بچوں کو عظیم و کامیاب کیسے بنائیں

بچوں کو عظیم و کامیاب کیسے بنائیں

اگر آپ اپنے بچوں کو کامیاب اور عظیم انسان بنانا چاہتے ہیں تو :
1) - انہیں اللہ تعالی کی پہچان کروا کر اللہ سے جوڑنے کی کوشش کیجیے۔
2) - انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اپنی مذہبی و قومی ہیروز کی پہچان اور پیروی کروائیں۔
3) - انہیں آپ بذاتِ خود ایک بہترین رول ماڈل بن کر دکھائیں۔
4) - ان کے دلوں میں انسانی ہمدردی اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کیجیے۔
5) - انہیں اپنا دوست بنا کر رکھیں۔
6) - ان کے ساتھ مناسب وقت گزاریں۔
7) - بچوں میں کم عمری سے ہی احساسِ ذمہ داری پیدا کیجیے۔
8) - انہیں پر اعتماد بنائیں۔
9- بچوں سے کیے گئے وعدے ہر قیمت پر پورے کیجیے۔
10) - بچوں کو مناسب حد میں آزادی دیجیے۔ انہیں گھر قیدخانہ نہ لگے۔
11) - بچوں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیجیے۔
12) - بچوں پر ہر وقت حکم نہ چلاتے رہیں۔
13) - بچوں کو احساسِ کمتری اور احساسِ برتری سے بچائیں۔
14) - بچوں کو کچھ وقت تنہائی بھی میسر ہونی چاہیئے۔
15) - بچوں کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے، اسے کسی طور پر بھی مجروح مت ہونے دیجئیے۔
16) - بچوں کو زندگی میں کچھ کر دکھانے کے لیے اچھے اور بڑے خواب دکھاتے رہیں۔
17) - بچوں کو مادی چیزوں کی محبت سے بچاتے رہیں۔
18) - بچوں کو ٹی وی، موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ کے استعمال کی مناسب تربیت دیں۔
19) - بچوں کو قرآن فہمی اور نماز کا پابند بنائیں۔
20) - بچوں سے مختلف معاملات میں رائے لیتے رہیں اور ان کی رائے کا احترام کریں۔
21) - ان سے بڑوں جیسی توقعات مت رکھیں، بچوں کو بچہ ہی رہنے دیں۔
22) - انہیں ہنسی مذاق، کھیل کود اور شرارتوں کا موقع بھی فراہم کرتے رہیں۔
23) - بچوں پر زبردستی کرنے کی عادت نہ ہو۔
24) - بچوں کی مثبت سرگرمیوں پر ان کی خوب حوصلہ افزائی کیجیے۔
25) - بچوں کو گھر کی زیادہ تر چیزوں کو ان کی مرضی سے چھونے دیں۔
26) - بچوں کو ایسے اہمیت دیں کہ گویا وہ کوئی بڑی اہم شخصیت ہیں۔
27) - بچوں کو آخرت کی فکر بھی وقتاً فوقتاً دلاتے رہیں۔ 
28) - بچوں کو اپنے چھوٹے موٹے کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔
29) - بچوں سے کبھی بھی دھمکی آمیز لہجے میں بات نہ کریں۔
30) - آپ میاں بیوی کا آپس کا تعلق بہت اچھا اور خوشگوار ہونا چاہیے۔
31) - بچوں کی تعلیم و تربیت دونوں کو اہمیت دیں۔
32) - بچوں سے بلند توقعات وابستہ کیے رکھیں۔
33) - بچوں کے اساتذہ سے باقاعدہ رابطے میں رہیں۔
34- بچوں کو آغاز سے ہی محنت و مشقت کا عادی بنائیں۔
35) - بچوں کی کمیونیکیشن سکلز بہتر بنانے پر بھی بھرپور توجہ دیجیے۔
36) - بچوں کو سیر و تفریح کے بھی مناسب مواقع فراہم کرتے رہیں۔
37) - بچوں کو ٹائم ٹیبل کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عادی بنائیں۔
38) - بچوں میں امتیاز برتنے سے احتیاط کی جائے۔
39) - بچوں کو صحت بخش اور معتدل خوراک دی جائے۔
40) - کبھی بھی بچوں کی بےجا طرف داری نہ کی جائے۔

عقیدہ کی اہمیت و ضرورت


                                   
عقیدہ کی اہمیت و ضرورت
      عقیدہ اخروی اور دنیوی حیثیت سے ایک لابدّی چیز ہے جیساکہ درجِ ذیل ہے ۔ 
(۱)  آخرت میں اعمالِ حسنہ پر ثواب عقیدہ کی صحت پر موقوف ہے ، اگر عقیدہ صحیح ہوگا تو اعمال قبول ہوں گے ورنہ نہیں ۔ 
(۲)  انسانی تہذیب اجتماعی اعمال سے بنتی ہے اور اجتماعی اعمال کے لئے فکری اتحاد ضروری ہے اور فکر و فلسفہ کی تصحیح صحیح عقیدہ سے ہوتی ہے ، اس لئے اصلاحِ معاشرہ بلکہ پوری انسانیت کی اصلاح کے لئے اسلامی عقیدہ ایک ضروری چیز ہے ۔ 
(۳)   عقیدہ دل کے انشراح اور یقینِ جازم کو کہتے ہیں اور عمومی طور پر کسی کام میں عمدہ اور کامیاب نتائج کا حصول بغیر انشراحِ صدر کے حاصل نہیں ہوتا ، بالخصوص اس وقت جبکہ عمل مشکل ہو اور موانع موجود ہو تو پھر اعمالِ آخرت پر عمل اور استقامت یقینِ جازم کے بغیر کیسے حاصل ہو سکتا ہے ، اس لئے عقیدہ ایک لابدّی چیز ہے ۔ 
*عقائد پر لکھی جانے والی تحریر*
          اسلامی عقائد پر علماء نے دو مختلف نقطہاۓ نظر سے کتابیں لکھی ہیں ۔ 
(الف)   عقلی دلائل سے قطعِ نظر کرتے ہوئے صرف اسلامی عقائد کی تفصیلات پر کتابیں تحریر کی گئیں ،  یہ ان لوگوں کے لئے تھی جو عقل کا استعمال کر کے اسلام کو بدل و جان قبول کر چکے تھے ۔ 
(ب)   عقائد کے فلسفیانہ پہلو کو واضح کرنا ، یہ اس طبقے کے لئے تھا جو عقائد کو عقل سے سمجھنا چاہتے تھے ۔ 
     جبکہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی اکثریت ان دونوں پہلو کی محتاج ہے ، اس لئے ہم دونوں پہلو ملحوظ رکھیں گے اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک تیسرے پہلو کو جاننا بھی ضروری ہوگا کہ عقیدہ کی کس شق میں مسلمانوں کا کون سا طبقہ راہِ اعتدال سے منحرف ہو چکا ہے تاکہ مسلمانوں کے لئے اس سے اجتناب آسان ہو ۔
                                    *﷽*  
*عقیدہ کی لغوی تعریف اور وجہ تسمیہ* 
     لغت میں عقیدہ لفظِ "عقد" سے بنا ہے ، جس کا معنی "گرہ لگانا" ہے اور گرہ دو چیزوں میں لازمی اتصال اور بندھن کے لئے لگائی جاتی ہے اور عقیدہ بھی ضروریاتِ دین کے تصور میں یقین اور لزوم کی کیفیت پیدا کرنے کا نام ہے ۔ 
*عقیدہ کی اصطلاحی تعریف*
       وہ ایمانیاتی اصول (ضروریاتِ دین) جن کا پختہ یقین رکھنا ضروری ہے ، اس پختہ یقین اور قلبی تصدیق کا نام عقیدہ ہے ۔ 
*فائدہ*
*عقیدہ اور نظریہ میں فرق*
"نظریہ" اس پختہ تصور کا نام ہے جو تجربہ کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے ، یہ ایک انسانی کاوش کا خلاصہ ہوتا ہے جو ابتداءً آنکھ کا مشاہدہ ہوتا ہے ، پھر دماغ میں مفروضہ کی شکل اختیار کرتا ہے ، پھر عملاً تجربہ میں ڈھلتا ہے ، پھر اجتماعیت اسے قانون کا نام دیتی ہے خلاصہ یہ کہ نظریہ انسانی کاوش کا نتیجہ ہے ، اس لئے اس میں عقل و دلائل کے ذریعہ تردید اور تبدیلی ممکن ہے اور ہوتی رہتی ہے اور جہاں تک عقیدہ کی بات ہے تو وہ وحی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے نہ کہ انسانی کاوش سے ، اس لئے اس میں عقل اور دلائل کے ذریعے تبدیلی ناممکن ہے اور عقلا سمجھ میں نہ آنے کے باوجود اس پر یقین رکھنا ضروری ہے ۔ 
*عقیدہ کا موضوع* : شریعت کی وہ باتیں ہیں جن پر دل سے یقین کرنا ضروری ہے ۔ 
*عقیدہ کی غرض* : جہنم سے بچاؤ اور جنت کا داخلہ ۔ 
*عقیدہ کے اقسام*
عقیدہ کی دو قسمیں ہیں :
(۱)  جس کو ثابت کرنے میں عقل مستقل نہ ہو ، جیسے عذابِ قبر ، حوضِ کوثر ، پل صراط ، شفاعت وغیرہ ۔ 
(۲) جس کو ثابت کرنے میں عقل مستقل ہو ، جیسے واجب الوجود ، وحدۃ الوجود ، ﷲ رب العزت کا علم و قدرت اور حدوثِ عالم ۔ 
      جیساکہ "النبراس" میں ہے :         " العقائد قسمان قسم لا يستقل العقل باثباتہ ، کعذاب القبر والحوض والصراط والشفاعة و توقّفُه على النصوص ظاهرٌ و قسمٌ يستقلّ باثباتہ ، کوجود الواجب و وحدتِه وقدرتِه و حدوث العالم"                    (النبراس ص ۱۰)

وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا

وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا
‏جب امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی_عرب کو جتلایا کہ امریکی تحفظ کے بغیر تمہاری حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ 
ان ہی دنوں سعودیہ میں ایک اونٹ کو 16 ملین ریال کا سونے کاہار پہنایا گیا تھا ۔
اسلام کا کتنا عبرتناک منظر تھا جب معتصم بااللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا چنگیز خان کے پوتے ہلاکو ‏خان کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔!
کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کہ سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیے۔۔۔۔۔!
پھر معتصم سے کہا :
" کھاؤ، پیٹ بھر کر کھاؤ، جو سونا چاندی تم اکٹھا کرتے تھے وہ کھاؤ "
بغداد کا تاج دار بےچارگی و بےبسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔
‏بولا " میں سونا کیسے کھاؤں؟ "
ہلاکو نے فورا کہا :
" پھر تم نے یہ سونا اور چاندی کیوں جمع کیا؟ 
وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا، 
کچھ جواب نہ دے سکا۔۔۔۔۔!
ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے 
اور ‏سوال کیا:
 " تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہیں بنائے ؟
تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی کہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟"
خلیفہ نے تأسف سے جواب دیا:
 " اللہ کی یہی مرضی تھی "
‏ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا:
 " پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی خدا ہی کی مرضی ہوگی "
ہلاکو خان نے معتصم بااللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اس نے بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔۔۔!
ہلاکو نے کہا " آج میں نے بغداد کو ‏صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔۔۔۔!"
اور ایسا ہی ہوا۔۔۔۔
تاریخ تو فتوحات گنتی ہے 
محل، 
لباس، 
ہیرے، 
جواہرات 
اور انواع و اقسام کے لذیذ کھانے نہیں۔۔۔۔۔!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا مگر دیوار پر تلواریں ضرور لٹکی ہوئی ہوتی تھیں۔
ذرا تصور کریں۔۔۔۔۔۔!
جب یورپ کے چپےچپے پر تجربہ گاہیں 
اور تحقیقاتی مراکز قائم ہو رہے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لے کر اپنی محبوبہ کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا 
اور 
اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے دوران ڈلیوری فوت ہو جانے پر ریسرچ کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل سکول کی بنیاد رکھ رہا تھا۔۔۔۔۔!
‏جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجاد کر رہےتھے اور نوخیز خوبصورت و پرکشش رقاصائیں شاہی درباروں کی زینت و شان بنی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔!
‏جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے تب ہمارے ارباب اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔۔۔
تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی ؟
شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں ؟
‏درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں، طوائفوں، وظیفہ خوار شاعروں اور جی حضوریوں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟
*تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی*۔۔۔۔!
یاد رکھیں جن کو آج بھی دولت سے لگاؤ اور طاغوت کی غلامی کا چسکا ہے 
ان کا حال خلیفہ معتصم باللہ سے کم نہیں ہو گا۔
سوئی ہوئی امت مسلمہ کو بیدار کرنے کیلئے اس تحریر کو مختلف گروپس میں شیئر کردیجیۓ
جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدین والدنیا والآخرۃ

فتنۂ ارتداد: اسباب اور ذمہ داریاں

.

       فتنۂ ارتداد: اسباب اور ذمہ داریاں

گزشتہ دنوں کئی علاقوں سے ارتداد کی خبریں (بالخصوص لڑکیوں کے سلسلہ میں) آئیں ، جو یقیناً تشویش ناک ہیں ؛ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری بچیاں ارتداد کا راستہ اختیار کیوں کررہی ہیں ؟ بہت ہی غور و خوض کے بعد راقم کے سامنے درج ذیل جوابات آئے:

*1- اصل دین سے ناواقفیت:*

 ارتداد کا راستہ اختیار کرنے والیاں نام کے اعتبار سے اور موروثی طور پر مسلمان ہیں ، وہ تمام امور کی انجام دہی ایک رسم کے طور پر کررہی ہیں ، انھیں معلوم نہیں کہ جو اعمال کئے جارہے ہیں ان کی حیثیت کیا ہے؟ کس کے حکم سے انجام دئے جارہے ہیں ؟ اگر ان امور کی انجام دہی نہیں کی گئی تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ سب انھیں معلوم نہیں ، وہ تو بس وہی کام کرتی ہیں ، جو انھوں نے اپنے اباء واجداد کو کرتے دیکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب انھیں ان کے غلط عمل پر ٹوکا جاتا ہے تو وہ بے دھڑک کہہ دیتی ہیں کہ ہمارے باپ دادا ایسا ہی کیا کرتے تھے؛ بل کہ الٹا سوال کر بیٹھتی ہیں کہ کیا وہ سب بے وقوف تھے؟ کیاان کے تمام اعمال غلط تھے؟


  *2-  اسلامی تعلیمات سے بے گانگی:*

  کچھ بچیوں کو یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ مسلمان ہیں ؛ لیکن وہ اسلامی تعلیمات سے بالکل ناواقف ہوتی ہیں ، نماز، روزہ جیسے اہم ارکان سے بھی نابلد ہوتی ہیں ، چہ جائیکہ انھیں یہ معلوم ہوکہ اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق دئے ہیں ؟ زمانۂ جاہلیت اور خود موجودہ زمانہ میں دوسرے مذاہب میں ان کے ساتھ کیا کیا نا انصافیاں ہوتی رہی ہیں ، ان سے مکمل طور پر نا آشنا ہیں ، ظاہر ہے کہ ایسے میں انھیں اسلامی تعلیمات کی کیا قدر ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے سامنے ظاہری اعتبار سے عقل کے خلاف کسی اسلامی حکم پر اعتراض کیا جاتا ہے تو خاموش ہوجاتی ہیں اور معترض کی معترف ہوجاتی ہیں۔

 *3-  مخلوط تعلیم:*

  ارتداد کا ایک بڑا سبب مخلوط تعلیمی نظام بھی ہے؛ کیوں کہ صرف لڑکے لڑکیوں کا ہی اختلاط نہیں ہوتا؛ بل کہ مسلم وغیرمسلم کے درمیان بھی ایسا اختلاط پایا جاتا ہے کہ دینی فرق ہی باقی نہیں رہتا، جس کے نتیجہ میں ’’عبادت‘‘ اور ’’پوجا‘‘ کے مابین کوئی امتیاز نہیں ہوتا، ہر ایک دوسرے کی عبادت اور پوجا میں شریک ہوتا ہے، بالخصوص مسلمان غیر مسلم کے تمام مذہبی امور میں شریک ہوتا ہے، جب کہ غیرمسلم عام طور پر مسلمان کے دینی اعمال میں شریک نہیں ہوتا (البتہ اکل وشرب کے بعض پروگراموں میں شریک ہوتاہے)؛ اس لئے مسلمان کے ذہن میں غیراسلامی امور بھی ناپسندیدہ نہیں لگتے ،پھر اکثر اسکولوں کا نصاب ہی ایسا ہے، جو ذہنی شکوک وشبہات میں مبتلا کردے، اسی طرح بے حیائی اتنی عام ہے کہ ایک دوسرے سے کسی اعتبار سے کسی قسم کا فاصلہ نہیں رکھا جاتا، ان چیزوں کی وجہ سے لڑکیاں اسلام اور غیراسلام دونوں کو ایک ہی خانہ میں رکھ دیتی ہیں اور ارتداد کا راستہ چن لیتی ہیں ۔

*4-  غیرمسلموں کے ساتھ یارانہ:*

 آج کے ’’فرینڈشپ‘‘ کلچر میں غیرمسلموں کے ساتھ دوستی گانٹھنے کو برا نہیں سمجھا جاتا؛ حالاں کہ اسلامی حکم یہ ہے کہ ’’مؤمنین کو چاہئے کہ وہ مؤمنین کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں‘‘ (آل عمران: 28)، انسانیت کی بنیاد پر تعلق رکھنا کوئی بری بات نہیں ؛ لیکن ایسی ’’دوستی‘‘ کرنا نادرست ہے جس میں رازہائے سربستہ دوست کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاتا ہے اور محرموں کی طرح گھر کے اندر آنا جانا جائز سمجھا جاتا ہے؛ کیوں کہ عموماً یہ دوستی شیطانی چال کا شکار ہوکر ’’پیار‘‘ کا روپ دھار لیتی ہے، جو ارتداد کا راستہ دکھاتی ہے۔


*5-  حرص و لالچ:*

 مادیت کے اس دور میں دولت کی حرص انسان سے نہ جانے کیا کیا کرا لیتی ہے! چنانچہ کچھ لوگ (جن میں غربت کی ماری لڑکیاں بھی ہیں) ہم میں سے ایسے ہیں ، جو حرص ولالچ کی خاطر ’’باقی رہنے والی زندگی‘‘ کو ’’ختم ہونے والی زندگی‘‘ سے بیچ دیتے ہیں اور دنیا کے چند سکوں کے بدلہ ارتداد کا راستہ اپنا لیتے ہیں ۔

 *6-  سلیبریٹیز کی غیرتفریق شادیاں :*

   آج کل چوں کہ ہر لڑکی (بالخصوص اسکول وکالج میں زیرتعلیم) کے ہاتھ میں انرائیڈ موبائل ہوتا ہے، جس میں زیادہ تر الّم غلّم چیزیں مشاہدہ کی جاتی ہیں ، انھیں میں بعض ایسی فلموں کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے، جن کے اسکرپٹ میں مسلم وغیرمسلم کے درمیان شادیاں دھوم دھام سے رچائی جاتی ہیں ، اسی طرح ان فلموں کے ہیروز اور ہیروئنس کی ریل لائف میں مسلم وغیرمسلم کے فرق کے بنا شادیاں رچائی ہوئی ہیں ، بعض لڑکیاں ان چیزوں سے متاثر ہوکر ارتداد اختیار کرنے میں حرج نہیں سمجھتیں ۔

یہ اور ان جیسے اسباب کی بنیاد پر لڑکیاں زیادہ تر ارتداد کا راستہ اختیار کررہی ہیں ، ایسے حالات میں ہر مسلم فرد کی ذمہ داری ہے، خواہ وہ عالم ہو یا عصری تعلیم یافتہ، دعوت وتبلیغ سے جڑا ہوا ہو یا کسی اور ادارہ وتنظیم سے کہ وہ میدان میں اترے اور ارتداد اختیار کرنے والی لڑکیوں کے ایمان کی حفاظت کرے، اس وقت یہ کام حمرالنعم (سرخ اونٹ) کے صدقہ کرنے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ مساجد کے مکاتب کے نظام کو مستحکم کرنا ضروری ہے، اگر ضرورت پڑے تو ذمہ دارانِ مساجد الگ سے معلمین کا انتظام کریں ، نیز معلمین اس کو ایک اہم دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ’’پروفیشنل‘‘ طریقہ پر نہ پڑھائیں اور بالحضوص عقائد پر زیادہ زور دیاجائے۔
  مسلم معاشرہ کے جو باحیثیت افراد ہیں ، انھیں چاہئے کہ علماء کی نگرانی میں ایسے اسکول قائم کریں ، جہاں مخلوط تعلیم نہ دی جاتی ہو، اگر خود قائم نہیں کرسکتے تو جولوگ ایسے ادارے قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، انھیں مالی تعاون فراہم کریں ۔

 موجودہ حالات کے پس منظر میں علماء کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے کہ وہ گاؤں گاؤں جائیں اور ماحول کا جائزہ لیں ، پھر دینی تعلیم کو رواج دینے کی کوشش اہل محلہ کے ساتھ مل کر کریں ، خواتین میں خصوصاً بیان کریں اور انھیں دین کی باتیں بتائیں ، اس سلسلہ میں اہل مدارس بھی بھر پور توجہ دیں ، ایک ایک علاقہ میں طلبہ کو بھیجنے کی ہفتہ واری ترتیب بنائیں ، جس کے لئے پہلے طلبہ کو ٹریننگ دیں ۔ جمعہ کے دن خطابت کی ترتیب بھی بنائیں ، جن علاقوں کے بارے میں ارتداد کی اطلاع ملے، وہاں اول وہلہ میں جانے کی کوشش کریں اور معاشرہ کے باشعور افراد کو جمع کرکے ارتداد کی حقیقت اور اس سلسلہ میں آخرت کی سزاؤں کا تذکرہ بھی کریں ، اگر اس طرح ہلچل پیدا ہوجائے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ارتداد کی جو مسموم ہوا چل پڑی ہے، وہ جلد ہی تھم جائے گی؛ لیکن اگر ہم نے ادنیٰ بھی کوتاہی کی تو پھر نئی نسل ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو ارتداد کے فتنہ سے بچائے، آمین!!!

دنیائے تاریخ کی طاقتور ترین معذرت()

دنیائے تاریخ کی طاقتور ترین معذرت

جب حضرتِ ابوذرؓ نے بلالؓ کو کہا:
 "اے کالی کلوٹی ماں کے بیٹے! اب تو بھی میری غلطیاں نکالے گا۔
بلالؓ یہ سن کر غصے اور افسوس سے بے قرار ہو کر یہ کہتے ہوئے اٹھے۔
ﷲ کی قسم ! میں یہ بات ضرور بالضرور ﷲ کے رسول ﷺ کے سامنے رکھوں گا۔

حضرت بلال سے یہ باتیں  سن کر ﷲ کے رسولﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپؐ نے ارشاد فرمایا : 
ابوذرؓ ! 
کیا تم نے اسے ماں کی عار دلائی؟تمہارے اندر کی جہالت اب تک نہ گئی۔

اتنا سننا تھا کہ ابوذرؓ یہ کہتے ہوئے رونے لگے:
 یا رسول ﷲﷺ ! میرے لیے دعائے مغفرت کر دیجئے۔
اور پھر روتے ہوئے مسجد سے نکلے ۔

باہر آ کر اپنا رخسار مٹی پر رکھ دیا ۔اور بلالؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے : 
بلالؓ! 
جب تک تم میرے رخسار کو اپنے پاؤں سے نہ روند دوگے،
میں اسے مٹی سے نہ اٹھاؤں گا۔ یقیناً تم معزز و محترم ہو اور میں ذلیل و خوار۔

یہ دیکھ کر بلالؓ روتے ہوئے آئے اور ابوذرؓ سے قریب ہو کر ان کے رخسار کو چوم لیا۔ اور بے ساختہ گویا ہوئے: 
ﷲ پاک کی قسم! میں اس رخسار کو کیسے روند سکتا ہوں، جس نے ایک بار بھی ﷲ کو سجدہ کیا ہو۔ پھر دونوں کھڑے ہو کر گلے ملے اور بہت روئے۔
(صحیح بخاری :31)

اور آج ہم میں سے ہر ایک دوسرے کی دسیوں بار ہتک کرتا ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ "بھائی! معاف کریں۔ بہن! معذرت قبول کریں"۔

یہ سچ ہے کہ ہم آئے دن لوگوں کے دلوں کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ مگر ہم معذرت کے الفاظ تک زبان سے ادا نہیں کرتے اور "معاف کر دیجیے" کہتے ہوئے بھی ہمیں شرم آتی ہے۔
اس وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معیارحق بن گئےاورحزب اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی پارٹی کےممبربن گئے۔
 
*معافی مانگنا عمدہ ثقافت اور بہترین اخلاق ہے۔*

جب کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خود کی بے عزتی اور اہانت ہے۔

سچ یہ ہے کہ ہم سب مسافر ہیں اور سامانِ سفر نہایت تھوڑا ہے۔ 

ہم سب دنیا و آخرت میں ﷲ سے معافی اور درگذر کا سوال کرتے ہیں۔آمین۔

ائمہ کرام سے چند باتیں

ائمہ کرام سے چند باتیں
جامعہ اشرفیہ لاہور
 امام مقتدیوں کے ساتھ بے تکلفی نہ رکھے
۔
1.بے تکلفی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رکھے
استاد بھی اپنے زیر تعلیم شاگردوں کے ساتھ بے تکلفی نہ رکھے
البتہ جو تعلیم حاصل کر چکے ان کامعاملہ الگ ھے
جس شاگرد سے استاد بے تکلفی رکھے گادوران تعلیم وہ اسے ڈس کر چھوڑے گا۔کسی نہ کسی صورت نقصان پہنچاکے چھوڑے گا*
یہ کتابی باتیں نھی میری زندگی کی ٹھوکریں ھیں

2.*مقتدیوں کے گھر کھانا وغیرہ نہ کھائیں*
*ایک وقت تھا لوگ محبت اور عقیدت سے اکرام کرتے تھے*۔
*لیکن اب حالات تبدیل ہوگئے مادیت کی وجہ سے یا جو بھی کہ لیں*
*اسلئے کوشش کریں جہاں ماحول نہ وہاں مقتدیوں کے گھر جاکر کھانانہ کھائیں* 

3.*مختلف مکاتب فکر کے مقتدیوں پر تنقید نہ کریں*
*اپنی تقاریر ودروس میں حکمت وبصیرت سے حق بیان کریں لیکن دوسروں کا تمسخر نہ اڑائیں*
*اس سے دوریاں پیدا ھوں گی*
*کوشش کریں آپ کی مسجد کا ماحول ایساھو کہ ہر مکتب فکر کا آدمی آئے*۔
3.*بدعات وخرافات سے پرھیز کریں* ۔۔۔۔
*ایک امام صاحب کا واقعہ سنایاکہ گھر میں بچے کی برتھ ڈے منائی* ۔۔ *مسجد سے فارغ کردیاگیا*  ۔
4.*مختلف مسالک کیلئے رواداری رکھیں یعنی برداشت کریں* ۔ 
*جس بات کے پیچھے قرآن وحدیث کی دلیل موجود ھو اس پر لوگوں کی پکڑنہ کریں*۔۔۔
5.*دیگر رھنماؤں ومشائخ کااحترام کریں* ۔
6.*حکومت وسیاست کے امور پر بحث نہ کریں*
7.*ہرنماز کے بعد کچھ دیر مصلے پر موجود رھیں* ۔۔
*محرابوں کے گیٹ یہ فرار کے راستے ھیں*۔۔۔
*محراب ھی سے مصلے پر آنے کی مستقل عادت نہ بنائیں*۔*کبھی کوئی مجبوری ھوتو الگ بات ھے 
*نماز سے پہلے کی سنتیں اور بعد کی مسجد ھی میں پڑھیں* ۔
*سنتیں ونوافل گھر میں پڑھنا افضل ھے لیکن امام ھونے کی حیثیت سے یہ نہ کیجیئے مسجد میں پڑھیں*۔۔۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم