ہندوستان کے تاریخی مقامات اور ہم
کسی بھی ملک کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا
اندازہ اس ملک میں موجود تاریخی عمارتوں اور مقامات سے ہی نہیں بلکہ اس ملک کے
حکمرانوں کے ذوق و تعمیر و فن اور عوام کے مزاج سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو اس کے
تحفظ کیلئے اپنی ساری توانائیاں صرف کردیتے ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان میں ایسے مقامات،
عمارتوں اور یادگاروں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ قوم نے اس کی
اتنی قدر نہیں کی جتنی کی جانی چاہئے۔ ان یادگاروں کے تحفظ اور ان کی صیانت سے قوم
کی عدم دلچسپی ہی کہئے کہ وہ خود ان کی عظمت سے واقف ہی نہیں ہے دوسری طرف بیرونی
سیاح ان کی عظمت دیکھنے کھینچے کھینچے چلے آتے ہیں۔ کیوں کہ اب لوگوں کا مزاج
"گھر کی مرغ دال برابر" والا بن چکا ہے۔
تاج محل ساری دنیا میں تو ہندوستان کی علامت
سمجھاجاتا ہے لیکن ملک کے10فیصد لوگوں نے ہی اسکو دیکھا ہوگا ایسا ہی حال ہر ریاست
اور شہر میں پائی جانے والی عمارتوں اور یادگاروں کا ہے۔ حیدرآباد کے چارمینار کی
بات ہو یا پھر گولکنڈہ کا قلعہ یا پھر سالار جنگ میوزیم کی ان کو دیکھنے والے
بیرون ریاست اور بیرونی ملکوں کے سیاحوں کی تعدادزیادہ ملے گی۔ 1951ء میں قائم
سالارجنگ میوزیم کا شمار یوں تو ملک کے 6قومی اہمیت کے حامل میوزیم میں ہوتا ہے
لیکن دیکھا جائے تو یہ ساری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد میوزیم ہے
جوایک ایسے شخص نواب یوسف علی خاں (سالارجنگ سوم) کے اعلیٰ و عمدہ ذوق اور شوق کی
عکاسی کرتا ہے جنہوں نے اپنی 60 سالہ مختصر زندگی کا بڑا حصہ صرف نوادرات اور بیش
بہا قیمتی اشیاء جمع کرنے میں صرف کردیا جو ان کی زندگی کے بعد قوم اور ملک کا
اثاثہ بن گئیں۔
موسیٰ ندی کے جنوبی کنارے دارالشفاء میں 10ایکڑ اراضی پرواقع
سالارجنگ میوزیم میں تین علیحدہ وسیع وعریض بلا میں موجود 43000 نادرو نایاب اشیاء
کی مالیت کا تخمینہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں بعض ایسے
شہہ پارے بھی ہیں جن کی قیمت کے تصور سے ہوش ہی اڑجائیں گے۔ 29؍ستمبر 1952ء میں اس میوزیم کے معائنہ کے بعد اس وقت
کے مرکزی وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی جو رائے تحریرکی وہ خود اس
میوزیم کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے کافی ہوگی۔
مولاناآزاد لکھتے ہیں کہ
"مجھے سالارجنگ میوزیم کے معائنے سے خوشی حاصل ہوئی۔ ایک شخصی ذوق نے اتنا
سامان بہم پہنچادیا کہ جو حکومتوں کی کوشش سے بھی فراہم نہیں ہوا کرتا۔ مزید خوشی
دراصل اس بات سے ہوئی کہ یہاں چیزوں کی تقسیم و تربیت نہایت قابلیت سے قائم کی گئی
ہے اور اس کیلئے اسٹاف کی حسن کارکردگی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
یہ شاید اس وقت کی بات
ہوگی جب سالار جنگ میوزیم نواب یوسف علی خان کے مسکن دیوان دیوڑھی میں واقع تھا
اور اس کا افتتاح 1951ء میں اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا
اور اس کا حسن انتظام سالارجنگ اسٹیٹ کے کمیٹی کے پاس تھا۔ 1958ء میں یہ پھر وزارت
ثقافت کا حصہ رہا 1961ء میں قانون سازی کے ذریعہ قومی اہمیت کا حامل قراردیاگیا
اور پھر اس کے نظم و نسق اور انتظام کو ایک بااختیار ادارہ کے حوالے کیاگیا جس کے
سربراہ گورنر ہیں۔ 1968ء میں اس میوزیم کو دیوان دیوڑھی سے موجودہ عمارت میںمنتقل
کیاگیااورتقریباً40 سال بعد پھر اس کی تزئین نو کے ذریعہ موجودہ شکل و صورت گری سے
آراستہ کیاگیا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ میوزیم 50 برسوں میں تین ادوار سے گزرا
لیکن خاص بات یہ ہے اس سارے عمل کے دوران نہ تو ترتیب بدلی نہ ہی اس کی تقسیم لیکن
اب مشرقی بلاک میں اسلامک آرٹ گیلری کی تعمیر کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے اور بہت
ممکن ہو آئندہ ماہ رمضان تک یہ پائے تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اس منصوبہ پر لگ بھگ
6کروڑ روپئے کے مصارف عائد ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment