آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو!

آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو!



[ یہ تحریر ایک گروپ سے موصول ہوئی ہے۔ اس میں فارغین مدارس اور منتظمین مدارس کے حوالے سے بڑی فکر انگیز اور قابل توجہ باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ مضمون نگار نے ان باتوں کو حضرت مفتی تقی عثمانی کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے ؛ لیکن خدا جانے انہوں نے اپنا نام کیوں ظاہر نہیں کیا! مضمون خواہ کسی کا ہو ، اور باتیں خواہ کسی کی نقل کی گئی ہوں ؛ لیکن باتیں ہیں واقعی اور مبنی بر حقیقت! 
درست املا اور رموز اوقاف املا کے اہتمام اور کسی قدر ظاہری ترتیب و تہذیب کے بعد تحریر پیش ہے۔ خالد سیف اللہ صدیقی] 



     ہمارے شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ایک مرتبہ اپنے صحیح بخاری کے درس میں طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ "آج جس طالب علم کو بھی دیکھو وہ جب مدرسے سے عالم بن کر نکلتا ہے تو وہ یا تو کسی مدرسے میں کل وقتی استاذ بن جاتا ہے یا وہ اپنا مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتا ہے ؛ اس لیے ہر گلی ، ہر موڑ ، ہر چوک چوراہے پر مدرسہ ہی مدرسہ دیکھنے میں آتا ہے ، جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اتنے سارے مدارس کھلنے کی وجہ سے مخیر حضرات کی کمی ہوگئی۔ اور دوسرا عام لوگوں کا ذہن یہ بن گیا کہ وہ جب بھی کسی مولوی کو دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں فورًا یہ بات آجاتی ہے کہ یہ مانگنے کے لیے آیا ہوگا۔اس لیے آپ لوگ مدرسہ کھولنا چھوڑ دو! آپ مدرسے کو کل وقت نہ دو! آپ جز وقتی بن جاؤ اور دین کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط بناؤ ،  اور جو مدارس دینیہ کھلے ہوئے ہیں ان کے معاون بن جاؤ! ان کے ہاتھ مظبوط کرو! ان کے ساتھ تعاون کرو! اگر آپ لوگ تعاون کروگے تو اس سے ایک تو آپ کی حلال کمائی کی وجہ سے برکتیں آئیں گی اور دوسرا یہ کہ عام لوگ بھی متوجہ ہوں گے"۔
     آج کل ہم مولوی لوگ جتنا معاشی اعتبار سے پیچھے پڑگئے ہیں شاید ہی کوئی اور طبقہ ہو جو اس قدر پریشان حال ہو، اس کی وجہ کم از کم میرے ذہن میں تو یہ ہے کہ ہم نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم صبح سے شام ، شام سے صبح تک صرف مدرسے کی چار دیواری میں قید ہوکر رہ گئے ہیں ، اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے۔ اور ایک مہینہ کی تنخواہ لے کر اگلے دن سے پھر دوسرے ماہ کے مکمل ہونے کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ استاذ جو علم بچوں کو پڑھا رہا ہے وہ اللہ کی رضا نہیں بلکہ اپنے گزر بسر کا وسیلہ بنایا ہوا ہے اور اس وجہ سے علم کا نور ختم ہوجاتا ہے۔
      آج کیا وجہ ہے کہ ہمارے مدارس میں حضرت شیخ الہند نہیں پیدا ہورہا ؟ حضرت مدنی ، حضرت سندھی ، حضرت لاھوری جیسے اکابرین امت نہیں پیدا ہو رہے؟ جب کہ تعلیم وہ ہی ہے ، کتابیں وہ ہی ہیں ، اوقات وہ ہی ہیں ، ہر چیز وہ ہی ہے ؛ لیکن تقوی و پرہیزگاری ختم ہوگئی۔ کتابوں کا ، اساتذہ کا ، صندلیوں کا ،مدرسے کی چار دیواری کا ، مطبخ کا ، مسجد کا ، باورچی کا ، والدین کا ، عزیز و اقارب کا ، رشتے داروں کا ادب ختم ہوگیا۔ احترام کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ تقویٰ و پرہیز گاری اور اللہ کے سامنے گڑگڑانا ختم ہو گیا۔
     آج ہمارے طلبہ کو اگر اساتذہ دیکھ رہے ہیں تو وہ ایسی نماز پڑھیں گے جیسے جبرئیل کے بھتیجے ہوں ؛ لیکن استاذ کی نظر اگر تھوڑی سی ایک طرف ہوئی اور تو وہ کھیلنے کودنے میں شروع ہو گیا۔
    حضرت شیخ الہند رحمہ اللّٰہ کے متعلق ایک رسالے میں میں نے پڑھا تھا کہ حضرت بچپن میں دوران طالب علمی اس طرح چھپ کر تہجد کی نماز ادا کرتے تھے کہ اگر کہیں سے یہ محسوس ہوتا کہ کوئی انھیں دیکھ رہا ہے تو وہ بالکل ساکن ہوجاتے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ نیند میں ہوں۔ یہ تھا خشیت الٰہی ، جس کی وجہ سے اللہ پاک نے انہیں وہ مقام عطا فرمایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔
     اے اہل مدارس! خدارا اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں! بچوں کی اصلاح کی طرف توجہ دیں! اساتذہ جو قوم کے معمار ہیں ان کو آسودہ بنائیں! ان کی معاشی حالت بہتر بنانے کی کوشش کریں! تاکہ وہ یک سوئی محنت و لگن کے ساتھ اپنے کام کو کام سمجھتے ہوئے اپنے علم کو اپنی نئی نسل کے اندر منتقل کریں! اور اپنے استعداد سے وہ ان طلبہ کو بھرپور مستفیض کرسکیں۔
     آج مدرسے کا مہتمم مدرسے کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور جو استاذ اس کے آگے پیچھے نہیں ہوتا ، اسکے ہر اچھے برے کی تعریف نہیں کرتا ، چاہے وہ کتنا ہی محنت کرنے والا کیوں نہ ہو۔۔وہ حضرت مہتمم صاحب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ؛ لیکن اس کی جگہ ایک کم علم اور کام چور استاذ ہے لیکن مہتمم صاحب کا خاص ہے تو وہ حضرت کے سامنے "ہیرو" ہے۔
     اس لیے آج ہمارے اساتذہ نے بھی اپنے کام کو چھوڑ کر حضرات کی خوشامد کو اپنا مشن بنالیا ہے جس کی وجہ سے علم کی برکتیں ہم سے روٹھ گئیں۔
     پھر اساتذہ کو دیکھیے! اگر مہتمم صاحب یا ناظم اعلیٰ صاحب میں سے کوئی مدرسے میں موجود ہوگا تو ہم دل و جان سے پڑھائی میں مصروف رہیں گے لیکن جیسے ہی ہر دو حضرات میں سے کوئی ایک بھی ایک طرف ہوا ، ہم اپنے اسباق وہیں چھوڑ کر تکیے کے ساتھ ٹیک لگاکر موبائل چلانا شروع کردیں گے۔
     مجھے بتائیے کہ جب مہتمم اور اساتذہ کی یہ حالت طلبہ دیکھیں گے تو وہ کیا سبق سیکھیں گے؟ کیوں کہ طلبہ ہوں یا گھر میں چھوٹے بچے وہ اپنے بڑوں کی نقل کرتے ہیں۔ جو کام ہم گھر یا مدرسہ میں کریں گے ہماری نئی نسل وہ ہی کام سیکھے گی۔
       اب اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہم اپنے پیشے سے سچے ہیں؟ جب ہماری دلوں سے اخلاص رخصت ہوگیا۔ سچائی روٹھ گئی۔ لگن سے کام کرنا چھوڑ دیا ، تو وہ طلبہ حضرت مدنی و امروٹی بنیں گے یا وہ ایک چھوٹی سی مسجد میں لوگوں کے غسل ، جنازے اور تدفین اور ختموں کے منتظر رہیں گے ؟
      دست بدست گذارش ہے کہ مہتممین حضرات ہوں یا اساتذہ اپنی انا کی خاطر ان معصوم طلبہ کا مستقبل تباہ نہ کیجیے اور ساری زندگی مدرسے کی چار دیواری اور مسجد کے محراب میں بیٹھ کر نہ گزارئیے بلکہ اپنا کام محنت و لگن سے سرانجام دیں اور اس کے بعد اپنی معیشت کو مضبوط کرکے ان دینی مدارس کے ہاتھ مضبوط کیجیے!▪️

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم