اسلا م کی کیا خوبیا ں ہے کہ میں اس کو قبول کروں!؟


  اسلا م کی کیا خوبیا ں ہے کہ میں اس کو قبول کروں!
از:شیخ ادریس ندوی ؔ
اگر کو ئی شخص مجھ سے پوچھے کہ آخر کیا خوبیاں ہیں جس  کی وجہ سے میں اسلام قبول کروں ؟یاپھر آپ کی کیا خوبیاں نظر آئی جس کی وجہ سے آپ نے اسلام کو اپنے لئے مذہب کے طور پر دیگر مذاہب کو چھوڑ کرماناہے ؟
 جب میں نے اپنے نفس سے یہی سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ اسی دلیل سے جس کی بناءپر کسی اور چیز کو مانتا ہوں یعنی اس لئے کہ وہ سچا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے نزدیک مذہب کا بنیادی مسئلہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے۔ جو مذہب انسان اور خدا تعالیٰ میں سچا تعلق پیدا کر سکتا ہے ۔اور جو انسان  کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتاہے چاہے وہ دنیا کا مسئلہ ہو یا آخرت کا ۔وہ ہی مذہب سچا ہے اور کسی چیز کا سچا ہونا اس پر ایمان لانے کی کافی دلیل ہے۔ کیونکہ جو سچائی کو نہیں مانتا وہ جھوٹ کو ماننے پر مجبور ہے اور اپنا اور بنی نوع انسان کا دشمن ہے۔ اسلام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے ۔ وہ موجودہ زمانہ میں بھی اسی طرح اپنے بندوں کیلئے ظاہر ہوتا ہے جس طرح سابق زمانہ میں۔ اس دعویٰ کو دو طرح ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ یا تو اس طرح کہ خود متلاشی کیلئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور یا اس طرح کہ جس پر خدا تعالیٰ کا وجود ظاہر ہو اس کے حالات کو جانچ کر ہم اس کے دعویٰ کی سچائی کو معلوم کر لیں۔ چونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان صاحب تجربہ لوگوں میں سے ہوں جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو متعدد بار اور خارق عادت طور پر ظاہر کیا اس لئے میرے لئے اس سے بڑھ کر کہ میں نے اسلام کی سچائی کو خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ان لوگوں کیلئے جنہیں ابھی یہ تجربہ حاصل نہیں ہوا میں وہ دلائل بیان کرتا ہوں جو ذاتی تجربہ کے علاوہ میرے اسلام پر یقین لانے کے موجب ہوئے ہیں۔
اوّل:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے۔ مجھ سے زبردستی نہیں منواتا بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا وجود، اس کی صفات، فرشتے، دعا، اس کا اثر، قضاءو قدر اور اس کا دائرہ، عبادت اور اس کی ضرورت، شریعت اور اس کا فائدہ، الہام اور اس کی اہمیت، بعث مابعدالموت، جنت، دوزخ، ان میں سے کوئی امر بھی ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے تفصیلی تعلیم نہیں دی اور جسے عقل انسانی کی تسلی کے لئے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت نہیں کیا۔ پس اس نے مجھے ایک مذہب ہی نہیں دیا بلکہ ایک یقینی علم بخشا ہے۔ جس سے کہ میری عقل کو تسکین حاصل ہوتی ہے اور وہ مذہب کی ضرورت کو مان لیتی ہے۔
دوم:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام صرف قصوں پر اپنے دعوؤں کی بنیاد نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر سچائی کسی نہ کسی رنگ میں اسی دنیا میں پرکھی جا سکتی ہے اور اس طرح وہ میرے دل کو اطمینان بخشتا ہے۔
سوم:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام مجھے یہ سبق دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے کام میں اختلاف نہیں ہوتا اور وہ مجھے سائنس اور مذہب کے جھگڑوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں سکھاتا کہ میں قوانینِ قدرت کو نظر انداز کر دوں اور ان کے خلاف باتوں پر یقین رکھوں بلکہ وہ مجھے قوانین قدرت پر غور کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ کلام نازل کرنے والا بھی خدا ہے اور دنیا کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اس لئے اس کے فعل اور اس کے قول میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ پس چاہئے کہ تو اس کے کلام کو سمجھنے کیلئے اس کے فعل کو دیکھ اور اس کے فعل کو سمجھنے کیلئے اس کے قول کو دیکھ اور اس طرح اسلام میری قوتِ فکریہ کو تسکین بخشتا ہے۔
چہارم:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے جذبات کو کچلتا نہیں بلکہ ان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ وہ نہ تو میرے جذبات کو مار کر میری انسانیت کو جمادیت سے تبدیل کر دیتا ہے اور نہ جذبات اور خواہشات کو بے قید چھوڑ کر مجھے حیوان کے مرتبہ پر گرا دیتا ہے بلکہ جس طرح ایک ماہر انجنیئر آزاد پانیوں کو قید کر کے نہروں میں تبدیل کر دیتا ہے اور بنجر علاقوں کو سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے اسی طرح اسلام بھی میرے جذبات اور میری خواہشات کو مناسب قیود کے ساتھ اعلیٰ اخلاق میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ نے تجھے محبت کرنے والا دل تو دیا ہے مگر ایک رفیق زندگی کے اختیار کرنے سے منع کیا ہے یا کھانے کے لئے زبان میں لذت اور دل میں خواہش تو پیدا کی ہے مگر عمدہ کھانوں کو تجھ پر حرام کر دیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ تو محبت کر مگر پاک محبت اور جائز محبت، جو تیری نسل کے ذریعہ سے تیرے پاک ارادوں کو ہمیشہ کیلئے دنیا میں محفوظ کر دے اور تو بے شک اچھے کھانے کھا۔ مگر حد کے اندر رہ کر تا ایسا نہ ہو تُو تو کھائے مگر تیرا ہمسایہ بھوکا رہے۔ غرض وہ تمام طبعی تقاضوں کو مناسب قیود کے ساتھ طبعی تقاضوں کی حد سے نکال کر اعلیٰ اخلاق میں داخل کر دیتا ہے اور میری انسانیت کی تسکین کا موجب ہوتا ہے۔
پنجم:
پھر میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ سب دنیا ہی سے انصاف بلکہ محبت کا معاملہ کیا ہے۔ اس نے مجھے اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہی کا سبق نہیں دیا بلکہ اس نے مجھے دنیا کی ہر چیز سے انصاف کی تلقین کی ہے اور اس کے لئے میری مناسب رہنمائی کی ہے۔ اس نے اگر ایک طرف ماں باپ کے حقوق بتائے ہیں اور اولاد کو ان سے نیک سلوک کرنے بلکہ انہیں اپنے ورثہ میں حصہ دار قرار دینے کی تعلیم دی ہے تو دوسری طرف انہیں بھی اولاد سے نیک سلوک کرنے، انہیں تعلیم دلانے، اعلیٰ تربیت کرنے، اچھے اخلاق سکھانے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور انہیں والدین کا ایک خاص حد تک وارث قرار دیا ہے۔ اسی طرح اس نے میاں بیوی کے درمیان بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے احکام دیئے ہیں اور انہیں آپس میں نیک سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ وہ کیا ہی زریں فقرہ ہے جو اس بارے میں بانی اسلام نے فرمایا ہے کہ وہ شخص کس طرح انسانی فطرت کے حسن کو بھول جاتا ہے جو دن کو اپنی بیوی کو مارتا اور رات کو اس سے پیار کرتا ہے۔ اور فرمایا تم میں سے بہتر اخلاق والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا عورت شیشہ کی طرح نازک مزاج ہوتی ہے۔ تم جس طرح نازک شیشہ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہو اسی طرح عورتوں سے معاملہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا کرو۔
پھر اس نے لڑکیوں کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انہیں تعلیم دلانے پر خاص زور دیا ہے اور فرمایا ہے جو اپنی لڑکی کو اچھی تعلیم دیتا ہے اور اس کی اچھی تربیت کرتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ اور وہ لڑکیوں کو بھی ماں باپ کی جائیداد کا وارث قرار دیتا ہے۔
پھر اس نے حکام سے بھی انصاف کیا ہے اور رعایا سے بھی۔ وہ حاکموں سے کہتا ہے کہ حکومت تمہاری جائیداد نہیں، بلکہ ایک امانت ہے۔ پس تم ایک شریف آدمی کی طرح اس امانت کو پوری طرح ادا کرنے کا خیال رکھو اور رعایا کے مشورہ سے کام کیا کرو اور رعایا سے کہتا ہے کہ حکومت خدا تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر تم کو دی ہے اپنے حاکم انہیں چنو، جو حکومت کرنے کے اہل ہوں اور پھر ان لوگوں کا انتخاب کر کے ان سے پورا تعاون کرو اور بغاوت نہ کرو۔ کیونکہ اس طرح تم اپنا گھر بنا کر اپنے ہی ہاتھوں اس کو برباد کرتے ہو۔ اور اس نے مالک اور مزدور کے حقوق کا بھی انصاف سے فیصلہ کیا ہے۔ وہ مالک سے کہتا ہے کہ جب تو کسی کو مزدوری پر لگائے تو اس کا حق پورا دے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کر اور جو تیرا دستِ نگر ہو اسے ذلیل مت سمجھ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے جس کی نگرانی اللہ تعالیٰ نے تیرے ذمہ لگائی ہے اور اسے تیری تقویت کا موجب بنایا ہے۔ پس تو اپنی طاقت کو نادانی سے آپ ہی نہ توڑ اور مزدور سے کہا ہے کہ جب تو کسی کا کام اجرت پر کرتا ہے تو اس کا حق دیانتداری سے ادا کر اور سستی اور غفلت سے کام نہ لے۔ اور وہ جسمانی صحت اور طاقت کے مالکوں سے کہتا ہے کہ کمزوروں پر ظلم نہ کرو اور جسمانی نقص والوں پر ہنسو نہیں بلکہ شرافت یہ ہے کہ تیرے ہمسایہ کی کمزوری تیرے رحم کو ابھارے نہ کہ تجھے اس پر ہنسائے۔
اور وہ امیروں سے کہتا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو اور اپنے مالوں میں سے چالیسواں حصہ ہر سال حکومت کو دو، تا وہ اسے غرباءکی ترقی کیلئے خرچ کرے اور جب کوئی غریب تکلیف میں ہو تو اسے سود پر روپیہ دے کر اس کی مشکلات کو بڑھا نہیں بلکہ اپنے اموال سے اس کی مدد کرو کیونکہ اس نے تمہیں دولت اس لئے نہیں دی کہ تم عیاشی کی زندگی بسر کرو بلکہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی ترقی میں حصہ لے کر اپنے لئے ثواب دارین کما مگر وہ غریب سے بھی کہتا ہے کہ اپنے سے امیر کے مال پر لالچ اور حرص سے نگاہ نہ ڈال کہ یہ تیرے دل کو سیاہ کردیتا ہے اور صحیح قوتوں کے حصول سے محروم کر دیتا ہے۔ بلکہ تم خدا تعالیٰ کی مدد سے اپنے اندر وہ قوتیں پیدا کرو جن سے تم کو بھی ہر قسم کی ترقی حاصل ہو اور حکومت کو ہدایت دیتا ہے کہ غرباءکی اس جدوجہد میں ان کی مدد کرے اور ایسا نہ ہونے دے کہ مال اور طاقت صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو جائے۔
اور وہ ان لوگوں سے جن کے باپ دادوں نے کوئی بڑا کام کر کے عزت حاصل کر لی تھی جس سے ان کی اولاد بھی لوگوں میں معزز ہو گئی کہتا ہے کہ تمہارے باپ دادوں کو اچھے کاموں سے عزت ملی تھی تم بھی اچھے کاموں سے اس عزت کو قائم رکھو اور دوسری قوموں کو ذلیل اور ادنیٰ نہ سمجھو کہ خدا نے سب انسانوں کو برابر بنایا ہے اور یاد رکھو کہ جس خدا نے تمہیں عزت دی ہے وہ اس دوسری قوم کو بھی عزت دے سکتا ہے پس اگر تم نے ان پر ظلم کیا تو کل کو وہ قوم تم پر ظلم کرے گی، سو دوسروں پر بڑائی جتا کر فخر نہ کرو بلکہ دوسروں کو بڑا بنا کر فخر کرو کیونکہ بڑا وہی ہے جو اپنے گرے ہوئے بھائی کو اٹھاتا ہے۔
اور وہ کہتا ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک سے اور کوئی قوم دوسری قوم سے دشمنی نہ کرے اور ایک دوسرے کا حق نہ مارے بلکہ سب مل کر دنیا کی ترقی کیلئے کوشش کریں اور ایسا نہ ہو کہ بعض قومیں اور ملک اور افراد آپس میں مل کر بعض دوسری قوموں اور ملکوں اور افراد کے خلاف منصوبہ کریں بلکہ یوں ہو کہ قومیں اور ملک اور افراد آپس میں یہ معاہدے کریں کہ وہ ایک دوسرے کو ظلم سے روکیں گے اور دوسرے ملکوں اور قوموں اور افراد کو ابھاریں گے۔
غرض میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کے پردہ پر میں اور میرے پیارے کوئی بھی ہوں کیا ہوں اور کچھ بھی ہوں اسلام ہمارے لئے امن اور آرام کے سامان پیدا کرتا ہے۔ میں اپنے آپ کو جس پوزیشن میں بھی رکھ کر دیکھتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی وجہ سے میں اس پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ترقی اور کامیابی کی راہوں سے محروم نہیں ہو جاتا پس چونکہ میرا نفس کہتا ہے کہ اسلام میرے لئے اور میرے عزیزوں کے لئے اور میرے ہمسایوں کیلئے اور اس اجنبی کے لئے جسے میں جانتا تک نہیں اور عورتوں کے لئے اور مردوں کیلئے اور بزرگوں کیلئے اور خوردوں کیلئے اور غریبوں کیلئے اور امیروں کیلئے اور بڑی قوموں کیلئے اور ادنیٰ قوموں کیلئے اور ان کے لئے بھی جو اتحاد امم چاہتے ہیں اور حب الوطنی میں سرشاروں کیلئے بھی یکساں مفید اور کارآمد ہے اور میرے لئے اور میرے خدا کے درمیان یقینی رابطہ اور اتحاد پیدا کرتا ہے۔ پس میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ایسی چیز کو چھوڑ کر اور کسی چیز کو میں مان بھی کیونکر سکتا ہوں۔اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں رہ کر دنیوی زندگی کا مزہ لے اور سکون چین اور اطمنان سے زندگی گزارے تو ایک بار اسلام کا مطالعہ کرکے دیکھے اور ایک بار اس پر چل کر دیکھے میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ آپ کا دنیا میں سب سے بڑا اور سب سے کامیا ب ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دين فطرت كے محاسن

دین فطر ت کے محاسن
اسلام دین فطرت ہے ،اسلام سارے انس وجن کا دین ہے ۔اسلام انسانیت کی دل کی پکار ہے سلا ساری انسانیت  کے درد کا مدواہے اسلام انسانیت کی بے چینی کا سکون اور پیاس کے میٹھا شربت ہے ،اسلا م انسانیت کو دنیا میں چین وسکون کی زندگی بخشتا ہے اور فنا ہو نے کے بعد ااس کے مالک کے سامنے بھی سے عزت عطا   کرے گا ۔ویسے تو انسانوں کے خالق ومالک نے جب پہلے انسان کو پیدا کیاتھا تب ہی سے انسانیت کے رہبری ورہنمائی کا اسباب وذرائع اپنے مخصوص بندوں اور چند کتا بوں کی شکل میں عطا کیاتھا،اور جیسے جیسے انسانیت  کی آبادی اور اس کی نسل بڑھتی گئی اس کے شفیق پروردگار نے ویسے ویسے اس کا انتظا م کرتا گیا ۔اور اسی سلسلہ کے ایک آخری کڑ ی جو اس سلسلہ کے تکمیل  کے لئے انسانتی کے پرووردگار نے بھیجا  وہ  ساری انسانیت اور اسلام کے نبی محمد ﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں ،اورچونکہ یہ سب کا دین ہے اس لئے  اسلام بلا تفریق سب کی ہدایت اور بھلائی کے لئے آیا ہے ،ہر کوئی اس کی کتاب کو پڑھ سکتاہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر چاہے وہ فقیر ہو یا بادشاہ ہر کوئی بحیثیتانسانیت  اس سے بلا امتیا ز استفادہ کر سکتاہے  اسلام اللہ کا آخر ی دین ہے جس پر ایمان لا کر اور جس کی تعلیمات پر عمل کرکے انسان زندگی کو جنت بنالیتاہے اور اس کو جینے کا مزہ ٓتاہے اوروہ محسوس کرتاہے کہ گویا وہ ایک پارک میں  ہے اور سب سے بڑگ کر وہ اسلام پر عمل کرکے  اس  اللہ کی رحمت کا مستحق ہو تا ہے ،اور جب اللہ کی رحمت شامل حال ہوئی تو انسان  دنیا میں بھی مزے کرتاہے آخرت  کے تو پوچھنے ہی کیا  ،اسلام اور اس کی تعلیما ت کے بارے میں جتنا بھی لکھاجائے وہ کم ہے لیکن یہاں پر اسلام کی چند اہم خوبیوں کا ذکر مقصود ہے ۔
اسلام کی خوبیوں میں سے ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عقل وفکر کو مخاطب کرتاہے ،اور معیاری عقل وسوچ سے مکمل طورپرہم آہنگ ہو تاہے ،بلکہ دین انسانی عقل کو مزید جلا پہنچاتاہے ،اور اس کو صیقل کرتاہے ،اقور اس کی صلاحیتوں کو منظم کرکے اسنانیت کی خدمت پر آمادہ کرتاہے ،وحی کی روشنی میں عقل با بصیرت ہو جا تی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کے اعضاع وجوارح بلکہ اس کا سارا وجود دنیا کی ہر چیزسے تعلق ختم کرکے صرف اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جا تاہے ۔ عقل کی دنیا میں یہ انقلاب دراصل وحی کے فیضان کا نتیجہ ہے ماس لئے اب اس کی سوچ کا دائرہ محدود دنیا سے بہت آگے آخرت میں عذاب جہنم سے آزادی اور جنت کا حصول ہوتاہے ۔
اسلام کی بڑی خوبیو ں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے پا نچ اہم عناصر کا محافظ و نگراں ہے :
اگر غور سے دیکھا جائے تو انہی پانچ چیزوں کی حمایت وصیانت کا نا م تہذیب وتمدن ہے ،اور جن اقوام وملل اور ان کی حکومتوں ،اور ان کے دانشوروں نے ان پانچ میدانوں میں کامیابی حاصل کی تاریخ میں ان کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا ۔
اسلا م کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو اور اپنے منکرین کو سب کو بحیثیت انسان کے لا محدود حقوق ومراعات دیتاہے ،بلکہ وہ حیوانات کے حقوق کا بھی پا س دارہے،وہ چرند و پرند اور موسم کا بھی محافظ ہے ۔
اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے معاشرے کے ہر طبقے کے لئے واضح تعلیمات دیں ،مرد کے لئے الگ ،عورتوں کے لئے الگ ،بچوں کے لئے الگ اور بوڑھوں کے لئے الگ ۔آقا اور غلا م کے تعلقا ت ایسےہونے چائیے ،میان بیوی کیسے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو ن ،اور کیسے زندگی گزاریں ،اور اگر زندگی اجیرن ہو جائے تو اپنی اپنی راہ لینے کا اچھا سا طریقہ کون سا ہے ؟صلح کے ایام ہوں یا جنگ کے ،غیر مسلموں سے مسلمانوں کے تعلقا ت کس طرح ہونے چاہئیں ،سچ یہ ہے کہ اسلام نے مردوں اور عورتوں اور بچوں کے لئے مسقل آداب بتائے ۔
انسان  کی فطری ضرورت اور اس کی جبلت میں سے ہے کہ مرد اور عورت عہد بلوگت میں دونوں ایک دوسرے سے قریب ہوں ،انس ومحبت کے ماحول میں زندگی گزاریں اور باہم معاشرتی زندگی سے خوش وخرم ہوں ،لیکن اس فطری جرورت کی تکمیل کو کھلم کھلا نہیں چھوڑدیا گیا کیوں کہ اس سے دنیا میںفساد پیدا ہو گا ،اور سکون وسکینت کی تلاش میں سر گرداں معاشرہ فتنہ وفساد کا کا خانہ بن جا ئے فا ،اس کے لئے اسلام نے مستقل ایک نظام ِنکاح ومصاہرت بنایا ،جس پر عمل کرتے ہوئے مرد اور عورت ایک رشتے میں منسلک ہو جا تے ہیں اور اس طرح دو دل آپس میں مل جا تے ہیں ،اللہ نے اس نطام کی برکت سے ان جوڑوں کے دلوں میں محبت کو ٹ کوٹ کر بھردی ، جس کے نتیجہ میں ایک خاندان وجود میں آتاہے جو باہم شیر وچشکر ہو جاتاہے اور آئندہ چل کریہی مطمئن خاندان معاشرے کے امن وسکون کا عنوان بنتاہے ۔
            اگر ہر مرد اور عورت اس بات  میں آزا د ہو تی کہ جو جس کے ساتھ بلا کسی ضابطے اور قید کےچاہے رہے ،اور عیش کرے تو آج دنیامیں شاید کوئی زندہ ہی نہیں رہتا شاید دنیا کھنڈر کا نمونہ ہو تی ۔
چونکہ نسل انسا نی کی بقااور معاشرے کے امن وسکون کا راستہ مرد اور عورت کی پر سکون زندگی سے ہو کر گزرتاہے ۔اس لئے حمل وولادت کے مرحلے سے گزر کر جب عورت ماں کا مقدس روپ اختیا ر کرتی ہے اور مرد کو باپ بننے کا اعزاز ملاہے اور نو مولو د دونوں ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کا تارہ اور ان کی آنکھ کا ٹھنڈک ہو تاہے ۔اس مرحلہ میں میاں بیوی کا رشتہ مزید بڑھ جا تاہے اور اس کی تربیت کے نکتے پر وہ ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہو جا تے ہیں ۔ بچہ کی ولادت کے بعد اتفاق واتحاد اور انس وسکون کا یک قبلہ میسر ہو جا تا ہے ۔جس نقطہ اتحا د پر دونوں کی نگاہیں مرکوز ہو جاتی ہیں ، اور دونوں اس کی پرورش وپرداخت پر بہت سنجیدہ ہو جا تے ہیں ،پتہ چلا کہ اس رشتہ مصاہرت سے صرف ایک جوڑ ے کا ملا پ ہی نہیں ہو تا بلکہ ایک خاندان وجود میں آجا تاہے اور مرد اور عورت کے خاندانوں کے درمیان یہ نو مولو د مزید مضبوط رابطہ کا عنوان بن جا تاہے ۔اسلام تو بھانجے کو بھی ماموں کے خاندا ن کا ایک فرد قراردیتاہے ۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : ْابن اخت القوم منہ ٌاس طرح سے معاشرہ میں امن وچین کا رواج ہو تا ہے ،لوگوں کو خوشیاں نصیب ہو تی ہیں ،اور نسل انسانی کا تسلسل بر  قرا رہتاہے ۔اس فطری جذبہ تسکین کے شرعی نظام سے جس کی اساس پر اسنانی معاشرہ کی عمارت قائم ہے ۔اگر مردوعورت کے ملاپ کی کوئی اور غیر شرعی صورت ہوتیتو اس کا انجام معاشرے میں بے  چینی ،قتل وخونریزی اور بےسہارا اور نا جا ئز اولا د کی شکل میں سامنے آتا جس سے معاشرے میں بگاڑ کے علا وہ کچھ نہ حاصل ہو تا ،دنیا کے معاشرتی نظام میں جو خلل پایاجاتاہے اس کا حل صرف اسلام کے نظام ِنکاح ومعاشرت میں ہے ۔قراآن وحدیث سے واقفیت رکھنے والوں پر اسلام کے امتیازات وخصائص مخفی نہیں ہے ،لیکن ایک عام  آدمی کو ضرورت ہو تی ہے کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو اختصار کےسا تھ جان لے ۔اہل علم نے کتاب وسنت کی روشنی میں اسلام کے مھاسن اور اسلامی تعلیمات کی خو بیوں کو اجاگر کیاہے ۔                                                                                                                                                                                                    شيخ ادريس ندوي

کیا انسان کو مذہب کی ضرورت ہے

  • مذہب
    ہم اگر  اپنے ارد گرددیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ ہم خود اپنے تمام افعال پر قادر نہیں ہیں ۔بلکہ چند ضابطے  ایسے ہیں جن کے ماننے پر ہم مجبور ہیں ،ایسے ضابطے  ہی قانون کہلاتے ہیں ۔دنیا میں ہم مختلف قسم کے قانون دیکھتے ہیں  ،مگر وہ تمام دو قسم کے ہو تے ہیں   :اول وہ قانون  جو قدرتی ہیں ،دوم وہ جو وضعی ہیں۔قسم اول  میں ایسے قانون  ہیں جس میں انسان  کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا ۔مثلا آگ ہر چیز کو جلاتی ہے ۔پانی ہمیشہ  پستی نیچے کی جانب بہتاہے ،درخت اسی وقت تک سرسبزہ  رہتےہیں جب تک ان کو ان کی غذایعنی کھا د پانی ہوا دھوپ وغیرہ  ملتی  رہے ۔ستارے اور سیارے ہمیشہ اپنے مقررہ دور پورے کرتے ہیں ،یہ ایسے قانون  ہیں جس میں انسان تبد یلی نہیں کرسکتا ،دسرے  قانون وضعی :یہ ایسے قانون  ہیں جو کہ خود انسان کے بنا ئے ہو ئے ہیں ،اس وجہ سے اس میں ہر وقت  تبدیلی ممکن ہے اور ہو تی بھی رہتی ہیں ۔مگر سوال یہ ہو تا ہے کہ قانون  کی ضروت ہی کیاتھی ؟اگر سر سری طور پر دیکھا  جائے تو قانون ترقی اور آزادی میں رکاوٹ معلو م ہوتے ہیں ،مگر غور سے دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ نظام عالم کا دورومدار انہیں قانون   پر ہے ۔فرض کروکہ آج نظام ششمسی کے سیارے آفتاب کی کشش سے آزاد ہو جائیں تو نتیجہ کیا ہو گاکہ اجرام فلکی کا کہیں پتہ بھی نہ ہوگا ۔یایوں سمجھوکہ ایک بڑے ملک میں کوئی زبردست گورنمنٹ نہ ہو ،ہر شخص آزادہو ،کسی کے افعال کا کسی کو تعرض کا حق نہ ہو تو یقینا اس ملک کی حا لت وحشی سے وحشی ملک سے بھی بد تر ہو جائے گی،وہاں ہر کوئی اپنی من مانی زندگی بسر کرےگا ،اور پھر وہاں خون ریزی قتل وغارت گری ،اور ہر طرح کا شروفساد عام ہوجا ئے گا ،اور پھر وہاں نام تو انسانوں کے ہوں گے لیکن حقیقتا وہاں جا نوروں کا بسیرا ہو گا ،بہر حال صاف ظاہر ہے کہ امن وامان ،حفاظت مال ،کسب معاش کے لئے یہ لازمی ہے کہ سو سائٹی کا ہر فرد واحد چند قانون  کی پابندی کو اپنا  فرض سمجھے ۔کیوں اس میں اس کی جان ومال ، بہن بیوی،اور ماں بیٹی کی حفاطت ہے ،اور مذہب بھی کسی پابندی وتشدد،اور جکڑ بندی کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ مذہب بھی دراصل نام ہے چند قانون  کا جن پر عمل کرنے سے گویا اپناہی فائدہ ہے،اسی لئے پر عمل کرنا ہر ایک کے لئےضروری ہے ،اور اگر ہم اس پر عمل نہ کریں تو خود ہم کو نقصان پہونچے گا ۔اور مذہب ہم کوتو راستبازی کی تعلیم دیتاہے ۔ماچھے اخلا ق سے پیش آنا ،غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرنا ،کمزوروں کا سہارابننا غمزدوں کے درد کا درماں بننا ،محبت کےساتھ آپس میں شیر وشکر بن کر رہنا ،اور ہرایک کا بھلا چاہنا،ان سب باتوں کی ہی تو مذہب تعلیم دیتاہے ،تو اس میں پریشانی کیا ہے ۔؟
    اب دو ایک مذہب کا تاریخی مطالعہ کرکے دیکھو ان کی وجہ سے لوگوں کیا فائدے ہوئے۔
    پانچ سو قبل مسیح ہند  کے میدانوں میں ایک اایسی قوم بسی ہو ئی ملتی ہے جو تہذیب وتمدن کے نام سے ناآشنا ہے ۔وہ بھوت پلید کے پر ستش کو  واجب قرار دیتی ہے،اخلا قی اعتبار سے بھی اس کی بہت پست حالت ہے ،اس میں دوسروں کے مقابلہ میں برتری کا خیال مطلق نہیں پا یا جاتاہے ۔دفعتہ ایک مصلح پیداہوتا ہے یہ اپنے عیش وآسائش کو ترک کردیتاہے بیو ی بچوں خو خیر آباد کہہ دیتاہے ،سلطنت پر لا ت مارتاہے ،سا ت برس تک جو گی بن کر تلاش نجات میں گھومتاہے ،اور گوتم بدھ کے نام سے ایک سیدھے سادھے مذہب تعلیم  کرتاہے اور ایک وقت آتاہے کہ اس مذہبی تعلیم کی وجہ سے وہ قو م جو غیر مہذب تھی مہذب بن جا تی ہے ،اوراولا تواس کو معمولی حیثیت کے لوگ قبول کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ بڑے بڑے مہا راجہ بھی  یہی مذہب  اختیار کرلیتے ہیں ۔او رآج بھی تقریباڈھائی ہزار برس کے بعد بدھ مت کے ماننے والے دنیا میں ایک بڑی تعداد میں موجودہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ بدھ  مت نے لو گوں کو رسم ورواج ،طریق معاشرت میں ایک بڑی تبد یلی پید اکردی تھی اور اس کے متبعین  کا اخلاقی معیا ر بہت بلند کردیا تھا۔
    (ابھی اس کا پھر کیا حال ہے ہم اس وقت کی بات نہیں کررہےہیں )
    اس سے بھی قریب تر زمانہ کی مثا ل لو ۔توظہور اسلام سے پہلے عرب کی حالت دیکھو ۔ان لوگوں میں دنیا کے تمام عیوب موجو د تھے ،دختر کشی ،شراب بخور ی ،اور بہت سی بیماریاں تھی جن کو چھوڑنا ان کے لئے بہت مشکل تھا ،اسی  عالم میں ایک مہتاب طلوع ہوتاہے ۔تعلیم وتلقین کا معجزہ نما اثر دیکھو ۔جہالت کا بادل دھوا ں بن کر اڑجاتاہے ،مذہب ہی کی برکت تھی کے وحشی عرب ایک طرف ایرانیوں کی عظیم الشان سلطنت کو فتح کرلیتےہیں ،اور دوسری طرف یورپ کو ایک مدت تک تہذیب وتمدن کا سبق دیتے ہیں، انہوں  نے صرف ممالک ہی کو نہیں فتح کیا بلکہ دلوں کو بھی فتح کیا اور علو م وفنون کو ترقی دی ۔اور عربوں کی ترقی کی خاص وجہ یہ تھی کہ اسلام  کے بعد ان  کی قوتوں کا ستعمال ٹھیک موقعوں پر کیاجانے لگا ،بہادری ان میں پہلے سے تھی لیکن اب اس کا استعمال غیر ممالک میں کئے جانے والے ظلم کے خلاف استعمال  کیا جانے لگا ،دماغی قوت ان میں پہلے سے ہی موجود تھی لیکن اس کا استعمال اب علوم وفنون میں استعمال ہونے لگا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض دنیاکے کسی بھی مذہب کو لو اور اسے تاریخی روشنی میں دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ہر مذہب نے اپنی اپنی حیثیت سے انسانی تہذیب وتمدن کو ترقی دی ہے اور اپنی تعلیم کا ایک ایسا نظام اخلاق چھوڑا ہے جس پر اس کے ماننے والے عمل کرتے رہے ہیں ۔ی(یہ الگ بات  ہے کہ اس کے ماننے والوں نے بعد میں  اس میں بہت سی خرابیوں کو داخل کردیا ،کچھ نے تو کم فہمی یا لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کیا ،او رکچھ نے اپنے پیٹ پوجا کے لئے کیا )اور جس طرح قانون وضعی میں یہ بات پائی جا تی ہے کہ د وممالک کے قوانیں میں  ایک دوسرے سے مشاہبت ہو تی ہے اسی طرح مذہب عالم کے احکاما ت  میں بھی بہت کچھ ایک دوسرے سے مشابہ ہو تے ہیں مگر یہ بات ہر چھوٹے حکم پر صادرق  نہیں آسکتی ۔لیکن مجموعی طور پر مذیب کی ترقی میں جتنا کام مذہب نےکیاہے اتناکسی نے نہیں کیاہے (اسلامیات خدا بخش پبلک لائبریری پٹنہ )
    دنیا کے تمام مذاہب کا پیغام
    اب ہم اور ایک دوسرے اندازسے سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں کیا انسان کوواقعی کسی  مذہب کی ضرورت ہے ؟
    جب سے دنیا بنی ہے یا کم سے کم جب سے اس دھرتی پر انسانوں  کا رہنا شروع ہواہے ،تب سے ہر آدمی کا دل دو  طرف کھینچتاہے :کبھی خود غرضیاور برائی کی طرف توکبھی دوسروں کی بھلائی کی طرف ،کبھی سوارتھ کی طرف تو کبھی پروپکا ر کی طرف ۔برائی اور بھلائی ،بدی اور نیکی ،پاپ اور پن ،گناہ اور ثواب ان دونوں راستوں کے ہی الگ الگ نام ہیں ۔کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کے دل پر یہ دونوں کبھی کبھی اپنا اثر نہ ڈالتے ہو ں ۔یہ دونوں اپنی اپنی طرف آدمی کے دل کو برابر کھنچتے رہتے ہیں ؛اور یہی کھینچا تانی اندر کی کشمکش دنیا کی سب سے بڑی جنگ یا دنیا کا سب سے بڑا سنگرا م ہے ۔اس سنگرام میں خود غرضی یا سوارتھ ،بدی یا برائی کو اپنے اندر سے نہ مٹا سکنا سب سے بڑی ہار ہو تی ہے ۔اسی طرح دوسروں کی بھلائی یعنی پروپکا ر یا نیکی کو اپنی زندگی میں جگہ دیناسب سے بڑی  جیت ہے ،اور جگہ نہ دے سکنا ہر آدمی کی اور تما م انسانی دنیا کی بھلائی ہے ۔اس میں ساری دنیا کی ترقی اور سکھ اور چین کے راستے کھلتےہیں ۔اور یہ ہا ر اس لئے سب سے بڑی ہا ر مانی جاتی ہے کیوں کہ اس میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں اوریہی انسانی دنیا کے بڑے بڑے دکھوں کا اور بربادی کا اصلی سبب ہے ۔
    اس  جیت میں دنیا کی بھلائی اور اس ہا ر میں دنیا کے دکھوں  اور بربادی کی جڑ اس لئے ہے کہ اگر ہم آدمی کی زندگی پر گہری نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتاہے کہ دنیا کے آدمی سب ایک دوسرے سے ایسے ہی بندھے اور جکڑے ہو ئے ہیں جیسے ہمارے بدن کے الگ الگ حصےہاتھ پیر آنکھ اور کا  ن ایک دوسرے سے۔اس طرح دنیا کی تما م چیزیں اور خاص طور سے آدمیوں کے سارے گروہ آپس میں ایک دوسرے سے ایسے اٹوٹ اور گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ، ان کا اصلی فائدہ اور نقصان الگ ا  لگ نہیں کیا جاسکتا۔ہم سب مل کر ایک کنبے یا کٹمب کی طرح ہیں ،جس کی بنیا دیں میل محبت ،ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور ایک دوسرے کی سیوا پر قائم ہیں او رجس کو سب سے بڑا نقصان ایک دوسرے سے نفرت کرنے اور لڑنے سے پہنچتاہےاور جتنا  آدمی اس سچائی کو جان لیتاہے اتناہی وہ اس جیت میں کا میاب ہو تا ہے ،او راس کے بعد اس کے اندر سے اپنے اور پرائے کا بھید کم ہو جاتاہے یا یو کہئے اس کے اپنے پن اور پرائے پن کا خیال گھٹتا اور سکڑ جاتاہے ،اور اس کے دل میں ایک  کرکے اپنے گاؤں ،اپنے شہر ،اپنے دیس اور بڑھتے بڑھتے ساری دھرتی کے آدمیوں کے ساتھ اپنا پن بیٹھنے اور جمنے لگتاہے ۔اسے دوسروں کے بھلے میں اپنی بھلائی اور دوسروں کی بربادی میں اپنی بربادی ،دوسروں کے سکھ میں اپنا سکھ اور دوسروں کے دکھ میں اپنا دکھ دکھائی دینے لگتاہے۔دنیا کے سب دیسوں میں سب آدمیوں کے اس بات کو سمجھ لینے پر ہی دنیا بھر کی سچی شانتی ،سچے امن ،اور سچے سکھ کا دارومدارہے ۔
    لیکن مصیبت یہ ہے کہ آدمی کے اندر اس سمجھ کے پیدا ہونے میں بہت دیر لگتی ہے ،خاص کر قوموں اور ملکوں میں اس کا خیال پید اہو نا بہت ہی مشکل ہو تاہے ، اس لئے یہ کھچاتانی مٹ نہیں پا تی اور اس کے جاری رہنے سے دنیا کو بڑے بڑے نقصان پہونچتے رہتےہیں ۔بے چینی بے امنی اور بربادی بڑھ جا تی ہے ،گروہ بندی، کٹ بندی بڑھتی ہے ،اور اتنا ہی سماج کے آتما کے ٹکڑے ٹکڑے ہو نے لگتے ہیں ،جھگڑے بڑھتے ہیں دکھ ،غریبی ،اور بربادی پھیلتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتاہے کہ باہر کے سب لڑائی جھگڑے آدمی کی اس نا سمجھی کا ہی نتیجہ اور اندر کی اس  کھینچا تانی کی ہی  پرچھائیں  ہوتے ہیں ۔اس ناسمجھی کی طرف لو گوں کا دھیان دلانے اور انہیں اس کھینچا تانی کے دور کرنےاورآپس میں مل جھل کر محبت سے رہنے کا صحیح  راستہ  بتانے کا کا م مذہب( دھرم) کرتے ہیں  ۔اس لئے تو علامہ اقبال نے کہاتھا ۔

مذہب نہیں سکھا تا آپس میں بیر رکھنا                       ہندی ہے ہم وطن ہے  ساراجہاں ہمارا
my first HTML Page

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم