کیا انسان کو مذہب کی ضرورت ہے

  • مذہب
    ہم اگر  اپنے ارد گرددیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ ہم خود اپنے تمام افعال پر قادر نہیں ہیں ۔بلکہ چند ضابطے  ایسے ہیں جن کے ماننے پر ہم مجبور ہیں ،ایسے ضابطے  ہی قانون کہلاتے ہیں ۔دنیا میں ہم مختلف قسم کے قانون دیکھتے ہیں  ،مگر وہ تمام دو قسم کے ہو تے ہیں   :اول وہ قانون  جو قدرتی ہیں ،دوم وہ جو وضعی ہیں۔قسم اول  میں ایسے قانون  ہیں جس میں انسان  کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا ۔مثلا آگ ہر چیز کو جلاتی ہے ۔پانی ہمیشہ  پستی نیچے کی جانب بہتاہے ،درخت اسی وقت تک سرسبزہ  رہتےہیں جب تک ان کو ان کی غذایعنی کھا د پانی ہوا دھوپ وغیرہ  ملتی  رہے ۔ستارے اور سیارے ہمیشہ اپنے مقررہ دور پورے کرتے ہیں ،یہ ایسے قانون  ہیں جس میں انسان تبد یلی نہیں کرسکتا ،دسرے  قانون وضعی :یہ ایسے قانون  ہیں جو کہ خود انسان کے بنا ئے ہو ئے ہیں ،اس وجہ سے اس میں ہر وقت  تبدیلی ممکن ہے اور ہو تی بھی رہتی ہیں ۔مگر سوال یہ ہو تا ہے کہ قانون  کی ضروت ہی کیاتھی ؟اگر سر سری طور پر دیکھا  جائے تو قانون ترقی اور آزادی میں رکاوٹ معلو م ہوتے ہیں ،مگر غور سے دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ نظام عالم کا دورومدار انہیں قانون   پر ہے ۔فرض کروکہ آج نظام ششمسی کے سیارے آفتاب کی کشش سے آزاد ہو جائیں تو نتیجہ کیا ہو گاکہ اجرام فلکی کا کہیں پتہ بھی نہ ہوگا ۔یایوں سمجھوکہ ایک بڑے ملک میں کوئی زبردست گورنمنٹ نہ ہو ،ہر شخص آزادہو ،کسی کے افعال کا کسی کو تعرض کا حق نہ ہو تو یقینا اس ملک کی حا لت وحشی سے وحشی ملک سے بھی بد تر ہو جائے گی،وہاں ہر کوئی اپنی من مانی زندگی بسر کرےگا ،اور پھر وہاں خون ریزی قتل وغارت گری ،اور ہر طرح کا شروفساد عام ہوجا ئے گا ،اور پھر وہاں نام تو انسانوں کے ہوں گے لیکن حقیقتا وہاں جا نوروں کا بسیرا ہو گا ،بہر حال صاف ظاہر ہے کہ امن وامان ،حفاظت مال ،کسب معاش کے لئے یہ لازمی ہے کہ سو سائٹی کا ہر فرد واحد چند قانون  کی پابندی کو اپنا  فرض سمجھے ۔کیوں اس میں اس کی جان ومال ، بہن بیوی،اور ماں بیٹی کی حفاطت ہے ،اور مذہب بھی کسی پابندی وتشدد،اور جکڑ بندی کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ مذہب بھی دراصل نام ہے چند قانون  کا جن پر عمل کرنے سے گویا اپناہی فائدہ ہے،اسی لئے پر عمل کرنا ہر ایک کے لئےضروری ہے ،اور اگر ہم اس پر عمل نہ کریں تو خود ہم کو نقصان پہونچے گا ۔اور مذہب ہم کوتو راستبازی کی تعلیم دیتاہے ۔ماچھے اخلا ق سے پیش آنا ،غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرنا ،کمزوروں کا سہارابننا غمزدوں کے درد کا درماں بننا ،محبت کےساتھ آپس میں شیر وشکر بن کر رہنا ،اور ہرایک کا بھلا چاہنا،ان سب باتوں کی ہی تو مذہب تعلیم دیتاہے ،تو اس میں پریشانی کیا ہے ۔؟
    اب دو ایک مذہب کا تاریخی مطالعہ کرکے دیکھو ان کی وجہ سے لوگوں کیا فائدے ہوئے۔
    پانچ سو قبل مسیح ہند  کے میدانوں میں ایک اایسی قوم بسی ہو ئی ملتی ہے جو تہذیب وتمدن کے نام سے ناآشنا ہے ۔وہ بھوت پلید کے پر ستش کو  واجب قرار دیتی ہے،اخلا قی اعتبار سے بھی اس کی بہت پست حالت ہے ،اس میں دوسروں کے مقابلہ میں برتری کا خیال مطلق نہیں پا یا جاتاہے ۔دفعتہ ایک مصلح پیداہوتا ہے یہ اپنے عیش وآسائش کو ترک کردیتاہے بیو ی بچوں خو خیر آباد کہہ دیتاہے ،سلطنت پر لا ت مارتاہے ،سا ت برس تک جو گی بن کر تلاش نجات میں گھومتاہے ،اور گوتم بدھ کے نام سے ایک سیدھے سادھے مذہب تعلیم  کرتاہے اور ایک وقت آتاہے کہ اس مذہبی تعلیم کی وجہ سے وہ قو م جو غیر مہذب تھی مہذب بن جا تی ہے ،اوراولا تواس کو معمولی حیثیت کے لوگ قبول کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ بڑے بڑے مہا راجہ بھی  یہی مذہب  اختیار کرلیتے ہیں ۔او رآج بھی تقریباڈھائی ہزار برس کے بعد بدھ مت کے ماننے والے دنیا میں ایک بڑی تعداد میں موجودہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ بدھ  مت نے لو گوں کو رسم ورواج ،طریق معاشرت میں ایک بڑی تبد یلی پید اکردی تھی اور اس کے متبعین  کا اخلاقی معیا ر بہت بلند کردیا تھا۔
    (ابھی اس کا پھر کیا حال ہے ہم اس وقت کی بات نہیں کررہےہیں )
    اس سے بھی قریب تر زمانہ کی مثا ل لو ۔توظہور اسلام سے پہلے عرب کی حالت دیکھو ۔ان لوگوں میں دنیا کے تمام عیوب موجو د تھے ،دختر کشی ،شراب بخور ی ،اور بہت سی بیماریاں تھی جن کو چھوڑنا ان کے لئے بہت مشکل تھا ،اسی  عالم میں ایک مہتاب طلوع ہوتاہے ۔تعلیم وتلقین کا معجزہ نما اثر دیکھو ۔جہالت کا بادل دھوا ں بن کر اڑجاتاہے ،مذہب ہی کی برکت تھی کے وحشی عرب ایک طرف ایرانیوں کی عظیم الشان سلطنت کو فتح کرلیتےہیں ،اور دوسری طرف یورپ کو ایک مدت تک تہذیب وتمدن کا سبق دیتے ہیں، انہوں  نے صرف ممالک ہی کو نہیں فتح کیا بلکہ دلوں کو بھی فتح کیا اور علو م وفنون کو ترقی دی ۔اور عربوں کی ترقی کی خاص وجہ یہ تھی کہ اسلام  کے بعد ان  کی قوتوں کا ستعمال ٹھیک موقعوں پر کیاجانے لگا ،بہادری ان میں پہلے سے تھی لیکن اب اس کا استعمال غیر ممالک میں کئے جانے والے ظلم کے خلاف استعمال  کیا جانے لگا ،دماغی قوت ان میں پہلے سے ہی موجود تھی لیکن اس کا استعمال اب علوم وفنون میں استعمال ہونے لگا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض دنیاکے کسی بھی مذہب کو لو اور اسے تاریخی روشنی میں دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ہر مذہب نے اپنی اپنی حیثیت سے انسانی تہذیب وتمدن کو ترقی دی ہے اور اپنی تعلیم کا ایک ایسا نظام اخلاق چھوڑا ہے جس پر اس کے ماننے والے عمل کرتے رہے ہیں ۔ی(یہ الگ بات  ہے کہ اس کے ماننے والوں نے بعد میں  اس میں بہت سی خرابیوں کو داخل کردیا ،کچھ نے تو کم فہمی یا لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کیا ،او رکچھ نے اپنے پیٹ پوجا کے لئے کیا )اور جس طرح قانون وضعی میں یہ بات پائی جا تی ہے کہ د وممالک کے قوانیں میں  ایک دوسرے سے مشاہبت ہو تی ہے اسی طرح مذہب عالم کے احکاما ت  میں بھی بہت کچھ ایک دوسرے سے مشابہ ہو تے ہیں مگر یہ بات ہر چھوٹے حکم پر صادرق  نہیں آسکتی ۔لیکن مجموعی طور پر مذیب کی ترقی میں جتنا کام مذہب نےکیاہے اتناکسی نے نہیں کیاہے (اسلامیات خدا بخش پبلک لائبریری پٹنہ )
    دنیا کے تمام مذاہب کا پیغام
    اب ہم اور ایک دوسرے اندازسے سمجھنے کی کو شش کرتے ہیں کیا انسان کوواقعی کسی  مذہب کی ضرورت ہے ؟
    جب سے دنیا بنی ہے یا کم سے کم جب سے اس دھرتی پر انسانوں  کا رہنا شروع ہواہے ،تب سے ہر آدمی کا دل دو  طرف کھینچتاہے :کبھی خود غرضیاور برائی کی طرف توکبھی دوسروں کی بھلائی کی طرف ،کبھی سوارتھ کی طرف تو کبھی پروپکا ر کی طرف ۔برائی اور بھلائی ،بدی اور نیکی ،پاپ اور پن ،گناہ اور ثواب ان دونوں راستوں کے ہی الگ الگ نام ہیں ۔کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کے دل پر یہ دونوں کبھی کبھی اپنا اثر نہ ڈالتے ہو ں ۔یہ دونوں اپنی اپنی طرف آدمی کے دل کو برابر کھنچتے رہتے ہیں ؛اور یہی کھینچا تانی اندر کی کشمکش دنیا کی سب سے بڑی جنگ یا دنیا کا سب سے بڑا سنگرا م ہے ۔اس سنگرام میں خود غرضی یا سوارتھ ،بدی یا برائی کو اپنے اندر سے نہ مٹا سکنا سب سے بڑی ہار ہو تی ہے ۔اسی طرح دوسروں کی بھلائی یعنی پروپکا ر یا نیکی کو اپنی زندگی میں جگہ دیناسب سے بڑی  جیت ہے ،اور جگہ نہ دے سکنا ہر آدمی کی اور تما م انسانی دنیا کی بھلائی ہے ۔اس میں ساری دنیا کی ترقی اور سکھ اور چین کے راستے کھلتےہیں ۔اور یہ ہا ر اس لئے سب سے بڑی ہا ر مانی جاتی ہے کیوں کہ اس میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں اوریہی انسانی دنیا کے بڑے بڑے دکھوں کا اور بربادی کا اصلی سبب ہے ۔
    اس  جیت میں دنیا کی بھلائی اور اس ہا ر میں دنیا کے دکھوں  اور بربادی کی جڑ اس لئے ہے کہ اگر ہم آدمی کی زندگی پر گہری نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتاہے کہ دنیا کے آدمی سب ایک دوسرے سے ایسے ہی بندھے اور جکڑے ہو ئے ہیں جیسے ہمارے بدن کے الگ الگ حصےہاتھ پیر آنکھ اور کا  ن ایک دوسرے سے۔اس طرح دنیا کی تما م چیزیں اور خاص طور سے آدمیوں کے سارے گروہ آپس میں ایک دوسرے سے ایسے اٹوٹ اور گہرے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ، ان کا اصلی فائدہ اور نقصان الگ ا  لگ نہیں کیا جاسکتا۔ہم سب مل کر ایک کنبے یا کٹمب کی طرح ہیں ،جس کی بنیا دیں میل محبت ،ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور ایک دوسرے کی سیوا پر قائم ہیں او رجس کو سب سے بڑا نقصان ایک دوسرے سے نفرت کرنے اور لڑنے سے پہنچتاہےاور جتنا  آدمی اس سچائی کو جان لیتاہے اتناہی وہ اس جیت میں کا میاب ہو تا ہے ،او راس کے بعد اس کے اندر سے اپنے اور پرائے کا بھید کم ہو جاتاہے یا یو کہئے اس کے اپنے پن اور پرائے پن کا خیال گھٹتا اور سکڑ جاتاہے ،اور اس کے دل میں ایک  کرکے اپنے گاؤں ،اپنے شہر ،اپنے دیس اور بڑھتے بڑھتے ساری دھرتی کے آدمیوں کے ساتھ اپنا پن بیٹھنے اور جمنے لگتاہے ۔اسے دوسروں کے بھلے میں اپنی بھلائی اور دوسروں کی بربادی میں اپنی بربادی ،دوسروں کے سکھ میں اپنا سکھ اور دوسروں کے دکھ میں اپنا دکھ دکھائی دینے لگتاہے۔دنیا کے سب دیسوں میں سب آدمیوں کے اس بات کو سمجھ لینے پر ہی دنیا بھر کی سچی شانتی ،سچے امن ،اور سچے سکھ کا دارومدارہے ۔
    لیکن مصیبت یہ ہے کہ آدمی کے اندر اس سمجھ کے پیدا ہونے میں بہت دیر لگتی ہے ،خاص کر قوموں اور ملکوں میں اس کا خیال پید اہو نا بہت ہی مشکل ہو تاہے ، اس لئے یہ کھچاتانی مٹ نہیں پا تی اور اس کے جاری رہنے سے دنیا کو بڑے بڑے نقصان پہونچتے رہتےہیں ۔بے چینی بے امنی اور بربادی بڑھ جا تی ہے ،گروہ بندی، کٹ بندی بڑھتی ہے ،اور اتنا ہی سماج کے آتما کے ٹکڑے ٹکڑے ہو نے لگتے ہیں ،جھگڑے بڑھتے ہیں دکھ ،غریبی ،اور بربادی پھیلتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتاہے کہ باہر کے سب لڑائی جھگڑے آدمی کی اس نا سمجھی کا ہی نتیجہ اور اندر کی اس  کھینچا تانی کی ہی  پرچھائیں  ہوتے ہیں ۔اس ناسمجھی کی طرف لو گوں کا دھیان دلانے اور انہیں اس کھینچا تانی کے دور کرنےاورآپس میں مل جھل کر محبت سے رہنے کا صحیح  راستہ  بتانے کا کا م مذہب( دھرم) کرتے ہیں  ۔اس لئے تو علامہ اقبال نے کہاتھا ۔

مذہب نہیں سکھا تا آپس میں بیر رکھنا                       ہندی ہے ہم وطن ہے  ساراجہاں ہمارا
my first HTML Page

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم