حضرت فروخ رحمۃ اللہ علیہ" کا واقعہ

حضرت فروخ رحمۃ اللہ علیہ" کا واقعہ

حضرت فروخ رحمۃ اللہ علیہ ' تابعین میں سے ھیں........ مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے آئے تو سنا....... کہ خطیبِ مسجد ' جہادِ ترکستان کے لئے لوگوں کو شوق دلارھے ھیں, تو آپ بھی اُٹھے اور اپنے آپ کو پیش کردیا..... تیاری کے لئے گھر آئے.... بیوی اُمید سے تھیں۔ کہنے لگیں ؛- میں اس حال میں ھوں, آپ جارہے ھیں میں اکیلی ھوں, کیا بنے گا ؟ فروخ کہنے لگے.... تُو اور جو کچھ تیرے شکم میں ھے اللہ کے سپرد کرتا ھوں - 
بیوی نے خوشی خوشی اللہ کی راہ میں نکلنے والے مسافر کو تیار کیا.... گھوڑے پہ زین رکھی, ذرہ لاکر دی, اور پھر اُنھیں محبت سے بھرپور لہجے میں الوداع کہا..... فروخ چلے گئے اور پھر انکا انتظار ھونے لگا -
اس زمانے میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ مسلسل جاری تھا فروخ کو جنگی مہموں میں 27 برس گزرگئے... پیچھے اُنکے ھاں اللہ نے ایک خوبصورت فرزند سے انکی بیوی کو نوازا - ماں نے اپنے بیٹےکا نام " ربیعہ" رکھا - ربیعہ جب کچھ بڑے ھوئے تو انکی اچھے انداز سے تربیت کی اور پھر جب اسنے لکھنا پڑھنا سیکھا تو اسے قرآن و حدیث کی تعلیم دلانے کےلئے مدینہ طیبہ کے اچھے معلموں کے پاس بھیجا.... انکی تربیت پر ماں نے سارا مال صرف کردیا...... ربیعہ خود بڑے ھونہار طالبعلم ثابت ھوئے اور پڑھ لکھ کر خوب مقام پایا - علومِ قرآن ' حدیث ' فقہ اور ادب سبھی میں اللہ نے اُنھیں کمال بخشا - پڑھنے کے بعد پڑھانا شروع کیا... تو انکا حلقہءِدرس بڑھتا ھی چلا گیا اور یہاں تک کہ مسجدِنبوی میں باقاعدہ سے علومِ دینیہ سے سیراب ھونے والے نوجوان طلباء کے علاوہ بہت سے بڑی عمر کے لوگ بھی انکے حلقہءِتعلیم میں آتے, مدینہ اور گردونواح میں انکا علمی چرچا عام تھا -
پھر ایک روز رات کی کچھ ساعتیں گزری تھیں کہ ایک گُھڑسوار اپنے بوڑھے جسم پر تلوار سجائے ھاتھ میں نیزہ تھامے اور مالِ غنیمت اپنےساتھ گھوڑے پر لادے مدینہ منورہ میں داًخل ھوا.... سوچوں میں مگن تھا سوچتا تھاکہ.... میراگھر وھیں ھوگا یا جانے کہاں. ؟
 میری بیوی زندہ ھوگی یا میرے جانے کے بعد میرے انتظار میں کسی اور دنیا میں جابسی ھوگی. ؟ وہ اُمید سے تھیں اسکے ھاں اولاد کیا ھوئی, اور اب کس حال میں ھوگی ؟
سوچوں کے یہ دائرے بنتے بنتے یہ بوڑھا مجاھد و غازی اچانک ایک گھر کے سامنے کھڑا ھوگیا...... اسکے دل نے کہا یہ گھر تو تیرا ھی گھر ھے..... چند ثانیے وہ رُکا اور پھر آگے بڑھ کر اس نے دروازہ کھولا اور بےتکلفی سے اندر داخل ھوا...... یکدم ایک نوجوان کی آواز نے اسے ٹھہرنے پر مجبور کردیا - 
رات کی تاریکی میں تم میرے گھر میں بدن پر اسلحہ سجاِئے کیوں گھس آئے. ؟ بوڑھے مجاھد کی بھاری آوازا بھری ؛- مجھے میرے گھر میں روکنے والا کون ھوسکتا ھے. ؟ 
یہ تمہارا گھر نہیں, یہ میرا گھر ھے, جس میں تم گھس رھے ھو -
 یوں ان دونوں کی آوازیں بلند ھونے لگیں اور انکا جھگڑا بڑھنے لگا.. تو گھر میں سوئی.... نوجوان کی والدہ کی آنکھ کھلی, اس نے جھگڑے کی نوعیت معلوم کرنیکے لئے جو باھر جھانکا.... تو اسے بیٹے کے ساتھ اپنا شوھر نظر آیا - اور اس نے وھیں سے اپنے بیٹے کو آوازدے کرکہا ؛- ربیعہ.! سُنو.! یہ تمھارے والد ھیں..... اپنے ابّا کو مرحبا کہو اور پھر آگے بڑھیں اور اپنے شوھر " فروخ " کو مرحبا کہا -.... اور پھر اُنھیں بتایا کہ یہ ربیعہ ھے..... تمھارا اپنا بیٹا- ...جو تمھارے بعد پیدا ھوا تھا -
اب تو منظرھی بدل گیا..... دونوں باپ بیٹا باھم مل رھے ھیں..... ایکدوسرے کو خوشی سے دیکھ رھےھیں.... ایکدوسرے کے ھاتھ اور پیشانی چُوم رھے ھیں..... اور یہ ساری رات اسی طرح باتوں میں اور حال احوال لینے میں ھی کٹ گئی - اس اثنا میں فروخ نے پوچھا وہ کثیر رقم جو میں تمھیں دے کرگیا تھا اسکا کیا ھوا. ؟ بیوی نے کہا ؛- آپ اطمینان رکھیں....... ساری رقم محفوظ ھے - 
اتنے میں فجر کی نماز کا وقت ھوگیا - فروخ اُٹھے اور مسجد جانے سے پہلے ربیعہ کو آواز دی ؛ بیٹا! نماز کو چلو.! ربیعہ کی ماں نے بتایا کہ ربیعہ تو بہت پہلے مسجد چلے گئے ھیں - یہ مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ مسجد بھری ھوئی تھی...... نماز پڑھی اور پھر سب لوگ اپنی اپنی جگہوں پر ادب سے بیٹھ گئے..... اور اپنے امام سے درس سُننے لگے - یہاں بڑے بڑے عمائدینِ سلطنت بھی درس میں شامل تھے..... فروخ بھی اپنی جگہ بیٹھے یہ درس سن رھے تھے اور خُوب محظوظ ھورھے تھے..... لیکن پہچان نہ سکے کہ یہ کون بزرگ ھیں جو مسندِ درس پر بیٹھے ھوئے ھیں.... یہاں تک کہ درس ختم ھوگیا - 
 فروخ نے اپنے بیٹھنے والے سے پوچھا ؛ درس دینے والے یہ رفیع المقام عالم کون تھے ؟ اس نے حیران ھوکر کہا: سارا مدینہ انکو جانتا ھے آپ انکو نہیں پہچانتے..... یہ ھمارے امام ربیعۃ الرائے ھیں.... انکا اصل نام تو ربیعہ ھے لیکن دین کی فقاھت میں اللہ نے انکو وہ مقام دیاھے... کہ جہاں کسی کو کوئی علمی مشکل پیش آئے.....!

وہ ان سے پوچھتے ھیں..... ان ھی کی رائے کو اھمیت دیجاتی ھے - اسی وجہ سے لوگ انھیں ربیعہ کی بجائے " ربیعۃ الرائے " کہتے ھیں - فروخ نے کہا لیکن تم نے مجھے ان کا نسب ( بن فلاں وغیرہ ) تو بتایا نہیں ؟ تو اس شخص نے کہا: ھاں سُنو.! یہ ھیں فرخ کے بیٹے ربیعۃ الرائے -
یہ سنتے ھی فروخ کی آنکھوں سے آنسُو چھلک پڑے - وہ دوسرا شخص نہ جانتا تھا کہ یہ آنسو کیوں بہہ پڑے.... پھر جلدی سے فروخ گھر آئے اور خوشی میں پُھولے اپنی زوجہ سے کہنے لگے... میں نے آج تک اتنی عزت کسی کی نہیں دیکھی, جس قدر ھمارے بیٹے ربیعہ کو اللہ تعالٰی نے دی ھے - اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ھے, جس نے ھمارے بیٹے کو اتنا بڑا مقام عطا فرمایا - اور پھر اپنی زوجہ کا شکریہ ادا کرنا فروخ نے ضروری جانا..... کہ تمھاری اچھی تربیت نے آج مجھے خوشی کا یہ دن دکھایا - 
بیوی نے کہا ؛ آپ کو بیٹے کی یہ عظمت و شان پسند ھے یا وہ تیس ھزار اشرفیاں جو آپ جاتے ھوئے چھوڑ کرگئے تھے.... فروخ نے جواب دیا.... بخدا. ! تیس ھزار اشرفیاں اس مرتبے اور شان کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتیں - بیوی نے کہا ؛ تو سن لیجئے. ! وہ ساری رقم میں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خرچ کر ڈالی ھے - فروخ مُسکرائے اور کہا..... اللہ کی قسم.
اُن سونے کی اشرفیوں کا اس سے بہتر استعمال اور کیا ھوسکتا ھے....!

حضرت خالد بن ولید ایک عجیب جرنیل

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے انتقال کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو ہر گھر میں کہرام مچ گیا ۔ 
جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو لوگوں نے یہ دیکھا کہ آپ کا گھوڑا *’’ اشجر ‘‘* جس پر بیٹھ کے آپ نے تمام جنگیں لڑیں ، وہ بھی آنسو بہارہا تھا ۔ 
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ترکی میں صرف ہتھیار ، تلواریں ، خنجر اور نیزے تھے ۔ 
ان ہتھیاروں کے علاوہ ایک غلام تھا جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا ،،اللہﷻ کی یہ تلوار جس نے دو عظیم سلطنتوں (روم اور ایران) کے چراغ بجھائے ۔
وفات کے وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، آپ نے جو کچھ بھی کمایا، وہ اللہﷻ کی راہ میں خرچ کردیا۔
ساری زندگی میدان جنگ میں گزار دی ۔
صحابہ نے گواہی دی کہ ان کی موجودگی میں ہم نے شام اور عراق میں کوئی بھی جمعہ ایسا نہیں پڑھا جس سے پہلے ہم ایک شہر فتح نہ کرچکے ہوں یعنی ہر دو جمعوں کے درمیانی دنوں میں ایک شہر ضرور فتح ہوتا تھا۔
بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے حضرت خالد کے روحانی تعلق کی گواہی دی ۔

*خالد بن ولید کا پیغام مسلم امت کے نام :*

*موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے ۔جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے ، زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا اور*
 *موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ،،*
دنیا کے بزدل کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میدانِ جہاد میں موت لکھی ہوتی تو اس خالد بن ولید کو موت بستر پر نہ آتی۔
           رضی اللہ تعالٰی عنہُ

اس پیغام کو اس دور میں ہر مسلمان کو ضرور پڑھانا چاہئے، اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے قول کو وقتآ فوقتآ دہراتے رہنا چاہئے

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم