مذہب اور انسان


مذہب اور  انسان 
از:ابوصالح شیخ ادریس ندوؔی ولی اللٰھی ؔ

مذہب کے ساتھ انسان کے تعلقات کی  دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان مذہب کے مطابق ہوجائے،اپنے ہر فعل وعمل اور پنی ہر حرکت ونظر کو مذہب کے عینک سے دیکھے  اور دوسرا یہ کہ مذہب کو اپنے مطابق بنالے۔اور اپنے خواہشات کے مطابق مذہب کو پیش کرے ۔انبیاء کا زمانہ اس اعتبار سے بہترین ہوتاہے کہ وہ مذہب کو زمانے کی روش میں ڈھالنے کے بجائے لوگوں کو مذہب کے ساچے میں ڈھالتے ہیں اور اس اعتبار سے  آخری نبی ورسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ اس اعتبار سے بھی بہترین زمانہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کی عظیم اکثریت مذہب کے مطابق ہوجاتی تھی۔ اس کی ایک وجہ مسلمانوں کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ایمان اور عمل کا جو معیار پیدا کرتی تھی وہ کسی دوسری چیز سے ممکن ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہردور کے لیے ایک معیار ہے اور اسوہ قرار پایا ۔ لیکن ہمارے زمانے کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے زمانے کا غالب رجحان مذہب کے مطابق ہونے کا نہیں، مذہب کو اپنے مطابق بنانے کا ہے۔ اس سلسلے میں عوام اور خواص کی کوئی تخصیص نہیں۔ اقبال مرحوم نے کیا خوب کہا تھا:
                                خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں                ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اقبال کے اس شعر کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسئلے کی سنگینی بہت بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کا انحراف معمولی انحراف ہوتا ہے۔ عوام کی آنکھوں پر پڑنے والے پردے دبیز نہیں ہوتے۔ لیکن ”فقیہانِ حرم“ کا انحراف ”مدلل“ ہوتا ہے۔ یعنی اہلِ علم مذہب کو اپنے مطابق بناتے ہیں تو اس کا پردہ چاک کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کی خرابی اُپنی حد تک محدود رہتی ہی، لیکن اہلِ علم کی خرابی کئی کئی نسلوں کو لے ڈوبتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مذہب کے مطابق بن جانے اور مذہب کو اپنے مطابق بنانے کے معاملات اور نفسیات میں کیا فرق ہے؟اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ مذہب کی کائنات  میں خدا مرکز کائنات ہے۔ اس کائنات میں خدا خالق ہی، مالک ہی، رازق ہی، پیدا کرنے والا ہی، مارنے والا ہی، جزا دینے والا ہی، سزا دینے والا ہی، اس کے ہونے سے ہر شے میں معنی ہیں۔ جن لوگوں کی کائنات فکری اور عملی اعتبار سے خدا مرکز کائنات ہوتی ہے وہ ساری زندگی خود کو مذہب کے مطابق بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اس لیے کہ مذہب ان کے لیے زندگی کی واحد برتر حقیقت ہوتا ہے۔ اس کائنات میں انسان اور مذہب کا تعلق ذرے اورآفتاب کا ہوتا ہے۔ ذرہ جتنا آفتاب کی روشنی میں ہوتا ہے اتنا ہی منور ہوتا ہے۔ لیکن اب ہماری کائنات خدا مرکز کائنات نہیں۔ عقیدے کی سطح پر خدا آج بھی ہماری کائنات کے مرکز میں موجود ہے لیکن عمل کی سطح پر ہماری کائنات انا مرکز کائنات ہے۔ اس کائنات میں ہماری انا ہی سب کچھ ہے۔ اس تضاد کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ”آرزو“ مکّے اور مدینے کی ہوتی ہے لیکن ہماری ”جستجو“ ہمیں واشنگٹن ، لندن ،دبئی اور قطر لیے جارہی ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہمارے لیے صرف ایک فکری حقیقت ہے، اور یہ فکر عمل پیدا نہیں کررہے۔ ہمارا عمل جس چیز سے پیدا ہورہا ہے وہ خدا نہیں ہماری ”انا کی استعماری قوت“ ہے۔ اس صورت حال میں ہم مذہب کو اپنے مطابق نہیں بنائیں گے تو اور کیا کریں گے؟انسان کا ایک ازلی و ابدی مسئلہ یہ ہے کہ وہ روحانی اور نفسیاتی سطح پر خود کو ناکافی، ادھورا، نامکمل یا Imperfect محسوس کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ صرف مذہب اسے کافی بناسکتا ہے، صرف مذہب اس کے ادھورے پن کو رفع کرسکتا ہے، اور صرف مذہب اسے کامل یا Perfect بناسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب انسان کے لیے سانس لینے کی طرح ناگزیر ہوجاتا ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ ہمارا تصورِ زندگی اتنا اتھلا اور ہمارا شعور اتنا سطحی ہوگیا ہے کہ ہم روحانی اور نفسیاتی سطح پر اپنے آپ کو کامل یا Perfect کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ مذہب کے ساتھ شدید وابستگی کا بھی کوئی تقاضا ہمارے اندر نہیں ابھرتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم مذہب کی سطح پر جانے کے بجائے اسے اپنی سطح پر گھسیٹ لاتے ہیں۔ لیکن ہماری سطح کیا ہے؟ فی زمانہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے آپ کو دو سطحوں پر کامل یا Perfect دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک معاشرتی سطح پر اور دوسرے معاشی سطح پر۔ یہاں معاشرتی سطح کی نشاندہی بھی غیر ضروری ہی، اس لیے کہ ہماری معاشرتی سطح بھی ہماری معاشی حیثیت سے متعین ہورہی ہے۔ اس سطح پر اکثر صورتوں میں مذہب کے ساتھ تعلق کے بجائے مذہب کے ساتھ بے تعلقی اہم ہوجاتی ہے۔ اس طرح مذہب خودبخود ہمارا حاکم بننے کے بجائے محکوم بن جاتا ہے۔اس معاملے کا ایک پہلو اقبال کے اس شعر میں موجود ہے جو آپ کالم کے آغاز میں ملاحظہ کرچکے ہیں، یعنی خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق اس شعر میں سب سے اہم لفظ ”توفیق“ ہے۔ لیکن توفیق کا مطلب کیا ہے؟ توفیق دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو فراہم کی جانے والی وہ روحانی مدد ہے جس کے ذریعے مذہب پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔ ایک اور سطح پر توفیق کا مطلب الہام کے ذریعے معنی تک رسائی ہے۔ توفیق کی دو ہی صورتیں ہیں، یا تو انسان اللہ تعالیٰ سے خود توفیق طلب کرتا ہے، یا اللہ تعالیٰ عنایت و انعام کے طور پر انسان کو خود توفیق سے نواز دیتے ہیں۔ لیکن دونوں صورتوں میں توفیق کی ضرورت کا شدید تقاضا انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اس تناظر میں زیرِبحث مسئلے کا مفہوم یہ ہے کہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق عطا ہوتی ہے تو وہ خود کو مذہب کے مطابق بناتا ہے۔ اور الہام کی قوت سے قرآن و حدیث کو سمجھتا ہے۔ لیکن جب انسان توفیق سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ مذہب کو اپنے مطابق بنانے لگتا ہے اور اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ عقل کی قوت سے سمجھنے کی غلطی کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ فقیہانِ حرم کی بے توفیقی کا مطلب اللہ تعالیٰ کی مددِ خاص سے محرومی اور الہام کی روایت سے کٹ کر رہ جانا ہے۔ یہ تجزیہ ہمارے عہد کا المیہ اور اس کی ایک علامت ہے۔
                                              قوت فکر وعمل     پہلے فنا ہوتی ہےپھر                    کسی قوم کےعظمت پہ زوال آتاہے


No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم