سبق آموز کہانیاں ۔بے حیائی اور سلطان صلاح الدین ایوبی

سبق آموز کہانیاں

                                   بے حیائی 

★سلطان صلاح الدین ایوبی کا سنہرہ قول
اگر تم نے کسی قوم کو تباہ کرنا ہے تو اس کی نوجوان نسل میں بے حیائی پھیلا دو۔۔۔

آپ کا یہ عظیم قول تاریخ کے آئینے میں۔۔!!

یہ تاریخ کا وہ منظر ہے ،جب جولائی 1187ء کو حطین کے میدان میں سات صلیبی حکمرانوں کی متحدہ فوج کو جو مکہ اور مدینے پر قبضہ کرنے آئی تھی ، ایوبی سپاہ نے عبرتناک شکست دے کر مکہ اور مدینہ کی جانب بری نظر سے دیکھنے کا انتقام لے لیا تھا اور اب وہ حطین سے پچیس میل دور عکرہ پر حملہ آور تھا، سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ فیصلہ اِس لیے کیا تھا کہ عکرہ صلیبیوں کا مکہ تھا، سلطان اُسے تہہ تیغ کرکے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا انتقام لینا چاہتا تھا، دوسرے بیت المقدس سے پہلے سلطان عکرہ پر اِس لیے بھی قبضہ چاہتا تھا کہ صلیبیوں کے حوصلے پست ہو جائیں اور وہ جلد ہتھیار ڈال دیں، چنانچہ اُس نے مضبوط دفاع کے باوجود عکرہ پر حملہ کردیا
اور 8جولائی 1187ء کو عکرہ ایوبی افواج کے قبضے میں تھا، اِس معرکے میں صلیبی انٹیلیجنس کا سربراہ ہرمن بھی گرفتار ہوا، جسے فرار ہوتے ہوئے ایک کماندار نے گرفتار کیا تھا۔۔۔!!

گرفتاری کے وقت ہرمن نے کماندار کو خوبصورت لڑکیوں اور بہت سا سونا دے کر فرار کرانے پیش کش کی تھی، مگر کماندار نے اُسے رد کردیا، ہرمن کو جب سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے پیش کیا گیا تو اُس نے گرفتار کرنے والے کماندار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سلطان سے کہا”
سلطان معظم ! اگر آپ کے تمام کماندار اِس کردار کے ہیں جو مجھے پکڑ کر لایا ہے تو میں آپ کو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ کو بڑی سے بڑی فوج بھی یہاں سے نہیں نکال سکتی
،اُس نے کہا، میری نظر انسانی فطرت کی کمزوریوں پر رہتی ہے، میں نے آپ کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کیا، میرا ماننا ہے کہ جب یہ کمزوریاں کسی جرنیل میں پیدا ہو جاتی ہیں یا پیدا کر دی جاتی ہیں تو شکست اُس کے ماتھے پر لکھ دی جاتی ہے، میں نے آپ کے یہاں جتنے بھی غدار پیدا کیئے اُن میں سب سے پہلے یہی کمزوریاں پیدا کیں، حکومت کرنے کا نشہ انسانوں کو لے ڈوبتا ہے، سلطان معظم! آپ کا جاسوسی کا نظام نہایت ہی کارگر ہے، آپ صحیح وقت اور صحیح مقام پر ضرب لگاتے ہیں، مگر میں آپ کو یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ یہ صرف آپ کی زندگی تک ہے۔۔۔!!!
ہم نے آپ کے یہاں جو بیج بویا ہے، وہ ضائع نہیں ہوگا۔۔ آپ چونکہ ایمان والے ہیں اِس لیے آپ نے بے دین عناصر کو دبا لیا، لیکن ہم نے آپ کے امراء کے دلوں میں حکومت، دولت، لذت اور عورت کا نشہ بھر دیا ہے، آپ کے جانشین اِس نشے کو اتار نہیں سکیں گے اور میرے جانشین اِس نشے کو تیز کرتے رہیں گے۔
سلطان معظم ! یہ جنگ جو ہم لڑرہے ہیں، یہ میری اور آپ کی، یا ہمارے بادشاہوں کی اور آپ کی جنگ نہیں، یہ کلیسا اور کعبہ کی جنگ ہے، جو ہمارے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گی، اب ہم میدان جنگ میں نہیں لڑیں گے، ہم کوئی ملک فتح نہیں کریں گے، ہم مسلمانوں کے دل و دماغ کو فتح کریں گے، ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کامحاصرہ کریں گے، ہماری لڑکیاں، ہماری دولت، ہماری تہذیب کی کشش جسے آپ بے حیائی کہتے ہیں، اسلام کی دیواروں میں شگاف ڈالے گی، پھر مسلمان اپنی تہذیب سے نفرت اور یورپ کے طور طریقوں سے محبت کریں گے، سلطان معظم! وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے، میں نہیں دیکھوں گا، ہماری روحیں دیکھیں گی۔”
سلطان صلاح الدین ایوبی، جرمن نژاد ہرمن کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے؛ ہرمن کہہ رہا تھا :

،” سلطان معظم ! آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے عرب کو کیوں میدان جنگ بنایا ؟ صرف اِس لیے کہ ساری دنیا کے مسلمان اِس خطے کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے ہیں اور یہاں مسلمانوں کا کعبہ ہے، ہم مسلمانوں کے اِس مرکز کو ختم کر رہے ہیں، آپ آج بیت المقدس کو ہمارے قبضے سے چھڑا لیں گ، لیکن جب آپ دنیا سے اٹھ جائیں گے، مسجد اقصیٰ پھر ہماری عبادت گاہ بن جائے گی، میں جو پیشن گوئی کر رہا ہوں، یہ اپنی اور آپ کی قوم کی فطرت کو بڑے غور سے دیکھ کر کر رہا ہوں، ہم آپ کی قوم کو ریاستوں اور ملکوں میں تقسیم کر کے انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں گے اور فلسطین کا نام و نشان نہیں رہے گا، یہودیوں نے آپ کی قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں میں لذت پرستی کا بیج بونا شروع کردیا ہے، اِن میں سے اب کوئی نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوگا۔۔۔!!!!

*سبق:-سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ کیا یہ ساری باتیں آج سچ ثابت نہیں ہو رہی ہیں، اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنا احتساب کرتے ہوئے راہِ راست پر آجائیں اور اپنی آخرت سنوار لیں*
◆◇◆◇◆◇◆◇◆◇◆◇◆◇◆◇◆◇◆◇◆◇
*🖋💠🌹سبق آموز کہانیاں🌹💠🖋*

ہم اُردو مضمون نگار کیسے بنیں؟

ہم اُردو مضمون نگار کیسے بنیں؟     ____________________________________
✍️  نگارش قلم:
(مفتی) محمد محسن قاسمی اورنگ آبادی

مشہور شعر ہے۔
*"بستی بسنا کھیل نہیں=*
*یہ تو بستے بستے بستی ہے"۔*
انسان جس چیز کو آسان تصور کرلیتا ہے اسکو عملی جامہ پہنانا اسکے لئے آسان ہوجاتا ہے جہاں تک مضمون نگاری کی بات ہے تو صحافت کے انگڑائیاں لیتے حسین جذبہ کے باوجود ہم  طریقۂ کار سے ناواقفیت یا شرم و عار کے وسوسہ سے اٹھتی چنگاری کو خاکستر کردیتے ہیں جبکہ یہ وہ آشیانہ ہے جہاں سوچتے رہنے سے دامن مراد نہیں بھرتا بلکہ یہاں قلم کی تلوار چلانے والا شہسوار ہی کامیاب و کامران غازی بنتا ہے اسی طرح کے انشاء پردازی کے بعض شائقین کے حکم پر ٫٫مضمون نگاری،، کی راہ پر ڈال دینے والے آسان طریقۂ کار پر مشتمل یہ حقیر ساتحفہ بامید عفو و قبول پیش خدمت ہے۔
ع  *الہی میری قسمت پائے یہ رنگ قبول=*
*پھول جومیں نےچنےہیں انکےدامن کےلئے*
*🌹 کچھ قابل توجہ پہلو🌹*
⁦دنیائے علم وادب کی زینت
اور خوشبو ٫٫حسن ومعنویت کے حسین گلدستہ اردوزبان،، کے مرھون منت ہے لیکن یہ زبان اپنی تخلیق ہی میں بے مثال و لاثانی عربی اور دلکش وشیریں فارسی زبان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اسلئے مقالہ نویس کیلئے ان دونوں زبانوں سے جس درجہ بھی ہو محبت کا تعلق قائم کرنا ازبس ضروری ہے۔
2️⃣  ⁩مضمون کا جسم فصیح الفاظ، پرکشش تعبیرات، مناسب حال محاورات، البیلی تشبیہات،، کے اعضاء سے ترکیب پاتا ہے اور یہ ذخیرہ ٫٫مطالعہ کتب،، کو مشغلۂ حیات بنانے سے دستیاب ہوتا ہے، اسی کے  ساتھ دوران کتب بینی مذکورہ بالا شہ پاروں کو کسی ٫٫پختہ کاپی،، میں قلمبند کرنے کا التزام کریں۔
⁦3️⃣⁩ کامیاب مضمون وہ ہے جسمیں ایک صفحہ لکھنے کیلئےکم ازکم سو صفحات کا مطالعہ کیا جائے اسلئے کسی مضمون پر قلم اٹھانے سے پہلے متعلقہ کتب، رسائل و جرائد کے سینکڑوں صفحات پر گہری نظر گزر جانی چاہیے۔
4️⃣⁩حساس اور ضرورت طلب عنوان پر قلم اٹھایا جائے ایک ٫٫مضمون،، ساری خوبیوں کے باوجود شان قبولیت اس وقت حاصل کرتا ہے، جب وہ لوگوں کی موجودہ حالت کیلئے سامان تشنگی ہو اور چونکہ انسان خود پسند واقع ہوا ہے، اسلئے عنوان کا غلط انتخاب کہیں حوصلہ شکنی کا سبب نہ بن جائے۔
*📗 مضمون لکھنے کا طریقہ📗*
مضمون تین اجزاء پر مشتمل  ہوتا ہے۔
( ۱)تمہید ( ۲)اصل بات (۳)اختتامیہ۔

*٫٫تمہید،،* میں اصل مضمون کیلئے راہ ہموار کرنے اور اس سے مناسبت و ربط پیدا کرنے والی مختصر باتیں ذکر کی جائے کہ کہیں پاؤں زلف دراز میں الجھ کر نہ رہ جائے۔
*٫٫اصل مضمون،،*  مضمون درحقیقت مضمون نگار کے افکار و خیالات کے عکس و تخلیق کاری کا نام ہے، اسلئے مضمون میں قطعی طور پر کتابوں وغیرہ سے ہو بہ ہو، نقل نہ ہو، بلکہ مطالعہ شدہ کے لب لباب اور ما فی الضمیر کو ہوشمندی کے ساتھ اپنے الفاظ اور واضح انداز میں سپردِ قرطاس کیا جائے، کسی ضمنی بات کو ضرورت سے زیادہ طول نہ دیتے ہوئے مقصد پر نظر مرکوز رکھے، مضمون ایک مرتبہ مکمل ہوجانے کے بعد مکرر اور حشو و زوائد وغیرہ کو حذف کرنے اور اختصار و جامعیت کے ارادہ سے دوبارہ لکھیں، اسی طرح سہ بارہ لکھیں، ابتداء میں اس سے زیادہ مرتبہ بھی یہ محنت کرنی پڑے گی، لیکن پھر رفتہ رفتہ ایک یا دو مرتبہ ہی میں مضمون پایۂ تکمیل کو پہونچ جایا کرے گا۔(ان شاء اللہ)

*📝 مضمون لکھنے کے دوران درج ذیل باتوں کا لحاظ ضروری ہے 📝*
                  
◀️مضمون کا آغاز کرنے سے پہلے ذھن میں اسکا خاکہ تیار کرلیں۔
⁦◀️⁩⁩⁩مضمون کو قارئین کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسطرح ترتیب وار لکھیں کہ وہ قاری کے دل و دماغ میں سماتا چلا جائے.
◀️⁩ الفاظ اسقدر گنجلک نہ لائے کہ ایک عام قاری پریشان ہو جائے اورنہ اتنے ہلکے کہ پڑھنے والے کو لطف ہی نہ آئے۔
◀️⁦⁩مضمون گرچہ کاغذات یا عارضی کاپی پر ہی کیوں نہ ہو کبھی بھی شکستہ تحریر میں نہ لکھا جائے⁦۔
◀️ مضمون نہ اتنا مختصر ہو کہ اپنے اختصار و ابہام کی وجہ سے مقصد تحریر واضح  کرنے میں ناکام ہوجائے اور نہ اتنا طویل ہو کہ پڑھنے والے اسکی طوالت دیکھ کر اسے ترک کردیں، اگر کوئی عنوان دراز ہوتو قسط وار شائع کریں تاکہ جانبین کیلئے سہولت ہو۔
◀️⁩⁩درمیان مضمون مطابقت رکھنے والے اشعار  نکہت و فرحت کا باعث ہوتے ہیں۔   
◀️مضمون مبنی بر حقیقت و انصاف ہو۔
◀️⁩مضمون کاہر لفظ معنی خیز ہو بےجا درازی اکتاہٹ کا سبب ہو جاتی ہے۔
◀️⁩⁩مضمون میں قرآن و حدیث سے استشہاد، حوالہ جات اس پر اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔                                                            ◀️مضمون مکمل ہوجانے کے بعد کمپیوزنگ سے پہلے کئی بار ضرورت سے زائد لفظ یا جملہ کو حذف کرنے کی نیت سے پڑھے۔
*٫٫اختتامیہ،،* میں مضمون کا نچوڑ اور ماحصل اور مقصدکو مختصر طور پر اسطرح *٫٫دریا  بکوزہ،،* قلمبند کریں کہ مکمل تحریر نہ پڑھنے والا بھی اس لفافہ سے مضمون کا اندازہ لگالے۔

        *🌿   آخری بات  🌿*

مضمون نگاری ایک آسان فن ہے بشرطیکہ انسان ہمت و حوصلہ کے ساتھ وقفہ وقفہ سے نوک قلم کو جنبش دیتے رہے اور اس سے وجود پذیر جلوہ گری جہاں اشاعت علم کا بہترین ذریعہ ہے، وہیں باقیات صالحات بن کر تا قیامت حصول ثواب کا سبب بھی ہے۔
خدا کرے یہ چند سطریں شاہراہِ صحافت کے مسافروں کے قدم بڑھانے کیلئے قندیل عرفانی ثابت ہو اور ڈر و خوف کے ڈھیر تلے خوابیدہ صلاحیتوں کو فروزاں کرنے کا سامان بن جائے۔ (آمین)
ع *"منزلیں کسی کے گھر دستک نہیں دیتی=*
*راستہ پر چلنے سے راستے کھلتے ہیں"۔*

علماء کرام کی اہميت

مولانا عمر صاحب پالنپوری رحمت اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ زندگی میں کبھی کسی عالم کی برائی مت کرنا اور کسی عالم کی ذات میں کوی عیب مت نکالنا۔۔اگر تم نے کسی عالم کو برا کہا اور اسکے علم کو حقیر سمجھا تو اللہ تمہاری 10دس نسلوں تک کوئ عالم پیدا نہیں کریگا
استغفر اللہ👏🏻👏🏻👏🏻
اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے
علماء کی توھین کا نتیجہ

۱ ) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر علماء نہ ہوتے تو عوام الناس ڈھور اور ڈنگروں کی سی زندگی گزارتے.

۲ ) *• شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی* نے لکھا ہے کہ اہانت علم اور اہانت اہل علم کفر ہے.

۳ ) *• مولانا گنگوہی* فرماتے ہیں جو علماء ربانین کی حقارت کرتا ہے اس کی قبر کو کھود کر دیکھو اس کا منہ قبلہ سے پھیر دیا جاتا ہے.

۴ ) *• مولانا الیاس صاحب* سے کسی نے شکایت کی کہ حضرت مقامی علماء کام میں ساتھ نہیں دے رہے ہیں
اس پر حضرت نے غصہ سے فرمایا :خبردار آئندہ علماء کی شکایت کرنے سے پرہیز کرو ورنہ تمہارا ایمان پر خاتمہ نہ ہوگا             *( مجالس ابرار )*

۵ ) *• حضرت حسن بصری رحمه الله*  فرماتے ہیں کہ علماء کرام کی مثال ستاروں کی سی ہے جب چمکتے ہیں تو لوگ ان سے راہ پاتے ہیں اور جب چھپ جاتے ہیں تو لوگ حیران و پریشان رہ جاتے ہیں اور عالم کی موت اسلام کا ایسا رخنہ ہے جس کی اصلاح قیامت تک ممکن نہیں( تنبیہ الغافلین )

۶ ) علماء وارثینِ نبی ﷺ  ہیں جس نے علماء کو تکلیف دی اس نے اللہ کے نبی ﷺ کو تکلیف دی.  (مفہوم حدیث)

۷ ) اگر علماء اللہ تعالیٰ کے دوست نہیں تو عالم بھر میں کوئی اللہ تعالیٰ کا دوست نہیں ۔  (حضرت سید رفاعی رحمہ اللہ / وصایا انبیاء اولیاء /۲ /۱۰۲)

۸ ) اللہ تعالیٰ علیم ہے علماء کو دوست رکھتے ہیں ۔ (امام غزالی / احیاء العلوم)

۱۰ شاہان اسلام اور ان کے اراکین سلطنت کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کو ترقی دیں، علماء و مشایخ کا احترام کریں اور ان کو دوست رکھیں، اور ظالموں کا قلع قمع کرکے ملک کو عدل و انصاف سے آراستہ کریں تاکہ اہل ملک امن و سکون سے زندگی بسر کریں
(شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمہ اللہ )

۱۱ علم کے معاملے میں قناعت نہیں کرنی چاہئے، عالم سے ہمیشہ تعلق استوار رکھنا چاہئے۔
(حضرت علی ثانی خواجہ سید علی ہمدانی رحمہ اللہ )

۱۲ میرے بیٹوں : عالم اور فاضل حضرات کے ساتھ صحبت رکھنا، جاہلوں سے پرہیز کرنا عقلمندوی کی نشانی ہے ۔
(سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ کی وصیت صاحبزادوں کو )

وصایا انبیاء اولیاء انسائیکلوپیڈیا /۲/ ۲۳۰

*علماء نہیں ہوتے تو ہندوستان میں دین ختم ہوجاتا*

۱۳ مسجدیں ہدایت کی منڈیوں ہیں اور علماء رباّنی دکاندار، اور دکان ان کا سینہ ہے، اور قرآن مال ہے، مسلمان خریدار ہے، اور ایمان پونجی ہے، جو خالص نیت سے ایمان خریدنے یہاں آتا ہے خالی ہاتھ نہیں جاتا ۔
{حضرت مولانا لاہوری رحمہ اللہ}

۱۴ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے، اس کے سوا باقی تمام کمالات نبوی کے حاملین (علماء کرام) اب تک رہے ہیں، اب بھی موجود ہیں اور قیامت تک رہیں گے، انہی کی صحبت میں اصلاح حال ہوتی ہے ۔
{مرد مؤمن /ص ۱۴۰ ۔ اقوال سلف /ج ۵ /ص ۱۵۲ }

۱۵ تم کہتے ہو ملّا بے ایمان ہے، اگر مولوی سوکھے ٹکڑے کھاکر قرآن کو سینے سے نہ لگاتا تو ہندوستان میں اسلام ختم ہوجاتا ۔
{ حضرت لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ }

جاؤ تاریخ کے اوراق دیکھ لو ساری قربانیاں علماء کرام ہی کی ملیں گی ہندوستان موجود ہے تو وہ علماء کرام کے خون سے  ہے۔

*علم حاصل کرو*

۱۶ ) بیٹا! علم شریعت سے دور نہ ہٹنا، علم فقہ پڑھ عالم بن  {سیدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ماہنامہ فیضان مدینہ لاہور ص ۲۴}

۱۷ ) خلیفہ عبدالملک بن مروان کی وصیت اپنے لڑکوں کو : عالم بنو کیونکہ مالدار ہوئے تو علم تمہارا جمال ہوگا اور غریب ہوئے تو علم تمہاراے لئے دولت ثابت ہوگا
{العلم والعلماء ۵۴}

۱۸)  بیٹا ہر علم میں سے ایک اچھا حصہ حاصل کرو کیونکہ آدمی جس علم سے جاہل ہوتا ہے اس سے بغض رکھتا ہے اور مجھے منظور نہیں کہ تم کسی علم سے بغض رکھو ۔
حضرت یحیٰ ابن خالد برمکی رحمہ اللہ کی وصیت اپنے بیٹے کو {العلم والعلماء ۵۴}

*عالم اور عابد*

۱۹ جو باتیں ہم نے کسی عالم سے سیکھی ہیں ان پر خود عمل کریں اگرچہ وہ عمل نہ کرتا ہو اور اسے برا کبھی نہ سمجھے اور اسے عزت دو جب کوئی شخص کسی مسئلہ میں علماء کی نقل کی مخالفت کرے تو اپنے دوستوں کو اس پر اعتراض میں جلدی کرنے سے روکیں اپنے دوستوں کو تاکید کریں کہ جب کسی عالم یا درویش کے پاس جانا چاہیں تو اپنی عقل کے ترازو کو توڑ کر ان کے پاس جایا کریں {امام العارفین والاصولین علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ }

۲۰ ) علماء و صالحین کو عمدہ کپڑے پہنتے اور لذیذ کھانے غذائیں کھاتے دیکھ کر جلدی سے ان پر اعتراض نہ کیا کریں جب ہم کسی حاکم یا رکنِ سلطنت سے ملیں تو اپنے ہم عصر علماء اور درویشوں کو اس کی نظر میں بڑھائیں۔
{ واسایا انبیاء اولیاء انسیکلوپیڈیا /۲ / ۱۵۰}

۲۱ ) جب ہم مسلمانوں کے علماء میں شمار ہونے لگیں تو اپنے شہر والوں میں سب سے زیادہ کریم اور صاحب ایثار بن جائیں ،کسی وعظ میں جائیں تو  واعظ سے پہلے پوری توجہ کے ساتھ اپنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علماء و انبیاء کا نائب سمجھیں۔
{ وصایا انبیا اولیا انسیکلوپیڈیا / ۲ / ۹۷ }

۲۲ ) علماء کی صحبت اور کتب حکمت کے مطالعے سے مسرت بخش زندگی حاصل ہو سکتی ہے
۲۳ ) عالم و عابد  دونوں بزرگ ہیں لیکن عالم اپنے ساتھ دوسروں کو بھی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے، برخلاف اس عابد کے کہ وہ صرف اپنی ہی کامیابی کی دھن میں لگارہتا ہے
{مخزن اخلاق / ۲۵۸}________سعید الباقوی

کتاب: علماء کرام سے دور عوام کے لیے اولیاء اللہ کی وصیتیں۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم