*: مدارس پرایک آنکھیں کھول دینےوالی تحریر :*

       *علامہ اقبال نےکہاتھا : ”ان مدارس کواپنی حالت پررہنےدو ، اگریہ مدارس اور اس کی ٹوٹی ہوئی چٹائیوں پربیٹھ کر پڑھنےوالےیہ درویش نہ رہے ، تو یادرکھناتمہارا وہی حال ہوگا جو میں اندلس اورغرناطہ میں مسلمانوں کادیکھ کرآیا ہوں“۔*
       *چند دن پہلےعیدالاضحی گزری ہے ، میں عید سےاگلےدن بائیک پرجارہاتھا کہ ایک مدرسہ کےسامنےسےمیراگزرہوا میں نےدیکھا کہ اس کےگیٹ پرچندچھوٹےچھوٹےمعصوم سےبچےکھڑےہیں ، ان کےچہرےنورانیت سےبھرپورتھے، میں ان کےپاس چلا گیا ، سلام کیا انہوں نےبہت احترام کےساتھ سلام کاجواب دیا،میں نےکہا بیٹا آپ کیا کرتےہویہاں؟ انہوں نےکہا بھائی ہم یہاں حفظ کرتےہیں ، میں نےکہا عید پر آپ گھر نہیں گئے؟ ان میں سےایک دو تو آنکھوں میں آنسوبھرکر اندرچلےگئےاور باقیوں نےرندی ھوئی آواز میں کہا ہمیں کوئی لینےنہیں آیا ہم بہت دورچترال سےآئےہیں بابا کہتےتھےکرایہ نہیں ہےتم وہیں رہو ، میرا دل بھی ایسےبوجھل سا ہو گیا ، میں نے کہا آپ کو آئےہوئےیہاں کتنا عرصہ بیت گیاہے؟ انہوں نےکہا ہم پچھلی عید پر بھی یہیں تھے ۔*
       *میں نےاپنی پاکٹ سےروپئےنکالےاوران کو سو سو روپیہ دینا چاہا ، پر آفرین ان کی تربیت پر کسی نےبھی ہاتھ بڑھا کرنہیں لیے ، بلکہ سب اندرچلےگئے ، میں بوجھل سی طبیعت کےساتھ آگےبڑھ گیاکہ یہ ہیں وہ مدارس کےطلباء جن کو لوگ حقارت کی نگاہ سےدیکھتےہیں ۔*
 *میں بھی انہی مدارس سےہوتا ہوا آیا ہوں اس جگہ پر۔ میں نے ان مدارس کےاندرکےمعاملات کو دیکھا ہے ، جب مدارس کےشیوخ مہینےکےآخری ایام میں بہت پریشان دکھتےتھےکہ اساتذہ کی تنخواہیں اور دیگربل کیسےادا کیےجائیں؟ یار سوچو کون سا ایسا پرائیویٹ یاسرکاری ادارہ ہےجو اس قدرسکالرشپ دیتاہے؟ ملک کےطول و عرض میں سینکڑوں ایسےمدارس ہیں جن میں رہاشی طلباء کی تعداد ہزاروں تک جاتی ہےلیکن ان کےکھانےرہائش کتابیں میڈیسن مکمل اخراجات مدرسہ کےذمہ ہوتےہیں ، کیا ہےکوئی ایسی یونیورسٹی جس کا ہاسٹل اور میس فری ہو؟*
  *یہ دین کےادارےدین کےقلعہ ہیں ، انہیں اداروں سےاسلام علماء اوراسکالرپیدا ہوتےہیں جو اسلام کےخلاف ہونےوالےاعتراضات کا منہ توڑ جواب دیتےہیں ۔*
  *بات کہاں نکل گئی ... میں بات مدارس کےاندرپڑھنےوالےان درویشوں کی کررہا تھا ۔ جو دوردراز کےعلاقوں سےاپنےگھربار ماں باپ بہن بھائیوں کی محبت کو چھوڑ کرآتےہیں ، صرف اس لیےکہ ان کےماں باپ کی ایک بہت معصوم سی خواہش ہوتی ہےکہ چلو کیا ہوا اگر گھر کی دیواروں پرغربت اور افلاس ناچتا ہے؟ہمارےبچےحافظ قرآن بن جائیں !* *عالم دین بن جائیں ! روز قیامت عزت والا تاج تو ہمیں نصیب ہو جائےگا نا !*
 *مجھےیاد ہےکہ جب کبھی کسی عید وغیرہ کے موقعہ پرچھٹیاں ہوتیں تو سب اپنےاپنےگھروں کی راہ لیتے ، ان میں کچھ ایسےبھی ہوتےتھے جو خود جا نہیں سکتےتھےاور لینےوالےاس لیےنہیں آسکتےتھےکہ ان کےپاس آنےکےلیےکرایہ نہیں بن پاتا تھا ۔ اور پھر وہ اسی مدرسہ کےاندر ہی اپنی خوشیوں کی قربانی اپنےماں باپ کی معصوم خواہش پرقربان کیےاپنےساتھیوں کے ساتھ کھیل لیتے ۔*
 *ان مدارس کےطلباء کو کبھی حقیرنہ جانو! آپ نہیں جانتےان کےمقام کو ، یہ جب چلتےہیں ان کےقدموں کےنیچےاللہ کےفرشتےاپنےپروں کوبچھانا اپنےلیےباعثِ فخرمحسوس کرتےہیں ۔ سمندرکی مچھلیاں ، فضاؤں میں پرندے زمین کےاندرحشرات ان کی کامیابی کی دعا اللہ رب العزت سےمانگتےہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتےہیں کہ مدرسوں میں داخل وہی ہوتےہیں جو ہرطرف سےریجیکٹ کر دیےجائیں ، اگر ایسا بھی ہےتو بھی لوگوں کو ان مدارس کا شکرگزار ہونا چاہیے ، جنہوں نےایسےبچوں کو گلیوں میں آوارہ نہیں ہونےدیا بلکہ ان کو داخلہ دےکرقرآن وحدیث کی تعلیم دی۔ وہی بچہ صوم و صلوة  کا پابند، ماں باپ کا فرمان بردار اور ایک عالم دین بن کر لوگوں کےایمان کی فکر کرنےلگا۔*
  *ان مساجد و مدارس کےساتھ محبت کریں! دینی  تعلیم کےلیےاپنےبچوں کا رخ ان کی طرف کریں! اور ہر لحاظ سےان مدارس کےمعاون بن جائیں.....*

*پڑھ کر آگے بھی شئیر کریں......*
_________________
*فقط والسلام ________________*
#بھگوا_دہشتگردی_پر_منظم_پروگرام!!

بھارت میں بھگوا دہشتگردی پر بات کرنا اور برادران وطن کو اس سے آگاہ کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے،
*ناتھورام گوڈسے سے لیکر اسیمانند اور شمبھولال ریگر تک کی خطرناک ریشہ دوانیاں دراصل بھارت میں " ہندوراشٹر " کے عنوان سے " شودروں " کی تجدید ہے*
غیرملکی آریاؤں نے جب دیکھا کہ بھارت میں اب قدیم، قوانین منو من وعن نافذ نہیں ہوسکتے تو انہوں نے یہ نئی اصطلاح ایجاد کی ہے اور اس کے جال میں پھر سے بھارت کی مقامی آبادی کا استحصال ہورہاہے،
ہیمنت کرکرے کی سازشی موت کے پیچھے اور جسٹس برج گوپال لویا کے قتل میں یہی دہشتگردی کارفرما ہے
سسٹم میں دست اندازی کرکرکے اب یہ آرین پوری طرح اس پر قابض ہوچکےہیں اور نہایت چالاکی سے ان سسٹم کی آرام دہ کرسیوں پر براجمان ہوکر پورے ملک میں انارکی پھیلا رہےہیں
تاریخی لحاظ سے بھی اگر تطبیق دی جائے تو منظرنامے کے اختلاف کے ساتھ یہ بات واضح ہوجاتی ہیکہ آج بھی مقامی بھارتی آبادی اسی دہشتگردی کے سائے تلے نئے عنوانات اور نئے اصطلاحات کے جال میں مقید ہے
جب تک اس ملک کو، اس تاریخی دہشتگردانہ جال سے واقف نہیں کرایا جاتا، دنگوں اور فسادات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی ۔
یہ کام مستقل مزاجی سے مسلسل کرنے کا ہے اسے بہت پہلے شروع ہوجانا چاہیے تھا، لیکن دیر آید درست آید، بھارت کے نوجوان اسکالر اور آن لائن ٹاک شو، سرجیکل اسٹرائک کے بانی،رفیق محترم ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی نے اب اس کا عزم ظاہر کردیاہے، ان کا یہ ارادہ خوش آئند اور تاریخی ہے، ہم امید کرتےہیں کہ بہت جلد وہ اس سلسلے میں اقدامات کرینگے اور سنگھی دہشتگردوں کی ریشہ دوانیوں کو واشگاف کرینگے ۔
یہاں ضروری معلوم ہوتاہے کہ ملت کے اس اولوالعزم جوان کا کچھ تذکرہ ہوجائے،
یاسر بھائی دراصل اس خانوادے کے وارث ہیں جن کی تاریخ علم دین اور اشاعت اسلام کے لیے جدوجہد سے عبارت ہے، یاسر بھائی کے دادا، پردادا حضرت شیخ الاسلام ؒ کے شاگرد رہ چکے ہیں، اس علمی خانوادے کا یہ امتیاز ہیکہ، ان کے دادا، پردادا اور اب خود یاسر بھائی بھی علم حدیث معروف و مستند کتاب مسلم شریف کا درس دیتے آئے ہیں، ان کے دادا حضرت مولانا واجد حسینؒ کی پوری زندگی علم حدیث کی خدمت میں فنا رہی،وہ اپنی عمر کے آخری پڑاؤ تک بھارت کی عظیم علمی دانشگاه جامعہ ڈابھیل میں شیخ الحدیث رہے، ان سے اکتساب فیض کرنے والوں میں قابل فخر تلامذہ کی ایک بڑی جماعت ہے،

پھر ان کے والد ماجد اور ہم سب کے لیے نہایت محترم و مشفق حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب حفظہ الله نے بھی اپنی پوری زندگی کو نمونۂ سلف بنایا ہے،آپ کے ماموں جان حضرت مولانا شریف حسن دیوبندی صاحب ؒ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث رہے ہیں،
مولانا ندیم الواجدی بھی اپنے آبا و اجداد کی طرح نہایت ذی استعداد اور علم و نظر کے شناور ہيں آپ نے دارالعلوم میں دورہء حدیث میں ٹاپ رینکنگ حاصل کی، آپ کا تقرر دارالعلوم دیوبند کیمپ اور اسی طرح مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں کے ذریعے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شعبۂ تحقیقات میں بھی ہوچکا تھا،
مولانا ندیم الواجدی عرصہ تک حیدرآباد میں تشنگان علوم کو سیراب کرتے رہے، پھر دارالعلوم دیوبند کی شورٰی نے صد سالہ کے موقع پر آپ کو تحقیقاتی خدمات کے ليے طلب کیا، صد سالہ کے بعد سرزمین دیوبند سے جدائیگی آپ پر شاق تھی لہٰذا مولانا مستقل دیوبند ہی میں رس بس گئے، آپ نے تجارت کے لیے بھی علمی شعبے کا انتخاب کیا اور ایک بھترین مکتبہ قائم کیا، صاف ستھری اور شفاف تجارت کے ساتھ آپ کی علمی خدمات بھی جاری رہیں، چنانچہ احیاء العلوم جیسی معرکة الآراء کتاب کا ترجمہ بھی آپ کے قلم سے معرض وجود میں آچکاہے، مولانا کی زیر ادارت ہر ماہ ترجمان دیوبند نامی رسالہ اپنی علمی و فکری آب و تاب کے ساتھ کئی سالوں تک جاری رہا ۔
مولانا نے سرزمین دیوبند پر لڑکیوں کے پہلے دینی ادارے کی بنیاد ڈالی اور، اپنی اہلیہ ‌، محترمہ عفت ندیم صاحبہ جو کہ اس ادارے کی روح ہیں، ان کے ساتھ ملکر شبانہ روز جدوجہد کی، اور اب وہ  مسلسل ترقی پذیر ہے، بنات اسلام یہاں سے اپنے پہلے مدرسے کے لیے شعور و آگہی کے پھول چنتی ہیں،
 *اہل علم و نظر مولانا ندیم الواجدی صاحب کی علمی و فکری گیرائی اور اعتدال کے شیدائی تو ہیں ہی ساتھ ہی تجارتی دنیا میں ان کی دیانت و شفافیت کی بنا پر ان کے تئیں " التاجر الصدوق الامین " کے شاہد عدل بھی ہیں، الله ایسے اسلامی، معتدل، اور فکری اعیان کا سایہ ہم پر تادیر قائم رکھے ۔*
 یہ جملہء معترضہ اسلیے ہیکہ آج جبکہ خاندانی بیک گراؤنڈ کے نام پر نا اہلوں اور ناخلفوں نے جراثیم پھیلا رکھے ہیں، موروثی وبا نے اداروں کو کھوکھلا کردیاہے ایسے میں اسقدر شاندار اور جاندار تاریخ کے حامل اس خانوادے نے کبھی اپنا موروثی ڈنکا نہیں پیٹا نا ہی اس غرے کے چلتے کبھی بزعم خود نظر آیا، جبکہ صاف، ستھری وراثت تو اسلام میں بھی پسندیدہ ہے اور اہل ہونے پر استحقاق بھی شرعی ہے ۔
رفیق محترم یاسر ندیم الواجدی نہایت تدبیر و حکمت کے ساتھ اپنے ان قدآور پرکھوں کے نقش قدم پر ہیں، متعدد علمی کاوشوں، مستقل علمی، ملی و دینی سرگرمیوں کے ساتھ وہ عصری و دینی طبقے کے لیے زینے کا کام کررہےہیں، بجا طور پر ہمیں ان پر ناز ہے،
بھگوا دہشتگردی پر بات نا کرنے کے لیے اب تک جتنی بھی مصلحتوں اور حکمتوں کی دہائیاں پیٹی گئیں وہ سب غیر دانشمندانہ ثابت ہوچکی ہیں، لہذا مصلحتی طبقے کو اب اس کا استقبال کرنا چاہیے، اور آزاد مزاج تنقیدی درحقیقت تنقیصی طبقہ جسے آج تک علماء ہند کی مصلحتوں سے الرجی تھی اب انہیں چاہیے کہ اس اقدامی قدم کا استقبال کریں، میدان میں آئیں ۔
ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی نے سنگھی دہشتگردوں پر اقدامی وار کے لیے عزم کیا ہے، جبکہ آج تک ہم دفاع در دفاع کی پالیسیوں کے تحت مین اسٹریم سے دور رہے، ایسے میں، وسائل و وسیلوں کا رونا رونے کے بجائے میڈیا کے متعصب و گھناؤنے بازار میں موجود وسائل کو ہی بروئے کار لاتے ہوئے " آن لائن سرجیکل اسٹرائک " چینل کی شروعات ایک تاریخی کارنامہ ہے، ملت اسلامیہ ہندیہ کی اس جہت میں، اس نوع پر پہلی اور تاریخی پہل کا کامیاب سہرا، رفیق محترم، مخلصم ہمدم، یاسر ندیم الواجدی کے سر جاتاہے،
*یاسر بھائی کی کامیابی کا اہم راز میری نظر میں یہ ہیکہ وہ کبھی مخالفین اور معاندین سے متاثر نہیں ہوتے، معاصرانہ حاسدین اور متعصبین کو خاطر میں نہیں لاتے، ضمیر فروش اندرونی مکاروں کے جال میں نہیں آتے، بددیانت دین بیزاروں کو منہ نہیں لگاتے، ایسے اوچھے اور رذیل حملوں کو خموشی سے اوندھا کردیتے ہیں، تعمیری تنقید اور مخلصانہ مشاورت کو سر آنکھوں پر رکھتےہیں،ان کی نگہ بلند اور سخن عشق نواز رہتاہے، عہد شباب میں ایسا سلجھا پن دراصل مستقبل میں اقبال مندی کی نوید ہے، ماضی میں ہمارے متقدمین اور متاخرین اسلاف و اعیان اور جرنیلان اسلام کا عہد شباب ایویں نظر آتاہے ۔*

 مجھے قوی امید ہیکہ: رمضان کے ان مبارک، پاکیزہ اور مقبول لمحات میں، اس ملک کے سب سے اہم اور خطرناک ایشو پر اقدام کا عزم کارگر ہوگا، ڈھکے چھپے اور کھلے ہوئے، آر ایس ایس کا بھگوائی ٹولہ نامراد ہوگا ۔

*سمیع اللّٰہ خان*
ksamikhann@gmail.com

کیا کبھی آپ نے غور کیا  کہ کن کن مدات پر زکات  خرچ کی جانی چاہیے ؟
اشرف علی بستوی

اگرکوئی آپ سے یہ پوچھے کہ اس سال  آپ نے کتنے قرض داروں کی مالی مدد کی

ہے ، کتنے بے قصور قیدیوں کو چھڑانے میں اپنا مال خرچ کیا اور کتنے مسافروں کی امداد کی تو شاید یہ جواب آپ کے لیے مشکل ہو لیکن اگر کوئی یہ پوچھے کہ اس سال رمضان میں کتنے  مدارس کو اپنی زکات کی رقم  دی تو آپ  رشیدوں کا بنڈل سامنے کر دیں گے ۔

 آپکا جواب ہوگا کہ ہمارے پاس جو آیا ہم نے اسے دیا ، لیکن آپ کا یہ جواب شاید مکمل نہیں ہے ،اس سے آپ اپنی ذ مہ داریوں سے  بچ نہیں سکتے  ۔

 ذرا غو کیجیے جس معاشرے میں زکوت کا نظم ہو اس معاشرے کا  نوجوان   برسہا برس تک جیل میں پڑا رہے  اور اس درمیان اس کا گھر بار تباہ ہو جائے اس کے بچے غربت و افلاس کی وجہ سے تعلیم نہ حاصل کر سکیں ، آبائی جائیداد مقدمے کی نظر ہو جائے  ۔

 ایک مقروض والدین کی بچی بن بیاہی بیٹھی رہ جائے  یہ سب ہماری بے توجہی کی وجہ سے ہی تو ہے ، جبکہ ہم ہر سال کروڑوں کی رقم زکات کے طور پر نکالتے ہیں، اجتماعی نظم زکات کی باتیں بھی ہم خوب کرتے ہیں ، اپنی تقریروں اور تحریروں میں با رہا یہ دہراتے ہیں کہ اگر مسلمان اپنے زکات کا نظم درست کر لیں تو مسلمانوں کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں ۔

کیا کبھی آپ نے غور کیا  کہ کن کن مدات پر زکات  خرچ کی جانی چاہیے ؟ نہیں نا !  آپ کی یہی تن آسانی اورسہل پسندی کی وجہ سے سیکڑوں لوگ کروڑوں کی زکات نکالنے کے باوجود محروم رہ جاتے ہیں ۔ براہ کرم اس بار اپنی فہرست میں قیدیوں ،قرض داروں اور مسافروں کا حصہ بھی شامل کر لیں ،  قرآن میں درج  زکات کے  دیگرسبھی  8 مدات پر خرچ کر نے کا منصوبہ بنائیں ۔

ہر سال کی طرح امسال بھی پہلی رمضان سے ہی زکات وصول کرنے والے حضرات ہاتھوں میں رشید اور مدرسے کی زیر تعمیرعمارت کی تصویر لیے آپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہوں گے  ۔ زکات وصول کرنے والوں کی اکثریت مدارس و مکاتب کے وابستگان کی ہوتی ہے،  جو سلام و کلام سے فارغ ہوتے  ہی مدرسے  کی آمدو خرچ کا سالانہ گوشوارہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ،ان کی توجہ آپ کو یہ باور کرانے میں ہوتی ہے کہ مدرسہ ہذا  کا بجٹ مستقل خسارے میں ہے ، مدرسے کے فلاں سیکشن کی عمارت نامکمل ہے  آپ کی توجہ درکار ہے۔

اس بار جب وہ مدرسے کابجٹ پیش کریں تو آپ ان سے یہ  ضرور پوچھیں  کہ جن بچوں کی تعلیم اور کفالت آپ کا مدرسہ کر رہا ہے ان کی تعلیم اورکفالت پر کیا کرچ کیا جا رہا ہے ؟آپ کے یہاں تعلیم کا معیار کیا ہے؟ اساتذہ کی تربیت اور ان صلاحیت سازی کا کیا منصوبہ رکھتے ہیں ؟ یقینا وہ ان تمام سوالوں کے جواب سے سے گریز کریں گے ۔ ان میں کتنے جعلی رشید لیے پھر رہے ہونگے ان کی شناخت اور تصدیق کیسے کریں گے ؟

 آپ کو چاہیے کہ حتی الامکان اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی زکات مستحقین تک پہونچے اور ان پر خرچ ہو ، آپ کا یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جانا کہ ہم نے تو اپنی جانب سے ادا کردی اب وہ جانیں جنہوں نے وصول کیا ہے،  اس سے کرپشن کو فروغ ملتا ہے  جعلی زکات وصول کرنے والوں کی  حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور مستحقین محروم رہ جاتے ہیں ، یہ درست نہیں ہے ۔

قرآن کریم کے حکم کے مطابق 8 مصارف زکوت کے بتائے گئے ہیں ۔ فقیر ، مسکین، زکات کے انتظامى امور سنبھالنے والے، تالیف قلب، گردنوں کے چھڑانے کے لیے (بے قصور مسلمان قیدی)، قرض داروں کی مدد ،دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ، مسافر کی مدد۔

 آپ اپنی زکات متذکرہ بالا کن کن مصارف میں خرچ کرتے ہیں اس کا بھی جائزہ لیں اور زکات کی ادائیگی میں تمام مصارف کو سامنے رکھیں۔ آپ جس مقام پر رہتے ہیں اپنے آس پاس آپ کے رشتے دار و احباب کے سرکل میں بھی ایسے نادار ضرورت مند ضرور ہوں گے جو آپ کی زکات و صدقات کے زیادہ مستحق ہیں،اس بارذرا اپنی فہرست  میں ترمیم کر کے دیکھیں ، کافی لوگوں کا بھلا ہو جائے گا ۔

اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ صاحب حیثیت فرد جو ہر سال لاکھوں روپئے زکات  نکالتا ہے  وہی جب اپنی سوسائٹی میں کسی ضرورت مند رشتہ دار یا پڑوسی کو قرض دیتاہے  ، تو یہاں نیت غریب کی مدد نہیں ہوتی بلکہ ان کی نگاہ اس سودی کاروبار کرنے والے اس ساہوکار کی سی ہوتی ہے جو قرض کے بدلے  غریب کی کسی آراضی کو ہڑپنے  کی منصوبہ بندی کیے رہتا ہے۔  یہی نیت ایک  صاحب حیثیت مسلمان کی بھی ہوتی ہے تاکہ ایک دن قرض کی ادائیگی نہ کر پانے صورت میں وہ اسے اپنے نام کر لے ۔  ایسی  مدد جو کسی  کو بے گھر کر دے بھلا کس کام کی ۔

  یاد رکھیں ہر صاحب نصاب کو اپنی زکات کی ادائیگی کے وقت یہ بات اچھی طرح دھیان میں رکھنی چاہیے کہ کیا اس کی زکات ان مصارف میں خرچ ہو رہی ہے جس کا حکم قران میں دیا گیا ہے۔ ہمیں اور اپ کو یہ جائزہ لینا چاہیے ۔

 یہ 8 مصارف  ہیں

1 فقیر
2 مسکین
3 عاملین زکات (زکات کے انتظامى امور سنبھالنے والے
4 تالیف قلب
5 گردنوں کے چھڑانے کے لیے (بے قصور مسلمان قیدی
6 قرض داروں کی مدد
7 دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ
8 مسافر
*شوگر کے مریضوں کے لیے ایک بڑی خوشخبری*

شوگر کی بیماری سے آج کل بہت سارے لوگ بالخصوص ضعیف خواتین و حضرات زیادہ دوچار ہوجاتے ہیں۔
تبوک ،سعودی عرب کورٹ کے سپریم قاضی (جج)    شیخ صالح محمد حفظہ اللہ نے ایک صحیح تجربہ کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے شوگر کی بیماری کے علاج کے لیے ایک کامیاب نسخہ دریافت کر لیا ہے۔

شیخ محترم ایک طویل تجربے اور محنت و کوشش کے بعد اس بیماری کا اتنا بہترین نسخہ کھوج نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں
🌹 *اجزاء*🌹

📌گیہوں کا آٹا 100 گرام
📌 گوند 100 گرام
📌جو 100 گرام
📌کلونجی 100 گرام

*تیار کرنے کا طریقہ*
مذکورہ بالا چیزوں کو پانچ 5 کپ پانی میں ڈالیں۔ پھر اس کو کم از کم دس 10 منٹ تک پکائیں۔ جوش دینے کے بعد چولہا بند کر دیں اور اس کو اتنی دیر تک چھوڑے رکھیں یہاں تک کہ وہ از خود ٹھنڈا ہو جائے۔ پھر اس آمیزے کو چھان لیں تاکہ چھلکے وغیرہ علیحدہ ہو جائیں۔ بچ جانے والے پانی کو شیشے کے برتن میں محفوظ کر لیں۔

🍶 *استعمال کرنے کا طریقہ*
٭  مریض صبح ناشتے سے پہلے نہار منہ مسلسل سات 7 دن تک چائے یا قہوہ کی چھوٹی پیالی کے بمقدار اس جوشاندے کو نوش کرے۔
٭   سات7 دن کے بعد مسلسل ایک  ہفتہ تک ایک دن پیئے اور ایک دن ناغہ کرے۔
٭   ایک ہفتہ گزرنے کے بعد دوا کا استعمال بالکل بند کر دے اور بلا روک ٹوک جو دل چاہے غذا استعمال کرے۔
باذن اللہ  اسے کچھ نقصان نہ ہوگا۔

*نوٹ :*
شیخ کی یہ گزارش ہے کہ اس نسخہ کو عام کیا جائے تاکہ اس کا فائدہ عام ہو سکے۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم