اقبال بیت بازی
قسط نمبر 1
(الف)
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں.
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
آئین جواں مرداں حق گوئی وبیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شائد کہ ترے دل میں اتر جاے مری بات
الفاظ ومعانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر ونظر کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں
اے شیخ بہت اچھی مکتب کی فضا لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی
امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہوتو لاحاصل
نہ زور حیدری تجھ میں، نہ استغناے سلمانی
اسی روزو شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
No comments:
Post a Comment