مدارس کی اہمیت وضرورت

عصر ِ حاضر میں مدارس کی ضرورت و اہمیت
ابوصالح شیخ ادریس ندویؔ
۱۸۵۷ ء کی ناکا می اور انگریزوں کے  بر سرِ اقتدار آجانے کے بعد ہندوستانی عوام خصوصا مسلمان شدید احساس ِ کمتری کا شکار ہو گئے تھے ،مسلمانوں کی جاہ سطوت ،طاقت وحکومت کا شیرازہ مکمل طور پر بکھر گیا تھا ،قدیم تہذیب نے کروٹ بد ل کر نئے اقدار کی چادر اوڑ ھ لی تھی اسلا م کی تعلیمات کو نیست ونابود کرنے کی منافقانہ سیاست ہونے لگی ، ایسے سازگار اور پر خطر حالات میں وہ تمام مدارس عربیہ جو انگریزی سامراج میں قائم ہو چکے تھے ملتِ اسلامیہ کے لیے گراں قدر خدمات انجا م دیتے رہے ،اس وقت کے علماءاور طلبہ نے اپنی پوری طاقت اور پورا زور صرف کر کے ایک مضبوط حکومت کی طرح انگریزوں کے مقابلے کے لیے  بر سرِ پیکار ہوئے ، کبھی عیسائیت کی مذموم سازشوں سے  نبرد آزما ہوئے ،کبھی آریا سماج کا تعاقب کرکے شدھی سنگٹھن تحریک کی طاقت کو پاش پاش کردیا ، بلکہ تعلیم کتاب و سنت اور دعوت دین وشریعت نے بارہویں صدی ہجری میں جس سرزمیں دہلی کو اپنا مرکز بنا یا تھا ، سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد انتشار و خلفشار سے دو چار ہو گیا تھا ، مسلم معاشرہ نت نئے مسائل سےنبرد آزما تھا ، کبھی ان کو مرتد بنانے کی کوشش کی گئی اور کبھی جدت اور تعلیم کے نام پر مسلمانوں کو مذہب بیزاری کی راہ پر ڈھکیلنے کی کوشش کی جاتی ۔
            یہ انہیں مدارس اور درس گاہوں سے فارغ التحصیل علماء اور اکابر تھے جن کی بے مثال قربا نیوں نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا ۔ ان کا شجرۂ نسب اصحاب صفہ سے ملتا ہے ، سب سے پہلا مدرسہ  قرطبہ اور غرناطہ میں نہیں ۔۔ قیروان اور قاہرہ میں نہیں ۔۔ دہلی اور بنارس میں نہیں ۔۔ فرنگی محل اور علی گڑھ میں نہیں ۔۔ دیو بنداور سہارن پور میں نہیں ، بلکہ سب سے پہلے مدرسہ کی بنیاد مسجد ِنبوی  میں رکھی گئی ۔
            مدرسہ کیا ہے ؟ مدرسہ سب سے بڑہ کار گاہ ہے ۔ جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے ، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار کیے جاتے ہیں ، مدرسہ عالم ِ اسلام کا پاور ہاؤس ہے جہاں سے اسلامی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے ، مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اور ذہن و دماغ  ڈھلتے ہیں مدرسہ و مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے ، جہاں کافر مان پورے عالم پر نافذہوتا ہے ، اس کا ایک سرا نبوت ِ محمدی سے جڑا ہوا ہے تو دوسرااس زندگی سے ، وہ نبوت ِ محمدی کے چشمۂ حیواں سے پانی لیتاہے اور زندگی کے ان کشت زارو ں کو سیراب کرتا ہے ، اگر وہ اپنا کام کرنا چھوڑ دے کے کھیت سوکھ جائیں اور انسانیت مرجھانے لگے  نہ نبوت کا دریا بے آب ہونے والا ہےنہ انسانیت کی زندگی کو سکون مل سکتا ہے ، نہ نبوتِ محمدی کے چشمۂ فیض سے بخل و  انکار ہے نہ انسانیت کے کاسۂ گدائی کی طرف سے استغنا ء کا اظہار ، ادھر سے انما انا قاسم واللہ یعطی کی صدائے مکرر ہے تو ادھر ھل من مزید کی فغانِ مسلسل ۔
            اسی مدرسہ کی تربیت کی تاثیر اور اس کے بانی کافیض ۔۔۔کبھی صدیق کی تصدیق ِحق  میں نمایاں ہوا ، اورکبھی فاروق کی تیغِ فرقان میں جلوہ گر ، عثمان کی حیا اور علی کی قضا میں ظاہر ہوا تو کبھی طارق بن زیاد کی  شجاعت ، محمد بن قاسم کی بسالت اور موسی بن نصیر کے عزم وہمت میں ، اور کبھی امام ابو حنیفہ او ر امام شافعی کے ذکاوت میں ابھرا ، کبھی امام احمد بن حنبل کی  صلابت میں آشکارہ ہوا ،کبھی  امام غزالی اورعبد القادر جیلانی کی روحانیت بن کر بیماردلوں کے لیے شفا کا سامان بنا ،کبھی محمد فاتح کی شمشیر کبھی محمود ٖٖغزنوی کی مہم جوئی بنا کبھی حضرت نظام الدین اولیا کی رقت ثابت ہوا ، کبھی ابن ِجوزی کی تاثیر میں نمایاں ہوا کبھی ابنِ تیمیہ کے تبحرِ علمی میں ، کبھی شیر شاہ سوری کے حسن ِ تدبر کی شکل میں سامنے آیا اور کبھی اورنگ زیب عالم گیر کے آہنی عزم اور مجدد الفِ ثانی کے آثار ِ قلم و قدم میں ظاہر ہوا ، کبھی محمد بن عبدالوہابکی تحریک بن کر ابھرا اور کبھی شاہ ولی اللہ کی حکمت بن کر ، کبھی ان کے بعد آنے والے بے شمار مصلحین علماءِ ربانیین کی گراں قدر خدمات بن کر۔
            غرض یہ کہ ہر دور ہر زمانے میں بدلتے ہوئے حالات کے سامنے سینہ سپرہونے میں اور نئے نئے فتنوں اور سازشوں کوجان جان کر ان کا مقابلہ کرنے میں ، بہکے ہوئے قدموں کو راہ پر لانے اور ڈگمگاتے قدموں کو جمانے میں اور عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت کی ڈوبتی اور ہچکو لے کھاتی کشتی کو ساحل تک پہنچانے میں جو انقلابی کردار ان علماءمدارس نے پیش کیا تاریخِ عالم ایسی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔
            ذرا ان اولوالعزم علماء کی  تاریخ اٹھاکر دیکھو     جنہوں نے اس رضائے الہی  کےجذبہ سے سرشار ہو کر کیا کچھ برداشت کیا وہ بھو کے اور پیاسے  بھی رہے انھوں نے طعنے اور گا لیاں بھی سنیں انھیں جیل کی کالی کو ٹھریوں میں جانا پڑاانھو ں نے پیٹھ پرکوڑوں کی ضربیں سہی  انھوں نے حکمرا نوں کی ناراضگی اور مخالفت بھی مول لی
تیسری صدی  کے اوائل میں جب فتنہ اعتزال اور تعمق فی الدین نے سر اٹھا یا تھا اور صرف ایک ہی نہیں بلکہ تین عظیم الشان فرمارواوں نے یعنی مامون ، معتصم ،اور واثق باللہ کی شمشیر استبداد وقہر حکومت نے اس فتنہ کا ساتھ دیا حتی کہ علی بن مدینی نے فرمایا کہ فتنہ ارتداد اور منع زکات کے بعد یہ دوسرا فتنہ عظیم تھا جو اسلام کو پیش آیا اس وقت دین خالص کا بقا اورقیام ایک عظیم الشان قربانی کا طلبگار تھا امام احمد بن حنبل کو یہ شرف حاصل ہوا ان کو قید کیا گیا چارچار بوجھل بیڑیاں پاوں میں ڈالی گئیںاسی عالم میں بغداد سے  طرطوس  لے چلے ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا کہ بلاکسی کی مدد کے خود ہی اونٹ پر سوار ہوں اور خود ہی اونٹ سے اتریںبیڑیوں کی وجہ سے ہل نہ سکتے تھےاٹھتے پھر گرتے تھے وین رمضانالمبارک کے عشرہ اخیر میںجس کی اطاعت اللہ کو تمام دنوں کی اطاعت  سے زیادہ محبوب ہےبھو کے پیاسے جلتی دھوپ میں بٹھائے گئے اور اس پیٹھ  پر جو علوم و معارف نبوت کی حامل تھی لگاتار کوڑے اس طرح مارے گئے کہ ہر جلاد دوضربیں پوری طاقت سے لگا کر پیچھے ہٹ جاتا  اور تازہ جلاد ان کی جگہ لے لیتے  حافظ ابن جوزی لکھتے ہیں عین حالت صوم میںکہ صرف پانی  کے گھونٹ پر رو زہ رکھ لیا تھا تازہ دم جلادوں نے پوری طاقت سے کو ڑے مارےیہاں تک کہ تمام پیٹھ زحموںسے چور ہوگئی اور  تمام جسم خون سے رنگین ہو گیا
پھر ذرا متحدہ ہندوستان کی تاریخ  پر نظر ڈالیں یہا ں بھی ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام کا چراغ ٹمٹماتامحسوس ہورہاتھا دین اکبری ایجاد ہو رہا تھاخنزیااور کتے  کی پاکی کا حکم دیا گیا سود شراب اور جوا سمجھا گیا کلمہ توحید کی جگہ  لا الہ  الا اللہ اکبر خلیفہاللہ پڑھاجاتاتھا باد شاہ کو سجدہ کیا جا تا  اس پر آشوب دور میں جو قلندر میدا ن میں اترا اور جس نے  اسلام کی تجدید کا فریضہ انجا م دیا آپ یقین کریں وہ کسی انگریزی یونیور سیٹی کا فرو فیسر نہ تھا وہ کوئی خدا بیزار سائنسداں نہ تھا وہ کوئی مادہ پرست انجینئر اور اباحت پسند مسلم اسکا لر  نہ تھا بلکہ وہ مدرسہ کی خستہ چٹائیوں پر بیٹھ کر کتاب و سنت  کا علم حاصل کر نے والا ایک خدا شناس  مولوی تھا 
یہ مختصر  سا تعارف ہے ورنہ تم مالٹا کے در و دیوار سے پو چھو شیخ الہند کون تھا  کراچی اور انڈیا کی جیلوں سے پو چھو سید حسین احمد مدنی کون تھا جزیرہ انڈوما ن کے کالے پانی سے پو چھو جعفرتھانیسری کون تھا بالاکوٹ کے سنگریزوں سے پوچھو سید احمد شہید اور اسماعیل شہید کون تھا میانوالی اورسکھر کی جیلوں پو چھو سید عطاءاللہ بخاری کون تھا یہ سب کے سب انہیں مدارس کے پڑھے ہوئے تھے ، کیا یہ  ڈوب مرنے کی بات نہیں کہ جن مدارس کی قربانیوں سے ہمیں دین ملا، قرآن ملا ، سنت ملی اور مسجدیں آباد ہوئیں آج انہیں مدارس کو ہم تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں
مدارس  قیام خلافت کا نام ہے ،مدارس انبیاء کی وراثت کا نام ہے،مدارس صحابہ کی نیابت کا نام ہے ، مدارس تحفظ دین کی ربانی تدبیر کا نام ہے مدارس صداقت و حقانیت کی ترویج کا نام ہے مدارس ناموس رسالت اور عدالت صحابہ کی صیا نت کا نام ہے مدارس سعید بن جبیر کی عزیمت اور ابو حنیفہ کی فقاہت کا نام ہے ، مدارس  امام شافعی کی ذہانت  وفطانت کا امام مالک کی حق گوئی اور بے با کی کا اور امام احمد کی استقامت کا نام ہے مدارس  مجدد الف ثانی جہد مسلسل اور شاہ ولی اللہ کی فہم و بصیرت کانام ہے مدارس قاسم نانوتوی کے علم و دانش شیخ الہند کی جہد و کا وش الیاس دہلوی  کی فکرو کوشش ،یوسف  کادھلوی کے دردوسوزش عبیداللہ سندھی کی تڑپ حسین احمد مدنی کی غیرت و شجاعت اور ابو الکلام آزاد کی پر جوش خطابت کا نام ہے 

1 comment:

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم