رمضان میں پیٹ ‏بھر ‏کرکھانا ‏شرعاپسندیدہ ‏ہے

ملفوظات حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
رمضان میں پیٹ بھر کر کھانا شرعاً پسندیدہ ہے
ارشادفرمایا کہ حدیث کے اشارہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان میں مومن کو زیادہ کھانا چا ہئے اور میں اشارہ کا لفظ بھی احتیاطاً کہہ رہا ہوں ورنہ حد یث میں تقریباً اس کی صراحت ہے ۔حضور ﷺ فرماتے ہیں “شهر يزداد فيه رزق المومن “(مشکوۃ) کہ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ۔اب بتلاؤ یہ 
زیادتی کھانے کے واسطے ہے یا رکھنے کے واسطے؟
جب حق تعالی ہی اس مہینہ میں رزق بڑھاتے ہیں تو ہم کو چاہئے کہ اس مہینہ میں اور مہینوں سے زیادہ کھایا جائے۔ نیز حضور ﷺ فرماتے ہیں “هو شهر المواساة “کہ یہ مہینہ ہمدردی کا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ رمضان میں خود بخود دل تقاضا کرتا ہے کہ یار احباب اور دوستوں کو بھی کچھ بھیجا جاۓ ۔ جس کے گھر میں کوئی نئی چیز پکتی ہے وہ افطار کے وقت اپنے دوستوں کو بھی کھلانا چاہتا ہے۔ کسی کے یہاں سے پھلکیاں آتی ہیں، کوئی جلیبی بھیجتا ہے ، کوئی کباب بھیجتا ہے ، کوئی پھل اور میوہ جات بھیجتا ہے۔ اب بتلاؤ کہ کیا ان نعمتوں کو نہ کھائیں ؟ جب خدا تعالی نے یہ چیزیں کھانے کے لئے بھیجی ہیں ، ہم خود تو کسی سے مانگنے نہیں گئے تھے تو یہ صاف اس بات کی علامت ہے کہ حق تعالی ہی نے ہمارے واسطے بھیجی ہیں تو کیا ان کو نہ کھائیں اور اٹھا کر رکھ دیں ۔ حضرت ! اگر کوئی بادشاہ آپ کو امرو د دے اور آپ یہ کہیں کہ میں تو زاہد ہوں ،میوے نہیں کھایا کرتا تو بادشاہ ناراض ہو گا۔ایسے ہی یہاں بھی زہد وتقوی بگھارنا اور حق تعالی کی بھیجی ہوئی نعمتوں کو نہ کھانا ادب کے خلاف ہوگا۔ یہ زہد وتقوی آپ ہی کو مبارک ہو کہ حق تعالی تو رمضان میں قسم قسم کی نعمتیں بھیجیں اور طرح طرح کے کھانے بھیجوائیں اور آپ کہیں کہ میں تو زاہد ہوں متقی ہوں ، میں تو زیادہ نہیں کھا سکتا۔ جب حق تعالی ہی رمضان میں رزق بڑھاتے ہیں اور نئے نئے کھانے بھجواتے ہیں تو ہم کو بھی اپنی خوراک بڑھانا چاہئے اور میں پورے انشراح واطمینان کے ساتھ کہتا ہوں سحری میں پیٹ بھر کر کھانے سے روزہ میں کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔
(احکام رمضان صفحہ ۱۴۵)
( سلسلہ ملفوظ نمبر۲۲۱۳)

سمارٹ ورک’’Smart Work‘‘ترقی دلانے والی عادات

سمارٹ ورک’’Smart Work‘‘
ترقی دلانے والی عادات
(قاسم علی شاہ)
 عثمانی خلیفہ ’’سلیم ثالث‘‘ کی فوج میں بہت سے لائق اور قابل جرنیل موجودتھے ۔خلیفہ نے ان میں سے کسی ایک جرنیل کا انتخاب کرنا تھاتاکہ وہ حجاز پر دوبارہ سے قبضہ کرسکے۔اس کے لیے ایک امتحان رکھا گیا۔ ایک کمرے میں ایک قالین بچھایاگیا جس کے وسط میں سیب رکھاگیا۔ خلیفہ نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ اس سیب کو اس طریقے سے اٹھائیں کہ قالین پر پائوں نہ پڑے اور سیب کو بھی نقصان نہ پہنچے۔تمام جرنیلوں نے کوشش کی ۔ بعض جرنیل اپنے نیزے کا استعمال کرتے،بعض لکڑی اور لوہے کی سلاخوں سے نشانہ بناتے،بعض لیٹ کر لمبی سلاخوں یا لکڑی کے لمبے ڈنڈے سے کوشش کرتے مگر کامیا ب کوئی بھی نہیں ہوا۔اسی دوران ایک اور جرنیل آیا۔ اُس نے قالین کو لپیٹنا شروع کیا اورسیب تک پہنچ کر اس کو اٹھایا اور اس کے بعد قالین کو واپس بچھادیا۔ سب لوگ اس جرنیل کی عقل مندی پر بڑے حیران ہوئے۔ خلیفہ نے اس کو شاباش دی اوربولا،مجھے ایسا ہی شخص درکار ہے۔چنانچہ اس اہم مشن کے لیے اس کاانتخاب ہوا اور اسے کمانڈ دی گئی۔وہ جرنیل نکلا اور کچھ ہی عرصے میں حجاز کو دوبارہ سلطنت عثمانیہ میں شامل کر دیا۔یہ جرنیل محمد علی پاشا تھا، جس کی فہم وفراست اور فوجی حکمت عملیوں کی بدولت سلطان نے بعد میں اس کو مصر کی مہم بھی دی۔آج محمد علی پاشا کوجدید مصر کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
 خلیفہ سلیم ثالث کے باقی جرنیل یقینا بہت قابل تھے ۔ مگر محمد علی پاشا یہ جانتا تھا کہ ایک کام کوبہترین انداز میں کرنے کا طریقہ کیا ہے۔وہ اس مہارت کو کام میںلایااور خلیفہ کی نظروں میں اپنے آپ کو منوالیا۔

 کام کومختصر وقت اور بہترین انداز میں کرنے کو سیلف ہیلپ کی اصطلاح میں Smart Workکہاجاتاہے۔ 
 ہمارے لٹریچر میں عموماً اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ محنت میں عظمت ہے۔ ہم اپنی نصابی کتابوں، اخلاقی کہانیوں اور اپنے لیکچرزمیں اسی نکتے پر زور دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ محنت کرنے کی بدولت آپ ایک مخصوص مقام سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے آج ماڈرن دور میںSmart Workپر زور دیا جاتا ہے۔ Smart Work میں سخت جسمانی مشقت اور محنت پربے جا زور دینے کے بجائے بہترین طریقے سے کام کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترقی پانے کے لیے محنت و مشقت کی اہمیت ہے،لیکن زندگی میں بڑی کامیابی کے لیے صرف محنت اور زیادہ مشقت کافی نہیں بلکہ Smart Work کی بھی ضرورت ہے۔

 Smart Work
 کا مطلب ہے :’’مختصر وقت اور وسائل میں شدید محنت کے بغیر کسی کام کو بہترین انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچانا۔‘‘یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ Smart Work کی زندگی کے تمام شعبوں میں ضرورت ہوتی ہے۔ آپ طالب علم ہیں مگر سخت محنت کے باوجود اچھے نمبر نہیں لے پاتے۔ آپ بزنس مین ہیں لیکن سخت محنت کے باوجود آپ کے کام میں اضافہ نہیں ہوتا۔ آپ کسی جگہ ملازم ہیں لیکن اپنی پوری کوشش کے باوجود ترقی نہیں کرپاتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی محنت تو پوری ہے لیکن آپ کے کام کے طریقے میں Smart Workکی کمی ہے۔
 
 اس قسم کی صورتحال میں عام طورپر یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ بندہ محنت تو بہت کرتا ہے۔ کوشش بہت کرتا ہے مگر نتیجہ نہیں ملتا۔ اس سے گلے شکوے پیدا ہوتے ہیں۔ بندہ اپنے دفتر میں اپنے سینئرز اور اپنے دوسرے ساتھیوں سے غیر مطمئن رہتا ہے ۔ اسے یہی وہم ہوتا ہے کہ اس کی حق تلفی ہو رہی ہے ۔ اس کی ترقی کا راستہ روکا جا رہا ہے مگر وہ یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ اس کو اپنی صلاحیتوں میں کس قسم کے اضافے کی ضرورت ہے۔ اسے کیا سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس پریشانی کا اثر اس کے گھر ، اس کے خاندان کے ساتھ تعلقات پر پڑتا ہے اور ہر جگہ یہی سمجھاجاتاہے کہ وہ ایک مظلوم شخص ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کاآسان طریقہ Smart Workہے۔

Smart Work
کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اس کا تفصیلی جائزہ لیں اور بہترین منصوبہ بندی کریں۔آپ کو یہ علم ہوناچاہیے کہ آپ مطلوبہ کام کو کیسے کم سے کم وقت میں سرانجام دے سکتے ہیں اور اس کام کو انجام دینے کے لیے آپ کے پاس مطلوبہ قابلیت، معلومات اور وسائل موجود ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کام کی تمام تفصیلات کے بارے میں معلومات حاصل کرلیںاورکام کے تما م پہلوئوں کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
2۔ کام سے دلچسپی پیدا کریں یا اس کو انجام دینے کے طریقے میں دلچسپی تلاش کریں۔
3۔ اپنے کام پر توجہ دیں۔ کام کرنے کے دوران کچھ مختصر وقفہ لیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو درمیان میں چند گہری سانسیں لیں۔
4۔ اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ زندگی میں اپنے اہداف طے کریں۔
5۔ اپنی خامیوں کو دور کریں ۔جب آپ اپنی خامیوں کو دورکرنے کی کوشش کریں گے تو خود بخود آپ کی خوبیاں نکھر کر آجائیں گی۔
6۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جیسے ادارے اور تنظیمیں اپنی ترقی اور پھیلائو کے لیے کم مدتی اور طویل المدتی منصوبہ بندی کرتی ہیں ۔ہر شخص کو ذاتی زندگی میں بھی ایک مربوط اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنی چاہیے مگر عملی طور پر دیکھا گیا ہے کہ بہت کم لوگ ایسا کر پاتے ہیں۔ آپ اپنی ضرورتوں کے مطابق اور اپنے ہدف کے مطابق روزانہ کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، اس کا جائزہ لے سکتے ہیں ۔آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ نے کیا حقیقی اور کیا غیر حقیقی منصوبہ بندی کی تھی۔ آپ اپنی صلاحیت اور گنجائش کے مطابق کتنا کام کیسے کر سکتے ہیں مگر ذاتی اور شخصی زندگی میں طویل المیعاد منصوبہ بندی ایک سیکھنے والا کام ہوتا ہے ۔آپ کو کچھ سال روزانہ، ہفت روزہ یا زیادہ سے زیادہ ماہانہ بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔ اس کے بعد آپ کو شخصی زندگی میں طویل المیعاد منصوبہ بندی کا سوچنا چاہیے۔ مناسب تیاری کے بغیر طویل المیعاد منصوبہ بندی لوگوں کو پریشان اور مایوس کرتی ہے کیونکہ اس میں اپنی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اپنی صلاحیت کو بڑھانے پر توجہ نہیں دی جاتی اور اس کے علاوہ بعض ناگہانی مسائل کا اندازہ نہیں لگایا جاتا۔ اس لیے ذاتی زندگی میں منصوبہ بندی کی ابتدا ایک دن کی منصوبہ بندی سے کریں۔ جب آپ اس عمل سے بہترین رزلٹ حاصل کرنا شروع کردیں تو اس کے بعد ہفت روزہ منصوبہ بنائیں اس کے بعد ماہانہ، سہ ماہی منصوبوں کی طرف آئیں۔ ان سب کی مشق کے بعد سال کی منصوبہ بندی شروع کریں۔

7۔ کٹھن حالات اور بحرانوں میں اپنے آپ کو سنبھالنا اور اس میں سے اپنے آپ کو باہر نکالنا بھی ایکSmart Workہے۔ 

 ظہیر الدین بابر کے زمانے میں جب شیبانی خاں نے اس کے محل پر قبضہ کیا تو اس کے ساتھیوں نے کہا کہ اس موقع پر غیرت اور عزت کا تقاضا ہے کہ ہمیں لڑ کر جان دینی چاہیے۔ بابر نے کہا کہ نہیں ، اس وقت بہترین حکمت عملی ہے کہ ہمیں کسی محفوظ مقام پر پہنچ کر مستقبل کے بارے میں بہترین منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

8۔ بندہ محنتی ہوتا ہے ،کام زیادہ کرتا ہے، کوشش زیادہ کرتا ہے مگر باس ترقی دوسرے کو دیتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ اس کے کام میں Smart Workکی کمی ہوتی ہے۔

  اس سلسلے میں دو دوستوں الیاس اور جمیل کی کہانی مشہور ہے کہ وہ ایک جیسی قابلیت اور تعلیم کے ساتھ ایک ہی دن ایک ہیرے بیچنے والی کمپنی میں ملازمت اختیار کرتے ہیں ۔الیاس بہت محنت کرتا ہے ۔اکثر اوقات دیر سے گھر جاتا ہے جبکہ جمیل وقت پورا ہونے پر دفتر سے چلاجاتا ہے۔ جب ترقی کی باری آتی ہے تو باس الیاس کے بجائے جمیل کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ چیز الیاس کو مایوس اور پریشان کرتی ہے اور وہ ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس پر باس اسے بلاتا ہے اس کی محنت اور قابلیت کو سراہتا ہے اور کہتاہے :’’شہر میں جاکر معلوم کرو کہ فلاں قسم کے ہیرے کس کے پاس ہیں؟‘‘الیاس پورے شہر کا سروے کرتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ پورے شہر میں ایک ہی جوہری ایسا ہے جس کے پاس مطلوبہ ہیرے موجود ہیں۔ وہ آکر اپنے باس کو رپورٹ دیتاہے۔باس کہتاہے:’’ معلوم کرو کہ اس کی قیمت کیا ہے؟‘‘ وہ یہ بات بھی معلوم کرکے آجاتا ہے ۔ اب باس کہتا ہے :’’جاکر معلوم کرو کہ اگر زیادہ تعداد میں لیں تو کتنی رعایت مل سکتی ہے؟‘‘الیاس جا کر معلوم کرتا ہے اور اپنے باس کواس حوالے سے رپورٹ دے دیتا ہے۔

 کمپنی کا باس الیاس کے سامنے جمیل کو بلاتا ہے اوراس کو یہی کام دے کر شہر بھیجتاہے۔جمیل واپس آکر کہتاہے:
 ’’ مطلوبہ ہیرے ایک ہی جوہری کے پاس ہیں۔ وہ اس قیمت پر بیچ رہا ہے مگر زیادہ تعداد میں لیں تو اتنی رعایت دیتا ہے مگر میرا خیال ہے اس سے مزید سودا بازی بھی ممکن ہے۔ اس کے پاس اتنے ہیرے سٹاک میں موجود ہیں مگر وہ اتنے دنوں کے نوٹس پر اتنے مزید ہیرے فراہم کر سکتا ہے۔ یہ ہیرے ہمارے سٹاک میں پہلے کبھی نہیں آئے۔ ان کو اچھے منافع پر بیچا جا سکتا ہے۔ ہمارے سٹاک میں جو فلاں ہیرے ہیں ان سے ہم نے گذشتہ برس اتنا منافع کمایا تھا۔ یہ ہیرے اس سے زیادہ پسند کیے جائیں گے اور ہم اس سے زیادہ منافع کما سکتے ہیں۔ میں نے ان تمام معلومات پر ایک تحریری رپورٹ بھی تیار کی ہے وہ بھی آپ کو پیش کر رہا ہوں۔‘‘

 اس کہانی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ صرف سخت محنت اور دیے گئے کام کو پورا کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے تمام پہلوئوں پر نظر رکھنا ضروری ہوتاہے۔ الیاس ایک محنتی شخص ہے۔ وہ دیے گئے کام کو ایمان داری کے ساتھ وقت پر پورا کرتا ہے مگر آگے بڑھنے کے لیے اس کو جس Smart Workکی ضرورت ہے وہ اس طریقے سے ناواقف ہے اور اسی وجہ سے ترقی سے محروم رہاہے۔

 آپ بھی اپنی زندگی میں Smart Workکی عادت اپنائیے۔ہر کام کوکرنے سے پہلے یہ سوچیے کہ اس کو کم وقت میں اور بہترین انداز کے ساتھ کیسے سرانجام دیاجاسکتاہے نیز یہ بھی سوچیں کہ میرا یہ کام دوسروں سے منفرد کیسے ہوسکتاہے۔یہ چیز آپ کو بھرپور نتائج دے گی اور آپ زندگی میں ترقی کرناشرو ع ہوجائیں گے۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم