فتنۂ ارتداد: اسباب اور ذمہ داریاں

.

       فتنۂ ارتداد: اسباب اور ذمہ داریاں

گزشتہ دنوں کئی علاقوں سے ارتداد کی خبریں (بالخصوص لڑکیوں کے سلسلہ میں) آئیں ، جو یقیناً تشویش ناک ہیں ؛ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری بچیاں ارتداد کا راستہ اختیار کیوں کررہی ہیں ؟ بہت ہی غور و خوض کے بعد راقم کے سامنے درج ذیل جوابات آئے:

*1- اصل دین سے ناواقفیت:*

 ارتداد کا راستہ اختیار کرنے والیاں نام کے اعتبار سے اور موروثی طور پر مسلمان ہیں ، وہ تمام امور کی انجام دہی ایک رسم کے طور پر کررہی ہیں ، انھیں معلوم نہیں کہ جو اعمال کئے جارہے ہیں ان کی حیثیت کیا ہے؟ کس کے حکم سے انجام دئے جارہے ہیں ؟ اگر ان امور کی انجام دہی نہیں کی گئی تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ سب انھیں معلوم نہیں ، وہ تو بس وہی کام کرتی ہیں ، جو انھوں نے اپنے اباء واجداد کو کرتے دیکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب انھیں ان کے غلط عمل پر ٹوکا جاتا ہے تو وہ بے دھڑک کہہ دیتی ہیں کہ ہمارے باپ دادا ایسا ہی کیا کرتے تھے؛ بل کہ الٹا سوال کر بیٹھتی ہیں کہ کیا وہ سب بے وقوف تھے؟ کیاان کے تمام اعمال غلط تھے؟


  *2-  اسلامی تعلیمات سے بے گانگی:*

  کچھ بچیوں کو یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ مسلمان ہیں ؛ لیکن وہ اسلامی تعلیمات سے بالکل ناواقف ہوتی ہیں ، نماز، روزہ جیسے اہم ارکان سے بھی نابلد ہوتی ہیں ، چہ جائیکہ انھیں یہ معلوم ہوکہ اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق دئے ہیں ؟ زمانۂ جاہلیت اور خود موجودہ زمانہ میں دوسرے مذاہب میں ان کے ساتھ کیا کیا نا انصافیاں ہوتی رہی ہیں ، ان سے مکمل طور پر نا آشنا ہیں ، ظاہر ہے کہ ایسے میں انھیں اسلامی تعلیمات کی کیا قدر ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ جب ان کے سامنے ظاہری اعتبار سے عقل کے خلاف کسی اسلامی حکم پر اعتراض کیا جاتا ہے تو خاموش ہوجاتی ہیں اور معترض کی معترف ہوجاتی ہیں۔

 *3-  مخلوط تعلیم:*

  ارتداد کا ایک بڑا سبب مخلوط تعلیمی نظام بھی ہے؛ کیوں کہ صرف لڑکے لڑکیوں کا ہی اختلاط نہیں ہوتا؛ بل کہ مسلم وغیرمسلم کے درمیان بھی ایسا اختلاط پایا جاتا ہے کہ دینی فرق ہی باقی نہیں رہتا، جس کے نتیجہ میں ’’عبادت‘‘ اور ’’پوجا‘‘ کے مابین کوئی امتیاز نہیں ہوتا، ہر ایک دوسرے کی عبادت اور پوجا میں شریک ہوتا ہے، بالخصوص مسلمان غیر مسلم کے تمام مذہبی امور میں شریک ہوتا ہے، جب کہ غیرمسلم عام طور پر مسلمان کے دینی اعمال میں شریک نہیں ہوتا (البتہ اکل وشرب کے بعض پروگراموں میں شریک ہوتاہے)؛ اس لئے مسلمان کے ذہن میں غیراسلامی امور بھی ناپسندیدہ نہیں لگتے ،پھر اکثر اسکولوں کا نصاب ہی ایسا ہے، جو ذہنی شکوک وشبہات میں مبتلا کردے، اسی طرح بے حیائی اتنی عام ہے کہ ایک دوسرے سے کسی اعتبار سے کسی قسم کا فاصلہ نہیں رکھا جاتا، ان چیزوں کی وجہ سے لڑکیاں اسلام اور غیراسلام دونوں کو ایک ہی خانہ میں رکھ دیتی ہیں اور ارتداد کا راستہ چن لیتی ہیں ۔

*4-  غیرمسلموں کے ساتھ یارانہ:*

 آج کے ’’فرینڈشپ‘‘ کلچر میں غیرمسلموں کے ساتھ دوستی گانٹھنے کو برا نہیں سمجھا جاتا؛ حالاں کہ اسلامی حکم یہ ہے کہ ’’مؤمنین کو چاہئے کہ وہ مؤمنین کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں‘‘ (آل عمران: 28)، انسانیت کی بنیاد پر تعلق رکھنا کوئی بری بات نہیں ؛ لیکن ایسی ’’دوستی‘‘ کرنا نادرست ہے جس میں رازہائے سربستہ دوست کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاتا ہے اور محرموں کی طرح گھر کے اندر آنا جانا جائز سمجھا جاتا ہے؛ کیوں کہ عموماً یہ دوستی شیطانی چال کا شکار ہوکر ’’پیار‘‘ کا روپ دھار لیتی ہے، جو ارتداد کا راستہ دکھاتی ہے۔


*5-  حرص و لالچ:*

 مادیت کے اس دور میں دولت کی حرص انسان سے نہ جانے کیا کیا کرا لیتی ہے! چنانچہ کچھ لوگ (جن میں غربت کی ماری لڑکیاں بھی ہیں) ہم میں سے ایسے ہیں ، جو حرص ولالچ کی خاطر ’’باقی رہنے والی زندگی‘‘ کو ’’ختم ہونے والی زندگی‘‘ سے بیچ دیتے ہیں اور دنیا کے چند سکوں کے بدلہ ارتداد کا راستہ اپنا لیتے ہیں ۔

 *6-  سلیبریٹیز کی غیرتفریق شادیاں :*

   آج کل چوں کہ ہر لڑکی (بالخصوص اسکول وکالج میں زیرتعلیم) کے ہاتھ میں انرائیڈ موبائل ہوتا ہے، جس میں زیادہ تر الّم غلّم چیزیں مشاہدہ کی جاتی ہیں ، انھیں میں بعض ایسی فلموں کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے، جن کے اسکرپٹ میں مسلم وغیرمسلم کے درمیان شادیاں دھوم دھام سے رچائی جاتی ہیں ، اسی طرح ان فلموں کے ہیروز اور ہیروئنس کی ریل لائف میں مسلم وغیرمسلم کے فرق کے بنا شادیاں رچائی ہوئی ہیں ، بعض لڑکیاں ان چیزوں سے متاثر ہوکر ارتداد اختیار کرنے میں حرج نہیں سمجھتیں ۔

یہ اور ان جیسے اسباب کی بنیاد پر لڑکیاں زیادہ تر ارتداد کا راستہ اختیار کررہی ہیں ، ایسے حالات میں ہر مسلم فرد کی ذمہ داری ہے، خواہ وہ عالم ہو یا عصری تعلیم یافتہ، دعوت وتبلیغ سے جڑا ہوا ہو یا کسی اور ادارہ وتنظیم سے کہ وہ میدان میں اترے اور ارتداد اختیار کرنے والی لڑکیوں کے ایمان کی حفاظت کرے، اس وقت یہ کام حمرالنعم (سرخ اونٹ) کے صدقہ کرنے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ مساجد کے مکاتب کے نظام کو مستحکم کرنا ضروری ہے، اگر ضرورت پڑے تو ذمہ دارانِ مساجد الگ سے معلمین کا انتظام کریں ، نیز معلمین اس کو ایک اہم دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ’’پروفیشنل‘‘ طریقہ پر نہ پڑھائیں اور بالحضوص عقائد پر زیادہ زور دیاجائے۔
  مسلم معاشرہ کے جو باحیثیت افراد ہیں ، انھیں چاہئے کہ علماء کی نگرانی میں ایسے اسکول قائم کریں ، جہاں مخلوط تعلیم نہ دی جاتی ہو، اگر خود قائم نہیں کرسکتے تو جولوگ ایسے ادارے قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، انھیں مالی تعاون فراہم کریں ۔

 موجودہ حالات کے پس منظر میں علماء کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے کہ وہ گاؤں گاؤں جائیں اور ماحول کا جائزہ لیں ، پھر دینی تعلیم کو رواج دینے کی کوشش اہل محلہ کے ساتھ مل کر کریں ، خواتین میں خصوصاً بیان کریں اور انھیں دین کی باتیں بتائیں ، اس سلسلہ میں اہل مدارس بھی بھر پور توجہ دیں ، ایک ایک علاقہ میں طلبہ کو بھیجنے کی ہفتہ واری ترتیب بنائیں ، جس کے لئے پہلے طلبہ کو ٹریننگ دیں ۔ جمعہ کے دن خطابت کی ترتیب بھی بنائیں ، جن علاقوں کے بارے میں ارتداد کی اطلاع ملے، وہاں اول وہلہ میں جانے کی کوشش کریں اور معاشرہ کے باشعور افراد کو جمع کرکے ارتداد کی حقیقت اور اس سلسلہ میں آخرت کی سزاؤں کا تذکرہ بھی کریں ، اگر اس طرح ہلچل پیدا ہوجائے تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ارتداد کی جو مسموم ہوا چل پڑی ہے، وہ جلد ہی تھم جائے گی؛ لیکن اگر ہم نے ادنیٰ بھی کوتاہی کی تو پھر نئی نسل ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو ارتداد کے فتنہ سے بچائے، آمین!!!

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم