ظلم کا انجام

ظلم کا انجام

سب سے زیادہ ڈرنے والی چیز جو ہے وہ ظلم ہے ،دنیا کے سارے مذاہب ،سارے کلچر،سای رفارمرس ،سارے صوفی سنت اس بات پر متفق ہیں کہ انسان سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے ؛او رہر مذہب کا انسان ،ہر شہر کا انسان ،ہر ملک کا انسان ،ہر برادری کا انسان ،ہر نسل کا انسان ،ہر طبقہ کا انسان ،ہر سوسائٹی کا انسان ،ہر قابلیت کا انسان ،ہر صلاحیت کا انسان ،مفید ہو یا غیر مفید ،وہ خداکی صنعت اور خدا کی رحمت کا مظہر ہے ،ہم اس کو  (Masterpiece)نہیں کہہ سکتے ورنہ اس سے بڑھ کر (Masterpiece)اور کیا ہو سکتاہے ؟تاریخ میں ایسی شہادتیں موجو د ہیں کہ  بعض اوقات کسی ایک مظلوم مرد کی آہ ،اور کسی ایک مصیبت زدہ خاتون کی کراہ سے پورے دور کا خاتمہ ہو گیا ہے،جو بات سب سے زیادہ ملکوں کی خیرا خواہی ،سچی ہمدردی ،حقیقت پسندی ،انسانیت کے فرض کی ادائیگی بلکہ اس کے احساس کی ہے (خواہ اس ملک میں کتنی ترقیاں ہوں اور ا س ملک کی ادائیگی بلکہ اس ملک کی تاریخ خواہ کیسی ہی رہی  ہو اور اس میں کتنے وسائل وذخائر ہوں )یہ ہے کہ ظلم نہ ہونے پائے ،کسی کمزور آدمی کو روندانہ جائے ،کسی گھر کا چراغ بجھایا نہ جائے ،کسی بے زبا ن عورت پر ہاتھ اٹھایا نہ جائے ،اور کسی مظلوم کی بد دعا نہ لی جائےبلکہ اس ملک کا ہر شہتیر مظبوط اور خوبصورت ہو اور ہر فرد اس ملک کو اپنا ملک کہنےپر فخر کرتاہو !!‘‘

اقبال کا ہیغام

مغرب تہذیب اورمسلم ممالک
اقبال ؒ کا  پختہ عقیدہ ہےکہ مغربی تہذیب ممالک اسلامیہ کو ہر گز نجا ت نہیں دلاسکتی نہ ان کے مسائل کو حل کرسکتی ہے ،وہ کہتےہیں کہ ”جوتہذیب اپنی موت آپ مررہی ہے ،وہ دوسروں کو زندگی کب دے سکتی ہے“۔
                             نظر آتے نہیں  بے  پردہ حقائق  ان کو             آنکھ جن کی ہوئی محکومی وتقلید سے کور
زندہ کرسکتی ہے ایران وعرب کوکیوں کر             یہ فرنگی منیت کہ جوہے  خو د لب گور
مغرب نے ہمیشہ مشرقی ممالک کے احسان کا بدلہ احسان فراموشی اور کفران نعمت سے ،اور بھلائی مغرب نے ہمیشہ مشرقی ممالک کے احسان کا بدلہ احسان فراموشی اور کفران نعمت سے ،اور بھلائی کی جزا برائی سے دی ہے ،شام نے مغرب کو حضرت عیسیٰ کی شخصیت دی ،جن کاپیام عفت وعصمت اور غم خواری ورحمت ،برائی کے بدلے بھلائی ،ظلم کے مقابلے پر عفو تھا ،لیکن مغرب نے شام پراپنے قبضہ کے دوران خمروقمار ،بے پردگی اور آوارگی کے سواکوئی تحفہ نہیں دیا :
فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نےکیا           نبی رحمت وغم خواری وکم آزادی
                                    صلہ فرنگ سے آیاہے سوریا کے لئے         مے وقمار  وہجوم  زنانِ   بازاری !

پہلی عالمی جنگ

پہلی عالمی جنگ
از:ابوصالح شیخ..........
پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کی ابتدا ھبزبرگ آرکڈیوک ٖفرانز فرڈنینڈ کے قتل سے ہوئی جو اگست 1914 میں شروع ہوا اور اگلی چار دہائیوں تک مختلف محاذوں پر جاری رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں۔۔برطانیہ، فرانس، سربیا اور روسی بادشاہت (بعد میں اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی شامل ہو گئے)۔۔جرمنی اور آسٹریہ۔ہنگری پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خلاف لڑیں جن کے ساتھ بعد میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ترکی اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے۔ جنگ کا ابتدائی جوش و جزبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی جنگ جیسی شکل اختیار کر گئی۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا۔ مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی ممکن نہ رہی لیکن تنازعے کی سطح مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ شمالی اٹلی، بالکن علاقے اور سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں بھی شدید لڑائی ہوئی۔ لڑائی سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ ہوا میں بھی لڑی گئی۔
پہلی عالمی جنگ جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں تقریباً ایک کروڑ فوجی ہلاک ہو گئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس جنگ میں دو کروڑ دس لاکھ کے لگھ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا اور گیس کے ذریعے کی گئی ہلاکتیں تھی۔ جنگ کے دوران یکم جولائی 1916 کو ایک دن کے اندر سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جب سومے میں موجود برطانوی فوج کے 57 ھزار فوجی مارے گئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اُٹھانا پڑا جب جرمنی کے 17 لاکھ 73 ھزار 7 سو اور روس کے 17 لاکھ فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس کو اپنی متحرک فوج کے 16 فیصد سے محروم ہونا پڑا۔ محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور ہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ اتنی بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے "اسپینش فلو" پھیل گیا جو تاریخ کی سب سے موذی انفلوئنزا کی وباء ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔ جائیداد اور صنعتوں کا نقصان بہت خطیر تھا، خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں، جہاں لڑائی خاص طور پر شدید تھی۔
نومبر 11, 1918 کو صبح کے 11 بجے مغربی محاذ پر جنگ بند ہو گئی۔ اُس زمانے کے لوگ اس جنگ کو "جنگ عظیم" کے نام سے منصوب کرتے تھے۔ یہ بند ہو گئی لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔


سچائی کا راستہ(مذہب و عقل)

   سچائی کا راستہ(مذہب  و عقل)
ابوصالح شیخ ادریس ندوی
ٹھوس حقیقتوں کا مجموعہ جن کی سچائی پر عقل نے گواہی دی۔ جو دنیا کی تمدنی اصلاح کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے، وہی سچا مذہب ہے۔
یوں تو دعویدار بہت ہیں جنگ میں بالو چمک کر اکثر پیاسوں کو پانی کا دھوکا دیتی ہے مگر سانچ کو آنچ کیا۔ کھوٹا کھرا چلن میں کھل ہی جاتا ہے۔
بے شک سچے مذہب میں معاشرت کے اصول، تمدن کے قاعدے، نیکی کی ہدایت، بدی سے ممانعت ہے اور جبروتی قوت بھی ساتھ ہے۔ جزا، سزا، قہر، غضب، رحم و عطا ثابت حقیقتیں ہیں جن کی اہمیت کے سامنے عقل سرنگوں ہے۔
سچا مذہب عقل والوں کو آواز دیتا ہے اور جو باتیں عقل سے ماننے کی ہیں ان میں عقل سے کام لینے کی ہدایت کرتا ہے تاکہ سرکش انسان جذبات کی پیروی نہ کرے اور کمزور اور کاہل عقلیں اپنے باپ دادا کے طورطریقہ، ماحول کے تقاضے ہم چشموں کے بہلانے پھسلانے سے متاثر ہو کر سیدھے راستے سے نہ ہٹیں ”حقیقت“ کسی کے ذہن کی پیداوار نہیں ہوتی، اس لئے سچا مذہب کسی کی جودت طبع کا نتیجہ نہیں۔ بے شک اس تک پہنچنا اور پہنچ کر اس پر برقرار رہنا انسان کی عقلی بلندی کی دلیل ہے۔
جھوٹے مذہب، ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو دنیا کو بربادی کی طرف لے جانے والے، معاشرت کے تباہ کرنے والے، تمدن کے جھوٹے دعویدار، تہذیب کے بدترین دشمن۔ بدی کے محرک اور فتنہ انگیزی کے باعث ہوں۔ لیکن سچا مذہب وہی ہے جو عالم میں امن و سکون کا علمبردار، معاشرت کا بہتر رہبر، تمدن کا سچا مشیر، تہذیب کا اچھا معلم، طبیعت کی خودروی، بدی کی روک تھام، ممنوعات سے باز رکھنے کو زبردست اتالیق ہے۔ فتنہ انگیزی سے بچنے بچانے کو نگہبان، امن و امان کا محافظ، جرائم کا سدراہ، فطرت کی بہترین اصلاح ہے۔
انسان کی فطرت میں دونوں پہلو ہیں۔ حیوانیت و جہالت اور عقل و معرفت، مذہب کا کام ہے دوسرے پہلو کو قوت پہنچا کر پہلے کو مغلوب بنانا اور اس کے استعمال میں توازن اور اعتدال قائم کرتا۔ فطرت کے جوش اور جذبات کو فطرت کی دی ہوئی عقل سے دباتا اور انسان کو روکتا تھامتا رہتا ہے۔ جذبات کے گھٹاٹوپ میں قوت امتیاز کا چراغ دکھاتا۔ اور اچھا برا راستہ بتاتا ہے خطرے اور کجروی سے باز رکھتا ہے۔
طبیعت انسانی ایک سادہ کاغذ ہے۔ جیسا نقش بناؤ ویسا ابھرے، جوانی کی اودھم، خواہشوں کی شورش، نفس کی غداری، جس کو بدی کہا جاتا ہے اس کی صلاحیت بھی فطری ہے اور شرم، حیا و نیکی اور پارسائی، تعلیم کی قبولیت اور ادب آموزی کی قدرت بھی فطری ہے۔ بے شک پہلی طاقت کے محرکات چونکہ مادی ہوتے ہیں، انسان کے آس پاس، آمنے سامنے موجود رہتے ہیں اس لئے اکثر ان کی طرف میلان جلدی ہو جاتا ہے۔ پھر بھی جن کی عقل کامل اور شعور طاقتور ہوتا ہے۔ وہ ان تمام محرکات کے خلاف نیکی کی طرف خود سے مائل ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ جن کی عقل کمزور اور کاہل ہے وہ نیکی کی جانب مائل کرائے جاتے ہیں اس نیک توفیق کی عقل انجام بین پر صد ہزار آفریں۔ جس نے مذہب کی باتوں کو سمجھا اور دوسروں کو بتلایا اور حیوانوں کو انسان بنایا۔ مذہب نہ ہو تو حیوانیت پھر سے عود کر آئے۔ شہوانی خواہشوں کا غلبہ ہو۔ انسان حرص و ہوس کی وجہ سے اعتدال قائم نہیں رکھ سکتا اس لئے مذہب کا دباؤ اس کے لئے بہترین طریق ہے۔
فطرت نے درد دکھ کی بے چینیاں، بے بسی کا عالم، سکرات کا منظر، نزع کی سختیاں، موت کا سماں آنکھ سے دکھا دیا، مذہب نے مستقبل کے خطرہ، آخرت کی دہشت، بازپرس کے خوف، بدلے کے اندیشے پر عقل کو توجہ دلائی۔
عقل نے غور کیا، سمجھا اور صحیح مانا اور نگاہ دوربیں سے ان نتائج کو معلوم کر لیا۔
اصلاح کے لئے لامذہب بھی کہتے ہیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے اور بے شمار اصلاح پسندوں نے انجام سوچ کر یہ رویہ اچھا سمجھا ہے۔ تو کبھی مذہب کی ان تنبیہوں کو صرف ”دھمکی“ بتا کر اور ان نتیجوں کو ”نامعلوم“ کہہ کر ان کی وقعت نہ گھٹائیں۔ نہیں تو ایک طرف حقیقت کا انکار ہو گا دوسری طرف اصلاح کے مقصد کو ٹھیس لگے گی جس کی ضرورت کا ان کو بھی اقرار ہے۔
عقل

سوچنے سمجھنے والی، دیکھی باتوں پر غور کرکے ان دیکھی باتوں پر حکم لگانے والی بڑے بڑے کلیے بنانے والی اور ان کلیوں پر نتیجے مرتب کرنے والی قوت کا نام عقل ہے۔
انسا ن کے علاوہ تمام حیوانوں میں صرف حواس ہیں اور وہ حواس کے احاطہ میں اچھا برا، نفع نقصان پہچان لیتے ہیں۔ مگر یہ قوت جس کا نام ”عقل“ ہے انسان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی کی وجہ سے آدمی کو ذوق جستجو پیدا ہوتا ہے اور اس جستجو سے پھر اس کی عقل اور بڑھتی ہے۔ وہ اسی عقل کے برکات سے معلومات کا ذخیرہ فراہم کرتا رہتا ہے۔ موجودہ لوگوں سے تبادلہ خیال، پچھلی کتابوں سے سبق لے کر ہزاروں برس کی گزشتہ آوازوں میں اپنی صدا بڑھا کر آئندہ صدیوں تک پہنچانے کا حریص ہے، اس کی عقل کبھی محدود یا مکمل نہیں ہو سکتی وہ اپنی عقل کا قصور مان کر آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ ذوق ترقی انسان کے علاوہ کسی دوسرے میں نا پید ہے۔ انسان کے سوا دوسرا مخلوق لاکھوں برس طے کرے تب بھی انسان نہیں بن سکتا۔
انسان اصل نسل میں سب سے الگ اور خود ہی اپنی مثال ہے۔ بے شک تہذیب و تمدن میں اس کی حالتیں بدلتی رہیں لامعلوم صدیوں کو طے کرکے موجودہ تہذیب و تمدن کی منزل تک پہنچا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے ہر طرح ترقی کی۔
اس نے بہت سے قدم ناسمجھی کے بھی اٹھائے جن سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹا۔ واللہ علم آگے بڑھ کے کہاں پہنچے۔
اس کا عقلی کمال اس میں ہے کہ وہ اپنے معلومات کی کوتاہی کا احساس قائم رکھے۔ اسی لئے اکثر باتوں میں خود عقل حکم لگانے سے انکار کرتی ہے اور انہیں اپنے دسترس کے حدود سے بالاتر قرار دیتی ہے۔
بہت باتوں کو خود عقل سماع کے حوالہ کرتی ہے ان میں اپنا کام بس اتنا سمجھتی ہے کہ امکان کی جانچ کرے، محال نہ ہونے کا اطمینان کر لے۔ اس کے بعد صحت اور عدم صحت مخبر کے درجہ اور اعتبار سے وابستہ ہے۔
واہمہ مشاہدہ کی گود کا پلا، اس کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اس نے بہت باتوں کو جن کی مثال آنکھ سے نہیں دیکھی غیرممکن کہہ دیا۔
اسی کے ماتحت انبیاء کے معجزات کا انکار کیا مگر عقل جو مادیت کے پردے اٹھا کر کائنات کے شکنجے توڑ کر حقیقتوں کا پتہ لگانے میں مشتاق ہے۔ اس نے وقوع اور امکان میں فرق رکھا، محال عادی اور محال عقلی کے درجے قرار دیئے اور غیرمعمولی مظاہرات کو جو عام نظام اور دستور کے خلاف ہوں ممکن بتایا اسی سے معجزات انبیاء کی تصدیق کی۔
آج ہزاروں صناعوں کی کارستانیوں نے اس کو ثابت کر دیا۔ موجودہ زمانہ کی ہزاروں شکلیں، لاکھوں اوزار، بے شمار ہتھیار، لاانتہا مشینیں، ہزار ہاملیں ایسے ایسے منظر دکھاتی ہیں جنہیں سو دو سو برس پہلے بھی کسی سے کہتے تو وہ دیوانہ بناتا اور سب باتوں کو غیرممکن ٹھہراتا۔ آج وہ سب باتیں ممکن نہیں بلکہ واقع نظر آتی ہیں۔
ان کارستانیوں نے معجزات انبیاء کا خاکہ کیا اڑایا، بلکہ ان کو ثابت کر دکھایا۔ جو بات آج علم کی تدریجی اور طبیعی ترقی کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئی آج معجزہ نہیں ہے۔ لیکن یہی موجودہ انکشافات کے پہلے، عام اسباب کے مہیا کئے بغیر صرف خداوندی رہنمائی سے ظاہر ہوئی تو معجزہ ٹھہری۔
ٹاکی سینما میں عقل کا تماشا ہو یا انجنوں اور موٹروں کی تیزرفتاری، ہوائی جہاز ہو یا ٹیلی فون، وائرلس، ریڈیو، اور لاؤڈاسپیکر سب نے کائنات کی پوشیدہ طاقتوں کا راز کھولا، راز بھی وہ جو لاکھوں برس تک عام انسانوں سے پوشیدہ رہا۔ پھر انسان کو کیا حق ہے کہ و ہ کسی چیز کو صرف اپنے حدود مشاہدہ سے باہر ہونے کی وجہ سے غیرممکن بتا دے۔
مگر یہ انسان کی سخن پروری ہے کہ وہ ان حقیقتوں کو دیکھ کر بھی انبیاء کے معجزات کو افسانہ کہتا ہے۔
عقل ایک واحد طاقت ہے جس کے ماتحت بہت سی قوتیں ہیں۔ ان میں سے ہر قوت ایک احساس ہے اور عقل کا نتیجہ علم ہے۔ انسان کا دماغ مخزن ہے۔ قوت عاقلہ اور پانچوں حواس اس میں معلومات جمع کرتے رہتے ہیں۔ یہی سرمایہ انسان کی کائنات زندگی ہے۔
طبائع انسانی جذبات کے ماتحت جدت پر مائل ہیں۔ ہواؤ ہوس کی شوخیاں نچلا بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔
کبھی حجری زمانہ تھا، بتوں کی خدائی تھی۔ اب شمسی عہد ہے، عالم کا نظام، اجسام میں کشش، مہر کی ضیا سے قائم ہے، پہلے آسمان گردش میں تھا، زمین ساکت تھی۔ اب آسمان ہوا ہو گیا۔ زمین کو چکر ہے، ابھی تک جسم فنا ہو جاتا تھا روح باقی رہتی تھی۔ اب کہا جاتا ہے کہ جسم کے آگے روح کا وجود ہی نہیں۔ یہ انسان کے ناقص خیالات ہیں جن میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مگر عقل بردبار، ثابت قدم اور مستقل مزاج ہے۔ وہ جن باتوں کو ایک دفعہ یقین کے ساتھ طے کر چکی۔ ہمیشہ انہیں یقینی سمجھتی ہے کوئی سنے یا نہ سنے مانے یا نہ مانے وہ اپنی کہے جاتی ہے۔
مذہب کے خلاف توہمات ہمیشہ سے صف بستہ تھے۔ آج بھی پرے جمائے ہیں۔ جذبات انسانی اس کی گرفت سے نکلنے کو پھڑپھڑائے اور اب بھی پھڑپھڑاتے ہیں مگر عقل اور فطرت کی مدد سے اس کا شکنجہ ہمیشہ مضبوط رہا اور اب بھی مضبوط ہے۔ خدا کی سنت یعنی فطرت کی رفتار کو تبدیلی نہیں ہوتی۔ زمانہ کی تاثیر، ماحول کا اثر، صورتیں۔ شکلیں، ڈیل ڈول، وضع قطع، ذہنیت میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔
صدیوں میں ملکوں کا جغرافیہ، قوموں کی تاریخ، برسوں میں مقامی فضا طبیعتوں کا رنگ۔ مہینوں میں فصلوں کا تداخل، ہفتوں میں چاند کا بدر و ہلال، گھنٹوں میں مہر کا عروج و زوال۔ منٹوں میں سطح آب پر یا لب جو حبابوں کا بگڑنا۔ دم بھر میں سانس کا الٹ پھیر، آنا جانا۔ حیات سے ممات سب کچھ ہوا کرے۔ مگر عقل کی ثابت حقیقتیں کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
اسلام انہی حقیقتوں کی حمایت کا بیڑا اٹھائے ہے۔ اسے میں توہمات کے سیلاب سے مقابلہ۔ جذبات سے بیر، دنیا جہان کے خیالات سے لڑائی ٹھانی ہے مگر ہے تو نیک صلاح۔
اگر خاموش بنشنیم گناہ است
انسان کی بھیڑیا دھان خلقت نے ایک وقت میں حیوانات کے ساتھ ساز کیا اور ذی اقتدار انسانوں کو خدا ماننے میں تامل نہیں کیا۔ پھر خدا کو انسان کے قالب میں مانا بلکہ ان سے بھی پست ہو کر درختوں کی پوجا کی۔ اور پہاڑوں کو معبود بنا لیا۔ اب جب کہ وہ ترقی کا مدعی ہے تو مادہ کے ذروں کو سب کچھ سمجھتا اور کائنات کی پوشیدہ قوتوں کی پرستش کر رہا ہے۔ خیر اس کی نگاہ حاضر مجسموں سے پوشیدہ طاقتوں کی طرف مڑی تو!
امید ہے کہ اگر عقل صلاح کار کا مشورہ قبول کرے تو غیب پر ایمان لے آئے اور مافوق الطبیعت خدا کی ہستی کا اقرار کر لے، وہ خدا جو آسمان اور زمین سب کا مالک ہے کسی جگہ میں محدود نہیں۔ بے شک خلق کی ہدایت کے لئے زمین پر اپنے پیغام بر بھیجتا اور ان کی زبانی بہترین تعلیمات پہنچاتا ہے اور خصوصی دلائل اور نشانیوں کے ذریعہ ان کی تصدیق کرتا ہے۔ ان دلائل کا نام معجزات ہے۔ مستقبل کے اخبار ان کے ماتحت ہیں۔ فطرت و عقل دونوں ان کے ہم آہنگ ہیں۔ ملاحظہ ہو۔



اقبال کی نظم

اقبا ل کا شکوہ نظم کے پیرائے میں 
اس نظم میں اقبال نے سرکا ر دوعالم ﷺ کی روح سے استغاثہ ہے کہ
1)اے تاجدار مدینہ !آپ کی قوم کا شیرازہ بالکل بکھر چکاہے اس لئے دنیا میں کوئی قو م اس کی عزت نہیں کرتی ۔اب آپ ﷺ ہی فرمائیں کہ آٌ قاکے یہ نالا ئق غلام کہاں جائیں ۔
2)مسلما نوں مں سر فروشی کا وہ ذوق بالکل باقی نہیں رہا ۔لھذا میں اب کس قوم کو اپنی شناخت کی حفاظ او ر وقت کے تقاضہ کے مطابق جدوجہد کرنے کی تعلیم دوں ۔مسلمان نہ میری تعلیم سنتے ہی نہ سمجھتے ہیں
3)یہ سچ ہے کہ اس وقت بالکل بے سروسامانی کی حالت میں ہیں ،نہ ان کے پاس دولت ہے نہ تجارت ہے نہ علم ہے اور نہ ان کے پا س کسی قسم کی مادی طاقت ہے نہ روحانی قوت ہے ۔یہ بالکل صحیح ہے لیکن بہر حال وہ آپ ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں آخر وہ کس ملک میں چلے جائیں ۔
4)اب وقت آگیا ہے کہ آپ اس نا فرمان اور نالائق قوم پر نگاہ کرم فرمائیں اور اس کی دستگیری فرمائیں یہ قوم لاکھ بری سہی لیکن آپ کی نام لیوا ہے اور اللہ کے کلام پر عامل  نہ سہی اس کی نگہبان تو ہے آخر دنیا سے نیست ونابو د توہونہیں سکتی کیونکہ آٌپ کا پیغا م ازلی اور ابدی ہے پس ا للہ ان پر نگاہ کرم فرمائیے اور دنیا میں ان کی با عزت زندگی کاکوئی  انتظا م فرمائیے1میں نے حتی المقدوراس نظم کے مفہوم کوسلیس اندازمیں بیان کردیا ہے لیکن اگر ناظرین اس سوزوگداز سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں جو اس نظم میں ہے توپھراس کو اقبال ہی کے لفظوں میں پڑھیں۔جوسوزوگدازاس مصرع میں ہے ۔
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے   وہ میرے لفظوں سے ہر گز پید انہیں ہو سکتا ۔                                                             

ہندوستان کے تاریخی مقامات


ہندوستان کے تاریخی مقامات اور ہم

کسی بھی ملک کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا اندازہ اس ملک میں موجود تاریخی عمارتوں اور مقامات سے ہی نہیں بلکہ اس ملک کے حکمرانوں کے ذوق و تعمیر و فن اور عوام کے مزاج سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو اس کے تحفظ کیلئے اپنی ساری توانائیاں صرف کردیتے ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان میں ایسے مقامات، عمارتوں اور یادگاروں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ قوم نے اس کی اتنی قدر نہیں کی جتنی کی جانی چاہئے۔ ان یادگاروں کے تحفظ اور ان کی صیانت سے قوم کی عدم دلچسپی ہی کہئے کہ وہ خود ان کی عظمت سے واقف ہی نہیں ہے دوسری طرف بیرونی سیاح ان کی عظمت دیکھنے کھینچے کھینچے چلے آتے ہیں۔ کیوں کہ اب لوگوں کا مزاج "گھر کی مرغ دال برابر" والا بن چکا ہے۔ 

تاج محل ساری دنیا میں تو ہندوستان کی علامت سمجھاجاتا ہے لیکن ملک کے10فیصد لوگوں نے ہی اسکو دیکھا ہوگا ایسا ہی حال ہر ریاست اور شہر میں پائی جانے والی عمارتوں اور یادگاروں کا ہے۔ حیدرآباد کے چارمینار کی بات ہو یا پھر گولکنڈہ کا قلعہ یا پھر سالار جنگ میوزیم کی ان کو دیکھنے والے بیرون ریاست اور بیرونی ملکوں کے سیاحوں کی تعدادزیادہ ملے گی۔ 1951ء میں قائم سالارجنگ میوزیم کا شمار یوں تو ملک کے 6قومی اہمیت کے حامل میوزیم میں ہوتا ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ ساری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد میوزیم ہے جوایک ایسے شخص نواب یوسف علی خاں (سالارجنگ سوم) کے اعلیٰ و عمدہ ذوق اور شوق کی عکاسی کرتا ہے جنہوں نے اپنی 60 سالہ مختصر زندگی کا بڑا حصہ صرف نوادرات اور بیش بہا قیمتی اشیاء جمع کرنے میں صرف کردیا جو ان کی زندگی کے بعد قوم اور ملک کا اثاثہ بن گئیں۔ 
موسیٰ ندی کے جنوبی کنارے دارالشفاء میں 10ایکڑ اراضی پرواقع سالارجنگ میوزیم میں تین علیحدہ وسیع وعریض بلا میں موجود 43000 نادرو نایاب اشیاء کی مالیت کا تخمینہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں بعض ایسے شہہ پارے بھی ہیں جن کی قیمت کے تصور سے ہوش ہی اڑجائیں گے۔ 29؍ستمبر 1952ء میں اس میوزیم کے معائنہ کے بعد اس وقت کے مرکزی وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی جو رائے تحریرکی وہ خود اس میوزیم کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے کافی ہوگی۔ 
مولاناآزاد لکھتے ہیں کہ "مجھے سالارجنگ میوزیم کے معائنے سے خوشی حاصل ہوئی۔ ایک شخصی ذوق نے اتنا سامان بہم پہنچادیا کہ جو حکومتوں کی کوشش سے بھی فراہم نہیں ہوا کرتا۔ مزید خوشی دراصل اس بات سے ہوئی کہ یہاں چیزوں کی تقسیم و تربیت نہایت قابلیت سے قائم کی گئی ہے اور اس کیلئے اسٹاف کی حسن کارکردگی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ 
یہ شاید اس وقت کی بات ہوگی جب سالار جنگ میوزیم نواب یوسف علی خان کے مسکن دیوان دیوڑھی میں واقع تھا اور اس کا افتتاح 1951ء میں اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا اور اس کا حسن انتظام سالارجنگ اسٹیٹ کے کمیٹی کے پاس تھا۔ 1958ء میں یہ پھر وزارت ثقافت کا حصہ رہا 1961ء میں قانون سازی کے ذریعہ قومی اہمیت کا حامل قراردیاگیا اور پھر اس کے نظم و نسق اور انتظام کو ایک بااختیار ادارہ کے حوالے کیاگیا جس کے سربراہ گورنر ہیں۔ 1968ء میں اس میوزیم کو دیوان دیوڑھی سے موجودہ عمارت میںمنتقل کیاگیااورتقریباً40 سال بعد پھر اس کی تزئین نو کے ذریعہ موجودہ شکل و صورت گری سے آراستہ کیاگیا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ میوزیم 50 برسوں میں تین ادوار سے گزرا لیکن خاص بات یہ ہے اس سارے عمل کے دوران نہ تو ترتیب بدلی نہ ہی اس کی تقسیم لیکن اب مشرقی بلاک میں اسلامک آرٹ گیلری کی تعمیر کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے اور بہت ممکن ہو آئندہ ماہ رمضان تک یہ پائے تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اس منصوبہ پر لگ بھگ 6کروڑ روپئے کے مصارف عائد ہوں گے۔


مدارس کی اہمیت وضرورت

عصر ِ حاضر میں مدارس کی ضرورت و اہمیت
ابوصالح شیخ ادریس ندویؔ
۱۸۵۷ ء کی ناکا می اور انگریزوں کے  بر سرِ اقتدار آجانے کے بعد ہندوستانی عوام خصوصا مسلمان شدید احساس ِ کمتری کا شکار ہو گئے تھے ،مسلمانوں کی جاہ سطوت ،طاقت وحکومت کا شیرازہ مکمل طور پر بکھر گیا تھا ،قدیم تہذیب نے کروٹ بد ل کر نئے اقدار کی چادر اوڑ ھ لی تھی اسلا م کی تعلیمات کو نیست ونابود کرنے کی منافقانہ سیاست ہونے لگی ، ایسے سازگار اور پر خطر حالات میں وہ تمام مدارس عربیہ جو انگریزی سامراج میں قائم ہو چکے تھے ملتِ اسلامیہ کے لیے گراں قدر خدمات انجا م دیتے رہے ،اس وقت کے علماءاور طلبہ نے اپنی پوری طاقت اور پورا زور صرف کر کے ایک مضبوط حکومت کی طرح انگریزوں کے مقابلے کے لیے  بر سرِ پیکار ہوئے ، کبھی عیسائیت کی مذموم سازشوں سے  نبرد آزما ہوئے ،کبھی آریا سماج کا تعاقب کرکے شدھی سنگٹھن تحریک کی طاقت کو پاش پاش کردیا ، بلکہ تعلیم کتاب و سنت اور دعوت دین وشریعت نے بارہویں صدی ہجری میں جس سرزمیں دہلی کو اپنا مرکز بنا یا تھا ، سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد انتشار و خلفشار سے دو چار ہو گیا تھا ، مسلم معاشرہ نت نئے مسائل سےنبرد آزما تھا ، کبھی ان کو مرتد بنانے کی کوشش کی گئی اور کبھی جدت اور تعلیم کے نام پر مسلمانوں کو مذہب بیزاری کی راہ پر ڈھکیلنے کی کوشش کی جاتی ۔
            یہ انہیں مدارس اور درس گاہوں سے فارغ التحصیل علماء اور اکابر تھے جن کی بے مثال قربا نیوں نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا ۔ ان کا شجرۂ نسب اصحاب صفہ سے ملتا ہے ، سب سے پہلا مدرسہ  قرطبہ اور غرناطہ میں نہیں ۔۔ قیروان اور قاہرہ میں نہیں ۔۔ دہلی اور بنارس میں نہیں ۔۔ فرنگی محل اور علی گڑھ میں نہیں ۔۔ دیو بنداور سہارن پور میں نہیں ، بلکہ سب سے پہلے مدرسہ کی بنیاد مسجد ِنبوی  میں رکھی گئی ۔
            مدرسہ کیا ہے ؟ مدرسہ سب سے بڑہ کار گاہ ہے ۔ جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے ، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار کیے جاتے ہیں ، مدرسہ عالم ِ اسلام کا پاور ہاؤس ہے جہاں سے اسلامی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے ، مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اور ذہن و دماغ  ڈھلتے ہیں مدرسہ و مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے ، جہاں کافر مان پورے عالم پر نافذہوتا ہے ، اس کا ایک سرا نبوت ِ محمدی سے جڑا ہوا ہے تو دوسرااس زندگی سے ، وہ نبوت ِ محمدی کے چشمۂ حیواں سے پانی لیتاہے اور زندگی کے ان کشت زارو ں کو سیراب کرتا ہے ، اگر وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دے کے کھیت سوکھ جائیں اور انسانیت مرجھانے لگے  نہ نبوت کا دریا بے آب ہونے والا ہےنہ انسانیت کی زندگی کو سکون مل سکتا ہے ، نہ نبوتِ محمدی کے چشمۂ فیض سے بخل و  انکار ہے نہ انسانیت کے کاسۂ گدائی کی طرف سے استغنا ء کا اظہار ، ادھر سے انما انا قاسم واللہ یعطی کی صدائے مکرر ہے تو ادھر ھل من مزید کی فغانِ مسلسل ۔
            اسی مدرسہ کی تربیت کی تاثیر اور اس کے بانی کافیض ۔۔۔کبھی صدیق کی تصدیق ِحق  میں نمایاں ہوا ، اورکبھی فاروق کی تیغِ فرقان میں جلوہ گر ، عثمان کی حیا اور علی کی قضا میں ظاہر ہوا تو کبھی طارق بن زیاد کی  شجاعت ، محمد بن قاسم کی بسالت اور موسی بن نصیر کے عزم وہمت میں ، اور کبھی امام ابو حنیفہ او ر امام شافعی کے ذکاوت میں ابھرا ، کبھی امام احمد بن حنبل کی  صلابت میں آشکارہ ہوا ،کبھی  امام غزالی اورعبد القادر جیلانی کی روحانیت بن کر بیماردلوں کے لیے شفا کا سامان بنا ،کبھی محمد فاتح کی شمشیر کبھی محمود ٖٖغزنوی کی مہم جوئی بنا کبھی حضرت نظام الدین اولیا کی رقت ثابت ہوا ، کبھی ابن ِجوزی کی تاثیر میں نمایاں ہوا کبھی ابنِ تیمیہ کے تبحرِ علمی میں ، کبھی شیر شاہ سوری کے حسن ِ تدبر کی شکل میں سامنے آیا اور کبھی اورنگ زیب عالم گیر کے آہنی عزم اور مجدد الفِ ثانی کے آثار ِ قلم و قدم میں ظاہر ہوا ، کبھی محمد بن عبدالوہابکی تحریک بن کر ابھرا اور کبھی شاہ ولی اللہ کی حکمت بن کر ، کبھی ان کے بعد آنے والے بے شمار مصلحین علماءِ ربانیین کی گراں قدر خدمات بن کر۔
            غرض یہ کہ ہر دور ہر زمانے میں بدلتے ہوئے حالات کے سامنے سینہ سپرہونے میں اور نئے نئے فتنوں اور سازشوں کوجان جان کر ان کا مقابلہ کرنے میں ، بہکے ہوئے قدموں کو راہ پر لانے اور ڈگمگاتے قدموں کو جمانے میں اور عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کی ڈوبتی اور ہچکو لے کھاتی کشتی کو ساحل تک پہنچانے میں جو انقلابی کردار ان علماءمدارس نے پیش کیا تاریخِ عالم ایسی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔
            ذرا ان اولوالعزم علماء کی  تاریخ اٹھاکر دیکھو     جنہوں نے اس رضائے الہی  کےجذبہ سے سرشار ہو کر کیا کچھ برداشت کیا وہ بھو کے اور پیاسے  بھی رہے انھوں نے طعنے اور گا لیاں بھی سنیں انھیں جیل کی کالی کو ٹھریوں میں جانا پڑاانھو ں نے پیٹھ پرکوڑوں کی ضربیں سہی  انھوں نے حکمرا نوں کی ناراضگی اور مخالفت بھی مول لی
تیسری صدی  کے اوائل میں جب فتنہ اعتزال اور تعمق فی الدین نے سر اٹھا یا تھا اور صرف ایک ہی نہیں بلکہ تین عظیم الشان فرمارواوں نے یعنی مامون ، معتصم ،اور واثق باللہ کی شمشیر استبداد وقہر حکومت نے اس فتنہ کا ساتھ دیا حتی کہ علی بن مدینی نے فرمایا کہ فتنہ ارتداد اور منع زکات کے بعد یہ دوسرا فتنہ عظیم تھا جو اسلام کو پیش آیا اس وقت دین خالص کا بقا اورقیام ایک عظیم الشان قربانی کا طلبگار تھا امام احمد بن حنبل کو یہ شرف حاصل ہوا ان کو قید کیا گیا چارچار بوجھل بیڑیاں پاوں میں ڈالی گئیںاسی عالم میں بغداد سے  طرطوس  لے چلے ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا کہ بلاکسی کی مدد کے خود ہی اونٹ پر سوار ہوں اور خود ہی اونٹ سے اتریںبیڑیوں کی وجہ سے ہل نہ سکتے تھےاٹھتے پھر گرتے تھے وین رمضانالمبارک کے عشرہ اخیر میںجس کی اطاعت اللہ کو تمام دنوں کی اطاعت  سے زیادہ محبوب ہےبھو کے پیاسے جلتی دھوپ میں بٹھائے گئے اور اس پیٹھ  پر جو علوم و معارف نبوت کی حامل تھی لگاتار کوڑے اس طرح مارے گئے کہ ہر جلاد دوضربیں پوری طاقت سے لگا کر پیچھے ہٹ جاتا  اور تازہ جلاد ان کی جگہ لے لیتے  حافظ ابن جوزی لکھتے ہیں عین حالت صوم میںکہ صرف پانی  کے گھونٹ پر رو زہ رکھ لیا تھا تازہ دم جلادوں نے پوری طاقت سے کو ڑے مارےیہاں تک کہ تمام پیٹھ زحموںسے چور ہوگئی اور  تمام جسم خون سے رنگین ہو گیا
پھر ذرا متحدہ ہندوستان کی تاریخ  پر نظر ڈالیں یہا ں بھی ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام کا چراغ ٹمٹماتامحسوس ہورہاتھا دین اکبری ایجاد ہو رہا تھاخنزیااور کتے  کی پاکی کا حکم دیا گیا سود شراب اور جوا سمجھا گیا کلمہ توحید کی جگہ  لا الہ  الا اللہ اکبر خلیفہاللہ پڑھاجاتاتھا باد شاہ کو سجدہ کیا جا تا  اس پر آشوب دور میں جو قلندر میدا ن میں اترا اور جس نے  اسلام کی تجدید کا فریضہ انجا م دیا آپ یقین کریں وہ کسی انگریزی یونیور سیٹی کا فرو فیسر نہ تھا وہ کوئی خدا بیزار سائنسداں نہ تھا وہ کوئی مادہ پرست انجینئر اور اباحت پسند مسلم اسکا لر  نہ تھا بلکہ وہ مدرسہ کی خستہ چٹائیوں پر بیٹھ کر کتاب و سنت  کا علم حاصل کر نے والا ایک خدا شناس  مولوی تھا 
یہ مختصر  سا تعارف ہے ورنہ تم مالٹا کے در و دیوار سے پو چھو شیخ الہند کون تھا  کراچی اور انڈیا کی جیلوں سے پو چھو سید حسین احمد مدنی کون تھا جزیرہ انڈوما ن کے کالے پانی سے پو چھو جعفرتھانیسری کون تھا بالاکوٹ کے سنگریزوں سے پوچھو سید احمد شہید اور اسماعیل شہید کون تھا میانوالی اورسکھر کی جیلوں پو چھو سید عطاءاللہ بخاری کون تھا یہ سب کے سب انہیں مدارس کے پڑھے ہوئے تھے ، کیا یہ  ڈوب مرنے کی بات نہیں کہ جن مدارس کی قربانیوں سے ہمیں دین ملا، قرآن ملا ، سنت ملی اور مسجدیں آباد ہوئیں آج انہیں مدارس کو ہم تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں
مدارس  قیام خلافت کا نام ہے ،مدارس انبیاء کی وراثت کا نام ہے،مدارس صحابہ کی نیابت کا نام ہے ، مدارس تحفظ دین کی ربانی تدبیر کا نام ہے مدارس صداقت و حقانیت کی ترویج کا نام ہے مدارس ناموس رسالت اور عدالت صحابہ کی صیا نت کا نام ہے مدارس سعید بن جبیر کی عزیمت اور ابو حنیفہ کی فقاہت کا نام ہے ، مدارس  امام شافعی کی ذہانت  وفطانت کا امام مالک کی حق گوئی اور بے با کی کا اور امام احمد کی استقامت کا نام ہے مدارس  مجدد الف ثانی جہد مسلسل اور شاہ ولی اللہ کی فہم و بصیرت کانام ہے مدارس قاسم نانوتوی کے علم و دانش شیخ الہند کی جہد و کا وش الیاس دہلوی  کی فکرو کوشش ،یوسف  کادھلوی کے دردوسوزش عبیداللہ سندھی کی تڑپ حسین احمد مدنی کی غیرت و شجاعت اور ابو الکلام آزاد کی پر جوش خطابت کا نام ہے 

اسلا م کی کیا خوبیا ں ہے کہ میں اس کو قبول کروں!؟


  اسلا م کی کیا خوبیا ں ہے کہ میں اس کو قبول کروں!
از:شیخ ادریس ندوی ؔ
اگر کو ئی شخص مجھ سے پوچھے کہ آخر کیا خوبیاں ہیں جس  کی وجہ سے میں اسلام قبول کروں ؟یاپھر آپ کی کیا خوبیاں نظر آئی جس کی وجہ سے آپ نے اسلام کو اپنے لئے مذہب کے طور پر دیگر مذاہب کو چھوڑ کرماناہے ؟
 جب میں نے اپنے نفس سے یہی سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ اسی دلیل سے جس کی بناءپر کسی اور چیز کو مانتا ہوں یعنی اس لئے کہ وہ سچا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میرے نزدیک مذہب کا بنیادی مسئلہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے۔ جو مذہب انسان اور خدا تعالیٰ میں سچا تعلق پیدا کر سکتا ہے ۔اور جو انسان  کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتاہے چاہے وہ دنیا کا مسئلہ ہو یا آخرت کا ۔وہ ہی مذہب سچا ہے اور کسی چیز کا سچا ہونا اس پر ایمان لانے کی کافی دلیل ہے۔ کیونکہ جو سچائی کو نہیں مانتا وہ جھوٹ کو ماننے پر مجبور ہے اور اپنا اور بنی نوع انسان کا دشمن ہے۔ اسلام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک زندہ خدا ہے ۔ وہ موجودہ زمانہ میں بھی اسی طرح اپنے بندوں کیلئے ظاہر ہوتا ہے جس طرح سابق زمانہ میں۔ اس دعویٰ کو دو طرح ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ یا تو اس طرح کہ خود متلاشی کیلئے خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور یا اس طرح کہ جس پر خدا تعالیٰ کا وجود ظاہر ہو اس کے حالات کو جانچ کر ہم اس کے دعویٰ کی سچائی کو معلوم کر لیں۔ چونکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان صاحب تجربہ لوگوں میں سے ہوں جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو متعدد بار اور خارق عادت طور پر ظاہر کیا اس لئے میرے لئے اس سے بڑھ کر کہ میں نے اسلام کی سچائی کو خود تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ان لوگوں کیلئے جنہیں ابھی یہ تجربہ حاصل نہیں ہوا میں وہ دلائل بیان کرتا ہوں جو ذاتی تجربہ کے علاوہ میرے اسلام پر یقین لانے کے موجب ہوئے ہیں۔
اوّل:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے۔ مجھ سے زبردستی نہیں منواتا بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا وجود، اس کی صفات، فرشتے، دعا، اس کا اثر، قضاءو قدر اور اس کا دائرہ، عبادت اور اس کی ضرورت، شریعت اور اس کا فائدہ، الہام اور اس کی اہمیت، بعث مابعدالموت، جنت، دوزخ، ان میں سے کوئی امر بھی ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے تفصیلی تعلیم نہیں دی اور جسے عقل انسانی کی تسلی کے لئے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت نہیں کیا۔ پس اس نے مجھے ایک مذہب ہی نہیں دیا بلکہ ایک یقینی علم بخشا ہے۔ جس سے کہ میری عقل کو تسکین حاصل ہوتی ہے اور وہ مذہب کی ضرورت کو مان لیتی ہے۔
دوم:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام صرف قصوں پر اپنے دعوؤں کی بنیاد نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر سچائی کسی نہ کسی رنگ میں اسی دنیا میں پرکھی جا سکتی ہے اور اس طرح وہ میرے دل کو اطمینان بخشتا ہے۔
سوم:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام مجھے یہ سبق دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے کام میں اختلاف نہیں ہوتا اور وہ مجھے سائنس اور مذہب کے جھگڑوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں سکھاتا کہ میں قوانینِ قدرت کو نظر انداز کر دوں اور ان کے خلاف باتوں پر یقین رکھوں بلکہ وہ مجھے قوانین قدرت پر غور کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ کلام نازل کرنے والا بھی خدا ہے اور دنیا کو پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اس لئے اس کے فعل اور اس کے قول میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ پس چاہئے کہ تو اس کے کلام کو سمجھنے کیلئے اس کے فعل کو دیکھ اور اس کے فعل کو سمجھنے کیلئے اس کے قول کو دیکھ اور اس طرح اسلام میری قوتِ فکریہ کو تسکین بخشتا ہے۔
چہارم:
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے جذبات کو کچلتا نہیں بلکہ ان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ وہ نہ تو میرے جذبات کو مار کر میری انسانیت کو جمادیت سے تبدیل کر دیتا ہے اور نہ جذبات اور خواہشات کو بے قید چھوڑ کر مجھے حیوان کے مرتبہ پر گرا دیتا ہے بلکہ جس طرح ایک ماہر انجنیئر آزاد پانیوں کو قید کر کے نہروں میں تبدیل کر دیتا ہے اور بنجر علاقوں کو سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے اسی طرح اسلام بھی میرے جذبات اور میری خواہشات کو مناسب قیود کے ساتھ اعلیٰ اخلاق میں تبدیل کر دیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ نے تجھے محبت کرنے والا دل تو دیا ہے مگر ایک رفیق زندگی کے اختیار کرنے سے منع کیا ہے یا کھانے کے لئے زبان میں لذت اور دل میں خواہش تو پیدا کی ہے مگر عمدہ کھانوں کو تجھ پر حرام کر دیا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ تو محبت کر مگر پاک محبت اور جائز محبت، جو تیری نسل کے ذریعہ سے تیرے پاک ارادوں کو ہمیشہ کیلئے دنیا میں محفوظ کر دے اور تو بے شک اچھے کھانے کھا۔ مگر حد کے اندر رہ کر تا ایسا نہ ہو تُو تو کھائے مگر تیرا ہمسایہ بھوکا رہے۔ غرض وہ تمام طبعی تقاضوں کو مناسب قیود کے ساتھ طبعی تقاضوں کی حد سے نکال کر اعلیٰ اخلاق میں داخل کر دیتا ہے اور میری انسانیت کی تسکین کا موجب ہوتا ہے۔
پنجم:
پھر میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ سب دنیا ہی سے انصاف بلکہ محبت کا معاملہ کیا ہے۔ اس نے مجھے اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہی کا سبق نہیں دیا بلکہ اس نے مجھے دنیا کی ہر چیز سے انصاف کی تلقین کی ہے اور اس کے لئے میری مناسب رہنمائی کی ہے۔ اس نے اگر ایک طرف ماں باپ کے حقوق بتائے ہیں اور اولاد کو ان سے نیک سلوک کرنے بلکہ انہیں اپنے ورثہ میں حصہ دار قرار دینے کی تعلیم دی ہے تو دوسری طرف انہیں بھی اولاد سے نیک سلوک کرنے، انہیں تعلیم دلانے، اعلیٰ تربیت کرنے، اچھے اخلاق سکھانے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور انہیں والدین کا ایک خاص حد تک وارث قرار دیا ہے۔ اسی طرح اس نے میاں بیوی کے درمیان بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے احکام دیئے ہیں اور انہیں آپس میں نیک سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ وہ کیا ہی زریں فقرہ ہے جو اس بارے میں بانی اسلام نے فرمایا ہے کہ وہ شخص کس طرح انسانی فطرت کے حسن کو بھول جاتا ہے جو دن کو اپنی بیوی کو مارتا اور رات کو اس سے پیار کرتا ہے۔ اور فرمایا تم میں سے بہتر اخلاق والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا عورت شیشہ کی طرح نازک مزاج ہوتی ہے۔ تم جس طرح نازک شیشہ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہو اسی طرح عورتوں سے معاملہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا کرو۔
پھر اس نے لڑکیوں کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انہیں تعلیم دلانے پر خاص زور دیا ہے اور فرمایا ہے جو اپنی لڑکی کو اچھی تعلیم دیتا ہے اور اس کی اچھی تربیت کرتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ اور وہ لڑکیوں کو بھی ماں باپ کی جائیداد کا وارث قرار دیتا ہے۔
پھر اس نے حکام سے بھی انصاف کیا ہے اور رعایا سے بھی۔ وہ حاکموں سے کہتا ہے کہ حکومت تمہاری جائیداد نہیں، بلکہ ایک امانت ہے۔ پس تم ایک شریف آدمی کی طرح اس امانت کو پوری طرح ادا کرنے کا خیال رکھو اور رعایا کے مشورہ سے کام کیا کرو اور رعایا سے کہتا ہے کہ حکومت خدا تعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر تم کو دی ہے اپنے حاکم انہیں چنو، جو حکومت کرنے کے اہل ہوں اور پھر ان لوگوں کا انتخاب کر کے ان سے پورا تعاون کرو اور بغاوت نہ کرو۔ کیونکہ اس طرح تم اپنا گھر بنا کر اپنے ہی ہاتھوں اس کو برباد کرتے ہو۔ اور اس نے مالک اور مزدور کے حقوق کا بھی انصاف سے فیصلہ کیا ہے۔ وہ مالک سے کہتا ہے کہ جب تو کسی کو مزدوری پر لگائے تو اس کا حق پورا دے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کر اور جو تیرا دستِ نگر ہو اسے ذلیل مت سمجھ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے جس کی نگرانی اللہ تعالیٰ نے تیرے ذمہ لگائی ہے اور اسے تیری تقویت کا موجب بنایا ہے۔ پس تو اپنی طاقت کو نادانی سے آپ ہی نہ توڑ اور مزدور سے کہا ہے کہ جب تو کسی کا کام اجرت پر کرتا ہے تو اس کا حق دیانتداری سے ادا کر اور سستی اور غفلت سے کام نہ لے۔ اور وہ جسمانی صحت اور طاقت کے مالکوں سے کہتا ہے کہ کمزوروں پر ظلم نہ کرو اور جسمانی نقص والوں پر ہنسو نہیں بلکہ شرافت یہ ہے کہ تیرے ہمسایہ کی کمزوری تیرے رحم کو ابھارے نہ کہ تجھے اس پر ہنسائے۔
اور وہ امیروں سے کہتا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو اور اپنے مالوں میں سے چالیسواں حصہ ہر سال حکومت کو دو، تا وہ اسے غرباءکی ترقی کیلئے خرچ کرے اور جب کوئی غریب تکلیف میں ہو تو اسے سود پر روپیہ دے کر اس کی مشکلات کو بڑھا نہیں بلکہ اپنے اموال سے اس کی مدد کرو کیونکہ اس نے تمہیں دولت اس لئے نہیں دی کہ تم عیاشی کی زندگی بسر کرو بلکہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی ترقی میں حصہ لے کر اپنے لئے ثواب دارین کما مگر وہ غریب سے بھی کہتا ہے کہ اپنے سے امیر کے مال پر لالچ اور حرص سے نگاہ نہ ڈال کہ یہ تیرے دل کو سیاہ کردیتا ہے اور صحیح قوتوں کے حصول سے محروم کر دیتا ہے۔ بلکہ تم خدا تعالیٰ کی مدد سے اپنے اندر وہ قوتیں پیدا کرو جن سے تم کو بھی ہر قسم کی ترقی حاصل ہو اور حکومت کو ہدایت دیتا ہے کہ غرباءکی اس جدوجہد میں ان کی مدد کرے اور ایسا نہ ہونے دے کہ مال اور طاقت صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو جائے۔
اور وہ ان لوگوں سے جن کے باپ دادوں نے کوئی بڑا کام کر کے عزت حاصل کر لی تھی جس سے ان کی اولاد بھی لوگوں میں معزز ہو گئی کہتا ہے کہ تمہارے باپ دادوں کو اچھے کاموں سے عزت ملی تھی تم بھی اچھے کاموں سے اس عزت کو قائم رکھو اور دوسری قوموں کو ذلیل اور ادنیٰ نہ سمجھو کہ خدا نے سب انسانوں کو برابر بنایا ہے اور یاد رکھو کہ جس خدا نے تمہیں عزت دی ہے وہ اس دوسری قوم کو بھی عزت دے سکتا ہے پس اگر تم نے ان پر ظلم کیا تو کل کو وہ قوم تم پر ظلم کرے گی، سو دوسروں پر بڑائی جتا کر فخر نہ کرو بلکہ دوسروں کو بڑا بنا کر فخر کرو کیونکہ بڑا وہی ہے جو اپنے گرے ہوئے بھائی کو اٹھاتا ہے۔
اور وہ کہتا ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک سے اور کوئی قوم دوسری قوم سے دشمنی نہ کرے اور ایک دوسرے کا حق نہ مارے بلکہ سب مل کر دنیا کی ترقی کیلئے کوشش کریں اور ایسا نہ ہو کہ بعض قومیں اور ملک اور افراد آپس میں مل کر بعض دوسری قوموں اور ملکوں اور افراد کے خلاف منصوبہ کریں بلکہ یوں ہو کہ قومیں اور ملک اور افراد آپس میں یہ معاہدے کریں کہ وہ ایک دوسرے کو ظلم سے روکیں گے اور دوسرے ملکوں اور قوموں اور افراد کو ابھاریں گے۔
غرض میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کے پردہ پر میں اور میرے پیارے کوئی بھی ہوں کیا ہوں اور کچھ بھی ہوں اسلام ہمارے لئے امن اور آرام کے سامان پیدا کرتا ہے۔ میں اپنے آپ کو جس پوزیشن میں بھی رکھ کر دیکھتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی وجہ سے میں اس پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ترقی اور کامیابی کی راہوں سے محروم نہیں ہو جاتا پس چونکہ میرا نفس کہتا ہے کہ اسلام میرے لئے اور میرے عزیزوں کے لئے اور میرے ہمسایوں کیلئے اور اس اجنبی کے لئے جسے میں جانتا تک نہیں اور عورتوں کے لئے اور مردوں کیلئے اور بزرگوں کیلئے اور خوردوں کیلئے اور غریبوں کیلئے اور امیروں کیلئے اور بڑی قوموں کیلئے اور ادنیٰ قوموں کیلئے اور ان کے لئے بھی جو اتحاد امم چاہتے ہیں اور حب الوطنی میں سرشاروں کیلئے بھی یکساں مفید اور کارآمد ہے اور میرے لئے اور میرے خدا کے درمیان یقینی رابطہ اور اتحاد پیدا کرتا ہے۔ پس میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ایسی چیز کو چھوڑ کر اور کسی چیز کو میں مان بھی کیونکر سکتا ہوں۔اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں رہ کر دنیوی زندگی کا مزہ لے اور سکون چین اور اطمنان سے زندگی گزارے تو ایک بار اسلام کا مطالعہ کرکے دیکھے اور ایک بار اس پر چل کر دیکھے میں یقین سے کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ آپ کا دنیا میں سب سے بڑا اور سب سے کامیا ب ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دين فطرت كے محاسن

دین فطر ت کے محاسن
اسلام دین فطرت ہے ،اسلام سارے انس وجن کا دین ہے ۔اسلام انسانیت کی دل کی پکار ہے سلا ساری انسانیت  کے درد کا مدواہے اسلام انسانیت کی بے چینی کا سکون اور پیاس کے میٹھا شربت ہے ،اسلا م انسانیت کو دنیا میں چین وسکون کی زندگی بخشتا ہے اور فنا ہو نے کے بعد ااس کے مالک کے سامنے بھی سے عزت عطا   کرے گا ۔ویسے تو انسانوں کے خالق ومالک نے جب پہلے انسان کو پیدا کیاتھا تب ہی سے انسانیت کے رہبری ورہنمائی کا اسباب وذرائع اپنے مخصوص بندوں اور چند کتا بوں کی شکل میں عطا کیاتھا،اور جیسے جیسے انسانیت  کی آبادی اور اس کی نسل بڑھتی گئی اس کے شفیق پروردگار نے ویسے ویسے اس کا انتظا م کرتا گیا ۔اور اسی سلسلہ کے ایک آخری کڑ ی جو اس سلسلہ کے تکمیل  کے لئے انسانتی کے پرووردگار نے بھیجا  وہ  ساری انسانیت اور اسلام کے نبی محمد ﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں ،اورچونکہ یہ سب کا دین ہے اس لئے  اسلام بلا تفریق سب کی ہدایت اور بھلائی کے لئے آیا ہے ،ہر کوئی اس کی کتاب کو پڑھ سکتاہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر چاہے وہ فقیر ہو یا بادشاہ ہر کوئی بحیثیتانسانیت  اس سے بلا امتیا ز استفادہ کر سکتاہے  اسلام اللہ کا آخر ی دین ہے جس پر ایمان لا کر اور جس کی تعلیمات پر عمل کرکے انسان زندگی کو جنت بنالیتاہے اور اس کو جینے کا مزہ ٓتاہے اوروہ محسوس کرتاہے کہ گویا وہ ایک پارک میں  ہے اور سب سے بڑگ کر وہ اسلام پر عمل کرکے  اس  اللہ کی رحمت کا مستحق ہو تا ہے ،اور جب اللہ کی رحمت شامل حال ہوئی تو انسان  دنیا میں بھی مزے کرتاہے آخرت  کے تو پوچھنے ہی کیا  ،اسلام اور اس کی تعلیما ت کے بارے میں جتنا بھی لکھاجائے وہ کم ہے لیکن یہاں پر اسلام کی چند اہم خوبیوں کا ذکر مقصود ہے ۔
اسلام کی خوبیوں میں سے ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عقل وفکر کو مخاطب کرتاہے ،اور معیاری عقل وسوچ سے مکمل طورپرہم آہنگ ہو تاہے ،بلکہ دین انسانی عقل کو مزید جلا پہنچاتاہے ،اور اس کو صیقل کرتاہے ،اقور اس کی صلاحیتوں کو منظم کرکے اسنانیت کی خدمت پر آمادہ کرتاہے ،وحی کی روشنی میں عقل با بصیرت ہو جا تی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کے اعضاع وجوارح بلکہ اس کا سارا وجود دنیا کی ہر چیزسے تعلق ختم کرکے صرف اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جا تاہے ۔ عقل کی دنیا میں یہ انقلاب دراصل وحی کے فیضان کا نتیجہ ہے ماس لئے اب اس کی سوچ کا دائرہ محدود دنیا سے بہت آگے آخرت میں عذاب جہنم سے آزادی اور جنت کا حصول ہوتاہے ۔
اسلام کی بڑی خوبیو ں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے پا نچ اہم عناصر کا محافظ و نگراں ہے :
اگر غور سے دیکھا جائے تو انہی پانچ چیزوں کی حمایت وصیانت کا نا م تہذیب وتمدن ہے ،اور جن اقوام وملل اور ان کی حکومتوں ،اور ان کے دانشوروں نے ان پانچ میدانوں میں کامیابی حاصل کی تاریخ میں ان کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا ۔
اسلا م کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو اور اپنے منکرین کو سب کو بحیثیت انسان کے لا محدود حقوق ومراعات دیتاہے ،بلکہ وہ حیوانات کے حقوق کا بھی پا س دارہے،وہ چرند و پرند اور موسم کا بھی محافظ ہے ۔
اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے معاشرے کے ہر طبقے کے لئے واضح تعلیمات دیں ،مرد کے لئے الگ ،عورتوں کے لئے الگ ،بچوں کے لئے الگ اور بوڑھوں کے لئے الگ ۔آقا اور غلا م کے تعلقا ت ایسےہونے چائیے ،میان بیوی کیسے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو ن ،اور کیسے زندگی گزاریں ،اور اگر زندگی اجیرن ہو جائے تو اپنی اپنی راہ لینے کا اچھا سا طریقہ کون سا ہے ؟صلح کے ایام ہوں یا جنگ کے ،غیر مسلموں سے مسلمانوں کے تعلقا ت کس طرح ہونے چاہئیں ،سچ یہ ہے کہ اسلام نے مردوں اور عورتوں اور بچوں کے لئے مسقل آداب بتائے ۔
انسان  کی فطری ضرورت اور اس کی جبلت میں سے ہے کہ مرد اور عورت عہد بلوگت میں دونوں ایک دوسرے سے قریب ہوں ،انس ومحبت کے ماحول میں زندگی گزاریں اور باہم معاشرتی زندگی سے خوش وخرم ہوں ،لیکن اس فطری جرورت کی تکمیل کو کھلم کھلا نہیں چھوڑدیا گیا کیوں کہ اس سے دنیا میںفساد پیدا ہو گا ،اور سکون وسکینت کی تلاش میں سر گرداں معاشرہ فتنہ وفساد کا کا خانہ بن جا ئے فا ،اس کے لئے اسلام نے مستقل ایک نظام ِنکاح ومصاہرت بنایا ،جس پر عمل کرتے ہوئے مرد اور عورت ایک رشتے میں منسلک ہو جا تے ہیں اور اس طرح دو دل آپس میں مل جا تے ہیں ،اللہ نے اس نطام کی برکت سے ان جوڑوں کے دلوں میں محبت کو ٹ کوٹ کر بھردی ، جس کے نتیجہ میں ایک خاندان وجود میں آتاہے جو باہم شیر وچشکر ہو جاتاہے اور آئندہ چل کریہی مطمئن خاندان معاشرے کے امن وسکون کا عنوان بنتاہے ۔
            اگر ہر مرد اور عورت اس بات  میں آزا د ہو تی کہ جو جس کے ساتھ بلا کسی ضابطے اور قید کےچاہے رہے ،اور عیش کرے تو آج دنیامیں شاید کوئی زندہ ہی نہیں رہتا شاید دنیا کھنڈر کا نمونہ ہو تی ۔
چونکہ نسل انسا نی کی بقااور معاشرے کے امن وسکون کا راستہ مرد اور عورت کی پر سکون زندگی سے ہو کر گزرتاہے ۔اس لئے حمل وولادت کے مرحلے سے گزر کر جب عورت ماں کا مقدس روپ اختیا ر کرتی ہے اور مرد کو باپ بننے کا اعزاز ملاہے اور نو مولو د دونوں ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کا تارہ اور ان کی آنکھ کا ٹھنڈک ہو تاہے ۔اس مرحلہ میں میاں بیوی کا رشتہ مزید بڑھ جا تاہے اور اس کی تربیت کے نکتے پر وہ ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہو جا تے ہیں ۔ بچہ کی ولادت کے بعد اتفاق واتحاد اور انس وسکون کا یک قبلہ میسر ہو جا تا ہے ۔جس نقطہ اتحا د پر دونوں کی نگاہیں مرکوز ہو جاتی ہیں ، اور دونوں اس کی پرورش وپرداخت پر بہت سنجیدہ ہو جا تے ہیں ،پتہ چلا کہ اس رشتہ مصاہرت سے صرف ایک جوڑ ے کا ملا پ ہی نہیں ہو تا بلکہ ایک خاندان وجود میں آجا تاہے اور مرد اور عورت کے خاندانوں کے درمیان یہ نو مولو د مزید مضبوط رابطہ کا عنوان بن جا تاہے ۔اسلام تو بھانجے کو بھی ماموں کے خاندا ن کا ایک فرد قراردیتاہے ۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : ْابن اخت القوم منہ ٌاس طرح سے معاشرہ میں امن وچین کا رواج ہو تا ہے ،لوگوں کو خوشیاں نصیب ہو تی ہیں ،اور نسل انسانی کا تسلسل بر  قرا رہتاہے ۔اس فطری جذبہ تسکین کے شرعی نظام سے جس کی اساس پر اسنانی معاشرہ کی عمارت قائم ہے ۔اگر مردوعورت کے ملاپ کی کوئی اور غیر شرعی صورت ہوتیتو اس کا انجام معاشرے میں بے  چینی ،قتل وخونریزی اور بےسہارا اور نا جا ئز اولا د کی شکل میں سامنے آتا جس سے معاشرے میں بگاڑ کے علا وہ کچھ نہ حاصل ہو تا ،دنیا کے معاشرتی نظام میں جو خلل پایاجاتاہے اس کا حل صرف اسلام کے نظام ِنکاح ومعاشرت میں ہے ۔قراآن وحدیث سے واقفیت رکھنے والوں پر اسلام کے امتیازات وخصائص مخفی نہیں ہے ،لیکن ایک عام  آدمی کو ضرورت ہو تی ہے کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو اختصار کےسا تھ جان لے ۔اہل علم نے کتاب وسنت کی روشنی میں اسلام کے مھاسن اور اسلامی تعلیمات کی خو بیوں کو اجاگر کیاہے ۔                                                                                                                                                                                                    شيخ ادريس ندوي

کیا انسان کو مذہب کی ضرورت ہے

  • مذہب
    ہم اگر  اپنے ارد گرددیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ ہم خود اپنے تمام افعال پر قادر نہیں ہیں ۔بلکہ چند ضابطے  ایسے ہیں جن کے ماننے پر ہم مجبور ہیں ،ایسے ضابطے  ہی قانون کہلاتے ہیں ۔دنیا میں ہم مختلف قسم کے قانون دیکھتے ہیں  ،مگر وہ تمام دو قسم کے ہو تے ہیں   :اول وہ قانون  جو قدرتی ہیں ،دوم وہ جو وضعی ہیں۔قسم اول  میں ایسے قانون  ہیں جس میں انسان  کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا ۔مثلا آگ ہر چیز کو جلاتی ہے ۔پانی ہمیشہ  پستی نیچے کی جانب بہتاہے ،درخت اسی وقت تک سرسبزہ  رہتےہیں جب تک ان کو ان کی غذایعنی کھا د پانی ہوا دھوپ وغیرہ  ملتی  رہے ۔ستارے اور سیارے ہمیشہ اپنے مقررہ دور پورے کرتے ہیں ،یہ ایسے قانون  ہیں جس میں انسان تبد یلی نہیں کرسکتا ،دسرے  قانون وضعی :یہ ایسے قانون  ہیں جو کہ خود انسان کے بنا ئے ہو ئے ہیں ،اس وجہ سے اس میں ہر وقت  تبدیلی ممکن ہے اور ہو تی بھی رہتی ہیں ۔مگر سوال یہ ہو تا ہے کہ قانون  کی ضروت ہی کیاتھی ؟اگر سر سری طور پر دیکھا  جائے تو قانون ترقی اور آزادی میں رکاوٹ معلو م ہوتے ہیں ،مگر غور سے دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ نظام عالم کا دورومدار انہیں قانون   پر ہے ۔فرض کروکہ آج نظام ششمسی کے سیارے آفتاب کی کشش سے آزاد ہو جائیں تو نتیجہ کیا ہو گاکہ اجرام فلکی کا کہیں پتہ بھی نہ ہوگا ۔یایوں سمجھوکہ ایک بڑے ملک میں کوئی زبردست گورنمنٹ نہ ہو ،ہر شخص آزادہو ،کسی کے افعال کا کسی کو تعرض کا حق نہ ہو تو یقینا اس ملک کی حا لت وحشی سے وحشی ملک سے بھی بد تر ہو جائے گی،وہاں ہر کوئی اپنی من مانی زندگی بسر کرےگا ،اور پھر وہاں خون ریزی قتل وغارت گری ،اور ہر طرح کا شروفساد عام ہوجا ئے گا ،اور پھر وہاں نام تو انسانوں کے ہوں گے لیکن حقیقتا وہاں جا نوروں کا بسیرا ہو گا ،بہر حال صاف ظاہر ہے کہ امن وامان ،حفاظت مال ،کسب معاش کے لئے یہ لازمی ہے کہ سو سائٹی کا ہر فرد واحد چند قانون  کی پابندی کو اپنا  فرض سمجھے ۔کیوں اس میں اس کی جان ومال ، بہن بیوی،اور ماں بیٹی کی حفاطت ہے ،اور مذہب بھی کسی پابندی وتشدد،اور جکڑ بندی کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ مذہب بھی دراصل نام ہے چند قانون  کا جن پر عمل کرنے سے گویا اپناہی فائدہ ہے،اسی لئے پر عمل کرنا ہر ایک کے لئےضروری ہے ،اور اگر ہم اس پر عمل نہ کریں تو خود ہم کو نقصان پہونچے گا ۔اور مذہب ہم کوتو راستبازی کی تعلیم دیتاہے ۔ماچھے اخلا ق سے پیش آنا ،غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرنا ،کمزوروں کا سہارابننا غمزدوں کے درد کا درماں بننا ،محبت کےساتھ آپس میں شیر وشکر بن کر رہنا ،اور ہرایک کا بھلا چاہنا،ان سب باتوں کی ہی تو مذہب تعلیم دیتاہے ،تو اس میں پریشانی کیا ہے ۔؟
    اب دو ایک مذہب کا تاریخی مطالعہ کرکے دیکھو ان کی وجہ سے لوگوں کیا فائدے ہوئے۔
    پانچ سو قبل مسیح ہند  کے میدانوں میں ایک اایسی قوم بسی ہو ئی ملتی ہے جو تہذیب وتمدن کے نام سے ناآشنا ہے ۔وہ بھوت پلید کے پر ستش کو  واجب قرار دیتی ہے،اخلا قی اعتبار سے بھی اس کی بہت پست حالت ہے ،اس میں دوسروں کے مقابلہ میں برتری کا خیال مطلق نہیں پا یا جاتاہے ۔دفعتہ ایک مصلح پیداہوتا ہے یہ اپنے عیش وآسائش کو ترک کردیتاہے بیو ی بچوں خو خیر آباد کہہ دیتاہے ،سلطنت پر لا ت مارتاہے ،سا ت برس تک جو گی بن کر تلاش نجات میں گھومتاہے ،اور گوتم بدھ کے نام سے ایک سیدھے سادھے مذہب تعلیم  کرتاہے اور ایک وقت آتاہے کہ اس مذہبی تعلیم کی وجہ سے وہ قو م جو غیر مہذب تھی مہذب بن جا تی ہے ،اوراولا تواس کو معمولی حیثیت کے لوگ قبول کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ بڑے بڑے مہا راجہ بھی  یہی مذہب  اختیار کرلیتے ہیں ۔او رآج بھی تقریباڈھائی ہزار برس کے بعد بدھ مت کے ماننے والے دنیا میں ایک بڑی تعداد میں موجودہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ بدھ  مت نے لو گوں کو رسم ورواج ،طریق معاشرت میں ایک بڑی تبد یلی پید اکردی تھی اور اس کے متبعین  کا اخلاقی معیا ر بہت بلند کردیا تھا۔
    (ابھی اس کا پھر کیا حال ہے ہم اس وقت کی بات نہیں کررہےہیں )
    اس سے بھی قریب تر زمانہ کی مثا ل لو ۔توظہور اسلام سے پہلے عرب کی حالت دیکھو ۔ان لوگوں میں دنیا کے تمام عیوب موجو د تھے ،دختر کشی ،شراب بخور ی ،اور بہت سی بیماریاں تھی جن کو چھوڑنا ان کے لئے بہت مشکل تھا ،اسی  عالم میں ایک مہتاب طلوع ہوتاہے ۔تعلیم وتلقین کا معجزہ نما اثر دیکھو ۔جہالت کا بادل دھوا ں بن کر اڑجاتاہے ،مذہب ہی کی برکت تھی کے وحشی عرب ایک طرف ایرانیوں کی عظیم الشان سلطنت کو فتح کرلیتےہیں ،اور دوسری طرف یورپ کو ایک مدت تک تہذیب وتمدن کا سبق دیتے ہیں، انہوں  نے صرف ممالک ہی کو نہیں فتح کیا بلکہ دلوں کو بھی فتح کیا اور علو م وفنون کو ترقی دی ۔اور عربوں کی ترقی کی خاص وجہ یہ تھی کہ اسلام  کے بعد ان  کی قوتوں کا ستعمال ٹھیک موقعوں پر کیاجانے لگا ،بہادری ان میں پہلے سے تھی لیکن اب اس کا استعمال غیر ممالک میں کئے جانے والے ظلم کے خلاف استعمال  کیا جانے لگا ،دماغی قوت ان میں پہلے سے ہی موجود تھی لیکن اس کا استعمال اب علوم وفنون میں استعمال ہونے لگا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض دنیاکے کسی بھی مذہب کو لو اور اسے تاریخی روشنی میں دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ہر مذہب نے اپنی اپنی حیثیت سے انسانی تہذیب وتمدن کو ترقی دی ہے اور اپنی تعلیم کا ایک ایسا نظام اخلاق چھوڑا ہے جس پر اس کے ماننے والے عمل کرتے رہے ہیں ۔ی(یہ الگ بات  ہے کہ اس کے ماننے والوں نے بعد میں  اس میں بہت سی خرابیوں کو داخل کردیا ،کچھ نے تو کم فہمی یا لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کیا ،او رکچھ نے اپنے پیٹ پوجا کے لئے کیا )اور جس طرح قانون وضعی میں یہ بات پائی جا تی ہے کہ د وممالک کے قوانیں میں  ایک دوسرے سے مشاہبت ہو تی ہے اسی طرح مذہب عالم کے احکاما ت  میں بھی بہت کچھ ایک دوسرے سے مشابہ ہو تے ہیں مگر یہ بات ہر چھوٹے حکم پر صادرق  نہیں آسکتی ۔لیکن مجموعی طور پر مذیب کی ترقی میں جتنا کام مذہب نےکیاہے اتناکسی نے نہیں کیاہے (اسلامیات خدا بخش پبلک لائبریری پٹنہ )
    دنیا کے تمام مذاہب کا پیغام
    اب ہم اور ایک دوسرے اندازسے سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں کیا انسان کوواقعی کسی  مذہب کی ضرورت ہے ؟
    جب سے دنیا بنی ہے یا کم سے کم جب سے اس دھرتی پر انسانوں  کا رہنا شروع ہواہے ،تب سے ہر آدمی کا دل دو  طرف کھینچتاہے :کبھی خود غرضیاور برائی کی طرف توکبھی دوسروں کی بھلائی کی طرف ،کبھی سوارتھ کی طرف تو کبھی پروپکا ر کی طرف ۔برائی اور بھلائی ،بدی اور نیکی ،پاپ اور پن ،گناہ اور ثواب ان دونوں راستوں کے ہی الگ الگ نام ہیں ۔کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کے دل پر یہ دونوں کبھی کبھی اپنا اثر نہ ڈالتے ہو ں ۔یہ دونوں اپنی اپنی طرف آدمی کے دل کو برابر کھنچتے رہتے ہیں ؛اور یہی کھینچا تانی اندر کی کشمکش دنیا کی سب سے بڑی جنگ یا دنیا کا سب سے بڑا سنگرا م ہے ۔اس سنگرام میں خود غرضی یا سوارتھ ،بدی یا برائی کو اپنے اندر سے نہ مٹا سکنا سب سے بڑی ہار ہو تی ہے ۔اسی طرح دوسروں کی بھلائی یعنی پروپکا ر یا نیکی کو اپنی زندگی میں جگہ دیناسب سے بڑی  جیت ہے ،اور جگہ نہ دے سکنا ہر آدمی کی اور تما م انسانی دنیا کی بھلائی ہے ۔اس میں ساری دنیا کی ترقی اور سکھ اور چین کے راستے کھلتےہیں ۔اور یہ ہا ر اس لئے سب سے بڑی ہا ر مانی جاتی ہے کیوں کہ اس میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں اوریہی انسانی دنیا کے بڑے بڑے دکھوں کا اور بربادی کا اصلی سبب ہے ۔
    اس  جیت میں دنیا کی بھلائی اور اس ہا ر میں دنیا کے دکھوں  اور بربادی کی جڑ اس لئے ہے کہ اگر ہم آدمی کی زندگی پر گہری نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتاہے کہ دنیا کے آدمی سب ایک دوسرے سے ایسے ہی بندھے اور جکڑے ہو ئے ہیں جیسے ہمارے بدن کے الگ الگ حصےہاتھ پیر آنکھ اور کا  ن ایک دوسرے سے۔اس طرح دنیا کی تما م چیزیں اور خاص طور سے آدمیوں کے سارے گروہ آپس میں ایک دوسرے سے ایسے اٹوٹ اور گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ، ان کا اصلی فائدہ اور نقصان الگ ا  لگ نہیں کیا جاسکتا۔ہم سب مل کر ایک کنبے یا کٹمب کی طرح ہیں ،جس کی بنیا دیں میل محبت ،ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور ایک دوسرے کی سیوا پر قائم ہیں او رجس کو سب سے بڑا نقصان ایک دوسرے سے نفرت کرنے اور لڑنے سے پہنچتاہےاور جتنا  آدمی اس سچائی کو جان لیتاہے اتناہی وہ اس جیت میں کا میاب ہو تا ہے ،او راس کے بعد اس کے اندر سے اپنے اور پرائے کا بھید کم ہو جاتاہے یا یو کہئے اس کے اپنے پن اور پرائے پن کا خیال گھٹتا اور سکڑ جاتاہے ،اور اس کے دل میں ایک  کرکے اپنے گاؤں ،اپنے شہر ،اپنے دیس اور بڑھتے بڑھتے ساری دھرتی کے آدمیوں کے ساتھ اپنا پن بیٹھنے اور جمنے لگتاہے ۔اسے دوسروں کے بھلے میں اپنی بھلائی اور دوسروں کی بربادی میں اپنی بربادی ،دوسروں کے سکھ میں اپنا سکھ اور دوسروں کے دکھ میں اپنا دکھ دکھائی دینے لگتاہے۔دنیا کے سب دیسوں میں سب آدمیوں کے اس بات کو سمجھ لینے پر ہی دنیا بھر کی سچی شانتی ،سچے امن ،اور سچے سکھ کا دارومدارہے ۔
    لیکن مصیبت یہ ہے کہ آدمی کے اندر اس سمجھ کے پیدا ہونے میں بہت دیر لگتی ہے ،خاص کر قوموں اور ملکوں میں اس کا خیال پید اہو نا بہت ہی مشکل ہو تاہے ، اس لئے یہ کھچاتانی مٹ نہیں پا تی اور اس کے جاری رہنے سے دنیا کو بڑے بڑے نقصان پہونچتے رہتےہیں ۔بے چینی بے امنی اور بربادی بڑھ جا تی ہے ،گروہ بندی، کٹ بندی بڑھتی ہے ،اور اتنا ہی سماج کے آتما کے ٹکڑے ٹکڑے ہو نے لگتے ہیں ،جھگڑے بڑھتے ہیں دکھ ،غریبی ،اور بربادی پھیلتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتاہے کہ باہر کے سب لڑائی جھگڑے آدمی کی اس نا سمجھی کا ہی نتیجہ اور اندر کی اس  کھینچا تانی کی ہی  پرچھائیں  ہوتے ہیں ۔اس ناسمجھی کی طرف لو گوں کا دھیان دلانے اور انہیں اس کھینچا تانی کے دور کرنےاورآپس میں مل جھل کر محبت سے رہنے کا صحیح  راستہ  بتانے کا کا م مذہب( دھرم) کرتے ہیں  ۔اس لئے تو علامہ اقبال نے کہاتھا ۔

مذہب نہیں سکھا تا آپس میں بیر رکھنا                       ہندی ہے ہم وطن ہے  ساراجہاں ہمارا
my first HTML Page

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم