*عاطر اقبال قاسمی*
aatirbastavi@gmail.com
*پہلا منظر نامہ*
محترم قارئین ، میرا سوال آپ سبھی سے ہے ، کیا سیاست مولویوں کے لیے نہیں ہے، ایک عالم دین سے بہتر کون سیاست داں ہو سکتا ہے جبکہ یہ اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں جن سے بڑا ، اور جن سے بہتر سیاست داں اس کائنات میں آج تک پیدا نہیں ہوا ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ جب سے مہاراشٹر کے رزلٹ آۓ ہیں تبھی سے ایک طوفان نصیحتوں کا چلا آرہا ہے وہ لوگ بھی تجزیے پیش کر رہے ہیں جن کا مہاراشٹرا کی سیاست سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔بھئ ٹھیک ہے ہو سکتا ہے مولانا کی ٹیم سے زمینی طور پر چوک ہوئ ہو لیکن ہم کو سمجھنا چاہیے کہ یہ کوئی شرعی حکم نہیں لاگو کیا گیا تھا بلکہ مولانا اور ان کی ٹیم کی ایک اپیل اور راۓ تھی جس کو ماننا ہے مانے نہ ماننا ہے نہ مانے ۔
*دوسرا منظر نامہ مولانا کی اپیل اور میڈیا کا رد عمل*
بھائی میڈیا تو مسلمانوں کے ہر فعل کو جہادی نظریہ سے دیکھتا ہے ، لو جہاد ، زیادہ بچہ پیدا کرنے کا جہاد ، مدرسہ جہاد ، مسجد جہاد
تو اب کیا کریں گے ، کیا ہم کاروبار بند کردیں کہ میڈیا اسے جہاد بتا رہا ہے ، کیا ہم اپنے مسجد مدرسے بند کر دیں کیونکہ میڈیا اسے جہادی پناہ گاہ بتا رہا ہے ، بھئ یہ تو ان کا کام ہے ،ان کو تو یہ مشن دیا گیا ہے کہ آپ اسلاموفوبیا کی اشاعت کرو اور بچے بچے کے دل میں اسلام کے خلاف زہر بھردو ۔ بھائی اگر ہم میڈیا کے ڈیبیٹ اور سرخیوں کی ڈر سے فیصلے لینے لگے تو ہمیں اپنے مساجد ، مکاتب ، مدارس و خانقاہیں اور کاروبار کو مقفل کرنا پڑیگا ۔
*تیسرا منظر نامہ سیاسی فہم کی کمی اور نتائج*
بھائی مولانا کو اللہ نے بصیرت سے نوازا ہے ۔ آپ صرف مہاراشٹرا پر سیاسی نظر رکھ رہے ہیں مولانا اس وقت پوری دنیا کے سیاسی خد و خال پر اپنی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اگرچہ یہ پہلی مرتبہ ہیکہ مولانا نعمانی صاحب نے اس طرح سے منظم طریقہ سے لائحہ عمل تیار کرکے کسی خاص مقصد کے تحت سیکولر پارٹیوں کی حمایت کی ہے ۔ بہر کیف مولانا موصوف کی پوری زندگی سیاست کے میدان میں سیاستدانوں کے درمیان ہی گذری ہے ۔ تو میں سمجھتا ہوں مولانا کے اس لائحہ عمل نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کام نہیں کیا بلکہ ایک سیاسی وجود زندہ کرنے کا کام کیا ہے ، آج تک تمام سیکولر پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹ چاہیے ہوتے لیکن مسلمانوں کے لیے بات کرنے سے ہر کوئی کتراتا اس مرتبہ مولانا نے اپنے مطالبات رکھ کر ان کی حمایت کی ، جس سے سیاست میں مسلمانوں کا ایک وزن پیدا ہوا ۔ اور اس کے نتائج انشاءاللہ ثم انشاءاللہ آنے والے انتخابات میں ظاہر ہونگے ۔ اب آنے والے انتخابات میں یہ سیکولر پارٹیاں جس طرح آدیواسیوں سے لیکر مراٹھیوں تک کی حمایت کے لیے ان کی بات سنتے ،مطالبات سنتے اور پورا کرنے کا وعدہ کرکے ان سے اپنے لیے حمایت حاصل کرتے تھے ، اسی طرح اب یہ مسلمانوں کے رہنماؤں سے حمایت کے مذاکرات ضرور کریں گے ،
اسی طرح اس امت کے بکھرے شیرازوں کو سمیٹنے کا کام مولانا موصوف نے کیا ہے ، اگر یہ حکمت عملی مسلمانوں کے ہر مکتبئہ فکر کے ذمہ داروں نے اختیار کیا تو ، میں قسم کھا کر کہوں تو حانث نہ ہوں گا کہ ہم مسلمان اپنی سیاسی شناخت واپس پا جائیں گے ، انشاءاللہ ثم انشاءاللہ ۔
*چوتھا منظر نامہ تبصرہ نگار کا کہنا کہ مولانا کی اپیل سے ملت کو پہونچنے والے نقصانات*
بھائی اس پورے انتخابی نظام میں صرف مولانا موصوف نے ہی اکیلے حمایت دی ہے کیا ۔ بھئی جس طرح مہاراشٹر کی دیگر تنظیموں نے اپنی حمایت دی ، اپنی جانب سے اپیل کی اسی طرح مولانا نے بھی اپیل کی۔ اس میں گٹھ بندھن مہا وکاس اگھاڑی یا امتیاز جلیل صاحب کے ہار کے ذمہ دار مولانا کیسے ہو سکتے ہیں ، آپ کو پتہ ہونا چاہیئے کہ مہاراشٹر اور اسی طرح پورے ہندوستان میں لگ بھگ ہر جگہ گانگریس و گٹھ بندھن اندرون خانہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ ان کی آپسی رسہ کشی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں ۔ تو اب اس کے ذمہ دار مولانا کیونکر ہوۓ ۔
اور رہی بات امتیاز جلیل صاحب کی ، تو ان کی ہار ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوئی نہ کہ مولانا کے اعلان کی وجہ سے ،
آپ پورا سیناریو سمجھو اورنگ آباد سے مہا وکاس اگھاڑی کا ایک امیدوار نامزد کیا جاتا ہے لیکن وہ نومینیشن کے آخری دن یہ اپیل کرکے اپنا نام واپس لیتا ہے کہ بھلے ہی بی جے پی و مہا یوتی جیت جاۓ امتیاز جلیل نہیں جیتنا چاہے، اور اسی طرح دوسری جانب جان بوجھ کر ایسی بساط بچھائی جاتی ہیکہ کہہ پورے اورنگ آباد ایسٹ میں بحیثیت آزاد امیدوار 13 لوگوں کو کھڑا کیا جاتا ہے ، اب آپ سوچو بڑی سیدھی بات ہے جو امیدوار کھڑا ہوا اس کو اسکے گھر والوں کا ووٹ ملنا طے ہے اگر آپ ایک آدمی کا 100/200 ووٹ پکڑو تو بھی 2897 ووٹ گۓ ،اور امتیاز جلیل صاحب صرف لگ بھگ2161 ووٹوں سے ہارے ہیں , تو ازراہ کرم امتیاز جلیل صاحب کی ہار کا سہرا مولانا نعمانی صاحب کو پہنانا سراسر احمقانہ و بچکانہ پن ہے ، جلیل صاحب کی ہار ان کی اپنی غلطی سے ہوئی ، اگر موصوف کم از کم اپنے مقابل آزاد امیدواروں کو بھی اپنا نام واپس لینے کے لیے قائل کرلیتے تو بھی آج کا منظر نامہ کچھ اور ہوتا ۔ ہاں مولانا نعمانی صاحب نے عبد الغفار ( سماج وادی ) کی حمایت کی ہے اسمیں کوئی شک نہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عبد الغفار صاحب کا وجود اس لڑائی میں دیگر لوگوں کی بنسبت زیادہ تھا ۔ امتیاز جلیل صاحب کو چاہۓ تھا کہ وہ ان لوگوں کو بیٹھانے کی کوشش کرتے جن کے بارے میں پہلے دن سے یہ سمجھ میں ہی آرہا تھا کہ یہ سارے امیدوار نہیں بلکہ ایک سیاسی جال ہے جس میں امتیاز صاحب پھنس گۓ یہ معاملہ اور صاف اس وقت ہوا جب الیکشن کمیشن نے امتیاز جلیل صاحب کی جیت کا اعلان کیا پھر بی جے پی والے نے ری کاؤنٹنگ کی اپیل کی کیونکہ اس سے پتہ تھا کہ اس نے جو رائتہ پھیلایا ہے معاملہ اس کے برعکس ہو ہی نہیں سکتا چنانچہ ریکاؤنٹنگ ہوئی ، اور امتیاز جلیل صاحب ہار گئے😥
*آگے کا راستہ*
یہ وقت خود احتسابی کا ہے علماء اور دینی رہنماؤں کو اپنے شریعت اپنے دین اپنے ایمان اور امت مسلمہ کے کی تحفظات کے لیے اور شدت کے ساتھ سیاسی میدان میں انا چاہیے اور ایک بہترین لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے ۔ یہ پہلی مرتبہ تھا اور اس کا رزلٹ بہتر رہا ،اگر ائندہ بھی اسی طرح مسلمانوں کے قائدین وہ امت کے اعلی رہنما اپنا سیاسی کردار ادا کریں گے تو انشاءاللہ العظیم منظر نامہ تبدیل ہونے میں کوئی شک نہیں۔
*نتیجہ*
حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب نے یہ جو پہل کی ہے یہ مسلمانوں کے لیے خوش ائند ہے اگر مسلمانوں نے اس طرح لائحہ عمل تیار کر لیا
تو انشاءاللہ العزیز مسلمانوں کے حقوق کی تحفظات کے لیے مسلمانوں کو محتاجگی کا احساس نہیں ہوگا۔ہمیں فخر ہونا چاہیے کہ حضرت مولانا نعمانی دامت برکاتہم پر کہ حضرت والا اس پیرانہ سالی میں بھی اپنے جان مال اور تمام تنظیموں کو امت مسلمہ کو جگانے کے لیے داؤ پر لگا دیا۔ یہ بات کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ ، اب مولانا کے ساتھ کیا سلوک اختیار کیا جائے گا ای ڈی ، سی بی ائی ، انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ، جی ایس ٹی ڈیپارٹمنٹ ، اللہم حفظنا منہ ایسی کئی تنظیموں کو حضرت مولانا کے اداروں کے پیچھے لگا دیا جائے گا , اور مسلمانوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جائے گی ۔حضرت مولانا موصوف نےجس بہادری کا کام کیا ہے وہ ان مصلحت کا لبادہ اوڑھے ہوئے مولویوں کے منہ پر طمانچہ ہے ، جو مصلحت کے نام پر حضرت مولانا نعمانی صاحب اور دیگر مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ مسلمانوں کا کام سیاست کرنا نہیں ہے، ہم ان کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ سیاست مسلمانوں کی وراثت ہے ، نبی کریم علیہم الصلوۃ والسلام نے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو سیاست کی ہے اس سے بہتر کوئی سیاست اس کائنات میں کرنے والا پیدا نہیں ہوا ۔ آپ اپنے لبادے کو اتاریں اور مصلحت کے نام پر امت مسلمہ کو ڈرانا بند کریں اب امت مسلمہ ڈرنے والی نہیں ہے حضرت مولانا نعمانی صاحب نے جو کام کیا ہے انشاءاللہ العزیز آنے والے وقت میں اس پر اور شدت سے عمل کیا جائے گا علماء سے اپیل ہے کہ اب وقت ہے علماء اپنا سیاسی کردار ادا کریں جس طرح وقت پڑنے پر ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے فضلا نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔
حضرت مولانا سجاد نعمانی صاحب نے ایک سیاسی حکمت عملی تیار کی تھی جس کے نتائج اعلی سے اعلی ترین ہو سکتے تھے اگر مہاوکاس اگھاڑی ، ونچت بہوجن سماج پارٹی میں آپسی انتشار نہ ہوتا ۔ مولانا نے بحیثیت انسان غلطی کی ہے ، ان لوگوں پہ بھروسہ کر کے جو اس بھروسے کے لائق نہیں تھے بہر حال انشاءاللہ العزیز ، ہم پر امید ہیں کہ حضرت والا اسی طرح اپنی سرپرستی فرماتے رہیں گے اور امت کے بہتر مستقبل کے لیے اپنے تجربات کی روشنی میں ایک منظم لا ئحہ عمل تیار کریں گے ۔
عاطر اقبال قاسمی
aatirbastavi@gmail.com
No comments:
Post a Comment