*غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت کے حدود*

*غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت کے حدود*

*ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی*

           جس سماج میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہوں، ان کا آپس میں ملنا جلنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا، دینی نقطہ نظر سے پسندیدہ ہے _ مذاہب کا اختلاف اپنی جگہ _ ہر شخص تنہا بارگاہ الہی میں حاضر ہوگا اور اس سے اس کے عقائد و اعمال کی جواب دہی ہوگی _مسلمانوں کے لیے  سماج میں رہنے والے تمام انسانوں سے انسانی اور سماجی تعلقات رکھنا مطلوب ہے_ دوسری طرف ان سے یہ بھی مطلوب ہے کہ وہ عقائد اور عبادات کے معاملے میں کسی طرح کی مداہنت یا مشابہت قبول نہ کریں اور ابہام اور اشتباہ سے حتّی الامکان بچنے کی کوشش کریں _
            اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت کے کیا حدود ہیں؟
         واضح رہے کہ تقریبات دو طرح کی ہوتی ہیں :
      (1) سماجی، غیر مذہبی، مثلاً شادی بیاہ، جشن ولادت، ملازمت ملنے کی خوشی میں پارٹی ، کسی دوکان کا افتتاح، کسی کی وفات، یا سماج کے افراد کے یکجا ہونے کا کوئی اور موقع_
        (2)خالص مذہبی، جن میں کسی مخصوص مذہب کے مراسم ادا کیے جاتے ہیں _
            درج بالا سوال کا اصولی طور پر جواب یہ ہے کہ  مسلمانوں کے لیے غیر مسلموں کی سماجی تقریبات میں شرکت جائز، جب کہ مذہبی تقریبات میں شرکت ناجائز ہے _
                 بعض تقریبات کو سماجی اور مذہبی کے خانوں میں الگ الگ کرنا ممکن نہیں، کہ بعض غیر مسلم اپنی سماجی تقریبات میں مذہبی مراسم بھی انجام دیتے ہیں اور مذہبی تقریبات کو سماجی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں _ ایسی تقریبات، جن پر مذہبی رنگ غالب ہو، ایک مسلمان کے لیے ان میں شرکت نہ کرنا اَولی ہے _ لیکن اگر مذہبی رنگ غالب نہ ہو تو وہ شریک ہو سکتا ہے، البتہ مراسمِ عبادت کی مخصوص مجلس سے دور رہے_
              تکثیری سماج میں رہنے والے مختلف مذاہب کے پیروکار فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مقصد سے اپنی تقریبات میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مدعو کرنے لگے ہیں _ مسلمان عید ملن پارٹی میں، ہندو دیوالی، دسہرا کے فنکشن میں اور عیسائی کرسمس کی تقریب میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بلاتے ہیں _ یہ تقریبات اب خالص مذہبی نہیں رہ گئی ہیں، بلکہ ان میں مذہبی اور سماجی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں _
           ایسی تقریبات میں اگر کوئی مسلمان خیر سگالی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے جذبے سے، سماجی تعلقات بڑھانے کے ارادے سے، یا دعوتی مقصد سے شرکت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، لیکن اسے اس موقع پر ان کاموں میں شریک ہونے سے بچنا چاہیے جن کا مذہبی رنگ ہو ، بلکہ اگر حسب موقع وہ اپنی علیحدگی کی وضاحت کرسکے تو اس سے دعوتی مقصد بھی پورا ہوگا_ مثلاًً اگر کرسمس کی تقریب میں اس سے کیک کاٹنے کو کہا جائے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ہم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کی خوشی میں کیک نہیں کاٹتے تو حضرت عیسٰی کی پیدائش پر بھی یہ سب کرنا مناسب نہیں سمجھتے _
        دوسروں کی تقریبات میں ہمیں اپنی شرائط پر شرکت کرنی چاہیے، نہ کہ ہم ان میں جاکر بغیر حدود کی رعایت کیے ہر وہ کام کرنے لگیں جو دوسرے ہم سے کروانا چاہتے ہیں _
       اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کو ہمیں اپنے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے :
       "حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے_ ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں، جو شخص ان سے اپنا دامن بچا لے جائے، اس نے اپنے دین کو محفوظ کرلیا_"

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم