اسلامی ضروری معلومات

*غسل کے فراٸض:*
*غسل کے تین فراٸض ہیں*

1. کلی کرنا
2. ناک میں پانی ڈالنا
3. تمام بدن پر پانی بہانا


👇👇👇
*غسل کی سنتیں*
*غسل کی پانچ سنتیں ہیں*

1. دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا
2. استنجا کرنا
3. نیت کرنا 
4. وضو کرنا
5. تمام بدن پر پانی بہانا



👇👇👇
*وضو کے فراٸض*
*وضو کے چار فرض ہیں*

1. منہ دھونا
2. کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا
3. چوتھاٸی سر کا مسح کرنا
4. ٹخنوں سمیت دونوں پاٶں دھونا



👇👇👇
*وضو کی سنتیں*
*وضو کی تیرہ سنتیں ہیں*
1. نیت کرنا
2. بسم اللہ پڑھنا
3. تین بار دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا
4. مسواک کرنا
5. تین بار کلی کرنا
6. تین بار ناک میں پانی ڈالنا
7. ڈاڑھی کا خلال کرنا
8. ہاتھ پاٶں کی انگلیوں کا خلال کرنا
9. ہر عضو کو تین بار دھونا
10. ایک بار تمام سر کا مسح کرنا
11. ترتیب سے وضو کرنا
12. دونوں کانوں کا مسح کرنا
13. پے در پے وضو کرنا



👇👇👇
*نواقض وضو*
*وضو آٹھ چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے*
1. پاخانہ پیشاب کرنا
2. ریح یعنی ہوا کا نکلنا
3. خون یا پیپ کا نکل کر بہہ جانا
4. منہ بھر کے قے کرنا
5. بیہوش ہو جانا
6. لیٹ کر یا ٹیک لگا کر سو جانا
7. دیوانہ ہو جانا
8. نماز میں اونچا ہنسنا



👇👇👇
*تیمم کے فراٸض*
*تیمم کے تین فراٸض ہیں*

1. نیت کرنا
2. کہنیوں سمیت ہاتھوں کا مسح کرنا
3. چہرے کا مسح کرنا



👇👇👇
*نماز کی شرائط*
*نماز کی سات شرائط ہیں*

1. بدن کا پاک ہونا
2. کپڑوں کا پاک ہونا
3. جگہ کا پاک ہونا
4. ستر کا چھپانا
5. قبلہ کی طرف منہ کرنا
6. نماز کا وقت ہونا
7. نماز کی نیت کرنا



👇👇👇
*نماز کے فراٸض*
*نماز کے چھے فرض ہیں*

1. تکبیر تحریمہ کہنا
2. قیام کرنا
3. قرأت کرنا
4. رکوع کرنا
5. سجدہ کرنا
6. آخری قعدہ تشھد کی مقدار بیٹھنا



👇👇👇
*نماز کے واجبات*
*نماز کے چودہ واجبات ہیں*

1. فرض کی پہلی دو رکعتوں کو قرأت کیلۓ متعین کرنا
2. فرض نماز کی آخری دو رکعتوں کے علاوہ باقی ہر رکعت میں سورة الفاتح پڑھنا
3. فرض نماز کی آخری رکعتوں کے علاوہ سورہ الفاتحہ کے بعد کوٸی چھوٹی سورت یا تین آیات پڑھ
4. سورة الفاتحہ کو سورت سے پہلے پڑھنا
5. قومہ کرنا
6. جلسہ کرنا
7. دونوں قعدوں میں تشھد پڑھنا
8. ترتيب قاٸم رکھنا
9. تعدیل ارکان 
10. جہری نمازوں میں جہر کرنا اور سری نمازوں میں آہستہ آواز میں پڑھنا
11. قعدہ اولی 
12. لفظ سلام سے نماز سے باہر نکلنا
13. وتروں میں دعاۓ قنوت پڑھنا
14. عیدین میں چھ زائد تکبیریں کہنا



👇👇👇
*نماز جنازہ کے فراٸض*
*نماز جنازہ کے دو فرض ہیں*

1. چار تکبیریں کہنا
2. قیام کرنا


👇👇👇
*کھانے کے آداب*
1. ہاتھ دھو کر کھانا
2. کھانے کی دعا پڑھنا یعنی بسم اللہ وعلٰی برکت اللہ پڑھنا
3. اپنے سامنے سے کھانا
4. دسترخوان بچھا کر کھانا
5. برتن پر جھک کر نہ کھانا
6. برتن کو صاف کرنا
7. مسنون طریقہ سے بیٹھ کر کھانا
8. کھانا کھانے کے بعد کی دعا پڑھنا یعنی الحمد للہ الذی اطعمنا و سقانا و جعلنا من المسلمین پڑھنا
9. اکرام مسلم کرنا
10. کھانے کے بعد ہاتھ دھونا



👇👇👇
*پانی پینے کے آداب*

1. بسم اللہ پڑھ کر پینا 
2. دیکھ کر پینا
3. بیٹھ کر پینا 
4. تین سانسوں میں پینا
5. ہر سانس کے بعد الحمد للہ کہنا
6. پینے کے بعد الحمد للہ پڑھنا


👇👇👇
*سونے کے آداب* 
1. باوضو ہو کر سونا
2. مسنون اذکار یعنی سورہ الفاتحہ . آیتہ الکرسی . سورة حم السجدہ . سورة الملک . سورة الاخلاص . سورة الفلق . سورة الناس پڑھنا
3. بستر کو جھاڑ کر بچھانا
4. سونے سے پہلے سونے کی دعا پڑھ کر سونا یعنی اللھم باسمک اموت و احیٰ
5. سونے سے پہلے مسواک کرنا 
6. داٸیں کروٹ سونا
7. قبلہ کی طرف منہ کر کے سونا 
8. تہجد کی نیت کر کے سونا
9. مسنون طریقہ پر سونا یعنی قبلہ کی طرف منہ کر کے دایاں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر اور بایاں ہاتھ کولہے کے اوپر رکھ کر ٹانگوں میں تھوڑا خم کر کے سونا 
10. سو کر اٹھنے کے بعد یہ دعا پڑھنا الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور.

*یہ تحریر بچوں کے لۓ لکھی گٸ ہے جس سے بڑے بھی فاٸد حاصل کر سکتے ہیں احباب سے گزارش ہے کہ اپنے تمام عزیز و اقارب کو بھیجیں اور اگر اللہ پاک نے آپ کو وسعت دی ہے تو یہ پرنٹ نکلوا کر مساجد میں آویزا کریں ان شاء اللہ مستقل صدقہ جاریہ ہو گا*۔۔*غسل کے فراٸض:*
*غسل کے تین فراٸض ہیں*

1. کلی کرنا
2. ناک میں پانی ڈالنا
3. تمام بدن پر پانی بہانا


👇👇👇
*غسل کی سنتیں*
*غسل کی پانچ سنتیں ہیں*

1. دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا
2. استنجا کرنا
3. نیت کرنا 
4. وضو کرنا
5. تمام بدن پر پانی بہانا



👇👇👇
*وضو کے فراٸض*
*وضو کے چار فرض ہیں*

1. منہ دھونا
2. کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا
3. چوتھاٸی سر کا مسح کرنا
4. ٹخنوں سمیت دونوں پاٶں دھونا



👇👇👇
*وضو کی سنتیں*
*وضو کی تیرہ سنتیں ہیں*
1. نیت کرنا
2. بسم اللہ پڑھنا
3. تین بار دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا
4. مسواک کرنا
5. تین بار کلی کرنا
6. تین بار ناک میں پانی ڈالنا
7. ڈاڑھی کا خلال کرنا
8. ہاتھ پاٶں کی انگلیوں کا خلال کرنا
9. ہر عضو کو تین بار دھونا
10. ایک بار تمام سر کا مسح کرنا
11. ترتیب سے وضو کرنا
12. دونوں کانوں کا مسح کرنا
13. پے در پے وضو کرنا



👇👇👇
*نواقض وضو*
*وضو آٹھ چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے*
1. پاخانہ پیشاب کرنا
2. ریح یعنی ہوا کا نکلنا
3. خون یا پیپ کا نکل کر بہہ جانا
4. منہ بھر کے قے کرنا
5. بیہوش ہو جانا
6. لیٹ کر یا ٹیک لگا کر سو جانا
7. دیوانہ ہو جانا
8. نماز میں اونچا ہنسنا



👇👇👇
*تیمم کے فراٸض*
*تیمم کے تین فراٸض ہیں*

1. نیت کرنا
2. کہنیوں سمیت ہاتھوں کا مسح کرنا
3. چہرے کا مسح کرنا



👇👇👇
*نماز کی شرائط*
*نماز کی سات شرائط ہیں*

1. بدن کا پاک ہونا
2. کپڑوں کا پاک ہونا
3. جگہ کا پاک ہونا
4. ستر کا چھپانا
5. قبلہ کی طرف منہ کرنا
6. نماز کا وقت ہونا
7. نماز کی نیت کرنا



👇👇👇
*نماز کے فراٸض*
*نماز کے چھے فرض ہیں*

1. تکبیر تحریمہ کہنا
2. قیام کرنا
3. قرأت کرنا
4. رکوع کرنا
5. سجدہ کرنا
6. آخری قعدہ تشھد کی مقدار بیٹھنا



👇👇👇
*نماز کے واجبات*
*نماز کے چودہ واجبات ہیں*

1. فرض کی پہلی دو رکعتوں کو قرأت کیلۓ متعین کرنا
2. فرض نماز کی آخری دو رکعتوں کے علاوہ باقی ہر رکعت میں سورة الفاتح پڑھنا
3. فرض نماز کی آخری رکعتوں کے علاوہ سورہ الفاتحہ کے بعد کوٸی چھوٹی سورت یا تین آیات پڑھ
4. سورة الفاتحہ کو سورت سے پہلے پڑھنا
5. قومہ کرنا
6. جلسہ کرنا
7. دونوں قعدوں میں تشھد پڑھنا
8. ترتيب قاٸم رکھنا
9. تعدیل ارکان 
10. جہری نمازوں میں جہر کرنا اور سری نمازوں میں آہستہ آواز میں پڑھنا
11. قعدہ اولی 
12. لفظ سلام سے نماز سے باہر نکلنا
13. وتروں میں دعاۓ قنوت پڑھنا
14. عیدین میں چھ زائد تکبیریں کہنا



👇👇👇
*نماز جنازہ کے فراٸض*
*نماز جنازہ کے دو فرض ہیں*

1. چار تکبیریں کہنا
2. قیام کرنا


👇👇👇
*کھانے کے آداب*
1. ہاتھ دھو کر کھانا
2. کھانے کی دعا پڑھنا یعنی بسم اللہ وعلٰی برکت اللہ پڑھنا
3. اپنے سامنے سے کھانا
4. دسترخوان بچھا کر کھانا
5. برتن پر جھک کر نہ کھانا
6. برتن کو صاف کرنا
7. مسنون طریقہ سے بیٹھ کر کھانا
8. کھانا کھانے کے بعد کی دعا پڑھنا یعنی الحمد للہ الذی اطعمنا و سقانا و جعلنا من المسلمین پڑھنا
9. اکرام مسلم کرنا
10. کھانے کے بعد ہاتھ دھونا



👇👇👇
*پانی پینے کے آداب*

1. بسم اللہ پڑھ کر پینا 
2. دیکھ کر پینا
3. بیٹھ کر پینا 
4. تین سانسوں میں پینا
5. ہر سانس کے بعد الحمد للہ کہنا
6. پینے کے بعد الحمد للہ پڑھنا


👇👇👇
*سونے کے آداب* 
1. باوضو ہو کر سونا
2. مسنون اذکار یعنی سورہ الفاتحہ . آیتہ الکرسی . سورة حم السجدہ . سورة الملک . سورة الاخلاص . سورة الفلق . سورة الناس پڑھنا
3. بستر کو جھاڑ کر بچھانا
4. سونے سے پہلے سونے کی دعا پڑھ کر سونا یعنی اللھم باسمک اموت و احیٰ
5. سونے سے پہلے مسواک کرنا 
6. داٸیں کروٹ سونا
7. قبلہ کی طرف منہ کر کے سونا 
8. تہجد کی نیت کر کے سونا
9. مسنون طریقہ پر سونا یعنی قبلہ کی طرف منہ کر کے دایاں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر اور بایاں ہاتھ کولہے کے اوپر رکھ کر ٹانگوں میں تھوڑا خم کر کے سونا 
10. سو کر اٹھنے کے بعد یہ دعا پڑھنا الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور.

*یہ تحریر بچوں کے لۓ لکھی گٸ ہے جس سے بڑے بھی فاٸد حاصل کر سکتے ہیں احباب سے گزارش ہے کہ اپنے تمام عزیز و اقارب کو بھیجیں اور اگر اللہ پاک نے آپ کو وسعت دی ہے تو یہ پرنٹ نکلوا کر مساجد میں آویزا کریں ان شاء اللہ مستقل صدقہ جاریہ ہو گا*۔۔

بد نظری پر ایک عجیب مضمون

ایک عالم دین کا واٹس ایپ گروپ میں اپنے ساتھیوں کو ناصحانہ مشورہ 
آپ حضرات فیس بک مکمل ڈیلیٹ کردیں۔۔۔۔اس سےآپ بڑےبڑےگناہوں سےبچ جائیں گے۔۔۔۔بدنظری ،بدسماعت،خلوت کےگناہ۔۔۔۔گذشتہ دنوں تفسیرکبیرمیں حدیث نظرسےگزری کہ۔۔۔۔میدان حشرمیں ایک جماعت کو جنت کےقریب لےجایاجائیگاجب جنت کے نظارے سامنے آئیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوگاان بدبختوں کو جہنم کی طرف لےجاؤ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے سامنے اپنے کو نیک ظاہرکرتےتھےجبکہ خلوت میں گناہ کرتےتھےمیں رب سے انکو حیا نہیں آتی تھی۔۔۔۔۔۔تصوف کی کسی کتاب میں دیکھاتھاکہ خلوت کےگناہوں کےسبب انسان کاخاتمہ ایمان پر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔اپنےساتھی بھائ محمد اقبال صاحب ساہیوال والوں نےایک بار عصرکے بعد تبلیغی حلقے میں ترغیبی بات ۔۔۔۔۔میں فرمایا تھا کہ دو بھائ جنہوں نے ساری زندگی دعوت کےکام میں کھپائ تھی مرتےقرآن کریم کولانےکاکہاجب لایاگیاتو کہا۔۔۔تم گواہ ہوجاؤ میں قرآن کے کتاب اللہ ہونےکاانکارکرتاہوں۔۔۔۔اور مرگیا۔۔۔۔دوسرابھائ کچھ دنوں بعد مرنےلگاتواس نےبھی یہی کیا۔۔۔۔۔۔انہیں میں سے ایک کےبیٹےنے رائیونڈ مرکزحضرت مولانا جمشید صاحب رح کوجاکر کارگزاری سنائ ،حضرت رح نے وظیفہ پڑھنےکوبتلایااور ساتھ ہی فرمایا کہ مجھےکل آکرملو۔۔۔۔۔صبح اس نےآکر کہا۔۔۔۔کہ حضرت!رات اباجی اور چچا جان مجھے خواب میں ملےانہوں نےکہاکہ بیٹے!یہ تبلیغ کا کام برحق ہے،ہمیں اپنےکیےکی سزا ملی ہےوہ یہ کہ ہم کپڑےکےتاجر تھے ،اور آنےوالی گاہک مستورات پر خوب بدنظری کرتےتھے۔۔۔۔۔اس لیےخاتمہ ایمان پر نہیں ہوا۔۔۔۔من نظر الی امرأۃ اجنبیۃ صب فی اذنیہ الانک یوم القیمۃ او کمال صلی اللہ علیہ وسلم ،کچھ دن پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کاایک کلپ ،جو انہوں نے غالبا دارالعلوم کے طلباء کو اسی موضوع پر ارشادات فرمائے،بہت مشھور ہوا کہ۔۔۔۔جو شخص  فیسبک یانیٹ والا موبائل استعمال کرتاہےاسکے بارے یہ کہنامشکل ہے کہ اس شخص میں تقوی موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔مجددغض بصر حضرت اقدس مولانا حکیم محمد اختر صاحب رح کاشاید ہی کوئ ایسا بیان ہو جس میں حضرت رح حفاظت نگاہ پر زور نہ دیتے ہوں انکےمواعظ ہم پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم ۔۔۔۔۔کس قدر گًم۔۔۔۔۔راہی۔۔۔۔۔پر گامزن ہیں۔۔۔۔۔۔اس موضوع پر ذرا اپنی اصلاح کیلیے مطالعہ توکریں۔۔۔۔امیدہےاس بلاء و گناہ سے چھٹکارا مل جائےگا۔۔۔۔یہ ہمارے پرنسلی فعل نہیں ہیں کہ کسی کو اس پر دراندازی کاحق نہ ہو۔۔۔بلکہ یاروں میں ایک دوسرے پر اصلاحی نشتر چلانا۔۔۔۔ یوم یعض الظالم یدیہ ویقول یلیتنی لم اتخذفلاناخلیلا۔۔۔۔۔کےتحت داخل ہے۔ظالم کی تعریف امام رازی نے یہ کی ہے۔۔۔من ظلم نفسہ وخالف ربہ ولم یف بما قیل لہ من ربہ۔۔۔۔اس لیے میرا مشورہ یہی ہے کہ ہم سارے فیس بک آج سےہی ڈیلیٹ کریں پھر دیکھیں کیسے وہ سابقہ حلاوتِ اعمال نصیب ہوتی ہے ۔باقی رہا وہ خبروں کا چسکا تو بیسیوں aps آئ ہوئ ہیں جو آپ کو روزانہ سینکڑوں کالمز مضامین کامطالعہ کرسکتی ہیں ان میں کسی لڑکی کی تصویر نہیں ہوتی۔وہ ڈاؤن لوڈ کرلیں اور اس ذہنی عیاشی سے توبہ کریں۔۔۔۔۔۔
ملحوظ :بندہ کو فیس بک ڈیلیٹ کیے ہوئے چھےماہ مکمل ہوگئےہیں ،ساتواں مہینہ ہونےکو آیاہے ،اس گناہ سے پکی توبہ کی ہے آللہ تعالیٰ موت تک استقامت دے۔۔۔۔۔اور 
تہاکوں وی توفیق ڈیوے۔۔۔۔آمین۔۔۔۔سجاداحمدکوٹ ادوی

منقول
اللہ مجھے بھی نظروں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ سب کو بھی اللہ تبارک و تعالی ہم تمام کو عمل صالح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آمین یا رب العالمین

عورت کی ایسی (6) عادات جو اُسکی اور اُسکے اہل خانہ کی دین و دنیا سنوار سکتی ہیں

*عورت کی ایسی (6) عادات جو اُسکی اور اُسکے اہل خانہ کی دین و دنیا سنوار سکتی ہیں!*

*(1)۔ عورت روتی بہت ہے:*
 اگر عورت کا رونا اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی آخرت کی فکر پر ہو تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہر گھر میں حضرت اویس قرنیؒ جیسے بیٹے اور بی بی رابعہ بصریؒ جیسی بیٹاں جنم لیں۔

*(2)۔ عورت بولتی بہت ہے:*
 اگر عورت کا بولنا اپنے خاندان میں دعوت اسلام کو عام کرنے کے لیے ہو تو، پورا معاشرہ امن اور نور کا نمونہ بن جائے۔

*(3)۔عورت کے اندر منوانے کی خصوصیت ہوتی ہے:*
 اگر عورت اپنی من موہنی اداؤں سے اپنے گھرانے والوں کو اللہ کے احکامات کی طرف بلائے تو ہر گھر سے درود و سلام اور تلاوتِ قرآن پاک کی آوازیں بلند ہوں۔

*(4)۔ عورت بہت صابر ہوتی ہے:*
 اگر عورت اپنی نسلوں کو راہِ راست پر لانے کی خاطر اللہ کی راہ میں درپیش مشقتوں پر صبر کرنے والی بن جائے، تو اسکی اولاد کی دین اور دنیا تو سنور جائے گی ہی، ساتھ ہی ساتھ اِس عورت کا مقام بھی جنت کے اعلیٰ و ارفع مقاموں پر ہوگا۔

*(5)۔ عورت کوئی بھی بات بہت جلد آگے پھیلانے والی ہوتی ہے:*
 اگر عورت اپنی اِس عادت کو شریعی، دینی اور مذہبی باتوں کو پھیلانے کیلئے استعمال کرے تو، معاشرے کی ہر عورت اپنے آپ میں ایک عالمہ فاضلہ ہو۔

*6۔ عورت بہت زیادہ شہ خرچ ہوتی ہے:*
 اگر عورت اپنے یا اپنے شوہر کی کمائی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو رہتی دنیا تک وہ پیسہ اُسکے اور اُسکے شوہر کیلئے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔

مسلم پرسنل لا اوریونیفارم سول کوڈ—پروپیگنڈے، حقائق اور ہماری ذمہ داریاں

مسلم پرسنل لا   اوریونیفارم سول کوڈ—پروپیگنڈے، حقائق اور ہماری ذمہ داریاں
محمد ابوبکر پورنوی قاسمی
 معہدالامام ولی اللہ الدہلوی للدراسات الاسلامیہ، نیرل، مہاراشٹر
ہمارا پیارا ملک بھارت عجیب کش مکش میں پھنساہواہےیایوں کہیں کہ تاریخ کے انتہائی نازک پور پر کھڑاہے اور بدسے بدتر حالت کی طرف لے جایاجارہے۔ ایک طرف مہنگائی ، بے روزگاری اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیکڑوں مسائل کاسامناہے، دوسری طرف سیاسی اتھل پتھل اور جوڑ توڑ کا کھیل چل رہاہے، تیسری طرف ملک کی باگ ڈور جن ظالم ہاتھوں میں ہے ، وہ اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے اور ملک کو ترقی کی طرف لے جانے کے بجائے  ایسی سمت میں ڈھکیل رہے ہیں،  جوانتہائی بھیانک اورمزید تباہ کن  ہے۔ 
دراصل برہمنی لابی کے اندرپایاجانے والانسلی برتری کا احساس اور قومی تعصب،  انہیں  ملک کے اصل مسائل اور رئیل ایشوز کی طرف توجہ دینے کا موقع ہی نہیں دیتا، ان  کی اصل فکر "بھارتی سنسکرتی" کے نام پر"برہمنی تہذیب" کو تمام باشندوں پر تھوپنا   اور   پھر سےیہاں بسنے والی  تمام سماجی ،    مذہبی، تہذیبی ، ثقافتی اور قبائلی اکائیوں  کو اپنےاندر ضم کردینا اور برہمنی رنگ میں رنگ کر غلام بنالیناہے۔ان کی تمام کار روائیاں اور ان کے سارے اقدامات اسی مقصد کے لیے ہیں کہ ہر ایک کی انفرادی حیثیت ختم کردی جائے اورسب کی شناخت مٹادی جائے  ۔  ظاہر ہے کہ مسلمان اپنی تمام تر خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود علماء کی کوششوں اور قربانیوں کی  وجہ سے اب بھی اپنی مذہبی شناخت،انفرادی حیثیت، اسلامی تشخص  اور الگ پہچان کے ساتھ زندگی گزار  رہےہیں؛ اس لیے ان کے مقصد کے حصول میں  سب سے بڑی رکاوٹ  مسلمان ہیں ؛ کیوں کہ ملک کی  ہزاروں سماجی وقبائلی اکائیوں نے اپنی پہچان کھودی ہے اور وہ ہندو نہ ہونے کے باوجود ہندو سماج کا حصہ بنادیے گئے ہیں ، اور اب جن بنیادوں پر ان کی الگ الگ حیثیتیں بچی ہوئی ہیں، ان کو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔  بس راہ میں اصل رکاوٹ مسلمان ہیں یا پھر سکھ برادری کے لوگ؛ لیکن  فرق یہ ہے کہ سکھوں کو بھی ان کی مرضی کے خلاف ہی سہی دستوری طورپر "ہندو "نام دے دیاگیاہے۔ 
اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ قومی شناخت   کی بقا کا ضامن ، مذہبی  عبادتیں، رہن سہن کے طور طریقے ،  معاشرتی  احکامات اور عائلی قوانین  ہی ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ آئے دن" ہندتوا "کے حامیوں کی طرف سےنماز، عید، اذان،حج، قربانی، گوشت ، پردہ،نکاح، طلاق،حلالہ،  تعددازواج، عدت، نان ونفقہ ، وراثت  اور تبنیت   (بچہ گود لینا )وغیرہ  کو بنیاد بناکر اسلام پر بے جا اعتراضات  اور مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملے کیے جاتے ہیں، بہیمانہ طریقے سےمارا پیٹاجاتاہے، ٹارگیٹ کلنگ اورماب لنچنگ کی جاتی ہے،    ناجائز مقدمات  میں پھنسایاجاتاہے اور جیلوں میں ٹھونساجاتاہے۔ 
لیکن چوں کہ دستوری طور پرہرایک کو  مذہبی آزادی حاصل ہے  اور مذہبی عبادتیں انجام دینےکا حق  ملاہواہے، اسی طرح ہرمذہبی اور سماجی اکائی کے پرسنل لازدستوری حیثیت رکھتے ہیں، جن کے تحت  وہ اپنی عائل زندگی گزارتے اور معاشرتی احکامات بجالاتے ہیں، اوراس زمرے میں مسلمانوں  کو بھی اپنے پرسنل لاپر عمل کرنے کا پوراحق حاصل ہے، جسے "مسلم پرسنل لا" کہاجاتاہے؛ اس لیے یہ ظالم چاہتے ہیں کہ یونیفارم  سول کوڈکے ذریعے  دیگر پرسنل لاز کے ساتھ ساتھ "مسلم پرسنل لا" کو بھی ختم کردیاجائے ۔ اس طرح معاشرتی طور پر مسلمانوں کا رشتہ  مذہب سے کمزور پڑجائے گا اور دھیر ے دھیرے ختم ہوجائےگا، اورمذہبی حساسیت باقی نہیں رہے گی، پھر قانونی طورپرعبادات پر بھی قد غن لگانا آسان ہوجائےگا اور یہاں بسنے والا مسلمان یا تو ہندو بن کر رہےگا یا ہندومزاج بن کر ، بقیہ کے لیے دستوری اور قانونی طور پر بھی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ یہی اصلا  برہمنوں کی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہے اور یہ اقدامات اسٹپ بائی اسٹپ  اسی کےلیےکیے جارہےہیں۔
حالاں کہ دیگر پرسنل لاز اور "مسلم پرسنل لا" میں فرق یہ ہے کہ "مسلم پرسنل لا" کی جڑیں ہمارے عقیدہ وایمان سے جڑی ہوئی ہیں ،    اس کے تحت آنے والے زیادہ تراحکامات براہِ راست  قرآن وحدیث سے صراحتا قطعی طورپر ثابت ہیں، جن کا انکار اور رد وبدل   کفرہے اور جس میں تبدیلی کا حق کسی کونہیں ہے۔ اگرچہ بعض جزوی احکام ان سے مستنبط ہیں، جن کی حیثیت  بھی قرآن وحدیث سےبراہ راست ثابت شدہ احکام کے تقریبا برابر ہی ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کا پختہ عقیدہ ہے کہ "مسلم پرسنل لا" کے تحت آنے والے احکامات میں تاقیامت کوئی  ترمیم وتبدیلی نہیں ہوسکتی ، اور ان میں کسی طرح کی ترمیم و تبدیلی براہِ راست عقیدہ وضمیر کی آزادی پر حملہ ہے،  جو دستور کے بنیادی حقوق کےبالکل خلاف ہے۔
اس کے باوجود "مسلم پرسنل لا" کے تحت آنے والے احکامات کے خلاف عدالتوں سے کئی فیصلے بھی صادر ہوئے اور پارلیمنٹ نے  کئی قوانین بھی  بنائے، حالاں کہ دستور میں دیے گئے  بنیادی   حقوق کےخلاف نہ عدالت کوئی فیصلہ کرسکتی ہے اور نہ پارلیمنٹ  کوئی قانون بناسکتی ہے؛ لیکن "جس کی لاٹھی اسی کی بھینس" کے تحت یہ سب کچھ ہورہاہے۔   مثلا تین طلاق پر قانون بنایا گیا، جو "مسلم پرسنل" کے بالکل خلاف ہے اور دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اور قانون بھی ایسا بناگیا کہ عقل  ورطۂ حیرت میں ہے کہ تین طلاق دینے سے ایک بھی طلاق نہیں پڑے گی، جب کہ ایک طلاق  دینے ایک طلاق  ہوجاتی ہے، نیز طلاق تو ہوئی نہیں لیکن سزا ملے گی ،  یعنی جرم ہوا نہیں اور سزا ملے گی اور پھر جس بیوی کی وجہ سے شوہر  بلاوجہ کئی سال جیل کی سزا کاٹ کر آئے گا،   اسی کو اپنے گھر میں رکھےگا۔ خدائی کی رہنمائی کے بغیر انسان اپنی عقل سے اسی طرح کے بے عقلی والے فیصلے کرتاہے۔
یہ سب پروپیگنڈے  سے کیا جاتارہاہے ،کیا جارہاہے اور کیا جائے گا۔ اور انسان پروپیگنڈے سے متاثر ہوجاتاہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کےاندر فطری طورپر متأثر ہونےاور کرنے کی  صفت  پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ انسان کےشفیق پروردگار نے  اس کےاندر یہ  استعداد وصلاحیت بہت سی  حکمتوں اور مصلحتوں کے پیش نظر ودیعت کررکھی ہے؛ لیکن بسا اوقات انسان منفی پروپیگنڈوں   اور گردوپیش کے حالات سے اس طر ح متأثرہوجاتاہے کہ وہ حقائق تک پہنچے بغیر اسی چیز کو صحیح یا غلط سمجھنے لگتاہے،جس کے صحیح یا غلط ہونےکی عام فضابن جاتی ہے یا پھرسماج کے شاطر دماغ لوگوں کی طرف سے کچھ منصوبوں کے تحت بنادی جاتی ہے ، حالاں کہ بہت سی دفعہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہوتاہےجیساکہ یہ  صورت حال  اس وقت  پوری دنیا کےاندر اور خود ہمارےملک میں اسلام اور اس کےفطرت پر مبنی قوانین کےبارے میں  پائی جارہی ہے۔ 
بہت کم لوگ ہیں جوپورےغور وفکر کےساتھ اسلام کی حقیقت وحقانیت تک پہنچنے اور ا س کی عملیت ومعقولیت  کو جاننے کی کوشش کرتے ہوں اور اس کے خلاف ہموار کی گئی فضا  اور پھیلائی گئی  غلط فہمیوں سے متأثر ہوئے بغیر  کھرے کھوٹے میں  فرق کرتے ہوں،   ورنہ زیادہ تعداد انہی  لوگوں کی ہے  جو پروپیگنڈوں سے متأثر ہوکر ان غلط فہمیوں کو صحیح سمجھتے ہیں  اور اس کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں حالاں کہ حقائق سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
چناں چہ آج کل یونیفارم سول کوڈ  (تمام شہریوں کے لیے یکساں عائلی قوانین )اور مسلم پرسنل لا (شریعت اپلیکیشن ایکٹ ۱۹۳۷ءکے تحت  عائلی زندگی مثلا نکاح، طلاق، خلع، فسخ نکاح ، نفقہ،مہر،  حق پرورش ،ولایت ،ہبہ،  وصیت ، وراثت اور وقف وغیرہ سے متعلق  اسلامی قوانین) کا مسئلہ    ملک میں بہت زیادہ موضوع بحث بناہواہے اور اس سلسلے میں حکومت نے لاکمیشن کو کٹھ پتلی  بناکر پھر سے آگے کیاہے؛ لہذا اس نے ۱۴/جولائی ۲۰۲۳ء تک یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں لوگوں سے رائے عامہ طلب کی ہے۔ 
مقصد بالکل ظاہر ہے کہ ۲۰۲۴ءکا لوک سبھا الیکشن قریب ہےاور اس سے پہلے اس موضوع کو گرمانا  اور ہوادیناہے؛ تاکہ ایک مرتبہ پھر ہندو مسلم مسئلے  کو لیکر چناؤمیں اتراجائے اور فائدہ اٹھاکر  الیکش جیتاجائے، اور اس کے بعد دستوری اور قانوی طور پر بھی ملک کے "ہندو راشٹر"  ہونے کا اعلان کیا جائے۔ 
یہ بات بالکل اپنی جگہ درست ہےکہ  یونیفارم سول کا نقصان صرف مسلمانوں  کو نہیں ہوگا ؛ بل کہ تمام باشندگان ِ ہند کو ہوگا، خصوصانیچی ذات کے لوگوں  یعنی ایس سی، ایس ٹی اور اوبی سی کی  ہزاروں اکائیوں کو ہوگا، ان کی الگ الگ حیثیتیں بالکل ختم ہوجائیں گی اور اس کی وجہ سے ملنے والے ریزرویشنز اور مراعات سب چھن جائیں گے؛  لیکن پروپیگنڈہ اس طرح کیا جاتاہے اورکیا جارہاہے کہ  یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اس سے مسلمانوں کو نقصان پہونچےگا۔مزعومہ راشٹر وادکی مضبوطی اور مسلم دشمنی ایسی افیم ہے، جس کو سنگھاکر  ملک میں کچھ بھی کیا جاسکتاہے اور کیا جارہاہے۔ 
پروپیگنڈے  کی تین بنیادیں ہیں: 
۱۔ ایک ملک ، ایک قانون ۔ایک خاندان کی طرح ملک بھی ایک قانون ہی سے چل سکتاہے، دوہری ویوستھاسےنہیں چل سکتا۔ یونیفارم سول کوڈ سے اتحاد  و  بھائی چارہ بڑھےگا، راشٹرواد مضبوط ہوگا  اور ملک ترقی کرےگا۔ 
حالاں کہ بات بالکل الٹی ہے ، اس سے  راشٹر واد مضبوط نہیں بل کہ انتہائی کمزورہوگا؛ کیوں کہ راشٹر واد کی حقیقی مضبوطی یہ ہے کہ دستور (جو تمام مذہبی اور سماجی اکائیوں کے درمیان معاہدے کی حیثیت رکھتاہے)باقی رہے، اس پر عمل ہو ،  جمہوریت  کی بنیادیں مضبوط رہیں اور سب کو مذہبی آزادی حاصل رہے ، جب کہ  یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے مذہبی آزدی چھن جائےگی، جمہوریت پر کاری ضرب لگے گی اور دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق سلب ہونے کی وجہ سے دستور کی خلاف ورزی ہوگی اور گویا آپسی معاہدہ ختم ہوجائےگا۔   اسی طرح یہ بات بالکل بدیہی اور مشاہدے کی ہے کہ جب کسی کے حقوق چھینے جاتے ہیں اور   عقیدہ  وضمیر اور رائے کی آزدی سلب کی  جاتی ہے توجذبۂ انتقام پنپتاہے، اختلاف و انتشار بڑھتاہے  اور  ملک خانہ جنگی کی طرف چلاجاتاہے ۔چہ جائے کہ راشٹرواد مضبوط ہواورملک ترقی  کرے۔ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ 
پھر قابل غور پہلو یہ بھی  ہے کہ ملک میں امن وامان بہ حال رکھنے اور ملک کو چلانے کے لیے  جن قوانین میں یکسانیت کی ضرورت ہے، وہ پہلے سے سب کے لیے برابرہیں ۔ چناں چہ کریمنل کوڈ یا پینل کوڈ(ضابطۂ فوج داری )  مکمل طور پر سب کے لیے یکساں ہے اور سول کوڈ(ضابطۂ  دیوانی )   کا بھی اکثر حصہ مثلاقانون شہادت اور قانون معاملات وغیرہ سب کے لیے برابر ہے، صر ف سول کوڈ میں سے فیملی لایعنی معاشرتی معاملات اورعائلی قوانین الگ الگ ہیں، جسے پرسنل لا کہاجاتاہے۔  اور اس  کی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی معاملات  کاتعلق مذہب اور تہذیب وثقافت سے انتہائی مضبوط اور گہرا ہوتاہے،  اور اس کے بغیر مذہبی اور تہذیبی وثقافتی شناخت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس تعلق کو ختم کرنے کا مطلب سیدھے مذہب اور تہذیب وثقافت پر حملہ  اور مذہبی آزادی  کو چھیننا ہے، خصوصا "مسلم پرسنل لا"  کا معاملہ ایسا ہی ہے۔  اور ایسا کرنادستور کو بدلنے اور معاہدے کوتوڑنے کے مترادف ہے۔
اور ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ اگر  واقعی سب  کے لیےمکمل طورپرایک  ہی قانون   کی ضرورت ہے، تو پھر  سب کے لیےآپ(ایک ورگ )   ہی  کا بنایاہوا قانون کیوں ہو؟  آپ  ہی کی مذہبی روایات سب کے لیے کیوں قابل قبول ہوں؟ آپ ہی کی تہذیب وثقافت کی  نمائندگی کیوں ہو؟ یا ایک گروہ کی عقل کا دخل کیوں ہو؟ کیا اس سے دوسرے تمام کو غلام بنانا لازم نہیں آتا؟یہ تومسلمہ حقیقت ہے کہ جو گروہ قانون بناتاہے، وہ کسی نہ کسی بنیاد پر تعصب ضرور برتتا ہے، اس کا انکار ممکن نہیں۔ پھر انسان خود اپنے نفع ونقصان سے واقف نہیں تو سب  کے نفع ونقصان کو سامنے رکھ کر کیسے قانون بنا پائےگا؟ لہذا اگر مکمل طور پر سب کے لیے  ایک ہی قانون چاہیے،  توعقل وانصاف بات یہ ہےکہ سب کو بنانے والے کا قانون نافذ کیا جائے؛ کیوں کہ ہم سب کا یہ ماننا ہےکہ وہ کسی کے ساتھ بھید بھاؤنہیں کرتا اور وہ سب کے نفع ونقصان سے پوری طرح واقف بھی ہے؛ اس لیے اس میں نہ کوئی نقصان کا اندیشہ ہے اور نہ تعصب  و بھید بھاؤ کا۔ اب بس یہ تلاش کرنا ہے کہ ہم سب کے بنانے والے کا بھیجاہوا کون سا قانون مکمل طورپر محفوظ ہے، جس میں کسی قسم کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی ہے۔ یہ ہمارا پرپوزل ہے،  کھلے دل سے اس پر غور کیا جائے اور تسلیم کیا جائے، ورنہ پھر سب کو اپنی اپنی آزادی ملی رہے۔ 
۲۔ دستور میں یونیفارم  سول کوڈ کی بات کہی گئی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کی بات دستور کے بنیاد حقوق کے حصے میں نہیں ہے؛ بل کہ رہنماہدایات میں کہی گئی ہے۔ اور چوں کہ اس کاٹکراؤ بنیادی حقوق کے دفعہ ۲۵، ۲۶ اور ۲۹، ۳۰  سے ہے ؛ اس لیے اس پر قانون بنانے کی بات دستور کےخلاف ہے۔  اور اس کی وجہ یہ ہے کہ  دستور کے بنیادی حقوق کےخلاف کوئی قانون نہیں بنایاجاسکتا۔ 
دوسری بات یہ ہےکہ رہنماہدایات پر اگر عمل کا واقعی جذبہ  ہے تو پہلے ان ہدایات پر عمل کیاجائےجو متفق علیہ ہیں، تب یقین ہوگا کہ دستور میں دیے گئے رہنماہدایات کی وجہ ہی سے ایسا کیاجارہاہےاور اس کےپیچھے دوسرا کوئی مقصدنہیں ہے۔ مثلا رہنماہدایات کے مطابق بھارت کے تمام باشندوں کی آمدنیوں کے فرق کو کم سے کم کیاجائے اور سب کے لیے عدالتوں سے حق وانصاف حاصل کرنے کا مفت انتظام کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
۳۔  پروپیگنڈےکی تیسری بنیاد بہت اہم ہے،جس کی وجہ سے عام طورپر  یونیفارم سول کوڈ کے مسئلے کو ہنددومسلم کا رنگ دیاجاتاہے اور وہ یہ کہ ’مسلم پرسنل لاء‘میں    دوسری شادی ، طلاق اور  عدت وغیرہ کی وجہ سے  جنس کی بناپر عورتوں  کے ساتھ ظلم وزیادتی  ہوتی ہے ۔لہذا مسلم خواتین کو ظلم وزیادتی سے انصاف دلانےکےپرفریب نعرےکی آڑ میں بڑی چالاکی سے   یونیفارم سول کوڈ (یکساں شہری قانون)کےنفاذ  کی وکالت  کی جارہی ہے اورافسوس یہ ہےکہ فطرت پر مبنی  شرعی قوانین سے گہری واقفیت نہ ہونے اورشاطر دماغوں کی شاطرانہ چال  کو نہ سمجھنے کی وجہ سےبعض مسلم مرد وخواتین حتی کہ سنجیدہ سمجھےجانےوالے بعض تعلیم یافتہ حضرات بھی  ان کی ہاںمیں ہاں  ملانےلگتے ہیں ، اگرچہ  اس کا بھی قوی امکان ہے کہ ان میں بعض افرادخواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم ہو، اپنی ذہنی غلامی ،ضمیر فروشی،  سیاسی چاپلوسی اور منافقانہ روش  کی بناپریہ اوچھی حرکتیں کرتےہوں۔اور اس   بات کا بھی ہمیں سچے دل سے اعتراف کرنا چاہیے کہ  اسلامی احکامات کے بارے میں غلط فہمیوں   کے سلسلے میں  ہماری  اپنی معاشرتی  زندگی بھی  بڑی حد تک ذمہ دار ہے اگر چہ دوسرے سماجوں کا حال ہم سے زیادہ خراب اورقابل رحم ہے   ، لیکن ان کا کیا شکوہ کہ وہ بیچارے تو خدائی رہنمائی سے محروم ہیں ۔ 
لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہےکہ تعدد ازدواج اور طلاق وغیرہ کوبہانہ بناکر مسلم خواتین پر ہونےوالی مزعومہ ظلم وزیادتی کا راگ الاپنےوالے  اور حقوق خواتین کے تحفظ کی آڑ میں’ مسلم پرسنل لا‘ کو ختم کرکے’یکساں سول کوڈ‘  نافذ کرنے کی باتیں کرنے والےآخر خواتین کے اصل مسائل کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے؟  اور ان کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں اور عملی اقدامات کیوں نہیں کرتے؟ مثلاسرکاری ونیم سرکاری سیکٹروں ، نجی کمپنیوں، آفسوں اور اداروں میں عورتوں کا جنسی استحصال،آئے دن پیش آنے والے زنا بالجبر کےدردناک واقعات، شراب نوشی اور دیگر اخلاقی خرابیوں کی وجہ سےگھروں میں  عورتوں پر ہونےوالے مظالم، بےگناہ مسلم نوجوانوں کو بلاوجہ جیلوں میں ٹھونسنے اور فرقہ وارانہ فسادات  میں عام شہریوں(جس میں نناوےفیصد سےبھی زیادہ مسلمان ہوتے ہیں،ان بےگناہوں)کے مارےجانےکی وجہ سےخصوصا خواتین کادردوکرب ،ان کی بے بسی ولاچاری اور کسمپرسی و بے چارگی  کی زندگی کاوہ بھیانک منظر جس کے تصورسےبھی رونگٹےکھڑے ہوجاتےہیں۔  یہ ہیں در اصل عورتوں پرہونےوالے مظالم اور ان کے حقیقی مسائل، جن پر  تحفظِ خواتین کے ٹھیکیداروں نے اس طرح چپی سادھ رکھی ہے جیسے ان کو سانپ سونگھ گیاہو۔ مگرسماج کی اس حقیقی صورت ِحال کے بجائے ’مسلم پرسنل لاء‘  کا ہوا کھڑاکے  اس کا ایک ایسا خوف ناک اور ظالمانہ تصور پیش کرتےہیں اور اس کی بناپر عورتوں کی مظلومیت کااس طر ح واویلا مچاتےہیں کہ گویا عورتوں کی ساری پریشانیوں کی اصل اور بنیادی وجہ ’مسلم پرسنل لاء‘ ہی  ہے؛ لہذا س کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ نافذکردینےسےان کی تمام پریشانیاں ختم ہوجائیں گی ، ان کے سارےمسائل حل ہوجائیں گے اور ان کو ہر قسم کی ظلم وناانصافی  سے نجات  مل  جائےگی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے ہی عورتوں کوماں، بہن، بیٹی ، اوربیوی  ہرحیثیت سے   اس کے مناسب مقام عطاکیاہےاور یہ  صرف  ایک نرا دعویٰ نہیں ، بل کہ تاریخی اور سماجی سچائی ہے۔ 
مسلم پرسنل لاء کیاہے؟
دراصل  اسلام میں مذہب کا تصور دیگر اقوام کی طرح صرف چند عبادات اور رسوم  ورواج تک محدود نہیں ہے ؛ بل کہ  وہ زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق   قرآن حکیم اور نبی کریم ﷺ کے ذریعے الہی ہدایات اور خدا ئی رہنمائیاں  پیش کرتا ہے ، جن پر چل  کر ہی انسان مذہب اسلام کاحقیقی پیرو کہلانے کا مستحق ہے ۔ انہی   قوانین الہی اور ہدایات ربانی کا وہ حصہ جو ہماری انفرادی اور عائلی زندگی سے متعلق ہے” مسلم پرسنل لا“ کہلاتاہے ، جس میں  ہمارےذاتی  اور خاندانی معاملات  اور خاندان کےمختلف افراد کے حقوق وفرائض  کا تعین کیاگیاہے ،مثلا  ازدواجی تعلق ، ماں   باپ اور  اولاد کا تعلق ، ایک کا دوسرے پر نفقہ ، حق پرورش  اور وصیت  وراثت  وغیرہ کے متعلق احکام وہدایات۔  انہی قوانین  کو آج عربی میں” قوانین  الاحوال الشخصیۃ “ ، اردو میں  ”شخصی وعائلی قوانین“ اور انگریزی میں  پرسنل لا  (Personal Law)  یا فیملی لا ((Family Law    کہا جاتاہے ۔ یا یوں کہیے کہ ہمارے ملک میں رائج قوانین کی دواہم قسمیں ہیں :کریمنل کوڈ(criminal cod) یاپینل کوڈ(penal cod) اورسول کوڈ(civil cod)، کریمنل کوڈ (ضابطۂ فوجداری)کے اندر جرائم کی سزائیں اور انتظامی قوانین پائے جاتے ہیں، اور سول کوڈ (ضابطۂ دیوانی ) کے دائرہ میں نکاح، طلاق ، خرید وفروخت اور اسی قسم کے تمدنی قوانین شامل ہیں، سول کوڈ کے ہی ایک حصہ کو ”پرسنل لاء“کہاجاتاہے، جس میں ملک کی اقلیتوں کو (جن میں مسلمان بھی شامل ہیں ) ان کے مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا قانی اختیار دستور ہند کے اندر دیاگیاہے، چناں چہ مسلمانوں کوبھی یہ حق دیاگیاہے اور  انڈین شریعت ایپلی کیشن ایکٹ۱۹۳۷ء  کےتحت یہ واضح کیاگیاہے کہ ”مسلم پرسنل لاء“ کے حدودمیں  نکاح، مہر، نفقہ،خوراک وپوشاک،رضاعت(دودھ پلانے کا حق)،حضانت(پرورش کا حق)، ولایت (ولی کون ہو)،طلاق، خلع، فسخ،ایلاء،ظہار،مبارات، عدت، وراثت، وصیت، ہبہ، شفعہ اور وقف شامل ہیں۔ (مسلم پرسنل لاء، حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی، مرکزی دفتر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈنئی دہلی، ص:۱۲۔ماہنامہ گلشن نعمانی مالیگاؤں ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نمبر،جون، جولائی، اگست ، ۲۰۱۴ء، ص:۱۱۸۔)
مسلم پرسنل لا ءکی دینی  وملی اہمیت : 
چوں کہ عام طور پرانسانوں کا عملی رابطہ معاشرتی مسا  ئل ہی سے رہتاہے؛ لہذا اگر ان سےمتعلق اسلامی قوانین پر خط نسخ پھیر دیاجائے  تو   گویا ہماری مذہبی شخصیت  کا  قالب ہی ختم ہوجائے گا  اور پھرملت کی  مذہبی روح بھی فنا ہوجائے گی ؛  اس لیے کہ عائلی قوانین   ہماری مذہبی روح کی محافظ وضامن ہیں  ۔
چنانچہ  ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ“ کے اول جنرل سیکریٹری اور امیر شیریعت  رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی  ؒ مسلم پرسنل لا ءکی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
”مسلم پرسنل لاء مسلمانوں کی مستقل تہذیب اور عائلی نظام کے لئے ریڑھ کی ہڈی  کی حییثیت رکھتا ہے ، کیوں کہ مسلمانوں کی انفرادی ،  عائلی اور سماجی زندگی سے مسلم پرسنل لا کا بہت گہرا رشتہ ہے اور انہی قوانین کی بنیا د پر ان کی عائلی اور سماجی زندگی تشکیل ہوتی ہے ۔ اگر مسلم پرسنل لا ختم ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اسلامی قوانین عملا عبادات کے دائرہ  میں سمٹ کر رہ جائیں گے بلکہ سماجی روح کا بھی خاتمہ ہوجائے گا  ، اور جڑہی خشک ہوجائے گی جس کے پتوں کا  مخصوص رنگ اسے دوسرے درختوں سے ممتاز کرتاہے اور سب سے اہم وجہ  مسلمانوں کا یہ یقین ہے  مسلم پرسنل لا کا تعلق دین وشریعت سے ہے اور اس کی جڑیں قرآن وحدیث میں پیوست ہیں“۔  (  رسالہ مسلم پرسنل لابحث ونظر کے چند گوشے ، مشمولہ مسلم پرسنل لا زندگی کی شاہراہ ، حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ، ترتیب: مولانا ظفر عبد الرؤف رحمانی ،    دارالاشاعت خانقاہ رحمانی  ، مونگیر  ، ۲۰۰۳، ص: ۳۰۔)
فقیہ عصر حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام  صاحبؒ سابق صدر ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ“فرماتے ہیں : ”بحیثیت مسلمان جو احکام قرآن  وحدیث میں موجود ہیں ، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان پر یقین رکھیں اور اس کے مخالف قانون کو قبول نہ کریں ، اللہ تعالی نے نکاح وطلاق کے جو قوانین مقرر فرمائے ہیں  اگرہم اپنی زندگی کے لیے ان کے مقابلے میں  کسی اور قانون کو بہتر اور قابل عمل سمجھتے ہیں ، تو یہ بھی کفرہے  “۔ (معارف قاسم جدید دہلی  ، مسلم پرسنل لا نمبر ،  جون تا اگست  ۲۰۰۹، ص: ۳۵۔)
 اسی سے   یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے  کہ ”مسلم پرسنل لاء “ دیگربہت سی  اقوام کے فیملی  لاز   یا  سماجی رسوم ورواج کی طرح مسلمانوں کے خاندانی  رسم ورواج ، عرف وعادت ، رہن سہن اور معاشی ومعاشرتی حالات کا پیداکردہ  اور ان کی ایجاد نہیں ہے ۔  یعنی ایسا نہیں ہے کہ وقت کےگزرنے  اور تاریخ کے اتار چڑھاؤ اور پھیلاؤ سے قدرتی طور پر اجتماعی ضروریات اور خاندانی مقتضیات کی وجہ سے ایک قانونی نظام بھی ترقی پذیر ہوگیا ہو  ،جسے ہم  اس کی ارتقائی اور تکمیلی شکل میں آج ”مسلم پرسنل لاء“ کا نام دیتے ہوں ۔   بل   کہ یہ قوانین براہ راست  قرآن وسنت  پر مبنی ہیں،  اگرچہ ان کی بعض جزئی شکلوں کا تعین   اجتہاد وقیاس اور عرف واستحسان کی بنا پر  کیا گیاہے،    لیکن چوں کہ وہ بھی کتاب وسنت    ہی سے ماخوذ ومستنبط ہیں  اور انہی کی روشنی میں مرتب کیے گئے  ہیں اس لیے  ان  کو بھی اپنی موجودہ شکل میں قرآن وسنت ہی پر مبنی کہا جائے گا؛کیوں کہ ان کی جڑیں کتاب وسنت میں پیوست ہیں ،اگرچہ ان  کا درجہ ان احکام کے برابر نہیں مانا جائے گا جن کی تصریحات قرآن وسنت میں موجود ہیں، اسی لیے ان کی تطبیقات میں ماہرین  کتاب و سنت کے درمیان اختلاف آراء پایا جاتاہے، لیکن اس کا اختیار بھی صرف انہی ماہرین کو ہے  جن کو کتاب وسنت اور اس کے متعلقات پر مکمل دسترس  حاصل ہو اور حالات وتغیرات   زمانہ پر ان کی گہری نظر ہو ۔  اور یہ بھی حقیقت ہے کہ  تعدد ازواج ، طلاق ، نفقۂمطلقہ  اور تبنیت(گود لینا) وغیرہ کے وہ  مسائل جن  کا سہارا لےکر متعصب ذہنیت کےلوگ یا اسلامی شریعت کی گہرائیوں سے ناواقف افراد  مسلم پرسنل لا کوختم کرکے  یکساں سول کوڈ نافذ کرنےکی باتیں کرتے ہیں ، ان کی تصریحا ت وتفصیلات خود قرآن کریم میں موجود ہیں  اور ان  احکام کو بیان کرنے کے بعد خود اللہ تعالی نے تلک حدود الله    کے ذریعہ ان  کی حدبندی کی صراحت کردی ہے ،جن سےتجاوز کرنے اور ان میں ترمیم وتنسیخ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ۔ کسی اور کی تو بات ہی کیا  خود شارع نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کو بھی    اپنی طرف سے ان میں تبدیلی کرنے کا اختیارحاصل  نہیں ہے ۔ 
قانون سازی کا حقدارکون؟
 دراصل  ایک بنیا دی  بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تمام   انسانوں کی پر امن اورحقیقی طور پر   کامیاب زندگی  کےلیے  ایک منظم قانون بنانے کا حق کس کو ہے ؟    ظاہر ہے کہ  ہرعقل سلیم رکھنےوالے   کے ذہن میں یہی جواب آئے گا کہ  قانون سازی کا اختیار اسی کو ہونا چاہیے جو   سارےانسانوں کےجذبات واحساسات  اور فطری تقاضوں کی رعایت کرے    اور سب کے درمیان عدل  وانصاف قائم کرےاور یہ اسی وقت ممکن  ہوگا جب کہ قانون ساز ہر فرد بشرکی تمام ضروریات زندگی ، مختلف ادوار میں پیش آنےوالے سارے حالات  ، انسانی مزاجوں کی تمام نزاکتوں  اور ہرموقع کےمناسب نفع بخش امور سے بھر پور واقفیت رکھتاہو، نیز وہ خاندانی ، گروہی، قومی، نسلی، وطنی، اور صنفی ہرقسم      کے تمام تعصبات سے بالکل بالاتر ہو۔ یعنی قانون سازی کےلیے  وسیع ومحیط علم اور  سوفیصد عدل   درکارہے ورنہ  اس کے بغیر ہر قانون ناقص اور ادھورا ہے ، بل کہ عموما  ظلم وناانصافی کا باعث  اور فساد وبگاڑ کا ذریعہ بن جاتاہےجیساکہ آج انسانی برادری  اس کو بھگت رہی ہے  ۔ یقینا ایسا علم جو پوری بنی نوع انسانی کی مزاجی کیفیات ، اس کےاحساسات وجذبات ، مختلف ادوار میں اس کو  پیش آنے والےحالات اور تمام شعبہائےزندگی سےمتعلق  اس کے لیے فائدہ مند اور ضرر رساں امور پر محیط ہو ، سوائے  انسانوں کو پیدا کرنےوالے شفیق پروردگار کے نہ کسی فرد  کےپاس ہوسکتاہے اور نہ ہی کسی جماعت وگروہ کے پاس  ۔ انسانی علم کا تو یہ حال  ہےکہ    انسان اپنی نجی زندگی میں کوئی  فیصلہ مفید سمجھ کر  کرتاہے اور کچھ دنوں کےبعد وہ اس کے لیے نقصاندہ ثابت ہوجاتاہے ، یہ ہر ایک کی آپ بیتی ہے، چہ جائے کہ وہ  پوری بنی نوع انسانی کے حق میں صحیح فیصلہ کرسکے ۔ پھر یہ کہ انسانی عقلوں میں اتنا زیادہ تفاوت ہےکہ کوئی کسی چیز کوصحیح اور  مفید  سمجھتاہےاور دوسرا اسی چیز کو غلط اور نقصان دہ قرار دیتاہے ، جب کہ ہرایک کے پاس اس کےمطابق پختہ دلائل ہوتے ہیں ۔ اسی طرح  نہ کوئی فرد اور نہ ہی  مختلف افراد کا کوئی مجموعہ  ہرقسم کےتمام تعصبات سے بالاتر ہوکر کوئی  قانون بنانےپر قدرت رکھتاہے ۔  یہ اس کی فطری کمزوری اور بدیہی  ومشاہداتی  حقیقت  ہے  ، اس کے لیے  کسی دلیل کی بھی  ضرورت نہیں ۔ 
اسی لیے  اسلامی نظریہ کےمطابق قانون سازی کا حق  صرف اور   صرف اس کائنات اور انسانوں کےخالق اور شفیق پروردگار کو حاصل ہے  ۔  خود اللہ تبارک وتعالی نےا پنی طرف سےانسانوں کے لیے بھیجےگئےہدایت نامے  قرآن حکیم میں  اس بات کی  صراحت فرمادی ہے کہ حلال وحرام  کے فیصلےکرنے کا حق اللہ ہی کو ہے  ﴿إن الحکم إلا لله﴾ (حکم صرف اللہ کا ہوگا )   (الأنعام: ۵۷) ۔ اور یہ  ایک فطری اور عقلی طور پربھی سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ جو جس کا چیز کا بنانےوالا ہوتاہے  اس کےاستعمال کا طریقہ بتانے کی اہلیت اور حق و  اختیار اسی کو ہوتاہے ۔ چنانچہ ہم دیکھتےہیں کہ ہرمشین  کے استعمال کا طریقہ   اس کو بنانےوالی کمپنی ہی بتاتی ہے  ، تو پھر یہ کیسےممکن ہے کہ  انسان جیسےپرپیچ اور نازک مشین کے استعمال کاطریقہ بتانے کا حق کسی اور کو حاصل ہو۔  لہذا خالق انسانیت نے اسی کا اعلان کرتےہوئے ارشاد فرمایا : ﴿ ألا له الخلق والأمر ﴾  ”سن لو اسی  کو پیدا کرنے اور حکم دینے کا حق ہے “ ( الأعراف: ۵۴) ۔   اور یہ بھی طے ہے کہ الہی ہدایا ت واحکا م کو جاننےکا ذریعہ صرف اور صرف وحی الہی ہے  ، جوفرشتوں کے ذریعہ انبیاء پر  ہمشہ آتی رہی اور اسی  کی سب سے آخری اور بالکل حتمی ومحفوظ  شکل   وہ ہے  اللہ کےآخری پیغمپر حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی اور وہ آج ہمارے سامنے  قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ کی شکل میں بعینہ موجود ہے ۔ سنت نبوی ﷺ یعنی ارشادات اورافعال  وتائیدات نبوی ﷺ  کی حیثیت بھی وحی الہی کی ہے ؛ کیوں کہ آپ ﷺ  نے امت کی   رہبری و رہمنائی  کے لیے جو کچھ فرمایا  وہ سب کا سب وحی الہی کی بناپر تھا ۔ چنانچہ خود اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب میں اس کی گواہی دی ہے  ﴿ وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی   ﴿﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی﴾ ”اور وہ ( محمدﷺ)  خواہش نفس سے منہ سےکوئی  بات نہیں  نکالتے ہیں ‏،  وہ‏ تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے ‏“ (النجم:۳–۴)  ۔ اسی طرح ایک جگہ اور ارشاد فرمایا :  ﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾ ”اور جو وہ (محمدﷺ تم کو دیں تو اس کو لے لو اور جس سے تم کو منع کریں اور اس سے رک جاؤ“(الحشر : ۷)۔ 
مسلم پرسنل لاء کی دستوری حیثیت : 
مذکورہ بالا سطور سےیہ بات واضح طور پر سامنےآگئی کہ  مسلم پرسنل لا  یا اسلام کے شخصی وعائلی قوانین ( یعنی  جن کے بارے میں آ  زادی سے پہلے ہی   ۱۹۳۷ء  میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ  بنا تھا ، جس کے مطابق  نکاح ، طلاق،  خلع،مبارأۃ،  ظہار ، فسخ نکاح،  حق پرورش ،  ولایت ،حق میراث ، وصیت ، ہبہ، اور شفعہ وغیرہ سے متعلق معاملات میں اگر دونوں فریق مسلمان ہوں تو شریعت محمدی ﷺ کےمطابق ان کا فیصلہ ہونا طے ہواتھا۔ )   مذہب اسلام کا جز ہیں ، جن سے مسلمانوں کا عقیدہ بھی  وابستہ ہے  اور ان سے ان کی تہذیب وثقافت بھی قائم ہے ؛ اس لیے وہ دستور  میں دیےگئے  بنیادی حقوق   کے دفعہ ۲۵،  ۲۶ اور ۲۹کے تحت آتے ہیں  ، جن میں عقیدہ وضمیر کی آزدی  دی گئی ہےاور تہذیب وثقافت کا تحفظ فراہم کیا گیاہے  ۔ متعلقہ دفعات ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں :
 دفعہ  ۲۵–(۱)  تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سےمذہب قبول کرنے ، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنےکا مساوی حق ہے بشرطیکہ امن عامہ ، اخلاق عامہ ، صحت عامہ اور حصہ کی دیگر توضیعات متأثر نہ ہوں ۔ 
دفعہ ۲۶–اس شرط کےساتھ کہ امن عامہ ، اخلاق عامہ اور صحت عامہ متأثر نہ ہوں ہر ایک مذہبی فرقےیا اس کےکسی طبقے کو حق ہو گا ۔ 
(الف) مذہبی اور خیراتی اغراض کےلیے ادارےقائم کرنے اور چلانے کا ۔ 
(ب) اپنےمذہبی امور کا انتطام خود کرنے کا۔ 
دفعہ ۲۹–(۱)  بھارت کے علاقہ میں یا اس کے کسی حصہ میں رہنے والے شہریوں کےکسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جداگانہ زبان ، رسم الخط یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کا حق ہوگا۔ 
یونیفارم سول کوڈ  کا شوشہ : 
اس کو ستم ظریفی  کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں کہ تحریک آزادی کےدوران بار بارآزاد ہندوستان میں ضمیر ومذہب  کی آزادی اور مذہبی امور میں کسی  طرح کی مداخلت نہ کر نے کی یقین دہانی کرائی گئی اور ۱۹۳۷ءمیں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی  کی قرار داد  میں بنیادی حقوق کی صراحت کی گئی اور مذہبی آزادی اور مذہبی احکامات پر آزادانہ عمل کو دہرایا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ ریاست یعنی حکومت تمام مذاہب کےتعلق سےغیرجانبدارانہ رویہ رکھےگی ۔ان  سب کےباوجو۲ /مارچ ۱۹۴۷ءکو کشمیری برہمن اور تقسیم ہند کےذمہ دار پنڈت جواہر لال نہرو کے بہت  ہی قریب رہنے والے  ایم ، آر مسانی نے یکایک دستور ساز اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کےاجلاس  میں  یہ تجویز رکھی کہ” یونیفارم سول کوڈ “ کی فراہمی کو بنیادی حقوق میں شامل کیاجائے ۔ چار اراکین تجویز کےحق میں رہےجب کہ پانچ نےمخالفت کی اور تجویز مسترد ہوگئی ، لیکن ان کو چین نہیں آیا اور  دو ہی دنوں  کے اندر تجویز واپس لاتے ہوئے ۳۰/مارچ ۱۹۴۷ء کو  مذکورہ ذیلی کمیٹی میں   کثرت رائے پر اسے رہنما اصول میں شامل کرلیاگیا، جن کے نفاذ کا اختیار عدلیہ کے پاس نہیں ہے ۔  چنانچہ رہنما اصول کے دفعہ ۴۴/میں کہا گیا کہ ”ریاست  ( حکومت ) یہ کوشش کرےگی کہ بھارت کےپورے علاقہ میں شہریوں  کے لیے یکساں سول کوڈ   فراہم ہو“۔
 ظاہر ہے کہ اس دفعہ کی ضرب عائلی قوانین ہی پر پڑتی ہے؛ کیو ں  کہ عائلی زندگی کےعلاوہ زندگی کے تمام شعبوں میں  تو یکساں قانون موجودہی ہے اور اس پر عمل بھی ہورہاہے ۔ اسی لیے جب  نومبر ۱۹۴۸ء میں مذکورہ دفعہ پر بحث ہوئی  تو کئی مسلم وغیرمسلم لیڈران نے اس سلسلےمیں مختلف ترمیمات پیش کیں ، جن میں جناب محمد اسماعیل صاحب ، جناب محبوب علی بیگ صاحب ، جناب بی پوکر صاحب اور جناب ذاکر الدین صاحب  کی ترمیمات کا ماحصل یہی تھا کہ  جن قوموں کا پرسنل لا ہےان کو ہاتھ  لگائے بغیر یونیفارم سول کوڈ بنایا جائے گا۔ لیکن یہ ساری ترمیمات رد کردی گئیں اور قانون ساز اسمبلی کے صدر ڈاکٹر امبیڈکر نےیہ وضاحت کردی کہ ”کوئی بھی ریاست اپنےاختیارات کا استعمال اس طرح نہیں کرسکتی جس کےباعث مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ ہوجانا پڑے ۔ اگر ریاست ایساکرےگی تومیری دانست میں یہ پاگل پن ہوگا۔ “
چوں کہ آزادی کے فورا بعد تقسیم کےمسئلہ کی وجہ سےحالات اتنےناسازگارتھےکہ اس وقت اس کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی جاسکتی تھی اس لیےمجبورا   اسی وضاحت  پر مسلم لیڈران کو خاموش ہونا پڑا اور رہنما اصول کی یہ شق دستورمیں رہ گئی ۔ لیکن یہ بھی  یاد رہنا چاہیے کہ دستور کے رہنمااصول کا درجہ بنیادی حقوق سے کم ہے  اور  دستور کے بنیادی حقوق کی رو سے  مسلم  پرسنل لا ءکے تحفظ کی گارنٹی   ہے ۔ دوسری بات یہ کہ رہنمااصول میں بعض بہت مفید رہنمائیاں بھی موجود ہیں جن پر عمل درآمدکرنے سےلوگوں میں خوش حالی اور ملک میں ترقی ہوسکتی ہے ، لیکن ان کی طرف   نہ حکومت کی کوئی توجہ ہے اور نہ نام نہاد دانشور لیڈران کی ۔ 
مسلم پرسنل لاکو لاحق خطرات:
 دستور کے بنیادی حقوق میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت اور یکساں سول کو ڈ کے سلسلےمیں ڈاکٹر امبیڈکر کی مذکورہ بالا وضاحت کےباوجود شروع ہی سے مسلم پرسنل لا کے تئیں  حکومتوں کا  رویہ منفی رہا  اور مختلف حیلوں بہانوں اور چوردروازوں سےمسلم پرسنل لا ءمیں گھس پیٹ کرنے کی کوشش  کی جاتی رہی  اور جوں جوں حالات  آگے بڑھتےگئےان کی بد نیتی سامنےآتی گئی ، انہی حالات کے مقابلے اور مسلم پرسنل لا ءکے تحفظ کے لیے  ۲۷–۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ءکےممبئی کنونشن کےنتیجے میں۸،۷اپریل ۱۹۷۳ءکے اندر حیدرآباد کےاجلاس عام میں ”آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ “ کا قیام عمل میں آیا اور اس وقت سےبورڈ  اس سلسلےمیں اپنی گراں قدر خدمات انجام دے رہاہے ۔ 
اب حالا ت پہلےکےمقابلےمیں بہت زیادہ خراب ہیں اور ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکےہیں ؛ کیوں کہ پہلےجوپارٹیاں برسراقتدار تھیں  وہ چور دروازوں سے دھیرے دھیرے اس کام کو  کرناچاہتی تھیں؛ لیکن اس وقت کی برسراقتدار پارٹی کے  ایجنڈےمیں ”یکساں سول کوڈ “کا نفاذ ہے اور وہ اس کے لیے کھلم کھلا بھر پور کوشش بھی کررہی ہے ۔ 
چناں چہ حکومت نے  ایک سازش تحت  لا کمیشن کو پھر سے مکھوٹا اور کٹھ پتلی کے طور پرآگے کیاہے اور  وہ یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں رائے عامہ  لے رہا ہے۔  (واضح رہے کہ لاء کمیشن کو قانون سازی کا اختیار نہیں ہے ،بل کہ وہ  صرف تجاویز پیش کرسکتی ہے) لاء کمیشن نے انتہائی سازشی ذہن کے ساتھ ۱۴/جولائی۲۰۲۳ء  تک اپنی ویب سائٹ پر عوام سے رائے دینے کی اپیل کی ہے،  جس کا حاصل یونیفارم سول کوڈ کے لیے راستہ ہموارکرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں نکلتا؛ کیوں کہ وزیر اعظم خودسرِ عام  یونیفارم سول کے نفاذ کے دلائل دے رہاہے۔ (ارادہ ہے کہ وزیر اعظم کے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ پر استدلالات کا جائزہ پیش کروں،اللہ آسان کرے۔)
ہماری ذمہ داریاں: 
یقینا ہم مسلمانانِ ہند کےلیے موجودہ صورت حال بہت ہی کٹھن اور نہایت سنگین ہے اور ہمارے سامنےبڑےچیلنجز ہیں ؛ لیکن یاد رکھیں کہ اسلام اور اس کےماننےوالے ہمیشہ آزمائشوں کی بھٹی میں تپ کرہی نکھر تےہیں اور اس کے بابصیرت افرادنےان ہی چیلنجوں میں چھپے ہوئے امکانا ت ومواقع کو صحیح استعمال کرکے بروقت حفاظت دین کے ساتھ ساتھ اشاعت دین کا کام بھی کیا ہے اور اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے درج ذیل ذمہ داریاں ہمیں ادا کرنی ہوں گی:
۱۔ اس تاریخی موڑپر ہم خوفزدہ اور مایوس ہونےکے بجائے دین اسلام پر مزید مضبوطی کے ساتھ جمنے اور اسلامی احکامات پر عمل کرنےکا پختہ ارادہ کریں اور معاشرہ میں درآئی خرابیوں مثلامحض جذبۂ عناد کےتحت دوسری شادی اور غیرشرعی طلاقوں سے مکمل پر ہیزکریں اور سخت ضرورت پڑنےپر معاشرتی مسائل کے سلسلے میں کورٹ کچہریوں کے چکر لگاکر اپناوقت و پیسہ ضائع کرنے کےبجائے دارالقضاء اور شرعی عدالتوں کی طرف رجوع کریں اور ان کے فیصلوں کو اپنے اوپر رضاکارانہ طورپر نافذ کریں ،نیز اسلامی احکام کی حکمت ومصلحت اور ان کی عملیت ومعقولیت کا ادراک کریں اور حسن تدبیر کےساتھ برادران وطن کو بھی سمجھانےکی کوشش کریں ۔
۲۔  اپنےدرمیان اتحاد واتفاق پیداکرکے دشمنوں کی    سازشوں اور چالوں کو اچھی طرح سمجھ کر چالوں کا جواب چالوں سے دینے کی عادت ڈالیں ۔مشترکہ ملی مسائل میں تمام مکاتب فکر  اور تنظیموں کے اہم ذمہ داران ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوں  اور ایسے مواقع پر اپنی انفرادی یا مسلکی اور تنظیمی حیثیت کو بڑھاوا دینے کے بجائے  ملت کی اجتماعی حیثیت  کو اجاگر کریں۔
۳۔  برہمنی شاطر دماغ کی یہ بہت کارگرچال رہی ہے کہ وہ ہماری ہر جد وجہد کو ہندومسلم کا نا م دے کر اصل مسئلہ سے توجہ ہٹادیتاہے اور اس ملک کی اکثریت کو ہما رے خلاف ابھار کر ہمارا مد مقابل بنادیتاہے ، جس کی وجہ سے ملک کی فضا ہمارےلیےناسازگار بن جاتی ہے اور ہماری کوئی بھی کوشش صحیح طورپر کامیا ب نہیں ہوپاتی ؛ بل کہ بسا اوقات  نقصان دہ ثابت ہوتی ہے؛ اس لیے کسی بھی مسئلے کو اور خاص طو اس مسئلے کو ہندو مسلم   مسئلہ ہرگز ہر گز بننے نہ دیں ۔ تما م تنظیموں کے ذمہ داران سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت ملک میں بسنے والی تمام مذہبی اور سماجی  اکائیوں سے ملاقاتیں کریں، یونیفارم سول کوڈ سے ان کو پہنچنے والے نقصانات سے آگاہ کریں، ملک کے اصل مسائل کی طرف ان کی توجہ مبذول کریں  ، حکومت کی ناکامیوں کو ہائی لائٹ کریں اور خصوصا نیچی  ذات کے لوگوں پر برہمنوں کی طرف سے کیے جانے والے ہزاروں سال کے ظلم وستم کو یاد دلائیں اور اس کو اچھی طرح اجاگرکریں ،   نیز یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے ملک کو  اسی منوواد کی طرف لے جانےاور پھر سے ان کو  غلام  بنانے کی سازش کو بے نقاب کریں ۔ 
۴۔ جن لوگوں کو ریزرویشنز  ملے ہوئے ہیں، ان کو خاص طور پر آگاہ کریں کہ تمہارے سارے ریزرویشن ختم ہوجائیں گے۔
۵۔ سکھ اور جاٹ  بہادر قومیں ہیں ، ان کے ساتھ تعلقات  کو بہتر بنائیں اور کسان آندولن اور کسانوں کے مسائل  کے حوالے سے بھی ان کو ساتھ میں لینے کی بھر پور کوشش کریں۔ خاص طور پر سکھوں  کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
۶۔ ۲۰۲۴ء کا عام الیکشن کسی قیمت پر ہندو مسلم نہ ہونے دیں۔ دشمن نے جس سازش کے تحت یونیفارم سول کوڈ کے مسئلے کو چھیڑا ہے، اسی کی سازش اسی پر پلٹتے ہوئے اسی مسئلے کو دیگرمذہبی اور سماجی اکائیوں کو ایک ساتھ لانے  کا ذریعہ بنائیں اور ان کے سامنے اصل مسائل رکھیں۔ 
۷۔ اب وقت آگیاہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کےاسوہ کو اپنائیں اورحضوراکرم ﷺ نےتمام قبائل سے معاہدہ کی جو حکمت عملی اپنائی تھی ، اس پر چلتے ہوئے اس اکثریتی طبقہ سے اپنےروابط بڑھائیں ، ان سےتعلقات استوار کریں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنےکی کوشش کریں ، جس کےلیےیہ بہت اچھا موقع ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس ملک کا ہر باوفا شہری اور منصف مزاج انسان تاریخ کےاس اہم موڑ پر ملک کی سالمیت کو بچانے اور ہرایمان والا ملک کی سالمیت کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی متاع  دین وایمان کے تحفظ کی خاطر سامنے آئے اور ہرتن من دھن کی بازی لگاکر شر پسند عناصر کے خواب کو کسی قیمت پر شرمندۂ تعبیر نہ ہونےدے ۔ یقینا اگر ہم اس اکثریتی طبقے کو اصل حقائق سمجھانے اور ان کو اپنے ساتھ لےکر حقیقی ظالم طبقہ کے خلاف میدان میں کام کرنے میں کامیا ب ہوجاتے ہیں تو شاید وہ دن دور نہیں کہ مسلمانوں سے حریفانہ مزاج رکھنے کی وجہ سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جن غلط فہمیوں میں مبتلاہیں یاکردیےگئے ہیں ، وہ دور ہوجائیں اور ان کی ایک بڑی تعداد شفیق پروردگار کی طرف سے بھیجے گئے دین رحمت اسلام سے مانوس ہوکر حلقہ بہ گوش اسلام ہونےکے لیے تیار ہوجائے ۔ (خدا کرے کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔ وماذالك على الله بعزيز)
۸۔ سب سے اہم یہ کہ ہم ہرطرح کے گناہوں سےبچیں اور اللہ تعالی سے خوب عاجزی وانکساری کے ساتھ دعائیں مانگنے  کی عادت ڈالیں۔ یقین رکھیں کہ  وہی اصل مالک الملک  اور احکم الحاکمین ہے۔ کسی بھی موقع پر دین وایمان کی خاطر قربانی دینے اور جان کی بازی تک لگادینے سے بھی گریزنہ کریں ۔ واللہ ھو الموفق۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم