100 سال کی عمر پانے کیلئے ایک بدو کا حکیمانہ نسخہ

*روضہ رسولﷺپر ایک عرب دیہاتی حاضر ہوکر رب سے کچھ یوں دعا کرتا ہے،*
اس کے مانگنے کا انداز دیکھیئے،
الفاظ پر غورکیجیئے!
یقین جانیئے رب سے مانگنے کا بھی ایک خاص فن، انداز اور ڈھنگ ہوتا ہے جو کہ اس گاؤں کے رہنے والے عربی سے سیکھنا چاہیئے.

*اے اللہ!*
*یہ آپ کے حبیب ہیں،*
*میں آپ کا غلام ہوں اور شیطان آپ کا دشمن ہے۔*
*خدایا اگر تو مجھے بخش دے گا تو تیرا حبیب خوش ہوگا،*
*تیرا بندہ کامیاب ہوگا اور تیرا دشمن غمگین ہوگا.*
*مولا اگر تو نے میری بخشش نہیں کی تو تیرا حبیب غمگین ہوگا،*
*تیرا غلام ناکام ہوگا اور تیرا دشمن خوش ہوگا.*
*الہی! تیری شان اس سے بڑی ھے کہ تو اپنے حبیب کو غمگین کردے،*
*اپنے بندے کو ناکام اور اپنے دشمن کو خوش کردے.*
*میرے پروردگار،*
*ہم عرب ہیں ہمارے یہاں جب کوئی سردار فوت ہو جائے تو اس کی قبر پر غلاموں کو آزاد کیا جاتا ہے. یہ تو تمام جہانوں کے سردار محمد الرسول اللہﷺ کی قبر ہے، پس یہاں مجھ غلام کو جھنم کی آگ سے آزاد فرما دے۔ آمین۔* 

میں نے یہ دعا سُنی تو دنگ رہ گیا.
پھر ان سے بات کی. میں نے اپنی عمر بتائی اور ان کی عمر پوچھی تو معلوم ہوا وہ ۹۵ برس کے تھے اور ان کی والدہ کا انتقال ۱۰۵ برس کی عمر میں ہوا تھا.

*میں نے ذرا ہچکچاہٹ سے پوچھا کہ اچھی صحت کا راز تو بتائیں؟*
کہنے لگے بس بیمار نہ پڑو.

*میں نے کہا یہ تو ہمارے بس کی بات نہیں۔*
ہنستے ہوئے کہنے لگے بس کی بات ہے.

*میں نے کہا آپ بتائیں میں ضرور عمل کرونگا.*
میرے قریب آکر آہستہ سے کہنے لگے منہ میں کبھی کوئی چیز بسم اللہ کے بغیر نہ ڈالنا چاہے پانی کا قطرہ ہو یا چنے کا دانہ.
*میں خاموش سا ہوگیا*
پھرکہنے لگے اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے مقصد اور بلاوجہ نہیں بنائی ہرچیز میں ایک حکمت ہے اور اس میں فائدے اور نقصان دونوں پوشیدہ ہیں- جب ہم کوئی بھی چیز بسم اللہ پڑھ کر منہ میں ڈالتے ہیں تو اللہ اس میں سے نقصان نکال دیتا ہے-
ہمیشہ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ پیو اور دل میں بار بار خالق کا شکر ادا کرتے رہو اور جب ختم کرلو تو بھی ہاتھ اٹھا کر شکر ادا کرو کبھی بیمار نہ پڑوگے- انشاءاللہ

*میری آنکھیں تر ہوچکی تھیں کہ یہ شخص ہماری مسجدوں کے مُلا اور عالموں سے کتنا بڑا عالم تھا؟*

خیر دیر ہورہی تھی میں سلام کرکے اٹھنے لگا تو میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے:

کھانے کے حوالے سے آخری بات بھی سنتے جاؤ،

*میں جی کہہ کر پھر بیٹھ گیا*

کہنے لگے اگر کسی کے ساتھ بیٹھ کر کھا رہے ہو تو کبھی بھول کے بھی پہل نا کیا کرو چاہے کتنی ہی بھوک لگی ہو پہلے سامنے والی کی پلیٹ میں ڈالو اور وہ جب تک لقمہ اپنے منہ میں نہ رکھ لے تم نہ شروع کیا کرو.

*میری ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ اسکا فائدہ پوچھوں؟*

لیکن وہ خود ہی کہنے لگے یہ تمہارے کھانے کا صدقہ ادا ہوگیا اور ساتھ ہی اللہ بھی راضی ہوا کہ تم نے پہلے اس کے بندے کا خیال کیا- یاد رکھو غذا جسم کی اور بسم اللہ روح کی غذا ہے- اب بتاؤ کیا تم ایسے کھانے سے بیمار پڑسکتے ہو؟

*میں شرمندگی میں ڈوبا ہوا بے ساختہ ان کے چہرے پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر جانے کی اجازت لے کر تیزی سے جانے کے لئے مڑگیا کہ دین کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم اور ہماری اولادیں کتنی محروم ہیں۔ تبھی تو ہمارا معاشرہ ہر برائی میں ڈوبا ہوا ہے. اللہ پاک ہمیں دل و جان سے شاکر بنائے اور دین کا صحیح علم اور اچھی سمجھ عطا فرمائے* آمین ثمہ آمین

*جزاک اللہ خیراً🌹*

💞پوسٹ اچھی لگے تودوسروں کی بھلائ کے لئے شیئر کریں

آر ایس ایس کا اپنے خاص ممبران کو دیاگیا ہوش اڑادینے والا خفیہ سرکیلور

آر ایس ایس کا اپنے خاص ممبران کو دیاگیا ہوش اڑادینے والا خفیہ سرکیلور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چانکیہ کی وراثت ابھی زندہ ہے۔
یاسر ندیم الواجدی

سکھوں کے ایک مشہور اسکالر ڈاکٹر سکھ پریت سنگھ نے 584 صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے، کتاب کا نام ہے "سکھ ازم کے خلاف فکری حملے پر ردعمل" (انگریزی نام کا ترجمہ) کتاب میں انھوں نے صحفہ نمبر 582 پر آر ایس ایس کی پالیسیاں نمبر وار درج کی ہیں۔ یہ ایک خفیہ سرکیولر ہے جو تنظیم کی طرف سے اپنے خاص ممبران کو دیا گیا ہے، ڈاکٹر سنگھ کے حوالے سے اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
1- زیادہ سے زیادہ دھماکہ خیز مواد اور ہتھیار جمع رکھیں۔
2- سرکاری افسران میں ہندوتوا کے تئیں بیداری لائی جائے۔
3- طبی عملے کے درمیان بھی ہندوتوا کے تئیں بیداری لائی جائے اور ان کو اس بات کا قائل کیا جائے کہ وہ دلتوں اور مسلمانوں کے نوزائیدہ بچوں کا درست علاج نہ کریں اور یہ بچے معذور پروان چڑھیں۔
4- نچلی ذات کے ہندووں میں "جے شری رام" کے نعرے کو پھیلایا جائے۔
5- ہندوتوا وادی سیکیولر پروگراموں کا بائیکاٹ کیا جائے۔
6- ڈرگ، نشہ، جوا اور لاٹری کی تجارتوں کا تعاون کیا جائے ۔
7- سرکاری دفاتر میں ہندو تہواروں کو بڑے پیمانے پر منایاجائے۔
8- مسلم اور دلت لڑکیوں کو طوائف بنانے کی کوشش کی جائے۔
9- اساتذہ کی مدد سے "غیر سورن" بچوں کو ایسی غذائیں فراہم کی جائیں کہ ان کی جسمانی افزائش متاثر ہوجائے۔
10- ایس سی اور ایس ٹی کے بچوں میں ہندوازم کو مضبوط کرنے کے لیے ان کو ہندو مذہبی اسکولوں میں داخل کیا جائے۔
11- فسادات کے دوران مسلم اور دلت خواتین کی عصمت دری کی جائے اور "سورت" میں پیش کیے جانے والے طریقہ کار کو ملحوظ رکھا جائے۔
12- غیر ہندو عباد گاہوں کے قریب ہندو معبودوں کی تصاویر آویزاں کی جائیں اور ایسا لٹریچر عام کیا جائے جس سے ثابت ہو کہ یہ اصلا ہندووں کی عبادت گاہیں ہیں۔ (اس تعلق سے ناگپور ہیڈ کوارٹر سے مواد حاصل کیا جاسکتا ہے)۔
13- اسلام اور بدھ ازم کے خلاف لٹریچر عام کیا جائے اور مہاراجہ اشوک کو ہندو ثابت کیا جائے۔
14- لائبریریوں سے اسلام، بدھ ازم اور دیگر مذاہب کے لٹریچر کو تدریجا ختم کردیا جائے۔
15- خالی جگہوں پر اونچی برادری کے ہندووں کو ہی ملازمت دی جائے۔
16- رامائن کے اسٹیکرز، کیلنڈرز اور پمفلٹ زیادہ سے زیادہ تقسیم کرائے جائیں۔
17- پسماندہ ذاتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے سادھو سنتوں کی خدمات برابر لی جاتی رہیں۔
18- جینیوں، سکھوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کی تبدیلی مذہب کے پروگرام بڑ ے پیمانے پر منعقد ہوں۔ (پٹنہ ماڈل سامنے رہے)
19- منڈل کمیشن مخالف پروگرام زیادہ سے زیادہ منعقد کیے جائیں
20- مسلمانوں کی مختلف ذاتوں میں تفرقہ ڈالا جائے۔
21- سیاسی پالیسی کے لیے چانکیہ نیتی کو سامنے رکھا جائے۔
22- دلتوں میں دیوداسی کی روایت کو بڑھاوا دیا جائے، اس کے لیے ایسی تصاویر ان میں تقسیم کی جائیں جن میں بھگوانوں کو لڑکیوں کے ساتھ بوس وکنار کرتے ہوے دکھایا گیا ہو۔
23- میڈیا کو کنٹرول کیا جائے اور ایڈیٹرس کو برہمن واد کے تحفظ کے لیے آمادہ کیا جائے۔
24- ایس سی، ایس ٹی امیدوار جو برہمن واد کی حمایت کریں ان کی الیکش میں جیت کو یقینی بنایا جائے۔
25- مسلمانوں ہی میں سے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو مسلم مخالف ذہنیت کے ساتھ لکھیں۔
26- سورن برادری کے تاجروں کا مکمل تعاون کیا جائے۔
27- غیر ہندووں کے کاموں پر نظر رکھی جائے اور ہیڈ کوارٹر کو مطلع کیا جاتا رہے۔
28- ہندو/برہمن واد مخالف لوگوں کو قتل کرکے پہلے سے بتائے گئے طریقے کے مطابق ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا جائے۔
29- چاند کی چودہویں تاریخ کو رضاکاروں کی لازمی میٹنگ ہو۔
30- پیغامات کی ترسیل برابر جاری رہے۔

حق کو پھلنےپھولنے کے لیے اس طرح کی سازشوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا ہے، یہ ہمیشہ سے باطل کا طریقہ رہا ہے، البتہ حق کے تحفظ کے لیے باطل کی ریشہ دوانیوں سے مکمل واقفیت بہت ضروری ہے۔ مندرجہ بالا تفصیلات میں کوئی بھی چیز نئی یا تعجب خیز نہیں ہے، لیکن ان باتوں کا ایک سکھ اسکالر کی طرف سے بطور ثبوت پیش کیا جانا یقینا اہمیت کا حامل ہے۔

مشترکہ مکان میں رہنے کے مفاسد (خرابیاں

*مشترکہ مکان میں رہنے کے مفاسد (خرابیاں)*
از ،  شہید منی حضرت مفتی فاروق صاحب رحمہ اللہ  خلیفہ اجل مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ
1  ۔ مشترکہ مکان میں رہنے اور اسی میں بیوی کو رکھنے میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اس میں بیوی کی حق تلفی ہے
چونکہ مرد کے ذمہ عورت  کو ایسے تنہا کمرے میں رکھنا واجب ہے  جسمیں مرد کے عزیزوں اور گھر والوں میں سے کوئی بھی نہ رہتا ہو  جس میں وہ آزادی سے رہے ، اپنا مال واسباب تالا لگا کر رکھ سکے ,
اور آزادی سے اپنے میاں کے ساتھ بیٹھ اٹھ سکے  ، بات چیت کر سکے اور طہارت ،غسل وضو وغیرہ کا اسی میں انتظام ہو  ،
    *شرعی مسئلہ*
مرد کے ذمہ عورت کو ایسے کمرہ میں  رکھنا واجب ہے جو مرد وعورت دونوں کے اہل سے خالی ہو ، مگر یہ کہ عورت ہی شامل رہنے کو اختیار کرلے  ( فتاوی عالمگیری)

*مفسدہ  نمبر  2*
ایک مفسدہ یہ ہے کہ شامل رہنے کی صورت میں گھر کی اور گھرمیں رہنے والوں ،ساس،سسر،نند(شوہر کی بہنیں ) سب کی خدمت عورت کے ذمہ ضروری سمجھی جاتی ہے  مثلا
1تمام گھر والوں کا کھانا تیار کرنا
2 سب کو کھانا نکال کر دینا
3 سب  کے کپڑے دھونا
4 گھر اور برتنوں کی صفائی  وغیرہ
سب ا سکے ذمہ ضروری سمجھا جاتا ہے ، اگر بیوی ان خدمات کو یاان میں سے بعض کو انجام نہ دے تو  اسکو ملامت کی جاتی ہے  برا بھلا کہا جاتا ہے اور یہ خدمتیں اس کے ذمہ ایسا فریضہ ہے جو بیماری میں بھی ساقط نہیں ہوتا جس کو جبر وہ جبرا وقہرا انجام دیتی ہے  حالانکہ بیوی کے ذمہ مرد کے والدیں کی خدمت واجب نہیں چہ جائکہ  دوسرے عزیزوں کی  ہاں اگر خود سے کر تے ہوئے سعادت سمجھے تو الگ بات ہے مگر طیب خاطر شرط ہے  اگر قرائن سے  معلوم ہوجائے  کہ عورت والدین کی خدمت کرنے سے خوش نہیں تو اس سے خد مت لینا جائز نہیں  خواہ وہ زبان سے شوہر کی ناراضگی کے اندیشہ  سے یا کسی اور دباو کے اندیشہ سے ناگواری ظاھر نہ کرے 
*تنبیہ*
مگر آج اس امر ناگوار کو بری سعادت مندی سمجھا جارہا ہے  کہ وہ مرد بڑا سعادت مند ہے  جو اپنی بیوی کو  والدین اور اہل خانہ کا غلام بنائے رکھے  ،، یاد رکھو یہ ہر گز جائز نہیں  ،  اگر مرد کو والدین کی خدمت کا شوق ہے جو کہ ہونا چاہئے تو خود کرے  یا کوئی ملازم رکھے  عورت  اگر کھانا پکانے سے بھی انکار کردے  اس لئے کہ  اس کو عادت  نہ ہو شریف خاندان کی ہونے کی وجہ سے  ( ان کے گھر یہ کام نوکرانی سے لیا جاتا ہے ) یا کسی بیماری  کی وجہ سے تو اس کو کھانا پکا نے پر مجبور کرنا بھی جائز نہیں   بلکہ خود مرد کے ذمہ واجب ہے کہ تیار شدہ کھانا  بیوی کو لا کر دے یا پکانے کے لئے ملازم رکھے
مگر   اسکو  ان کا موں کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا  مگر  اسکے باوجود سردی ہو یا گرمی ، دکھ ہو یا درد ہر صورت میں  بے چاری عورت سے یہ سب کام لیا جا تا جو بڑا ظلم ہے  اور ذرا سی کوتاہی ہونے پر اس کو رسوا کیا جا تا ہے  سخت سست کہاجاتا ہے  جو  چوری سینہ زوری  کا مصداق ہے تو اس صورت میں گھر میں جھگڑا نہیں ہوگا  تو کیا ہوگا 
(بقیہ سلسلہ اگلی قسط  میں ان شاء اللہ تعالی ) 
اقتباس  ۔ معاشرت پر ایک نظر 
منجانب  ۔۔  الجنہ للسنہ   گروپ

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم