مولانا الطاف حسین حالیؔ کی نظم نگاری

مولانا الطاف حسین حالیؔ  کی نظم نگاری

کسی بھی شاعر یا ادیب کی تخلیقات پر تنقیدی نظر ڈالنے کے لیے اس کے عہد کا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی حساس شاعر یا ادیب اپنے زمانے کے میلانات سے بے تعلق نہیں  ہوسکتا، اس کا شعور ایک مخصوص عہد کے سیاسی سماجی تہذیبی حالات میں  پروان چڑھتا ہے ۔حالیؔ کا دور ہماری جنگ آزادی کے بعد کا دور ہے ۔تہذیبی اور سماجی قدریں  بدل رہی تھیں ، خیالات و افکار تغیرات کا شکار ہو رہے تھے، برطانوی نظام کی جڑیں  ہندوستان میں  مضبوط ہو چکی تھیں ، مغربی تہذیب و تمدن کی رنگ آمیزی مشرقی تہذیب پر ظاہر ہوناشروع ہوگئے تھے ،مشرق و مغرب کا ذہنی و تہذیبی تصادم شدت اختیار کرتا جا رہا تھا، قدیم اور جدید تہذیب کا یہ ٹکرائو ہماری سیاسی اور تہذیبی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے ۔مغربی تہذیب کے تسلط نے مشرقی تہذیب کو اپنی لپیٹ میں  لے لیا تھا ،اس تہذیبی زوال کا اثر شاعری پر بھی پڑا،  لوگوں  میں  اپنی تہذیب کی بربادی اور سماجی پستی کا احساس شدید ہوچکا تھا۔ ایسے وقت یہ احساس جڑ پکڑتا گیااور ایک صحت مند ادبی روایت کے قیام کی ضرورت ہے ،جو لوگوں  کی احساس کمتری کو دور کرنے میں  مدد دے سکے۔

جنگ آزادی سے قبل ہماری شاعری میں  ایسی قدریں  موجود تھیں ، جو اس کے صحت مند ارتقائ کے لیے مضر تھے، ان میں  نمایاں  بات یہ تھی کہ شاعری کو ذہنی آسودگی تفریح کا وسیلہ بنایا گیا، کچھ شاعروں  کو چھوڑ کر ہر ایک کے یہاں  مبالغہ آرائی ، لفاظی اور غیر فطری اندازِ بیان تھا ،جو شاعروں  کا عام مزاج بن گیا تھا۔

حالیؔ غالبؔ کے شاگرد تھے۔ انھوں  نے اپنے استاد سے طرزِ ادا کا بانکپن ،ندرتِ فکر حسنِ تخیل، گفتار کا تیکھا انداز اور شیفتہؔ سے سادگی زبان و بیان کواپنایا اور اس کے اپنی شاعری میں  اس طرح سے سمویا کہ وہ ان کا انفرادی رنگ بن گیا ۔ سر سیّد اور علی گڑھ تحریک نے حالیؔ کی شاعری میں  تابندگی پیدا کی۔ وہ دور ہندوستان میں  انگریزی ادب کے تعارف کا تھا ۔حالیؔ نے اپنے ایک انگریز استاد کی مدد سے انگریزی ادب کا مطالعہ کیا۔ اس مطالعہ نے حالیؔ پر یہ حقیقت واضح کر دی کہ شاعری کا میدان صرف غزل تک محدود نہیں  کیا جاسکتا ۔حالیؔ کے پہلے اور ان کے دور تک اردو غزل میں  جن چیزوں  کو نظم کیا جاتا تھا، حالی ؔاس کے بالکل منکر تو نہ تھے، لیکن وہ غزل کی تنگیٔ مضامین سے شاکی ضرو رتھے۔ ادب اور شاعری کے لیے زندگی کی ترجمانی اخلاقی اور معاشی قدروں  کا احترام سماجی اور قومی مسائل، غم دوراں ، کائناتی عشق ہے۔ ہجرو وصال نہیں  ۔عام انسانوں  کے دلوں  میں  اس وقت وطن پرستی کے جذبے بیدار ہو چکے تھے۔ حب الوطن کے نغمے ہندوستان کی فضا میں  گونج رہے تھے۔ حالیؔ کو اپنے ادب سے یہی گلہ تھا کہ اس میں  محض تخیل سے کام لیا گیا تھا۔ ایسا بھی نہیں  کہ حالیؔ کو ان مضامین اور موضوعات سے بالکل نفرت تھی لیکن وہ اس میں  تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ وہ نیچر اور اس کے متعلق مضامین پر اردو شاعروں  کی زیادہ سے زیادہ توجہ چاہتے تھے ۔ چونکہ نظم کی حیثیت مضامین کے لیے نہایت موزوں  ہے۔ اس لیے حالیؔ نظم نگاری پر زور دے رہے تھے ۔ محمد حسین آزادؔ کی رفاقت نے حالی ؔکے لیے یہ مسئلہ آسان کر دیا ۔اور ان کی کوششوں  کی مدد سے لاہور میں  ایک غیر طرحی مشاعرے کی بنیاد پڑی۔ جس میں  مختلف موضوعات پر لوگوں  نے نظمیں  پڑھیں ۔ اپنی نوعیت کا یہ اردو ادب کی تاریخ میں  پہلا مشاعرہ تھا۔ اس مشاعرے میں  حالیؔ نے بھی کئی نظمیں  پڑھیں  جو ’’برکھا رُت‘‘ ،  ’’نشاط امید ‘‘  اور حب وطن کے عنوان پر تھیں ۔ حالی ؔنے زندگی کی خارجی حیثیت سے مشاہدہ و مطالعہ کیا۔  اور اس کے مختلف پہلوئوں کو شاعری میں  جگہ دینے کی کوشش کی ۔

حالیؔ اُردو میں  پہلے ایسے شاعر ہیں  جنھوں  نے حقیقت ،صداقت ،زندگی کے روشن اور صحت مند رُخ کو پیش کیا۔اس حقیقت سے انکار نہیں  کیا جاسکتا کہ حالیؔ سے بہت پہلے نظیرؔ اکبر آبادی نے اردو شاعری کی قدیم روایتوں  سے بغاوت کی ، لیکن ان کی منزل واضح نہ تھی۔ انھوں  نے یہ بغاوت شعوری طور پر نہیں  کی ،حالیؔ کا مقصد اور منزل روشن اور واضح تھی اور انھیں  اس پر یقین تھا۔  انھوں  نے زندگی کے پوشیدہ پہلوئوں  کو بے نقاب کیا اور اردو میں  صحت مند تعمیری اور مقصدی ادب کا اضافہ کیا۔

حالیؔ کوجدید اردو نظم کا خالق کہنا چاہئے ۔انھوں  نے شاعری کی نئی ڈگر اختیار کی۔ اگر ترقی پسندی کو اس کے صحت مند مفہوم میں  استعمال کیا جائے تو حالیؔ پہلے ترقی پسند شاعر ہیں  ۔انھوں  نے شاعری کی پرانی روایت سے بغاوت کی ۔یہ بغاوت ظاہری کم اور معنوی زیادہ ہے ۔ وہ نظم کے شدید حامی تھے۔ ان کے عہد میں  مختلف نظریوں  کا ٹکرائو تھا۔ انھوں  نے اس نظریاتی تصادم سے فائدہ اٹھایا ۔وہ اردو غزل کی ہیت پن مواد کے خلاف تھے۔ حالیؔ کی غزلوں  کا حسن ایسی غزلوں  میں  ہے جنھیں  انھوں  نے نظموں  کا روپ دے دیا ہے۔ حالیؔ کا مرثیہ ان کی ایسی ہی غزل کی ایک عمدہ مثال ہے ۔انھوں  نے اپنی شاعری میں  پاکیزہ اور نمائندہ سماج کی تشکیل کی کوشش کی۔ انھوں  نے شاعری کے کینوس کو کشادہ کیا۔

حالیؔ کی غزلوں میں  ایک مخصوص قسم کا تغزل ملتا ہے ۔ ان کے یہا ں زبردستی تخیل کی پرواز نہیں  ہے ۔تشبیہ و استعارے نہایت موزوں  اور مناسب ہیں ۔ ان کی غزلوں  میں  زندگی کی سچائیاں  اور انسانی جذبات و احساسات کو کامیاب مصوری ملتی ہے اس لیے حالی ؔکی کہی ہوئی بات ہر شخص کے اپنے دل کی بات معلوم ہوتی ہے ۔

حالیؔ کی شاعری  غیر معمولی ضبط وخودداری کا پتہ دیتی ہے۔اور جوچیز اردو کے دوسرے شاعروں  سے ممتاز بناتی ہے، وہ عقل اور جذبات کے درمیان ایک توازن ہے۔ اپنے وقت کے غزلوں  کو گویاازسر نوتعمیر کیا ہے اور ان میں  نئی کیفیتیں  بھردی ہےں ۔ ان کی شاعری میں  لطف، سادگی، اور نرمی اور سنبھلی ہوئی رنگینی پائی جاتی ہے۔ حالیؔ اپنے راز کو افشانہیں  کرنا چاہتے ہیں  ، زیر لب کچھ کہ کر رہ جاتے ہیں ۔

حالیؔ کی شاعری میں دوچیزیں ہر جگہ نمایاں  نظر آتی ہیں ۔ واقعیت اور عقل پسندی ،اس لیے ان کے کلام میں  توازن اور ٹھہرائو ملتا ہے ۔نظم میں  حالیؔ کا سب سے نمایاں  کارنامہ ’’مسدس مدّو جزر اسلام ‘‘یہ تبلیغی یا تنظیمی ادب کے عنوان کی چیز ہے ۔ اس میں  جہاں  تک پیغام ہے وہاں  تک شاعری نہیں  ہے ۔اس کے اہم ترین ٹکڑے وہ ہیں ، جس میں  یا تو اسلام کے گزشتہ شان و شوکت کی تصویر دکھائی گئی ہے یا ہندوستان کے مسلمانوں  کی موجودہ ابتری ہے اور پستی کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔یہی شاعری کے مکمل نمونے ہیں ۔ وہی انسانی درد مندی اور دل سوزی دلی جذبات کی سنجیدگی وہی دھیما اور تھما ہوا لہجہ اور زبان کی سادگی اور بے رنگی جو ان کی قدیم و جدید غزلوں  یا ’’حب وطن‘‘،’’ مناجات بیوہ ‘‘جیسی نظموں  میں  ملتا ہے ۔مسدس نے اردو شاعری میں  انقلاب برپا کردیا۔ اس میں  اردو شاعری کا روایتی انداز نہیں  ہے ۔اس میں  رمزیہ شاعری کی وسعت خیال ،عروج وزوال اخلاق و تہذیب کی شعریت کے نمونے ہیں ۔

’’مرثیہ غالب‘‘ میں  حالیؔ نے غالبؔ کی شخصیت کو اس طرح نمایا ں کیا ہے کہ ہندوستان کا ادبی سماج اور تہذیبی پس منظر اجاگر ہوتا ہے ۔مرثیہ زبان کی سادگی کے باوجود زور بیان فصاحت ،سلاست ،سادگی اور تاثیر کے اعتبار سے اردو کے عمدہ ترین مرثیوں  میں  شمار کیا جاتا ہے ۔اس کا ہر شعر سادگی اور تاثیر سے بھر پور ہے ۔جذبات کا طوفان ہے کہ امڈا چلا آتا ہے ۔تاثرات کا بہائو ہے کہ شروع سے آخر تک جاری و ساری ہے    ؎

دل میں  مدت سے تھی خلش جس کی

وہی برچھی جگر کے پار ہے آج

دلِ مضطر کو کون دے تسکیں 

ماتم یارِ غمگسار ہے آج

دل کو باتیں  جب اس کی یاد آئیں 

 “ حالیؔ نے اپنی مثنویوں  میں  جو مواد نظم کیا ہے ،وہ قدیم اردو مثنویوں  کے موضوعات سے مختلف ہے ۔حالیؔ کی مثنویوں  میں  اصلاحی جذبہ کار فرما ہے۔ انھوں  نے حسنِ و عشق کی فرضی داستانوں  سے گریز کیا ہے ۔ان کا اندازِ بیان سادہ اورسلیس ہے ۔لیکن شاعری کی اداس قلبی میں  انھوں  نے دلکشی پیدا کر دی ہے ۔’’حب الوطن ‘‘،  ’’برکھا رُت ‘‘ میں  ہندوستان کی فضا کی تصویر کشی ہے۔  ’’مناجات بیوہ‘‘ ،  ’’چپ کی داد‘‘ ،  ’’رحم و انصاف ‘‘  میں  اصلاحی جذبہ نمایاں  ہے ۔ اپنی کتاب مجالس النسائ لکھی جس کی زبان نہایت آسان اور خالص عور توں  کی سی ہے ۔عورتوں  کی عصمت کا اعتراف انھوں  نے ’’چپ کی داد ‘‘  میں  اس طرح سے کیا ہے ۔

اے مائو بہنو بیٹیوں  دنیا کی زینت تم سے ہے

ملکوں  کی بستی ہو تمہیں  دکھ سکھ کی راحت تم سے ہے

تم آسن ہو بیمار کی، ڈھارس ہو تم ناچارکی

دولت ہو تم نادار کی، عسرت میں  عشرت تم سے ہے

حالیؔ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ آج تک دنیا میں  جتنے پیغمبر ولی ،صوفی، فلسفی پیدا ہوئے سب کو اونچے مقام پر پہنچانے والی عورت تھی

سرکار سے مالک کے جتنے پاک بند ہیں  بڑھے

وہ مائوں  کی گودوں  کے زینے سے ہیں  اوپر چڑھے

اور بعد میں  یہ بھی کہا کہ دنیا میں  سب سے بلند ترین مقام عورت کا ہی ہے   ؎

کی تم نے اس دارالمحن میں  جس محل سے بسر

زیبا ہے گر کہئے تمہیں  فخر بنی نوع بشر

مجموعی طور پر حالیؔ کی شاعری اردو اور شاعری میں  انقلاب لائی اور ایسے وقت کے تقاضوں  سے ہم آہنگ کیا اور زندگی کے مختلف پہلوئوں  کی ترجمانی کا وسیلہ بنایا۔

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم