جس میں قائدانہ صلاحیت صفات دکھے اُس کو قائد مانیے ،جب قائد مان لیے تو
قائد کوئی بھی ہو جب تک اس پر اعتماد نہیں کیا جائیگا ،اُس کا ساتھ نہیں دیا جائیگا ،فتح اور شکست دونوں حالتوں میں اُس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی تو اُمت کو کبھی بھی مخلص قائد نہیں ملے گا ،اس کی غلطیوں پر اس كو متوجہ کیجیے ،لیکن اُس کو موقع دیجئے ، ہو سکتا ہے اُس کی کچھ حکمتِ عملی ہوں ،
قائد چنگیز خان سے ہاتھ ملا رہا ہوں تو اس کو رائے دے دوں یہ چنگیزخان ہے یہ تو ہمارا دشمن ہے پھر بھی قائد ہاتھ ملانا چاہتا ہے اُس کوکچھ دیر کے لیے یہ سمجھ کر موقع دینا چاہیے کہ ہمارا قائد چھوٹے دشمن سے بڑے دشمن کو ختم کرنا چاہ رہا ہے ،
سیرت میں اور تاریخ میں یہ سب باتیں مل جائے گی ۔
*مگر پہلے تو ہم کسی کو قائد مانتے نہیں ہیں ،*بیرسٹر اسد اویسی صاحب* کو دیکھ لیجئے ،بیرسٹر ہے ،خاندانی سیاست دان ہے ،خاندانی امیر ہے ،قوم کا درد ہے ،قوم کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ ہے ،اُن کی تقریروں میں مسمانوں کا جم غفیر آتا ہے ،نعرہ تکبیر لگاتا ہے ،ایسا جوش ہوتا ہے جیسے اسد صاحب آزادی کی لڑائی کا اعلان کردے گے تو سب میدان میں کود جائیں گے ،مگر اسد صاحب اتنی پرجوش عوام سے ایک بٹن دبانے کی درخواست کرتے ہیں ، اپنے امیدوار کو جتانے کی ایپل کرتے ہیں تو چند سو اور چند ہزار کے علاوہ اُن کو ووٹ دینا تو دور کی بات اُن کو ہی قوم کا غدار سمجھتی ہیں ،اُن کو بی جی پی کی بی ٹیم کہتی ہے ،
جہاں بی جی پی چن کر آئی غلطی سے وہاں اویسی صاحب چلے گئے تو بی جی پی کی جیت کا پورا سہرا اویسی صاحب کو مسلمان دیتے ہیں ۔
اب اِس اسمبلی الیکشن میں نیا چہرہ سامنے آیا *حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی دامت برکاتہم العالیہ* یہ چہرہ تو امت کے ہر مسئلہ کے وقت سامنے آتے رہا ہے جب اچھے اچھے سیاست داں اور سماج سیوا کی زبانیں بند تھی اُس وقت بھی امت کی صحیح رہبری ڈنکے کی چوٹ پر کرنے والا یہی چہرہ تھا ،سب پسند بھی کرتے تھے ،حاسدین خاموش تماشائی بنے رہتے تھے ،
مگر اس الیکشن میں اللہ کا کرنا ایسا ہوا کی مولانا کی حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہوئی تو سب کو دل کھول کر بولنے کا موقع مل گیا ،
عوام کی سوچ تو ایسی ہے جیتو تو سکندر ہارو تو بندر
اگر اس الیکشن میں مولانا سامنے نہ آتے تو بھی رزلٹ تقریباً یہیں آنا تھا مگر اُس وقت اویسی صاحب پر اپنی ہار کا ٹھیکرا پھوڑتے تھے ۔۔
میرا کہنا یہ ہے اویسی صاحب ہو یا مولانا ہو ،جو بھی میدان میں ہیں ، جس کی محنت برسوں سے قوم کے لئے جاری ہے ،ایسے قائد کو موقع دیں ۔
*جیسا ہم نے سیکولر پارٹیوں پر ستر سال بھروسہ کرکے ووٹ دیا* ،اُن سے امیدیں رکھی ،صرف دس سال اپنے قائدین پر اعتماد کرکے ان کو موقع دو ،
ہار جیت تو میدان کی جان ہے ،اور غلطیاں بھی کھلاڑیوں کے میدان کا حصہ ہے ،میدانی غلطیاں اس سے نہیں ہوگی جو صرف میرے جیسا واٹس اپ فیس بک پر لکھتا ہوں یا بولتا ہوں ،میدانی لوگوں سے میدانی غلطیاں ہوتی ہیں ،مگر غلطیوں کو درست کرکے یہی لوگ میدان فتح کرتے ہیں ۔
*حماس* کے ایک فیصلے سے کتنے فلسطینیوں نے شہادت کا جام پیا ،ایسی درد ناک واقعات سامنے آئے جو ہماری آنکھوں نے کبھی دیکھا نہ ھوگا اور کانوں نے کبھی سنا نہ ہوگا ،مگر ایک فلسطینی بتا نہیں سکتے جو اپنی قیادت کے شکوے کر رہی ہوں ،ان کو گالیاں دینا برا بھلا کہنا تو دور کی بات ہے ،آج بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں ،آج حماس کھڑا ہے اپنوں کے حوصلوں کی وجہ سے کھڑا ہے ،
آج کوئی قیادت اُبھرتی ہے تو ہم اُس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اگر جیت گیا تو پیٹ تھتھپانے اور کریڈٹ لینے چلے جاتے ہیں ،
اور ہار گیا تو اس کو بد نام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ،اور اُس کی حوصلہ شکنی اتنی کرتے کے اُس نے قیادت بھول ہی جانا ۔۔
اِس لیے ہم کو قائد کم اور لٹیرے زیادہ مل رہے ہیں ،اور دشمنوں سے ساز باز کرنے والے لوگ ہی اکثر ہم پر مسلط ہے ۔۔
اچھے انسان سے غلطی نہیں بھی ہوئی تو میڈیا اُس کو اٹھاتا ہے ،میڈیا ہماری اچھی اور مخلص قیادت کو کبھی اچھا نہیں بولے گا وہ بکا ہوا ہے ۔
اور ہمارے قلم کار بھی جن کے فجر کا پتا نہیں امت کے صحیح حالات کا پتہ نہیں صرف اتنا ہی معلوم جتنا میڈیا اور سوشل میڈیا سے پاخانہ ملتا ہے ،وہ بھی ہماری قیادت کی غلطیوں کو اچھالنے لگ جاتے ہیں ۔
*اپنے قائد کی غلطیوں کو سر عام مت لاؤ ،* جاکر ان سے ملو ،اُن کو متوجہ کرو ،یہ غلطی ہوئی اور یہ حل ہے ۔
کیوں کہ جنگل کے جس جانور کو زخمی کردیا جاتا تو جنگل کے درندے اُس کو پھاڑ کھاتے ہیں ۔۔
ہم سب اپنی غلطیوں کو دیکھو کہ موجودہ حالات میں ہم نے کیا محنت کی ،اور کس کا ساتھ دیا ،اور کس لیے دیا ،اور ہم اُمت کی فلاح بہبودی کے لئے کیا قربانی دے رہے ہیں ،اپنی مقامی لوگوں سے ہم کتنا دبے ہوئے ہیں ،کتنا حق کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
دوسروں پر اُنگلی اٹھانا آسان مگر اپنی غلطیوں پر نگاہ رکھنا بڑا مشکل کام ہے ۔۔
*معاف کرنا آج ہمارے واٹساپی فیسبوکی* قلم کار ،اور گفتار کے غازیوں نے اچھے لوگوں پر جو کیچڑ اچھالا وہ تاریخ میں شاید ہی کہیں ملے ۔۔میدانی لوگ اُتار چڑھاؤ کو سمجھتے ہیں ۔صبر سے کام لیتے ہیں ،صحیح اسباب اور نتائج تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔
باقی کامیابی ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔
ہمارا کام قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں کام کرنا ہے ۔محنت کرنا ہے ،اور اچھے نتیجہ کے لئے اللہ سے دعا کرنا ہے ۔۔
معافی کی درخواست
نعیم ندوی دھاڑ
No comments:
Post a Comment