اقبال کا ہیغام

مغرب تہذیب اورمسلم ممالک
اقبال ؒ کا  پختہ عقیدہ ہےکہ مغربی تہذیب ممالک اسلامیہ کو ہر گز نجا ت نہیں دلاسکتی نہ ان کے مسائل کو حل کرسکتی ہے ،وہ کہتےہیں کہ ”جوتہذیب اپنی موت آپ مررہی ہے ،وہ دوسروں کو زندگی کب دے سکتی ہے“۔
                             نظر آتے نہیں  بے  پردہ حقائق  ان کو             آنکھ جن کی ہوئی محکومی وتقلید سے کور
زندہ کرسکتی ہے ایران وعرب کوکیوں کر             یہ فرنگی منیت کہ جوہے  خو د لب گور
مغرب نے ہمیشہ مشرقی ممالک کے احسان کا بدلہ احسان فراموشی اور کفران نعمت سے ،اور بھلائی مغرب نے ہمیشہ مشرقی ممالک کے احسان کا بدلہ احسان فراموشی اور کفران نعمت سے ،اور بھلائی کی جزا برائی سے دی ہے ،شام نے مغرب کو حضرت عیسیٰ کی شخصیت دی ،جن کاپیام عفت وعصمت اور غم خواری ورحمت ،برائی کے بدلے بھلائی ،ظلم کے مقابلے پر عفو تھا ،لیکن مغرب نے شام پراپنے قبضہ کے دوران خمروقمار ،بے پردگی اور آوارگی کے سواکوئی تحفہ نہیں دیا :
فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نےکیا           نبی رحمت وغم خواری وکم آزادی
                                    صلہ فرنگ سے آیاہے سوریا کے لئے         مے وقمار  وہجوم  زنانِ   بازاری !

پہلی عالمی جنگ

پہلی عالمی جنگ
از:ابوصالح شیخ..........
پہلی عالمی جنگ بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازعہ تھا۔ اس تنازعے کی ابتدا ھبزبرگ آرکڈیوک ٖفرانز فرڈنینڈ کے قتل سے ہوئی جو اگست 1914 میں شروع ہوا اور اگلی چار دہائیوں تک مختلف محاذوں پر جاری رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں۔۔برطانیہ، فرانس، سربیا اور روسی بادشاہت (بعد میں اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی شامل ہو گئے)۔۔جرمنی اور آسٹریہ۔ہنگری پر مشتمل مرکزی قوتوں کے خلاف لڑیں جن کے ساتھ بعد میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ترکی اور بلغاریہ بھی شامل ہو گئے۔ جنگ کا ابتدائی جوش و جزبہ اس وقت ماند پڑ گیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی جنگ جیسی شکل اختیار کر گئی۔ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا۔ مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی ممکن نہ رہی لیکن تنازعے کی سطح مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ شمالی اٹلی، بالکن علاقے اور سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں بھی شدید لڑائی ہوئی۔ لڑائی سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ ہوا میں بھی لڑی گئی۔
پہلی عالمی جنگ جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی۔ اس جنگ میں تقریباً ایک کروڑ فوجی ہلاک ہو گئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے ایک سو برس میں ہونے والی لڑائیوں کی مجموعی ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس جنگ میں دو کروڑ دس لاکھ کے لگھ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ہلاکتوں کی اتنی بڑی تعداد کی وجہ مشین گن جیسے نئے ہتھیاروں کو متعارف کرانا اور گیس کے ذریعے کی گئی ہلاکتیں تھی۔ جنگ کے دوران یکم جولائی 1916 کو ایک دن کے اندر سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جب سومے میں موجود برطانوی فوج کے 57 ھزار فوجی مارے گئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اُٹھانا پڑا جب جرمنی کے 17 لاکھ 73 ھزار 7 سو اور روس کے 17 لاکھ فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس کو اپنی متحرک فوج کے 16 فیصد سے محروم ہونا پڑا۔ محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور ہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ اتنی بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے "اسپینش فلو" پھیل گیا جو تاریخ کی سب سے موذی انفلوئنزا کی وباء ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔ جائیداد اور صنعتوں کا نقصان بہت خطیر تھا، خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں، جہاں لڑائی خاص طور پر شدید تھی۔
نومبر 11, 1918 کو صبح کے 11 بجے مغربی محاذ پر جنگ بند ہو گئی۔ اُس زمانے کے لوگ اس جنگ کو "جنگ عظیم" کے نام سے منصوب کرتے تھے۔ یہ بند ہو گئی لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔


سچائی کا راستہ(مذہب و عقل)

   سچائی کا راستہ(مذہب  و عقل)
ابوصالح شیخ ادریس ندوی
ٹھوس حقیقتوں کا مجموعہ جن کی سچائی پر عقل نے گواہی دی۔ جو دنیا کی تمدنی اصلاح کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے، وہی سچا مذہب ہے۔
یوں تو دعویدار بہت ہیں جنگ میں بالو چمک کر اکثر پیاسوں کو پانی کا دھوکا دیتی ہے مگر سانچ کو آنچ کیا۔ کھوٹا کھرا چلن میں کھل ہی جاتا ہے۔
بے شک سچے مذہب میں معاشرت کے اصول، تمدن کے قاعدے، نیکی کی ہدایت، بدی سے ممانعت ہے اور جبروتی قوت بھی ساتھ ہے۔ جزا، سزا، قہر، غضب، رحم و عطا ثابت حقیقتیں ہیں جن کی اہمیت کے سامنے عقل سرنگوں ہے۔
سچا مذہب عقل والوں کو آواز دیتا ہے اور جو باتیں عقل سے ماننے کی ہیں ان میں عقل سے کام لینے کی ہدایت کرتا ہے تاکہ سرکش انسان جذبات کی پیروی نہ کرے اور کمزور اور کاہل عقلیں اپنے باپ دادا کے طورطریقہ، ماحول کے تقاضے ہم چشموں کے بہلانے پھسلانے سے متاثر ہو کر سیدھے راستے سے نہ ہٹیں ”حقیقت“ کسی کے ذہن کی پیداوار نہیں ہوتی، اس لئے سچا مذہب کسی کی جودت طبع کا نتیجہ نہیں۔ بے شک اس تک پہنچنا اور پہنچ کر اس پر برقرار رہنا انسان کی عقلی بلندی کی دلیل ہے۔
جھوٹے مذہب، ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو دنیا کو بربادی کی طرف لے جانے والے، معاشرت کے تباہ کرنے والے، تمدن کے جھوٹے دعویدار، تہذیب کے بدترین دشمن۔ بدی کے محرک اور فتنہ انگیزی کے باعث ہوں۔ لیکن سچا مذہب وہی ہے جو عالم میں امن و سکون کا علمبردار، معاشرت کا بہتر رہبر، تمدن کا سچا مشیر، تہذیب کا اچھا معلم، طبیعت کی خودروی، بدی کی روک تھام، ممنوعات سے باز رکھنے کو زبردست اتالیق ہے۔ فتنہ انگیزی سے بچنے بچانے کو نگہبان، امن و امان کا محافظ، جرائم کا سدراہ، فطرت کی بہترین اصلاح ہے۔
انسان کی فطرت میں دونوں پہلو ہیں۔ حیوانیت و جہالت اور عقل و معرفت، مذہب کا کام ہے دوسرے پہلو کو قوت پہنچا کر پہلے کو مغلوب بنانا اور اس کے استعمال میں توازن اور اعتدال قائم کرتا۔ فطرت کے جوش اور جذبات کو فطرت کی دی ہوئی عقل سے دباتا اور انسان کو روکتا تھامتا رہتا ہے۔ جذبات کے گھٹاٹوپ میں قوت امتیاز کا چراغ دکھاتا۔ اور اچھا برا راستہ بتاتا ہے خطرے اور کجروی سے باز رکھتا ہے۔
طبیعت انسانی ایک سادہ کاغذ ہے۔ جیسا نقش بناؤ ویسا ابھرے، جوانی کی اودھم، خواہشوں کی شورش، نفس کی غداری، جس کو بدی کہا جاتا ہے اس کی صلاحیت بھی فطری ہے اور شرم، حیا و نیکی اور پارسائی، تعلیم کی قبولیت اور ادب آموزی کی قدرت بھی فطری ہے۔ بے شک پہلی طاقت کے محرکات چونکہ مادی ہوتے ہیں، انسان کے آس پاس، آمنے سامنے موجود رہتے ہیں اس لئے اکثر ان کی طرف میلان جلدی ہو جاتا ہے۔ پھر بھی جن کی عقل کامل اور شعور طاقتور ہوتا ہے۔ وہ ان تمام محرکات کے خلاف نیکی کی طرف خود سے مائل ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ جن کی عقل کمزور اور کاہل ہے وہ نیکی کی جانب مائل کرائے جاتے ہیں اس نیک توفیق کی عقل انجام بین پر صد ہزار آفریں۔ جس نے مذہب کی باتوں کو سمجھا اور دوسروں کو بتلایا اور حیوانوں کو انسان بنایا۔ مذہب نہ ہو تو حیوانیت پھر سے عود کر آئے۔ شہوانی خواہشوں کا غلبہ ہو۔ انسان حرص و ہوس کی وجہ سے اعتدال قائم نہیں رکھ سکتا اس لئے مذہب کا دباؤ اس کے لئے بہترین طریق ہے۔
فطرت نے درد دکھ کی بے چینیاں، بے بسی کا عالم، سکرات کا منظر، نزع کی سختیاں، موت کا سماں آنکھ سے دکھا دیا، مذہب نے مستقبل کے خطرہ، آخرت کی دہشت، بازپرس کے خوف، بدلے کے اندیشے پر عقل کو توجہ دلائی۔
عقل نے غور کیا، سمجھا اور صحیح مانا اور نگاہ دوربیں سے ان نتائج کو معلوم کر لیا۔
اصلاح کے لئے لامذہب بھی کہتے ہیں کہ یہ بہترین طریقہ ہے اور بے شمار اصلاح پسندوں نے انجام سوچ کر یہ رویہ اچھا سمجھا ہے۔ تو کبھی مذہب کی ان تنبیہوں کو صرف ”دھمکی“ بتا کر اور ان نتیجوں کو ”نامعلوم“ کہہ کر ان کی وقعت نہ گھٹائیں۔ نہیں تو ایک طرف حقیقت کا انکار ہو گا دوسری طرف اصلاح کے مقصد کو ٹھیس لگے گی جس کی ضرورت کا ان کو بھی اقرار ہے۔
عقل

سوچنے سمجھنے والی، دیکھی باتوں پر غور کرکے ان دیکھی باتوں پر حکم لگانے والی بڑے بڑے کلیے بنانے والی اور ان کلیوں پر نتیجے مرتب کرنے والی قوت کا نام عقل ہے۔
انسا ن کے علاوہ تمام حیوانوں میں صرف حواس ہیں اور وہ حواس کے احاطہ میں اچھا برا، نفع نقصان پہچان لیتے ہیں۔ مگر یہ قوت جس کا نام ”عقل“ ہے انسان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی کی وجہ سے آدمی کو ذوق جستجو پیدا ہوتا ہے اور اس جستجو سے پھر اس کی عقل اور بڑھتی ہے۔ وہ اسی عقل کے برکات سے معلومات کا ذخیرہ فراہم کرتا رہتا ہے۔ موجودہ لوگوں سے تبادلہ خیال، پچھلی کتابوں سے سبق لے کر ہزاروں برس کی گزشتہ آوازوں میں اپنی صدا بڑھا کر آئندہ صدیوں تک پہنچانے کا حریص ہے، اس کی عقل کبھی محدود یا مکمل نہیں ہو سکتی وہ اپنی عقل کا قصور مان کر آگے بڑھ رہا ہے۔
یہ ذوق ترقی انسان کے علاوہ کسی دوسرے میں نا پید ہے۔ انسان کے سوا دوسرا مخلوق لاکھوں برس طے کرے تب بھی انسان نہیں بن سکتا۔
انسان اصل نسل میں سب سے الگ اور خود ہی اپنی مثال ہے۔ بے شک تہذیب و تمدن میں اس کی حالتیں بدلتی رہیں لامعلوم صدیوں کو طے کرکے موجودہ تہذیب و تمدن کی منزل تک پہنچا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے ہر طرح ترقی کی۔
اس نے بہت سے قدم ناسمجھی کے بھی اٹھائے جن سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹا۔ واللہ علم آگے بڑھ کے کہاں پہنچے۔
اس کا عقلی کمال اس میں ہے کہ وہ اپنے معلومات کی کوتاہی کا احساس قائم رکھے۔ اسی لئے اکثر باتوں میں خود عقل حکم لگانے سے انکار کرتی ہے اور انہیں اپنے دسترس کے حدود سے بالاتر قرار دیتی ہے۔
بہت باتوں کو خود عقل سماع کے حوالہ کرتی ہے ان میں اپنا کام بس اتنا سمجھتی ہے کہ امکان کی جانچ کرے، محال نہ ہونے کا اطمینان کر لے۔ اس کے بعد صحت اور عدم صحت مخبر کے درجہ اور اعتبار سے وابستہ ہے۔
واہمہ مشاہدہ کی گود کا پلا، اس کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اس نے بہت باتوں کو جن کی مثال آنکھ سے نہیں دیکھی غیرممکن کہہ دیا۔
اسی کے ماتحت انبیاء کے معجزات کا انکار کیا مگر عقل جو مادیت کے پردے اٹھا کر کائنات کے شکنجے توڑ کر حقیقتوں کا پتہ لگانے میں مشتاق ہے۔ اس نے وقوع اور امکان میں فرق رکھا، محال عادی اور محال عقلی کے درجے قرار دیئے اور غیرمعمولی مظاہرات کو جو عام نظام اور دستور کے خلاف ہوں ممکن بتایا اسی سے معجزات انبیاء کی تصدیق کی۔
آج ہزاروں صناعوں کی کارستانیوں نے اس کو ثابت کر دیا۔ موجودہ زمانہ کی ہزاروں شکلیں، لاکھوں اوزار، بے شمار ہتھیار، لاانتہا مشینیں، ہزار ہاملیں ایسے ایسے منظر دکھاتی ہیں جنہیں سو دو سو برس پہلے بھی کسی سے کہتے تو وہ دیوانہ بناتا اور سب باتوں کو غیرممکن ٹھہراتا۔ آج وہ سب باتیں ممکن نہیں بلکہ واقع نظر آتی ہیں۔
ان کارستانیوں نے معجزات انبیاء کا خاکہ کیا اڑایا، بلکہ ان کو ثابت کر دکھایا۔ جو بات آج علم کی تدریجی اور طبیعی ترقی کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئی آج معجزہ نہیں ہے۔ لیکن یہی موجودہ انکشافات کے پہلے، عام اسباب کے مہیا کئے بغیر صرف خداوندی رہنمائی سے ظاہر ہوئی تو معجزہ ٹھہری۔
ٹاکی سینما میں عقل کا تماشا ہو یا انجنوں اور موٹروں کی تیزرفتاری، ہوائی جہاز ہو یا ٹیلی فون، وائرلس، ریڈیو، اور لاؤڈاسپیکر سب نے کائنات کی پوشیدہ طاقتوں کا راز کھولا، راز بھی وہ جو لاکھوں برس تک عام انسانوں سے پوشیدہ رہا۔ پھر انسان کو کیا حق ہے کہ و ہ کسی چیز کو صرف اپنے حدود مشاہدہ سے باہر ہونے کی وجہ سے غیرممکن بتا دے۔
مگر یہ انسان کی سخن پروری ہے کہ وہ ان حقیقتوں کو دیکھ کر بھی انبیاء کے معجزات کو افسانہ کہتا ہے۔
عقل ایک واحد طاقت ہے جس کے ماتحت بہت سی قوتیں ہیں۔ ان میں سے ہر قوت ایک احساس ہے اور عقل کا نتیجہ علم ہے۔ انسان کا دماغ مخزن ہے۔ قوت عاقلہ اور پانچوں حواس اس میں معلومات جمع کرتے رہتے ہیں۔ یہی سرمایہ انسان کی کائنات زندگی ہے۔
طبائع انسانی جذبات کے ماتحت جدت پر مائل ہیں۔ ہواؤ ہوس کی شوخیاں نچلا بیٹھنا پسند نہیں کرتیں۔
کبھی حجری زمانہ تھا، بتوں کی خدائی تھی۔ اب شمسی عہد ہے، عالم کا نظام، اجسام میں کشش، مہر کی ضیا سے قائم ہے، پہلے آسمان گردش میں تھا، زمین ساکت تھی۔ اب آسمان ہوا ہو گیا۔ زمین کو چکر ہے، ابھی تک جسم فنا ہو جاتا تھا روح باقی رہتی تھی۔ اب کہا جاتا ہے کہ جسم کے آگے روح کا وجود ہی نہیں۔ یہ انسان کے ناقص خیالات ہیں جن میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ مگر عقل بردبار، ثابت قدم اور مستقل مزاج ہے۔ وہ جن باتوں کو ایک دفعہ یقین کے ساتھ طے کر چکی۔ ہمیشہ انہیں یقینی سمجھتی ہے کوئی سنے یا نہ سنے مانے یا نہ مانے وہ اپنی کہے جاتی ہے۔
مذہب کے خلاف توہمات ہمیشہ سے صف بستہ تھے۔ آج بھی پرے جمائے ہیں۔ جذبات انسانی اس کی گرفت سے نکلنے کو پھڑپھڑائے اور اب بھی پھڑپھڑاتے ہیں مگر عقل اور فطرت کی مدد سے اس کا شکنجہ ہمیشہ مضبوط رہا اور اب بھی مضبوط ہے۔ خدا کی سنت یعنی فطرت کی رفتار کو تبدیلی نہیں ہوتی۔ زمانہ کی تاثیر، ماحول کا اثر، صورتیں۔ شکلیں، ڈیل ڈول، وضع قطع، ذہنیت میں تبدیلیاں ہوتی رہیں۔
صدیوں میں ملکوں کا جغرافیہ، قوموں کی تاریخ، برسوں میں مقامی فضا طبیعتوں کا رنگ۔ مہینوں میں فصلوں کا تداخل، ہفتوں میں چاند کا بدر و ہلال، گھنٹوں میں مہر کا عروج و زوال۔ منٹوں میں سطح آب پر یا لب جو حبابوں کا بگڑنا۔ دم بھر میں سانس کا الٹ پھیر، آنا جانا۔ حیات سے ممات سب کچھ ہوا کرے۔ مگر عقل کی ثابت حقیقتیں کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔
اسلام انہی حقیقتوں کی حمایت کا بیڑا اٹھائے ہے۔ اسے میں توہمات کے سیلاب سے مقابلہ۔ جذبات سے بیر، دنیا جہان کے خیالات سے لڑائی ٹھانی ہے مگر ہے تو نیک صلاح۔
اگر خاموش بنشنیم گناہ است
انسان کی بھیڑیا دھان خلقت نے ایک وقت میں حیوانات کے ساتھ ساز کیا اور ذی اقتدار انسانوں کو خدا ماننے میں تامل نہیں کیا۔ پھر خدا کو انسان کے قالب میں مانا بلکہ ان سے بھی پست ہو کر درختوں کی پوجا کی۔ اور پہاڑوں کو معبود بنا لیا۔ اب جب کہ وہ ترقی کا مدعی ہے تو مادہ کے ذروں کو سب کچھ سمجھتا اور کائنات کی پوشیدہ قوتوں کی پرستش کر رہا ہے۔ خیر اس کی نگاہ حاضر مجسموں سے پوشیدہ طاقتوں کی طرف مڑی تو!
امید ہے کہ اگر عقل صلاح کار کا مشورہ قبول کرے تو غیب پر ایمان لے آئے اور مافوق الطبیعت خدا کی ہستی کا اقرار کر لے، وہ خدا جو آسمان اور زمین سب کا مالک ہے کسی جگہ میں محدود نہیں۔ بے شک خلق کی ہدایت کے لئے زمین پر اپنے پیغام بر بھیجتا اور ان کی زبانی بہترین تعلیمات پہنچاتا ہے اور خصوصی دلائل اور نشانیوں کے ذریعہ ان کی تصدیق کرتا ہے۔ ان دلائل کا نام معجزات ہے۔ مستقبل کے اخبار ان کے ماتحت ہیں۔ فطرت و عقل دونوں ان کے ہم آہنگ ہیں۔ ملاحظہ ہو۔



اقبال کی نظم

اقبا ل کا شکوہ نظم کے پیرائے میں 
اس نظم میں اقبال نے سرکا ر دوعالم ﷺ کی روح سے استغاثہ ہے کہ
1)اے تاجدار مدینہ !آپ کی قوم کا شیرازہ بالکل بکھر چکاہے اس لئے دنیا میں کوئی قو م اس کی عزت نہیں کرتی ۔اب آپ ﷺ ہی فرمائیں کہ آٌ قاکے یہ نالا ئق غلام کہاں جائیں ۔
2)مسلما نوں مں سر فروشی کا وہ ذوق بالکل باقی نہیں رہا ۔لھذا میں اب کس قوم کو اپنی شناخت کی حفاظ او ر وقت کے تقاضہ کے مطابق جدوجہد کرنے کی تعلیم دوں ۔مسلمان نہ میری تعلیم سنتے ہی نہ سمجھتے ہیں
3)یہ سچ ہے کہ اس وقت بالکل بے سروسامانی کی حالت میں ہیں ،نہ ان کے پاس دولت ہے نہ تجارت ہے نہ علم ہے اور نہ ان کے پا س کسی قسم کی مادی طاقت ہے نہ روحانی قوت ہے ۔یہ بالکل صحیح ہے لیکن بہر حال وہ آپ ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں آخر وہ کس ملک میں چلے جائیں ۔
4)اب وقت آگیا ہے کہ آپ اس نا فرمان اور نالائق قوم پر نگاہ کرم فرمائیں اور اس کی دستگیری فرمائیں یہ قوم لاکھ بری سہی لیکن آپ کی نام لیوا ہے اور اللہ کے کلام پر عامل  نہ سہی اس کی نگہبان تو ہے آخر دنیا سے نیست ونابو د توہونہیں سکتی کیونکہ آٌپ کا پیغا م ازلی اور ابدی ہے پس ا للہ ان پر نگاہ کرم فرمائیے اور دنیا میں ان کی با عزت زندگی کاکوئی  انتظا م فرمائیے1میں نے حتی المقدوراس نظم کے مفہوم کوسلیس اندازمیں بیان کردیا ہے لیکن اگر ناظرین اس سوزوگداز سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں جو اس نظم میں ہے توپھراس کو اقبال ہی کے لفظوں میں پڑھیں۔جوسوزوگدازاس مصرع میں ہے ۔
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے   وہ میرے لفظوں سے ہر گز پید انہیں ہو سکتا ۔                                                             

ہندوستان کے تاریخی مقامات


ہندوستان کے تاریخی مقامات اور ہم

کسی بھی ملک کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا اندازہ اس ملک میں موجود تاریخی عمارتوں اور مقامات سے ہی نہیں بلکہ اس ملک کے حکمرانوں کے ذوق و تعمیر و فن اور عوام کے مزاج سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو اس کے تحفظ کیلئے اپنی ساری توانائیاں صرف کردیتے ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان میں ایسے مقامات، عمارتوں اور یادگاروں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ قوم نے اس کی اتنی قدر نہیں کی جتنی کی جانی چاہئے۔ ان یادگاروں کے تحفظ اور ان کی صیانت سے قوم کی عدم دلچسپی ہی کہئے کہ وہ خود ان کی عظمت سے واقف ہی نہیں ہے دوسری طرف بیرونی سیاح ان کی عظمت دیکھنے کھینچے کھینچے چلے آتے ہیں۔ کیوں کہ اب لوگوں کا مزاج "گھر کی مرغ دال برابر" والا بن چکا ہے۔ 

تاج محل ساری دنیا میں تو ہندوستان کی علامت سمجھاجاتا ہے لیکن ملک کے10فیصد لوگوں نے ہی اسکو دیکھا ہوگا ایسا ہی حال ہر ریاست اور شہر میں پائی جانے والی عمارتوں اور یادگاروں کا ہے۔ حیدرآباد کے چارمینار کی بات ہو یا پھر گولکنڈہ کا قلعہ یا پھر سالار جنگ میوزیم کی ان کو دیکھنے والے بیرون ریاست اور بیرونی ملکوں کے سیاحوں کی تعدادزیادہ ملے گی۔ 1951ء میں قائم سالارجنگ میوزیم کا شمار یوں تو ملک کے 6قومی اہمیت کے حامل میوزیم میں ہوتا ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ ساری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد میوزیم ہے جوایک ایسے شخص نواب یوسف علی خاں (سالارجنگ سوم) کے اعلیٰ و عمدہ ذوق اور شوق کی عکاسی کرتا ہے جنہوں نے اپنی 60 سالہ مختصر زندگی کا بڑا حصہ صرف نوادرات اور بیش بہا قیمتی اشیاء جمع کرنے میں صرف کردیا جو ان کی زندگی کے بعد قوم اور ملک کا اثاثہ بن گئیں۔ 
موسیٰ ندی کے جنوبی کنارے دارالشفاء میں 10ایکڑ اراضی پرواقع سالارجنگ میوزیم میں تین علیحدہ وسیع وعریض بلا میں موجود 43000 نادرو نایاب اشیاء کی مالیت کا تخمینہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں بعض ایسے شہہ پارے بھی ہیں جن کی قیمت کے تصور سے ہوش ہی اڑجائیں گے۔ 29؍ستمبر 1952ء میں اس میوزیم کے معائنہ کے بعد اس وقت کے مرکزی وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی جو رائے تحریرکی وہ خود اس میوزیم کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے کافی ہوگی۔ 
مولاناآزاد لکھتے ہیں کہ "مجھے سالارجنگ میوزیم کے معائنے سے خوشی حاصل ہوئی۔ ایک شخصی ذوق نے اتنا سامان بہم پہنچادیا کہ جو حکومتوں کی کوشش سے بھی فراہم نہیں ہوا کرتا۔ مزید خوشی دراصل اس بات سے ہوئی کہ یہاں چیزوں کی تقسیم و تربیت نہایت قابلیت سے قائم کی گئی ہے اور اس کیلئے اسٹاف کی حسن کارکردگی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ 
یہ شاید اس وقت کی بات ہوگی جب سالار جنگ میوزیم نواب یوسف علی خان کے مسکن دیوان دیوڑھی میں واقع تھا اور اس کا افتتاح 1951ء میں اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا اور اس کا حسن انتظام سالارجنگ اسٹیٹ کے کمیٹی کے پاس تھا۔ 1958ء میں یہ پھر وزارت ثقافت کا حصہ رہا 1961ء میں قانون سازی کے ذریعہ قومی اہمیت کا حامل قراردیاگیا اور پھر اس کے نظم و نسق اور انتظام کو ایک بااختیار ادارہ کے حوالے کیاگیا جس کے سربراہ گورنر ہیں۔ 1968ء میں اس میوزیم کو دیوان دیوڑھی سے موجودہ عمارت میںمنتقل کیاگیااورتقریباً40 سال بعد پھر اس کی تزئین نو کے ذریعہ موجودہ شکل و صورت گری سے آراستہ کیاگیا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ میوزیم 50 برسوں میں تین ادوار سے گزرا لیکن خاص بات یہ ہے اس سارے عمل کے دوران نہ تو ترتیب بدلی نہ ہی اس کی تقسیم لیکن اب مشرقی بلاک میں اسلامک آرٹ گیلری کی تعمیر کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے اور بہت ممکن ہو آئندہ ماہ رمضان تک یہ پائے تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اس منصوبہ پر لگ بھگ 6کروڑ روپئے کے مصارف عائد ہوں گے۔


ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم