فیضان مجدد : نیک گمانی اور بدگمانی میں اعتدال

*فیضان مجدد : نیک گمانی اور بدگمانی میں اعتدال ص ۶۷۴*
فرمایا کہ شیخ سعدی کے دو شعر اس معاملہ میں متضاد ہیں ایک گلستان میں ہے ‏
ہر کہ جامہ پارسا بینی !!
پارسا دان و نیک مرد انگار
دوسرا بوستان میں ہے 
نگہ دارد آن شوخ در کیسہ دُر
 کہ داند ہمہ خلق را کیسہ بُر 
گلستان کے شعر سے سب کے بارے میں نیک گمانی کی اور بوستان کے شعر سے بدگمانی کی تلقین معلوم ہوتی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اعتقاد کے اعتبار سے تو گلستان کے شعر پر عمل چاہیے کہ جس کا ظاہر اچھا دیکھے اس کے ساتھ نیک گمان رکھے مگر معاملات میں بوستان کے شعر پر عمل کرے کہ اپنے راز اور خاص چیزیں، ہر شخص کے سامنے نہ کھولے۔ اس میں احتیاط کرے۔
 ( مجالس حکیم الامت ص ۲۸۰،۲۷۹) 
بلاوجہ کسی کی طرف سے بدگمانی کے ناجائز ہونے سے تو یہ لازم نہیں آتا کہ دنیا بھر کو سچا ہی سمجھتا رہے بلکہ اگر کسی کی کوئی بات دل قبول نہ کرے اور اس کے قول کے سچا ہونے میں کسی وجہ سے شبہ پیدا ہو جائے تو وہاں پر گناہ سے بچنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس قائل کو یقینا جھوٹا نہ سمجھے۔ لیکن احتمال پیدا ہو جائے جس سے معاملہ احتیاط کا کرے۔ (انفاس عیسی حصہ دوم ص ۶۶۳)

*گناہ ہو جانے پر حد سے زیادہ مغموم ہونا از حد مضر ہے*
 ہر مسلمان کو گناہ نا گوار اور مکروہ معلوم ہوتا ہے اور اس اثر کا مقصود یہ ہے کہ اس گناہ کو چھوڑ دیں لیکن بعض مرتبہ جب اس میں افراط ہوتا ہے اور زیادہ گرانی ہوتی ہے تو شیطان یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ اے شخص تو تو مردود ہو گیا اور اب تیری کوئی اطاعت قبول نہیں یہ سمجھنا خود خلاف شریعت اور بہت برا خیال ہے۔
 (الجناح ص ۱۶۰ تا ۱۶۲) 
ایسے وقت تو خوب توبہ کر کے اعمال صالحہ میں مصروف رہے۔

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم