تبلیغی جماعت کے موجودہ اختلافات کے سلسلے میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ

مجلس علمیہ آندھرا پردیش کے اجلاس میں تبلیغی جماعت کے موجودہ اختلافات کے سلسلے میں فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ

ہر زمانے میں علمائے حق کا یہ شیوہ رہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ حق کی موافقت اور حمایت کی ہے، جب کہ غلط کو غلط کہنے میں بھی ذرا جھجھک محسوس نہیں کی۔لیکن اب بات جو سردست سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان حالات میں جب کہ ایک بڑی تنظیم کے احباب دو حصوں میں بٹ چکے ہیں، علماء کی ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ دونوں کے درمیان اتفاق کی کوئی صورت نکالنے کی سعی کریں، یا کم از کم دونوں کو خود سے مربوط رکھ کر گمراہی سے بچانے کی پوری فکر کریں.

*”تبلیغی جماعت“ کا یہ کام نہ فرض ہے اور نہ واجب، بلکہ شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے بقول مستحب ہے، اگر علماء کسی ایک طرف فریق نہ بھی بنیں تو انہیں کوئی عذاب ہونے والا نہیں ہے، پھر سمجھ لیں کہ موافق ہونا اور فریق بننا دونوں میں فرق ہے، علماء کے ذہن میں یہ بات ضرور رہنی چاہیے کہ کس طرف خطائیں سرزد ہورہی ہیں،اور کون راہِ حق سے دور جارہا ہے، لیکن علماء کو ان کا فریق مخالف بھی نہیں بننا چاہیے، اس طرح علماء کے ہاتھوں سے ایک بڑا طبقہ چلا جائے گا، جب کہ امارت والوں کی طرف منسوب ایک بہت بڑی تعداد وہ ہے جو صرف ذاتی اعتقاد کی بنا پر اُدھر کو ہوئی ہے، ورنہ حقیقتا ان کے عقائد کا ان عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اب بھی نفس تبلیغ کو اپنے پیش نظر رکھتے ہیں.*

رہی بات جماعت کے اصولوں میں ترمیم کو قبول کرنا، (مثلا چالیس دن کی جگہ اڑتالیس دن یا نوے دن کی جگہ چوراسی دن) تو یہ ایسا حرام کام نہیں ہے، جس کی بنا پر ان سے اعتزال کا حق علماء کو حاصل ہو، ہر ادارے میں نصاب کی تبدیلی ہوتی ہے، لیکن معیوب نہیں سمجھی جاتی، اگر تبلیغی جماعت میں یہ تبدیلی بعض قدامت پسند لوگوں کے نزدیک معیوب ہے بھی تو اس قدر نہیں جس کی بنا پر ان سے ترک تعلق کرلیا جائے۔

 *علماء کا مقام امارت اور شوری سے بلند ہونا چاہیے، موجودہ دعوت وتبلیغ کی محنت یہ دین کی ایک محنت ہے، سارا دین اس میں منحصر نہیں ہے، بلکہ دین کی اور بھی بہت سی محنتیں ہیں، بہت موٹی سی بات ہے کہ علمائے کرام کے لیے دیگر بڑی محنتیں بھی موجود ہیں، بلکہ علمائے کرام کا درجہ امارت اور شوری سے بہت بڑھ کر ہے، کسی ایک کا فریق بن کر دوسرے میں شامل ہونا واقعی علماء کے شایان شان نہیں ہے، علماء کو یکجٹ ہوکر عوامی کام

سے بلند ہونا چاہیے.*

 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام میں محنت کرنے والے علماء نے اس سے اوپر سوچنا بند کردیا ہے، بلکہ اکثر ائمہ تو تبلیغی جماعت کے احباب کے ہاتھ تلے کام کرتے ہیں، وہ جس کام کا حکم دیں گے یہ لوگ وہی کریں گے، اگر ان کے کام میں شریک ہوں گے تو انہیں امامت پر رکھا جائےگا، بصورت دیگر انہیں معزول کردیا جائے گا، کاش علماء متحد ہوکر اپنے اثر ورسوخ کی بنا پر عوام کی سرپرستی فرماتے!!!

 *تبلیغی جماعت میں عوام کی کثر ت ہے، اس لیے علماء کی بے احترامی اور ان کے مقام سے نا واقفیت اس کا ایک عام مرض ہے، اس میں امارت وشوری کسی کی تخصیص نہیں ہے، اس لیے اس اختلاف کو تو بھی کچھ ہی سال گذرے ہیں، جب کہ ان کے اتحاد کے وقت بھی ائمہ پر ان کا تسلط بہت پہلے سے جاری تھا، جوامام ان کی حمایت میں ہو اور ان کے ساتھ جڑ کر کام کرے وہ اسی کو امام سمجھتے تھے، پھر یہ بات بھی اس میں بہت پہلے سے گردش کررہی ہے کہ اصل دین کا کام یہی دعوت کا ہے، جو لوگ پیسے لے کر دین کا کام کرتے ہیں وہ در حقیقت دین کا سودا کررہے ہیں۔بات شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے کی ہے، ایک عالم صاحب نے حضرت کو خط لکھا کہ ہمارے علاقے میں علمائے کرام کی بے احترامی کے واقعات تبلیغی جماعت کے احباب کی طرف سے پیش آرہے ہیں، بعض ائمہ معزول بھی کئے گئے، حضرت نے جواب دیا کہ چونکہ اس جماعت میں عوام کی کثرت ہے، اس لیے یہ تو ہونا ہی ہے، تمہاری کیا بات کرتے ہو، خود میں اور مولانا عبدالقادر رائے پوری (رحمہما اللہ) کچھ دن مرکز نظام الدین میں گزارتے ہیں، میں نے ایک دفعہ خود اپنے کانوں سے یہ بات سنی ہے کہ یہ دونوں بڈھے (بوڑھے) مرکز میں کھاپی کر سوتے رہتے ہیں اور دعوت کا کام نہیں کرتے!* 

*آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء وسیع ذہنی کے ساتھ ان معاملات پر غور فرمائیں، ایک محدود سوچ رکھنے والا ہی وقت کے فقیہ العصر پر معاملات سے نا واقفیت کا الزام لگاسکتا ہے، خدارا اپنی سوچ کو وسیع کریں، اپنے کام کے دائرے کی وسعت کو سمجھیں، تبلیغ میں محدود رہنا یہ عوام کا طریقہ ہے، نیز اسی میں ان کی عافیت ہے، لیکن علماء کے لیے یہ تنگ نظری سخت نقصان دہ ہے۔ فھل من مدکر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب

درود شریف کے اندر ایک پورا نظام پوشیدہ ہے

درود شریف کے اندر ایک پورا نظام پوشیدہ ہے


ہم اپنی لغت میں اسے ’’ نظام محبت‘‘ اور ’’ نظام رحمت‘‘ کہہ سکتے ہیں… 
درودشریف پڑھتے ہی یہ پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے… 
مختصر طور پر اس نظام کو سمجھ لیں… درودشریف پڑھنے والے نے … اللہ تعالیٰ سے محبت کا ثبوت دیا…
کیونکہ درودشریف پڑھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے…
 یہ ہوئی پہلی محبت…

درود شریف پڑھنے والے نے حضور اقدس ﷺ سے محبت کا ایک حق ادا کیا… یہ محبت ایمان کے لئے لازمی ہے…
جب تک رسول اللہ ﷺ کی محبت … ہمیں ہر چیز سے بڑھ کر حاصل نہیں ہوگی… اس وقت تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا… اعتبار والا ایمان وہی ہے جس میں حضور اقدسﷺ سے محبت… سب سے بڑھ کر ہو…

ہمیں حضور اقدس ﷺ کی ظاہری صحبت حاصل نہیں ہوئی … 
مگر ہم آپ ﷺ کی محبت تو پا سکتے ہیں… یہ محبت ہمیں جس قدر زیادہ نصیب ہوگی اسی قدر ہمارے دل میں… 
آپﷺ کی زیارت، شفاعت، صحبت اور تذکرے کا شوق بڑھے گا… درودشریف میں بندہ اپنی اسی محبت کا اظہار کرتا ہے… تو یہ ہوئی دوسری محبت…

ہم نے محبت سے درود شریف پڑھا تو… درودشریف کی خدمت پر مامور ملائکہ نے اسے محبت سے اُٹھایا اور سنبھالا … ان عظیم ملائکہ یعنی فرشتوں کے عجیب و مختلف حالات حدیث شریف کی کتابوں میں آئے ہیں… یہ معزز فرشتے درود شریف کو اُٹھانے، سنبھالنے اور پہنچانے کی خدمت انجام دیتے ہیں …
بہت تیزی اور محبت سے سر انجام دیتے ہیں…
فرشتوں کو درودشریف سے محبت ہے…
اس کا ثبوت قرآن مجید میں موجود ہے…
  یہ ہوئی تیسری محبت

پھر اللہ تعالیٰ نے ایک وسیع طاقت اور سماعت رکھنے والا ایک فرشتہ (ایک روایت میں دو فرشتے) مقرر فرما رکھا ہے… جو درودشریف پڑھنے والے کو … بڑی محبت بھری دعا دیتا ہے اور کہتا ہے ’’ غفرانک اللّٰہ ‘‘…
اللہ تعالیٰ تیری مغفرت فرمائے… فرشتے کی اس دعاء پر دیگر فرشتے آمین کہتے ہیں … اور اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرماتا ہے… 
 یہ ہوئی چوتھی محبت…

فرشتوں نے یہ درودشریف حضور اقدس ﷺ تک… درود شریف پڑھنے والے کی ولدیت کے ساتھ پہنچا دیا کہ…
یا رسول اللہ ﷺ ! فلاں بن فلاں نے آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا ہے… آپ ﷺ اس صلوٰۃ و سلام کا محبت کے ساتھ جواب ارشاد فرماتے ہیں … سبحان اللہ! حضرت آقا مدنی ﷺ کا جواب … آپ ﷺ کی ہمارے لیے دعاء رحمت… اور ہمارے لیے سلام… یہ ہوئی پانچویں محبت…

اب ان پانچ محبتوں کے بعد… محبت کے مے خانہ کا اصل دور شروع ہوتا ہے … وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ توجہ خاص فرماتا ہے… اور پھر اس بندے پر محبت اور رحمت کی بارش فرما دیتا ہے…
 دس خاص رحمتوں کا نزول… دس درجات کی بلندی …
 دس گناھوں کی معافی… اور معلوم نہیں کیا کیا انعامات…

تو زمین سے لے کر عرش تک… کیسا زبردست ’’نظام محبت و رحمت‘‘ متحرک ہو گیا… اب جس بندے کو یہ نعمت نصیب ہوئی… اس کا کون سا مسئلہ ہے جو حل نہیں ہوگا اور کون سی پریشانی ہے جو دور نہیں ہوگی
محبت سے درود شریف پڑھ لیجئے۔


● اَللّٰــھُمَّ صَـــلِّ عَلٰی مُـحَـمَّـدٍ وَّعَـلٰٓی اٰلِ مُـحَـمَّـدٍ کَـمَا صَـلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْـرَاھِــیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْـرَاھِــیْمَ اِنَّـکَ حَـــمِیْدٌ مَّــجِیْدٌ ● 

●اَللّٰــھُمَّ بَـارِکْ عَلٰی مُـحَـمَّـدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُـحَـمَّـدٍ کَـمَا بَـارَکْـتَ عَلٰٓی اِبْـرَاھِــیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْـرَاھِــیْمَ اِنَّـکَ حَـــمِیْدٌ مَّـــجِیْدٌ

حضرت فروخ رحمۃ اللہ علیہ" کا واقعہ

حضرت فروخ رحمۃ اللہ علیہ" کا واقعہ

حضرت فروخ رحمۃ اللہ علیہ ' تابعین میں سے ھیں........ مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے آئے تو سنا....... کہ خطیبِ مسجد ' جہادِ ترکستان کے لئے لوگوں کو شوق دلارھے ھیں, تو آپ بھی اُٹھے اور اپنے آپ کو پیش کردیا..... تیاری کے لئے گھر آئے.... بیوی اُمید سے تھیں۔ کہنے لگیں ؛- میں اس حال میں ھوں, آپ جارہے ھیں میں اکیلی ھوں, کیا بنے گا ؟ فروخ کہنے لگے.... تُو اور جو کچھ تیرے شکم میں ھے اللہ کے سپرد کرتا ھوں - 
بیوی نے خوشی خوشی اللہ کی راہ میں نکلنے والے مسافر کو تیار کیا.... گھوڑے پہ زین رکھی, ذرہ لاکر دی, اور پھر اُنھیں محبت سے بھرپور لہجے میں الوداع کہا..... فروخ چلے گئے اور پھر انکا انتظار ھونے لگا -
اس زمانے میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ مسلسل جاری تھا فروخ کو جنگی مہموں میں 27 برس گزرگئے... پیچھے اُنکے ھاں اللہ نے ایک خوبصورت فرزند سے انکی بیوی کو نوازا - ماں نے اپنے بیٹےکا نام " ربیعہ" رکھا - ربیعہ جب کچھ بڑے ھوئے تو انکی اچھے انداز سے تربیت کی اور پھر جب اسنے لکھنا پڑھنا سیکھا تو اسے قرآن و حدیث کی تعلیم دلانے کےلئے مدینہ طیبہ کے اچھے معلموں کے پاس بھیجا.... انکی تربیت پر ماں نے سارا مال صرف کردیا...... ربیعہ خود بڑے ھونہار طالبعلم ثابت ھوئے اور پڑھ لکھ کر خوب مقام پایا - علومِ قرآن ' حدیث ' فقہ اور ادب سبھی میں اللہ نے اُنھیں کمال بخشا - پڑھنے کے بعد پڑھانا شروع کیا... تو انکا حلقہءِدرس بڑھتا ھی چلا گیا اور یہاں تک کہ مسجدِنبوی میں باقاعدہ سے علومِ دینیہ سے سیراب ھونے والے نوجوان طلباء کے علاوہ بہت سے بڑی عمر کے لوگ بھی انکے حلقہءِتعلیم میں آتے, مدینہ اور گردونواح میں انکا علمی چرچا عام تھا -
پھر ایک روز رات کی کچھ ساعتیں گزری تھیں کہ ایک گُھڑسوار اپنے بوڑھے جسم پر تلوار سجائے ھاتھ میں نیزہ تھامے اور مالِ غنیمت اپنےساتھ گھوڑے پر لادے مدینہ منورہ میں داًخل ھوا.... سوچوں میں مگن تھا سوچتا تھاکہ.... میراگھر وھیں ھوگا یا جانے کہاں. ؟
 میری بیوی زندہ ھوگی یا میرے جانے کے بعد میرے انتظار میں کسی اور دنیا میں جابسی ھوگی. ؟ وہ اُمید سے تھیں اسکے ھاں اولاد کیا ھوئی, اور اب کس حال میں ھوگی ؟
سوچوں کے یہ دائرے بنتے بنتے یہ بوڑھا مجاھد و غازی اچانک ایک گھر کے سامنے کھڑا ھوگیا...... اسکے دل نے کہا یہ گھر تو تیرا ھی گھر ھے..... چند ثانیے وہ رُکا اور پھر آگے بڑھ کر اس نے دروازہ کھولا اور بےتکلفی سے اندر داخل ھوا...... یکدم ایک نوجوان کی آواز نے اسے ٹھہرنے پر مجبور کردیا - 
رات کی تاریکی میں تم میرے گھر میں بدن پر اسلحہ سجاِئے کیوں گھس آئے. ؟ بوڑھے مجاھد کی بھاری آوازا بھری ؛- مجھے میرے گھر میں روکنے والا کون ھوسکتا ھے. ؟ 
یہ تمہارا گھر نہیں, یہ میرا گھر ھے, جس میں تم گھس رھے ھو -
 یوں ان دونوں کی آوازیں بلند ھونے لگیں اور انکا جھگڑا بڑھنے لگا.. تو گھر میں سوئی.... نوجوان کی والدہ کی آنکھ کھلی, اس نے جھگڑے کی نوعیت معلوم کرنیکے لئے جو باھر جھانکا.... تو اسے بیٹے کے ساتھ اپنا شوھر نظر آیا - اور اس نے وھیں سے اپنے بیٹے کو آوازدے کرکہا ؛- ربیعہ.! سُنو.! یہ تمھارے والد ھیں..... اپنے ابّا کو مرحبا کہو اور پھر آگے بڑھیں اور اپنے شوھر " فروخ " کو مرحبا کہا -.... اور پھر اُنھیں بتایا کہ یہ ربیعہ ھے..... تمھارا اپنا بیٹا- ...جو تمھارے بعد پیدا ھوا تھا -
اب تو منظرھی بدل گیا..... دونوں باپ بیٹا باھم مل رھے ھیں..... ایکدوسرے کو خوشی سے دیکھ رھےھیں.... ایکدوسرے کے ھاتھ اور پیشانی چُوم رھے ھیں..... اور یہ ساری رات اسی طرح باتوں میں اور حال احوال لینے میں ھی کٹ گئی - اس اثنا میں فروخ نے پوچھا وہ کثیر رقم جو میں تمھیں دے کرگیا تھا اسکا کیا ھوا. ؟ بیوی نے کہا ؛- آپ اطمینان رکھیں....... ساری رقم محفوظ ھے - 
اتنے میں فجر کی نماز کا وقت ھوگیا - فروخ اُٹھے اور مسجد جانے سے پہلے ربیعہ کو آواز دی ؛ بیٹا! نماز کو چلو.! ربیعہ کی ماں نے بتایا کہ ربیعہ تو بہت پہلے مسجد چلے گئے ھیں - یہ مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ مسجد بھری ھوئی تھی...... نماز پڑھی اور پھر سب لوگ اپنی اپنی جگہوں پر ادب سے بیٹھ گئے..... اور اپنے امام سے درس سُننے لگے - یہاں بڑے بڑے عمائدینِ سلطنت بھی درس میں شامل تھے..... فروخ بھی اپنی جگہ بیٹھے یہ درس سن رھے تھے اور خُوب محظوظ ھورھے تھے..... لیکن پہچان نہ سکے کہ یہ کون بزرگ ھیں جو مسندِ درس پر بیٹھے ھوئے ھیں.... یہاں تک کہ درس ختم ھوگیا - 
 فروخ نے اپنے بیٹھنے والے سے پوچھا ؛ درس دینے والے یہ رفیع المقام عالم کون تھے ؟ اس نے حیران ھوکر کہا: سارا مدینہ انکو جانتا ھے آپ انکو نہیں پہچانتے..... یہ ھمارے امام ربیعۃ الرائے ھیں.... انکا اصل نام تو ربیعہ ھے لیکن دین کی فقاھت میں اللہ نے انکو وہ مقام دیاھے... کہ جہاں کسی کو کوئی علمی مشکل پیش آئے.....!

وہ ان سے پوچھتے ھیں..... ان ھی کی رائے کو اھمیت دیجاتی ھے - اسی وجہ سے لوگ انھیں ربیعہ کی بجائے " ربیعۃ الرائے " کہتے ھیں - فروخ نے کہا لیکن تم نے مجھے ان کا نسب ( بن فلاں وغیرہ ) تو بتایا نہیں ؟ تو اس شخص نے کہا: ھاں سُنو.! یہ ھیں فرخ کے بیٹے ربیعۃ الرائے -
یہ سنتے ھی فروخ کی آنکھوں سے آنسُو چھلک پڑے - وہ دوسرا شخص نہ جانتا تھا کہ یہ آنسو کیوں بہہ پڑے.... پھر جلدی سے فروخ گھر آئے اور خوشی میں پُھولے اپنی زوجہ سے کہنے لگے... میں نے آج تک اتنی عزت کسی کی نہیں دیکھی, جس قدر ھمارے بیٹے ربیعہ کو اللہ تعالٰی نے دی ھے - اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ھے, جس نے ھمارے بیٹے کو اتنا بڑا مقام عطا فرمایا - اور پھر اپنی زوجہ کا شکریہ ادا کرنا فروخ نے ضروری جانا..... کہ تمھاری اچھی تربیت نے آج مجھے خوشی کا یہ دن دکھایا - 
بیوی نے کہا ؛ آپ کو بیٹے کی یہ عظمت و شان پسند ھے یا وہ تیس ھزار اشرفیاں جو آپ جاتے ھوئے چھوڑ کرگئے تھے.... فروخ نے جواب دیا.... بخدا. ! تیس ھزار اشرفیاں اس مرتبے اور شان کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتیں - بیوی نے کہا ؛ تو سن لیجئے. ! وہ ساری رقم میں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خرچ کر ڈالی ھے - فروخ مُسکرائے اور کہا..... اللہ کی قسم.
اُن سونے کی اشرفیوں کا اس سے بہتر استعمال اور کیا ھوسکتا ھے....!

حضرت خالد بن ولید ایک عجیب جرنیل

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے انتقال کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو ہر گھر میں کہرام مچ گیا ۔ 
جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو لوگوں نے یہ دیکھا کہ آپ کا گھوڑا *’’ اشجر ‘‘* جس پر بیٹھ کے آپ نے تمام جنگیں لڑیں ، وہ بھی آنسو بہارہا تھا ۔ 
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ترکی میں صرف ہتھیار ، تلواریں ، خنجر اور نیزے تھے ۔ 
ان ہتھیاروں کے علاوہ ایک غلام تھا جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا ،،اللہﷻ کی یہ تلوار جس نے دو عظیم سلطنتوں (روم اور ایران) کے چراغ بجھائے ۔
وفات کے وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، آپ نے جو کچھ بھی کمایا، وہ اللہﷻ کی راہ میں خرچ کردیا۔
ساری زندگی میدان جنگ میں گزار دی ۔
صحابہ نے گواہی دی کہ ان کی موجودگی میں ہم نے شام اور عراق میں کوئی بھی جمعہ ایسا نہیں پڑھا جس سے پہلے ہم ایک شہر فتح نہ کرچکے ہوں یعنی ہر دو جمعوں کے درمیانی دنوں میں ایک شہر ضرور فتح ہوتا تھا۔
بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے حضرت خالد کے روحانی تعلق کی گواہی دی ۔

*خالد بن ولید کا پیغام مسلم امت کے نام :*

*موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے ۔جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے ، زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا اور*
 *موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ،،*
دنیا کے بزدل کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میدانِ جہاد میں موت لکھی ہوتی تو اس خالد بن ولید کو موت بستر پر نہ آتی۔
           رضی اللہ تعالٰی عنہُ

اس پیغام کو اس دور میں ہر مسلمان کو ضرور پڑھانا چاہئے، اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے قول کو وقتآ فوقتآ دہراتے رہنا چاہئے

ر وقت نکاح کے تعلق سے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کے اقوال

*بر وقت نکاح کے تعلق سے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کے اقوال*

                    *نکاح*
اگر بارہ تیرہ سال میں بچے بچیاں بالغ ہو رہے ہیں اور 25 - 30 سال تک نکاح نہیں ہو رہا ہے تو یہ جنسی مریض بھی بنیں گے اور گناہ بھی کریں گے۔

                   *نکاح*
 وقت پہ نکاح اولاد کا حق ہے ، اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار کرتی ہے۔

                  *نکاح*
ہر غیر شادی شدہ جوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی طلب رکھتے ہیں اور یہ ایک فطری ضرورت ہے لہذا اپنے بالغ بچے بچیوں کے نکاح کا  بندوبست کریں۔

                  *نکاح*
بھوک پیاس کے بعد بالغ انسان کی تیسری اہم ضرورت جنسی تسکین ہے ، اور جب جائز ذریعہ نہ ہو تو بچہ / بچی گناہ اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

                  *نکاح*
بدقسمتی کی انتہا ، اسکول ، یونیورسٹیز میں بڑی بڑی لڑکیاں لڑکے بغیر نکاح علم حاصل کر رہے ہیں ، اور والدین کو نکاح کی پرواہ ہی نہیں۔

                  *نکاح*
انسان کی جنسی ضرورت کا واحد باعزت حل نکاح ہے ، اور  اگر نکاح نہیں تو زنا عام ہوگا یہ عام فہم نتیجہ ہے۔

                  *نکاح*
 اپنی بچیوں کے سروں پہ دوپٹہ ڈالنے کا مقصد تب پورا ہوگا جب ان کا نکاح وقت پہ ہوگا۔

                  *نکاح*
اللہ تعالی نے معاشرتی اعمال میں سے نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے۔

                  *نکاح*
نکاح انسانوں کا طریقہ ہے ، جانور بغیر نکاح کے رہتے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔

                  *نکاح*
والدین اپنی اولاد پہ رحم کریں اور وقت پہ نکاح کا بندوبست کریں۔

ہدایت : *یہ کوئی فحش پوسٹ نہیں ہے ایک درس ہے جو ہر والدین کی ضرورت ہے ، بےحیائی کو روکنے کا اور گناہوں سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کا ذریعہ ہے*

اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔

(جزاکم اللہ خیرا)
گروپ آؤ دین سیکھیں

ہندستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں

"گاہے گاہے باز خواں"
(ہندستان میں مسلمانوں کی 
موجودہ صورت حال اور حضرت 
تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں)
ملک کی ٓازادی میں علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا جو کردار رہا ہے وہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے۔آرایس ایس اور کٹر ہندو تنظیمیں لاکھ تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش کریں لیکن حق کے متلاشی کو اصل حقیقت تک رسائی ہو ہی جاتی ہے۔ملک کی آزادی کے آخری دور کی جدوجہد میں علمائے دیوبند کا نام سر فہرست ہے۔ان علماءمیں قائد کی حیثیت سے شیخ الھند مولانا محمودالحسن دیوبندی ؒ ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اورمولانا عبید اللہ سندھیؒ کا نام آتا ہے۔ان کی قیادت میں علماءو طلبائے دیوبند آزادی ہند کی تحریک چلا رہے تھے ۔ہندوستان کو آزادی تو مل گئی لیکن تقسیم کے ساتھ۔ یعنی پاکستان کے نام سے ایک علاحدہ ملک بھی وجود میں آگیا۔ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری ان ہی علماءکی رہی جنہوں نے بٹوارے کی مخالفت کی تھی۔ چنانچہ ہمیں صرف تصویر کا ایک رخ دکھایا گیا یعنی ہمیں صرف یہ بتایا کہ علمائے دیوبند ملک کے بٹوارے کے مخالف تھے۔ مسلمانوں کے لئے علاحدہ مملکت کا مطالبہ دیندار طبقے کی طرف سے نہیں کیا گیاتھا بلکہ یہ مطالبہ محمد علی جناح کا تھا جو ایک سیکولر آدمی تھے اور مذہب کا نام صرف اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے لیا کرتے تھے۔علماءنے جناح کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ افسوس صد افسوس کہ ہندستان کے مسلمانوں کو صرف آدھا سچ بتایا اور باقی آدھا سچ کسی سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جید علما دیوبند کا ایک بہت بڑا طبقہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں کانگریس سے بدظن تھا. کانگریس کو مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سمجھتا تھا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کٹر دشمن ہندوﺅں کا غلبہ تھا لیکن معلوم نہیں کہ کیوں اس تاریخی حقیقت کو ہندستانی مسلمانوں سے چھپایا گیا؟
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جمیعة علماء ہند کو بار بار متنبہ کیا کہ: ہندوﺅں پر بھروسہ کرنا غیردانشمندی ہے۔انگریزوں سے زیادہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں. برسراقتدار ہونے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناکچھ رعایت کا معاملہ کرتے ہیں لیکن اگر یہ ہندو برسراقتدار آگئے تو وہ مسلمانوں کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے.
خلافت کا معاملہ مسلمانوں کا ایک شرعی مسئلہ ہے لیکن تحریک خلافت کے دوران جو طریقہ کار اختیار کئے گئے نیز تحریک کو گاندھی کے ذریعے اچک لئے جانے کے سبب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تحریک سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔ چناں چہ ایک مجلس میں فرمایا کہ تدابیر کو کون منع کرتا ہے تدابیر کریں مگرحدود شرعیہ میں رہ کرچونکہ مسلمانوں نے تدابیر غیر شرعیہ کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا ہے تو اس صورت میں اول تو کامیابی مشکل ہے اگر ہو بھی گئی تو ہندوﺅں کو ہوگی اور اگر مسلمانوں کو ہوئی توہندو نما مسلمانوں کو ہوگی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ 278) 
 تحریک خلافت کے دوران ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کی غرض سے مسلمان بہت سی غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ماتھے پہ قشقے لگائے اور جئے کے کفریہ نعرے بلند کئے۔ ہندوﺅں کی ارتھی کو کندھے دیئے۔ مساجد میں کافروں کو بٹھاکر منبر رسول ﷺ کی بے حرمتی کی۔ رام لیلا کا انتظام کیا. ایک عالم دین نے انکشاف کیا کہ اگر ختم نبوت نہ ہوتی گاندھی مستحق نبوت تھا
 یہ تمام قابل اعتراض امور مولانا کو سخت ناپسند اور ناگوار گزرے. اس لئے آپ کے ملفوظات میں بار بار ان باتوں کی مذمت ملے گی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ109)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان لیڈروں نے گاندھی کے اقوال کو حجت بنا لیا ہے۔ وہ لیڈر اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ جوں ہی *گاندھی کے منھ سے کوئی بات نکلے اس کو فوراً قرآن و حدیث پر منطبق کردیا جائے.
 فرماتے ہیں:
 اس تحریک میں کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو کسی مسلمان یا عالم کی تجویز ہو، دیکھئے ہوم رول گاندھی کی تجویز ،بائیکاٹ گاندھی کی تجویز ،کھدر گاندھی کی تجویز، ہجرت کا مسئلہ گاندھی کی تجویز غرض کہ جملہ تجویزیں اس کی ہیں‘ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس نے جو کہا لبیک کہہ کر اس کے ساتھ ہوگئے‘ کچھ تو غیرت آنی چاہئے۔ ایسے بدفہموں نے اسلام کو سخت بدنام کیا ہے۔ سخت صدمہ ہے ‘سخت افسوس ہے‘ اس کی باتوں کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
(الافادات یومیہ جلد اول صفحہ 89-90)
اس سلسلے میں آپ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ سہارن پور میں ایک وعظ ہوا ۔ایک مقرر نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سوراج مل گیا تو ہندو اذان نہ ہونے دیں گے تو کیا بلا اذان نماز نہیں ہوسکتی۔ کہتے ہیں گائے کی قربانی بند کر دیں گے تو کیا بکرے کی قربانی نہیں ہوسکتی‘ کیا گائے کی قربانی واجب ہے۔
 یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرزفکر پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ:
اس مقرر کے بیان میں ایک بات باقی رہ گئی، اگر وہ یہ بھی کہہ دیتا تو جھگڑا ہی باقی نہ رہتا کہ اگر ہندوﺅں نے اسلام اور ایمان پر زندہ رہنے نہ دیا تو کیا بغیر اسلام اور ایمان کے زندہ نہ رہیں گے.
یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے دوست نما دشمن ہیں. (الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 86)
ہندو مسلم اتحاد کے جوش میں کچھ مسلمانوں نے مشہور متعصب ہندو لیڈر سردھانند (جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے خلاف شدھی کی تحریک چلائی) کو جامع مسجد دہلی میں لے جا کر اس کا وعظ کروایا.
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ وہ یہ حرکت کر کے منبر رسول ﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں.
 ۔تحریک خلافت کے دوران ہندوﺅں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنے لیڈروں کی جئے بولا کرتے تھے۔
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لفظ جئے چوں کہ شعار کفر ہے اس لئے مسلمانوں کا یہ فعل بھی شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض تھا۔
(الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 611 )
جو لوگ آپ کی تحریک خلافت میں عد م شمولیت پر اعتراض کرتے تھے آپ انہیں جواب دیتے کہ *اگر تمہاری موافقت کی جائے تو ایمان جائے ہے اس میں حدود شریعت کا تحفظ نہیں.
( الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 65)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہندو مسلمانوں کے اول درجہ دشمن تھے۔ آپ کے ملفوظات میں جہاں کہیں ہندوﺅں کا ذکر آیا ہے آپ نے ان کے لئے سخت ترین الفاظ استعمال کئے ہیں. مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات پر ہندوﺅں سے سخت گلہ شکوہ تھا کہ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑی اور وہ بھی اس میں برابر کے شریک تھے مگر جنگ آزادی کے خاتمے پر وہ نہ صرف انگریزوں سے مل گئے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کی مخبری کرکے انہیں پھانسی پر چڑھوادیا. 
۔اسی سلسلے میں فرمایا کہ:
”یہ قوم (ہندو) نہایت احسان فراموش ہے. مسلمانوں کو تو اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ انگریزوں کی خدمت کے صلے میں جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا وہ ظاہر ہے. دیکھو غدر سب کے مشورے سے شروع ہوا جو کچھ بھی ہوا مگر اس پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا. بڑے بڑے رئیس و نواب ان کی (ہندو) بدولت تختہ پر سوار ہوگئے پھر تحریک کانگریس میں مسلمان شامل ہوئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ اس کا صلہ شدھی کے مسئلے سے ادا ہوا۔ آئے دن کے واقعات اسی کے شاہد ہیں کہ ہر جگہ مسلمانوں کی جہاں آبادی مسلمانوں کی قلیل دیکھی پریشان کر دیا مگر ان باتوں کے ہوتے ہوئے بھی بعض بدفہم اور بے سمجھ ان کو دوست سمجھ کر ان کی بغلوں میں گھستے ہیں۔)
الا فاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (529)

اور ایک مجلس میں ہندوﺅں کے اس طرزعمل کے متعلق فرمایا کہ ہندوﺅں کی قوم عالی حوصلہ نہیں ان کے وعدے وعید کا اعتبار نہیں. انگریزوں سے اگر دشمنی کی بنا یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ہیں تو ہندو ان سے زیادہ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں.
(الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (493-494)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سگرچہ انگریزوں کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیتے تھے لیکن ہندوﺅں کے مسلم کش رویے کو دیکھتے ہوئے آپ اس قطعی نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندو انگریزوں سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں.
۔ایک مرتبہ فرمایا کہ:
گورے سانپ سے زیادہ زہریلا کالا سانپ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر گورے سانپ کو گھر سے نکال دیاجائے تو کالا تو ڈسنے کو موجود ہے اور جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا ہی مشکل ہے.
 الافاضات یومیہ جلد ششم صفحہ (197)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہندوﺅں کے اس وجہ سے مخالف تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ ایک مجلس میں فرمایا کہ 
بعض کفار پر تو مجھے بہت ہی غیض ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق سکھایا۔ شدھی کا مسئلہ اٹھایا. مسلمانوں کو عرب جانے کی آواز اٹھائی. قربانی گاﺅ پر انہوں نے اشتعال دیا. یہ لوگ مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں بلکہ ایمان ‘ جان و مال مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔
(الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 150)

۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ:
جب تک ہم کلمہ پڑھتے ہیں تمام غیرمسلم ہمارے دشمن ہیں۔ اس میں گورے کالے کی قید نہیں 
 ۔مولانا اس امر پر حیرت کا اظہار فرماتے کہ
ہندستان میں دو کافر قومیں موجود ہیں پھر کیا بات کہ ایک ہی قوم سے اس قدر دشمنی دوسرے قوم سے کیوں نہیں؟ (الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 177)

ایک اور مجلس میں فرمایا:
بعض لوگ کفار کی ایک جماعت کو برا کہتے ہیں اور بعض دوسری کو‘ میں کہتا ہوں دونوں برے ہیں‘ فرق صرف یہ ہے کہ ایک نجاست مرئیہ ہے اور دوسری غیرمرئیہ لیکن ہیں دونوں نجاست. ( ایضاً صفحہ 256)

مولانا کے نزدیک اہل کتاب کی دشمنی اور مشرکین کی دشمنی کے درمیان ایک فرق موجود تھا ۔آپ کے خیال میں اہل کتاب دین کے دشمن نہیں دنیا کے دشمن ہیں گو اس کے ضمن میں وہ دین کی دشمنی بھی کرجاتے ہیں- اس کے مقابلے میں مشرکین دین کے دشمن ہیں. اس کا معیار یہ ہے کہ جس قدر قوت اور سطوت اہل کتاب کو حاصل ہے ‘اگر مشرکین کو حاصل ہوجائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کا بیج تک نہ چھوڑیں۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 83)

 ایک اور موقع پہ فرمایا کہ: 
اگر ہندوﺅں کو انگریزوں کی طرح قوت حاصل ہوتی تو ہندوستان میں ایک بچہ بھی زندہ نہ چھوڑتے۔ 
(الافاضات یومیہ جلد سوم صفحہ 71)
ہندوﺅں کی مسلم دشمنی کو مدنظر مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نتیجے پر پہنچے تھے کہ قیامت آجائے ہندو کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ اور ہمدرد نہیں ہوسکتے۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 638)
( #ایس_اے_ساگر )

آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو!

آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو!



[ یہ تحریر ایک گروپ سے موصول ہوئی ہے۔ اس میں فارغین مدارس اور منتظمین مدارس کے حوالے سے بڑی فکر انگیز اور قابل توجہ باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ مضمون نگار نے ان باتوں کو حضرت مفتی تقی عثمانی کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے ؛ لیکن خدا جانے انہوں نے اپنا نام کیوں ظاہر نہیں کیا! مضمون خواہ کسی کا ہو ، اور باتیں خواہ کسی کی نقل کی گئی ہوں ؛ لیکن باتیں ہیں واقعی اور مبنی بر حقیقت! 
درست املا اور رموز اوقاف املا کے اہتمام اور کسی قدر ظاہری ترتیب و تہذیب کے بعد تحریر پیش ہے۔ خالد سیف اللہ صدیقی] 



     ہمارے شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ایک مرتبہ اپنے صحیح بخاری کے درس میں طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ "آج جس طالب علم کو بھی دیکھو وہ جب مدرسے سے عالم بن کر نکلتا ہے تو وہ یا تو کسی مدرسے میں کل وقتی استاذ بن جاتا ہے یا وہ اپنا مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتا ہے ؛ اس لیے ہر گلی ، ہر موڑ ، ہر چوک چوراہے پر مدرسہ ہی مدرسہ دیکھنے میں آتا ہے ، جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اتنے سارے مدارس کھلنے کی وجہ سے مخیر حضرات کی کمی ہوگئی۔ اور دوسرا عام لوگوں کا ذہن یہ بن گیا کہ وہ جب بھی کسی مولوی کو دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں فورًا یہ بات آجاتی ہے کہ یہ مانگنے کے لیے آیا ہوگا۔اس لیے آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو! آپ مدرسے کو کل وقت نہ دو! آپ جز وقتی بن جاؤ اور دین کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط بناؤ ،  اور جو مدارس دینیہ کھلے ہوئے ہیں ان کے معاون بن جاؤ! ان کے ہاتھ مظبوط کرو! ان کے ساتھ تعاون کرو! اگر آپ لوگ تعاون کروگے تو اس سے ایک تو آپ کی حلال کمائی کی وجہ سے برکتیں آئیں گی اور دوسرا یہ کہ عام لوگ بھی متوجہ ہوں گے"۔
     آج کل ہم مولوی لوگ جتنا معاشی اعتبار سے پیچھے پڑگئے ہیں شاید ہی کوئی اور طبقہ ہو جو اس قدر پریشان حال ہو، اس کی وجہ کم از کم میرے ذہن میں تو یہ ہے کہ ہم نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم صبح سے شام ، شام سے صبح تک صرف مدرسے کی چار دیواری میں قید ہوکر رہ گئے ہیں ، اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے۔ اور ایک مہینہ کی تنخواہ لے کر اگلے دن سے پھر دوسرے ماہ کے مکمل ہونے کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ استاذ جو علم بچوں کو پڑھا رہا ہے وہ اللہ کی رضا نہیں بلکہ اپنے گزر بسر کا وسیلہ بنایا ہوا ہے اور اس وجہ سے علم کا نور ختم ہوجاتا ہے۔
      آج کیا وجہ ہے کہ ہمارے مدارس میں حضرت شیخ الہند نہیں پیدا ہورہا ؟ حضرت مدنی ، حضرت سندھی ، حضرت لاھوری جیسے اکابرین امت نہیں پیدا ہو رہے؟ جب کہ تعلیم وہ ہی ہے ، کتابیں وہ ہی ہیں ، اوقات وہ ہی ہیں ، ہر چیز وہ ہی ہے ؛ لیکن تقوی و پرہیزگاری ختم ہوگئی۔ کتابوں کا ، اساتذہ کا ، صندلیوں کا ،مدرسے کی چار دیواری کا ، مطبخ کا ، مسجد کا ، باورچی کا ، والدین کا ، عزیز و اقارب کا ، رشتے داروں کا ادب ختم ہوگیا۔ احترام کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ تقویٰ و پرہیز گاری اور اللہ کے سامنے گڑگڑانا ختم ہو گیا۔
     آج ہمارے طلبہ کو اگر اساتذہ دیکھ رہے ہیں تو وہ ایسی نماز پڑھیں گے جیسے جبرئیل کے بھتیجے ہوں ؛ لیکن استاذ کی نظر اگر تھوڑی سی ایک طرف ہوئی اور تو وہ کھیلنے کودنے میں شروع ہو گیا۔
    حضرت شیخ الہند رحمہ اللّٰہ کے متعلق ایک رسالے میں میں نے پڑھا تھا کہ حضرت بچپن میں دوران طالب علمی اس طرح چھپ کر تہجد کی نماز ادا کرتے تھے کہ اگر کہیں سے یہ محسوس ہوتا کہ کوئی انھیں دیکھ رہا ہے تو وہ بالکل ساکن ہوجاتے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ نیند میں ہوں۔ یہ تھا خشیت الٰہی ، جس کی وجہ سے اللہ پاک نے انہیں وہ مقام عطا فرمایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔
     اے اہل مدارس! خدارا اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں! بچوں کی اصلاح کی طرف توجہ دیں! اساتذہ جو قوم کے معمار ہیں ان کو آسودہ بنائیں! ان کی معاشی حالت بہتر بنانے کی کوشش کریں! تاکہ وہ یک سوئی محنت و لگن کے ساتھ اپنے کام کو کام سمجھتے ہوئے اپنے علم کو اپنی نئی نسل کے اندر منتقل کریں! اور اپنے استعداد سے وہ ان طلبہ کو بھرپور مستفیض کرسکیں۔
     آج مدرسے کا مہتمم مدرسے کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور جو استاذ اس کے آگے پیچھے نہیں ہوتا ، اسکے ہر اچھے برے کی تعریف نہیں کرتا ، چاہے وہ کتنا ہی محنت کرنے والا کیوں نہ ہو۔۔وہ حضرت مہتمم صاحب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ؛ لیکن اس کی جگہ ایک کم علم اور کام چور استاذ ہے لیکن مہتمم صاحب کا خاص ہے تو وہ حضرت کے سامنے "ہیرو" ہے۔
     اس لیے آج ہمارے اساتذہ نے بھی اپنے کام کو چھوڑ کر حضرات کی خوشامد کو اپنا مشن بنالیا ہے جس کی وجہ سے علم کی برکتیں ہم سے روٹھ گئیں۔
     پھر اساتذہ کو دیکھیے! اگر مہتمم صاحب یا ناظم اعلیٰ صاحب میں سے کوئی مدرسے میں موجود ہوگا تو ہم دل و جان سے پڑھائی میں مصروف رہیں گے لیکن جیسے ہی ہر دو حضرات میں سے کوئی ایک بھی ایک طرف ہوا ، ہم اپنے اسباق وہیں چھوڑ کر تکیے کے ساتھ ٹیک لگاکر موبائل چلانا شروع کردیں گے۔
     مجھے بتائیے کہ جب مہتمم اور اساتذہ کی یہ حالت طلبہ دیکھیں گے تو وہ کیا سبق سیکھیں گے؟ کیوں کہ طلبہ ہوں یا گھر میں چھوٹے بچے وہ اپنے بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔ جو کام ہم گھر یا مدرسہ میں کریں گے ہماری نئی نسل وہ ہی کام سیکھے گی۔
       اب اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہم اپنے پیشے سے سچے ہیں؟ جب ہماری دلوں سے اخلاص رخصت ہوگیا۔ سچائی روٹھ گئی۔ لگن سے کام کرنا چھوڑ دیا ، تو وہ طلبہ حضرت مدنی و امروٹی بنیں گے یا وہ ایک چھوٹی سی مسجد میں لوگوں کے غسل ، جنازے اور تدفین اور ختموں کے منتظر رہیں گے ؟
      دست بدست گذارش ہے کہ مہتممین حضرات ہوں یا اساتذہ اپنی انا کی خاطر ان معصوم طلبہ کا مستقبل تباہ نہ کیجیے اور ساری زندگی مدرسے کی چار دیواری اور مسجد کے محراب میں بیٹھ کر نہ گزارئیے بلکہ اپنا کام محنت و لگن سے سرانجام دیں اور اس کے بعد اپنی معیشت کو مضبوط کرکے ان دینی مدارس کے ہاتھ مضبوط کیجیے!▪️

اسلامی ضروری معلومات

*غسل کے فراٸض:*
*غسل کے تین فراٸض ہیں*

1. کلی کرنا
2. ناک میں پانی ڈالنا
3. تمام بدن پر پانی بہانا


👇👇👇
*غسل کی سنتیں*
*غسل کی پانچ سنتیں ہیں*

1. دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا
2. استنجا کرنا
3. نیت کرنا 
4. وضو کرنا
5. تمام بدن پر پانی بہانا



👇👇👇
*وضو کے فراٸض*
*وضو کے چار فرض ہیں*

1. منہ دھونا
2. کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا
3. چوتھاٸی سر کا مسح کرنا
4. ٹخنوں سمیت دونوں پاٶں دھونا



👇👇👇
*وضو کی سنتیں*
*وضو کی تیرہ سنتیں ہیں*
1. نیت کرنا
2. بسم اللہ پڑھنا
3. تین بار دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا
4. مسواک کرنا
5. تین بار کلی کرنا
6. تین بار ناک میں پانی ڈالنا
7. ڈاڑھی کا خلال کرنا
8. ہاتھ پاٶں کی انگلیوں کا خلال کرنا
9. ہر عضو کو تین بار دھونا
10. ایک بار تمام سر کا مسح کرنا
11. ترتیب سے وضو کرنا
12. دونوں کانوں کا مسح کرنا
13. پے در پے وضو کرنا



👇👇👇
*نواقض وضو*
*وضو آٹھ چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے*
1. پاخانہ پیشاب کرنا
2. ریح یعنی ہوا کا نکلنا
3. خون یا پیپ کا نکل کر بہہ جانا
4. منہ بھر کے قے کرنا
5. بیہوش ہو جانا
6. لیٹ کر یا ٹیک لگا کر سو جانا
7. دیوانہ ہو جانا
8. نماز میں اونچا ہنسنا



👇👇👇
*تیمم کے فراٸض*
*تیمم کے تین فراٸض ہیں*

1. نیت کرنا
2. کہنیوں سمیت ہاتھوں کا مسح کرنا
3. چہرے کا مسح کرنا



👇👇👇
*نماز کی شرائط*
*نماز کی سات شرائط ہیں*

1. بدن کا پاک ہونا
2. کپڑوں کا پاک ہونا
3. جگہ کا پاک ہونا
4. ستر کا چھپانا
5. قبلہ کی طرف منہ کرنا
6. نماز کا وقت ہونا
7. نماز کی نیت کرنا



👇👇👇
*نماز کے فراٸض*
*نماز کے چھے فرض ہیں*

1. تکبیر تحریمہ کہنا
2. قیام کرنا
3. قرأت کرنا
4. رکوع کرنا
5. سجدہ کرنا
6. آخری قعدہ تشھد کی مقدار بیٹھنا



👇👇👇
*نماز کے واجبات*
*نماز کے چودہ واجبات ہیں*

1. فرض کی پہلی دو رکعتوں کو قرأت کیلۓ متعین کرنا
2. فرض نماز کی آخری دو رکعتوں کے علاوہ باقی ہر رکعت میں سورة الفاتح پڑھنا
3. فرض نماز کی آخری رکعتوں کے علاوہ سورہ الفاتحہ کے بعد کوٸی چھوٹی سورت یا تین آیات پڑھ
4. سورة الفاتحہ کو سورت سے پہلے پڑھنا
5. قومہ کرنا
6. جلسہ کرنا
7. دونوں قعدوں میں تشھد پڑھنا
8. ترتيب قاٸم رکھنا
9. تعدیل ارکان 
10. جہری نمازوں میں جہر کرنا اور سری نمازوں میں آہستہ آواز میں پڑھنا
11. قعدہ اولی 
12. لفظ سلام سے نماز سے باہر نکلنا
13. وتروں میں دعاۓ قنوت پڑھنا
14. عیدین میں چھ زائد تکبیریں کہنا



👇👇👇
*نماز جنازہ کے فراٸض*
*نماز جنازہ کے دو فرض ہیں*

1. چار تکبیریں کہنا
2. قیام کرنا


👇👇👇
*کھانے کے آداب*
1. ہاتھ دھو کر کھانا
2. کھانے کی دعا پڑھنا یعنی بسم اللہ وعلٰی برکت اللہ پڑھنا
3. اپنے سامنے سے کھانا
4. دسترخوان بچھا کر کھانا
5. برتن پر جھک کر نہ کھانا
6. برتن کو صاف کرنا
7. مسنون طریقہ سے بیٹھ کر کھانا
8. کھانا کھانے کے بعد کی دعا پڑھنا یعنی الحمد للہ الذی اطعمنا و سقانا و جعلنا من المسلمین پڑھنا
9. اکرام مسلم کرنا
10. کھانے کے بعد ہاتھ دھونا



👇👇👇
*پانی پینے کے آداب*

1. بسم اللہ پڑھ کر پینا 
2. دیکھ کر پینا
3. بیٹھ کر پینا 
4. تین سانسوں میں پینا
5. ہر سانس کے بعد الحمد للہ کہنا
6. پینے کے بعد الحمد للہ پڑھنا


👇👇👇
*سونے کے آداب* 
1. باوضو ہو کر سونا
2. مسنون اذکار یعنی سورہ الفاتحہ . آیتہ الکرسی . سورة حم السجدہ . سورة الملک . سورة الاخلاص . سورة الفلق . سورة الناس پڑھنا
3. بستر کو جھاڑ کر بچھانا
4. سونے سے پہلے سونے کی دعا پڑھ کر سونا یعنی اللھم باسمک اموت و احیٰ
5. سونے سے پہلے مسواک کرنا 
6. داٸیں کروٹ سونا
7. قبلہ کی طرف منہ کر کے سونا 
8. تہجد کی نیت کر کے سونا
9. مسنون طریقہ پر سونا یعنی قبلہ کی طرف منہ کر کے دایاں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر اور بایاں ہاتھ کولہے کے اوپر رکھ کر ٹانگوں میں تھوڑا خم کر کے سونا 
10. سو کر اٹھنے کے بعد یہ دعا پڑھنا الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور.

*یہ تحریر بچوں کے لۓ لکھی گٸ ہے جس سے بڑے بھی فاٸد حاصل کر سکتے ہیں احباب سے گزارش ہے کہ اپنے تمام عزیز و اقارب کو بھیجیں اور اگر اللہ پاک نے آپ کو وسعت دی ہے تو یہ پرنٹ نکلوا کر مساجد میں آویزا کریں ان شاء اللہ مستقل صدقہ جاریہ ہو گا*۔۔*غسل کے فراٸض:*
*غسل کے تین فراٸض ہیں*

1. کلی کرنا
2. ناک میں پانی ڈالنا
3. تمام بدن پر پانی بہانا


👇👇👇
*غسل کی سنتیں*
*غسل کی پانچ سنتیں ہیں*

1. دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا
2. استنجا کرنا
3. نیت کرنا 
4. وضو کرنا
5. تمام بدن پر پانی بہانا



👇👇👇
*وضو کے فراٸض*
*وضو کے چار فرض ہیں*

1. منہ دھونا
2. کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا
3. چوتھاٸی سر کا مسح کرنا
4. ٹخنوں سمیت دونوں پاٶں دھونا



👇👇👇
*وضو کی سنتیں*
*وضو کی تیرہ سنتیں ہیں*
1. نیت کرنا
2. بسم اللہ پڑھنا
3. تین بار دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا
4. مسواک کرنا
5. تین بار کلی کرنا
6. تین بار ناک میں پانی ڈالنا
7. ڈاڑھی کا خلال کرنا
8. ہاتھ پاٶں کی انگلیوں کا خلال کرنا
9. ہر عضو کو تین بار دھونا
10. ایک بار تمام سر کا مسح کرنا
11. ترتیب سے وضو کرنا
12. دونوں کانوں کا مسح کرنا
13. پے در پے وضو کرنا



👇👇👇
*نواقض وضو*
*وضو آٹھ چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے*
1. پاخانہ پیشاب کرنا
2. ریح یعنی ہوا کا نکلنا
3. خون یا پیپ کا نکل کر بہہ جانا
4. منہ بھر کے قے کرنا
5. بیہوش ہو جانا
6. لیٹ کر یا ٹیک لگا کر سو جانا
7. دیوانہ ہو جانا
8. نماز میں اونچا ہنسنا



👇👇👇
*تیمم کے فراٸض*
*تیمم کے تین فراٸض ہیں*

1. نیت کرنا
2. کہنیوں سمیت ہاتھوں کا مسح کرنا
3. چہرے کا مسح کرنا



👇👇👇
*نماز کی شرائط*
*نماز کی سات شرائط ہیں*

1. بدن کا پاک ہونا
2. کپڑوں کا پاک ہونا
3. جگہ کا پاک ہونا
4. ستر کا چھپانا
5. قبلہ کی طرف منہ کرنا
6. نماز کا وقت ہونا
7. نماز کی نیت کرنا



👇👇👇
*نماز کے فراٸض*
*نماز کے چھے فرض ہیں*

1. تکبیر تحریمہ کہنا
2. قیام کرنا
3. قرأت کرنا
4. رکوع کرنا
5. سجدہ کرنا
6. آخری قعدہ تشھد کی مقدار بیٹھنا



👇👇👇
*نماز کے واجبات*
*نماز کے چودہ واجبات ہیں*

1. فرض کی پہلی دو رکعتوں کو قرأت کیلۓ متعین کرنا
2. فرض نماز کی آخری دو رکعتوں کے علاوہ باقی ہر رکعت میں سورة الفاتح پڑھنا
3. فرض نماز کی آخری رکعتوں کے علاوہ سورہ الفاتحہ کے بعد کوٸی چھوٹی سورت یا تین آیات پڑھ
4. سورة الفاتحہ کو سورت سے پہلے پڑھنا
5. قومہ کرنا
6. جلسہ کرنا
7. دونوں قعدوں میں تشھد پڑھنا
8. ترتيب قاٸم رکھنا
9. تعدیل ارکان 
10. جہری نمازوں میں جہر کرنا اور سری نمازوں میں آہستہ آواز میں پڑھنا
11. قعدہ اولی 
12. لفظ سلام سے نماز سے باہر نکلنا
13. وتروں میں دعاۓ قنوت پڑھنا
14. عیدین میں چھ زائد تکبیریں کہنا



👇👇👇
*نماز جنازہ کے فراٸض*
*نماز جنازہ کے دو فرض ہیں*

1. چار تکبیریں کہنا
2. قیام کرنا


👇👇👇
*کھانے کے آداب*
1. ہاتھ دھو کر کھانا
2. کھانے کی دعا پڑھنا یعنی بسم اللہ وعلٰی برکت اللہ پڑھنا
3. اپنے سامنے سے کھانا
4. دسترخوان بچھا کر کھانا
5. برتن پر جھک کر نہ کھانا
6. برتن کو صاف کرنا
7. مسنون طریقہ سے بیٹھ کر کھانا
8. کھانا کھانے کے بعد کی دعا پڑھنا یعنی الحمد للہ الذی اطعمنا و سقانا و جعلنا من المسلمین پڑھنا
9. اکرام مسلم کرنا
10. کھانے کے بعد ہاتھ دھونا



👇👇👇
*پانی پینے کے آداب*

1. بسم اللہ پڑھ کر پینا 
2. دیکھ کر پینا
3. بیٹھ کر پینا 
4. تین سانسوں میں پینا
5. ہر سانس کے بعد الحمد للہ کہنا
6. پینے کے بعد الحمد للہ پڑھنا


👇👇👇
*سونے کے آداب* 
1. باوضو ہو کر سونا
2. مسنون اذکار یعنی سورہ الفاتحہ . آیتہ الکرسی . سورة حم السجدہ . سورة الملک . سورة الاخلاص . سورة الفلق . سورة الناس پڑھنا
3. بستر کو جھاڑ کر بچھانا
4. سونے سے پہلے سونے کی دعا پڑھ کر سونا یعنی اللھم باسمک اموت و احیٰ
5. سونے سے پہلے مسواک کرنا 
6. داٸیں کروٹ سونا
7. قبلہ کی طرف منہ کر کے سونا 
8. تہجد کی نیت کر کے سونا
9. مسنون طریقہ پر سونا یعنی قبلہ کی طرف منہ کر کے دایاں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر اور بایاں ہاتھ کولہے کے اوپر رکھ کر ٹانگوں میں تھوڑا خم کر کے سونا 
10. سو کر اٹھنے کے بعد یہ دعا پڑھنا الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور.

*یہ تحریر بچوں کے لۓ لکھی گٸ ہے جس سے بڑے بھی فاٸد حاصل کر سکتے ہیں احباب سے گزارش ہے کہ اپنے تمام عزیز و اقارب کو بھیجیں اور اگر اللہ پاک نے آپ کو وسعت دی ہے تو یہ پرنٹ نکلوا کر مساجد میں آویزا کریں ان شاء اللہ مستقل صدقہ جاریہ ہو گا*۔۔

بد نظری پر ایک عجیب مضمون

ایک عالم دین کا واٹس ایپ گروپ میں اپنے ساتھیوں کو ناصحانہ مشورہ 
آپ حضرات فیس بک مکمل ڈیلیٹ کردیں۔۔۔۔اس سےآپ بڑےبڑےگناہوں سےبچ جائیں گے۔۔۔۔بدنظری ،بدسماعت،خلوت کےگناہ۔۔۔۔گذشتہ دنوں تفسیرکبیرمیں حدیث نظرسےگزری کہ۔۔۔۔میدان حشرمیں ایک جماعت کو جنت کےقریب لےجایاجائیگاجب جنت کے نظارے سامنے آئیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوگاان بدبختوں کو جہنم کی طرف لےجاؤ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے سامنے اپنے کو نیک ظاہرکرتےتھےجبکہ خلوت میں گناہ کرتےتھےمیں رب سے انکو حیا نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔۔تصوف کی کسی کتاب میں دیکھاتھاکہ خلوت کےگناہوں کےسبب انسان کاخاتمہ ایمان پر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔اپنےساتھی بھائ محمد اقبال صاحب ساہیوال والوں نےایک بار عصرکے بعد تبلیغی حلقے میں ترغیبی بات ۔۔۔۔۔میں فرمایا تھا کہ دو بھائ جنہوں نے ساری زندگی دعوت کےکام میں کھپائ تھی مرتےقرآن کریم کولانےکاکہاجب لایاگیاتو کہا۔۔۔تم گواہ ہوجاؤ میں قرآن کے کتاب اللہ ہونےکاانکارکرتاہوں۔۔۔۔اور مرگیا۔۔۔۔دوسرابھائ کچھ دنوں بعد مرنےلگاتواس نےبھی یہی کیا۔۔۔۔۔۔انہیں میں سے ایک کےبیٹےنے رائیونڈ مرکزحضرت مولانا جمشید صاحب رح کوجاکر کارگزاری سنائ ،حضرت رح نے وظیفہ پڑھنےکوبتلایااور ساتھ ہی فرمایا کہ مجھےکل آکرملو۔۔۔۔۔صبح اس نےآکر کہا۔۔۔۔کہ حضرت!رات اباجی اور چچا جان مجھے خواب میں ملےانہوں نےکہاکہ بیٹے!یہ تبلیغ کا کام برحق ہے،ہمیں اپنےکیےکی سزا ملی ہےوہ یہ کہ ہم کپڑےکےتاجر تھے ،اور آنےوالی گاہک مستورات پر خوب بدنظری کرتےتھے۔۔۔۔۔اس لیےخاتمہ ایمان پر نہیں ہوا۔۔۔۔من نظر الی امرأۃ اجنبیۃ صب فی اذنیہ الانک یوم القیمۃ او کمال صلی اللہ علیہ وسلم ،کچھ دن پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کاایک کلپ ،جو انہوں نے غالبا دارالعلوم کے طلباء کو اسی موضوع پر ارشادات فرمائے،بہت مشھور ہوا کہ۔۔۔۔جو شخص  فیسبک یانیٹ والا موبائل استعمال کرتاہےاسکے بارے یہ کہنامشکل ہے کہ اس شخص میں تقوی موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔مجددغض بصر حضرت اقدس مولانا حکیم محمد اختر صاحب رح کاشاید ہی کوئ ایسا بیان ہو جس میں حضرت رح حفاظت نگاہ پر زور نہ دیتے ہوں انکےمواعظ ہم پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم ۔۔۔۔۔کس قدر گًم۔۔۔۔۔راہی۔۔۔۔۔پر گامزن ہیں۔۔۔۔۔۔اس موضوع پر ذرا اپنی اصلاح کیلیے مطالعہ توکریں۔۔۔۔امیدہےاس بلاء و گناہ سے چھٹکارا مل جائےگا۔۔۔۔یہ ہمارے پرنسلی فعل نہیں ہیں کہ کسی کو اس پر دراندازی کاحق نہ ہو۔۔۔بلکہ یاروں میں ایک دوسرے پر اصلاحی نشتر چلانا۔۔۔۔ یوم یعض الظالم یدیہ ویقول یلیتنی لم اتخذفلاناخلیلا۔۔۔۔۔کےتحت داخل ہے۔ظالم کی تعریف امام رازی نے یہ کی ہے۔۔۔من ظلم نفسہ وخالف ربہ ولم یف بما قیل لہ من ربہ۔۔۔۔اس لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ ہم سارے فیس بک آج سےہی ڈیلیٹ کریں پھر دیکھیں کیسے وہ سابقہ حلاوتِ اعمال نصیب ہوتی ہے ۔باقی رہا وہ خبروں کا چسکا تو بیسیوں aps آئ ہوئ ہیں جو آپ کو روزانہ سینکڑوں کالمز مضامین کامطالعہ کرسکتی ہیں ان میں کسی لڑکی کی تصویر نہیں ہوتی۔وہ ڈاؤن لوڈ کرلیں اور اس ذہنی عیاشی سے توبہ کریں۔۔۔۔۔۔
ملحوظ :بندہ کو فیس بک ڈیلیٹ کیے ہوئے چھےماہ مکمل ہوگئےہیں ،ساتواں مہینہ ہونےکو آیاہے ،اس گناہ سے پکی توبہ کی ہے آللہ تعالیٰ موت تک استقامت دے۔۔۔۔۔اور 
تہاکوں وی توفیق ڈیوے۔۔۔۔آمین۔۔۔۔سجاداحمدکوٹ ادوی

منقول
اللہ مجھے بھی نظروں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب کو بھی اللہ تبارک و تعالی ہم تمام کو عمل صالح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین

عورت کی ایسی (6) عادات جو اُسکی اور اُسکے اہل خانہ کی دین و دنیا سنوار سکتی ہیں

*عورت کی ایسی (6) عادات جو اُسکی اور اُسکے اہل خانہ کی دین و دنیا سنوار سکتی ہیں!*

*(1)۔ عورت روتی بہت ہے:*
 اگر عورت کا رونا اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی آخرت کی فکر پر ہو تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہر گھر میں حضرت اویس قرنیؒ جیسے بیٹے اور بی بی رابعہ بصریؒ جیسی بیٹاں جنم لیں۔

*(2)۔ عورت بولتی بہت ہے:*
 اگر عورت کا بولنا اپنے خاندان میں دعوت اسلام کو عام کرنے کے لیے ہو تو، پورا معاشرہ امن اور نور کا نمونہ بن جائے۔

*(3)۔عورت کے اندر منوانے کی خصوصیت ہوتی ہے:*
 اگر عورت اپنی من موہنی اداؤں سے اپنے گھرانے والوں کو اللہ کے احکامات کی طرف بلائے تو ہر گھر سے درود و سلام اور تلاوتِ قرآن پاک کی آوازیں بلند ہوں۔

*(4)۔ عورت بہت صابر ہوتی ہے:*
 اگر عورت اپنی نسلوں کو راہِ راست پر لانے کی خاطر اللہ کی راہ میں درپیش مشقتوں پر صبر کرنے والی بن جائے، تو اسکی اولاد کی دین اور دنیا تو سنور جائے گی ہی، ساتھ ہی ساتھ اِس عورت کا مقام بھی جنت کے اعلیٰ و ارفع مقاموں پر ہوگا۔

*(5)۔ عورت کوئی بھی بات بہت جلد آگے پھیلانے والی ہوتی ہے:*
 اگر عورت اپنی اِس عادت کو شریعی، دینی اور مذہبی باتوں کو پھیلانے کیلئے استعمال کرے تو، معاشرے کی ہر عورت اپنے آپ میں ایک عالمہ فاضلہ ہو۔

*6۔ عورت بہت زیادہ شہ خرچ ہوتی ہے:*
 اگر عورت اپنے یا اپنے شوہر کی کمائی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو رہتی دنیا تک وہ پیسہ اُسکے اور اُسکے شوہر کیلئے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔

مسلم پرسنل لا اوریونیفارم سول کوڈ—پروپیگنڈے، حقائق اور ہماری ذمہ داریاں

مسلم پرسنل لا   اوریونیفارم سول کوڈ—پروپیگنڈے، حقائق اور ہماری ذمہ داریاں
محمد ابوبکر پورنوی قاسمی
 معہدالامام ولی اللہ الدہلوی للدراسات الاسلامیہ، نیرل، مہاراشٹر
ہمارا پیارا ملک بھارت عجیب کش مکش میں پھنساہواہےیایوں کہیں کہ تاریخ کے انتہائی نازک پور پر کھڑاہے اور بدسے بدتر حالت کی طرف لے جایاجارہے۔ ایک طرف مہنگائی ، بے روزگاری اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیکڑوں مسائل کاسامناہے، دوسری طرف سیاسی اتھل پتھل اور جوڑ توڑ کا کھیل چل رہاہے، تیسری طرف ملک کی باگ ڈور جن ظالم ہاتھوں میں ہے ، وہ اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے اور ملک کو ترقی کی طرف لے جانے کے بجائے  ایسی سمت میں ڈھکیل رہے ہیں،  جوانتہائی بھیانک اورمزید تباہ کن  ہے۔ 
دراصل برہمنی لابی کے اندرپایاجانے والانسلی برتری کا احساس اور قومی تعصب،  انہیں  ملک کے اصل مسائل اور رئیل ایشوز کی طرف توجہ دینے کا موقع ہی نہیں دیتا، ان  کی اصل فکر "بھارتی سنسکرتی" کے نام پر"برہمنی تہذیب" کو تمام باشندوں پر تھوپنا   اور   پھر سےیہاں بسنے والی  تمام سماجی ،    مذہبی، تہذیبی ، ثقافتی اور قبائلی اکائیوں  کو اپنےاندر ضم کردینا اور برہمنی رنگ میں رنگ کر غلام بنالیناہے۔ان کی تمام کار روائیاں اور ان کے سارے اقدامات اسی مقصد کے لیے ہیں کہ ہر ایک کی انفرادی حیثیت ختم کردی جائے اورسب کی شناخت مٹادی جائے  ۔  ظاہر ہے کہ مسلمان اپنی تمام تر خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود علماء کی کوششوں اور قربانیوں کی  وجہ سے اب بھی اپنی مذہبی شناخت،انفرادی حیثیت، اسلامی تشخص  اور الگ پہچان کے ساتھ زندگی گزار  رہےہیں؛ اس لیے ان کے مقصد کے حصول میں  سب سے بڑی رکاوٹ  مسلمان ہیں ؛ کیوں کہ ملک کی  ہزاروں سماجی وقبائلی اکائیوں نے اپنی پہچان کھودی ہے اور وہ ہندو نہ ہونے کے باوجود ہندو سماج کا حصہ بنادیے گئے ہیں ، اور اب جن بنیادوں پر ان کی الگ الگ حیثیتیں بچی ہوئی ہیں، ان کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔  بس راہ میں اصل رکاوٹ مسلمان ہیں یا پھر سکھ برادری کے لوگ؛ لیکن  فرق یہ ہے کہ سکھوں کو بھی ان کی مرضی کے خلاف ہی سہی دستوری طورپر "ہندو "نام دے دیاگیاہے۔ 
اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی شناخت   کی بقا کا ضامن ، مذہبی  عبادتیں، رہن سہن کے طور طریقے ،  معاشرتی  احکامات اور عائلی قوانین  ہی ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ آئے دن" ہندتوا "کے حامیوں کی طرف سےنماز، عید، اذان،حج، قربانی، گوشت ، پردہ،نکاح، طلاق،حلالہ،  تعددازواج، عدت، نان ونفقہ ، وراثت  اور تبنیت   (بچہ گود لینا )وغیرہ  کو بنیاد بناکر اسلام پر بے جا اعتراضات  اور مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملے کیے جاتے ہیں، بہیمانہ طریقے سےمارا پیٹاجاتاہے، ٹارگیٹ کلنگ اورماب لنچنگ کی جاتی ہے،    ناجائز مقدمات  میں پھنسایاجاتاہے اور جیلوں میں ٹھونساجاتاہے۔ 
لیکن چوں کہ دستوری طور پرہرایک کو  مذہبی آزادی حاصل ہے  اور مذہبی عبادتیں انجام دینےکا حق  ملاہواہے، اسی طرح ہرمذہبی اور سماجی اکائی کے پرسنل لازدستوری حیثیت رکھتے ہیں، جن کے تحت  وہ اپنی عائل زندگی گزارتے اور معاشرتی احکامات بجالاتے ہیں، اوراس زمرے میں مسلمانوں  کو بھی اپنے پرسنل لاپر عمل کرنے کا پوراحق حاصل ہے، جسے "مسلم پرسنل لا" کہاجاتاہے؛ اس لیے یہ ظالم چاہتے ہیں کہ یونیفارم  سول کوڈکے ذریعے  دیگر پرسنل لاز کے ساتھ ساتھ "مسلم پرسنل لا" کو بھی ختم کردیاجائے ۔ اس طرح معاشرتی طور پر مسلمانوں کا رشتہ  مذہب سے کمزور پڑجائے گا اور دھیر ے دھیرے ختم ہوجائےگا، اورمذہبی حساسیت باقی نہیں رہے گی، پھر قانونی طورپرعبادات پر بھی قد غن لگانا آسان ہوجائےگا اور یہاں بسنے والا مسلمان یا تو ہندو بن کر رہےگا یا ہندومزاج بن کر ، بقیہ کے لیے دستوری اور قانونی طور پر بھی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ یہی اصلا  برہمنوں کی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہے اور یہ اقدامات اسٹپ بائی اسٹپ  اسی کےلیےکیے جارہےہیں۔
حالاں کہ دیگر پرسنل لاز اور "مسلم پرسنل لا" میں فرق یہ ہے کہ "مسلم پرسنل لا" کی جڑیں ہمارے عقیدہ وایمان سے جڑی ہوئی ہیں ،    اس کے تحت آنے والے زیادہ تراحکامات براہِ راست  قرآن وحدیث سے صراحتا قطعی طورپر ثابت ہیں، جن کا انکار اور رد وبدل   کفرہے اور جس میں تبدیلی کا حق کسی کونہیں ہے۔ اگرچہ بعض جزوی احکام ان سے مستنبط ہیں، جن کی حیثیت  بھی قرآن وحدیث سےبراہ راست ثابت شدہ احکام کے تقریبا برابر ہی ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کا پختہ عقیدہ ہے کہ "مسلم پرسنل لا" کے تحت آنے والے احکامات میں تاقیامت کوئی  ترمیم وتبدیلی نہیں ہوسکتی ، اور ان میں کسی طرح کی ترمیم و تبدیلی براہِ راست عقیدہ وضمیر کی آزادی پر حملہ ہے،  جو دستور کے بنیادی حقوق کےبالکل خلاف ہے۔
اس کے باوجود "مسلم پرسنل لا" کے تحت آنے والے احکامات کے خلاف عدالتوں سے کئی فیصلے بھی صادر ہوئے اور پارلیمنٹ نے  کئی قوانین بھی  بنائے، حالاں کہ دستور میں دیے گئے  بنیادی   حقوق کےخلاف نہ عدالت کوئی فیصلہ کرسکتی ہے اور نہ پارلیمنٹ  کوئی قانون بناسکتی ہے؛ لیکن "جس کی لاٹھی اسی کی بھینس" کے تحت یہ سب کچھ ہورہاہے۔   مثلا تین طلاق پر قانون بنایا گیا، جو "مسلم پرسنل" کے بالکل خلاف ہے اور دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اور قانون بھی ایسا بناگیا کہ عقل  ورطۂ حیرت میں ہے کہ تین طلاق دینے سے ایک بھی طلاق نہیں پڑے گی، جب کہ ایک طلاق  دینے ایک طلاق  ہوجاتی ہے، نیز طلاق تو ہوئی نہیں لیکن سزا ملے گی ،  یعنی جرم ہوا نہیں اور سزا ملے گی اور پھر جس بیوی کی وجہ سے شوہر  بلاوجہ کئی سال جیل کی سزا کاٹ کر آئے گا،   اسی کو اپنے گھر میں رکھےگا۔ خدائی کی رہنمائی کے بغیر انسان اپنی عقل سے اسی طرح کے بے عقلی والے فیصلے کرتاہے۔
یہ سب پروپیگنڈے  سے کیا جاتارہاہے ،کیا جارہاہے اور کیا جائے گا۔ اور انسان پروپیگنڈے سے متاثر ہوجاتاہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کےاندر فطری طورپر متأثر ہونےاور کرنے کی  صفت  پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ انسان کےشفیق پروردگار نے  اس کےاندر یہ  استعداد وصلاحیت بہت سی  حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر ودیعت کررکھی ہے؛ لیکن بسا اوقات انسان منفی پروپیگنڈوں   اور گردوپیش کے حالات سے اس طر ح متأثرہوجاتاہے کہ وہ حقائق تک پہنچے بغیر اسی چیز کو صحیح یا غلط سمجھنے لگتاہے،جس کے صحیح یا غلط ہونےکی عام فضابن جاتی ہے یا پھرسماج کے شاطر دماغ لوگوں کی طرف سے کچھ منصوبوں کے تحت بنادی جاتی ہے ، حالاں کہ بہت سی دفعہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہوتاہےجیساکہ یہ  صورت حال  اس وقت  پوری دنیا کےاندر اور خود ہمارےملک میں اسلام اور اس کےفطرت پر مبنی قوانین کےبارے میں  پائی جارہی ہے۔ 
بہت کم لوگ ہیں جوپورےغور وفکر کےساتھ اسلام کی حقیقت وحقانیت تک پہنچنے اور ا س کی عملیت ومعقولیت  کو جاننے کی کوشش کرتے ہوں اور اس کے خلاف ہموار کی گئی فضا  اور پھیلائی گئی  غلط فہمیوں سے متأثر ہوئے بغیر  کھرے کھوٹے میں  فرق کرتے ہوں،   ورنہ زیادہ تعداد انہی  لوگوں کی ہے  جو پروپیگنڈوں سے متأثر ہوکر ان غلط فہمیوں کو صحیح سمجھتے ہیں  اور اس کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں حالاں کہ حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
چناں چہ آج کل یونیفارم سول کوڈ  (تمام شہریوں کے لیے یکساں عائلی قوانین )اور مسلم پرسنل لا (شریعت اپلیکیشن ایکٹ ۱۹۳۷ءکے تحت  عائلی زندگی مثلا نکاح، طلاق، خلع، فسخ نکاح ، نفقہ،مہر،  حق پرورش ،ولایت ،ہبہ،  وصیت ، وراثت اور وقف وغیرہ سے متعلق  اسلامی قوانین) کا مسئلہ    ملک میں بہت زیادہ موضوع بحث بناہواہے اور اس سلسلے میں حکومت نے لاکمیشن کو کٹھ پتلی  بناکر پھر سے آگے کیاہے؛ لہذا اس نے ۱۴/جولائی ۲۰۲۳ء تک یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں لوگوں سے رائے عامہ طلب کی ہے۔ 
مقصد بالکل ظاہر ہے کہ ۲۰۲۴ءکا لوک سبھا الیکشن قریب ہےاور اس سے پہلے اس موضوع کو گرمانا  اور ہوادیناہے؛ تاکہ ایک مرتبہ پھر ہندو مسلم مسئلے  کو لیکر چناؤمیں اتراجائے اور فائدہ اٹھاکر  الیکش جیتاجائے، اور اس کے بعد دستوری اور قانوی طور پر بھی ملک کے "ہندو راشٹر"  ہونے کا اعلان کیا جائے۔ 
یہ بات بالکل اپنی جگہ درست ہےکہ  یونیفارم سول کا نقصان صرف مسلمانوں  کو نہیں ہوگا ؛ بل کہ تمام باشندگان ِ ہند کو ہوگا، خصوصانیچی ذات کے لوگوں  یعنی ایس سی، ایس ٹی اور اوبی سی کی  ہزاروں اکائیوں کو ہوگا، ان کی الگ الگ حیثیتیں بالکل ختم ہوجائیں گی اور اس کی وجہ سے ملنے والے ریزرویشنز اور مراعات سب چھن جائیں گے؛  لیکن پروپیگنڈہ اس طرح کیا جاتاہے اورکیا جارہاہے کہ  یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اس سے مسلمانوں کو نقصان پہونچےگا۔مزعومہ راشٹر وادکی مضبوطی اور مسلم دشمنی ایسی افیم ہے، جس کو سنگھاکر  ملک میں کچھ بھی کیا جاسکتاہے اور کیا جارہاہے۔ 
پروپیگنڈے  کی تین بنیادیں ہیں: 
۱۔ ایک ملک ، ایک قانون ۔ایک خاندان کی طرح ملک بھی ایک قانون ہی سے چل سکتاہے، دوہری ویوستھاسےنہیں چل سکتا۔ یونیفارم سول کوڈ سے اتحاد  و  بھائی چارہ بڑھےگا، راشٹرواد مضبوط ہوگا  اور ملک ترقی کرےگا۔ 
حالاں کہ بات بالکل الٹی ہے ، اس سے  راشٹر واد مضبوط نہیں بل کہ انتہائی کمزورہوگا؛ کیوں کہ راشٹر واد کی حقیقی مضبوطی یہ ہے کہ دستور (جو تمام مذہبی اور سماجی اکائیوں کے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتاہے)باقی رہے، اس پر عمل ہو ،  جمہوریت  کی بنیادیں مضبوط رہیں اور سب کو مذہبی آزادی حاصل رہے ، جب کہ  یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے مذہبی آزدی چھن جائےگی، جمہوریت پر کاری ضرب لگے گی اور دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق سلب ہونے کی وجہ سے دستور کی خلاف ورزی ہوگی اور گویا آپسی معاہدہ ختم ہوجائےگا۔   اسی طرح یہ بات بالکل بدیہی اور مشاہدے کی ہے کہ جب کسی کے حقوق چھینے جاتے ہیں اور   عقیدہ  وضمیر اور رائے کی آزدی سلب کی  جاتی ہے توجذبۂ انتقام پنپتاہے، اختلاف و انتشار بڑھتاہے  اور  ملک خانہ جنگی کی طرف چلاجاتاہے ۔چہ جائے کہ راشٹرواد مضبوط ہواورملک ترقی  کرے۔ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ 
پھر قابل غور پہلو یہ بھی  ہے کہ ملک میں امن وامان بہ حال رکھنے اور ملک کو چلانے کے لیے  جن قوانین میں یکسانیت کی ضرورت ہے، وہ پہلے سے سب کے لیے برابرہیں ۔ چناں چہ کریمنل کوڈ یا پینل کوڈ(ضابطۂ فوج داری )  مکمل طور پر سب کے لیے یکساں ہے اور سول کوڈ(ضابطۂ  دیوانی )   کا بھی اکثر حصہ مثلاقانون شہادت اور قانون معاملات وغیرہ سب کے لیے برابر ہے، صر ف سول کوڈ میں سے فیملی لایعنی معاشرتی معاملات اورعائلی قوانین الگ الگ ہیں، جسے پرسنل لا کہاجاتاہے۔  اور اس  کی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی معاملات  کاتعلق مذہب اور تہذیب وثقافت سے انتہائی مضبوط اور گہرا ہوتاہے،  اور اس کے بغیر مذہبی اور تہذیبی وثقافتی شناخت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس تعلق کو ختم کرنے کا مطلب سیدھے مذہب اور تہذیب وثقافت پر حملہ  اور مذہبی آزادی  کو چھیننا ہے، خصوصا "مسلم پرسنل لا"  کا معاملہ ایسا ہی ہے۔  اور ایسا کرنادستور کو بدلنے اور معاہدے کوتوڑنے کے مترادف ہے۔
اور ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ اگر  واقعی سب  کے لیےمکمل طورپرایک  ہی قانون   کی ضرورت ہے، تو پھر  سب کے لیےآپ(ایک ورگ )   ہی  کا بنایاہوا قانون کیوں ہو؟  آپ  ہی کی مذہبی روایات سب کے لیے کیوں قابل قبول ہوں؟ آپ ہی کی تہذیب وثقافت کی  نمائندگی کیوں ہو؟ یا ایک گروہ کی عقل کا دخل کیوں ہو؟ کیا اس سے دوسرے تمام کو غلام بنانا لازم نہیں آتا؟یہ تومسلمہ حقیقت ہے کہ جو گروہ قانون بناتاہے، وہ کسی نہ کسی بنیاد پر تعصب ضرور برتتا ہے، اس کا انکار ممکن نہیں۔ پھر انسان خود اپنے نفع ونقصان سے واقف نہیں تو سب  کے نفع ونقصان کو سامنے رکھ کر کیسے قانون بنا پائےگا؟ لہذا اگر مکمل طور پر سب کے لیے  ایک ہی قانون چاہیے،  توعقل وانصاف بات یہ ہےکہ سب کو بنانے والے کا قانون نافذ کیا جائے؛ کیوں کہ ہم سب کا یہ ماننا ہےکہ وہ کسی کے ساتھ بھید بھاؤنہیں کرتا اور وہ سب کے نفع ونقصان سے پوری طرح واقف بھی ہے؛ اس لیے اس میں نہ کوئی نقصان کا اندیشہ ہے اور نہ تعصب  و بھید بھاؤ کا۔ اب بس یہ تلاش کرنا ہے کہ ہم سب کے بنانے والے کا بھیجاہوا کون سا قانون مکمل طورپر محفوظ ہے، جس میں کسی قسم کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے۔ یہ ہمارا پرپوزل ہے،  کھلے دل سے اس پر غور کیا جائے اور تسلیم کیا جائے، ورنہ پھر سب کو اپنی اپنی آزادی ملی رہے۔ 
۲۔ دستور میں یونیفارم  سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کی بات دستور کے بنیاد حقوق کے حصے میں نہیں ہے؛ بل کہ رہنماہدایات میں کہی گئی ہے۔ اور چوں کہ اس کاٹکراؤ بنیادی حقوق کے دفعہ ۲۵، ۲۶ اور ۲۹، ۳۰  سے ہے ؛ اس لیے اس پر قانون بنانے کی بات دستور کےخلاف ہے۔  اور اس کی وجہ یہ ہے کہ  دستور کے بنیادی حقوق کےخلاف کوئی قانون نہیں بنایاجاسکتا۔ 
دوسری بات یہ ہےکہ رہنماہدایات پر اگر عمل کا واقعی جذبہ  ہے تو پہلے ان ہدایات پر عمل کیاجائےجو متفق علیہ ہیں، تب یقین ہوگا کہ دستور میں دیے گئے رہنماہدایات کی وجہ ہی سے ایسا کیاجارہاہےاور اس کےپیچھے دوسرا کوئی مقصدنہیں ہے۔ مثلا رہنماہدایات کے مطابق بھارت کے تمام باشندوں کی آمدنیوں کے فرق کو کم سے کم کیاجائے اور سب کے لیے عدالتوں سے حق وانصاف حاصل کرنے کا مفت انتظام کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
۳۔  پروپیگنڈےکی تیسری بنیاد بہت اہم ہے،جس کی وجہ سے عام طورپر  یونیفارم سول کوڈ کے مسئلے کو ہنددومسلم کا رنگ دیاجاتاہے اور وہ یہ کہ ’مسلم پرسنل لاء‘میں    دوسری شادی ، طلاق اور  عدت وغیرہ کی وجہ سے  جنس کی بناپر عورتوں  کے ساتھ ظلم وزیادتی  ہوتی ہے ۔لہذا مسلم خواتین کو ظلم وزیادتی سے انصاف دلانےکےپرفریب نعرےکی آڑ میں بڑی چالاکی سے   یونیفارم سول کوڈ (یکساں شہری قانون)کےنفاذ  کی وکالت  کی جارہی ہے اورافسوس یہ ہےکہ فطرت پر مبنی  شرعی قوانین سے گہری واقفیت نہ ہونے اورشاطر دماغوں کی شاطرانہ چال  کو نہ سمجھنے کی وجہ سےبعض مسلم مرد وخواتین حتی کہ سنجیدہ سمجھےجانےوالے بعض تعلیم یافتہ حضرات بھی  ان کی ہاںمیں ہاں  ملانےلگتے ہیں ، اگرچہ  اس کا بھی قوی امکان ہے کہ ان میں بعض افرادخواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم ہو، اپنی ذہنی غلامی ،ضمیر فروشی،  سیاسی چاپلوسی اور منافقانہ روش  کی بناپریہ اوچھی حرکتیں کرتےہوں۔اور اس   بات کا بھی ہمیں سچے دل سے اعتراف کرنا چاہیے کہ  اسلامی احکامات کے بارے میں غلط فہمیوں   کے سلسلے میں  ہماری  اپنی معاشرتی  زندگی بھی  بڑی حد تک ذمہ دار ہے اگر چہ دوسرے سماجوں کا حال ہم سے زیادہ خراب اورقابل رحم ہے   ، لیکن ان کا کیا شکوہ کہ وہ بیچارے تو خدائی رہنمائی سے محروم ہیں ۔ 
لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہےکہ تعدد ازدواج اور طلاق وغیرہ کوبہانہ بناکر مسلم خواتین پر ہونےوالی مزعومہ ظلم وزیادتی کا راگ الاپنےوالے  اور حقوق خواتین کے تحفظ کی آڑ میں’ مسلم پرسنل لا‘ کو ختم کرکے’یکساں سول کوڈ‘  نافذ کرنے کی باتیں کرنے والےآخر خواتین کے اصل مسائل کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے؟  اور ان کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں اور عملی اقدامات کیوں نہیں کرتے؟ مثلاسرکاری ونیم سرکاری سیکٹروں ، نجی کمپنیوں، آفسوں اور اداروں میں عورتوں کا جنسی استحصال،آئے دن پیش آنے والے زنا بالجبر کےدردناک واقعات، شراب نوشی اور دیگر اخلاقی خرابیوں کی وجہ سےگھروں میں  عورتوں پر ہونےوالے مظالم، بےگناہ مسلم نوجوانوں کو بلاوجہ جیلوں میں ٹھونسنے اور فرقہ وارانہ فسادات  میں عام شہریوں(جس میں نناوےفیصد سےبھی زیادہ مسلمان ہوتے ہیں،ان بےگناہوں)کے مارےجانےکی وجہ سےخصوصا خواتین کادردوکرب ،ان کی بے بسی ولاچاری اور کسمپرسی و بے چارگی  کی زندگی کاوہ بھیانک منظر جس کے تصورسےبھی رونگٹےکھڑے ہوجاتےہیں۔  یہ ہیں در اصل عورتوں پرہونےوالے مظالم اور ان کے حقیقی مسائل، جن پر  تحفظِ خواتین کے ٹھیکیداروں نے اس طرح چپی سادھ رکھی ہے جیسے ان کو سانپ سونگھ گیاہو۔ مگرسماج کی اس حقیقی صورت ِحال کے بجائے ’مسلم پرسنل لاء‘  کا ہوا کھڑاکے  اس کا ایک ایسا خوف ناک اور ظالمانہ تصور پیش کرتےہیں اور اس کی بناپر عورتوں کی مظلومیت کااس طر ح واویلا مچاتےہیں کہ گویا عورتوں کی ساری پریشانیوں کی اصل اور بنیادی وجہ ’مسلم پرسنل لاء‘ ہی  ہے؛ لہذا س کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ نافذکردینےسےان کی تمام پریشانیاں ختم ہوجائیں گی ، ان کے سارےمسائل حل ہوجائیں گے اور ان کو ہر قسم کی ظلم وناانصافی  سے نجات  مل  جائےگی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے ہی عورتوں کوماں، بہن، بیٹی ، اوربیوی  ہرحیثیت سے   اس کے مناسب مقام عطاکیاہےاور یہ  صرف  ایک نرا دعویٰ نہیں ، بل کہ تاریخی اور سماجی سچائی ہے۔ 
مسلم پرسنل لاء کیاہے؟
دراصل  اسلام میں مذہب کا تصور دیگر اقوام کی طرح صرف چند عبادات اور رسوم  ورواج تک محدود نہیں ہے ؛ بل کہ  وہ زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق   قرآن حکیم اور نبی کریم ﷺ کے ذریعے الہی ہدایات اور خدا ئی رہنمائیاں  پیش کرتا ہے ، جن پر چل  کر ہی انسان مذہب اسلام کاحقیقی پیرو کہلانے کا مستحق ہے ۔ انہی   قوانین الہی اور ہدایات ربانی کا وہ حصہ جو ہماری انفرادی اور عائلی زندگی سے متعلق ہے” مسلم پرسنل لا“ کہلاتاہے ، جس میں  ہمارےذاتی  اور خاندانی معاملات  اور خاندان کےمختلف افراد کے حقوق وفرائض  کا تعین کیاگیاہے ،مثلا  ازدواجی تعلق ، ماں   باپ اور  اولاد کا تعلق ، ایک کا دوسرے پر نفقہ ، حق پرورش  اور وصیت  وراثت  وغیرہ کے متعلق احکام وہدایات۔  انہی قوانین  کو آج عربی میں” قوانین  الاحوال الشخصیۃ “ ، اردو میں  ”شخصی وعائلی قوانین“ اور انگریزی میں  پرسنل لا  (Personal Law)  یا فیملی لا ((Family Law    کہا جاتاہے ۔ یا یوں کہیے کہ ہمارے ملک میں رائج قوانین کی دواہم قسمیں ہیں :کریمنل کوڈ(criminal cod) یاپینل کوڈ(penal cod) اورسول کوڈ(civil cod)، کریمنل کوڈ (ضابطۂ فوجداری)کے اندر جرائم کی سزائیں اور انتظامی قوانین پائے جاتے ہیں، اور سول کوڈ (ضابطۂ دیوانی ) کے دائرہ میں نکاح، طلاق ، خرید وفروخت اور اسی قسم کے تمدنی قوانین شامل ہیں، سول کوڈ کے ہی ایک حصہ کو ”پرسنل لاء“کہاجاتاہے، جس میں ملک کی اقلیتوں کو (جن میں مسلمان بھی شامل ہیں ) ان کے مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا قانی اختیار دستور ہند کے اندر دیاگیاہے، چناں چہ مسلمانوں کوبھی یہ حق دیاگیاہے اور  انڈین شریعت ایپلی کیشن ایکٹ۱۹۳۷ء  کےتحت یہ واضح کیاگیاہے کہ ”مسلم پرسنل لاء“ کے حدودمیں  نکاح، مہر، نفقہ،خوراک وپوشاک،رضاعت(دودھ پلانے کا حق)،حضانت(پرورش کا حق)، ولایت (ولی کون ہو)،طلاق، خلع، فسخ،ایلاء،ظہار،مبارات، عدت، وراثت، وصیت، ہبہ، شفعہ اور وقف شامل ہیں۔ (مسلم پرسنل لاء، حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی، مرکزی دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنئی دہلی، ص:۱۲۔ماہنامہ گلشن نعمانی مالیگاؤں ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نمبر،جون، جولائی، اگست ، ۲۰۱۴ء، ص:۱۱۸۔)
مسلم پرسنل لا ءکی دینی  وملی اہمیت : 
چوں کہ عام طور پرانسانوں کا عملی رابطہ معاشرتی مسا  ئل ہی سے رہتاہے؛ لہذا اگر ان سےمتعلق اسلامی قوانین پر خط نسخ پھیر دیاجائے  تو   گویا ہماری مذہبی شخصیت  کا  قالب ہی ختم ہوجائے گا  اور پھرملت کی  مذہبی روح بھی فنا ہوجائے گی ؛  اس لیے کہ عائلی قوانین   ہماری مذہبی روح کی محافظ وضامن ہیں  ۔
چنانچہ  ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ“ کے اول جنرل سیکریٹری اور امیر شیریعت  رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی  ؒ مسلم پرسنل لا ءکی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
”مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کی مستقل تہذیب اور عائلی نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی  کی حییثیت رکھتا ہے ، کیوں کہ مسلمانوں کی انفرادی ،  عائلی اور سماجی زندگی سے مسلم پرسنل لا کا بہت گہرا رشتہ ہے اور انہی قوانین کی بنیا د پر ان کی عائلی اور سماجی زندگی تشکیل ہوتی ہے ۔ اگر مسلم پرسنل لا ختم ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اسلامی قوانین عملا عبادات کے دائرہ  میں سمٹ کر رہ جائیں گے بلکہ سماجی روح کا بھی خاتمہ ہوجائے گا  ، اور جڑہی خشک ہوجائے گی جس کے پتوں کا  مخصوص رنگ اسے دوسرے درختوں سے ممتاز کرتاہے اور سب سے اہم وجہ  مسلمانوں کا یہ یقین ہے  مسلم پرسنل لا کا تعلق دین وشریعت سے ہے اور اس کی جڑیں قرآن وحدیث میں پیوست ہیں“۔  (  رسالہ مسلم پرسنل لابحث ونظر کے چند گوشے ، مشمولہ مسلم پرسنل لا زندگی کی شاہراہ ، حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ، ترتیب: مولانا ظفر عبد الرؤف رحمانی ،    دارالاشاعت خانقاہ رحمانی  ، مونگیر  ، ۲۰۰۳، ص: ۳۰۔)
فقیہ عصر حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام  صاحبؒ سابق صدر ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ“فرماتے ہیں : ”بحیثیت مسلمان جو احکام قرآن  وحدیث میں موجود ہیں ، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان پر یقین رکھیں اور اس کے مخالف قانون کو قبول نہ کریں ، اللہ تعالی نے نکاح وطلاق کے جو قوانین مقرر فرمائے ہیں  اگرہم اپنی زندگی کے لیے ان کے مقابلے میں  کسی اور قانون کو بہتر اور قابل عمل سمجھتے ہیں ، تو یہ بھی کفرہے  “۔ (معارف قاسم جدید دہلی  ، مسلم پرسنل لا نمبر ،  جون تا اگست  ۲۰۰۹، ص: ۳۵۔)
 اسی سے   یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے  کہ ”مسلم پرسنل لاء “ دیگربہت سی  اقوام کے فیملی  لاز   یا  سماجی رسوم ورواج کی طرح مسلمانوں کے خاندانی  رسم ورواج ، عرف وعادت ، رہن سہن اور معاشی ومعاشرتی حالات کا پیداکردہ  اور ان کی ایجاد نہیں ہے ۔  یعنی ایسا نہیں ہے کہ وقت کےگزرنے  اور تاریخ کے اتار چڑھاؤ اور پھیلاؤ سے قدرتی طور پر اجتماعی ضروریات اور خاندانی مقتضیات کی وجہ سے ایک قانونی نظام بھی ترقی پذیر ہوگیا ہو  ،جسے ہم  اس کی ارتقائی اور تکمیلی شکل میں آج ”مسلم پرسنل لاء“ کا نام دیتے ہوں ۔   بل   کہ یہ قوانین براہ راست  قرآن وسنت  پر مبنی ہیں،  اگرچہ ان کی بعض جزئی شکلوں کا تعین   اجتہاد وقیاس اور عرف واستحسان کی بنا پر  کیا گیاہے،    لیکن چوں کہ وہ بھی کتاب وسنت    ہی سے ماخوذ ومستنبط ہیں  اور انہی کی روشنی میں مرتب کیے گئے  ہیں اس لیے  ان  کو بھی اپنی موجودہ شکل میں قرآن وسنت ہی پر مبنی کہا جائے گا؛کیوں کہ ان کی جڑیں کتاب وسنت میں پیوست ہیں ،اگرچہ ان  کا درجہ ان احکام کے برابر نہیں مانا جائے گا جن کی تصریحات قرآن وسنت میں موجود ہیں، اسی لیے ان کی تطبیقات میں ماہرین  کتاب و سنت کے درمیان اختلاف آراء پایا جاتاہے، لیکن اس کا اختیار بھی صرف انہی ماہرین کو ہے  جن کو کتاب وسنت اور اس کے متعلقات پر مکمل دسترس  حاصل ہو اور حالات وتغیرات   زمانہ پر ان کی گہری نظر ہو ۔  اور یہ بھی حقیقت ہے کہ  تعدد ازواج ، طلاق ، نفقۂمطلقہ  اور تبنیت(گود لینا) وغیرہ کے وہ  مسائل جن  کا سہارا لےکر متعصب ذہنیت کےلوگ یا اسلامی شریعت کی گہرائیوں سے ناواقف افراد  مسلم پرسنل لا کوختم کرکے  یکساں سول کوڈ نافذ کرنےکی باتیں کرتے ہیں ، ان کی تصریحا ت وتفصیلات خود قرآن کریم میں موجود ہیں  اور ان  احکام کو بیان کرنے کے بعد خود اللہ تعالی نے تلک حدود الله    کے ذریعہ ان  کی حدبندی کی صراحت کردی ہے ،جن سےتجاوز کرنے اور ان میں ترمیم وتنسیخ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ۔ کسی اور کی تو بات ہی کیا  خود شارع نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کو بھی    اپنی طرف سے ان میں تبدیلی کرنے کا اختیارحاصل  نہیں ہے ۔ 
قانون سازی کا حقدارکون؟
 دراصل  ایک بنیا دی  بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمام   انسانوں کی پر امن اورحقیقی طور پر   کامیاب زندگی  کےلیے  ایک منظم قانون بنانے کا حق کس کو ہے ؟    ظاہر ہے کہ  ہرعقل سلیم رکھنےوالے   کے ذہن میں یہی جواب آئے گا کہ  قانون سازی کا اختیار اسی کو ہونا چاہیے جو   سارےانسانوں کےجذبات واحساسات  اور فطری تقاضوں کی رعایت کرے    اور سب کے درمیان عدل  وانصاف قائم کرےاور یہ اسی وقت ممکن  ہوگا جب کہ قانون ساز ہر فرد بشرکی تمام ضروریات زندگی ، مختلف ادوار میں پیش آنےوالے سارے حالات  ، انسانی مزاجوں کی تمام نزاکتوں  اور ہرموقع کےمناسب نفع بخش امور سے بھر پور واقفیت رکھتاہو، نیز وہ خاندانی ، گروہی، قومی، نسلی، وطنی، اور صنفی ہرقسم      کے تمام تعصبات سے بالکل بالاتر ہو۔ یعنی قانون سازی کےلیے  وسیع ومحیط علم اور  سوفیصد عدل   درکارہے ورنہ  اس کے بغیر ہر قانون ناقص اور ادھورا ہے ، بل کہ عموما  ظلم وناانصافی کا باعث  اور فساد وبگاڑ کا ذریعہ بن جاتاہےجیساکہ آج انسانی برادری  اس کو بھگت رہی ہے  ۔ یقینا ایسا علم جو پوری بنی نوع انسانی کی مزاجی کیفیات ، اس کےاحساسات وجذبات ، مختلف ادوار میں اس کو  پیش آنے والےحالات اور تمام شعبہائےزندگی سےمتعلق  اس کے لیے فائدہ مند اور ضرر رساں امور پر محیط ہو ، سوائے  انسانوں کو پیدا کرنےوالے شفیق پروردگار کے نہ کسی فرد  کےپاس ہوسکتاہے اور نہ ہی کسی جماعت وگروہ کے پاس  ۔ انسانی علم کا تو یہ حال  ہےکہ    انسان اپنی نجی زندگی میں کوئی  فیصلہ مفید سمجھ کر  کرتاہے اور کچھ دنوں کےبعد وہ اس کے لیے نقصاندہ ثابت ہوجاتاہے ، یہ ہر ایک کی آپ بیتی ہے، چہ جائے کہ وہ  پوری بنی نوع انسانی کے حق میں صحیح فیصلہ کرسکے ۔ پھر یہ کہ انسانی عقلوں میں اتنا زیادہ تفاوت ہےکہ کوئی کسی چیز کوصحیح اور  مفید  سمجھتاہےاور دوسرا اسی چیز کو غلط اور نقصان دہ قرار دیتاہے ، جب کہ ہرایک کے پاس اس کےمطابق پختہ دلائل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح  نہ کوئی فرد اور نہ ہی  مختلف افراد کا کوئی مجموعہ  ہرقسم کےتمام تعصبات سے بالاتر ہوکر کوئی  قانون بنانےپر قدرت رکھتاہے ۔  یہ اس کی فطری کمزوری اور بدیہی  ومشاہداتی  حقیقت  ہے  ، اس کے لیے  کسی دلیل کی بھی  ضرورت نہیں ۔ 
اسی لیے  اسلامی نظریہ کےمطابق قانون سازی کا حق  صرف اور   صرف اس کائنات اور انسانوں کےخالق اور شفیق پروردگار کو حاصل ہے  ۔  خود اللہ تبارک وتعالی نےا پنی طرف سےانسانوں کے لیے بھیجےگئےہدایت نامے  قرآن حکیم میں  اس بات کی  صراحت فرمادی ہے کہ حلال وحرام  کے فیصلےکرنے کا حق اللہ ہی کو ہے  ﴿إن الحکم إلا لله﴾ (حکم صرف اللہ کا ہوگا )   (الأنعام: ۵۷) ۔ اور یہ  ایک فطری اور عقلی طور پربھی سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ جو جس کا چیز کا بنانےوالا ہوتاہے  اس کےاستعمال کا طریقہ بتانے کی اہلیت اور حق و  اختیار اسی کو ہوتاہے ۔ چنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ ہرمشین  کے استعمال کا طریقہ   اس کو بنانےوالی کمپنی ہی بتاتی ہے  ، تو پھر یہ کیسےممکن ہے کہ  انسان جیسےپرپیچ اور نازک مشین کے استعمال کاطریقہ بتانے کا حق کسی اور کو حاصل ہو۔  لہذا خالق انسانیت نے اسی کا اعلان کرتےہوئے ارشاد فرمایا : ﴿ ألا له الخلق والأمر ﴾  ”سن لو اسی  کو پیدا کرنے اور حکم دینے کا حق ہے “ ( الأعراف: ۵۴) ۔   اور یہ بھی طے ہے کہ الہی ہدایا ت واحکا م کو جاننےکا ذریعہ صرف اور صرف وحی الہی ہے  ، جوفرشتوں کے ذریعہ انبیاء پر  ہمشہ آتی رہی اور اسی  کی سب سے آخری اور بالکل حتمی ومحفوظ  شکل   وہ ہے  اللہ کےآخری پیغمپر حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی اور وہ آج ہمارے سامنے  قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ کی شکل میں بعینہ موجود ہے ۔ سنت نبوی ﷺ یعنی ارشادات اورافعال  وتائیدات نبوی ﷺ  کی حیثیت بھی وحی الہی کی ہے ؛ کیوں کہ آپ ﷺ  نے امت کی   رہبری و رہمنائی  کے لیے جو کچھ فرمایا  وہ سب کا سب وحی الہی کی بناپر تھا ۔ چنانچہ خود اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب میں اس کی گواہی دی ہے  ﴿ وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی   ﴿﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی﴾ ”اور وہ ( محمدﷺ)  خواہش نفس سے منہ سےکوئی  بات نہیں  نکالتے ہیں ‏،  وہ‏ تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے ‏“ (النجم:۳–۴)  ۔ اسی طرح ایک جگہ اور ارشاد فرمایا :  ﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾ ”اور جو وہ (محمدﷺ تم کو دیں تو اس کو لے لو اور جس سے تم کو منع کریں اور اس سے رک جاؤ“(الحشر : ۷)۔ 
مسلم پرسنل لاء کی دستوری حیثیت : 
مذکورہ بالا سطور سےیہ بات واضح طور پر سامنےآگئی کہ  مسلم پرسنل لا  یا اسلام کے شخصی وعائلی قوانین ( یعنی  جن کے بارے میں آ  زادی سے پہلے ہی   ۱۹۳۷ء  میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ  بنا تھا ، جس کے مطابق  نکاح ، طلاق،  خلع،مبارأۃ،  ظہار ، فسخ نکاح،  حق پرورش ،  ولایت ،حق میراث ، وصیت ، ہبہ، اور شفعہ وغیرہ سے متعلق معاملات میں اگر دونوں فریق مسلمان ہوں تو شریعت محمدی ﷺ کےمطابق ان کا فیصلہ ہونا طے ہواتھا۔ )   مذہب اسلام کا جز ہیں ، جن سے مسلمانوں کا عقیدہ بھی  وابستہ ہے  اور ان سے ان کی تہذیب وثقافت بھی قائم ہے ؛ اس لیے وہ دستور  میں دیےگئے  بنیادی حقوق   کے دفعہ ۲۵،  ۲۶ اور ۲۹کے تحت آتے ہیں  ، جن میں عقیدہ وضمیر کی آزدی  دی گئی ہےاور تہذیب وثقافت کا تحفظ فراہم کیا گیاہے  ۔ متعلقہ دفعات ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں :
 دفعہ  ۲۵–(۱)  تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سےمذہب قبول کرنے ، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنےکا مساوی حق ہے بشرطیکہ امن عامہ ، اخلاق عامہ ، صحت عامہ اور حصہ کی دیگر توضیعات متأثر نہ ہوں ۔ 
دفعہ ۲۶–اس شرط کےساتھ کہ امن عامہ ، اخلاق عامہ اور صحت عامہ متأثر نہ ہوں ہر ایک مذہبی فرقےیا اس کےکسی طبقے کو حق ہو گا ۔ 
(الف) مذہبی اور خیراتی اغراض کےلیے ادارےقائم کرنے اور چلانے کا ۔ 
(ب) اپنےمذہبی امور کا انتطام خود کرنے کا۔ 
دفعہ ۲۹–(۱)  بھارت کے علاقہ میں یا اس کے کسی حصہ میں رہنے والے شہریوں کےکسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جداگانہ زبان ، رسم الخط یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کا حق ہوگا۔ 
یونیفارم سول کوڈ  کا شوشہ : 
اس کو ستم ظریفی  کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں کہ تحریک آزادی کےدوران بار بارآزاد ہندوستان میں ضمیر ومذہب  کی آزادی اور مذہبی امور میں کسی  طرح کی مداخلت نہ کر نے کی یقین دہانی کرائی گئی اور ۱۹۳۷ءمیں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی  کی قرار داد  میں بنیادی حقوق کی صراحت کی گئی اور مذہبی آزادی اور مذہبی احکامات پر آزادانہ عمل کو دہرایا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ ریاست یعنی حکومت تمام مذاہب کےتعلق سےغیرجانبدارانہ رویہ رکھےگی ۔ان  سب کےباوجو۲ /مارچ ۱۹۴۷ءکو کشمیری برہمن اور تقسیم ہند کےذمہ دار پنڈت جواہر لال نہرو کے بہت  ہی قریب رہنے والے  ایم ، آر مسانی نے یکایک دستور ساز اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کےاجلاس  میں  یہ تجویز رکھی کہ” یونیفارم سول کوڈ “ کی فراہمی کو بنیادی حقوق میں شامل کیاجائے ۔ چار اراکین تجویز کےحق میں رہےجب کہ پانچ نےمخالفت کی اور تجویز مسترد ہوگئی ، لیکن ان کو چین نہیں آیا اور  دو ہی دنوں  کے اندر تجویز واپس لاتے ہوئے ۳۰/مارچ ۱۹۴۷ء کو  مذکورہ ذیلی کمیٹی میں   کثرت رائے پر اسے رہنما اصول میں شامل کرلیاگیا، جن کے نفاذ کا اختیار عدلیہ کے پاس نہیں ہے ۔  چنانچہ رہنما اصول کے دفعہ ۴۴/میں کہا گیا کہ ”ریاست  ( حکومت ) یہ کوشش کرےگی کہ بھارت کےپورے علاقہ میں شہریوں  کے لیے یکساں سول کوڈ   فراہم ہو“۔
 ظاہر ہے کہ اس دفعہ کی ضرب عائلی قوانین ہی پر پڑتی ہے؛ کیو ں  کہ عائلی زندگی کےعلاوہ زندگی کے تمام شعبوں میں  تو یکساں قانون موجودہی ہے اور اس پر عمل بھی ہورہاہے ۔ اسی لیے جب  نومبر ۱۹۴۸ء میں مذکورہ دفعہ پر بحث ہوئی  تو کئی مسلم وغیرمسلم لیڈران نے اس سلسلےمیں مختلف ترمیمات پیش کیں ، جن میں جناب محمد اسماعیل صاحب ، جناب محبوب علی بیگ صاحب ، جناب بی پوکر صاحب اور جناب ذاکر الدین صاحب  کی ترمیمات کا ماحصل یہی تھا کہ  جن قوموں کا پرسنل لا ہےان کو ہاتھ  لگائے بغیر یونیفارم سول کوڈ بنایا جائے گا۔ لیکن یہ ساری ترمیمات رد کردی گئیں اور قانون ساز اسمبلی کے صدر ڈاکٹر امبیڈکر نےیہ وضاحت کردی کہ ”کوئی بھی ریاست اپنےاختیارات کا استعمال اس طرح نہیں کرسکتی جس کےباعث مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ ہوجانا پڑے ۔ اگر ریاست ایساکرےگی تومیری دانست میں یہ پاگل پن ہوگا۔ “
چوں کہ آزادی کے فورا بعد تقسیم کےمسئلہ کی وجہ سےحالات اتنےناسازگارتھےکہ اس وقت اس کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی جاسکتی تھی اس لیےمجبورا   اسی وضاحت  پر مسلم لیڈران کو خاموش ہونا پڑا اور رہنما اصول کی یہ شق دستورمیں رہ گئی ۔ لیکن یہ بھی  یاد رہنا چاہیے کہ دستور کے رہنمااصول کا درجہ بنیادی حقوق سے کم ہے  اور  دستور کے بنیادی حقوق کی رو سے  مسلم  پرسنل لا ءکے تحفظ کی گارنٹی   ہے ۔ دوسری بات یہ کہ رہنمااصول میں بعض بہت مفید رہنمائیاں بھی موجود ہیں جن پر عمل درآمدکرنے سےلوگوں میں خوش حالی اور ملک میں ترقی ہوسکتی ہے ، لیکن ان کی طرف   نہ حکومت کی کوئی توجہ ہے اور نہ نام نہاد دانشور لیڈران کی ۔ 
مسلم پرسنل لاکو لاحق خطرات:
 دستور کے بنیادی حقوق میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت اور یکساں سول کو ڈ کے سلسلےمیں ڈاکٹر امبیڈکر کی مذکورہ بالا وضاحت کےباوجود شروع ہی سے مسلم پرسنل لا کے تئیں  حکومتوں کا  رویہ منفی رہا  اور مختلف حیلوں بہانوں اور چوردروازوں سےمسلم پرسنل لا ءمیں گھس پیٹ کرنے کی کوشش  کی جاتی رہی  اور جوں جوں حالات  آگے بڑھتےگئےان کی بد نیتی سامنےآتی گئی ، انہی حالات کے مقابلے اور مسلم پرسنل لا ءکے تحفظ کے لیے  ۲۷–۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ءکےممبئی کنونشن کےنتیجے میں۸،۷اپریل ۱۹۷۳ءکے اندر حیدرآباد کےاجلاس عام میں ”آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ “ کا قیام عمل میں آیا اور اس وقت سےبورڈ  اس سلسلےمیں اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہاہے ۔ 
اب حالا ت پہلےکےمقابلےمیں بہت زیادہ خراب ہیں اور ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکےہیں ؛ کیوں کہ پہلےجوپارٹیاں برسراقتدار تھیں  وہ چور دروازوں سے دھیرے دھیرے اس کام کو  کرناچاہتی تھیں؛ لیکن اس وقت کی برسراقتدار پارٹی کے  ایجنڈےمیں ”یکساں سول کوڈ “کا نفاذ ہے اور وہ اس کے لیے کھلم کھلا بھر پور کوشش بھی کررہی ہے ۔ 
چناں چہ حکومت نے  ایک سازش تحت  لا کمیشن کو پھر سے مکھوٹا اور کٹھ پتلی کے طور پرآگے کیاہے اور  وہ یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں رائے عامہ  لے رہا ہے۔  (واضح رہے کہ لاء کمیشن کو قانون سازی کا اختیار نہیں ہے ،بل کہ وہ  صرف تجاویز پیش کرسکتی ہے) لاء کمیشن نے انتہائی سازشی ذہن کے ساتھ ۱۴/جولائی۲۰۲۳ء  تک اپنی ویب سائٹ پر عوام سے رائے دینے کی اپیل کی ہے،  جس کا حاصل یونیفارم سول کوڈ کے لیے راستہ ہموارکرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں نکلتا؛ کیوں کہ وزیر اعظم خودسرِ عام  یونیفارم سول کے نفاذ کے دلائل دے رہاہے۔ (ارادہ ہے کہ وزیر اعظم کے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ پر استدلالات کا جائزہ پیش کروں،اللہ آسان کرے۔)
ہماری ذمہ داریاں: 
یقینا ہم مسلمانانِ ہند کےلیے موجودہ صورت حال بہت ہی کٹھن اور نہایت سنگین ہے اور ہمارے سامنےبڑےچیلنجز ہیں ؛ لیکن یاد رکھیں کہ اسلام اور اس کےماننےوالے ہمیشہ آزمائشوں کی بھٹی میں تپ کرہی نکھر تےہیں اور اس کے بابصیرت افرادنےان ہی چیلنجوں میں چھپے ہوئے امکانا ت ومواقع کو صحیح استعمال کرکے بروقت حفاظت دین کے ساتھ ساتھ اشاعت دین کا کام بھی کیا ہے اور اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے درج ذیل ذمہ داریاں ہمیں ادا کرنی ہوں گی:
۱۔ اس تاریخی موڑپر ہم خوفزدہ اور مایوس ہونےکے بجائے دین اسلام پر مزید مضبوطی کے ساتھ جمنے اور اسلامی احکامات پر عمل کرنےکا پختہ ارادہ کریں اور معاشرہ میں درآئی خرابیوں مثلامحض جذبۂ عناد کےتحت دوسری شادی اور غیرشرعی طلاقوں سے مکمل پر ہیزکریں اور سخت ضرورت پڑنےپر معاشرتی مسائل کے سلسلے میں کورٹ کچہریوں کے چکر لگاکر اپناوقت و پیسہ ضائع کرنے کےبجائے دارالقضاء اور شرعی عدالتوں کی طرف رجوع کریں اور ان کے فیصلوں کو اپنے اوپر رضاکارانہ طورپر نافذ کریں ،نیز اسلامی احکام کی حکمت ومصلحت اور ان کی عملیت ومعقولیت کا ادراک کریں اور حسن تدبیر کےساتھ برادران وطن کو بھی سمجھانےکی کوشش کریں ۔
۲۔  اپنےدرمیان اتحاد واتفاق پیداکرکے دشمنوں کی    سازشوں اور چالوں کو اچھی طرح سمجھ کر چالوں کا جواب چالوں سے دینے کی عادت ڈالیں ۔مشترکہ ملی مسائل میں تمام مکاتب فکر  اور تنظیموں کے اہم ذمہ داران ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوں  اور ایسے مواقع پر اپنی انفرادی یا مسلکی اور تنظیمی حیثیت کو بڑھاوا دینے کے بجائے  ملت کی اجتماعی حیثیت  کو اجاگر کریں۔
۳۔  برہمنی شاطر دماغ کی یہ بہت کارگرچال رہی ہے کہ وہ ہماری ہر جد وجہد کو ہندومسلم کا نا م دے کر اصل مسئلہ سے توجہ ہٹادیتاہے اور اس ملک کی اکثریت کو ہما رے خلاف ابھار کر ہمارا مد مقابل بنادیتاہے ، جس کی وجہ سے ملک کی فضا ہمارےلیےناسازگار بن جاتی ہے اور ہماری کوئی بھی کوشش صحیح طورپر کامیا ب نہیں ہوپاتی ؛ بل کہ بسا اوقات  نقصان دہ ثابت ہوتی ہے؛ اس لیے کسی بھی مسئلے کو اور خاص طو اس مسئلے کو ہندو مسلم   مسئلہ ہرگز ہر گز بننے نہ دیں ۔ تما م تنظیموں کے ذمہ داران سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت ملک میں بسنے والی تمام مذہبی اور سماجی  اکائیوں سے ملاقاتیں کریں، یونیفارم سول کوڈ سے ان کو پہنچنے والے نقصانات سے آگاہ کریں، ملک کے اصل مسائل کی طرف ان کی توجہ مبذول کریں  ، حکومت کی ناکامیوں کو ہائی لائٹ کریں اور خصوصا نیچی  ذات کے لوگوں پر برہمنوں کی طرف سے کیے جانے والے ہزاروں سال کے ظلم وستم کو یاد دلائیں اور اس کو اچھی طرح اجاگرکریں ،   نیز یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے ملک کو  اسی منوواد کی طرف لے جانےاور پھر سے ان کو  غلام  بنانے کی سازش کو بے نقاب کریں ۔ 
۴۔ جن لوگوں کو ریزرویشنز  ملے ہوئے ہیں، ان کو خاص طور پر آگاہ کریں کہ تمہارے سارے ریزرویشن ختم ہوجائیں گے۔
۵۔ سکھ اور جاٹ  بہادر قومیں ہیں ، ان کے ساتھ تعلقات  کو بہتر بنائیں اور کسان آندولن اور کسانوں کے مسائل  کے حوالے سے بھی ان کو ساتھ میں لینے کی بھر پور کوشش کریں۔ خاص طور پر سکھوں  کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
۶۔ ۲۰۲۴ء کا عام الیکشن کسی قیمت پر ہندو مسلم نہ ہونے دیں۔ دشمن نے جس سازش کے تحت یونیفارم سول کوڈ کے مسئلے کو چھیڑا ہے، اسی کی سازش اسی پر پلٹتے ہوئے اسی مسئلے کو دیگرمذہبی اور سماجی اکائیوں کو ایک ساتھ لانے  کا ذریعہ بنائیں اور ان کے سامنے اصل مسائل رکھیں۔ 
۷۔ اب وقت آگیاہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کےاسوہ کو اپنائیں اورحضوراکرم ﷺ نےتمام قبائل سے معاہدہ کی جو حکمت عملی اپنائی تھی ، اس پر چلتے ہوئے اس اکثریتی طبقہ سے اپنےروابط بڑھائیں ، ان سےتعلقات استوار کریں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنےکی کوشش کریں ، جس کےلیےیہ بہت اچھا موقع ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس ملک کا ہر باوفا شہری اور منصف مزاج انسان تاریخ کےاس اہم موڑ پر ملک کی سالمیت کو بچانے اور ہرایمان والا ملک کی سالمیت کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی متاع  دین وایمان کے تحفظ کی خاطر سامنے آئے اور ہرتن من دھن کی بازی لگاکر شر پسند عناصر کے خواب کو کسی قیمت پر شرمندۂ تعبیر نہ ہونےدے ۔ یقینا اگر ہم اس اکثریتی طبقے کو اصل حقائق سمجھانے اور ان کو اپنے ساتھ لےکر حقیقی ظالم طبقہ کے خلاف میدان میں کام کرنے میں کامیا ب ہوجاتے ہیں تو شاید وہ دن دور نہیں کہ مسلمانوں سے حریفانہ مزاج رکھنے کی وجہ سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جن غلط فہمیوں میں مبتلاہیں یاکردیےگئے ہیں ، وہ دور ہوجائیں اور ان کی ایک بڑی تعداد شفیق پروردگار کی طرف سے بھیجے گئے دین رحمت اسلام سے مانوس ہوکر حلقہ بہ گوش اسلام ہونےکے لیے تیار ہوجائے ۔ (خدا کرے کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔ وماذالك على الله بعزيز)
۸۔ سب سے اہم یہ کہ ہم ہرطرح کے گناہوں سےبچیں اور اللہ تعالی سے خوب عاجزی وانکساری کے ساتھ دعائیں مانگنے  کی عادت ڈالیں۔ یقین رکھیں کہ  وہی اصل مالک الملک  اور احکم الحاکمین ہے۔ کسی بھی موقع پر دین وایمان کی خاطر قربانی دینے اور جان کی بازی تک لگادینے سے بھی گریزنہ کریں ۔ واللہ ھو الموفق۔

حج کا منقش طریقہ

ہمارے اکابر کے تنخواہوں کا معیار

    
     *مسجد و مدرسہ سے منسلک آئمہ ۔ خطباء، مھتممین اور متولین یہ تحریر ضرور پڑھیں* 

مدارس و مساجد میں مدرسین اور ائمہ کی قلت تنخواہ کا موجودہ فرسودہ نظام ہرگز ھمارے اکابر کا نہیں؛ بلکہ موجودہ مہتممین اور متولیین کا تھوپا ہوا نظام ہے. اور ھمارے مولوی بھی کم تنخواہوں پر گزارہ کرکے سمجھتے ہیں کہ ھم بڑا نیک کام کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف کم تنخواہوں کی وجہ سے وہ اپنے بال بچوں ماں باپ اور رشتہ داروں کے حقوق ضائع کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں چند ایک مخلصین کے اخلاص کے علاوہ باقی اکثریت مولوی مجبورا فقر کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور مہتممین اور متولیین انھیں اخلاص کا لالی پاپ دیکر انکا مسلسل استحصال کرتے جارہے ہیں

 بالعموم لوگ قلت تنخواہ کے لیے اکابر کی تنخواہوں کا حوالہ دیتے ہیں؛ پتہ نہیں کون سے اکابر تھے جو ہم مولویوں کی طرح اضطراری فقر کا شکار تھے، ہمارے اکابر تو بڑے خوش حال تھے؛ ہاں جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ مال غنیمت اور غلاموں کی کثرت کے باوجود فقر اختیار فرماتے.
اختیاری فقر محمود ہے؛ جب کہ اضطراری فقر مذموم، کیا آپ نے نہیں پڑھا ؟ "كاد الفقر أن يكون كفرا".

سوانح قاسمی کے مطابق حضرت نانوتوی آٹھ/دس روپے کی اجرت پر مطبع میرٹھ میں کام کرتے تھے. اس وقت اتنے میں ایک بھینس مل جاتی تھی.
آج کل کے دور میں ایک متوسط بھینس کی قیمت کم و بیش ایک لاکھ روپے روپے ھے۔

"دجالی فتنہ کے نمایاں خدوخال" (مصنف: حضرت سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ تعالی) کے مطابق شیخ الہند کی تنخواہ پچھتر روپے تھی.
پچاس میں ان کا گھر چل جاتا تھا، پچیس روپے ہر ماہ دارالعلوم کو واپس کر دیتے تھے (یہ انتہائی درجے کا خلوص تھا) اس کا مطلب ھے کہ انکی تنخواہ ان کی ضرورت سے زیادہ تھی

اشرف السوانح کے مطابق حضرت تھانوی کی تنخواہ کانپور سے علیحدگی کے وقت پچاس روپے تھی.
اسی کتاب کے مطابق جب حضرت کی ملکیت پانچ سو روپے کی ہوگئی تھی تو والد ماجد کو لکھ گئے تھے کہ اب مجھ پر حج فرض ہوچکا.
یعنی دس ماہ کی تنخواہ سے ھی حج فرض ہوجایا کرتے تھے.

حضرت مولانا منظور نعمانی صاحب کی تنخواہ ڈھائی سو روپے تھے.
اور حج کرنے گئے تو اس کا کل خرچ پندرہ سو روپیہ آیا تھا. یعنی صرف چھے مہینے کی تنخواہ سے ھی حج فرض ھو جاتا تھا
کیا یہ تنخواہیں کم ہیں؟ بالکل نہیں.
لیکن ھمارے ھاں تو مدرسین اور آئمہ کرام کی زندگی کی انتہائی درجے کی ضروریات بھی پوری نہیں ھو رھیں اور مھتممین اور متولیین حضرات ھمیں درس دیتے ھیں قناعت اور توکل کا
اگر بغور دیکھا جائے تو تنخواہوں کے بڑھنے کی جو رفتار ہے اصل کمی وہاں ہے، کہ مہنگائی پچاس فیصد بڑھتی ہے تو تنخواہ آٹھ دس فیصد.
ایک ریسرچ کے مطابق ۱۹۷۰ سے ۲۰۱۵ کے دوران اسکول ٹیچروں کی تنخواھوں میں 180 سے 320 فیصد اضافہ ہوا ہے.
اب بتائیں ۱۹۷۰ میں پڑھانے والے کسی عالم کی تنخواہ اور اس میں ۳۰۰ فیصد کا اضافہ کریں پھر دیکھیں کیا 50 ہزار سے کم تنخواہ رہتی ہے اس وقت؟ وہ بھی ۲۰۱۵ تک کا ریسرچ. یعنی 50 ہزار سے زائد تنخواہ ۲۰۱۵ میں ہونی چاہیے.

اس لیے اکابر کی طرف قلت تنخواہ کا انتساب بالکل درست نہیں ہے. بلکہ کھلم کھلی نا انصافی ھے
مھتممین حضرات کے اپنے گھروں کے شاھانہ اخراجات بہترین ائیر کنڈیشنڈ رھائشی کمرے اور لمبی لمبی جدید طرز کی گاڑیاں لیکن اسی مھتمم کے مدرسے اور مسجد کے مدرس اور امام مسجد کے بچوں کے تن پر ڈھنگ کا لباس بھی نہیں ھوتا۔ جب اپنے تقوے کی بات ھو تو حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی مثال پیش کی جاتی ھے اور اگر مدرس اور امام مسجد یا ماتحت کی بات آئے تو مثال پیش کی جاتی ھے حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کی یعنی ان حضرات نے اپنے اپنے مطلب کے لئے صحابہ کرام کو بھی تقسیم کیا ھوا ھے اپنے لئے اگر تقوی منتخب کیا ھے تو وہ بھی ٹھاٹھ کا 
مھتممین اور متولیین اس ظلم سے توبہ کریں اور مولویوں کو بھی چاہیے کہ وہ مظلوم نا بنے رہیں خوشحالی کی طرف قدم اٹھائیں اپنی نسلوں کو فقر سے نکالیں
جو مدرسہ یا مسجد انہیں پوری تنخواہ نہیں دیتا یا ان کی لازمی ضروریات پوری نہیں کرتا اس سے فورا دوسری ھجرت کرجائیں جہاں آپکو اچھی تنخواہ ملے خوامخواہ اخلاص کی تاویلیں نہ گھڑیں حتی کہ اگر آپکو مسجد مدرسہ چھوڑ کر کوئی اور اچھا کام ملے تو اپنی نسلوں کی خوشحالی کیلیے ضرور کیجیئے یقین کیجیئے اس سے آپکو کوئی گناہ نہیں ملے گا لیکن ہاں دنیا کے چکروں میں جانے سے پہلے ایک عزم ضرور کریں کہ آپ اپنے نماز روزہ تسبیح و تلاوت ایمانداری اور دیانتداری اور حسن معاملات کو درست رکھیں گے۔ ۔ ۔

ایک حقیقی واقعہ بیٹوں کی تربیت نہ کرنے کی وجہ سے

یہ ایک حقیقی واقعے کی تصویر ہے۔۔۔ اس لیے ہر انسان لازمی پڑھے 

وہ خود ایک اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھا
اس کے تین بیٹے تھے ، تینوں سونے کا چمچ منہ میں لیے پیدا ہوئے اور شاہانہ زندگی گزرتی رہی 

وقت تیزی سے گزرا
اور اس کے نام کے ساتھ (ریٹائرڈ ) لگ گیا
عہدے کی مدت ختم ہوئی
ریٹائرڈ ہو گئے اور اب زندگی کا سفر انتہاء کی طرف چل پڑا۔۔۔۔ 

بیٹوں نے باپ کے عہدے سے خوب لطف اٹھایا.. 

کہتے تھے ہمیں کیا فکر ہے
ہمارا باپ 22 گریڈ کا افسر ہے...
ہمارے کام خود بخود بنیں گے
اور بنتے بھی رہے
ایک ٹیلی فون کال پر سب کچھ قدموں میں حاضر ہو جاتا تھا 

پھر وہ دن آ گیا ۔۔۔۔۔ 

جب بیٹے یہ بھول گئے کہ یہ وہی باپ ہے
جس کے نام و عہدے کی وجہ سے لوگ ہمیں سر سر کہتے تھے 

باپ کسی بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے اور بولنے سے معذور ہو گیا
بیٹے کہنے لگے اب تو باپ کی کمزوری دیکھی نہیں جاتی 

ایک بیٹے نے کہا کہ ابا کی جائیداد و مال کی تقسیم کرتے ہیں
نہ جانے کب مر جائے
اب تو شرم آتی ہے بتاتے ہوئے کہ
لوگ کیا کہیں گے
جب دوست آتے ہیں
تو سامنے یہ بوڑھا پڑا ہوتا ہے 

چلو ایک نوکر مستقل ان کے ساتھ رہنے کے لیے رکھ لیتے ہیں جو ان کا خیال رکھے
بیس ہزار ماہانہ دے دیں گے 

نوکر آ گیا اور اسی گھر کے ایک کمرے میں باپ کو فرش پر گدا لگا دیا گیا
نوکر کو کہا کہ اسکا پورا خیال رکھنا
ہمیں کوئی شکایت نہ ملے
بیٹوں کی شادیاں ہوئیں
ایک نے گرمی کی چھٹیاں گزارنے فرانس کا پروگرام بنایا
اور دوسرے نے لندن
اور تیسرے نے پیرس کا
اور ہر جگہ اپنا تعارف 22 گریڈ کے افسر کے بیٹے ہونے سے شروع کرتے۔
نوکر کو تاکید کی کہ ہماری 3 ماہ بعد واپسی ہوگی
تم بابا کا پورا خیال رکھنا اور وقت پر کھانا دینا
جی اچھا صاحب جی ! 

سب چلے گئے وہ باپ اکیلا گھر کے کمرے میں لیٹا سانس لیتا رہا
نہ چل سکتا تھا
نہ خود سے کچھ مانگ سکتا 

نوکر گھر کو تالا لگا کر بازار سے بریڈ لینے گیا تو اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا لوگوں نے اسے ہاسپٹل پہنچایا
اور وہ قومے سے ہوش میں نہ آ سکا 

بیٹوں نے نوکر کو صرف باپ کے کمرے کی چابی دے کر باقی سارے گھر کو تالے لگا کر چابیاں ساتھ لے گئے تھے 

ملازم اس کمرے کو تالا لگا کر چابی ساتھ لے کر گیا تھا کہ ابھی واپس آ جاؤں گا
اب بوڑھا ریٹائرڈ سرکاری افسر کمرے میں لاک ہو چکا تھا
اور وہ چل پھر نہیں سکتا تھا
کسی کو آواز نہیں دے سکتا تھا
لہذا
تین ماہ بعد جب بیٹے واپس آئے اور تالا توڑ کر کمرہ کھولا گیا
تو لاش کی حالت وہ ہو چکی تھی جو تصویر میں دکھائی دے رہی ہے 

محترم خواتین و حضرات
عبرت کا مقام ہے یہ واقعہ
ہم کس طرح اپنی اولاد کے لئے حلال و حرام کی پرواہ 

کئے بغیر ان کا مستقبل سنوارنے کے لئے تن من دھن کھپاتے ہیں
اور زیادہ سے زیادہ دولت جائیدادیں بنا کر ان کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں 

اور سوچتے ہیں کہ یہ اولاد کل بڑھاپے میں میری خدمت کرے گی 

اعلیٰ ترین غیر ملکی سکولوں میں دنیاوی تعلیم دلواتے ہیں
اور دین اسلام کی تعلیم
دلوانے کو توہین سمجھتے ہیں جس میں سکھایا جاتا ہے کہ والدین کی خدمت میں عظمت ہے 

ہر انسان جو بوتا ہے اسی کا ہی پھل پاتا ہے 

ہمیں بھی سوچنے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی اولاد کو کیا تعلیم دلوا رہے ہیں
کہیں ہمارا حال بھی ایسا تو نہیں ہونے والا 

#سوچئے_گا_ضرور.....

بچوں کو عظیم و کامیاب کیسے بنائیں

بچوں کو عظیم و کامیاب کیسے بنائیں

اگر آپ اپنے بچوں کو کامیاب اور عظیم انسان بنانا چاہتے ہیں تو :
1) - انہیں اللہ تعالی کی پہچان کروا کر اللہ سے جوڑنے کی کوشش کیجیے۔
2) - انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اپنی مذہبی و قومی ہیروز کی پہچان اور پیروی کروائیں۔
3) - انہیں آپ بذاتِ خود ایک بہترین رول ماڈل بن کر دکھائیں۔
4) - ان کے دلوں میں انسانی ہمدردی اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کیجیے۔
5) - انہیں اپنا دوست بنا کر رکھیں۔
6) - ان کے ساتھ مناسب وقت گزاریں۔
7) - بچوں میں کم عمری سے ہی احساسِ ذمہ داری پیدا کیجیے۔
8) - انہیں پر اعتماد بنائیں۔
9- بچوں سے کیے گئے وعدے ہر قیمت پر پورے کیجیے۔
10) - بچوں کو مناسب حد میں آزادی دیجیے۔ انہیں گھر قیدخانہ نہ لگے۔
11) - بچوں کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیجیے۔
12) - بچوں پر ہر وقت حکم نہ چلاتے رہیں۔
13) - بچوں کو احساسِ کمتری اور احساسِ برتری سے بچائیں۔
14) - بچوں کو کچھ وقت تنہائی بھی میسر ہونی چاہیئے۔
15) - بچوں کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے، اسے کسی طور پر بھی مجروح مت ہونے دیجئیے۔
16) - بچوں کو زندگی میں کچھ کر دکھانے کے لیے اچھے اور بڑے خواب دکھاتے رہیں۔
17) - بچوں کو مادی چیزوں کی محبت سے بچاتے رہیں۔
18) - بچوں کو ٹی وی، موبائل فون اور کمپیوٹر وغیرہ کے استعمال کی مناسب تربیت دیں۔
19) - بچوں کو قرآن فہمی اور نماز کا پابند بنائیں۔
20) - بچوں سے مختلف معاملات میں رائے لیتے رہیں اور ان کی رائے کا احترام کریں۔
21) - ان سے بڑوں جیسی توقعات مت رکھیں، بچوں کو بچہ ہی رہنے دیں۔
22) - انہیں ہنسی مذاق، کھیل کود اور شرارتوں کا موقع بھی فراہم کرتے رہیں۔
23) - بچوں پر زبردستی کرنے کی عادت نہ ہو۔
24) - بچوں کی مثبت سرگرمیوں پر ان کی خوب حوصلہ افزائی کیجیے۔
25) - بچوں کو گھر کی زیادہ تر چیزوں کو ان کی مرضی سے چھونے دیں۔
26) - بچوں کو ایسے اہمیت دیں کہ گویا وہ کوئی بڑی اہم شخصیت ہیں۔
27) - بچوں کو آخرت کی فکر بھی وقتاً فوقتاً دلاتے رہیں۔ 
28) - بچوں کو اپنے چھوٹے موٹے کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔
29) - بچوں سے کبھی بھی دھمکی آمیز لہجے میں بات نہ کریں۔
30) - آپ میاں بیوی کا آپس کا تعلق بہت اچھا اور خوشگوار ہونا چاہیے۔
31) - بچوں کی تعلیم و تربیت دونوں کو اہمیت دیں۔
32) - بچوں سے بلند توقعات وابستہ کیے رکھیں۔
33) - بچوں کے اساتذہ سے باقاعدہ رابطے میں رہیں۔
34- بچوں کو آغاز سے ہی محنت و مشقت کا عادی بنائیں۔
35) - بچوں کی کمیونیکیشن سکلز بہتر بنانے پر بھی بھرپور توجہ دیجیے۔
36) - بچوں کو سیر و تفریح کے بھی مناسب مواقع فراہم کرتے رہیں۔
37) - بچوں کو ٹائم ٹیبل کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عادی بنائیں۔
38) - بچوں میں امتیاز برتنے سے احتیاط کی جائے۔
39) - بچوں کو صحت بخش اور معتدل خوراک دی جائے۔
40) - کبھی بھی بچوں کی بےجا طرف داری نہ کی جائے۔

عقیدہ کی اہمیت و ضرورت


                                   
عقیدہ کی اہمیت و ضرورت
      عقیدہ اخروی اور دنیوی حیثیت سے ایک لابدّی چیز ہے جیساکہ درجِ ذیل ہے ۔ 
(۱)  آخرت میں اعمالِ حسنہ پر ثواب عقیدہ کی صحت پر موقوف ہے ، اگر عقیدہ صحیح ہوگا تو اعمال قبول ہوں گے ورنہ نہیں ۔ 
(۲)  انسانی تہذیب اجتماعی اعمال سے بنتی ہے اور اجتماعی اعمال کے لئے فکری اتحاد ضروری ہے اور فکر و فلسفہ کی تصحیح صحیح عقیدہ سے ہوتی ہے ، اس لئے اصلاحِ معاشرہ بلکہ پوری انسانیت کی اصلاح کے لئے اسلامی عقیدہ ایک ضروری چیز ہے ۔ 
(۳)   عقیدہ دل کے انشراح اور یقینِ جازم کو کہتے ہیں اور عمومی طور پر کسی کام میں عمدہ اور کامیاب نتائج کا حصول بغیر انشراحِ صدر کے حاصل نہیں ہوتا ، بالخصوص اس وقت جبکہ عمل مشکل ہو اور موانع موجود ہو تو پھر اعمالِ آخرت پر عمل اور استقامت یقینِ جازم کے بغیر کیسے حاصل ہو سکتا ہے ، اس لئے عقیدہ ایک لابدّی چیز ہے ۔ 
*عقائد پر لکھی جانے والی تحریر*
          اسلامی عقائد پر علماء نے دو مختلف نقطہاۓ نظر سے کتابیں لکھی ہیں ۔ 
(الف)   عقلی دلائل سے قطعِ نظر کرتے ہوئے صرف اسلامی عقائد کی تفصیلات پر کتابیں تحریر کی گئیں ،  یہ ان لوگوں کے لئے تھی جو عقل کا استعمال کر کے اسلام کو بدل و جان قبول کر چکے تھے ۔ 
(ب)   عقائد کے فلسفیانہ پہلو کو واضح کرنا ، یہ اس طبقے کے لئے تھا جو عقائد کو عقل سے سمجھنا چاہتے تھے ۔ 
     جبکہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی اکثریت ان دونوں پہلو کی محتاج ہے ، اس لئے ہم دونوں پہلو ملحوظ رکھیں گے اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک تیسرے پہلو کو جاننا بھی ضروری ہوگا کہ عقیدہ کی کس شق میں مسلمانوں کا کون سا طبقہ راہِ اعتدال سے منحرف ہو چکا ہے تاکہ مسلمانوں کے لئے اس سے اجتناب آسان ہو ۔
                                    *﷽*  
*عقیدہ کی لغوی تعریف اور وجہ تسمیہ* 
     لغت میں عقیدہ لفظِ "عقد" سے بنا ہے ، جس کا معنی "گرہ لگانا" ہے اور گرہ دو چیزوں میں لازمی اتصال اور بندھن کے لئے لگائی جاتی ہے اور عقیدہ بھی ضروریاتِ دین کے تصور میں یقین اور لزوم کی کیفیت پیدا کرنے کا نام ہے ۔ 
*عقیدہ کی اصطلاحی تعریف*
       وہ ایمانیاتی اصول (ضروریاتِ دین) جن کا پختہ یقین رکھنا ضروری ہے ، اس پختہ یقین اور قلبی تصدیق کا نام عقیدہ ہے ۔ 
*فائدہ*
*عقیدہ اور نظریہ میں فرق*
"نظریہ" اس پختہ تصور کا نام ہے جو تجربہ کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے ، یہ ایک انسانی کاوش کا خلاصہ ہوتا ہے جو ابتداءً آنکھ کا مشاہدہ ہوتا ہے ، پھر دماغ میں مفروضہ کی شکل اختیار کرتا ہے ، پھر عملاً تجربہ میں ڈھلتا ہے ، پھر اجتماعیت اسے قانون کا نام دیتی ہے خلاصہ یہ کہ نظریہ انسانی کاوش کا نتیجہ ہے ، اس لئے اس میں عقل و دلائل کے ذریعہ تردید اور تبدیلی ممکن ہے اور ہوتی رہتی ہے اور جہاں تک عقیدہ کی بات ہے تو وہ وحی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے نہ کہ انسانی کاوش سے ، اس لئے اس میں عقل اور دلائل کے ذریعے تبدیلی ناممکن ہے اور عقلا سمجھ میں نہ آنے کے باوجود اس پر یقین رکھنا ضروری ہے ۔ 
*عقیدہ کا موضوع* : شریعت کی وہ باتیں ہیں جن پر دل سے یقین کرنا ضروری ہے ۔ 
*عقیدہ کی غرض* : جہنم سے بچاؤ اور جنت کا داخلہ ۔ 
*عقیدہ کے اقسام*
عقیدہ کی دو قسمیں ہیں :
(۱)  جس کو ثابت کرنے میں عقل مستقل نہ ہو ، جیسے عذابِ قبر ، حوضِ کوثر ، پل صراط ، شفاعت وغیرہ ۔ 
(۲) جس کو ثابت کرنے میں عقل مستقل ہو ، جیسے واجب الوجود ، وحدۃ الوجود ، ﷲ رب العزت کا علم و قدرت اور حدوثِ عالم ۔ 
      جیساکہ "النبراس" میں ہے :         " العقائد قسمان قسم لا يستقل العقل باثباتہ ، کعذاب القبر والحوض والصراط والشفاعة و توقّفُه على النصوص ظاهرٌ و قسمٌ يستقلّ باثباتہ ، کوجود الواجب و وحدتِه وقدرتِه و حدوث العالم"                    (النبراس ص ۱۰)

وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا

وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا
‏جب امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی_عرب کو جتلایا کہ امریکی تحفظ کے بغیر تمہاری حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ 
ان ہی دنوں سعودیہ میں ایک اونٹ کو 16 ملین ریال کا سونے کاہار پہنایا گیا تھا ۔
اسلام کا کتنا عبرتناک منظر تھا جب معتصم بااللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا چنگیز خان کے پوتے ہلاکو ‏خان کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔!
کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کہ سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیے۔۔۔۔۔!
پھر معتصم سے کہا :
" کھاؤ، پیٹ بھر کر کھاؤ، جو سونا چاندی تم اکٹھا کرتے تھے وہ کھاؤ "
بغداد کا تاج دار بےچارگی و بےبسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔
‏بولا " میں سونا کیسے کھاؤں؟ "
ہلاکو نے فورا کہا :
" پھر تم نے یہ سونا اور چاندی کیوں جمع کیا؟ 
وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لئے ترغیب دیتا تھا، 
کچھ جواب نہ دے سکا۔۔۔۔۔!
ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے 
اور ‏سوال کیا:
 " تم نے ان جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہیں بنائے ؟
تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی کہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟"
خلیفہ نے تأسف سے جواب دیا:
 " اللہ کی یہی مرضی تھی "
‏ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا:
 " پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی خدا ہی کی مرضی ہوگی "
ہلاکو خان نے معتصم بااللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اس نے بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔۔۔!
ہلاکو نے کہا " آج میں نے بغداد کو ‏صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔۔۔۔!"
اور ایسا ہی ہوا۔۔۔۔
تاریخ تو فتوحات گنتی ہے 
محل، 
لباس، 
ہیرے، 
جواہرات 
اور انواع و اقسام کے لذیذ کھانے نہیں۔۔۔۔۔!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا مگر دیوار پر تلواریں ضرور لٹکی ہوئی ہوتی تھیں۔
ذرا تصور کریں۔۔۔۔۔۔!
جب یورپ کے چپےچپے پر تجربہ گاہیں 
اور تحقیقاتی مراکز قائم ہو رہے تھے تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لے کر اپنی محبوبہ کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا 
اور 
اسی دوران برطانیہ کا بادشاہ اپنی ملکہ کے دوران ڈلیوری فوت ہو جانے پر ریسرچ کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل سکول کی بنیاد رکھ رہا تھا۔۔۔۔۔!
‏جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نت نئے راگ ایجاد کر رہےتھے اور نوخیز خوبصورت و پرکشش رقاصائیں شاہی درباروں کی زینت و شان بنی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔!
‏جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے تب ہمارے ارباب اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔۔۔
تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی ؟
شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں ؟
‏درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں، طوائفوں، وظیفہ خوار شاعروں اور جی حضوریوں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟
*تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی*۔۔۔۔!
یاد رکھیں جن کو آج بھی دولت سے لگاؤ اور طاغوت کی غلامی کا چسکا ہے 
ان کا حال خلیفہ معتصم باللہ سے کم نہیں ہو گا۔
سوئی ہوئی امت مسلمہ کو بیدار کرنے کیلئے اس تحریر کو مختلف گروپس میں شیئر کردیجیۓ
جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدین والدنیا والآخرۃ

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم