مشترکہ مکان میں رہنے کے مفاسد (خرابیاں

*مشترکہ مکان میں رہنے کے مفاسد (خرابیاں)*
از ،  شہید منی حضرت مفتی فاروق صاحب رحمہ اللہ  خلیفہ اجل مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ
1  ۔ مشترکہ مکان میں رہنے اور اسی میں بیوی کو رکھنے میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اس میں بیوی کی حق تلفی ہے
چونکہ مرد کے ذمہ عورت  کو ایسے تنہا کمرے میں رکھنا واجب ہے  جسمیں مرد کے عزیزوں اور گھر والوں میں سے کوئی بھی نہ رہتا ہو  جس میں وہ آزادی سے رہے ، اپنا مال واسباب تالا لگا کر رکھ سکے ,
اور آزادی سے اپنے میاں کے ساتھ بیٹھ اٹھ سکے  ، بات چیت کر سکے اور طہارت ،غسل وضو وغیرہ کا اسی میں انتظام ہو  ،
    *شرعی مسئلہ*
مرد کے ذمہ عورت کو ایسے کمرہ میں  رکھنا واجب ہے جو مرد وعورت دونوں کے اہل سے خالی ہو ، مگر یہ کہ عورت ہی شامل رہنے کو اختیار کرلے  ( فتاوی عالمگیری)

*مفسدہ  نمبر  2*
ایک مفسدہ یہ ہے کہ شامل رہنے کی صورت میں گھر کی اور گھرمیں رہنے والوں ،ساس،سسر،نند(شوہر کی بہنیں ) سب کی خدمت عورت کے ذمہ ضروری سمجھی جاتی ہے  مثلا
1تمام گھر والوں کا کھانا تیار کرنا
2 سب کو کھانا نکال کر دینا
3 سب  کے کپڑے دھونا
4 گھر اور برتنوں کی صفائی  وغیرہ
سب ا سکے ذمہ ضروری سمجھا جاتا ہے ، اگر بیوی ان خدمات کو یاان میں سے بعض کو انجام نہ دے تو  اسکو ملامت کی جاتی ہے  برا بھلا کہا جاتا ہے اور یہ خدمتیں اس کے ذمہ ایسا فریضہ ہے جو بیماری میں بھی ساقط نہیں ہوتا جس کو جبر وہ جبرا وقہرا انجام دیتی ہے  حالانکہ بیوی کے ذمہ مرد کے والدیں کی خدمت واجب نہیں چہ جائکہ  دوسرے عزیزوں کی  ہاں اگر خود سے کر تے ہوئے سعادت سمجھے تو الگ بات ہے مگر طیب خاطر شرط ہے  اگر قرائن سے  معلوم ہوجائے  کہ عورت والدین کی خدمت کرنے سے خوش نہیں تو اس سے خد مت لینا جائز نہیں  خواہ وہ زبان سے شوہر کی ناراضگی کے اندیشہ  سے یا کسی اور دباو کے اندیشہ سے ناگواری ظاھر نہ کرے 
*تنبیہ*
مگر آج اس امر ناگوار کو بری سعادت مندی سمجھا جارہا ہے  کہ وہ مرد بڑا سعادت مند ہے  جو اپنی بیوی کو  والدین اور اہل خانہ کا غلام بنائے رکھے  ،، یاد رکھو یہ ہر گز جائز نہیں  ،  اگر مرد کو والدین کی خدمت کا شوق ہے جو کہ ہونا چاہئے تو خود کرے  یا کوئی ملازم رکھے  عورت  اگر کھانا پکانے سے بھی انکار کردے  اس لئے کہ  اس کو عادت  نہ ہو شریف خاندان کی ہونے کی وجہ سے  ( ان کے گھر یہ کام نوکرانی سے لیا جاتا ہے ) یا کسی بیماری  کی وجہ سے تو اس کو کھانا پکا نے پر مجبور کرنا بھی جائز نہیں   بلکہ خود مرد کے ذمہ واجب ہے کہ تیار شدہ کھانا  بیوی کو لا کر دے یا پکانے کے لئے ملازم رکھے
مگر   اسکو  ان کا موں کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا  مگر  اسکے باوجود سردی ہو یا گرمی ، دکھ ہو یا درد ہر صورت میں  بے چاری عورت سے یہ سب کام لیا جا تا جو بڑا ظلم ہے  اور ذرا سی کوتاہی ہونے پر اس کو رسوا کیا جا تا ہے  سخت سست کہاجاتا ہے  جو  چوری سینہ زوری  کا مصداق ہے تو اس صورت میں گھر میں جھگڑا نہیں ہوگا  تو کیا ہوگا 
(بقیہ سلسلہ اگلی قسط  میں ان شاء اللہ تعالی ) 
اقتباس  ۔ معاشرت پر ایک نظر 
منجانب  ۔۔  الجنہ للسنہ   گروپ

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم