*مسلمان لڑکیاں ارتداد کے دہانےپر*

*مسلمان لڑکیاں ارتداد کے دہانےپر*

✍🏻 تحریر: *مولانامحمدعمرین محفوظ رحمانی*
_(سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ٬مالیگاؤں)_

ملک کے مختلف علاقوں سے یہ روح فرسا خبریں مسلسل آ رہی ہیں کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کررہی ہیں، اور اپنا دین و ایمان اورضمیر وحیا بیچ کر اپنے خاندان اور اپنے سماج اور معاشرے پر بدنامی کا داغ لگارہی ہیں، اس طرح کے اکادکاواقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں، لیکن ادھر چند برسوں سے باضابطہ پلاننگ کے تحت مسلمان لڑکیوں کو جال میں پھنسایا جا رہاہے،اور آئے دن ان لڑکیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے،جو بے حیائی کے راستے پر بڑھتے ہوئے ارتداد تک پہونچ رہی ہیں،گذشتہ سال مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک پروگرام میں مہاراشٹر کے مشہورشہر پونہ جانا ہواتو ایک صاحب ملنے کے لیے آئے انہوں نے بتایا کہ ان کی بھانجی کالج میں پڑھتی تھی، کالج کے قریب ایک دلت نوجوان کینٹین چلاتا تھا، اس کے دام محبت میں پھنس کر بھانجی نے کورٹ میرج کر لی، اور کئی مہینے اس کے ساتھ رہی پھر بہت سمجھانے بجھانے کے بعد واپس آئی،اور ہم نے اسے دوبارہ کلمہ پڑھوایا،ایما ن میں داخل کیا مگر اب بھی وہ اسی کے پاس جانے کی ضد کرتی ہے، روتی ہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ دوبارہ اس کے پاس نہ چلی جائے۔ان صاحب کے چلے جانے کے بعد پونہ کے چند ذمہ دار احباب نے بتایا کہ ہمارے یہاں پچھلے ایک سال میں ( اکتوبر 2016ء سے اکتوبر 2017ء تک ) 44/مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کرچکی ہیں، ابھی چند دن پہلے خاص اسی مسئلے سے متعلق پونہ کے احباب ملنے کے لیے آئے تو انہوں نے بتایا کہ اگست میں11؍مسلمان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی درخواستیں دائر ہوئی ہیں اور پچھلے مہینے (ستمبر) میں 12؍لڑکیوں نے درخواست دی ہے۔مہاراشٹرکے دوسرے اور شہروں سے بھی اس طرح کی خبریں آ رہی ہیں چنانچہ بمبئی میں12،تھانے میں7، ناسک میں2، اور امراوتی میں2؍لڑکیوں نے شادی کی درخواست دی ہے،یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ صرف مہاراشٹر میں ہی ایسے واقعات نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں سے برابرخبریں موصول ہو رہی ہیں، اگست کے وسط میں بھوپال جاناہواتھا ،وہاں مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی برائے خواتین کی ذمہ دار بہنوں نے بتایا کہ بھوپال کی گنجان مسلم آبادی والے ایک علاقے میں اس طرح کے دسیوں واقعات ہو چکے ہیں، اور صرف غیر شادی شدہ لڑکیاں ہی نہیں شادی شدہ عورتیں بھی اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر غیر مسلموں کے ساتھ چلی گئی ہیں دہلی سے ملی اطلاعات کے مطابق جھونپڑ پٹی والے علاقے میں بسنے والی مسلمان لڑکیاں فرقہ پرست عناصر کی اس منصوبہ بند سازش کا’’لقمۂ تر‘‘بنی ہوئی ہیں، گذشتہ شعبان میں احمد آباد حاضری ہوئی تو وہاں کے علماء نے بتایا کہ ہمارے یہاں ہردوسرے تیسرے دن سوشل میڈیا پرخبر آتی ہے کہ فلاں مسلمان لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ہے یا فلاں لڑکی نے کورٹ میرج کی عرضی داخل کی ہے،بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ ان لوگوں نے یہاں تک بتایا کہ مسلمان لڑکیوں کو رجھانے ،قریب کرنے اور پھر ان کاجنسی استحصال کرنے کے لیے گراں قیمت تحفے دیئے جاتے ہیں، مثلاً مہنگے موبائیل ،آئی پیڈ، لیپ ٹاپ، ایکٹیوا بائک وغیرہ،باضابطہ ان کی ’’فنڈنگ‘‘کی جا رہی ہے اور ایک سونچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں اس کام پر لگایا گیا ہے، اوپر بھی یہ بات میں نے لکھی ہے اور اب دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھناچاہتاہوں کہ یہ اتفاقی واقعات نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے پیچھے ایک سونچا سمجھا منصوبہ کام کر رہاہے،’’لو جہاد ‘‘نام کی کوئی چیز اس ملک میں نہیں ہے،البتہ یہ ’’شوشہ‘‘صرف اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ ہندو نوجوانوں میں ’’انتقامی جذبہ‘‘ ابھارا جائے اور خود مسلمانوں کو ’’لو جہاد‘‘میں الجھا کر اندرون خانہ مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنے کا کھیل کھیلا جائے ۔پہلے یہ بات ڈھکی چھپی رہی بھی ہو تو اب ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔ پچھلے سال چند ایسے ہی روح فرسا واقعات کی وجہ سے اس عاجز نے اس پورے مسئلے پر اپنے طور پر تحقیق کی ، اوراپنے بعض احباب کو بھی اس کام پر لگایا،اس کے جو نتائج سامنے آئے وہ حیران کن بھی تھے اور انتہائی تشویش ناک بھی! مناسب معلوم ہوتاہے کہ ترتیب سے ان باتوں کو لکھوں۔

(1)باضابطہ ایسے ہندو جوانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی ہے، جن کاکام ہی محبت کے نام پر مسلمان لڑکیوں کو تباہ و برباد کرنا ہے۔یہ لو گ پہلے ہمدردی کے نام پرکسی مسلمان لڑکی سے قریب ہوتے ہیں،پھر محبت کا فریب دیتے ہیں ،اورشادی کا وعدہ کرتے ہیں، اور پھر جنسی استحصال کا مرحلہ شروع ہو جاتاہے اور جب وہ لڑکی عفت و عصمت کا گوہر لٹاچکتی ہے او ر اس لڑکے سے شادی کا اصرار کرتی ہے تو پھرکورٹ میں کورٹ میرج کی درخواست دی جاتی ہے۔ میرے علم کے مطابق ایک مہینے کے بعد اس درخواست پر عمل در آمد ہوتا ہے، یہ مدت اس لیے بھی رکھی گئی ہے کہ اگر گھر والوں یا کسی اور کو کوئی اعتراض ہو تو وہ کاروائی کر سکتا ہے(اس سلسلے میں جو دھاندلی کی جا رہی ہے اس کا تذکرہ کسی اور مضمون میں کروں گا انشاء اللہ)گھر والوں کو نوٹس جاری کرنا بھی لازمی اور ضروری ہے،جس کے ذریعے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا لڑکا /لڑکی نے کورٹ میرج کی عرضی داخل کی ہے ، اب جب یہ درخواست داخل ہوتی ہے تو خود وہ شادی کی درخواست دینے والا نوجوان کسی ذریعہ سے اس درخواست( جس پر مسلمان لڑکی او ر غیر مسلم لڑکے کا فوٹو ہوتا ہے کہ یہ دونوں شادی کرنے جا رہے ہیں)کی تصویر لے کر کسی اور کے ذریعے سوشل میڈیا پر وائرل کروا دیتا ہے۔جب مسلمانوں کوخبر ہوتی ہے تو وہ اس شادی کو روکنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ سماجی دباؤ بنایا جاتاہے، نتیجتاً شادی رک جاتی ہے، اب لڑکی کی نگاہ میں مجرم ہوتے ہیں اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور اس کے سماج اورمذہب کے لوگ، اورخود اس غیر مسلم لڑکے کو ’’کلین چٹ ‘‘مل جاتی ہے اور وہ انتہائی ’’معصوم دیوتا‘‘کے روپ میں سامنے آتا ہے، لڑکی بدنام ہو گئی، خاندان پرننگ وعار کادھبہ لگ گیا، اور یہ لڑکی ہمیشہ کے لیے ’’ڈپریشن ‘‘ کاشکا ر ہو گئی اورایک باوقار اورپاکیزہ زندگی اور بہترین خاندانی نظام کی تشکیل اور قیام سے محروم ہو گئی، کہیں اس کانکاح بھی ہو جائے تو وہ اچھی زندگی نہیں گذار سکتی اور اگر نکاح نہ ہو تو پھر چوری چھپے اس لڑکے سے ملنے ،ناجائز تعلقات قائم کرنے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔

(2)اس سے آگے کی شکل یہ ہے کہ محبت کے فریب میں پھنسا کر اور جذباتی طور پر اپنے آپ سے قریب کر کے ’’ترک مذہب‘‘پر آمادہ کیا جاتاہے او ر باضابطہ شادی کر کے چند مہینے یاسال بھر ساتھ میں رکھا جاتاہے، اس کے بعدآئے دن کے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ، چونکہ اس شادی کی وجہ سے یہ لڑکی اپنے خاندان اپنے سماج سے بالکل کٹ چکی ہوتی ہے، ا س لیے اب واپسی کے دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں، اس لیے اسی ’’شوہر‘‘کے ساتھ رہنااس کی مجبوری ہے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر وہ شوہر اپنی اس بیوی سے جسم فروشی کرواتا ہے یا پھر طلاق دے کر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتاہے۔

(3)اس گھناونے کھیل کا سب سے بڑا اورکھلامیدان کالجس ہیں، جہاں کی مخلوط تعلیم نے اس کھیل کے لیے بہترین اور محفوظ اسٹیج فراہم کیا ہے، کتنے غیر مسلم لڑکے ہیں جن کو فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے اچھی اردو سکھانے اور بہترین اردوشاعری کی تعلیم دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔مسلمان لڑکی کو دام فریب میں پھنسانے کے لیے وہ اس ہنر کا بھی استعمال کرتے ہیں، اورکچی عمر کی جوان لڑکیاں بہت جلد اس ہتھکنڈے سے متاثر ہو کر ان کی آغوش میں چلی جاتی ہیں ، اور پھر یہی بے حیائی انہیں ارتداد کی شاہراہ تک پہونچا دیتی ہے ۔العیاذ باللّہ !کالج کے علاوہ ٹیوشن کلاسیس بھی اختلاط ،بے حیائی اور پھر دین و ایمان سے محرومی کاذریعہ بن رہی ہیں، پڑھنے والے طلبہ تو شکاری بنے ہی ہوئے ہیں، پڑھانے والے ٹیچرس اورپروفیسرس بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، ایسے واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں کہ کسی ٹیچر نے نوٹس دینے کے بہانے گھر بلایا اور پھر ورغلا کر یا زبردستی اس لڑکی کے ساتھ غلط حرکتیں کیں اور خفیہ طریقے سے اس کاویڈیو بنا لیا اور بعد میں وہی ویڈیو دکھا کر اس لڑکی کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیاگیا،جس کانتیجہ یہ نکلا کہ وہ لڑکی غیروں کے ہاتھوں میں ’’کھلونا‘‘بن گئی، مہاراشٹر کے پربھنی شہر کے بعض احباب نے یہ اطلاع دی کہ اس طرح کے ویڈیو با ضابطہ ٹیچرس نے ایک دوسرے کو بھیجے،اور اس پر اس طرح کے تفریحی جملے لکھے کہ’’ دیکھا میں نے کیسے بیوقوف بنایا،‘‘یا’’اس لڑکی کومیں نے کیسے خراب کیا؟ ‘‘ اس طرح کے ویڈیو کا یہ نتیجہ بھی سامنے آیا کہ لڑکی کانکاح ہونے کے بعد بھی گھر اجاڑ دینے کی دھمکی دے کرنکاح کے بعد بھی جنسی استحصال کیا گیا،اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہ ’’لڑکی‘‘ہر قسم کے مطالبات پورے کرتی رہی۔

(4)جو مسلمان لڑکیاں دینی ذہن یاگھر کی تربیت کی وجہ سے کچھ محتاط ہوتی ہیں، ان کو قابو میں لانے کے لیے دوسری غیر مسلم لڑکیوں کا سہارا لیا جاتا ہے وہ لڑکیاں اس لڑکی سے دوستی کرتی ہیں اور پھر وہ اپنے بھائی یا دوست کی حیثیت سے غلط قسم کے لڑکوں سے ان کاتعارف کراتی ہیں، اور پھر بات بڑھتے بڑھتے بے حیائی ،یا ارتداد تک پہونچتی ہے۔

(5) موبائیل اور زیراکس کی دوکانوں کے ذریعے بھی مسلمان لڑکیوں کے نمبراوران کی تصویریں اوردوسری معلومات ان لڑکوں تک پہونچائی جارہی ہے،جو اس کام پر لگے ہوئے ہیں، ویسے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمان لڑکیوں تک پہنچنا آسان ہوگیا ہے،مسلمان بن کر بھی بعض غیر مسلم لڑکے مسلمان لڑکیوں سے فیس بک وغیرہ پر دوستی کرتے ہیں ، اور جب بات آگے بڑھ جاتی ہے اور ملاقاتیں شروع ہو جاتی ہیں او ر یہ راز کھلتا ہے کہ’’ محبوب ‘‘مسلمان نہیں ہے غیر مسلم ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

(6)مسلمان لڑکیوں کو ورغلانے اوردام فریب میں پھنسانے کے لیے روپئے پیسے کا بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، کئی علاقوں سے یہ خبر مل چکی ہے کہ بڑے قیمتی تحفے مسلمان لڑکیوں کو دیئے جاتے ہیں اوران کے ذریعے ان کے دل میں جگہ بنائی جاتی ہے، اسی طرح ہمدردی کاہتھیار بھی استعمال کیا جاتاہے،کسی ذریعہ سے اگر معلوم ہو گیا کہ یہ لڑکی پریشان ہے،یا اس کے گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں یا پھر یہ کہ اس کے گھر کے لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں تو فوراً’’بھیڑ کی کھال ‘‘اوڑھ کرکوئی بھیڑیا سامنے آ جاتاہے اور مصنوعی ہمدردی کاڈرامہ رچاتا ہے اور پریشانیوں اور مشکلات سے جوجھ رہی لڑکی اسے اپنا ہمدرد سمجھ کر اس کے قریب ہوتےجاتی ہے۔ یہاں تک کہ عفت و عصمت کا گوہر لٹا بیٹھتی ہے یا پھر فریب محبت میں گرفتار ہوکر دین وایمان تک سے محروم ہوجاتی ہے۔

یہ صورت حال ایسی سنگین ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ پانی سر سے نہیں چھت سے اونچا ہوتاجارہاہے ۔ ہم کب بیدار ہوں گے ؟ہم اپنی بہنوں ،بچیوں اور بیٹیوں کو بچانے کے لیے کب آگے آئیں گے؟ خواب غفلت کب تک ؟نظرانداز کرنے کامزاج کب تک ؟ جب حالات ایمرجنسی کے ہوں ، جب معاملات سنگین صورت حال اختیار کرلیں، جب دین و ایمان پر یلغار کی جائے، جب عفت وعصمت کے سودے چکائے جائیں،جب منظم منصوبے کے تحت مسلمان لڑکیوں کی زندگیاں تباہ وبرباد کی جائیں، اس وقت خاموشی جرم ہے، سنگین جرم!ایسے حالات میں کم اہم یا کم ضروری مسائل پر توجہ دینا زیادتی ہے، بد ترین زیادتی! یہ ایسا اہم مسئلہ ہے جسے مسجد کے محراب و منبر سے بیان کیا جائے ، جسے جلسوں اور مجلسوں کا موضوع بنایا جائے،جس کے پیش نظر خاندانی نظام کی اصلاح پر بھرپورتوجہ دی جائے،جس کی وجہ سے اپنے گھر کی بچیوں پر کڑی نظر رکھی جائے، خطرے کی تلوار سر پرلٹکتی ہوئی محسوس کر کے مخلوط تعلیم سے بچنے اور غیر مخلوط تعلیمی نظام کے قائم کرنے کی فکر کی جائے۔

        ارتداد کی بڑھتی پھیلتی لہرکوروکنے کے لیے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل ضروری ہے۔

(1)اسلامی نظام کے مطابق مسلمان بچیوں کو پردے کا پابند بنایا جائے،ان میں حیاداری، عفت و عصمت کی حفاظت کاجذبہ ،اورعقیدۂ توحید و رسالت کی عظمت پیدا کی جائے۔روزانہ ہمارے گھروں میں آدھے گھنٹے ہی سہی کسی اچھی مستند اور ذہن و دل کو متاثر کردینے والی کتاب کی تعلیم کی جائے۔

(2)مخلوط نظام تعلیم سے اپنی بچیوں کو بچایا جائے، غیر مخلوط تعلیمی نظام کے قیام پر بھرپور توجہ دی جائے اور محفوظ ماحو ل میں معیاری تعلیم کاانتظام کیا جائے۔

(3)جو لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہی ہیں، ان کی دینی تعلیم وتربیت اورذہن سازی کی بھرپور کوشش کی جائے ، ان کی عادات ، اطوار ، اخلاق پر پوری نظررکھی جائے، کردار سازی میں معاون بننے والا لٹریچر انہیں مطالعے کے لیے دیا جائے۔

(4)ٹیوشن کلاس کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع نہ دیا جائے، کسی ٹیچر یاساتھی طالب علم کے گھر پر کسی تعلیمی ضرورت کے نام سے بھی جانے کی اجازت نہ دی جائے، کالج لانے لے جانے کاخودانتظام کیا جائے۔

(5)اینڈرائڈ موبائیل اور بائک خرید کر نہ دی جائے، یہ دونوں چیزیں بے حیائی کے دروازے کھولنے والی اور عفت وعصمت کی تباہی کے دہانے تک پہونچانے والی ہیں ۔

(6)موبائیل ریچارج یا زیراکس کے لیے غیر مسلموں کی دوکان پرجانے کی اجازت نہ دی جائے، اسی طرح کالج کے اندر یا اس سے قریب غیرمسلموں کے کینٹین سے بچنے کی ہدایت دی جائے۔

(7) غیر مسلم لڑکیوں کی دوستی سے بھی روکا جائے کہ آئندہ یہ دوستی بھی کسی فتنہ کادروازہ بن سکتی ہے۔

(8) بچیوں کے مسائل اور ان کو پیش آنے والی پریشانیوں پر توجہ دی جائے، یاد رکھیں ! گھر میں توجہ کی کمی باہر کا راستہ دکھاتی ہے۔

(9)اگربچیاں کسی تعلیمی ضرورت سے انٹرنیٹ استعمال کررہی ہیں تو ان کی بھرپور نگرانی کی جائے ، اس لیے کہ بھٹکنے اور بہکنے کے اکثر دروازے انٹر نیٹ کے ذریعہ کھلتے ہیں۔

سانحہ کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے موقف اور کردار سے متعلق بنیادی طور پر تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں: پہلا نقطہ نظر یہ ہے کہ سیدنا حسین کو دین کی اساسات کے مٹا دیے جانے جیسی صورت حال کا سامنا تھا جو ان سے، ایک دینی فریضے کے طور پر، جہاد کا تقاضا کر رہی تھی۔ انھوں نے، اور صرف انھوں نے، عزیمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس دینی تقاضے پر لبیک کہا اور اپنی اور اپنے خانوادے کی قربانی پیش کر دی۔ باقی تمام امت، بشمول اکابر صحابہ، پست ہمتی، رخصت اور مصلحت وغیرہ کے تحت ان کا ساتھ نہ دے سکی اور یوں ایک عظیم کوتاہی کی مرتکب ہوئی۔یہ اصولاً اہل تشیع کا موقف ہے اور تعبیرات والفاظ کی کسی قدر احتیاط کے ساتھ ہمارے ہاں مولانا مودودی وغیرہ نے اسی کی ترجمانی کی ہے۔ 
 
(۱۴۹) کن فیکون کا ترجمہ: دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں کہیں ’’کن فکان‘‘ نہیں آیا ہے، جبکہ آٹھ مقامات پر کن فیکون کی تعبیر آئی ہے۔ یہ تعبیر ایک بار زمانہ ماضی کے سلسلے میں آئی ہے، ایک بار زمانہ مستقبل کے سلسلے میں اور باقی مقامات پر ہر زمانے پر محیط عام اصول بتانے کے لیے آئی ہے۔عام طور سے کن فیکون کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے:’’ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے‘‘ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ کن فیکون کا مناسب ترجمہ نہیں ہے، بلکہ دراصل ’’کن فکان‘‘کا ترجمہ ہے۔ کن فیکون کا ترجمہ ہوگا ’’ہوجا تو وہ ہونے لگتی ہے یا ہورہی ہوتی ہے‘‘۔ترجمے کے باب میں یہ ان کا خاص تفرد معلوم ہوتا ہے، کیونکہ راقم السطور کو کسی اور کا ترجمہ اس طرح کا نہیں ملا۔ 
 
مسلمانوں کا ایمانی جذبہ بالآخر رنگ لایا اور ہالینڈ (نیدرلینڈز) کی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کے ان مجوزہ نمائشی مقابلوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا جو دس نومبر کو وہاں کی پارلیمنٹ میں منعقد کرائے جانے والے تھے۔ نیدرلینڈز پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر اور پارٹی فار فریڈم کے سربراہ گرٹ ولڈرز (Geert Wilders) کی طرف سے اس مجوزہ نمائش کی منسوخی کی اطلاع سے یہ وقتی مسئلہ تو ختم ہو گیا ہے جس پر اس کے خلاف احتجاجی مہم میں حصہ لینے والے تمام شخصیات، ادارے، حکومتیں اور جماعتیں مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مگر اصل مسئلہ ابھی باقی ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دلوانے کے لیے قانون سازی ضروری ہے جو ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کے ماحول میں ہی ہوگی اور اس کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (آرگنائزیشن آف اسلامک کواپریشن) کو اساسی کردار ادا کرنا ہوگا۔
 
عمران خان صاحب کی نئی حکومت میں احمدی ماہرِاقتصادیات عاطف میاں کے اقتصادی مشاورتی کونسل کے مشیر مقرر کیے جانے اور پھر مسلم مذہبی حلقوں کی طرف سے اس پر ردِّعمل کے نتیجے میں مذکورہ عہدے سے ہٹائے جانے کے تناظر میں علمی حلقوں میں احمدی مسئلے کے حوالے سے ایک دفعہ پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔اس بحث سے جڑے اہم سوال یہ ہیں: 1۔ احمدیوں سے عام اقلیتوں سے مختلف رویہ اپنایا جانا چاہیے یا عام اقلیتوں جیسا؟ اسی سوال سے جڑا ایک اور سوال یہ ہے کہ اقلیت کی حیثیت سےاحمدیوں کو اہم اعلی عہدوں پر فائز کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ 2۔احمدی خود کو غیر مسلم اقلیت نہ مان کر آئین سےبغاوت کر رہے ہیں یا نہیں؟ 3۔ آئینی اعتبار سے کسی کے مذہب کا فیصلہ کیا بھی جا سکتا ہے یا نہیں؟ 4۔ کیا احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا لینا کافی تھا یا ان کے حوالے سے مزید سخت آئینی اقدامات کی ضرورت ہے؟ 
 
حکومت کی طرف سے عاطف میاں قادیانی کے بطور مشیر تقرر کولے کر قادیانی مسئلے پر ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے بحث ہوئی جس میں مختلف فکری رجحانات کے احباب نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اس مختصر تحریر میں ان متعدد آراء کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں چار مواقف سامنے آئے ہیں اور چاروں سے الگ قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ (۱) سیکولر بیانیہ: مسلم و قادیانیت کی مساوات: لبرل سیکولر فکر چونکہ فرد کی آزادی کے عقیدے پر ایمان کی دعوت دیتی ہےجس کے مطابق حقوق کا ماخذ انسان خود ہے، لہذا اس فکر کے مطابق ریاست کو حق نہیں کہ وہ آزادی کے سواء کسی دوسرے عقیدے کی بنیاد پر یا اس کے فروغ کے لئے افراد کی زندگیوں میں تصرف کرے۔ اس فکر کے مطابق ہیومن رائیٹس وہ قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے جو فرد کی جدوجہد آزادی (سرمایہ) کے فروغ کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔ لہذا اس فکر کے حامل حضرات کے نزدیک کسی بھی ارادے، چاہے وہ ارادہ خدا کا ہو، فرد کا اور یا کسی گروہ کا (مثلا سو فیصد عوام کا) یہ حق نہیں کہ وہ ان حقوق کو معطل کرسکے۔ 
 
احمدیوں کی مذہبی وشرعی حیثیت کے ضمن میں ایک سوال اہل علم اور خاص طور اہل فقہ وافتاء کی توجہ متقاضی ہے، اور وہ یہ کہ احمدیوں کو ہم نے ایک آئینی فیصلے کے تحت غیر مسلم تو قرار دے دیا ہے، تاہم یہ معلوم ہے کہ ان کی حیثیت مسلمانوں ہی کے (اور ان سے نکلنے یا نکالے جانے والے) ایک مذہبی فرقے کی ہے۔ ہم ایک بنیادی عقیدے میں اختلاف کی بنیاد پر ان پر مسلمانوں کے احکام جاری نہیں کرتے، لیکن مذاہب کی تقسیم کے عام اصول کے تحت، کم سے کم غیر مسلموں کے نقطہ نظر سے وہ مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ شمار ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ گروہ بھی اسلام کے ساتھ اپنی نسبت اور پیغمبر اسلام کا امتی ہونے کے دعوے سے دستبردار نہیں ہوا، بلکہ اپنی نئی نبوت کو اسی کا تسلسل شمار کرتا ہے۔
 
جتنے بھی مسلم فرقے ہیں سب اپنا رشتہ قرآن و سنت سے جوڑتے ہیں اور سب کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا عقیدہ و منہج قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ لیکن احقاق حق او ر ابطال باطل کی غرض سے اسلاف کے فراہم کردہ اصول و معیارپرایسے تمام فرقوں کے افکار و مفاہیم کا تجزیہ کرنا ایک دینی ذمے داری ہے اور علمی امانت داری بھی۔ جامعہ ازہر عالم اسلام کی وہ عظیم دانش گاہ ہے جس نے دین و ملت کی خدمت میں اپنی زندگی کے پورے ایک ہزار سال گزارے ہیں۔اس نے ہر زمانے میں باطل افکار وخیالات کو اسلاف کے عطا کردہ اصولوں پر پرکھ کر گمراہ فرقوں کو آئینہ دکھایاہے اور قرآن وسنت سے ان کے گہرے رشتوں کے دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔اسی دانش کدے کے پروردہ شیخ اسامہ السید محمود ازہری (ولادت:۱۹۷۶ء) بھی ہیں، جن کا لائف ٹائم مشن ہی یہ ہے کہ ازہرکے علمی منہج کا احیا کیاجائے،اسلام کی صحیح، معتدل، متوازن اور پُرامن متوارث تفہیم کو عام کیاجائے اور ہر اس تفہیم کو مسترد کر دیاجائے جس میں دین اسلام کو ایک پُر تشدد، غیر معتدل اورناموس عقل و فطرت سے بر سر پیکار دین کے طور پر پیش کیاگیاہو۔
 
مدرسہ ڈسکورس کا یہ سمرانٹینسِو(intensive)اپنی نوعیت کا بڑاغیرمعمولی پروگرام تھا۔اس کا موضوع تھا: Theology and contingency: Morals, History and Imagination یعنی دینیات کودرپیش نئے مسائل :اخلاق،تاریخ اورتخییل کے حوالہ سے۔ اندراگاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ سے 9-40پر روانہ ہوکرہم ہندوستانی طلبہ تیس جون کی سہ پہرکواپنی قیام گاہ ڈھولی خیل رزارٹ پہنچ گئے ،پاکستانی طلبہ رات کوآئے جبکہ دوسری جگہوں سے طلبہ اورمنتظمین پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ سفرپر روانہ ہونے سے پہلے دماغ پر تھوڑاstress تھاجس کی وجہ سے رات بھرنیندنہیں آئی تھی،راستہ کی تکان الگ لہذاسہ پہرسے کمرے میں لیٹ کرسونے کی کوشش کی مگرنیندپھربھی نہیں آئی۔ رات کو۱۲بجے کے قریب دوپاکستانی ساتھی کمرے میں آگئے کچھ دیرتوان سے بات چیت ہوئی پھروہ سوگئے اورذراسی دیرمیں کمرہ ان کے خراٹوں سے گونجنے لگا۔
 

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم