عصمت و عفت کا دامن تا ر تار کرکے اور شمع محفل بن کر کسب معاش کی اجازت قرآن کیسے دے سکتا ہے۔       

لیکن دین ودنیا کی سیکولر تقسیم کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان اسلام کو نکاح و طلاق،وضو اور غسل، عبادات اور اخلاق تک محدود سمجھنے لگے ہیں ورنہ حقیقت جیسا کہ اوپر امذکور ہوا یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظریہٴ حیات ہے جو عبادات و تسبیحات،معاشرت و سیاست، تعلیم و ثقافت،اخلاق و اقدار،اجتماعیت و انفرادیت غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی دیتا ہے۔ اسلامی نظریہ کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ دین و دنیا کی تقسیم کو ختم کر کے ان میں وحدت پیدا کر تا ہے۔ یہاں نہ ترک دنیا اور رہبانیت کی اجازت ہے نہ دنیا پرستی اور پرستش زر کی۔ اسلام دین و دنیا کی تقسیم کو غیرالٰہی نظریہ قرار دیتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام کا نقطئہ نظر اس معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے۔یہاں معاشرت،تمدن، سیاست ،معیشت غرض دنیوی زندگی کے سارے شعبے کے ساتھ ساتھ روحانیت کا نور حاصل کیا جا سکتا ہے۔یہاں روحانی ترقی کے لئے جنگلوں،پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہاں روحانی قدوروں کو معاشرے میں رہ کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔یہاں تو رشتہٴ ازدوج سے منسلک ہو کر بھی روحانی بلندیا ں حاصل کی جا سکتی ہیں۔   

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم