جب اساتذہ روتے ہیں تو مدرسے ویران ہوتے ہیں

جب اساتذہ روتے ہیں تو مدرسے ویران ہوتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عتیق الرحمن الریاضی، استاذ کلیہ سمیہ بلکڈیہوا نیپال
  
(یہ تحریر صرف مضمون نہیں، ایک دل کو جھنجھوڑ دینے والی صدا ہے، جو ہر زندہ ضمیر کو جگائے گی، ان شاءاللہ۔)

مدرسے تو بہت ہیں… مگر بے نور کیوں؟
یہ درد صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو علم کو فقط کتابوں میں نہیں، دلوں میں اُترتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے ۔
آج مدرسے بہت ہی خوبصورت اور عالی شان ہیں، کتابیں سجی ہیں، اساتذہ بھی موجود ہیں، طلبہ بھی نظر آتے ہیں…
مگر ۔۔۔۔۔ نور کہاں ہے؟کہاں گئی وہ روحانیت؟
مدرسے کی عمارتیں بڑی ہو گئیں… پر دل چھوٹے ہو گئے!
پہلے چند کمرے ہوتے تھے، چند چٹائیاں اور ایک خاموش فضا…
وہاں سے امت کے سپاہی نکلتے تھے۔۔۔۔
آج آرام دہ آفسیں ہیں، بڑے ہال، بڑے ادارے، مگر…دلوں میں خشوع نہیں، آنکھوں میں نور نہیں، زبانوں میں سچائی نہیں۔
طلبِ دنیا علم سے زیادہ ہو گئی ہے… علم عمل سے جدا ہو گیا ہے…

محترم قارئین! مدرسہ صرف عمارت کا نام نہیں… مدرسہ ایک روح ہے۔۔۔۔ اگر روح نکل جائے تو دیواریں باقی رہتی ہیں، مگر چراغ بجھ جاتے ہیں۔۔۔‌۔
آج عموما ہمارے مدرسے بے نور ہیں… کیونکہ ہم نے ان کے چراغ — یعنی اساتذہ، ادب، اور اخلاص — کو بجھا دیا ہے۔۔۔۔۔
آج کے اس بےحس دور میں، اساتذہ کی ناقدری و بے توقیری اور ظلم و زیادتی نے وہ زخم دیے ہیں جو نہ صرف دل کو چیرتے ہیں بلکہ قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں۔

استاذ وہ ہستی جو اندھیروں میں چراغ بنتا ہے، جو کچے ذہنوں کو علم، اخلاق، اور کردار کی خوشبو سے مہکاتا ہے، جو مدرسہ کو علم کا گلشن بناتا ہے۔۔۔۔
مگر افسوس! آج یہی استاذ تنہائی، غربت، اور ناقدری کی چادر اوڑھے،کسی سنسان کمرے میں بیٹھا سسک رہا ہوتا ہے…
کبھی کسی استاذ کی آنکھوں میں جھانکو۔۔۔
کبھی اس کی خاموشی کو سمجھو۔۔۔۔
لیکن نہیں۔۔۔۔۔ ہم نے تو استاذ کو "نوکر" سمجھا، "خادم" جانا،
جبکہ وہ تو "رہبر" تھا، "محسن" تھا، "معمارِ قوم" تھا۔
استاذ کی آنکھ میں اگر آنسو ہو… تو سمجھ لو کہ علم رو رہا ہے، شعور سسک رہا ہے، اور قوم بربادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ہم نے قلم اٹھانے والے ہاتھ کو کبھی عزت نہ دی، آج وہ ہاتھ خالی ہیں۔۔۔۔۔۔
کتنے استاذ ہیں جو چپکے سے گھر جاتے ہیں، بچوں کے سامنے تو ہنس لیتے ہیں مگر تنہائی میں جا کر وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی نے سوچا ؟
جو شخص لوگوں کو بولنا سکھاتا ہے،جب اسی پر بےحرمتی کے جملے کسے جاتے ہیں تو وہ کیا محسوس کرتا ہے؟
وہ جو لوگوں کو عزت و احترام کے قابل بناتا ہے،آج اپنی عزت کے چند سکے مانگتا ہے۔۔۔۔۔
وہ جو بچوں کے ذہنوں کو روشن کرتا ہے،آج اپنے دل کی اندھیری راتوں سے ڈرتا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ جو کردار سازی کے لیے خود کو جلاتا ہے۔۔۔۔
آج تنخواہ کی تاخیر، بداحترامی، اور معاشرتی بے حسی کا شکار ہے۔
 ناقدری کی وہ آگ جو کرداروں کو جلا دیتی ہے۔۔۔۔
کبھی استاذ کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھو
وہاں ایک سمندر ہے… جو برسوں سے بہنے کو ترس رہا ہے۔۔۔۔
کبھی اس کے الفاظ میں چھپی تھکن کو محسوس کرو
وہ تھکن صرف جسم کی نہیں… عزت کی بھوک کی بھی ہے۔
 اگر یہ ظلم نہ رکا…؟
اگر آج بھی ہم نے استاذ کی عظمت کو نہ پہچانا،تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے بچے سب کچھ جانتے ہوں گے،مگر کردار، حیا، علم اور ہدایت سے محروم ہوں گے…
تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے عمارتیں تو بنائیں، مگر معمار کو بھوکا مار دیا۔۔۔۔۔۔
قومیں اسکولوں، مدرسوں، اور مکتبوں سے بنتی ہیں،
اور ان اداروں کی بنیاد صرف دیواروں پر نہیں، بلکہ اساتذہ کے اخلاص، صبر، اور قربانیوں پر ہوتی ہے۔
اگر ہم نے استاذ کی قدر کھو دی،تو سمجھو ہم نے اپنا کل برباد کر دیا۔۔۔۔۔
ہم نے اس استاذ کو صرف "مولوی" کہا،کبھی اس کے درد کو نہ جانا،نہ اس کے خالی ہاتھ دیکھے،نہ اس کے دل کا بوجھ سنا…!
ہمیں سوچنا ہوگا، ہمیں بدلنا ہوگا۔
قوم کے ان معماروں کو عزت، محبت اور سہارا دینا ہوگا،تاکہ وہ آئندہ نسل کو سنوار سکیں۔
وہ جنہوں نے سینکڑوں بچوں کے خواب سنوارے،آج وہ خود اپنے بچوں کے لیے دعاؤں کے سہارے جیتے ہیں۔
کیا وہ ہماری محبت، عزت اور عنایت  کے مستحق نہیں؟
کبھی ہم نے غور کیا…؟
ہماری نسلیں جن کندھوں پر سوار ہو کر آسمانوں کو چھوتی ہیں،آج وہی کندھے جھک چکے ہیں…
کیوں؟ کیونکہ ہم نے انہیں وقت پر عزت نہ دی…
آج استاذ اپنی عزت کا سوال کرتا ہے اور جواب میں اسے طنز، تاخیر، اور "صبر کرو" جیسا زہر ملتا ہے۔
 یہ وہ وقت ہے… جب استاذ مر رہا ہے، اور قوم کا مستقبل بغیر کفن کے دفن ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
ہم نے استاذ کو مارا نہیں ۔۔۔۔۔ہم نے صرف اس کی محنت کی قدر نہ کی، اس کی عزت کا تحفظ نہ کیا،اور اس کی زندگی کو بے معنی کر دیا۔۔۔۔
آج کا استاذ صرف تنخواہ سے نہیں مر رہا… وہ اس بےتوقیری، اس نظراندازی،اور اس احساسِ ندامت سے مر رہا ہے کہ اس کی قوم اسے بھول چکی ہے۔۔۔۔۔
 اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی…؟
تو وہ دن دور نہیں جب:‌علم ہوگا، مگر علم والے نہیں ہوں گے، مدرسے ہوں گے، مگر روشنی نہیں ہوگی ، بچے ہوں گے، مگر کردار سے عاری۔۔۔۔۔، قوم ہوگی مگر شعور سے خالی

اے قوم کے باشعور لوگو!
اگر تمہیں روشنی عزیز ہے تو… چراغ جلانے والوں کی حرمت سیکھو۔۔۔۔
اگر تمہیں علم سے محبت ہے تو…علم بانٹنے والوں کے قدموں میں جھکنا سیکھو۔
استاذ کو مت بھولو…
کیونکہ وہی چراغ ہے، جو خود کو جلا کر تمہارے اندھیروں کو روشنی دیتا ہے۔
آئیے! آج ایک عہد کریں…
ہم اساتذہ کے لیے صرف الفاظ سے نہیں، عمل سے عزت کریں گے اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔

اے اللہ!  اساتذہ کے دلوں کو تسکین دے، ان کے رزق میں کشادگی عطا فرما۔
اے رب العزت! ہمیں اس قابل بنا دے کہ ہم اپنے اساتذہ کی قدر کر سکیں، ان سے محبت کریں، ان کی خدمت کریں، اور ان کے احسانات کو یاد رکھتے ہوئے ان کے حق میں ہمیشہ دعاگو رہیں۔
یا اللہ! جن اساتذہ نے ہمیں دین سکھایا، کردار سنوارا، اور صبر سے ہماری تربیت کی… تو ان کے نامۂ اعمال کو نور سے بھر دے، ان کی قبروں کو جنت کے باغات میں تبدیل فرما دے، اور ان پر اپنی رحمت کے ایسے دروازے کھول دے کہ کبھی بند نہ ہوں۔

رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر تک سوناایک تباہ کن روایت، ایک بڑا نقصان

رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر تک سونا
ایک تباہ کن روایت، ایک بڑا نقصان 
 تحریر: عثمان بشیر | آئیڈیل لائف کاؤنسلنگ
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہماری زندگیاں بے ترتیب، بے سکون اور بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟
ہم میں سے اکثر لوگ ایک ایسی عادت کو معمولی سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں جو بظاہر کچھ نہیں… لیکن اندر ہی اندر ہمیں جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر کھوکھلا کر رہی ہے۔
اور وہ ہے رات دیر تک جاگنا اور دن چڑھے تک سونا۔
یہ فقط ایک معمول نہیں — یہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو انسان کو اللہ کے بنائے ہوئے نظامِ فطرت سے کاٹ دیتا ہے۔ اور جب کوئی انسان فطرت سے ٹکرائے، تو اس کے نصیب میں خسارے کے سودے ہی لکھے جاتے ہیں۔

☀️ صبح کی برکت کیوں جاتی رہی؟
ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے:
"دن چڑھے تک سونا نحوست لاتا ہے۔"
اور ہم کہتے ہیں:
"نیند تو نیند ہے… رات کو ہو یا دن کو!"
لیکن فرق ہے… بہت فرق ہے۔
رات کا وقت اللہ کی طرف سے ایک مخصوص روحانی اور جسمانی شفا کا وقت ہے۔ اس وقت میں سونا صرف آرام نہیں — یہ آپ کے لاشعور، جسم اور روح کو اللہ کی طرف سے ملی ہوئی قدرتی تھراپی ہے۔

جن گھروں میں صبح نہیں ہوتی… وہاں برکت نہیں ہوتی
میں نے ان گھروں کو بکھرتے دیکھا ہے جہاں دن ایک بجے ناشتہ ہوتا ہے، رات تین بجے نیند آتی ہے، اور فخر یہ کہ ہم “آزاد” ہیں۔
مگر ان گھروں میں:
ذہنی بیماریاں عام ہیں
دل بوجھل ہیں
بے چینی ہر کمرے میں گھومتی ہے
دعائیں سُنی نہیں جاتیں… کیونکہ سجدے ہی نہیں ہوتے

📉 رات جاگنے کے سائیڈ ایفیکٹس:
📍 جلدی بوڑھا ہونا
📍 یادداشت کمزور ہونا
📍 امیون سسٹم کا تباہ ہونا
📍 مشکلات میں ہمت ختم ہونا
📍 غلط فیصلے کرنا اور ہر بات پر غصہ آنا
📍 ڈیپریشن، اینگزائٹی اور خودکشی کی طرف جھکاؤ بڑھ جانا
یہ سب محض اتفاق نہیں۔ یہ نیند کی بے توقیری کا انجام ہے۔

 کیا آپ جانتے ہیں؟
رات کے پہلے پہر یعنی 1 سے 3 بجے کے درمیان خودکشی کا رسک سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
دماغی بیماریوں کا آغاز اسی وقت میں ہوتا ہے جب انسان کا سونا ختم اور جاگنا شروع ہوتا ہے۔
لاشعور کی مرمت کرنے والا نظام صرف رات میں، اور صرف اندھیرے میں، قدرتی انداز میں فعال ہوتا ہے — اور ہم اسے موبائل کی اسکرین سے جلا دیتے ہیں۔

📿 روحانی نقطۂ نظر:
اللہ نے رات کو سکون، سجدے، اور شفایابی کے لیے بنایا۔
قرآن کہتا ہے:
"اور ہم نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا…"
(سورۃ النبأ، آیت 10)
یعنی رات انسان کی روح اور بدن کے لیے ایک ڈھال ہے۔ جب آپ اس ڈھال کو چھوڑ دیتے ہیں، تو آپ دشمن کے وار کے لیے خود کو ننگا کر دیتے ہیں۔

🔁 اب سوال یہ ہے:
صبح اٹھ کر کرنا کیا ہے؟
اس سے بڑا سوال یہ ہے:
دن چڑھے تک سو کر آخر کرنا کیا ہے؟
پرانے وقتوں کے لوگ بغیر موبائل، بغیر شاپنگ، بغیر نیٹ فلکس کے بھی صبح فجر سے پہلے جاگتے تھے… کیونکہ ان کے دل اللہ سے جڑے ہوتے تھے۔ ہمیں سونا نہیں… واپس آنا ہے۔

✅ آئیڈیل لائف حل: رات کی نیند واپس لائیں
🌙 سونے سے پہلے موبائل بند کریں
🛏️ رات 10 سے پہلے بستر پر چلے جائیں
💧 وضو کر کے سونا شروع کریں
📿 سونے سے پہلے تسبیحات یا دعا پڑھیں
☀️ صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے بیدار ہوں
یہی وہ “ٹرکس” تھے جو "راہِ نور" کے طلال کو بھی سکون کی نیند دے گئے تھے۔

💬 آخر میں… صرف اتنا:
نیند صرف نیند نہیں — یہ آپ کی روح کا علاج ہے۔
جب آپ وقت پر سو جاتے ہیں، تو:
آپ کا زخم بھر جاتا ہے
آپ کی ہمت بڑھ جاتی ہے
آپ کا دل نرم ہو جاتا ہے
اور آپ کا اللہ سے رشتہ بحال ہونے لگتا ہے
لیکن جب آپ وقت پر سونا چھوڑ دیتے ہیں…
تو آپ خسارے کا سودا کر لیتے ہیں۔

تم قبر میں ہزاروں سال تک کیا کرو گے

تم قبر میں ہزاروں سال تک کیا کرو گے

*📝ڈاکٹر مصطفی محمود* لکھتے ہیں:

میں تمہیں ایک *طریقہ* بتاتا ہوں جو میرے ساتھ بہت کارآمد ثابت ہوا اور *جس سے میں اپنے اللہ سے تعلق پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے لگا ہوں۔*

🥀قبر خوفناک ہے، ظاہر ہے کہ نیک لوگوں کے علاوہ۔ 
میں نے اس کے بارے میں سوچا، اور اب میری عمر 54 سال ہے، اور میں دنیا سے اور اس کی چیزوں سے تنگ آ چکا ہوں۔ *اچھا، تو جب میں قبر میں جا کر اکیلا رہوں گا، سینکڑوں ہزاروں سال تک، تو میں کیا کروں گا؟*
*کیا تم نے کبھی اس کا تصور کیا ہے؟*

🗒️اس لیے میں نے مندرجہ ذیل طریقے پر عمل کرنا شروع کیا:

دیکھو میں مر جاؤں گا، اور میرے پاس ایک خالی، بالکل تاریک قبر ہوگی۔ 

*اس قبر کو سامان کی ضرورت ہوگی، لہٰذا میں ہر استغفار کو تصور کرنے لگا جیسے میں اسے اپنے قبر کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ وہاں میرا انتظار کرے اور میرے تنہائی کا ساتھی بنے۔*
اللہ کی قسم، میں مذاق نہیں کر رہا۔ 

*میں نے اپنی قبر کو مکمل ڈیکوریٹ کر دینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔*

*قبر کے ایک کونے کو میں ہزاروں تسبیحات سے بھر* رہا ہوں۔ 

*یہاں میرے سر کے قریب قرآن ہو گا جسے میں روز پڑھتا تھا آرام دہ بستر کا سبب بنیے گا۔*

*ہر رکوع کو میں یہ تصور کر کے ادا کرتا ہوں کہ میں اسے قبر میں اپنا ذخیرہ* بنا رہا ہوں۔ 

ہر کوئی مجھے چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلا جائے گا، شاید ہزاروں سالوں تک قبر میں میں اکیلا رہونگا ۔ میرے بچے چند سالوں میں مجھے بھول چکے ہوں گے۔

*لہذا، مجھے قبر میں ساتھیوں، روشنیوں، اور جنت کے جیسے مناظر کی ضرورت ہوگی۔*

*میں تسبیحات، ذکر، قرآن، نماز اور صدقہ سب کو اپنے ساتھ تصور کرتا ہوں کہ وہ میرے دوست ہوں گے، میرے ساتھ وہاں ہنس رہے ہوں گے اور باتیں کر رہے ہوں گے۔* 

*نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنا میں نے اپنے معمولات کا ایک اہم عمل بنا لیا ہے، یہ وہاں ہماری محفلوں میں بھی شامل ہوگا ٹھنڈے پانی کی طرح، خوبصورت لباس کی طرح۔*

میں یہ چاہتا ہوں کہ میری قبر کی زندگی اس دنیا کی زندگی سے بھی زیادہ خوبصورت زندگی ہو۔ ان شاء اللہ۔

*کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں وہاں جا کر غیبت، چغلی، حسد اور دیگر دنیاوی گناہوں کے نتیجے میں بدبو دار کپڑوں، دیمک لگے فرنیچر اور سخت پتھریلے بستر کے بجائے اپنی قبر کو بہترین چیزوں سے آراستہ کروں۔*

میں نے دنیا میں اپنا گھر بنانے کے لیے ساری زندگی جان توڑ محنت کی لیکن یہ گھر تو میرے ورثاء کا ہوجائے گا، *اصل میں تو میری ساری محنت اپنے لیے ہے ہی نہیں، سارے فائدے تو اور لوگ اٹھائیں گے۔ تو میں نے سوچا کہ بس بہت ہوگیا ہے، مجھے اپنا گھر بنانا ہے جہاں صرف میں ہی ہوں گا اور ایک طویل عرصہ گزارنا ہے*۔

*اگر میرے تمام اعمال دنیا کی ضروریات کے لیے تھے اور اپنی قبر کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، تو پھر تو میرے قبر والے گھر کے لیے سوائے عذاب کے فرنیچر، مستقل اندھیرے، اور سخت حساب کے کچھ بھی نہ ہوگا۔ اور میں ایسے گھر میں اکیلا کیسے رہوں گا!*

میری آپ کو بھی نصیحت یہ ہے کہ آج سے:
*اپنی قبر کو اپنا بینک اکاؤنٹ بناؤ۔ اس میں زیادہ سے زیادہ ڈپازٹ کرو اور لانگ ٹرم والی پالیسی لو۔*

اپنی *عبادات کا خوب خیال* رکھو۔ اللہ کی قسم، جب تم قبر میں ہوگے، تو تم مجھے وہاں سے بھی شکریہ ادا کرو گے۔
*اپنی قبر کے گھر کا اس دنیا کے گھر سے زیادہ خیال رکھو۔* 

ابھی تم اپنے گھر والوں کے درمیان ہو، پہن رہے ہو، کھا پی رہے ہو، آرام سے گھر والوں کے درمیان سو رہے ہو، اور تمہیں تمہاری تمام ضروریات میسر ہیں، *پھر بھی تم اپنے حالت سے نالاں رہتے ہو، ہر وقت کوئی نہ کوئی شکایت کرتے رہتے ہو۔*

*تو سوچو جب تم زمین کے نیچے ہوگے اور سینکڑوں ہزاروں سالوں کے لیے ہوگے تو وہاں تمہارے ساتھ کون ہوگا؟*

تمہارے پسندیدہ سیاستدان، کھلاڑی، اداکار، تاجر۔۔۔۔۔ یہ تو تمہیں یہاں بھی نہیں جانتے اور نہ ہی انہیں تمہاری اتنی فکر ہے، *تم ہی ان سب کے پیچھے بیوقوفوں کی طرح اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔*

*تمہارے وہ بچے جن کی شادیوں پر تم لاکھوں روپے فضولیات پر خرچ کردیتے ہو، یقین کرو یہ خرچ تمہارے لیے وبال بن چکا ہوگا، اور بچے مکر جائیں گے کہ ہمارے باپ نے اور ہماری ماں نے خود ہمارے لیے بھی اور اپنے لیے بھی مصیبت کھڑی کی۔*

لہٰذا، اپنا خیال خود رکھو۔ 

اپنی ہر تسبیح اور ہر عمل کا خیال رکھو اور اس سے کہو کہ *وہ مجھ سے پہلے قبر میں جا کر میرا انتظار کرے۔ میری قبر کو خوشبوؤں سے مہکائے، شاندار باغیچہ بنائے، ہوادار کمرے ہوں، مہنگا ترین فرنیچر ہو، اور میرے ہمدرد دوست ہوں۔*

*ہم وہاں ملیں گے، اور میرا وہ گھر، میرا بہترین ساتھی اور بہترین رہنے کی جگہ ہوگی۔*

 *اللھم، ہمیں حسن خاتمہ عطا فرمائیے* 
 *اللھم، ہماری آخرت کو بہتر بنا دیجیے اور ہمیں قبر کے عذاب سے بچالیجیے* 
*اللھم، ہمیں اپنا ذکر، شکر، اور حسن عبادت کی توفیق عطا فرمائیے، ہم پر اپنی رضا اور جنت الفردوس میں نعمتیں نازل کریں، جہاں ہم نبی محمد ﷺ کی صحبت میں ہوں، جن پر بے شمار درود و سلام ہو۔*

تو پھر اپنا گھر بنانا شروع کردیجیے

*وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری*

*شیخ طریقت عارف بالله حضرت مولانا شاه محمد قمر الزمان صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم* 

*قسط۶*
*وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری*

حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کی دعا دیکھئے ! حضرت سیدنا موسی علیہ السلام فرعون کی طرف جارہے ہیں ، بھیجنے والے اللہ تعالی ہیں ، اللہ ہی کے حکم سے جارہے ہیں ، اور پھر اللہ کی طرف سے معجزات بھی ساتھ لے جارہے ہیں ، آپ کے ہاتھ میں عصا ہے جو اژدہا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور دوسرا معجزہ ید بیضا ہے یعنی ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالئے تو نہایت روشن سفید چمکتا ہوا نکلتا تھا ۔ ہر چیز سے مرصع ہیں لیکن حضرت موسی علیہ السلام کو اس پر ذرا بھی ناز نہیں ہوا غرور نہیں آیا کہ ہم کو اللہ نے معجزات سے نوازا ہے ہم کو کسی چیز کی کیا ضرورت ہے بلکہ جب فرعون کے یہاں جانے لگے تو کہا کہ اے اللہ ! یہ سب معجزات اپنی جگہ پر ہیں لیکن میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ میرے سینے کو کھول دیجئے : رب اشرح لی صدری ويسر لي أمري [ سورة طه : ۲۵ ] اے میرے رب ! میرے سینہ کو کھول دیجئے اور میرے ہر معاملہ کو آسان فرمائیے ۔ 
یہ عصا اسی وقت کام آسکتی ہے جب کہ آپ چاہیں گے ورنہ تو ہم عصا کو پٹکتے رہ جائیں گے اور وہ اژدہ نہیں بنے گی ، وہ بھی اللہ کی تائید ہی سے اژدہا بنتی ہے ، آپ فرعون جیسے جابر و ظالم کے پاس مجھے بھیچ رہے ہیں ، معجزات سے آپ نے نوازا ہے ، عجیب و غریب معجزات سے مشرف فرمایا ہے ۔ تاہم میرے سینے کو میرے لئے علم اور حلم سے کھول دیجئے علم بھی دیجئے اورحلم بھی دیجئے علم اسلئے کہ اس کی روشنی میں اس کو دین و ایمان کی دعوت دوں اور حلم اسلئے کہ اگر وہ فرعون سخت کلامی کرے ، سخت معاملہ کرے تو میں اس کو برداشت کرسکوں ، پس دونوں ہی کی ضرورت ہے ۔

*شرح صدر کا مطلب*
 اس وجہ سے شرح صدر کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ نے بیان القرآن میں لکھا ہے کہ علم بھی وسیع عطا فرمایا اور تبلیغ دین میں مخالفین کی مزاحمت سے ایذا پیش آتا ہے، اس میں تحمل اور حلم بھی دیا تا کہ اپنے کلام میں مزے کے ساتھ مخالفین کونصیحت کرسکیں ۔ علم کے ساتھ حلم کا ہونا ضروری ہے بہت سے لوگ تند مزاج ہوتے ہیں ، ان کے پاس علم تو ہوتا ہے لیکن حلم سے عاری ہوتے ہیں اسلئے اگر وہ کسی کے سامنے صحیح بات رکھیں اور صحیح مقصد کی طرف دعوت بھی دیں لیکن اگر مخاطب بھی تندخو ہو اور اس کی بات نہ مانے بلکہ سخت کلامی کرے تو ایسا شخص برداشت کرسکتا ہے ؟ بلکہ وہ خود اس سے گر جائیگا پھر کسی کی کیسے اصلاح ہوگی ، اسلئے داعی کو حلم کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے ۔ مخاطب تو بگڑا ہوا ہے ہی ، اس کیلئے نرمی کی ضرورت ہے ، اسلئے کہ وہ شریعت کو سخت سمجھ کر شریعت سے بھاگ رہا ہے ، لہذا ایسے موقع پر نرمی سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ تو شریعت کو سخت و کڑوا سمجھ کر دین سے دور ہورہا ہے اس لئے تم کو اپنے کلام میں نرمی اور شیرینی ملا کر دین کو پیش کرنا ہوگا ، ورنہ تو کریلا نیم چڑھا کا مصداق ہو جائیگا ، یعنی ایک تو دین کی کلفت و تلخی پھر تمہارے کلام کی تلخی و سختی ، اس طرح دو تلخی و سختی جمع ہو جائیں گے جس سے مزید دوری ہو جائیگی ، اس کو خوب سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں ، ابھی دیکھئے بیان میں آنے سے قبل موسمبی کا رس پینا چاہا تو وہ ترش معلوم ہوا ، میں نے کہا کہ بھائی یہ تو ترش ہے اور اس میں گل قند ملا دیا جس کی وجہ سے میٹھا ہو گیا ، کتنا خوش گوار ہو گیا اس کے بعد پی لیا ، اسی طریقہ سے کڑوی چیز میں جب شیرینی مل جاتی ہے تو وہ کڑوا پن غائب ہو جاتا ہے ، بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہوجاتے ہیں تو اس کیلئے جو دوا دی جاتی ہے وہ نہایت کڑوی ہوتی ہے اسلئے اسے بتاشہ میں رکھ کر دیتے ہیں تا کہ اسکی کڑواہٹ بچے کو محسوس نہ ہو بلکہ وہ میٹھا معلوم ہو اور باآسانی پی لے ، تو کڑوے کے ساتھ ہمیں میٹھا بننا پڑے گا تب جا کر اصلاح ہوگی ۔ 
ایک مصری عالم علامہ سید علی محفوظ رح “صاحب ابداع “اپنی تصنیف ہدایة المرشدين میں لکھتے ہیں کہ کلفت شریعت کی بناپرلوگ شریعت سے بھاگتے ہیں اگرتم نے اس کے اندر اپنی کلفت کو بھی ملا دیا تو لوگ اور زیادہ بھاگیں گے ، اس بنا پر کلفت کوشرینی سے لذیذ بنادو اور پھر لوگوں کو اپنے قریب کر لواس کے بعدان کے سامنے ٹھنڈے دل سے نرمی سے دین کو پیش کرو ، انشاء الله لوگ ضرور قبول کریں گے ۔ والله الموفق
📚 *🕌﴿☆٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد☆﴾🕌*

مطالعہ نہ کرنے کے 100 نقصانات*

مطالعہ نہ کرنے کے 100 نقصانات

1. جہالت میں اضافہ
2. عقل کا زوال
3. فکری پستی
4. زبان و بیان کی کمزوری
5. تحقیق سے دوری
6. شخصیت میں غیر سنجیدگی
7. فیصلہ سازی کی کمزوری
8. دلیل سے محرومی
9. کمزور حافظہ
10. غیر سنجیدہ گفتگو
11. سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی
12. روحانی کمزوری
13. دینی شعور کی کمی
14. سنت و سیرت سے لاعلمی
15. سطحی ذہنیت
16. جذباتی عدم توازن
17. منفی سوچ کا غلبہ
18. باطل نظریات کا شکار
19. دنیا کے فریب میں کھو جانا
20. زندگی کا مقصد بھول جانا
21. ضیاع وقت
22. سستی و کاہلی
23. تنہائی میں بے چینی
24. بے مقصد گفتگو
25. تخیل کی موت
26. دل کی سختی
27. فرقہ واریت کا شکار
28. شخصیت میں جھجک
29. شکوک و شبہات میں اضافہ
30. فکری غلامی
31. فتنوں کا شکار ہونا
32. دین سے دوری
33. نفاق کی علامات
34. حق و باطل میں تمیز کا فقدان
35. علم دشمنی
36. جاہلانہ انداز
37. تعصب میں شدت
38. سوالات کا سامنا نہ کر پانا
39. عقلی مغالطے
40. خود اعتمادی میں کمی
41. انسانیت سے بے خبری
42. دلائل سے خالی باتیں
43. اصلاح سے نفرت
44. علمی جرأت کا فقدان
45. گفتگو میں بدتمیزی
46. رائے زنی میں جلد بازی
47. معاشرے میں منفی کردار
48. شخصیت کا بکھراؤ
49. تعمیری سوچ کا فقدان
50. نصیحت کا اثر نہ ہونا
51. بات بات پر غصہ
52. دین کا محدود تصور
53. حدیث و قرآن سے ناآشنائی
54. سچائی سے فرار
55. کبر و غرور کا غلبہ
56. ظاہری نمود و نمائش
57. شعور کی کمی
58. فکر و تدبر سے محرومی
59. دینی معاملات میں جہالت
60. علم دشمن طبقے کی پیروی
61. کتابوں سے بے رخی
62. حق کے خلاف بولنا
63. تقلیدی ذہن
64. غلط فتووں کا شکار
65. وقت کی قدر کا فقدان
66. والدین و اساتذہ سے بدتمیزی
67. خود ساختہ دین
68. خواب و خیال میں رہنا
69. علمی مجالس سے دوری
70. قرآن سے انس نہ ہونا
71. شخصیت کا بحران
72. دلائل کے بغیر رائے دینا
73. تبلیغ میں کمزوری
74. قوم کی پستی کا حصہ بننا
75. امت کی فکر نہ ہونا
76. خود غرضی
77. تعمیری تنقید سے دوری
78. تعلیم دشمن سوچ
79. بے مقصد زندگی
80. معاشرتی زوال
81. بچوں کی غلط تربیت
82. استاد سے تعلق کی کمزوری
83. احساسِ برتری یا کمتری
84. معاشرتی تناؤ
85. جھوٹ کا سہارا
86. افواہوں پر یقین
87. سنی سنائی باتوں کا پرچار
88. علمی جرائم
89. قوم کی ترقی میں رکاوٹ
90. عبادت میں بے دلی
91. عقائد کی خرابی
92. شخصیت میں ناپختگی
93. فکری انتشار
94. فحاشی و عریانی کی طرف میلان
95. نظریاتی کمزوری
96. انفرادی و اجتماعی نقصان
97. وقت کا ضیاع
98. نفس پرستی
99. حق سے دوری
100. انسان “انسان” نہیں رہتا۔

علماء کی اصل کمائی: تنخواہ یا ذمہ داری کا احساس

علماء کی اصل کمائی: تنخواہ یا ذمہ داری کا احساس
✒️تحریر: *نجم الثریا* 🌟

ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں اسلام محض رسموں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، روحانیت معدوم، شعائرِ دین کمزور، مساجد سنسان، مدارس خالی، اور نوجوان نسل مغرب زدگی و مادہ پرستی کے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ ہر طرف بے دینی کا طوفان، فحاشی کا سیلاب، ارتداد کا زہر، اور ایمان کا زوال نظر آرہا ہے۔ یہ سب محض اتفاقات نہیں بلکہ ایک بڑی دینی غفلت اور اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ اور اس غفلت میں جس طبقے کی کوتاہی سب سے زیادہ دردناک ہے، وہ ہے علمائے کرام، ائمہ مساجد، اور دینی اساتذہ کا طبقہ۔
*وہ طبقہ جو کبھی امت کے سروں کا تاج ہوا کرتا تھا، جو دلوں کا طبیب، مسجد کا چراغ، قوم کی امید، اور اللہ کے دین کا سپاہی ہوتا تھا، آج بہت بڑی تعداد میں محض ایک تنخواہ دار ملازم بن کر رہ گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "العلماء ورثة الأنبياء، وإن الأنبياء لم یورثوا دینارًا ولا درہمًا، إنما ورثوا العلم، فمن أخذه أخذ بحظ وافر" (سنن ابی داؤد، حدیث 3641)*
علماء انبیاء کے وارث ہیں، ان کا مقام محض درس و تدریس نہیں، بلکہ وہ دین کے علم، دعوت، کردار، تربیت، صبر، قربانی اور اخلاص کے وارث ہیں۔ لیکن جب یہی ورثاء اپنے منصب کو تجارت بنا لیں، اپنے فرائض کو اجرت کے ترازوں میں تولیں، اور دین کی دعوت کو "نوکری" سمجھ لیں، تو پھر دین کی جڑیں کھوکھلی ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
*آج ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی علما، ائمہ، اور دینی اساتذہ ایسے ہیں جو معمولی معمولی بات پر دینی فرائض سے غائب ہو جاتے ہیں۔ تھوڑا سا موسم سخت ہو گیا، طبیعت بوجھل ہوئی، کسی دنیاوی مجلس میں شرکت کا موقع آیا، یا کہیں کسی نے وقت پر کھانا نہ دیا، تو پوری ڈیوٹی سے چھٹی لے لی جاتی ہے۔ مدارس دیر سے آنا، نمازوں میں سستی، جمعہ کا بیان رسمی، محلے کی برائیوں پر خاموشی، طلبہ کی تربیت سے لاپروائی، اور جب توجہ دلائی جائے تو جواب ہوتا ہے: "یہ میرے ذمہ میں نہیں، مجھے اس کا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔"*
*کیا یہی رویہ انبیاء کے وارث کا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے امت کو روشنی ملنی چاہیے تھی؟ قرآن کہتا ہے: "يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ" (سورۃ ھود، آیت 29) (اے میری قوم! میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے۔)*
حضرت نوح، ہود، صالح، شعیب علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو یہی پیغام دیا کہ ہم تمہیں اللہ کے دین کی دعوت کسی دنیاوی فائدے کے لیے نہیں دے رہے۔ اب اگر آج ان کے وارث ہر ہر قدم پر تنخواہ کا تقاضا کریں، اور جس کام میں پیسے نہ ہوں وہ نہ کریں، تو انبیاء کی وراثت کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اسلاف کا حال اس کے بالکل برعکس تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، جو خود بہت بڑے تاجر تھے، نے کبھی دین کی تعلیم کو اجرت سے مشروط نہیں کیا۔ وہ اپنے طلبہ کے اخراجات خود اٹھاتے، ان پر مال خرچ کرتے، اور راتوں کو جاگ کر ان کی اصلاح کی فکر کرتے۔ امام مالکؒ نے خلیفہ وقت کی تنخواہ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ دین کا علم اللہ کے لیے ہے، دنیا کے سودے کے لیے نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی جان، عزت، سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا لیکن حق کے ایک حرف سے پیچھے نہ ہٹے۔
*علامہ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں: "جب علم دنیا کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو علم نور کے بجائے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔"*
آج کے بعض علماء کے رویے بالکل اسی المیے کو ظاہر کرتے ہیں۔ وقت کی پابندی کا حال یہ ہے کہ درس گاہ میں تاخیر، بغیر اطلاع کے غیر حاضری، دینی تقاضوں میں غفلت، اور اخلاص کی کمی ایک عمومی رویہ بن چکا ہے۔ دین کی دعوت اور طلبہ کی تربیت کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ گویا مقصد صرف تنخواہ لینا، اور کام صرف اتنا کرنا ہے جتنا مقرر کیا گیا ہو۔ یہ وہی مزدورانہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے آج علماء کا وقار مجروح ہو رہا ہے اور دین کی برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته" (صحیح بخاری، صحیح مسلم) (تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔)
*علمائے کرام امت کے دینی رہنما، مربی، اور نگہبان ہیں۔ ان کے ایک بول سے نسلوں کا مقدر بدل سکتا ہے، لیکن جب وہی غفلت کے شکار ہوں، تو پھر معاشرہ گمراہی کی طرف نہ بڑھے تو کیا ہو؟ امت کی امانت کو جب محض نوکری بنا دیا جائے تو پھر فتنوں کی یلغار قدرتی ہے۔*
*اس پر بھی غور ضروری ہے کہ علمائے کرام کو جو تنخواہ دی جاتی ہے، وہ عوام کی محنت کی کمائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ رقم ہوتی ہے جو مزدور پسینہ بہا کر کماتا ہے، ریڑھی والا پیٹ کاٹ کر دیتا ہے، غریب لوگ اپنے بچوں کی ضروریات چھوڑ کر مسجد و مدرسہ کے لیے دیتے ہیں۔ یہ پیسہ کوئی سرمایہ دار، جاگیردار، یا حکومت نہیں دیتی، بلکہ وہ محنت کش طبقہ دیتا ہے جو دین سے محبت کرتا ہے، جو امید رکھتا ہے کہ علماء ان کی دینی رہنمائی کریں گے، ان کے بچوں کو سنواریں گے، اور ان کے ایمان کی حفاظت کریں گے۔ اب اگر اس رقم کا بدلہ محض رسمی عمل اور تنخواہ تک محدود خدمات کی صورت میں ملے، تو اللہ کے ہاں اس کی سخت بازپرس ہوگی۔*
قرآن اعلان کرتا ہے: "وَقِفُوهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ" (سورۃ الصافات، آیت 24 (ان کو روک لو، ان سے پوچھا جائے گا۔)
پوچھا جائے گا کہ تم نے دین کے نام پر کیا کمایا؟ کتنے لوگوں کی اصلاح کی؟ کتنی نمازیں وقت پر پڑھائیں؟ کتنے طلبہ کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا کیا؟ کتنے نوجوانوں کو فتنوں سے بچایا؟ اور اگر کچھ نہ کر سکے، تو وہ مزدور کی محنت کی کمائی کا حساب کیا دو گے؟
*اس سب کے ساتھ یہ پہلو بھی توجہ کا طالب ہے کہ دین کی ذمہ داری کو محض کمائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے اگر علمائے کرام اپنی روزی کے لیے تجارت یا کسی اور حلال پیشے کا انتخاب کریں، اور دین کی خدمت کو صرف اللہ کی رضا کے لیے انجام دیں، تو یہ طریقہ ان کے لیے دین و دنیا دونوں میں عزت و سربلندی کا ذریعہ بنے گا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "التاجر الصدوق الأمین مع النبيين والصديقين والشهداء" (جامع ترمذی، حدیث 1209) (سچا اور دیانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔)*
اگر علماء اپنی معاش کا ذریعہ تجارت، زراعت، تدریس یا دیگر حلال شعبے بنائیں، اور دینی خدمات بغیر تنخواہ یا محض معمولی وظیفے پر انجام دیں، تو اس میں ان کے اخلاص، توقیر، اور دینی وقار کا تحفظ ہوگا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے تجارت کی، لیکن علم دین کی خدمت بلا معاوضہ انجام دی۔ حضرت حسن بصریؒ نے کاتبی (Clerical) ملازمت کی، اور دین کی دعوت کا فریضہ عبادت سمجھ کر نبھایا۔
یہی قانون قدرت ہے کہ محنت، دیانت اور لگن کے ساتھ جو دنیاوی میدان میں بھی قدم رکھے گا، اللہ اسے دنیا میں بھی ترقی دے گا اور آخرت میں بھی بلند مقام عطا فرمائے گا۔ دین دار، امانت دار عالم اگر تجارت کرے گا تو وہ عام تاجروں سے آگے نکل جائے گا، اگر وہ کسی سروس یا ملازمت کے میدان میں قدم رکھے گا تو اس کی دیانتداری اور حسنِ کردار اسے دوسروں سے ممتاز کر دے گی۔
قرآن مجید کا صاف اعلان ہے: "وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ، وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ" (سورۃ النجم، آیات 39-40)
"اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی، اور بے شک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔"
*یہی وہ ربانی اصول ہے جس پر دنیا و آخرت کی کامیابیاں قائم ہیں۔ اگر علماء دین محنت و اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت اور دنیا کی تدبیر کو ساتھ لے کر چلیں تو وہ دنیا والوں سے آگے نکل سکتے ہیں، اور ان کے کردار و علم کی روشنی سے معاشرہ بھی منور ہو سکتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے: خلوص، مسلسل جدوجہد، اور اللہ پر یقین۔*
*اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء دین محض مدارس، مکاتب اور مساجد کی محدود تنخواہ پر انحصار کرنے کے بجائے، اگر ضرورت ہو تو کسی مناسب ذریعہ معاش کو اپنائیں، اور دین کی خدمت کو اپنے لیے خالص عبادت بنائیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف دین محفوظ رہے گا، بلکہ علما کا وقار بھی بحال ہوگا، اور وہ امت کی نظروں میں بطور قائد و مربی سرخرو ہوں گے۔*
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے صحیح فہم، اخلاص عمل، اور دین و دنیا دونوں میں کامیابی عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

میاں بیوی کے تعلقات میں کمی کی وجوہات اور علاج

*"جذباتی انقطاع ۔ چپ کا روزہ (Emotional Detachment)" (23)*

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری کی زیر اشاعت کتاب 
*سکون خانہ ۔ازدواجی تنازعات سے رفاقتی ہم آہنگی تک کا شعوری سفرِ A conscious journey from Marital discord to companionate Harmony* 
9224599910
####################

 *جذباتی انقطاع ایک خاموش رکاوٹ*

(Emotional Detachment – A Silent Barrier in Marital Harmony)
✦ تعارف:
ازدواجی زندگی کا اصل حسن "جذباتی قربت" (Emotional Intimacy) میں پوشیدہ ہے ، لیکن جب یہ قربت وقت ، مسائل یا ماضی کی زنجیروں کے باعث ختم ہونے لگے تو رشتہ صرف ایک رسمی معاہدہ رہ جاتا ہے ۔ یہی کیفیت جذباتی انقطاع کہلاتی ہے ، جو کئی جوڑوں میں خاموش تباہی بن کر سرایت کر چکی ہے ۔
✦ تعریف:
> "Emotional Detachment is a psychological condition where a person distances themselves emotionally from others, especially from close relationships, often to protect themselves from pain or vulnerability."

"جذباتی انقطاع ایسی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے شریکِ حیات یا عزیزوں سے جذباتی طور پر کٹ جاتا ہے ، نہ دل کی بات کرتا ہے ، نہ دوسروں کے جذبات کو محسوس کرتا ہے ، نہ ہی تعلق میں دلچسپی لیتا ہے"۔
✦ اسباب:
شمار سبب وضاحت
1 بچپن کی محرومیاں ، جذباتی یا جسمانی نظراندازی کا تجربہ ۔
2 ازدواجی زخم ، مسلسل بے عزتی ، جھگڑے ، یا نظراندازی ۔
3 نفسیاتی بیماری ڈپریشن، اینگزائٹی ، یا (PTSD ) Post Traumatic Strees Disirder اس میں دماغی صدمہ یا تکلیف ، خوف ناک خواب ، شدید بے چینی ، جذباتی بے حسی ، چڑچڑاپن ، شدید غصہ ، آتا ہے ۔ علاج کے لیے CBT ادویات میں ہے ۔
4 دفاعی رویہ خود کو مزید زخموں سے بچانے کی کوشش ۔
5 جدید لائف اسٹائل ڈیجیٹل مصروفیت ، تنہائی ، ورک پریشر ۔
✦ علامات :
* جذباتی اظہار کا فقدان ۔
* تنہائی پسندی ۔
* شریکِ حیات کے جذبات کو نظرانداز کرنا ۔
* جسمانی قربت سے دوری ۔
* گفتگو میں سرد مہری ۔
* رشتے میں بیزاری ۔
*✦ اسلامی نقطۂ نظر :*
> "وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً"
"اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔"
(سورہ روم: 21)
> "مومن مومن کا آئینہ ہے۔"
(ابو داود)
"بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہترین ہو۔"۔ (ترمذی)
اسلام جذباتی تعلق ، حسنِ سلوک ، اور دلجوئی پر زور دیتا ہے ۔ جذباتی انقطاع تعلقات کو سرد اور بے روح بنا دیتا ہے ، جو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے ۔
✦ سائنسی و نفسیاتی تحقیق :
🔹 ڈاکٹر جان گاٹ مین کے مطابق، "خطرناک رشتے وہ ہوتے ہیں جن میں 'Emotional Withdrawal' یعنی جذباتی پیچھے ہٹنا موجود ہو۔"
🔹 Harvard Medical Review میں شائع تحقیق کہتی ہے:

> "Emotional neglect is more harmful than verbal abuse in long-term relationships."
پھر یہ دل کیوں اداس ہے ؟"
> "You can be married and still feel incredibly alone."
— Esther Perel

✦ جدول : جذباتی تعلق بمقابلہ جذباتی انقطاع
  --پہلو جذباتی تعلق جذباتی انقطاع ۔
بات چیت کھلی ، محبت بھری محدود یا سرد ۔
جذبات کا تبادلہ - روزمرہ کا معمول تقریباً ناپید ۔
جسمانی زبان ، قربت ، لمس سے گریز ، لاتعلقی ہے ۔
اعتماد مضبوط - کمزور یا ختم
✦ سوالنامہ برائے تشخیص (Self-Assessment Quiz) :

اپنے تعلق کی کیفیت جاننے کے لیے ہر سوال کا جواب دیں (ہاں / نہیں) ۔
1. کیا آپ شریکِ حیات کے ساتھ دل کی بات کرتے ہیں ؟
2. کیا آپ کو اس کے احساسات سمجھ آتے ہیں ؟
3. کیا وہ آپ کے جذبات کا احترام کرتا / کرتی ہے ؟
4. کیا آپ ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں؟
5. کیا آپ دونوں کے درمیان ہمدردی ہے؟
🔸 4 سے زائد "نہیں" کا مطلب ہے ۔ جذباتی انقطاع کا خطرہ موجود ہے ۔
✦ عملی مشقیں (Practical Exercises):
1. "روزانہ پانچ منٹ کا جذباتی رابطہ":
دن میں صرف پانچ منٹ بغیر موبائلب، صرف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں ۔
2. "دل کی ڈائری":
ہر رات لکھیں: آج میں نے اپنے شریکِ حیات سے کیسا برتاؤ کیا ؟
3. "شکرگزاری کی مشق :
ہر روز ایک خوبی اس کی لکھیں یا بولیں ۔
✦ کیس اسٹڈی :(13)
❖ کیس: "خاموش دیواریں"
نام: رضوان اور حنا( نام بدل کر)
مسئلہ: شادی کے 8 سال بعد دونوں میں بات چیت کم ہو گئی ۔ حنا احساس کرتی ہے کہ رضوان اس سے بات نہیں کرتا ، اس کی بات کو سنتا نہیں ، صرف بچوں یا گھر کی ضرورت پر ہی بولتا ہے ۔
*تجزیہ: Analysis* 
 رضوان بچپن میں ایک جذباتی طور پر سرد ماحول میں پلا ۔ شادی کے بعد شروع میں بہتر تھا ، لیکن جب بچوں کی ذمہ داریاں اور مالی دباؤ بڑھا تو وہ اندرونی طور پر کٹتا چلا گیا ۔
*علاج: Therapy* 
* کاؤنسلنگ سیشن
* مشترکہ وقت
*جذباتی مشقیں
* اسلامی تعلیمات کا مطالعہ
* نتیجہ : تین ماہ کی تھراپی کے بعد جذباتی تعلق بحال ہونا شروع ہوا ۔
✦ علاج و مشاورت (Counseling & Healing Steps) :
1. کمیونیکیشن تھراپی
2. کپل تھراپی spouse 
3. اسلامی روحانی مشقیں
4. Mindfulness and Emotional Intelligence Training
5. معاف کرنے کی طاقت پیدا کرنا ۔
6. ✦ نتیجہ:
جذباتی انقطاع کو نظرانداز کرنا تعلق کے زوال کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اگر بروقت توجہ دی جائے ، تو محبت کی وہی روشنی دوبارہ جگائی جا سکتی ہے ۔ ازدواجی رشتے دل کے رشتے ہوتے ہیں . جب دل بند ہو جائے تو رشتہ باقی نہیں رہتا ۔ زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ وہ ہوتا ہے ، جب شوہر اور بیوی بنا کچھ کہے ایک دوسرے کی کیفیت سمجھ جاتے ہیں ۔
*"جذباتی ہم آہنگی کا مطلب ، میں تمہیں سمجھتا ہوں کہنا نہیں ۔ بلکہ واقعی سمجھئا اور محسوس کرنا ہے ۔"*

نہ ہم سفر سے نہ ہم نشیں سے نکلے گا 

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہم ہی سے نکلے گا

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم