مولانا الیاس کاندھلویؒ ایک انقلابی شخصیت ب

مولانا الیاس کاندھلویؒ ایک انقلابی شخصیت
نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

اسلام کا سورج فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہوا اور صرف ڈیڑھ صدی میں اس کی ضیا پاش کرنیں ایشیاء، یوروپ اور افریقہ کے تینوں براعظموں کو روشن کرنے لگیں۔ اسلام کی یہ عظیم الشان اشاعت مسلم سلطاتین کی تلواروں کی دھار اور مسلم کمانڈروں کے للکار کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ وہ آنحضورؐ، صحابہ و تابعین اور تبعِ تابعین کی پیہم اور مسلسل کوششوں اور قربانیو ں کا نتیجہ تھیں۔
     مگر بعد کی صدیوں میں مسلمانوں کی تعداد تو بڑھ گئی، اسلامی سلطنتوں کے حدود تو وسیع ہوگئے مگر رفتہ رفتہ دین کی دعوت و تبلیغ اور نشرواشاعت کا جذبہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ دنیا کے مختلف گوشوں میں مسلمان گو تو موجود تھے مگر کلمہ کے حقیقی معنی سے نا آشنا۔ اسلامی وضع قطع تو موجود تھا مگر اسلامی روح سے خالی، اسلامی اور عربی نام تو موجود تھے مگر اسلامی تہذیب و تمدن سے عاری اور برصغیر ہندوپاک کی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔
      مگر انیسویں صدی میں ہندوستان میں ایک ایسی شخصیت پیدا ہوئی، جس نے دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کی اصلاح کا ایک ایسا گروہ پیدا کردیا، جو قرآن پاک کی آیت *"ولتکن منکم امت یدعون الی الخیر کا عین مصداق"* تھی۔
         اس نے ایک ایسی جماعت کی بنیاد ڈالی جس کا آج بھی کوئی آرگنائزیشنل چارٹ نہیں، جس کا کوئی سالانہ بجٹ اور بینک اکاؤنٹ نہیں مگر اس جماعت کے ایک کروڑ لوگ دنیا کے 138ممالک میں اپنے خرچ پر اللہ کے دین کو پہنچانے اور ایک مسلمان کو مسلمان بنانے کے مشن میں مصروف ہیں۔
          اسلامی تاریخ میں یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس کی نظیر پورے ایک ہزار سال میں دکھائی نہیں دیتی۔ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کی زندگی میں جس جماعت نے یہ عظیم انقلاب برپا کیا اس کا نام تبلیغی جماعت ہے اور اس عظیم الشان اور عالمی جماعت کے بانی اور مؤسس کا نام حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ہے۔
          مولانا محمد الیاس صاحب موجودہ اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے قصبہ کاندھلہ میں 1885ء کو پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد کا نام مولانا محمد اسماعیل تھا جو ایک خدا ترس عالمِ دین تھے اور بہادر شاہ ظفر کے سمدھی مرزا الٰہی بخش کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے, جن کا بنگلہ موجودہ نظام الدین میں درگاہ کے پاس تھا، اسی بنگلہ کے پھاٹک پر مولانا اسماعیل کی رہائش تھی اور اسی پھاٹک کے پاس ایک ٹین کی چھوٹی سی مسجد تھی جس کو بنگلہ والی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے، اسی میں مولانا الیاس صاحب کے والد پھر آپ کے بڑے بھائی میوات وغیرہ کے بچوں کو بھی دینی تعلیم دیتے تھے۔ مولانا الیاس کی والدہ ماجدہ خود حافظہ قرآن تھیں اور ایک انتہائی نیک خاتون تھیں۔ مولانا الیاس صاحب کے دو بڑے بھائی تھے ایک مولانا محمد صاحب اور دوسرے مولانا یحییٰ صاحب اور دونوں بہترین عالمِ دین تھے۔ مولانا الیاس صاحب نے بچپن ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور گاؤں میں حاصل کی، آپ کے ایک ہم درس اور ہم عمر ریاض الاسلام صاحب کاندھلوی آپ کے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ مکتب میں پڑھتے تھے تو ایک دن مولانا الیاس لکڑی لے کر آئے اور کہا میاں ریاض الاسلام! چلو بے نمازیوں پر جہاد کریں!
  اس زمانہ کے مشہور عالم دین اور مجاہد آزادی مولانا رشید احمد گنگوہی, گنگوہ میں دینی تعلیم وتربیت میں مشغول تھے جہاں مولانا الیاس کے منجھلے بھائی مولانا یحییٰ چلے گئے، پھر بعد میں وہ مولانا الیاس صاحب کو بھی گنگوہ لے گئے، اس طرح مولانا الیاس صاحب نے مولانا رشید گنگوہیؒ کے پاس تقریباً دس سال گزارے، اس کے بعد 1326ھ (1908ء) میں آپ نے دیوبند جاکر شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب سے ترمذی اور بخاری کی سماعت کی۔ پھر مولانا خلیل احمد سہارنپوری سے بیعت و تعلق قائم کرلیا۔ اس کے دو سال بعد آپ نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں بحیثیت مدرس کام کرنا شروع کیا۔
      1328ھ/1910ء میں آپ نے درس و تدریس شروع کیا۔1330ھ /1912 ء میں آپ کی شادی ہوئی اس کے تین سال بعد آپ نے پہلا حج 1913/ 1333ھ میں کیا۔ حج سے واپسی کے ایک سال بعد آپ کے منجھلے بھائی مولانا یحییٰ صاحب جنھوں نے گنگوہ میں اپنے ساتھ رکھ کر آپ کی تعلیم و تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، کا انتقال 1916ء میں ہوگیا۔ جس نے مولانا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے دو سال بعد آپ کے بڑے بھائی مولانا محمد صاحب بھی جو اپنے والد صاحب مولانا اسماعیل کی جگہ پر نظام الدین کی مسجد اور مدرسہ کو سنبھالے ہوئے تھے اور دین کی خدمت میں مصروف تھے 1918ء میں اس دارِ فانی سے1328ھ/1910ء میں آپ نے درس و تدریس شروع کیا۔1330ھ /1912 ء میں آپ کی شادی ہوئی اس کے تین سال بعد آپ نے پہلا حج 1913/ 1333ھ میں کیا۔ حج سے واپسی کے ایک سال بعد آپ کے منجھلے بھائی مولانا یحییٰ صاحب جنھوں نے گنگوہ میں اپنے ساتھ رکھ کر آپ کی تعلیم و تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، کا انتقال 1916ء میں ہوگیا۔ جس نے مولانا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے دو سال بعد آپ کے بڑے بھائی مولانا محمد صاحب بھی جو اپنے والد صاحب مولانا اسماعیل کی جگہ پر نظام الدین کی مسجد اور مدرسہ کو سنبھالے ہوئے تھے اور دین کی خدمت میں مصروف تھے 1918ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔۔
          مولانا محمد صاحب کے انتقال کے بعد وہاں کے معتقدین اور خاندان والوں نے مولانا الیاس صاحب سے اصرار کیا کہ وہ سہارنپور کے مدرسہ چھوڑ کر یہاں آجائیں اور اپنے والد اور بھائی کی دینی و تعلیمی خدمات کو آگے بڑھائیں اور نظام الدین کی اس مسجد اور مدرسہ کو آباد کریں جہاں پر ان کے والد اور بھائی نے اپنی عمریں گزار دیں ہیں۔
          مولانا الیاس صاحب نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے ایک سال کی چھٹی مانگی اور نظام الدین منتقل ہوگئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ جب مولانا الیاس صاحب نے یہاں کی مسجد اور مدرسہ کو سنبھالا تو وہاں میوات کے ہی زیادہ تر طلبہ زیرِ تعلیم تھے اور میواتی لوگوں کا اس مدرسہ اور مسجد میں برابر آنا جانا تھا۔چنانچہ میواتیوں کا ایک بڑا طبقہ مولانا الیاس صاحب کے والد اور ان کے بھائی کا معتقد تھا۔ جب مولانا الیاس صاحب نے میواتیوں کی دینی،تعلیمی اور مذہبی صورتحال دیکھی تو وہ بے چین ہوگئے۔
          ایک انگریز میجر پاؤلٹ 1878کے گزیٹیڈ میں میوات کے مسلمانوں کی دینی ومذہبی حالت کے بارے میں لکھتا ہے: *”میو (یعنی میواتی) اب تمام مسلمان ہیں لیکن برائے نام، ان کے گاؤں کے دیوتا وہی ہیں جو ہندو زمینداروں کے ہیں، وہ ہندوؤں کے کئی تہوار مناتے ہیں، جتنا عید، محرم اور شب برات مناتے ہیں اتنا ہی وہ جنم اشٹمی، دسہرا اور دیوالی بھی مناتے ہیں۔“*
آگے لکھتا ہے: *”میواتی عادات میں آدھے ہندو ہیں۔ ان کے گاؤں میں شاذ ونادر ہی مسجد ہوتی ہیں۔“*
         میوات کے لاکھوں مسلمانوں کی اپنے دین مذہب سے دوری، مشرکانہ رسم و رواج میں گرفتاری اور اسلام کی نعمت سے عدمِ واقفیت اور بے رغبتی نے مولانا الیاسؒ کو مضطرب کردیا، شب و روز وہ یہ سوچا کرتے کہ کس طرح یہاں کے مسلمانوں کے اندر دینی بیداری لائی جائے۔
          چنانچہ جب بھی آپ کے والد اور بھائی کے معتقدین نظام الدین کے بنگلہ والی مسجد میں آتے تو مولانا الیاس ان کو اپنے اپنے گاؤں میں مکتب و مدرسہ کھولنے کی تلقین کرتے۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ اگر میوات میں مدارس و مکاتب کا جال بچھا دیا جائے تو وہاں کے مسلمانوں کی دینی حالت میں سدھار خود بخود آجائے گا۔ چنانچہ جب میوات کے معتقدین نے آپ کو میوات آنے پر اصرار کیا تو آپ نے یہ شرط رکھی کہ تم لوگ اپنے علاقے میں مکتب کھولو پھر میں آؤں گا۔ مگر وہاں کے لوگوں نے مکتب نہیں کھولا، جب مولانا تشریف لے گئے تب اس علاقہ میں آپ نے دس مکاتب کھولے۔ اس کے بعد آپ کا میوات کا سفر ہوتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دنوں میں سیکڑوں مکاتب وہاں کھل گئے۔
          مولانا نے دوسرا حج اس کے دوران 1344 ہجری (14جون 1926) میں کیا اور مکہ مدینہ میں پانچ ماہ گزارنے کے بعد آپ 1345ھ (1927) کے شروع میں کاندھلہ واپس آئے۔ حج سے واپسی پر آپ نے میوات کے حالات کا جائزہ لیا تو بہت مایوسی ہوئی۔ میوات کے عام مسلمانوں کی زندگی میں کوئی سدھار نہیں نظر آرہا تھا۔ مکاتب کے اندر ایک مخصوص تعداد دینی تعلیم حاصل کررہی تھی اور میوات کے سارے مسلمانوں کو مدرسہ اور مکتب میں پڑھانا اور انہیں دین سکھانا ناممکن تھا۔ اس کے لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ نے حضور پاک ﷺ کا وہ طریقہ اختیار کیا جو آپؐ نے دین کی نشرواشاعت میں شروع میں اپنایاتھا۔ آپؐ مکہ کے اندر گھر گھر جاکر دین کی دعوت دیتے اور آپ نے طائف کا بھی سفر کیا اور وہاں کے رؤسا کے سامنے دین کی دعوت پیش کی۔ لہٰذا مولانا نے فیصلہ کیا کہ گروپ کی شکل میں نکلا جائے، گشت کیا جائے اور لوگوں کو دین سکھایا جائے۔ دعوت کے اس طریقے سے لوگ بالکل ناآشنا تھے۔ آپ کے معتقدین اور ساتھیوں نے شروع میں ہچکچاہٹ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خود دین آتا تو ہم لوگوں کو کیسے دین سکھائیں گے۔ چند لوگوں نے بڑی شرم و حیاء اور رکاوٹ کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔
      اسی بیچ میوات کے نوح میں ایک بڑا جلسہ ہوا، آپ نے حاضرین سے مطالبہ کیا کہ جماعت بناکر علاقہ میں نکلا جائے اور دین کی تبلیغ کی جائے۔ لوگ بہت ہچکچائے، اور لوگوں نے مولانا سے ایک مہینے کی مہلت مانگی۔ مگر ایک مہینہ کے بعد آخر کار پہلی جماعت دوسرے چند گاؤں جانے کے لیے تیار ہوئی۔ فیصلہ ہوا کہ گڑگاؤں کے سوہنا کی مسجد میں جماعت اگلا جمعہ پڑھے گی۔ اس جمعہ کو مولانا خود سوہنا کی مسجد پہنچے، جماعت کی کارگزاری سنی، اور آگے کا پروگرام طے کیا۔ ایک طویل مدت تک اسی طرح میوات کے علاقہ میں جماعتیں نکلتی رہیں اور مولانا خود جاکر جمعہ کے اجتماع میں شریک ہوتے رہے اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے رہے۔
          اسی دوران آپ نے 1351ھ/1933ء میں تیسری بار حج کیا اورحج سے واپسی پر جماعت کی سرگرمیوں کو اور تیز کردیا۔ جب مولانا 1356ھ/1937ء کے اواخر میں آخری حج پر مکہ مدینہ پہنچے تو وہاں بھی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں اور لوگوں کو دعوت و تبلیغ کے لیے جماعت بناکر نکلنے پر آمادہ کرتے رہے۔
         مکہ کے امیر سے مکہ میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کے لیے اجازت مانگی، ان کے سامنے تحریری طور پر جماعت کے اغراض و مقاصد پیش کیے۔ مکہ کے قیام کے دوران ہی احباب کی رائے سے تبلیغی جماعت کے لیے اس وقت کے سلطان سے ملاقات طے ہوئی۔ چنانچہ 14مارچ 1938ء کو مولانا حاجی عبداللہ دہلوی، عبدالرحمن، مظہر شیخ المؤمنین اور مولانا احتشام الحسن کاندھلوی کے ساتھ سلطان سے مکہ میں ملاقات کی۔ جلالۃ الملک نے بہت اعزاز کے ساتھ مسند سے اتر کر استقبال کیا اور اپنے قریب اس دعوتی وفد کو بٹھایا، وفد نے تبلیغی جماعت کا معروضہ پیش کیا، جلالۃ الملک نے تقریباً چالیس منٹ توحید و کتاب و سنت اور اتباعِ شریعت پر مبسوط تقریر کی پھر اس کے بعد مسند سے اتر کر خود بہت اعزاز کے ساتھ سبھوں کو رخصت کیا۔ اگلے روز سلطان ریاض کے لیے روانہ ہوگئے۔ اسی طرح مدینہ کے امیر سے بھی اس سلسلہ میں درخواست دی گئی۔ اہل الرائے نے بتایا کہ اس ملک میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بڑھانے کے لیے مولانا کو کم سے کم دو سال قیام کرنا ہوگا۔ مگر آپ نے واپسی کا ارادہ کرلیا کیونکہ اس سے ہندوستان کے کام کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ چنانچہ آپ ہندوستان واپس آگئے, واپسی پر آپ نے تبلیغی جماعت کے وفود سہارنپور، کاندھلہ، دلی، خورجہ، علی گڑھ، آگرہ اور بلند شہر وغیرہ میں بھیجنا شروع کیا۔ 1362ھ/1943ء میں لکھنؤ بھی تشریف لے گئے اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں قیام کیا۔
   مولانا الیاس کاندھلویؒ کی اٹھارہ سال کی شب و رز کی محنت رنگ لانے لگی، ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں جماعتیں نکلنے لگیں، اور علماء اور عام لوگوں کے اندر دینی بیداری کی ایک لہر چلنے لگی۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
”میوات میں دینداری کے وہ اثرات ظاہر ہونے لگے جن میں ایک ایک کے لیے اس سے پہلے اگر برسوں جدوجہد کی جاتی تو شاید کامیابی نہ ہوتی۔ بلکہ الٹی ضد پیدا ہوجاتی۔ ملک میں دین کی رغبت پیدا ہوگئی اور اس کے آثار نظر آنے لگے۔ جس علاقہ میں کوسوں مسجد نظر نہیں آتی تھی، وہاں گاؤں گاؤں مسجدیں بن گئیں اور دیکھتے دیکھتے اس ملک میں ہزاروں مسجدیں بن کر کھڑی ہوگئیں۔ صدہا مکتب اور متعدد عربی کے مدرسے قائم ہوگئے، حفاظ کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہوگئی، فارغ التحصیل علماء کی بھی ایک خاصی تعداد پیدا ہوگئی، ہندوانہ وضع و لباس سے نفرت پیدا ہونے لگی اور اسلامی و شرعی لباس کی وقعت دلوں میں پیدا ہوگئی، ہاتھوں سے کڑے اور دکانوں سے مرکیا اترنے لگیں، بے کہے آدمیوں نے داڑھیاں رکھنی شروع کردیں۔ سود خواری کم ہوگئی، شراب نوشی تقریباً ختم ہوگئی، قتل و غارت گری کی واردات میں بہت کمی ہوگئی، جرائم، فسادات اور بداخلاقیوں کا تناسب پہلے کے مقابلے میں بہت گھٹ گیا۔ بے دینی، بدعات و رسوم اور فسق و فجور کی باتیں اور عادتیں موافق ہوا اور فضا نہ پانے کی وجہ سے خود بخود مضمحل ہونے لگیں۔

ایک فقیر درویش اور بے لوث عالم دین کی محنت نے صرف 18سال میں نہ صرف میوات بلکہ پوری دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کردیا جس کی کوئی مثال پچھلی ایک ہزار سال کی اسلامی تاریخ میں دکھائی نہیں پڑتی چنانچہ آج دنیا کے 138ممالک میں تبلیغی جماعت سے جڑے ایک کروڑ سے زیادہ لوگ اللہ کے دین کو پہنچانے میں مصروفِ عمل ہیں۔
تاریخ اسلامی کے اندر اتنا بڑا انقلاب برپا کرنے والا یہ یہ عالم دین 13جولائی 1944ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 

*"پھونک کر اپنے آشیانے کو"*
*"بخش دی روشنی زمانے کو"*

فلسطینی وفد کی آمد اور قضیہ فلسطین پر گفتگو

فلسطینی وفد کی آمد اور قضیہ فلسطین پر گفتگو

بقلم محمد نفیس خان ندوی

بروز سنیچر فلسطین کے تین دانشور (دکتور محمود شوبکی، دکتور طہ صفدی،دکتور جودت مظلوم) دائرہ شاہ علم اللہ (تکیہ کلاں) تشریف لائے،یوں تو ان کے ہندوستان آنے کا مقصد علمائے ہند کو قضیہ فلسطین کی جانب متوجہ کرنا تھا، لیکن تکیہ آنے کا ایک مقصد مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں کے دیار کی زیارت، فاتحہ خوانی اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مد ظلہ سے ملاقات بھی تھا..
تقریبا چھے گھنٹے ان کا قیام رہا، اس دوران مستقل ان کی صحبت اٹھانے اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کا موقع بھی ملا، چونکہ ان کی گفتگو متنوع موضوعات پر محیط تھیں اس لیے ذیل میں ان کی باتوں کا خلاصہ ذیلی عناوین کے ذریعہ ملاحظہ کریں.

*حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی*
دکتور محمد شوبکی کہنے لگے کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہم نے شیخ سے پڑھا ہے، ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہے.ہم خوش قسمت ہیں کہ شیخ کے سامنے بیٹھنے کا اور ان سے استفادہ کا موقع ملا.. 

 *شیخ جودۃ مظلوم* نے کہا کہ ہم نے شیخ ندوی کو  دیکھا تو نہیں لیکن ہماری تربیت و ہماری ہرورش شیخ ندوی کی کتابوں کے سایہ میں ہوئ ہے، سب سے پہلی کتاب جو ہم نے پڑھی ہے وہ *ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين* ہے، اس کے بعد شیخ ندوی کی ہم نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں..

پھر کہنے لگے کہ شیخ ندوی کا اہل فلسطین پر بڑا احسان ہے کہ انھوں نے قضیہ فلسطین کو ہمیشہ اہمیت دی اور بغیر کسی کی پروا کیے انھوں نے ہمیشہ اس قضیہ کھل کر لکھا اور کھل کر اس پر گفتگو کی اور عرب قائدین کو بار بار اس کی طرف متوجہ کیا.. ہم سب پر ان کا بڑا احسان ہے اس لیے ہمارا حق تھا کہ ان کے دیار میں ہم حاضر ہوں اور یہاں سے استفادہ کریں..

اسی دوران برادرم خلیل حسنی ندوی نے حضرت مولانا کی مشہور تقریر جو قضیہ فلسطین پر ہے اس کا رکارڈ پلے کردیا اور سب نے پوری توجہ سے اس کو سنا اور حضرت کی غیرت ایمانی اور جذبہ اخوت کا دیر تک تذکرہ ہوتا رہا..

شیخ صاحب کہنے لگے کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ جس کے بھی نام کے ساتھ ندوی لکھا ہوتا ہے وہ سب شیخ ندوی کے خاندان کے افراد ہیں، لیکن ہندوستان آکر معولم ہوا کہ یہ عظیم اداہ *ندوۃ العلماء* کی طرف نسبت ہے..

*اسرائیل کے یہود*
کہنے لگے کہ اسرائیلی بہت ظالم بھی ہیں اور بہت بزدل بھی، ان کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ ایک بچہ بھی اگر زور سے اللہ اکبر کہتا ہے تو ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی ہے، جبکہ وہ جدید اسلحوں سے لیس ہوتے ہیں، اور جب زیادہ خوف طاری ہوتا ہے تو بوکھلا کر ادھر ادھر گولیاں چلانے لگتے ہیں اور اسی میں بہت سے معصوم شہید ہوجاتے ہیں..
ہر فوجی کے پاس جدید آٹو میٹک ہتھیار ہوتے ہیں، وہاں ہر یہودی کے لیے فوجی ٹریننگ ضروری ہے، کبھی بھی ایمرجنسی میں ان کو کال دی جا سکتی ہے..
اس طرح ہر یہودی کو ہتھیار رکھنے کی عام اجازت ہے. 

تمام یہودیوں کا متفقہ ہدف ہے کہ ارض فلسطین کو  مسلمانوں سے خالی کرایا چاہے، خواہ انھیں ملک سے باہر کرنا پڑے یا موت کے گھاٹ اتارنا پڑے.. 
البتہ طریقہ کار کو لے کر ان کے درمیان اختلاف شدید بھی موجود ہے،  جو متمول اور سرکاری طبقہ ہے وہ فلسطینیوں پر کبھی بھی حملہ کردیتا ہے اور معصوموں کو ہلاک کردیتا ہے، اور جب اس کے ری ایکشن میں فلسطینی کوئ کارروائی کرتے ہیں تو یہودیوں کا وہ طبقہ زیادہ نشانہ بنتا ہے جو غیر متمول ہے اور فلسطینیوں کے لیے سہل الحصول ہے، اس لیے یہ طبقہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو مارو ضرور لیکن دھیرے دھیرے اور ایک ایک کرکے مارو تاکہ ری ایکشن میں ہم محفوظ رہیں..
یہ  طبقہ بہترین عربی بولتا ہے اور اہل فلسطین سے مستقل واسطہ میں رہتا ہے..

*ارض فلسطین*
کہنے لگے کہ یہودی بہت ہی مکار اور عیار ہوتے ہیں، فلسطین میں وہ صفائی ستھرائی کے کام کی خاطر آئے تھے، پھر انھوں نے زمینیں خریدنی شروع کیں، ان کا حقیقی مقصد یہاں ناجائز قبضہ کرنا تھا، مسلمانوں نے اسے محسوس کرلیا اور علماء کی جانب سے یہ عام فتویٰ جاری ہوا کہ کوئی بھی یہودی کو زمین نہیں بیچے گا، یہودیوں نے زمین کے معمولی سے ٹکڑے کے عوض لاکھوں ڈالر کی پیش کش کی لیکن الحمد للہ مسلمانوں نے پوری طرح رد کردیا..
پھر انھوں نے یہ عیاری کی کہ لبنان کے عیسائیوں کو اس کے لیے تیار کیا، مسلمان اس فریب میں آگئے اور عیسائیوں کو اپنی زمینیں بیچیں، پھر ان سے یہودیوں نے کئ گنا قیمت دے کر خرید لیں، عیسائیوں کے نام مسلمانوں کی ہی  طرح ہوتے ہیں اس لیے اس فریب کو مسلمان دیر میں سمجھ سکے، پھر علماء کی جانب سے یہ فتویٰ آیا کہ عیسائیوں کو زمین نہیں بیچی جائے گی. 
اس کے بعد یہودیوں نے دوسری سازش رچی اور اس بار انھوں نے امارات کے مسلمانوں کو استعمال کیا، ان مسلمانوں نے فلسطینیوں سے زمینیں خریدیں اور پھر منھ مانگی قیمت میں یہودیوں کے ہاتھ فروخت کردیں. جب اہل فلسطین نے یہودیوں کی اس مکاری کو سمجھا تو یہ فتوی جاری کیا گیا کہ اب فلسطین کی زمین صرف فلسطینی مسلمان کو ہی بیچی جاسکتی ہے..
لیکن اس وقت تک یہودیوں نے ایک بڑا حصہ خرید لیا، اور پھر حکومت اسرائیل  کے اعلان کے بعد اس سے بھی بڑے حصہ پر جبریہ قبضہ کرلیا

*فلسطینی مسلمان*
کہنے لگے کہ اہل فلسطین کو اپنی سرزمین سے بے انتہا عشق ہے، مسجد اقصی کے لیے وہ تڑپتے ہیں، رمضان کے مہینہ میں اسرائیل کی جانب سے سخت پابندیاں عائد ہیں، خاص رمضان کے مقدس مہینہ میں پوری طرح پابندی لگا دی جاتی  ہیں، راستے مسدود کردیے جاتے ہیں، اقصی کیپمس کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اقصی کے متوالے ساری بندشوں کو توڑتے اور دیواروں کو پھاندتے ہوئے مسجد اقصی تک پہنچ جاتے ہیں..
کہنے لگے کہ ہم غزہ ہی میں رہتے ہیں لیکن بیس پچیس سال سے ہم مسجد اقصی نہیں جاسکے، ہمارے اوپر اتنی سخت پابندیاں عائد ہیں کہ اگر ہم وہاں قریب بھی نظر آئے توہمیں  فورا گرفتار کر لیا جائے..

فلسطینی مسلمانوں کو اللہ نے شوق شہادت کی دولت سے مالامال کیا ہے، آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ اسرائیلی حکومت جب کسی فلسطینی کو کسی یہودیو کے قتل میں گرفتار کرتی تو پہلے اسے موت کی سزا سنائی جاتی تھی، یہودیوں کا مذہبی نظریہ ہے کہ یہودی کا قاتل مستحق پھانسی ہے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمان خوشی خوشی اپنی جان دے رہا ہے بلکہ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم تمھارے شکر گذار ہیں کہ تم نے ہمیں شہادت کی عظیم نعمت تک پہنچا دیا.. یہ دیکھ کر اسرائیلی پارلیمنٹ میں گرما گرم بحث چھڑی اور یہ طے پایا کہ موت کی سزا کے بجائے قید و بند کی سخت سے سخت سزا دی جائے، چنانچہ یہ قانون پاس ہوا کہ ایک یہودی کے قتل کی سزا پورے ایک سو سال کی قید ہے، آج اسرائیلی جیلوں میں ایسے فلسطینی بھی قید ہیں جنھوں نے بیس پچیس یہودیوں  کو موت کے گھاٹ اتارا  اور انھیں دو دو اور ڈھائ ڈھائ ہزار سال کی قید ہوئی ہے..

یہ یہودی موت سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں، اور لمبی لمبی عمر تک بلکہ بس چلے تو قیامت تک زندہ رہنے کی کوشش کریں، اب کسی کو دوہزار یا ڈھائی ہزار سال کی سزا سنانا کس ذہنیت کی عکاسی ہے آپ خود سمجھے..

فلسطینی مسلمان ماشاءاللہ بہت جری اور دلیر ہیں، فوجیوں کے پورے پورے جتھے سے اکیلا نوجوان بھڑ جاتا ہے، بلکہ ایک بچہ بھی سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے، جبکہ یہ بالکل نہتھا ہوتا ہے اور وہ ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں پھر بھی بارہا انھیں میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے، آپ کسی اسرائیلی فوجی کو کبھی تنہا نہیں دیکھیں گے، وہ ہمیشہ غول بنا کر رہتے ہیں لیکن کبھی کبھی مسلمانوں کی جرات کو دیکھ کر اتنا گھبرا جاتے ہیں کہ اپنے ساتھی پر گولیاں چلادیتے ہیں. 

آپ نے *شیخ یاسین* کا نام تو سنا ہی ہوگا، یہودیوں کے دلوں میں ان کا رعب اور ان کی دہشت اس قدر سمائی تھی کہ ان کا نام سنتے ہی ہاتھ پیر پھولنے لگتے تھے، دیکھنے میں شیخ یاسین بالکل معذور تھے، اپنی کرسی سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے لیکن یہودیوں کو معلوم تھا اس شخص کا دماغ بہت مضبوط ہے،  کرسی پر بیٹھے بیٹھے اس نے ناک میں دم کر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ میزائل سے ان کو ٹارگیٹ کیا گیا، اور ان کے چتھڑے اڑ گئے، ہم لوگوں نے ان کے بکھرے اعضاء کو ادھر ادھر سے سمیٹ کر دفن کیا..
شیخ یاسین واقعی میں بہت زبردست شخص تھے، ان کی ایک آواز پر سارے مسلمان جمع ہوجاتے تھے، ان کی ایل جھلک کے لیے لوگ ٹوٹ پڑتے تھے، اللہ نے ان کو غیر معمولی تاثیر سے نوازا تھا، ان کے ہوتے ہوئے کہیں ظلم نہیں ہوسکتا تھا، اگر کسی بارے میں معلوم ہوتا کہ وہ کسی پر ظلم کررہا ہے تو شیخ اسے کہلا دیتے کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو میں آتا ہوں تمھارے پاس، پھر اس کی دوبارہ ہمت نہی ہوتی تھی..
اگر کسی پر زیادتی ہوتی تو کہتا کہ ابھی شیخ یاسین کے پاس جارہا ہوں تو معاملہ فورا وہیں کا وہیں درست ہوجاتا تھا..

فلسطین اپنی غیرت ایمانی اور شوق شہادت کی طاقت سے ظالم اسرائیلی فوج کا سامنا کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ ہتھیار بھی بناتے ہیں، ٹینک اور میزائل بھی بناتے ہیں، اور فوجی تربیت بھی دیتے ہیں لیکن یہ سب کام زیر زمین سرنگ بنا کر کیا جاتا ہے. اسرائیل کو سب خبر ہوتی ہے لیکن اندر تک گھسنے اور سامنا کرنے کی جرات نہیں ہوتی، وہ فلسطینیوں سے وہ بہت ڈرتا ہے، اور جب جب اس کے خوف میں اضافہ ہوتا ہے اس کی جانب سے غزہ پر پابندیاں بڑھا دی جاتی ہیں لیکن اللہ کا فضل ہے کہ کسی بھی فلسطینی مسلمان کا جذبہ نہ سرد پڑتا ہے اور نہ اسے کے قدموں میں لغزش ہوتی ہے..

*مسلمانوں سے گذارش*
ہم مسلمان سے صرف یہی کہنے آئے ہیں کہ یہ مسجد اقصی کا قضیہ صرف اہل فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اپنی اپنی  سطح پر ہر صاحب ایمان کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور کم سے کم صورت یہ ہے کہ دعاؤں میں اہل فلسطین کو یاد رکھیں اور مسجد اقصٰی کی بازیابی اور اس کی آزادی کی خدا سے فریاد کریں..
حدیث پاک میں وارد ہوتا ہے کہ
*من لم یھتم بامر المسلمین فلیس منا*

اللہ پاک ہم سب کو جذبہ جہاد و شوق شہادت کی دولت سے نوازےاور مسجد اقصی کی بازیابی کے لیے ہمیں کچھ کرنے کی توفیق دے..

چھے گھنٹے کے اس قیام میں  مہمانوں نے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی کے پاس کافی وقت گذارا،  مولانا بلال عبدالحسی حسنی ندوی کے ساتھ لمبی نشست رہی اور ہر ایک ملاقات میں فلسطین اور قضیہ فلسطین پر ہی خصوصی گفتگو ہوتی رہی.. 

اس پورے دورانیہ میں  برادرم خلیل حسنی ندوی مستقل ساتھ رہے، اور متنوع موضوعات پر گفتگو کرتے رہے. 

مہمانوں کی آمد اور ان سے استفادہ کی یہ شکل برادرم مجیب الرحمن عتیق سنبھلی ندوی کے توسط سے ہی ممکن ہوئ، انھوں نے مہمانوں کی آمد و قیام کی ترییب بنائی اور ہمیں استفادہ کا موقع ملا.. اللہ تعالی ان کو جزائے خیر دے..

فلسطینی دانشوروں کو دیکھ کر اور ان سے مل کر تکیہ پر موجود سبھی مہمان بہت خوش ہوئے اور مسجد اقصٰی سے متعلق ایک عام انسان کے جذبات بھی قابل قدر ہوئے..

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اہل فسلطین کو ثابت قدمی نصیب کرے اور غیب سے ان کی مدد کرے، اور یہودیوں کے خونیں پنجہ سے مسجد اقصٰی کی رہائی کی سبیل پیدا کرے..
آمین!

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم