ہم اُردو مضمون نگار کیسے بنیں؟

ہم اُردو مضمون نگار کیسے بنیں؟     ____________________________________
✍️  نگارش قلم:
(مفتی) محمد محسن قاسمی اورنگ آبادی

مشہور شعر ہے۔
*"بستی بسنا کھیل نہیں=*
*یہ تو بستے بستے بستی ہے"۔*
انسان جس چیز کو آسان تصور کرلیتا ہے اسکو عملی جامہ پہنانا اسکے لئے آسان ہوجاتا ہے جہاں تک مضمون نگاری کی بات ہے تو صحافت کے انگڑائیاں لیتے حسین جذبہ کے باوجود ہم  طریقۂ کار سے ناواقفیت یا شرم و عار کے وسوسہ سے اٹھتی چنگاری کو خاکستر کردیتے ہیں جبکہ یہ وہ آشیانہ ہے جہاں سوچتے رہنے سے دامن مراد نہیں بھرتا بلکہ یہاں قلم کی تلوار چلانے والا شہسوار ہی کامیاب و کامران غازی بنتا ہے اسی طرح کے انشاء پردازی کے بعض شائقین کے حکم پر ٫٫مضمون نگاری،، کی راہ پر ڈال دینے والے آسان طریقۂ کار پر مشتمل یہ حقیر ساتحفہ بامید عفو و قبول پیش خدمت ہے۔
ع  *الہی میری قسمت پائے یہ رنگ قبول=*
*پھول جومیں نےچنےہیں انکےدامن کےلئے*
*🌹 کچھ قابل توجہ پہلو🌹*
⁦دنیائے علم وادب کی زینت
اور خوشبو ٫٫حسن ومعنویت کے حسین گلدستہ اردوزبان،، کے مرھون منت ہے لیکن یہ زبان اپنی تخلیق ہی میں بے مثال و لاثانی عربی اور دلکش وشیریں فارسی زبان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اسلئے مقالہ نویس کیلئے ان دونوں زبانوں سے جس درجہ بھی ہو محبت کا تعلق قائم کرنا ازبس ضروری ہے۔
2️⃣  ⁩مضمون کا جسم فصیح الفاظ، پرکشش تعبیرات، مناسب حال محاورات، البیلی تشبیہات،، کے اعضاء سے ترکیب پاتا ہے اور یہ ذخیرہ ٫٫مطالعہ کتب،، کو مشغلۂ حیات بنانے سے دستیاب ہوتا ہے، اسی کے  ساتھ دوران کتب بینی مذکورہ بالا شہ پاروں کو کسی ٫٫پختہ کاپی،، میں قلمبند کرنے کا التزام کریں۔
⁦3️⃣⁩ کامیاب مضمون وہ ہے جسمیں ایک صفحہ لکھنے کیلئےکم ازکم سو صفحات کا مطالعہ کیا جائے اسلئے کسی مضمون پر قلم اٹھانے سے پہلے متعلقہ کتب، رسائل و جرائد کے سینکڑوں صفحات پر گہری نظر گزر جانی چاہیے۔
4️⃣⁩حساس اور ضرورت طلب عنوان پر قلم اٹھایا جائے ایک ٫٫مضمون،، ساری خوبیوں کے باوجود شان قبولیت اس وقت حاصل کرتا ہے، جب وہ لوگوں کی موجودہ حالت کیلئے سامان تشنگی ہو اور چونکہ انسان خود پسند واقع ہوا ہے، اسلئے عنوان کا غلط انتخاب کہیں حوصلہ شکنی کا سبب نہ بن جائے۔
*📗 مضمون لکھنے کا طریقہ📗*
مضمون تین اجزاء پر مشتمل  ہوتا ہے۔
( ۱)تمہید ( ۲)اصل بات (۳)اختتامیہ۔

*٫٫تمہید،،* میں اصل مضمون کیلئے راہ ہموار کرنے اور اس سے مناسبت و ربط پیدا کرنے والی مختصر باتیں ذکر کی جائے کہ کہیں پاؤں زلف دراز میں الجھ کر نہ رہ جائے۔
*٫٫اصل مضمون،،*  مضمون درحقیقت مضمون نگار کے افکار و خیالات کے عکس و تخلیق کاری کا نام ہے، اسلئے مضمون میں قطعی طور پر کتابوں وغیرہ سے ہو بہ ہو، نقل نہ ہو، بلکہ مطالعہ شدہ کے لب لباب اور ما فی الضمیر کو ہوشمندی کے ساتھ اپنے الفاظ اور واضح انداز میں سپردِ قرطاس کیا جائے، کسی ضمنی بات کو ضرورت سے زیادہ طول نہ دیتے ہوئے مقصد پر نظر مرکوز رکھے، مضمون ایک مرتبہ مکمل ہوجانے کے بعد مکرر اور حشو و زوائد وغیرہ کو حذف کرنے اور اختصار و جامعیت کے ارادہ سے دوبارہ لکھیں، اسی طرح سہ بارہ لکھیں، ابتداء میں اس سے زیادہ مرتبہ بھی یہ محنت کرنی پڑے گی، لیکن پھر رفتہ رفتہ ایک یا دو مرتبہ ہی میں مضمون پایۂ تکمیل کو پہونچ جایا کرے گا۔(ان شاء اللہ)

*📝 مضمون لکھنے کے دوران درج ذیل باتوں کا لحاظ ضروری ہے 📝*
                  
◀️مضمون کا آغاز کرنے سے پہلے ذھن میں اسکا خاکہ تیار کرلیں۔
⁦◀️⁩⁩⁩مضمون کو قارئین کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسطرح ترتیب وار لکھیں کہ وہ قاری کے دل و دماغ میں سماتا چلا جائے.
◀️⁩ الفاظ اسقدر گنجلک نہ لائے کہ ایک عام قاری پریشان ہو جائے اورنہ اتنے ہلکے کہ پڑھنے والے کو لطف ہی نہ آئے۔
◀️⁦⁩مضمون گرچہ کاغذات یا عارضی کاپی پر ہی کیوں نہ ہو کبھی بھی شکستہ تحریر میں نہ لکھا جائے⁦۔
◀️ مضمون نہ اتنا مختصر ہو کہ اپنے اختصار و ابہام کی وجہ سے مقصد تحریر واضح  کرنے میں ناکام ہوجائے اور نہ اتنا طویل ہو کہ پڑھنے والے اسکی طوالت دیکھ کر اسے ترک کردیں، اگر کوئی عنوان دراز ہوتو قسط وار شائع کریں تاکہ جانبین کیلئے سہولت ہو۔
◀️⁩⁩درمیان مضمون مطابقت رکھنے والے اشعار  نکہت و فرحت کا باعث ہوتے ہیں۔   
◀️مضمون مبنی بر حقیقت و انصاف ہو۔
◀️⁩مضمون کاہر لفظ معنی خیز ہو بےجا درازی اکتاہٹ کا سبب ہو جاتی ہے۔
◀️⁩⁩مضمون میں قرآن و حدیث سے استشہاد، حوالہ جات اس پر اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔                                                            ◀️مضمون مکمل ہوجانے کے بعد کمپیوزنگ سے پہلے کئی بار ضرورت سے زائد لفظ یا جملہ کو حذف کرنے کی نیت سے پڑھے۔
*٫٫اختتامیہ،،* میں مضمون کا نچوڑ اور ماحصل اور مقصدکو مختصر طور پر اسطرح *٫٫دریا  بکوزہ،،* قلمبند کریں کہ مکمل تحریر نہ پڑھنے والا بھی اس لفافہ سے مضمون کا اندازہ لگالے۔

        *🌿   آخری بات  🌿*

مضمون نگاری ایک آسان فن ہے بشرطیکہ انسان ہمت و حوصلہ کے ساتھ وقفہ وقفہ سے نوک قلم کو جنبش دیتے رہے اور اس سے وجود پذیر جلوہ گری جہاں اشاعت علم کا بہترین ذریعہ ہے، وہیں باقیات صالحات بن کر تا قیامت حصول ثواب کا سبب بھی ہے۔
خدا کرے یہ چند سطریں شاہراہِ صحافت کے مسافروں کے قدم بڑھانے کیلئے قندیل عرفانی ثابت ہو اور ڈر و خوف کے ڈھیر تلے خوابیدہ صلاحیتوں کو فروزاں کرنے کا سامان بن جائے۔ (آمین)
ع *"منزلیں کسی کے گھر دستک نہیں دیتی=*
*راستہ پر چلنے سے راستے کھلتے ہیں"۔*

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم