اقبا ل کا شکوہ نظم کے پیرائے میں
اس
نظم میں اقبال نے سرکا ر دوعالم ﷺ کی روح سے استغاثہ ہے کہ
1)اے
تاجدار مدینہ !آپ کی قوم کا شیرازہ بالکل بکھر چکاہے اس لئے دنیا میں کوئی قو م اس
کی عزت نہیں کرتی ۔اب آپ ﷺ ہی فرمائیں کہ آٌ قاکے یہ نالا ئق غلام کہاں جائیں ۔
2)مسلما
نوں مں سر فروشی کا وہ ذوق بالکل باقی نہیں رہا ۔لھذا میں اب کس قوم کو اپنی شناخت
کی حفاظ او ر وقت کے تقاضہ کے مطابق جدوجہد کرنے کی تعلیم دوں ۔مسلمان نہ میری
تعلیم سنتے ہی نہ سمجھتے ہیں
3)یہ سچ ہے کہ اس وقت بالکل بے سروسامانی کی حالت میں ہیں
،نہ ان کے پاس دولت ہے نہ تجارت ہے نہ علم ہے اور نہ ان کے پا س کسی قسم کی مادی
طاقت ہے نہ روحانی قوت ہے ۔یہ بالکل صحیح ہے لیکن بہر حال وہ آپ ﷺ کا کلمہ پڑھتے
ہیں آخر وہ کس ملک میں چلے جائیں ۔
4)اب
وقت آگیا ہے کہ آپ اس نا فرمان اور نالائق قوم پر نگاہ کرم فرمائیں اور اس کی
دستگیری فرمائیں یہ قوم لاکھ بری سہی لیکن آپ کی نام لیوا ہے اور اللہ کے کلام پر
عامل نہ سہی اس کی نگہبان تو ہے آخر دنیا
سے نیست ونابو د توہونہیں سکتی کیونکہ آٌپ کا پیغا م ازلی اور ابدی ہے پس ا للہ ان
پر نگاہ کرم فرمائیے اور دنیا میں ان کی با عزت زندگی کاکوئی انتظا م فرمائیے1میں نے حتی المقدوراس نظم کے
مفہوم کوسلیس اندازمیں بیان کردیا ہے لیکن اگر ناظرین اس سوزوگداز سے لطف اندوز
ہونا چاہتے ہیں جو اس نظم میں ہے توپھراس کو اقبال ہی کے لفظوں میں
پڑھیں۔جوسوزوگدازاس مصرع میں ہے ۔
اب
تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے وہ میرے
لفظوں سے ہر گز پید انہیں ہو سکتا ۔
No comments:
Post a Comment