علماء کی اصل کمائی: تنخواہ یا ذمہ داری کا احساس

علماء کی اصل کمائی: تنخواہ یا ذمہ داری کا احساس
✒️تحریر: *نجم الثریا* 🌟

ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں اسلام محض رسموں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، روحانیت معدوم، شعائرِ دین کمزور، مساجد سنسان، مدارس خالی، اور نوجوان نسل مغرب زدگی و مادہ پرستی کے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ ہر طرف بے دینی کا طوفان، فحاشی کا سیلاب، ارتداد کا زہر، اور ایمان کا زوال نظر آرہا ہے۔ یہ سب محض اتفاقات نہیں بلکہ ایک بڑی دینی غفلت اور اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ اور اس غفلت میں جس طبقے کی کوتاہی سب سے زیادہ دردناک ہے، وہ ہے علمائے کرام، ائمہ مساجد، اور دینی اساتذہ کا طبقہ۔
*وہ طبقہ جو کبھی امت کے سروں کا تاج ہوا کرتا تھا، جو دلوں کا طبیب، مسجد کا چراغ، قوم کی امید، اور اللہ کے دین کا سپاہی ہوتا تھا، آج بہت بڑی تعداد میں محض ایک تنخواہ دار ملازم بن کر رہ گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "العلماء ورثة الأنبياء، وإن الأنبياء لم یورثوا دینارًا ولا درہمًا، إنما ورثوا العلم، فمن أخذه أخذ بحظ وافر" (سنن ابی داؤد، حدیث 3641)*
علماء انبیاء کے وارث ہیں، ان کا مقام محض درس و تدریس نہیں، بلکہ وہ دین کے علم، دعوت، کردار، تربیت، صبر، قربانی اور اخلاص کے وارث ہیں۔ لیکن جب یہی ورثاء اپنے منصب کو تجارت بنا لیں، اپنے فرائض کو اجرت کے ترازوں میں تولیں، اور دین کی دعوت کو "نوکری" سمجھ لیں، تو پھر دین کی جڑیں کھوکھلی ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
*آج ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی علما، ائمہ، اور دینی اساتذہ ایسے ہیں جو معمولی معمولی بات پر دینی فرائض سے غائب ہو جاتے ہیں۔ تھوڑا سا موسم سخت ہو گیا، طبیعت بوجھل ہوئی، کسی دنیاوی مجلس میں شرکت کا موقع آیا، یا کہیں کسی نے وقت پر کھانا نہ دیا، تو پوری ڈیوٹی سے چھٹی لے لی جاتی ہے۔ مدارس دیر سے آنا، نمازوں میں سستی، جمعہ کا بیان رسمی، محلے کی برائیوں پر خاموشی، طلبہ کی تربیت سے لاپروائی، اور جب توجہ دلائی جائے تو جواب ہوتا ہے: "یہ میرے ذمہ میں نہیں، مجھے اس کا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔"*
*کیا یہی رویہ انبیاء کے وارث کا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے امت کو روشنی ملنی چاہیے تھی؟ قرآن کہتا ہے: "يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ" (سورۃ ھود، آیت 29) (اے میری قوم! میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے۔)*
حضرت نوح، ہود، صالح، شعیب علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو یہی پیغام دیا کہ ہم تمہیں اللہ کے دین کی دعوت کسی دنیاوی فائدے کے لیے نہیں دے رہے۔ اب اگر آج ان کے وارث ہر ہر قدم پر تنخواہ کا تقاضا کریں، اور جس کام میں پیسے نہ ہوں وہ نہ کریں، تو انبیاء کی وراثت کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اسلاف کا حال اس کے بالکل برعکس تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، جو خود بہت بڑے تاجر تھے، نے کبھی دین کی تعلیم کو اجرت سے مشروط نہیں کیا۔ وہ اپنے طلبہ کے اخراجات خود اٹھاتے، ان پر مال خرچ کرتے، اور راتوں کو جاگ کر ان کی اصلاح کی فکر کرتے۔ امام مالکؒ نے خلیفہ وقت کی تنخواہ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ دین کا علم اللہ کے لیے ہے، دنیا کے سودے کے لیے نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی جان، عزت، سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا لیکن حق کے ایک حرف سے پیچھے نہ ہٹے۔
*علامہ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں: "جب علم دنیا کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو علم نور کے بجائے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔"*
آج کے بعض علماء کے رویے بالکل اسی المیے کو ظاہر کرتے ہیں۔ وقت کی پابندی کا حال یہ ہے کہ درس گاہ میں تاخیر، بغیر اطلاع کے غیر حاضری، دینی تقاضوں میں غفلت، اور اخلاص کی کمی ایک عمومی رویہ بن چکا ہے۔ دین کی دعوت اور طلبہ کی تربیت کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ گویا مقصد صرف تنخواہ لینا، اور کام صرف اتنا کرنا ہے جتنا مقرر کیا گیا ہو۔ یہ وہی مزدورانہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے آج علماء کا وقار مجروح ہو رہا ہے اور دین کی برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته" (صحیح بخاری، صحیح مسلم) (تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔)
*علمائے کرام امت کے دینی رہنما، مربی، اور نگہبان ہیں۔ ان کے ایک بول سے نسلوں کا مقدر بدل سکتا ہے، لیکن جب وہی غفلت کے شکار ہوں، تو پھر معاشرہ گمراہی کی طرف نہ بڑھے تو کیا ہو؟ امت کی امانت کو جب محض نوکری بنا دیا جائے تو پھر فتنوں کی یلغار قدرتی ہے۔*
*اس پر بھی غور ضروری ہے کہ علمائے کرام کو جو تنخواہ دی جاتی ہے، وہ عوام کی محنت کی کمائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ رقم ہوتی ہے جو مزدور پسینہ بہا کر کماتا ہے، ریڑھی والا پیٹ کاٹ کر دیتا ہے، غریب لوگ اپنے بچوں کی ضروریات چھوڑ کر مسجد و مدرسہ کے لیے دیتے ہیں۔ یہ پیسہ کوئی سرمایہ دار، جاگیردار، یا حکومت نہیں دیتی، بلکہ وہ محنت کش طبقہ دیتا ہے جو دین سے محبت کرتا ہے، جو امید رکھتا ہے کہ علماء ان کی دینی رہنمائی کریں گے، ان کے بچوں کو سنواریں گے، اور ان کے ایمان کی حفاظت کریں گے۔ اب اگر اس رقم کا بدلہ محض رسمی عمل اور تنخواہ تک محدود خدمات کی صورت میں ملے، تو اللہ کے ہاں اس کی سخت بازپرس ہوگی۔*
قرآن اعلان کرتا ہے: "وَقِفُوهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ" (سورۃ الصافات، آیت 24 (ان کو روک لو، ان سے پوچھا جائے گا۔)
پوچھا جائے گا کہ تم نے دین کے نام پر کیا کمایا؟ کتنے لوگوں کی اصلاح کی؟ کتنی نمازیں وقت پر پڑھائیں؟ کتنے طلبہ کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا کیا؟ کتنے نوجوانوں کو فتنوں سے بچایا؟ اور اگر کچھ نہ کر سکے، تو وہ مزدور کی محنت کی کمائی کا حساب کیا دو گے؟
*اس سب کے ساتھ یہ پہلو بھی توجہ کا طالب ہے کہ دین کی ذمہ داری کو محض کمائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے اگر علمائے کرام اپنی روزی کے لیے تجارت یا کسی اور حلال پیشے کا انتخاب کریں، اور دین کی خدمت کو صرف اللہ کی رضا کے لیے انجام دیں، تو یہ طریقہ ان کے لیے دین و دنیا دونوں میں عزت و سربلندی کا ذریعہ بنے گا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "التاجر الصدوق الأمین مع النبيين والصديقين والشهداء" (جامع ترمذی، حدیث 1209) (سچا اور دیانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔)*
اگر علماء اپنی معاش کا ذریعہ تجارت، زراعت، تدریس یا دیگر حلال شعبے بنائیں، اور دینی خدمات بغیر تنخواہ یا محض معمولی وظیفے پر انجام دیں، تو اس میں ان کے اخلاص، توقیر، اور دینی وقار کا تحفظ ہوگا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے تجارت کی، لیکن علم دین کی خدمت بلا معاوضہ انجام دی۔ حضرت حسن بصریؒ نے کاتبی (Clerical) ملازمت کی، اور دین کی دعوت کا فریضہ عبادت سمجھ کر نبھایا۔
یہی قانون قدرت ہے کہ محنت، دیانت اور لگن کے ساتھ جو دنیاوی میدان میں بھی قدم رکھے گا، اللہ اسے دنیا میں بھی ترقی دے گا اور آخرت میں بھی بلند مقام عطا فرمائے گا۔ دین دار، امانت دار عالم اگر تجارت کرے گا تو وہ عام تاجروں سے آگے نکل جائے گا، اگر وہ کسی سروس یا ملازمت کے میدان میں قدم رکھے گا تو اس کی دیانتداری اور حسنِ کردار اسے دوسروں سے ممتاز کر دے گی۔
قرآن مجید کا صاف اعلان ہے: "وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ، وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ" (سورۃ النجم، آیات 39-40)
"اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی، اور بے شک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔"
*یہی وہ ربانی اصول ہے جس پر دنیا و آخرت کی کامیابیاں قائم ہیں۔ اگر علماء دین محنت و اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت اور دنیا کی تدبیر کو ساتھ لے کر چلیں تو وہ دنیا والوں سے آگے نکل سکتے ہیں، اور ان کے کردار و علم کی روشنی سے معاشرہ بھی منور ہو سکتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے: خلوص، مسلسل جدوجہد، اور اللہ پر یقین۔*
*اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء دین محض مدارس، مکاتب اور مساجد کی محدود تنخواہ پر انحصار کرنے کے بجائے، اگر ضرورت ہو تو کسی مناسب ذریعہ معاش کو اپنائیں، اور دین کی خدمت کو اپنے لیے خالص عبادت بنائیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف دین محفوظ رہے گا، بلکہ علما کا وقار بھی بحال ہوگا، اور وہ امت کی نظروں میں بطور قائد و مربی سرخرو ہوں گے۔*
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے صحیح فہم، اخلاص عمل، اور دین و دنیا دونوں میں کامیابی عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم