فضلاء ضائع کیوں ہو جاتے ہیں؟

فضلاء ضائع کیوں ہو جاتے ہیں؟

 استاذ الاساتذہ حضرتِ اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: اس میں قصور کچھ اربابِ مدارس (مہتممین) کا ہے۔۔۔۔۔ مدارس والے مدرسین کو اتنا دیتے ہی نہیں کہ وہ زندگی بھر دلجمعی کے ساتھ کام کرسکیں ، گارا بنانے والے مزدور کو بھی یومیہ سوا سوروپے ملتے ہیں یعنی ماہانہ اس کی چار ہزار کی آمدنی ہوتی ہے اور مدرس کو دو ڈھائی ہزار روپے ملتے ہیں۔ جس نے پندرہ سال محنت کی ہے اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت خرچ کیا ہے وہ گارا بنانے والے مزدور کے ہم تول بھی نہیں تو کیا مزدور کے خرچ کے بقدر بھی مولوی کے گھر کا خرچ نہیں ہوگا؟ مگر اہل مدارس سمجھتے نہیں ، بلکہ وہ یہ عذرِ لنگ پیش کرتے ہیں کہ مدرسہ میں گنجائش نہیں ، سوال یہ ہے کہ پھر بلڈنگیں کہاں سے بن رہی ہیں؟ اور مہتم بکارِ مدرسہ کیسے گھوم رہا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ آدمی چاہے ہی نہ تو باتیں ہزار ہیں۔ غرض جب تک کارکنان کو بقدرِ ضرورت روزگار مہیا نہیں کیا جائے گا وہ زندگی بھر کام سے کیسے چھٹے رہیں گے؟ اور آدمی تو بنتا ہی ہے پوری زندگی کھپانے سے ، اس میں سال پڑھانے سے کوئی شیخ الحدیث نہیں بنتا۔
(تحفہ الالمعی ج5 ص116)

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم