دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ😭

دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ😭
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہو کر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔ آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حیسن نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کر دے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچا لے۔ رات کو آپ نے دعا فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ 
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛ اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لے کر آئے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر توحید و رسالت کے بارے میں حضرت دحیہ قلبی کو بتایا۔ حضرت دحیہ نے کہا؛ اللہ کے نبی میں مسلمان تو ہو جاؤں لیکن ایک بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے ایک گناہ میں نے ایسا کیا ہے کہ آپ کا اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا؛ اے دحیہ بتا تونے کیسا گناہ کیا ہے؟ تو حضرت دحیہ قلبی نے کہا؛ یا رسول اللہ میں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔ اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کیا جاتا ہے۔ میں کیونکہ قبیلے کا سردار ہوں اس لیے میں نے ستر گھروں کی بیٹیوں کو زندہ دفن کیا ہے۔ آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوئے؛ 
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اسے کہیں اب تک جو ہو گیا وہ ہو گیا اس کے بعد ایسا گناہ کبھی نہ کرنا۔ ہم نے معاف کر دیا ۔
حضرت دحیہ آپ کی زبان سے یہ بات سن کر رونے لگے۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ اب کیا ہوا ہے؟ کیوں روتے ہو ؟ حضرت دحیہ قلبی کہنے لگے؛ یا رسول اللہ، میرا ایک گناہ اور بھی ہے جسے آپ کا رب کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ کیسا گناہ ؟ بتاؤ ؟ 
حضرت دحیہ قلب فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ، میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے کسی کام کی غرض سے دوسرے ملک جانا تھا۔ میں نے جاتے ہوئے بیوی کو کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اگر بیٹی ہوئی تو اسے زندہ دفن کر دینا۔ دحیہ روتے جا رہے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ میں واپس بہت عرصہ بعد گھر آیا تو میں نے دروازے پر دستک دی۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون؟ میں نے کہا: تم کون ہو؟ تو وہ بچی بولی؛ میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں۔ آپ کون ہیں؟ دحیہ فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، میرے منہ سے نکل گیا: اگر تم بیٹی ہو اس گھر کے مالک کی تو میں مالک ہوں اس گھر کا۔ یا رسول اللہ! میرے منہ سے یہ بات نکلنے کی دیر تھی کہ چھوٹی سی اس بچی نے میری ٹانگوں سے مجھے پکڑ لیا اور بولنے لگی؛ بابا بابا بابا بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ بابا میں کس دن سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ حضرت دحیہ قلبی روتے جا رہے ہیں اور فرماتے ہیں؛ اے اللہ کے نبی! میں نے بیٹی کو دھکا دیا اور جا کر بیوی سے پوچھا؛ یہ بچی کون ہے؟ بیوی رونے لگ گئی اور کہنے لگی؛ دحیہ! یہ تمہاری بیٹی ہے۔ یا رسول اللہ! مجھے ذرا ترس نہ آیا۔ میں نے سوچا میں قبیلے کا سردار ہوں۔ اگر اپنی بیٹی کو دفن نہ کیا تو لوگ کہیں گے ہماری بیٹیوں کو دفن کرتا رہا اور اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ حضرت دحیہ کی آنکھوں سے اشک زارو قطار نکلنے لگے۔ یا رسول اللہ وہ بچی بہت خوبصورت، بہت حیسن تھی۔ میرا دل کر رہا تھا اسے سینے سے لگا لوں۔ پھر سوچتا تھا کہیں لوگ بعد میں یہ باتیں نہ کہیں کہ اپنی بیٹی کی باری آئی تو اسے زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟ میں گھر سے بیٹی کو تیار کروا کر نکلا تو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ لیے۔ دحیہ نہ مارنا اسے۔ دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ 
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ میں نے بیوی کو پیچھے دھکا دیا اور بچی کو لے کر چل پڑا۔ رستے میں میری بیٹی نے کہا؛ بابا مجھے نانی کے گھر لے کر جا رہے ہو؟ بابا کیا مجھے کھلونے لے کر دینے جا رہے ہو؟ بابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دحیہ قلبی روتے جاتے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ یا رسول اللہ ! میں بچی کے سوالوں کاجواب ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ پوچھتی جا رہی ہے بابا کدھر چلے گئے تھے؟ کبھی میرا منہ چومتی ہے، کبھی بازو گردن کے گرد دے لیتی ہے۔ لیکن میں کچھ نہیں بولتا۔ ایک مقام پر جا کر میں نے اسے بٹھا دیا اور خود اس کی قبر کھودنے لگ گیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دحیہ کی زبان سے واقعہ سنتے جارہے ہیں اور روتے جا رہے ہیں۔ میری بیٹی نے جب دیکھا کہ میرا باپ دھوپ میں سخت کام کر رہا ہے، تو اٹھ کر میرےپاس آئی۔ اپنے گلے میں جو چھوٹا سا دوپٹہ تھا وہ اتار کر میرے چہرے سے ریت صاف کرتے ہوئے کہتی ہے؛ بابا دھوپ میں کیوں کام کر رہے ہیں؟ چھاؤں میں آ جائیں۔ بابا یہ کیوں کھود رہے ہیں اس جگہ؟ بابا گرمی ہے چھاؤں میں آ جائیں۔ اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جا رہی ہے۔ لیکن مجھے ترس نہ آیا۔ آخر جب قبر کھود لی تو میری بیٹی پاس آئی۔ میں نے دھکا دے دیا۔ وہ قبر میں گر گئی اور میں ریت ڈالنے لگ گیا۔ بچی ریت میں سے روتی ہوئی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرے سامنے جوڑ کر کہنے لگی؛ بابا میں نہیں لیتی کھلونے۔ بابا میں نہیں جاتی نانی کے گھر۔ بابا میری شکل پسند نہیں آئی تو میں کبھی نہیں آتی آپ کے سامنے۔ بابا مجھے ایسے نہ ماریں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ریت ڈالتا گیا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بھی ترس نہیں آیا۔ میری بیٹی پر جب مٹی مکمل ہو گئی اور اس کا سر رہ گیا تو میری بیٹی نے میری طرف سے توجہ ختم کی اور بولی؛ اے میرے مالک میں نے سنا ہے تیرا ایک نبی آئے گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا۔ جو بیٹیوں کی عزت بچائے گا۔ اے اللہ وہ نبی بھیج دے بیٹیاں مر رہی ہیں۔ پھر میں نے اسے ریت میں دفنا دیا۔ حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ واقعہ سناتے ہوئے بے انتہا روئے۔ یہ واقعہ جب بتا دیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنا رو رہے ہیں کہ آپؐ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے گیلی ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا؛ دحیہ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ۔ اس بیٹی کا واقعہ جو مجھ محمد کے انتظار میں دنیا سے چلی گئی۔ آپؐ نے تین دفعہ یہ واقعہ سنا اور اتنا روئے کہ آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رونے لگ گئے اور کہنے لگے؛ اے دحیہ کیوں رلاتا ہے ہمارے آقا کو؟ ہم سے برداشت نہیں ہو رہا۔ آپؐ نے حضرت دحیہ سے تین بار واقعہ سنا تو حضرت دحیہ کی رو رو کر کوئی حالت نہ رہی۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام حاضر ہوئے اور فرمایا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! دحیہ کو کہہ دیں وہ اُس وقت تھا جب اس نے اللہ اور آپؐ کو نہیں مانا تھا۔ اب مجھ کو اور آپ کو اس نے مان لیا ہے تو دحیہ کا یہ گناہ بھی ہم نے معاف کر دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی کفالت کی، انہیں بڑا کیا، ان کے فرائض ادا کیے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہو گا جس طرح شہادت کی اور ساتھ والی انگلی آپس میں ہیں. 
۔
جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اس کی یہ اہمیت ہے تو جس نے تین یا چار یا پانچ بیٹیوں کی پرورش کی اس کی کیا اہمیت ہو گی؟ 
بیٹیوں کی پیدائش پر گھبرایا نہ کریں انہیں والدین پر بڑا مان ہوتا ہےاور یہ بیٹیاں اللہ کی خاص رحمت ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی کہ موجودہ دور کے اسلامی ممالک، درحقیقت کتنے "اسلامی" ہیں؟بڑے حیرت کی بات ہے

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی کہ موجودہ دور کے اسلامی ممالک، درحقیقت کتنے "اسلامی" ہیں؟

جب انہوں نے یہ جانچنا چاہا کہ کون سے ممالک اسلام کے ریاستی اور سماجی اصولوں پر عمل کرتے ہیں، تو حیران کن طور پر یہ انکشاف ہوا کہ جو ممالک عملی زندگی میں اسلامی اصولوں پر کاربند ہیں — وہ دراصل "مسلمان ممالک" نہیں ہیں۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی:

👉 دنیا میں سب سے زیادہ اسلامی اصولوں پر عمل کرنے والا ملک نیوزی لینڈ ہے۔
اس کے بعد لکسمبرگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک اور ساتویں نمبر پر کینیڈا آتا ہے۔

جبکہ
👉 ملائیشیا 38ویں، کویت 48ویں اور بحرین 64ویں نمبر پر ہیں۔
اور حیران کن بات یہ ہے کہ
👉 سعودی عرب 131ویں نمبر پر ہے،
جبکہ بنگلہ دیش بھی سعودی عرب سے نیچے آتا ہے۔

یہ تحقیق "گلوبل اکانومی جرنل" میں شائع ہوئی تھی۔


اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا:

🔹 مسلمان افراد نماز، روزہ، سنت، قرآن، حدیث، حجاب، داڑھی اور لباس پر تو بہت زور دیتے ہیں،
مگر ریاستی، سماجی اور تجارتی زندگی میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔

مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی تقاریر، وعظ، نصیحتیں سنی جاتی ہیں،
لیکن آج تک کوئی بھی مسلم ملک دنیا کا بہترین، منصفانہ اور ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکا۔

ایک سادہ حساب کے مطابق:
👉 ایک عام مسلمان نے گزشتہ 60 سالوں میں تقریباً 3000 جمعہ کے خطبے سنے ہوں گے،
مگر پھر بھی سماجی انصاف اور عدل میں مسلمان دنیا سب سے پیچھے ہے۔


ایک چینی تاجر کا بیان:

"مسلمان تاجر ہمارے پاس آکر جعلی اور نقلی چیزیں بنانے کا آرڈر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر مشہور کمپنی کا لیبل لگا دو۔
لیکن جب ہم انہیں کھانے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: ’یہ حلال نہیں ہے، میں نہیں کھاؤں گا۔‘
تو سوال یہ ہے: کیا جعل سازی اور دھوکہ دہی حلال ہے؟"


ایک جاپانی نومسلم کہتا ہے:

"میں نے مغربی ممالک میں غیر مسلموں کو اسلامی اصولوں پر عمل کرتے دیکھا ہے،
اور مشرقی ممالک میں اسلام دیکھا ہے، مگر مسلمان نہیں دیکھے۔
الحمد للہ! میں نے اس فرق کو پہچان کر اسلام قبول کیا۔"


اسلام صرف نماز اور روزے کا نام نہیں ہے،
بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،
جس کا اظہار ہمارے باہمی رویے، معاشرت، کاروبار اور انصاف میں بھی ہونا چاہیے۔


نیکی کا ظاہر ہونا، نجات کی ضمانت نہیں:

کوئی شخص جلدی جلدی نماز پڑھے اور اس کے ماتھے پر نشان ہو،
یہ ضروری نہیں کہ وہ اللہ کی نظر میں نیک ہو
یہ ریا کاری (دکھاوا) بھی ہو سکتا ہے۔


رسول اللہ ﷺ کا فرمان:

"اصل مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز، روزہ، حج اور صدقے کے ساتھ آئے گا،
مگر اس نے کسی پر ظلم کیا ہوگا،
کسی کی عزت پامال کی ہوگی،
کسی کا مال غصب کیا ہوگا،
تو اس کے نیک اعمال مظلوموں کو دے دیے جائیں گے،
اور جب اعمال ختم ہو جائیں گے،
تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال کر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔"


اسلام کے دو بنیادی حصے:

  1. ایمان — یعنی زبان سے کلمہ پڑھنا۔
  2. احسان — یعنی کردار، سلوک اور سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی۔

جب تک یہ دونوں اکٹھے نہیں ہوں گے، اسلام مکمل نہیں ہوگا۔
اور یہی نامکمل پن آج ہر مسلم ملک میں نظر آتا ہے۔


🧭 ذاتی عبادات — جیسے روزہ، نماز — اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہیں،
مگر سماجی انصاف، حقوق کی ادائیگی اور دیانتداری — یہ معاشرے کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہے۔

اگر مسلمان اپنے شخصی اور اجتماعی رویے میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کریں گے،
تو مسلم معاشرہ زوال پذیر اور ذلت کا شکار ہوتا رہے گا۔


لارڈ برنارڈ شا کا قول:

"اسلام سب سے بہترین مذہب ہے،
اور مسلمان اس کے سب سے بدترین پیروکار ہیں۔"


📿 اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اسلام کا دعوے دار نہ بنائے،
بلکہ اسلام پر عمل کرنے والا سچا مسلمان بنائے — آمین۔ 🤲


ایران اسرا ئیل جنگ میں یقیناً ہم اسر ائیل کو تباہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں

ایران اسرا ئیل جنگ میں یقیناً ہم اسر ائیل کو تباہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں.

یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے ایرانی روافض  نے پچھلی چند  دہائیوں میں 20 لاکھ سے زائد اہل السنہ کا قتل عام کیا، اہل السنہ کی قوت کو ریزہ ریزہ کر دیا جس کی وجہ سے آج اسرا ئیل اتنا طاقتور بن گیا،اگر ایران اتنا اسلام کا ہمدرد ہوتا تو اس وقت اسرا ئی ل کو نشانہ بناتا بجائے حمص و حلب و درعا و ادلب و یمن و اعراق  کے اہل السنہ پہ خون کی ہولی کھیلنے کے،جب اپنے سر پہ آئی تو اپنے دفاع کیلئے بڑے بڑے میزائل نکل آئے،اس ظالم نے صرف اپنے خمینی جعفری رافضی دین کے نفاذ کیلئے مبارک دین اسلام و اہل السنہ کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا اتنا بڑا نقصان اسرا ئیل نہ پہنچا سکا ،ان کی آج بھی ویڈیوز موجود ہیں جن میں کہتے تھے ہم مکہ پہ جاکر قابض ہوجائیں گے،خانہ کعبہ کو گرائیں گے نعوذباللہ اور سنیوں کا خاتمہ کریں گے ،اسر ا ئیل تو القدس کو گرانا چاہتا ہے لیکن ایرانی روفض نے مکہ مکرمہ کو گرانے کے عزائم کیے تھے جسے رب نے ناکام بنایا الحمدللہ 

اس کے علاوہ یہ بدبخت قرآن مقدس کو مکمل نہیں سمجھتے کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی مرضی سے بدل دیا تھا نعوذباللہ،یہ بدبخت شیخین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے منکر ہیں، انکی نماز الگ ہے، ان کا کلمہ الگ  ہے،کہاں سے مسلمان و اسلامی ہوگئے..... ؟؟؟ یہ دینِ اسلام ہے یہاں یا تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم رہیں گے یا پھر راوفض اور یقینا روافض نہیں رہ سکتے کیوں کہ قیامت کی صبح تک اسلام ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم کا ہے 

امام ابن تیمیہ رح کے بقول روافض یہو د کے گدھے ہیں جن کے ذریعے وہ اسلام و اہل السنہ کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کا قتل عام کرتے ہیں، یقینا کبھی گدھا بھی غصے میں آکر اپنے آقا کو پچھلی ٹانگیں مار دیتا ہے کبھی آقا بھی ڈنڈا لے کر اپنے گدھے کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے یہ تو چلتا رہتا ہے 

آج کچھ گدھے دماغ ایران اسر ا ئیل جنگ کو اسلام و عقیدہ کی جنگ کہ رہے ،اسلام و عقیدہ کی جنگ میں مدد و نصرة رب سے مانگی جاتی ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ،نہ کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم و امی عائشہ رضی اللہ عنھا و دیگر صحابہ کرام کو گالیاں بک کر نعوذباللہ 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر شخصیت و مبارک صحابی ہیں جن کی رائے اور مشورے کو رب تعالی قرآن بنا دیتے تھے (قربان جاؤں میں ان کی ناموس پہ) آج قاتل عمر ابولولو فروز ملعون کا مزار ایران میں ہے،اس ملعون کو حکومتی سرپرستی و اعزاز و تحفظ حاصل ہے کہ اس نے رب کے محبوب عمر کو ممبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہ خنجروں کے وار سے شہید کیا تھا، لعنت ہو رب کی ایسی سرزمین و حکومت  پہ جہاں اس ملعون کا مزار ہے 

یہ رب متعال کا وعدہ ہے وہ ایک متعین وقت تک ظالم کو چھوٹ دیتا ہے لیکن اس متعین گھڑی کے بعد اس پہ اپنے قہر کی صورت میں بڑا ظالم مسلط کر دیتا ہے

آج امت کے کچھ دیندار کی  یہی جہالت ہے ،جدھر نفس گھماتا ہے سب کچھ ماضی بھول کر وہاں گھوم جاتی ہے 

ہم نے اتنا کہا کہ " جنگ میں رب العالمین سے مدد مانگی جاتی ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنھم سے،کچھ بدعقیدہ حضرات کو برا لگ گیا،ایسے بدعقیدہ حضرات کی رب اصلاح فرمائے جن کے ہاں توحید و ناموس صحابہ کرام رض و ناموس امی عائشہ رضی اللہ عنھا اتنی سستی ہے " اگر اصلاح نہیں تو بھاڑ میں جائیں ہماری پروفائل پہ کیا کررہے ہو.......

جان لو ہماری دوستی و دشمنی کی بنیاد توحید ہے عقیدہ الولاء والبراء ہے الحمدللہ

اگر آپ چاہتے ہیں صحت ۔۔۔۔

.

💢 *اگر آپ چاہتے ہیں ....👇🏻*

*صحت :*
پیر اور جمعرات کو روزہ رکھیں۔

*تندرستی :*
ایام بیض ( ہر قمری مہینے کی 13، 14، 15 تاریخ) کے روزے رکھیں۔

*خوشی :* 
روزانہ قرآن کی تلاوت کریں۔

*چہرے کا نور :* 
رات کے قیام میں چاہے دو رکعت ہی سہی
اطمینان قلب اللہ کا کثرت سے ذکر کریں
مال اور اولاد کثرت سے استغفار کریں۔

*غم کا خاتمہ:*
کثرت سے دعا و استغفار کریں۔

*مصیبتوں کا خاتمہ :*
لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیں۔

*برکت :*
زیادہ سے زیادہ  نبی کریم ﷺ پر درود بھیجیں۔

*بلا کا دفع ہونا:* 
صدقہ دیں چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔

*اللہ کی محبت :*
والدین سے حسن سلوک کریں۔

*اللہ کی معافی :*
جس نے تم پر ظلم کیا اسے معاف کرو۔

*اللہ کی رحمت :*
زمین والوں پر رحم کرو

*اللہ کی رضا اور جنت :*
وقت پر توبہ اور نماز پڑھو۔

*حسن خاتمہ :*
لا إله إلا الله کا کثرت سے ورد کرو

کہیں آپ اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ پیشکش/ م۔ م۔ ق۔ ن

کہیں آپ اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ 
پیشکش/ م۔ م۔ ق۔ ن 

نرگسیت ایک خوف ناک مرض
نرگسیت کے شکار ہوں تو کسی سائیکالوجسٹ سے ضرور علاج کرائیں
نرگسیت کیا ہے؟
اپنی اہمیت کا حد سے زیادہ احساس یا اپنی قابلیت اور صلاحیت سے زیادہ اہمیت کی تمنا کرنا نرگسیت کہلاتا ہے ۔
 یہ ایک بے حد خوف ناک بیماری ہے،جس کو نارسیسٹک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر (این پی ڈی) کہا جاتا ہے۔یعنی یہ خیال ہونا کہ آپ بہت اہم ہیں۔
آپ اس ڈس آرڈر کے شکار ہیں یا نہیں؟اس کو سمجھنے کے لیے آپنے آپ میں غور کرنا ہوگا کہ آپ میں یہ عوارض قبیحہ تو نہیں پائے جاتے ہیں۔اگر ان میں سے دو فاسد عوارض ہیں تو فورا کسی سائیکائٹرسٹ (Psychiatrist سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ورنہ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ یہ مرض بڑھاپا کو بے حد مشکل بنا دیتا ہے۔ہر قریبی انسان کو اس بوڑھے انسان سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔
نرگسیت کے عوارض فاسدہ
ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی کے مطابق اس بیماری کو پرکھنے کے نو نکات ہیں:
1- اپنی اہمیت کا انتہائی احساس
2- اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا
3ـ سراہے جانے کی حد سے زیادہ طلب
4- ہمدردی کے احساس کی کمی
5- ہر ایک پر رشک کرنا
6- مغرور اور گھمنڈی رویے رکھنا
7ـ ہر جگہ نمایاں رہنے کی تڑپ
8- تصویر میں بنے رہنے کی لت
9- کسی کی بات مکمل سمجھنے سے پہلے قطع کلام کرتے ہوئےاپنی بات شروع کر دینے کی لت۔
(رپورٹ بی بی سی)
یہ نو عوارض ہیں ،جن میں سے دو عوارض کسی میں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوپر نرگسیت کا حملہ ہو چکا ہے۔اسے جلد اس خوف ناک بیماری کے متعلق بے سنجیدہ ہو جانا چاہیے۔اگر دو سے زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں تو اسے سائکا ئٹرسٹ کی مکمل نگرانی کی سخت ضرورت ہے۔
اس بیماری کا اثر اس مریض کی سماجی زندگی پر پڑتا ہے۔اس مریض کی اولاد اور اس کے قریبی متعلقین پر بھی اس کے نرگسی رویوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان اس مریض کے بڑھاپے اور بیکاری کی زندگی پر پڑتا ہے۔ایسے مریض سے ہر شخص بلکہ اس کے قریب ترین لوگوں کو شدید نفرت ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے اس کا بڑھاپا بے حد مشکل بھرا ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خوف ناک بیماری سے محفوظ رکھے۔آمین۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم