علامہ شبیر احمد عثمانی رح کے وفات پر اکابر علماء دیوبند کی تعزیتی کلمات

علامہ شبیر احمد عثمانی رح کے وفات پر اکابر علماء دیوبند کی تعزیتی کلمات

آپ رح کو تعزیتی جلسوں میں زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ۔ 
حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ نے دارالعلوم دیوبند میں حضرت علامہ عثمانیؒ کی یاد میں تعزیتی جلسہ سے خطاب فرماتے ہوئے علامہ عثمانیؒ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ :
"شیخ الاسلام حضرت علامہ عثمانی مرحوم کی شخصیت بے مثال تھی ، علم و فضل میں آپ کا پایہ بلند تھا اور ہندوستان کے چیدہ علماء میں سے تھے ۔ ہم میں سیاسی اختلافات ضرور پیدا ہوئے مگر وہ اپنی جگہ ہیں ، علامہ مرحوم کے منتخب علم و فضل اور بلند پایہ شخصیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ یقیناً ان کی یہ دائمی مفارقت ہم سب کے لئے باعثِ رنج و ملال ہے علامہ عثمانی مرحوم نے دارالعلوم میں تعلیم پائی حضرت شیخ الہندؒ اور بہت سے اکابر دارالعلوم سے انہیں نسبتی تعلق تھا اور علمی طور پر ان کی شخصیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ تقریر و تحریر کا خداداد ملکہ علامہ مولانا مرحوم کا حصہ تھا اور بہت سی خوبیوں کے حامل تھے" ۔

حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلویؒ نے مدرسہ امینیہ کے تعزیتی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :
"مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی وفات حسرت آیات ایک سانحہ عظمیٰ اور واہیہ کبریٰ ہے مولانا مرحوم وقت کے بڑے عالم ، پاکباز محدث ، مفسر اور خوش بیان مقرر تھے "۔

حضرت علامہ سید سلیمان صاحب ندویؒ نے فرمایا :
"شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ایسے نادرہ روزگار صاحب کمال صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کے علمی کارنامے دنیا میں حیاتِ جاوداں رہیں گے ۔ زبانِ خلق نے ان کو شیخ الاسلام کہہ کر پکارا جو اسلامی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا لقب رہا ہے ان کے علمی کمال کا اندازہ تفسیر عثمانی اور فتح الملھم سے لگایا جاسکتا ہے ۔ دیوبند کے حلقے میں مولانا شبیر احمد عثمانی کو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے علوم و معارف کا شارح اور ترجمان کہا جاتا ہے وہ ایک بڑے خطیب ، محدث ، مفسر ، متکلم اور بلند پایہ سیاستداں تھے ان کی وفات پورے عالم اسلام کے لئے عظیم سانحہ ہے "۔

حضرت مولانا عبد الماجد صاحب دریابادیؒ نے علامہ عثمانیؒ کی وفات پر اپنے اخبار "صدق " میں تحریر فرمایا :
"استاذ العلماء شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ شارح صحیح مسلم و مفسر قرآن کا غم آج سارے عالم اسلامی کا غم ہے حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بعد شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کی ذات اب اپنے رنگ میں فرد رہ گئی تھی ۔ اپنے وقت کے زبردست متکلم ، نہایت خوش تقریر واعظ ، محدث ، مفسر ، متکلم سب ہی کچھ تھے "۔ 

حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ نے دارالعلوم دیوبند کے تعزیتی جلسہ میں مفصل تقریر فرمائی اور شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کے علمی کمالات و فضائل بیان فرمائے ۔ مختصراً ملاحظہ فرمائیے : 
"جماعت علماء میں شیخ الاسلام علامہ عثمانی مرحوم نہ صرف ایک بہترین عالم و فاضل ہی تھے بلکہ ایک صاحب الرائے مفکر بھی تھے آپ کا فہم و فراست اور فقہ نفس بے نظیر تھا ۔ آپ اُس علمی ذوق کے امین تھے جو اکابر دارالعلوم سے بطور وراثت آپ کو ملا تھا ۔ حضرت قاسم العلوم والخیرات کے مخصوص علوم پر آپ کی گہری نظر تھی اور درسوں میں ان کے علوم کی بہترین تفہیم کے ساتھ تقریر فرماتے تھے علوم میں نظر نہایت گہری اور عمیق تھی علمی لائنوں میں آپ کا درس و تدریس اور مختلف مدارس عربیہ ، مدرسہ فتحپوری دہلی ، دارالعلوم دیوبند ، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے ہزار ہا طلباء کو یکے بعد دیگرے افادہ ایک امتیازی شان رکھتا تھا ، تصنیفی لائنوں میں آپ کی متعدد تصانیف اور قرآن حکیم کی تفسیر بصورتِ فوائد اور مسلم شریف کی عربی شرح یادگار زمانہ رہیں گی جو پوری دنیائے اسلام میں نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی ہے ۔ سیاسی لائن میں آپ نے تقسیمِ ملک سے پہلے اپنی مدبرانہ سیاسی قابلیت سے ریاستِ حیدرآباد کو ایسے وقت میں بعض مہلک مذہبی فتنوں سے بچانے کی سعی جمیل فرمائی جبکہ اس کے معاملات بہت زیادہ خطرے میں تھے ۔ آزادی ملک کی جدوجہد میں آپ نے کافی حصہ لیا اور آپ کی فصیح و بلیغ تقریروں سے لاکھوں باشندگان وطن آزادی وطن کی حقیقت سے آگاہ ہوئے ۔ تقسیم ملک کے بعد آپ نے پاکستان کو اپنا مستقل وطن بنالیا اور کراچی میں مقیم رہ کر پاکستان کی بہت سی دینی و علمی خدمات انجام دیں ۔ پاکستان کے اربابِ حکومت پر آپ کی علمی اور سیاسی خدمات کا خاص اثر تھا اور وہاں کی گورنمنٹ کے ہائی کمانڈ میں آپ کو عالمانہ اور حکیمانہ حیثیت سے خاص عظمت حاصل تھی ۔ آپ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور مذہبی قانون کمیٹی کے صدر تھے بلاشبہ وہاں کی حکومت نے آپ کے ساتھ حیات اور ممات کا معاملہ کیا جو ایک قدر شناس حکومت کو اپنے ایک مخلص خیر خواہ اور ملک کے ایک ممتاز عالم دین کے ساتھ کرنا چاھئیے ۔ علامہ اولاً دارالعلوم کے ایک مایہ ناز فرزند تھے پھر اس کے قابل مدرس بنے اور آخر کار ادارہ کے صدر مہتمم ہوئے ۔ اس لئے ان کے حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں کہ ہم ان کے لئے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کریں ان کی وفات نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کا ایک شدید حادثہ ہے میں خود اور تمام دارالعلوم دیوبند اس غم میں برابر شریک ہیں ۔ دارالعلوم کو تعطیل دی گئی اور ختم قرآن کرایا گیا ۔ کلمہ طیبہ کا وِرد کیا گیا اور ایک تعزیتی جلسہ بھی دارالعلوم میں کیا گیا جس میں تمام اساتذہ ، طلباء اور کارکنانِ دارالعلوم شریک ہوئے "۔( رسالہ دارالعلوم دیوبند بحوالہ انوارِ عثمانی ) 
#جماعت_شیخ_الھند

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم