ڈابھیل میں قافلہٴ انوری کے ورود مسعود کے سلسلے میں ایک تاثراتی تحریر

*بسمﷲالرحمن الرحیم*


 _*کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے*

*ڈابھیل میں قافلہٴ انوری کے ورود مسعود کے سلسلے میں ایک تاثراتی تحریر*

     _*✍🏻تحریر: محمد عمرین محفوظ رحمانی*_ 
*(سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں)*


```﴿گذشتہ کل مورخہ۷؍ ربیع الاول ۱۴۴۷ھ مطابق ۳۱؍ اگست ۲۰۲۵ء جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے صد سالہ اجلاس میں شرکت کا موقع ملا، ویسے تو جامعہ کے قیام پر ۱۲۰؍ سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن یہ صد سالہ اجلاس ”قافلہٴ انوری“ کے ورودِ مسعود کے سو سال مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا،ماشاءﷲاجلاس کامیاب رہا، جامعہ کے فضلاء اور دیگر اہلِ علم وذوق نے بڑی تعداد میں شرکت کی،اور سکون ودلجمعی کے ساتھ پورے اجلاس کو سماعت کیا، ترتیب، حسن انتظام اور سلیقےکےاعتبارسے بھی اجلاس خوب رہا،حضرت مولانا مفتی محمود بارڈولی اور مفتی معاذ صاحب کی نظامت نے اجلاس کا حسن دوبالا کیا،اہلِ گجرات کی مہمان نوازی ویسے بھی مشہور ہے،اجلاس کے موقع پر اس کا خوب خوب مظاہرہ ہوا، البتہ مقالات کی کثرت نے اجلاس کو سیمینار کی شکل دے دی اور کئی مقالات میں مکررات کا ذکر بارِ خاطر ثابت ہوا، کتنا اچھا ہوتا کہ اجلاس کے آخر میں جامعہ کے فضلاء کے لیے ایک مبسوط اعلامیہ پیش کیا جاتا جس میں ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ان کے لیے راہِ عمل متعین کی جاتی اور ایک گائیڈ لائن ان کے سپرد کردی جاتی، دوپہر کی نشست میں حضرات اکابر نے یقینا فضلاءکی رہنمائی فرمائی، مگر اس طرح کے اجلاس کا ایک مضبوط، مربوط اور مبسوط اعلامیے پر اختتام زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا،اس موقع سے جامعہ نے جو رسالے اور کتابیں شائع کیں وہ بھی اہلِ ذوق کے لیے سرمہٴبصیرت ہیں،خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر مخدوم گرامی حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری زید مجدہم کا مقالہ بھی بصیرت افروز ہے، مجھے اس اجلاس میں برادرِ مکرم حضرت مولانا مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی صاحب کی معیت میں حاضری کی سعادت میسر آئی، اسٹیج پر بیٹھے ہوئے کچھ لکھنے کی طرف میلان ہوا، مختصر تحریر کے ارادے سے قلم اٹھایا، پھر ذہن میں مختلف باتیں آتی گئیں اور لکھتا چلا گیا،لکھنا یکسوئی چاہتا ہے، مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ اجلاس کی ہماہمی کے دوران یہ مضمون پورا ہوگیا،عزیزی حافظ عمار رحمانی سلمہ اللہ ساتھ تھے، انہوں نے کج مج تحریرکو ٹائپ کرکے پڑھنے کے قابل بنادیا،اس طرح میں بھی لہو لگاکر شہیدوں میں مل گیا، اللہ کرے کہ یہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔﴾``` 



ظاہری نگاہ کوبندکیجیے، تصور کی آنکھیں کھولیے، دیکھیے کہ دار العلوم دیوبند سے ایک قافلہ قدسی صفات رخت سفر باندھ کر ڈابھیل جیسے چھوٹے سے گاؤں میں پڑاؤ ڈال رہا ہے، ایک ایسا قافلہ قدسی صفات جس میں علم وفضل کی فراوانی اور عشق وعقل کی تابانی تھی، ایک ایسا مبارک کارواں جو صفاتِ مومنانہ اور اوصاف مخلصانہ سے مزین تھا، ایک ایسی جماعت علماء جس میں کردار کی مستی اور فولاد کی سی سختی تھی، وہی مبارک طائفہ جس میں مدبر بھی تھے، مفکر بھی، محدث بھی تھے مفسر بھی، محرر بھی تھے مقرر بھی، مردم شناس بھی مردم گر بھی، وہی قافلہٴ علم وعمل جس میں عزم تھا، عزیمت تھی، اخلاص تھا، شجاعت تھی، فہم تھا، فراست تھی،عدل تھا، عدالت تھی، ایثار تھا، سخاوت تھی، تقوی تھا، طہارت تھی، ورع تھا، خشیت تھی، توکل تھا، انابت تھی، تعلق مع اللہ کا جوہر تھا اور معرفت ربانی کا زیور بھی، خدمت خلق کا جذبہ تھا اور نشر وانتقال علم کا حوصلہ بھی، صیانت وحفاظت دین کا شوق تھا اور اشاعت قرآن کا ذوق بھی، جینے کا سلیقہ بھی، زندگی برتنے کا طریقہ بھی، یہ وہی قافلہ تھاجس میں علم بھی تھا، حلم بھی تھا، عجز بھی تھا، صبر بھی تھا، یہ قافلہ کیا تھا، یوں کہہ لیجیے کہ انوار کا گنجینہ تھا اور علوم ومعارف کا خزینہ! 
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
ذرا غور سے دیکھیے اس قافلے کی سیادت وقیادت کرنے والی شخصیت کون ہے؟ عالم ربانی، فضل وکمال کے امام، معرفت ربانی کے پیکر، نابغہٴ روزگار شخصیت، خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ، وہی جن کے وسعت علم، قوت حفظ اور درس وتدریس کی مہارت ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے، جن کے بارے میں شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ فتح الملہم میں لکھا ہے کہ ”لَمْ تَرَ الْعُیُوْنُ مِثْلَہُ، وَلَا رَأَیْ ھُوَ مِثْلَ نَفْسِہِ“، نگاہوں نے ان جیسا بے نظیر انسان نہیں دیکھا اور نہ خود انہوں نے اپنے جیسا کوئی صاحب علم کبھی دیکھا ہوگا، جن کی نیکی، پرہیز گاری اور تقوی شعاری کی گواہی حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں دی کہ ”جو شاہ صاحب کے پیچھے نماز پڑھ لے مجھے اس کی نجات کی توقع ہے“، شاہ صاحب کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ان کے بارے میں یہ بلیغ ارشاد ہے کہ ”اس دور میں مولانا انور شاہ حقانیت اسلام کی دلیل ہیں“، شاعر مشرق علامہ اقبال ان کی وفات پر درد کی تصویر بنے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ”اسلام کی آخر کی پانچ صدیوں میں دنیا میں اتنا بڑا عالم پیدا نہ ہوا“، شاہ صاحب کی فکر مندی اور درد مندی کی عکاسی کرتے ہوئے ان کے شاگرد رشید اور عظیم عالم ربانی حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ نے فرمایا کہ ”میں نے اپنی زندگی میں کسی بزرگ اور عالم کو اتنا درد مند نہیں دیکھا جتنا کہ حضرت امام العصر کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دل میں کوئی زخم ہے جس سے ہر وقت خون ٹپکتا رہتا ہے“، مشہور مفکر وعالم شیخ رشید رضا مصری شاہ صاحب کے تبحر علمی کو دیکھ کر مسحور ہوگئے اور یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ ”ھُو إِمامُ العصرِ، مُسْنَدُ الوَقتِ، المُحدِّثُ، المُفسِّر، الفَقیہُ الأُصُولِی، المُتکَلِّم النَّظَّار، الصُّوفِي،  البَصیر، المُؤَرِّخ، الأَدِیب، الشاعِر اللُّغَوِي، البَحَّاثَۃ، النَقَّاد، المُحقِّق المَوھوبُ، الشیخ الإمامُ محمد أنوَر شاہ الکشميري“، (زمانے کے امام ، مسند وقت،  محدث، مفسر، فقیہ ِ اصولی، نہایت زیرک متکلم، صوفی، دور اندیش انسان، مورخ، ادیب،قادر الکلام شاعر، مایہ ناز جویائے علم،بہترین نقاد، با توفیق محقق، شیخ امام محمد انور شاہ کشمیری)، اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ ” لَیْسَتْ ھذِہ الألقابُ مِن قَبِیل المَدْحِ والإِطْرَاءِ، وَلا المُبالَغَۃِ والتَّفْخِیمِ،  وإِنَّما ھِيَ منَ الحقائق الَّتي تَحَلَّی بِھا الإِمامُ الکشميريُّ“۔ (یہ سب القاب بے جا تعریف وتوصیف کی قبیل سے ہیں اور نہ مبالغہ اور غیر ضروری طور پر کسی کو اونچا مقام دینے کی کوشش ہے، بلکہ یہ سب وہ واقعی اوصاف وصفات ہیں جن سے امام کشمیر ی رحمۃ اللہ علیہ متصف تھے) بر صغیر کے سب سے بڑے اور عدیم المثال خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے تو یہ کہہ کر باب المناقب کی تائے تمت لکھ دی کہ ”بھائی! حضرت علامہ کشمیری کے بارے میں کیا کہوں، بس یہ سن لو کہ صحابہ کرام کا قافلہ جارہا تھا، انور شاہ تیرہ سو برس پیچھے رہ گئے“، سبحان اللہ! کیسی عظیم المرتبت شخصیت، علم وعمل کا کیسا جامع انسا ن تھا! مشرق مغرب، شمال جنوب کے علمی حلقوں، جامعہ زیتونہ اور جامعہ ازہر سے لے کر بر صغیر کی درسگاہوں تک ، حجاز کے دانش کدوں سے لے کر اقصائے مغرب کے علمی وفکری زاویوں تک نہ ان کی کوئی مثال نظر آتی ہے نہ نظیر! نہ مثیل نہ بدیل! آہ شورش کیسے موقع سے یاد آگئے! 
یہ جہاں فانی ہے کوئی بھی شے لا فانی نہیں
پھر بھی اس دنیا میں انور شاہ کا ثانی نہیں
اس مبارک کارواں کی سرپرستی جس بزرگ روحانی شخصیت نے فرمائی اس کا نام حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی ہے، یہ علم وعمل کے حامل، نورانی بزرگ تھے، تفقہ میں یگانہ اور تصوف میں اویس زمانہ تھے، حضرت سلطان باہوقدس اللہ سرہ کا ارشاد ہے: ”دنیا عمل کا گھر، آخرت جزا کا گھر اور مومن کا دل معرفت ربانی کا گھر ہے“، ایسے ہی مومن کامل تھے مفتی عزیز الرحمن عثمانی، صاحبِ دل، صاحب نسبت، محبت الہی اور معرفت یزدانی کے حامل،اہل نظر کا ان کے بارے میں یہ احساس ہے کہ وہ مادر زاد ولی تھے، ان کی سادگی، ان کی عاجزی، ان کا جذبہٴ خدمت، ہر ایک مثالی تھا، بے نفسی ایسی کہ دور دور تک کوئی دوسری مثال نہیں! ایک پاکیزہ وجود، ایک ملکوتی انسان! جنہوں نے ان کو دیکھا اور برتا ان کا یہ تأثر تھا کہ ”معصومیت کے پیکر، مرنجا مرنج، خاموشی پسند، اوپر کی سطح سمندر کی طرح خاموش، اور اس کی تہہ میں ذہانت، علم، عمل، تقوی وورع، دیانت اور امانت، اخلاص ودلسوزی، ہمدردی وشفقت کے آبدار موتی“، اقبال نے ایسوں کے بارے ہی میں کہا تھا ؎
جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس کی
الہی کیا چھپا رہتا ہے اہل دل کے سینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
دیوبند سے آنے والے” قافلہٴ نور“ میں علم تفسیر وکلام میں امتیازی شان ومقام رکھنے والے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے، ان کی تفسیر عثمانی ان کے فضل وکمال کا منہ بولتا ثبوت اور شاہد عدل ہے، وہ علمی انسان بھی تھے، تحریکی اور میدانی آدمی بھی! محمد علی جناح جیسا زیرک اور مدبر شخص ان کی فراست، تحریکی صلاحیت اور غیر معمولی لیاقت سے متاثر تھا، انہوں نے وصیت بھی کی تھی کہ میری نماز جنازہ مولوی شبیر احمد دیوبندی پڑھائیں، مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم کی زندگی علمیت،  فعالیت اور اقدام وعمل کا حسین نمونہ تھی ؎
ٹھہرا پانی کائی کھائے گھٹ گھٹ کر مرجائے
بہتا پانی پتھر چیرے اپنی راہ بنائے
اس قافلے میں اور بھی علماء وفضلاء تھے، درس وتدریس کے ماہر اور تربیت وتزکیہ میں ممتاز، ان اکابر کی کوششوں اور کاوشوں نے گجرات کو ہم دوش ثریا بنادیا، حضرت مولانا عبدالرحمن امروہوی، حضرت مولانا سراج احمد رشیدی، حضرت مولانا محمد ادریس سکھروڈوی، حضرت مولانا بد ر عالم میرٹھی، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، حضرت مولانا مفتی عتیق احمد عثمانی، حضرت مولانا یحیی تھانوی، حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی رحمہم اللہ میں سے ہر ایک اپنی جگہ فضل وکمال میں نمایاں مقام کا حامل تھا، ان بزرگوں کے قدوم میمنت لزوم سے” مدرسہ تعلیم الدین“ ” جامعہ تعلیم الدین“ بن گیا، اس قافلے کی برکتوں کو دیکھنا ہو تو فضلائے جامعہ کی خدمات جلیلہ پر ایک نظر ڈالیے، ان کے کارہائے نمایاں کے بارے میں تفصیل معلوم کیجیے، تب پتہ چلے گا کہ کس طرح چراغ سے چراغ روشن ہوئے، اور خدمت دین متین کی بڑی جماعت تیار ہوئی، شاید دور افق کے پیچھے سے گزرے ہوئے ان بزرگوں کی ارواح یوں مخاطب ہیں  ؎
ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اگر اب بھی نہ کھلتے تو قیامت کرتے
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑدیا
ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے
ہم نے غم کو محبت کا تسلسل جانا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے
”قافلہٴ نور “کی آمد کو سو سال بیت گئے، اس قافلے کے سارے افراد ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے، اجل نے اپنے شکار چن لئے، اور علم وعمل کے آسمانوں کو زمین نے اپنے اندر سمو لیا ؎
 مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تو نے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کیے
آئیے کہ اس قافلے کے چھوڑے ہوئے نقوش کو زندہ وتابندہ کریں، ان کے ماضی کے کارناموں سے اپنی مستقبل کی راہوں کو روشن کریں، اس وقت تاریکیوں کی یلغار ہے، ظلمتوں کی بوچھار ہے، مصائب کی آندھیاں ہیں، مشکلات کے طوفان ہیں، سفینہ ملت ہچکولے کھارہا ہے، ایسے میں اگلوں کا نمونہ ، اسلاف کا کردار، بڑوں اور بزرگوں کا طرز عمل، ہمارے لیے مشعل راہ اور مینارہٴ نور ہے ۔
علامہ انور شاہ کشمیری کی قیادت میں آنے والے قافلے نے صرف تدریس کی مسند کو زینت نہیں بخشی بلکہ ملت کی ہمہ جہت کی خدمت کی طرح ڈالی، آنے والوں کی درد مندی وفکر مندی ، ان کی جہد مسلسل اور کاوشِ پیہم میں بعد والوں کے لیے بڑا سبق ہے، اگر اس سبق کو دہرایا جائے اور” قافلہٴ انور“ کے اوصاف وصفات کے آئینے میں راہِ عمل متعین کی جائے تو فضلائے جامعہ کا دائرہ خدمت بھی وسیع ہوگا اور ان کے فیضان سے ملت سرشار ہوگی۔
کیا اس میں ہمارے لیے نمونہ عمل نہیں ہے کہ خاتم المحدثین حضرت شاہ صاحب ایک طرف مسند درس پر بیٹھ کر ابن حجر، نووی، عینی، عز الدین ابن عبدالسلام اور غزالی ورازی کی یاد تازہ کررہے ہیں اور دوسری طرف ڈابھیل واطراف واکناف کی مسجدوں میں از خود تشریف لے جاکر کسی نماز کے بعد خود سے یہ اعلان فرمارہےہیں کہ ”انور شاہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے، دین کی کچھ بات سنانا چاہتا ہے، آپ تھوڑی دیر کے لیے مجھ سے دین کی باتیں سن لیں“، کیا ارتداد کی لہروں کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی کوششیں اور ۱۹۴۷ء میں لٹی پٹی دلّی کے مسلمانوں کے قدم جمانے اور ان کی باز آباد کاری کے لیے کی جانے والی ان کی کاوشیں اپنے اندر درسِ عزم وعزیمت نہیں رکھتیں؟ کیا صرف مجاہد ملت کی یاد کافی ہے یا پھر مجاہد ملت بننا بھی ہمارے فرض کا حصہ ہے؟ ہر طرف اندھیریاں چھارہی ہیں، ہر سو جہالت ڈیرے ڈال رہی ہے، ان اندھیریوں کو دور کرنے کے لیے کون چراغ جلائے گا؟ ظلمت شب کے خلاف کون اجالوں کا سفیر بنے گا؟ یہ بات تو طے ہے کہ جہاں بارش نہیں ہوتی وہاں کی فصلیں خراب ہوجاتی ہیں، اور جہاں دین کی تعلیم نہیں ہوتی وہاں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں، تو کیا ہم اپنی نسلوں کو برباد ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم گاؤں دیہات میں آباد مسلمانوں کے دین، عقیدے اور ایمان کی حفاظت کی شمع زیادہ سے زیادہ روشن کرنے سے کترارہے ہیں؟ مجاہدِ ملت کے زمانے میں ارتداد کے جو واقعات ہورہے تھے وہ آج کے مقابلے میں کم ، بہت کم تھے، آج تو صورت حال زیادہ بگڑی ہوئی ہے، مسلمان بچیوں کو ارتداد کی لہروں سے بچانا نہایت ضروری ہے، ہمیں نئی نسل کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ دین کی توحید کی قدر وقیمت کیا ہے؟ ساتھ ہی انہیں ان کی عزت وعظمت سے بھی آگاہ کرنا ہوگا، اور یہ بتانا اور کسی کا نہیں، ہمارا فرض ہے کہ ایک مسلمان ماں اگر اپنے دائیں ہاتھ سے جھولے اور پالنے کو حرکت دے سکتی ہے تو اپنے بائیں ہاتھ سے وہ دنیا کو بھی ہلاسکتی ہے۔
قادیانیت کے فتنے نے اگر حضرت شاہ صاحب کے دل کو زخمی کررکھاتھا اور الحاد ودہریت کے مسئلے نے اگر مولانا شبیر احمد عثمانی کے خون جگر کو جلادیا تھا تو آج بھی شکیلیت اور گوہر شاہیت اور دین بیزار لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنے زہریلے سانپ کی طرح پھن پھیلائے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور لوگوں کے ذہن ودل اور افکار وخیالات کو مسموم بنارہے ہیں، دور کہیں سے کانوں میں حضرت شاہ صاحب کی یہ درد بھری آواز آرہی ہے کہ ”گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت کا کام نہ کرسکے “، ضرورت ہے کہ ہم ان فتنوں کے مقابلے اور ان دشواریوں کے سد باب کے لیے آگے بڑھیں اور جھوٹے مدعیان نبوت کا ہر محاذ پر مقابلہ کریں۔
تاریخ کے اوراقِ پریشاں یہ بتاتے ہیں کہ” قافلہٴ انوری “کے اسلاف ایک دوسرے سے برابر مربوط رہے، اور اتحاد فکر وعمل کے ساتھ اکرام واحترام کی روِش پر گامزن ہوئے، انہوں نے اپنے قال وحال سے یہ ثابت کیا کہ ہم ایک ہی کوثر کی موجیں اور ایک ہی لشکر کی فوجیں ہیں، ہم ایک ہی گلشن کے پھول ہیں، اس لیے کہ ہم عاشق رسول ہیں، ان کا یہ کردار وعمل فضلائے جامعہ سمیت سب علماء اور خدامِ دین کے لیے لائق تقلید اسوہ ہے، آپس کے انتشار اور فاصلوں نے ہمیشہ مشکل پیدا کی ہے، یہ سچائی ہے کہ جب تک ہم متحد رہے، زمانہ ہماری ٹھوکروں میں رہا، اور جب ہم منتشر ہوئے تو ہم زمانے کی ٹھوکروں میں آگئے۔
آج ڈابھیل کے صد سالہ اجلاس میں شریک ہوکر ماضی کی روشن تاریخ کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں اور یہ سمجھنے کی بھی کہ جن بزرگوں کی خدماتِ جلیلہ اور مساعی جمیلہ نے نور ونکہت کی کہکشاں روشن کی، ان کے بافیض ہونے کا راز کیا تھا؟ کیا صرف علوم ومعارف میں ان کا امتیازی مقام یا خلق خدا میں بوئے گل کی طرح پھیلی ہوئی ان کی شہرت ومقبولیت؟ یا پھر الگ الگ شعبوں میں کی جانے والی ان کی غیر معمولی کاوش ومحنت اور مثل شمع پگھلنے کی عادت؟ نہیں، اس کا بنیادی سبب تعلق مع اللہ کا جوہر اور محبت الہی کی نعمت ہے، ان کے یہاں دن کی محنت کا سرا، رات کے آنسوؤں سے جڑا ہوا تھا، اور یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو انسان بنادیتی ہے، اور انسان کو مسلمان کا روپ بخشتی ہے، اور مسلمان کو ”سلمان“ بناتی ہے، پھر یہ بھی کہ یہ جوہر گھر بیٹھے ہاتھ نہیں آتا اور نہ یہ گوہر بادشاہ کے خزانے سے میسر ہوتا ہے ؎
تمنا درد دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
صرف ”قافلہٴ انوری“ نہیں، اس کے ورودِ مسعود سے پہلے بھی یہاں مخلص اور باخدا لوگ آباد تھے، خود بانیٴ جامعہ مولانا احمد حسن بھام سملکی رحمۃ اللہ علیہ ایسے مخلص اور ذاکر انسان تھے کہ سوا لاکھ مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھر مدرسے کی بنیاد رکھی اور جب مدرسے کو ضرورت پڑی تو اپنی اہلیہ کے زیورات تک فروخت کردیئے، پھر بعد کے ہر دور میں بھی جامعہ ڈابھیل کے بزرگوں نے علم کے ساتھ ساتھ ذکر سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا اور اپنے سینے کو معرفت کا گنجینہ بنایا، یہاں کی فضاؤں میں جو نورانیت وروحانیت پھیلی ہوئی ہے وہ انہی نفوس قدسیہ کے انفاس قدسیہ کی برکت ہے ؎
بآں گروہ کہ از ساغر وفا مستند
سلام ما برسانید ہر کجا ہستند
آج بھی اس جامعہ میں دیگراہل دل کے علاوہ تاجدارِ اولیاء حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب زید مجدہم ”میخانہٴ معرفت“ اور” دوکانِ دل “سجاکر جلوہ افروز ہیں اور کوئی شک نہیں کہ وہ اس دورِ قحط الرجال میں سلفِ صالحین کی یاد گار اور دین وملّت کی آبرو ہیں، ان کے علم وعمل کی جامعیت گذرے ہوئے بزرگوں کے طرز عمل کا امتداد ہے، ضعف وپیرانہ سالی کے باوجود ان کی فیض رسانی جاری وساری ہے اور ہر اک دل کی یہ دعا ہے کہ ؂
دور میں ساغر رہے گردش میں پیمانہ رہے
مئے کشوں کے سر پہ یارب پیر میخانہ رہے
ساقیا ترے کرم سے دور پر چلتا رہے دور
اور مئے توحید سے لبریز پیمانہ رہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عبداللہ القمیسی ابن تیمیہ بلندی سے تنزلی کی طرف

عبداللہ 1907 میں سعودی عرب کے شہر بریدہ میں پیدا ہوئے،یہ بچپن سے ہی حساس اور بلا کے ذہین تھے -

جوانی تک پہنچتے ان کی صلاحیتوں کے جوہر کھلنے لگے،انہوں نے علمی دنیا میں بھونچال لایا -

1927 میں جامعہ ازہر مصر میں انہوں نے داخلہ لیا اور بیس سال کے اس طالب علم نے ازہر کے فلاسفرز اور اسکالرز کی ناک میں دم کرکے رکھا،انہوں نے ازہر کے نامور سکالر یوسف دجوی کی کتاب کے رد میں “البروق النجدية " کتاب لکھ کر تہلکہ مچا دیا،کتاب عرب دنیا میں پھیل گئی ازہر یونیورسٹی نے ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا،انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا -

ان کی دوسری کتاب “الصراع الإسلام و الوثنية"  اسلام اور نیشنل ازم کا ٹکراو اس کتاب نے تو دھوم ہی مچا دیا -

کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ عرب دنیا میں انہیں ابن تیمیہ ثانی سے پکارا جانے لگا،مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انکی مدح میں امام کعبہ نے خانہ کعبہ میں قصیدہ پڑھا -

علمی حلقوں میں کہا جانے لگا کہ عبداللہ نے یہ کتاب لکھ کر جنت کا مہر ادا کیا ہے -

 عبداللہ القصیمی اسلام کے دفاع میں شہرہ آفاق کتابیں لکھ کر اپنا لوہا منوا چکے تھے،پوری عرب دنیا میں ان کا طوطی بول رہا تھا کہ 

اچانک ان کا دماغ گھوم گیا،یہ 90 ڈگری الٹ ٹریک پہ چڑھ گئے،یہ دائرہ اسلام سے نکل گئے،یہ ملحد بن گئے -

جو شخص زندگی بھر اسلام کی وکالت اور دفاع کرتا رہا تھا اب وہ اپنی صلاحیتوں کو اسلام کے خلاف استعمال کرنے لگ گیا،انہوں نے نماز ،روزہ اور دیگر فرائض کو ٹائم کا ضیاع قرار دیتے کتاب لکھ ڈالی ۔
“هذي هي الاغلال "
انہوں نے لکھا کہ مسلمانوں کے پیچھے رہنے میں نمازوں کے اوقات سبب ہیں،عبادات کو انہوں نے گلے میں پڑی زنجیروں سے تشبیہ دی خدا کے وجود کا انکار کر دیا -

یہ اسی الحاد میں بدبختی کی زندگی مرا -

بدبختی بتا کر نہیں آتی جس کیلئے حرم میں دعا ہوتی تھی اس کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہیں تھا -

عبداللہ القصیمی کے متعلق میں نے پہلی کتاب مسجد نبوی شریف کی لائبریری میں پڑھی تھی،تب میں نے وہ وجوہات جاننے کی کوشش کی جن کے باعث یہ شخص گمراہ ہوگیا،اہل علم نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے -

کسی نے لکھا بیروت میں ایک عیسائی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوا تھا اسکی وجہ سے دماغ خراب ہوگیا -

لیکن سب سے معقول وجوہات قصیمی کے ایک دوست نے لکھی ہیں،ان کے مطابق تین بنیادی وجوہات تھیں جس کے باعث یہ ٹریک سے ہٹ گیا -

پہلی وجہ کبر و غرور یہ اپنے علمی مقام کے آگے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،ان کے اندر میں میں بہت تھی -

دوسری وجہ کثرت بحث و مباحثہ یہ بحث بہت کرتے تھے،یہ ہر چیز کو بحث کے میزان پر رکھتے شک کے ترازوں میں تولتے یہاں تک کہ یہ اپنے وجود پر بھی سوالات اٹھاتے تھے -

تیسری وجہ مخالف فکر کی کتب کا حد سے زیادہ غیر ضروری مطالعہ -

آپ کتنے بھی بڑے فلسفی ،سقراط ،بقراط اور ارسطو کیوں نہ ہوں مت بھولیں کہ دماغ خراب ہونے میں وقت نہیں لگتا ،چنانچہ ان محرکات سے خود کو دور رکھیں جو گمراہی کی طرف لیکر جاتے ہیں -
اور ہر پل اللہ تعالی سے استقامت کی دعا مانگیں،انسان بہت کمزور ہے،اللہ کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہے -
فردوس جمال

سوریہ نمسکار اور وندے ماترم

*سوریہ نمسکار اور وندے ماترم*

اس وقت جب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ باحیات تھے تو تب بھی اسکولوں میں سوریہ نمسکار کرنے اور وندے ماترم گانے کا مسلہ بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھا تھا۔ اور حضرت مولانا رح نے اسکی پرزور مخالفت کی تھی۔ اسی سلسلہ میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی خود دارالعلوم ندوة العلماء لکھنئو پہونچے تھے اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ سے بات کی تھی۔ 

ملاقات کے بعد حضرت مولانا نے جو تاریخی بیان میڈیا کو دیا تھا وہ سنہرے الفاظ میں لکھا گیا اور اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا... یہی ھمارے لیے مشعلِ  راہ ھے ہو سکتا ہے۔ 

"میری قوم کا ھر بچہ تعلیم سے محروم ہو جائے میں اس کو گوارا کرسکتا ھوں،لیکن اسکے عقیدے اور ایمان پر آنچ آیے میں اسکو کبھی برداشت نہیں کر سکتا"

مولانا جلال الدین رومیؒ اور شمس تبریزیؒ عزت صرف اللہ کے ہاتھ ہے۔

مولانا جلال الدین رومیؒ اور شمس تبریزیؒ

ایک رات مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے استاد حضرت شمس الدین تبریزیؒ کو اپنے گھر دعوت دی۔

مرشد شمسؒ تشریف لے آئے۔ کھانے کے سب برتن تیار ہو گئے تو شمسؒ نے رومیؒ سے فرمایا:
“کیا تم مجھے پینے کے لیے شراب لا سکتے ہو؟”

رومیؒ یہ سن کر حیران رہ گئے:
“کیا استاد بھی شراب پیتے ہیں؟”

شمسؒ نے کہا: “ہاں، بالکل۔”

رومیؒ نے عرض کیا: “مجھے معاف کیجیے، مجھے اس کا علم نہیں تھا۔”

شمسؒ نے فرمایا: “اب جان گئے ہو، لہٰذا شراب لا دو۔”

رومیؒ بولے: “اس وقت رات گئے کہاں سے لاؤں؟”

شمسؒ نے کہا: “اپنے کسی خادم کو بھیج دو۔”

رومیؒ نے کہا: “میرے نوکروں کے سامنے میری عزت ختم ہو جائے گی۔”

شمسؒ نے کہا: “پھر خود ہی جا کر لے آؤ۔”

رومیؒ پریشان ہوئے: “پورا شہر مجھے جانتا ہے، میں کیسے جا کر شراب خریدوں؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“اگر تم واقعی میرے شاگرد ہو تو وہی کرو جو میں کہتا ہوں۔ ورنہ آج نہ میں کھاؤں گا، نہ بات کروں گا، نہ سو سکوں گا۔”

استاد کی محبت اور اطاعت میں رومیؒ نے چادر اوڑھی، بوتل چھپائی اور عیسائیوں کے محلے کی طرف چل دیے۔

💠 جب تک وہ راستے میں تھے، کسی کو شک نہ ہوا۔ لیکن جیسے ہی وہ عیسائی محلے میں داخل ہوئے، لوگ حیران ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔

سب نے دیکھا کہ رومیؒ شراب خانے میں گئے اور بوتل خرید کر چادر کے نیچے چھپا لی۔ پھر وہ نکلے تو لوگ اور بھی زیادہ ہو گئے اور ان کے پیچھے پیچھے مسجد تک پہنچ گئے۔

مسجد کے دروازے پر ایک شخص نے شور مچا دیا:
“اے لوگو! تمہارا امام، شیخ جلال الدین رومیؒ، ابھی عیسائی محلے سے شراب خرید کر آ رہا ہے!”

یہ کہہ کر اس نے رومیؒ کی چادر ہٹا دی اور بوتل سب کے سامنے آگئی۔

ہجوم نے غصے میں آکر رومیؒ کے منہ پر تھوکا، انہیں مارا، یہاں تک کہ ان کی پگڑی بھی گر گئی۔

رومیؒ خاموش رہے، انہوں نے اپنی صفائی پیش نہیں کی۔

لوگ اور بھی یقین کر بیٹھے کہ وہ دھوکہ کھا گئے ہیں۔ انہوں نے رومیؒ کو بری طرح مارا اور کچھ نے تو قتل کرنے کا بھی ارادہ کیا۔

🔊 اسی وقت شمس تبریزیؒ کی آواز بلند ہوئی:
“اے بے شرم لوگو! تم نے ایک عالم اور فقیہ پر شراب نوشی کا الزام لگا دیا۔ جان لو کہ اس بوتل میں شراب نہیں بلکہ سرکہ ہے!”

ایک شخص بولا: “میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ شراب خانے سے بوتل لائے ہیں۔”

شمسؒ نے بوتل کھولی اور کچھ قطرے لوگوں کے ہاتھ پر ڈالے تاکہ وہ سونگھ سکیں۔ سب حیران رہ گئے کہ واقعی یہ تو سرکہ ہے!

اصل بات یہ تھی کہ شمسؒ پہلے ہی شراب خانے گئے تھے اور دکاندار کو کہہ دیا تھا کہ اگر رومیؒ بوتل لینے آئیں تو انہیں شراب کے بجائے سرکہ دیا جائے۔

اب لوگ اپنے سر پیٹنے لگے اور شرمندگی کے مارے رومیؒ کے قدموں میں گر گئے۔ سب نے معافی مانگی اور ان کے ہاتھ چومے، پھر آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے۔

رومیؒ نے شمسؒ سے عرض کیا:
“آج آپ نے مجھے کتنی بڑی آزمائش میں ڈال دیا، یہاں تک کہ میری عزت اور وقار میرے مریدوں کے سامنے خاک میں مل گئی۔ اس سب کا کیا مطلب تھا؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“تاکہ تم سمجھ لو کہ لوگوں کی عزت اور شہرت محض ایک فریب ہے۔
کیا تمہیں لگتا ہے کہ ان لوگوں کا احترام ہمیشہ قائم رہتا ہے؟
تم نے خود دیکھا، محض ایک بوتل کے شک پر وہ تمہارے دشمن بن گئے، تم پر تھوکا، مارا، اور قریب تھا کہ جان لے لیتے۔

یہی وہ عزت ہے جس پر تم نازاں تھے، جو ایک پل میں ختم ہو گئی!

آج کے بعد لوگوں کی عزت پر نہ بھروسہ کرنا۔ اصل عزت صرف اللہ کے پاس ہے جو وقت کے ساتھ نہ بدلتی اور نہ مٹتی ہے۔
وہی بہتر جانتا ہے کہ کون واقعی باعزت ہے اور کون جھوٹی عزت کا طلبگار۔
لہٰذا آئندہ اپنی نظر صرف اللہ پر رکھو۔”

---

✨ یہ واقعہ دراصل ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی عزت اور لوگوں کی رائے لمحوں میں بدل جاتی ہے۔ اصل عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو۔

ماں سے بدسلوکی کا انجام

*ماں کے گھر میں بیوی کے ساتھ رہنے والے سب سے بڑے بیٹے نے پہلے اپنی ماں سے یہ اصرار کیا کہ وہ مکان اس کے نام منتقل کر دے، مگر ماں نے انکار کر دیا۔ جب وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوا تو اس نے ایک اور راہ اختیار کی — اپنی بیوی کے سکون کے لیے ماں کو اسی کے گھر سے زبردستی نکال دیا۔*

*ظلم اس حد تک پہنچا کہ وہ اپنی ماں کا سامان بالکونی سے نیچے پھینکنے لگا۔ مگر اللہ کی پکڑ قریب تھی—جس نے ماں پر ظلم کیا، وہ خود اسی لمحے بالکونی سے گر کر زمین پر آ رہا۔ خون بہنے لگا اور زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔ جو شخص ماں کو بےدخل کر کے گھر کا مالک بننا چاہتا تھا، وہ خود قبرستان کا مکین بن گیا۔*

*جس بیوی نے تنہا گھر میں رہنے کی خواہش کی تھی، وہ انجام دیکھ کر اپنے میکے لوٹ گئی، اور جس ماں کو گھر سے نکالا گیا تھا، اللہ نے اُسی گھر میں عزت و وقار کے ساتھ واپس پہنچا دیا۔*

*`اللہ تعالیٰ والدین کے ساتھ بدسلوکی اور ظلم کی سزا دیر سے نہیں دیتا۔`*

*_اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا بِرَّ الْوَالِدَيْنِ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتاً، وَجَنِّبْنَا عُقُوقَهُمَا وَظُلْمَهُمَا، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ._*

ذریعہ معاش اور ہمارے اکابر

*ذریعہ معاش اور ہمارے اکابر* 

پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں پال کر فروخت کیں ، حضرت ابوبکر نے کپڑا ، حضرت عمر نے اونٹ ، حضرت عثمان نے چمڑا اور حضرت علی نے خَود اور زر ہیں فروخت کرکے اپنے گھر کے کچن کو سہارا دیا ۔۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف نے کھجوروں سے ، حضرت ابو عبیدہ نے پتھروں سے ، حضرت سعد نے لکڑی کے برادے سے ،حضرت امیر معاویہ نے اون سے ، حضرت سلمان فارسی نے کھجور کی چھال سے ، حضرت مقداد نے مشکیزوں سے 
اور حضرت بلال نے جنگل کی لکڑیوں سے اپنے گھر کی کفالت کا فریضہ سرانجام دیا ۔۔

امام غزالی کتابت کرتے ، اسحاق بن رہوے برتن بنا تے ، حضرت امام بخاری ٹوپیاں بناتے ،  ، امام مسلم خوشبو بیچتے ، امام نسائی بکریوں کے بچے فروخت کرتے ، ابن ماجہ رکاب اور لگامیں مہیا فرماتے رہے ۔۔

امام حضرت سالم بن عبداللہ بازار میں لین دین کیا کرتے تھے. حضرت ابو صالح سمان روغن زیتون کا کام کیا کرتے تھے ، حضرت امام یونس ، حضرت ابن عبید داؤد ، حضرت ابن ابی ہند،  حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت وثیمہ ریشمی پارچہ کاکام کرتے رہے۔

حافظ الحدیث غندر بصری نے چادروں کا ، امام القراء حمزہ نے زیتون، پنیر اور اخروٹ کا ، امام قدوری نے مٹی کے برتنوں کا ، امام بخاری کے استاد حسن بن ربیع نے کوفی بوریوں کاکاروبار سنبھالا ۔

حضرت امام احمد ابن خالد قرطبی نے جبہ فروش کی ، 
حضرت امام ابن جوزی نے تانبا بیچا ، حافظ الحدیث ابن رومیہ نے دوائیاں ، حضرت ابو یعقوب لغوی نے  چوبی لٹھا ، حضرت محمد ابن سلیمان نے گھوڑے اور مشہور ومعروف بزرگ سری سقطی نے ٹین ڈبے بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کیا !                           *: خوش خبری :* 

*کم سے کم پونجی سے روزگار کے موقعے ـ،
۔ دور نبوت سے لے کر دور صحابہ تک ، تابعین سے آئمہ کرام اور مجتہدین تک *سبھی لوگ کاروبار سے وابستہ رہے ۔۔*

جب اساتذہ روتے ہیں تو مدرسے ویران ہوتے ہیں

جب اساتذہ روتے ہیں تو مدرسے ویران ہوتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عتیق الرحمن الریاضی، استاذ کلیہ سمیہ بلکڈیہوا نیپال
  
(یہ تحریر صرف مضمون نہیں، ایک دل کو جھنجھوڑ دینے والی صدا ہے، جو ہر زندہ ضمیر کو جگائے گی، ان شاءاللہ۔)

مدرسے تو بہت ہیں… مگر بے نور کیوں؟
یہ درد صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو علم کو فقط کتابوں میں نہیں، دلوں میں اُترتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے ۔
آج مدرسے بہت ہی خوبصورت اور عالی شان ہیں، کتابیں سجی ہیں، اساتذہ بھی موجود ہیں، طلبہ بھی نظر آتے ہیں…
مگر ۔۔۔۔۔ نور کہاں ہے؟کہاں گئی وہ روحانیت؟
مدرسے کی عمارتیں بڑی ہو گئیں… پر دل چھوٹے ہو گئے!
پہلے چند کمرے ہوتے تھے، چند چٹائیاں اور ایک خاموش فضا…
وہاں سے امت کے سپاہی نکلتے تھے۔۔۔۔
آج آرام دہ آفسیں ہیں، بڑے ہال، بڑے ادارے، مگر…دلوں میں خشوع نہیں، آنکھوں میں نور نہیں، زبانوں میں سچائی نہیں۔
طلبِ دنیا علم سے زیادہ ہو گئی ہے… علم عمل سے جدا ہو گیا ہے…

محترم قارئین! مدرسہ صرف عمارت کا نام نہیں… مدرسہ ایک روح ہے۔۔۔۔ اگر روح نکل جائے تو دیواریں باقی رہتی ہیں، مگر چراغ بجھ جاتے ہیں۔۔۔‌۔
آج عموما ہمارے مدرسے بے نور ہیں… کیونکہ ہم نے ان کے چراغ — یعنی اساتذہ، ادب، اور اخلاص — کو بجھا دیا ہے۔۔۔۔۔
آج کے اس بےحس دور میں، اساتذہ کی ناقدری و بے توقیری اور ظلم و زیادتی نے وہ زخم دیے ہیں جو نہ صرف دل کو چیرتے ہیں بلکہ قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں۔

استاذ وہ ہستی جو اندھیروں میں چراغ بنتا ہے، جو کچے ذہنوں کو علم، اخلاق، اور کردار کی خوشبو سے مہکاتا ہے، جو مدرسہ کو علم کا گلشن بناتا ہے۔۔۔۔
مگر افسوس! آج یہی استاذ تنہائی، غربت، اور ناقدری کی چادر اوڑھے،کسی سنسان کمرے میں بیٹھا سسک رہا ہوتا ہے…
کبھی کسی استاذ کی آنکھوں میں جھانکو۔۔۔
کبھی اس کی خاموشی کو سمجھو۔۔۔۔
لیکن نہیں۔۔۔۔۔ ہم نے تو استاذ کو "نوکر" سمجھا، "خادم" جانا،
جبکہ وہ تو "رہبر" تھا، "محسن" تھا، "معمارِ قوم" تھا۔
استاذ کی آنکھ میں اگر آنسو ہو… تو سمجھ لو کہ علم رو رہا ہے، شعور سسک رہا ہے، اور قوم بربادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ہم نے قلم اٹھانے والے ہاتھ کو کبھی عزت نہ دی، آج وہ ہاتھ خالی ہیں۔۔۔۔۔۔
کتنے استاذ ہیں جو چپکے سے گھر جاتے ہیں، بچوں کے سامنے تو ہنس لیتے ہیں مگر تنہائی میں جا کر وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی نے سوچا ؟
جو شخص لوگوں کو بولنا سکھاتا ہے،جب اسی پر بےحرمتی کے جملے کسے جاتے ہیں تو وہ کیا محسوس کرتا ہے؟
وہ جو لوگوں کو عزت و احترام کے قابل بناتا ہے،آج اپنی عزت کے چند سکے مانگتا ہے۔۔۔۔۔
وہ جو بچوں کے ذہنوں کو روشن کرتا ہے،آج اپنے دل کی اندھیری راتوں سے ڈرتا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ جو کردار سازی کے لیے خود کو جلاتا ہے۔۔۔۔
آج تنخواہ کی تاخیر، بداحترامی، اور معاشرتی بے حسی کا شکار ہے۔
 ناقدری کی وہ آگ جو کرداروں کو جلا دیتی ہے۔۔۔۔
کبھی استاذ کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھو
وہاں ایک سمندر ہے… جو برسوں سے بہنے کو ترس رہا ہے۔۔۔۔
کبھی اس کے الفاظ میں چھپی تھکن کو محسوس کرو
وہ تھکن صرف جسم کی نہیں… عزت کی بھوک کی بھی ہے۔
 اگر یہ ظلم نہ رکا…؟
اگر آج بھی ہم نے استاذ کی عظمت کو نہ پہچانا،تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے بچے سب کچھ جانتے ہوں گے،مگر کردار، حیا، علم اور ہدایت سے محروم ہوں گے…
تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے عمارتیں تو بنائیں، مگر معمار کو بھوکا مار دیا۔۔۔۔۔۔
قومیں اسکولوں، مدرسوں، اور مکتبوں سے بنتی ہیں،
اور ان اداروں کی بنیاد صرف دیواروں پر نہیں، بلکہ اساتذہ کے اخلاص، صبر، اور قربانیوں پر ہوتی ہے۔
اگر ہم نے استاذ کی قدر کھو دی،تو سمجھو ہم نے اپنا کل برباد کر دیا۔۔۔۔۔
ہم نے اس استاذ کو صرف "مولوی" کہا،کبھی اس کے درد کو نہ جانا،نہ اس کے خالی ہاتھ دیکھے،نہ اس کے دل کا بوجھ سنا…!
ہمیں سوچنا ہوگا، ہمیں بدلنا ہوگا۔
قوم کے ان معماروں کو عزت، محبت اور سہارا دینا ہوگا،تاکہ وہ آئندہ نسل کو سنوار سکیں۔
وہ جنہوں نے سینکڑوں بچوں کے خواب سنوارے،آج وہ خود اپنے بچوں کے لیے دعاؤں کے سہارے جیتے ہیں۔
کیا وہ ہماری محبت، عزت اور عنایت  کے مستحق نہیں؟
کبھی ہم نے غور کیا…؟
ہماری نسلیں جن کندھوں پر سوار ہو کر آسمانوں کو چھوتی ہیں،آج وہی کندھے جھک چکے ہیں…
کیوں؟ کیونکہ ہم نے انہیں وقت پر عزت نہ دی…
آج استاذ اپنی عزت کا سوال کرتا ہے اور جواب میں اسے طنز، تاخیر، اور "صبر کرو" جیسا زہر ملتا ہے۔
 یہ وہ وقت ہے… جب استاذ مر رہا ہے، اور قوم کا مستقبل بغیر کفن کے دفن ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
ہم نے استاذ کو مارا نہیں ۔۔۔۔۔ہم نے صرف اس کی محنت کی قدر نہ کی، اس کی عزت کا تحفظ نہ کیا،اور اس کی زندگی کو بے معنی کر دیا۔۔۔۔
آج کا استاذ صرف تنخواہ سے نہیں مر رہا… وہ اس بےتوقیری، اس نظراندازی،اور اس احساسِ ندامت سے مر رہا ہے کہ اس کی قوم اسے بھول چکی ہے۔۔۔۔۔
 اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی…؟
تو وہ دن دور نہیں جب:‌علم ہوگا، مگر علم والے نہیں ہوں گے، مدرسے ہوں گے، مگر روشنی نہیں ہوگی ، بچے ہوں گے، مگر کردار سے عاری۔۔۔۔۔، قوم ہوگی مگر شعور سے خالی

اے قوم کے باشعور لوگو!
اگر تمہیں روشنی عزیز ہے تو… چراغ جلانے والوں کی حرمت سیکھو۔۔۔۔
اگر تمہیں علم سے محبت ہے تو…علم بانٹنے والوں کے قدموں میں جھکنا سیکھو۔
استاذ کو مت بھولو…
کیونکہ وہی چراغ ہے، جو خود کو جلا کر تمہارے اندھیروں کو روشنی دیتا ہے۔
آئیے! آج ایک عہد کریں…
ہم اساتذہ کے لیے صرف الفاظ سے نہیں، عمل سے عزت کریں گے اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔

اے اللہ!  اساتذہ کے دلوں کو تسکین دے، ان کے رزق میں کشادگی عطا فرما۔
اے رب العزت! ہمیں اس قابل بنا دے کہ ہم اپنے اساتذہ کی قدر کر سکیں، ان سے محبت کریں، ان کی خدمت کریں، اور ان کے احسانات کو یاد رکھتے ہوئے ان کے حق میں ہمیشہ دعاگو رہیں۔
یا اللہ! جن اساتذہ نے ہمیں دین سکھایا، کردار سنوارا، اور صبر سے ہماری تربیت کی… تو ان کے نامۂ اعمال کو نور سے بھر دے، ان کی قبروں کو جنت کے باغات میں تبدیل فرما دے، اور ان پر اپنی رحمت کے ایسے دروازے کھول دے کہ کبھی بند نہ ہوں۔

رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر تک سوناایک تباہ کن روایت، ایک بڑا نقصان

رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر تک سونا
ایک تباہ کن روایت، ایک بڑا نقصان 
 تحریر: عثمان بشیر | آئیڈیل لائف کاؤنسلنگ
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہماری زندگیاں بے ترتیب، بے سکون اور بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟
ہم میں سے اکثر لوگ ایک ایسی عادت کو معمولی سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں جو بظاہر کچھ نہیں… لیکن اندر ہی اندر ہمیں جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر کھوکھلا کر رہی ہے۔
اور وہ ہے رات دیر تک جاگنا اور دن چڑھے تک سونا۔
یہ فقط ایک معمول نہیں — یہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو انسان کو اللہ کے بنائے ہوئے نظامِ فطرت سے کاٹ دیتا ہے۔ اور جب کوئی انسان فطرت سے ٹکرائے، تو اس کے نصیب میں خسارے کے سودے ہی لکھے جاتے ہیں۔

☀️ صبح کی برکت کیوں جاتی رہی؟
ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے:
"دن چڑھے تک سونا نحوست لاتا ہے۔"
اور ہم کہتے ہیں:
"نیند تو نیند ہے… رات کو ہو یا دن کو!"
لیکن فرق ہے… بہت فرق ہے۔
رات کا وقت اللہ کی طرف سے ایک مخصوص روحانی اور جسمانی شفا کا وقت ہے۔ اس وقت میں سونا صرف آرام نہیں — یہ آپ کے لاشعور، جسم اور روح کو اللہ کی طرف سے ملی ہوئی قدرتی تھراپی ہے۔

جن گھروں میں صبح نہیں ہوتی… وہاں برکت نہیں ہوتی
میں نے ان گھروں کو بکھرتے دیکھا ہے جہاں دن ایک بجے ناشتہ ہوتا ہے، رات تین بجے نیند آتی ہے، اور فخر یہ کہ ہم “آزاد” ہیں۔
مگر ان گھروں میں:
ذہنی بیماریاں عام ہیں
دل بوجھل ہیں
بے چینی ہر کمرے میں گھومتی ہے
دعائیں سُنی نہیں جاتیں… کیونکہ سجدے ہی نہیں ہوتے

📉 رات جاگنے کے سائیڈ ایفیکٹس:
📍 جلدی بوڑھا ہونا
📍 یادداشت کمزور ہونا
📍 امیون سسٹم کا تباہ ہونا
📍 مشکلات میں ہمت ختم ہونا
📍 غلط فیصلے کرنا اور ہر بات پر غصہ آنا
📍 ڈیپریشن، اینگزائٹی اور خودکشی کی طرف جھکاؤ بڑھ جانا
یہ سب محض اتفاق نہیں۔ یہ نیند کی بے توقیری کا انجام ہے۔

 کیا آپ جانتے ہیں؟
رات کے پہلے پہر یعنی 1 سے 3 بجے کے درمیان خودکشی کا رسک سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
دماغی بیماریوں کا آغاز اسی وقت میں ہوتا ہے جب انسان کا سونا ختم اور جاگنا شروع ہوتا ہے۔
لاشعور کی مرمت کرنے والا نظام صرف رات میں، اور صرف اندھیرے میں، قدرتی انداز میں فعال ہوتا ہے — اور ہم اسے موبائل کی اسکرین سے جلا دیتے ہیں۔

📿 روحانی نقطۂ نظر:
اللہ نے رات کو سکون، سجدے، اور شفایابی کے لیے بنایا۔
قرآن کہتا ہے:
"اور ہم نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا…"
(سورۃ النبأ، آیت 10)
یعنی رات انسان کی روح اور بدن کے لیے ایک ڈھال ہے۔ جب آپ اس ڈھال کو چھوڑ دیتے ہیں، تو آپ دشمن کے وار کے لیے خود کو ننگا کر دیتے ہیں۔

🔁 اب سوال یہ ہے:
صبح اٹھ کر کرنا کیا ہے؟
اس سے بڑا سوال یہ ہے:
دن چڑھے تک سو کر آخر کرنا کیا ہے؟
پرانے وقتوں کے لوگ بغیر موبائل، بغیر شاپنگ، بغیر نیٹ فلکس کے بھی صبح فجر سے پہلے جاگتے تھے… کیونکہ ان کے دل اللہ سے جڑے ہوتے تھے۔ ہمیں سونا نہیں… واپس آنا ہے۔

✅ آئیڈیل لائف حل: رات کی نیند واپس لائیں
🌙 سونے سے پہلے موبائل بند کریں
🛏️ رات 10 سے پہلے بستر پر چلے جائیں
💧 وضو کر کے سونا شروع کریں
📿 سونے سے پہلے تسبیحات یا دعا پڑھیں
☀️ صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے بیدار ہوں
یہی وہ “ٹرکس” تھے جو "راہِ نور" کے طلال کو بھی سکون کی نیند دے گئے تھے۔

💬 آخر میں… صرف اتنا:
نیند صرف نیند نہیں — یہ آپ کی روح کا علاج ہے۔
جب آپ وقت پر سو جاتے ہیں، تو:
آپ کا زخم بھر جاتا ہے
آپ کی ہمت بڑھ جاتی ہے
آپ کا دل نرم ہو جاتا ہے
اور آپ کا اللہ سے رشتہ بحال ہونے لگتا ہے
لیکن جب آپ وقت پر سونا چھوڑ دیتے ہیں…
تو آپ خسارے کا سودا کر لیتے ہیں۔

تم قبر میں ہزاروں سال تک کیا کرو گے

تم قبر میں ہزاروں سال تک کیا کرو گے

*📝ڈاکٹر مصطفی محمود* لکھتے ہیں:

میں تمہیں ایک *طریقہ* بتاتا ہوں جو میرے ساتھ بہت کارآمد ثابت ہوا اور *جس سے میں اپنے اللہ سے تعلق پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے لگا ہوں۔*

🥀قبر خوفناک ہے، ظاہر ہے کہ نیک لوگوں کے علاوہ۔ 
میں نے اس کے بارے میں سوچا، اور اب میری عمر 54 سال ہے، اور میں دنیا سے اور اس کی چیزوں سے تنگ آ چکا ہوں۔ *اچھا، تو جب میں قبر میں جا کر اکیلا رہوں گا، سینکڑوں ہزاروں سال تک، تو میں کیا کروں گا؟*
*کیا تم نے کبھی اس کا تصور کیا ہے؟*

🗒️اس لیے میں نے مندرجہ ذیل طریقے پر عمل کرنا شروع کیا:

دیکھو میں مر جاؤں گا، اور میرے پاس ایک خالی، بالکل تاریک قبر ہوگی۔ 

*اس قبر کو سامان کی ضرورت ہوگی، لہٰذا میں ہر استغفار کو تصور کرنے لگا جیسے میں اسے اپنے قبر کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ وہاں میرا انتظار کرے اور میرے تنہائی کا ساتھی بنے۔*
اللہ کی قسم، میں مذاق نہیں کر رہا۔ 

*میں نے اپنی قبر کو مکمل ڈیکوریٹ کر دینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔*

*قبر کے ایک کونے کو میں ہزاروں تسبیحات سے بھر* رہا ہوں۔ 

*یہاں میرے سر کے قریب قرآن ہو گا جسے میں روز پڑھتا تھا آرام دہ بستر کا سبب بنیے گا۔*

*ہر رکوع کو میں یہ تصور کر کے ادا کرتا ہوں کہ میں اسے قبر میں اپنا ذخیرہ* بنا رہا ہوں۔ 

ہر کوئی مجھے چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلا جائے گا، شاید ہزاروں سالوں تک قبر میں میں اکیلا رہونگا ۔ میرے بچے چند سالوں میں مجھے بھول چکے ہوں گے۔

*لہذا، مجھے قبر میں ساتھیوں، روشنیوں، اور جنت کے جیسے مناظر کی ضرورت ہوگی۔*

*میں تسبیحات، ذکر، قرآن، نماز اور صدقہ سب کو اپنے ساتھ تصور کرتا ہوں کہ وہ میرے دوست ہوں گے، میرے ساتھ وہاں ہنس رہے ہوں گے اور باتیں کر رہے ہوں گے۔* 

*نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنا میں نے اپنے معمولات کا ایک اہم عمل بنا لیا ہے، یہ وہاں ہماری محفلوں میں بھی شامل ہوگا ٹھنڈے پانی کی طرح، خوبصورت لباس کی طرح۔*

میں یہ چاہتا ہوں کہ میری قبر کی زندگی اس دنیا کی زندگی سے بھی زیادہ خوبصورت زندگی ہو۔ ان شاء اللہ۔

*کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں وہاں جا کر غیبت، چغلی، حسد اور دیگر دنیاوی گناہوں کے نتیجے میں بدبو دار کپڑوں، دیمک لگے فرنیچر اور سخت پتھریلے بستر کے بجائے اپنی قبر کو بہترین چیزوں سے آراستہ کروں۔*

میں نے دنیا میں اپنا گھر بنانے کے لیے ساری زندگی جان توڑ محنت کی لیکن یہ گھر تو میرے ورثاء کا ہوجائے گا، *اصل میں تو میری ساری محنت اپنے لیے ہے ہی نہیں، سارے فائدے تو اور لوگ اٹھائیں گے۔ تو میں نے سوچا کہ بس بہت ہوگیا ہے، مجھے اپنا گھر بنانا ہے جہاں صرف میں ہی ہوں گا اور ایک طویل عرصہ گزارنا ہے*۔

*اگر میرے تمام اعمال دنیا کی ضروریات کے لیے تھے اور اپنی قبر کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، تو پھر تو میرے قبر والے گھر کے لیے سوائے عذاب کے فرنیچر، مستقل اندھیرے، اور سخت حساب کے کچھ بھی نہ ہوگا۔ اور میں ایسے گھر میں اکیلا کیسے رہوں گا!*

میری آپ کو بھی نصیحت یہ ہے کہ آج سے:
*اپنی قبر کو اپنا بینک اکاؤنٹ بناؤ۔ اس میں زیادہ سے زیادہ ڈپازٹ کرو اور لانگ ٹرم والی پالیسی لو۔*

اپنی *عبادات کا خوب خیال* رکھو۔ اللہ کی قسم، جب تم قبر میں ہوگے، تو تم مجھے وہاں سے بھی شکریہ ادا کرو گے۔
*اپنی قبر کے گھر کا اس دنیا کے گھر سے زیادہ خیال رکھو۔* 

ابھی تم اپنے گھر والوں کے درمیان ہو، پہن رہے ہو، کھا پی رہے ہو، آرام سے گھر والوں کے درمیان سو رہے ہو، اور تمہیں تمہاری تمام ضروریات میسر ہیں، *پھر بھی تم اپنے حالت سے نالاں رہتے ہو، ہر وقت کوئی نہ کوئی شکایت کرتے رہتے ہو۔*

*تو سوچو جب تم زمین کے نیچے ہوگے اور سینکڑوں ہزاروں سالوں کے لیے ہوگے تو وہاں تمہارے ساتھ کون ہوگا؟*

تمہارے پسندیدہ سیاستدان، کھلاڑی، اداکار، تاجر۔۔۔۔۔ یہ تو تمہیں یہاں بھی نہیں جانتے اور نہ ہی انہیں تمہاری اتنی فکر ہے، *تم ہی ان سب کے پیچھے بیوقوفوں کی طرح اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔*

*تمہارے وہ بچے جن کی شادیوں پر تم لاکھوں روپے فضولیات پر خرچ کردیتے ہو، یقین کرو یہ خرچ تمہارے لیے وبال بن چکا ہوگا، اور بچے مکر جائیں گے کہ ہمارے باپ نے اور ہماری ماں نے خود ہمارے لیے بھی اور اپنے لیے بھی مصیبت کھڑی کی۔*

لہٰذا، اپنا خیال خود رکھو۔ 

اپنی ہر تسبیح اور ہر عمل کا خیال رکھو اور اس سے کہو کہ *وہ مجھ سے پہلے قبر میں جا کر میرا انتظار کرے۔ میری قبر کو خوشبوؤں سے مہکائے، شاندار باغیچہ بنائے، ہوادار کمرے ہوں، مہنگا ترین فرنیچر ہو، اور میرے ہمدرد دوست ہوں۔*

*ہم وہاں ملیں گے، اور میرا وہ گھر، میرا بہترین ساتھی اور بہترین رہنے کی جگہ ہوگی۔*

 *اللھم، ہمیں حسن خاتمہ عطا فرمائیے* 
 *اللھم، ہماری آخرت کو بہتر بنا دیجیے اور ہمیں قبر کے عذاب سے بچالیجیے* 
*اللھم، ہمیں اپنا ذکر، شکر، اور حسن عبادت کی توفیق عطا فرمائیے، ہم پر اپنی رضا اور جنت الفردوس میں نعمتیں نازل کریں، جہاں ہم نبی محمد ﷺ کی صحبت میں ہوں، جن پر بے شمار درود و سلام ہو۔*

تو پھر اپنا گھر بنانا شروع کردیجیے

*وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری*

*شیخ طریقت عارف بالله حضرت مولانا شاه محمد قمر الزمان صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم* 

*قسط۶*
*وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری*

حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کی دعا دیکھئے ! حضرت سیدنا موسی علیہ السلام فرعون کی طرف جارہے ہیں ، بھیجنے والے اللہ تعالی ہیں ، اللہ ہی کے حکم سے جارہے ہیں ، اور پھر اللہ کی طرف سے معجزات بھی ساتھ لے جارہے ہیں ، آپ کے ہاتھ میں عصا ہے جو اژدہا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور دوسرا معجزہ ید بیضا ہے یعنی ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالئے تو نہایت روشن سفید چمکتا ہوا نکلتا تھا ۔ ہر چیز سے مرصع ہیں لیکن حضرت موسی علیہ السلام کو اس پر ذرا بھی ناز نہیں ہوا غرور نہیں آیا کہ ہم کو اللہ نے معجزات سے نوازا ہے ہم کو کسی چیز کی کیا ضرورت ہے بلکہ جب فرعون کے یہاں جانے لگے تو کہا کہ اے اللہ ! یہ سب معجزات اپنی جگہ پر ہیں لیکن میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ میرے سینے کو کھول دیجئے : رب اشرح لی صدری ويسر لي أمري [ سورة طه : ۲۵ ] اے میرے رب ! میرے سینہ کو کھول دیجئے اور میرے ہر معاملہ کو آسان فرمائیے ۔ 
یہ عصا اسی وقت کام آسکتی ہے جب کہ آپ چاہیں گے ورنہ تو ہم عصا کو پٹکتے رہ جائیں گے اور وہ اژدہ نہیں بنے گی ، وہ بھی اللہ کی تائید ہی سے اژدہا بنتی ہے ، آپ فرعون جیسے جابر و ظالم کے پاس مجھے بھیچ رہے ہیں ، معجزات سے آپ نے نوازا ہے ، عجیب و غریب معجزات سے مشرف فرمایا ہے ۔ تاہم میرے سینے کو میرے لئے علم اور حلم سے کھول دیجئے علم بھی دیجئے اورحلم بھی دیجئے علم اسلئے کہ اس کی روشنی میں اس کو دین و ایمان کی دعوت دوں اور حلم اسلئے کہ اگر وہ فرعون سخت کلامی کرے ، سخت معاملہ کرے تو میں اس کو برداشت کرسکوں ، پس دونوں ہی کی ضرورت ہے ۔

*شرح صدر کا مطلب*
 اس وجہ سے شرح صدر کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ نے بیان القرآن میں لکھا ہے کہ علم بھی وسیع عطا فرمایا اور تبلیغ دین میں مخالفین کی مزاحمت سے ایذا پیش آتا ہے، اس میں تحمل اور حلم بھی دیا تا کہ اپنے کلام میں مزے کے ساتھ مخالفین کونصیحت کرسکیں ۔ علم کے ساتھ حلم کا ہونا ضروری ہے بہت سے لوگ تند مزاج ہوتے ہیں ، ان کے پاس علم تو ہوتا ہے لیکن حلم سے عاری ہوتے ہیں اسلئے اگر وہ کسی کے سامنے صحیح بات رکھیں اور صحیح مقصد کی طرف دعوت بھی دیں لیکن اگر مخاطب بھی تندخو ہو اور اس کی بات نہ مانے بلکہ سخت کلامی کرے تو ایسا شخص برداشت کرسکتا ہے ؟ بلکہ وہ خود اس سے گر جائیگا پھر کسی کی کیسے اصلاح ہوگی ، اسلئے داعی کو حلم کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے ۔ مخاطب تو بگڑا ہوا ہے ہی ، اس کیلئے نرمی کی ضرورت ہے ، اسلئے کہ وہ شریعت کو سخت سمجھ کر شریعت سے بھاگ رہا ہے ، لہذا ایسے موقع پر نرمی سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ تو شریعت کو سخت و کڑوا سمجھ کر دین سے دور ہورہا ہے اس لئے تم کو اپنے کلام میں نرمی اور شیرینی ملا کر دین کو پیش کرنا ہوگا ، ورنہ تو کریلا نیم چڑھا کا مصداق ہو جائیگا ، یعنی ایک تو دین کی کلفت و تلخی پھر تمہارے کلام کی تلخی و سختی ، اس طرح دو تلخی و سختی جمع ہو جائیں گے جس سے مزید دوری ہو جائیگی ، اس کو خوب سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں ، ابھی دیکھئے بیان میں آنے سے قبل موسمبی کا رس پینا چاہا تو وہ ترش معلوم ہوا ، میں نے کہا کہ بھائی یہ تو ترش ہے اور اس میں گل قند ملا دیا جس کی وجہ سے میٹھا ہو گیا ، کتنا خوش گوار ہو گیا اس کے بعد پی لیا ، اسی طریقہ سے کڑوی چیز میں جب شیرینی مل جاتی ہے تو وہ کڑوا پن غائب ہو جاتا ہے ، بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہوجاتے ہیں تو اس کیلئے جو دوا دی جاتی ہے وہ نہایت کڑوی ہوتی ہے اسلئے اسے بتاشہ میں رکھ کر دیتے ہیں تا کہ اسکی کڑواہٹ بچے کو محسوس نہ ہو بلکہ وہ میٹھا معلوم ہو اور باآسانی پی لے ، تو کڑوے کے ساتھ ہمیں میٹھا بننا پڑے گا تب جا کر اصلاح ہوگی ۔ 
ایک مصری عالم علامہ سید علی محفوظ رح “صاحب ابداع “اپنی تصنیف ہدایة المرشدين میں لکھتے ہیں کہ کلفت شریعت کی بناپرلوگ شریعت سے بھاگتے ہیں اگرتم نے اس کے اندر اپنی کلفت کو بھی ملا دیا تو لوگ اور زیادہ بھاگیں گے ، اس بنا پر کلفت کوشرینی سے لذیذ بنادو اور پھر لوگوں کو اپنے قریب کر لواس کے بعدان کے سامنے ٹھنڈے دل سے نرمی سے دین کو پیش کرو ، انشاء الله لوگ ضرور قبول کریں گے ۔ والله الموفق
📚 *🕌﴿☆٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد☆﴾🕌*

مطالعہ نہ کرنے کے 100 نقصانات*

مطالعہ نہ کرنے کے 100 نقصانات

1. جہالت میں اضافہ
2. عقل کا زوال
3. فکری پستی
4. زبان و بیان کی کمزوری
5. تحقیق سے دوری
6. شخصیت میں غیر سنجیدگی
7. فیصلہ سازی کی کمزوری
8. دلیل سے محرومی
9. کمزور حافظہ
10. غیر سنجیدہ گفتگو
11. سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی
12. روحانی کمزوری
13. دینی شعور کی کمی
14. سنت و سیرت سے لاعلمی
15. سطحی ذہنیت
16. جذباتی عدم توازن
17. منفی سوچ کا غلبہ
18. باطل نظریات کا شکار
19. دنیا کے فریب میں کھو جانا
20. زندگی کا مقصد بھول جانا
21. ضیاع وقت
22. سستی و کاہلی
23. تنہائی میں بے چینی
24. بے مقصد گفتگو
25. تخیل کی موت
26. دل کی سختی
27. فرقہ واریت کا شکار
28. شخصیت میں جھجک
29. شکوک و شبہات میں اضافہ
30. فکری غلامی
31. فتنوں کا شکار ہونا
32. دین سے دوری
33. نفاق کی علامات
34. حق و باطل میں تمیز کا فقدان
35. علم دشمنی
36. جاہلانہ انداز
37. تعصب میں شدت
38. سوالات کا سامنا نہ کر پانا
39. عقلی مغالطے
40. خود اعتمادی میں کمی
41. انسانیت سے بے خبری
42. دلائل سے خالی باتیں
43. اصلاح سے نفرت
44. علمی جرأت کا فقدان
45. گفتگو میں بدتمیزی
46. رائے زنی میں جلد بازی
47. معاشرے میں منفی کردار
48. شخصیت کا بکھراؤ
49. تعمیری سوچ کا فقدان
50. نصیحت کا اثر نہ ہونا
51. بات بات پر غصہ
52. دین کا محدود تصور
53. حدیث و قرآن سے ناآشنائی
54. سچائی سے فرار
55. کبر و غرور کا غلبہ
56. ظاہری نمود و نمائش
57. شعور کی کمی
58. فکر و تدبر سے محرومی
59. دینی معاملات میں جہالت
60. علم دشمن طبقے کی پیروی
61. کتابوں سے بے رخی
62. حق کے خلاف بولنا
63. تقلیدی ذہن
64. غلط فتووں کا شکار
65. وقت کی قدر کا فقدان
66. والدین و اساتذہ سے بدتمیزی
67. خود ساختہ دین
68. خواب و خیال میں رہنا
69. علمی مجالس سے دوری
70. قرآن سے انس نہ ہونا
71. شخصیت کا بحران
72. دلائل کے بغیر رائے دینا
73. تبلیغ میں کمزوری
74. قوم کی پستی کا حصہ بننا
75. امت کی فکر نہ ہونا
76. خود غرضی
77. تعمیری تنقید سے دوری
78. تعلیم دشمن سوچ
79. بے مقصد زندگی
80. معاشرتی زوال
81. بچوں کی غلط تربیت
82. استاد سے تعلق کی کمزوری
83. احساسِ برتری یا کمتری
84. معاشرتی تناؤ
85. جھوٹ کا سہارا
86. افواہوں پر یقین
87. سنی سنائی باتوں کا پرچار
88. علمی جرائم
89. قوم کی ترقی میں رکاوٹ
90. عبادت میں بے دلی
91. عقائد کی خرابی
92. شخصیت میں ناپختگی
93. فکری انتشار
94. فحاشی و عریانی کی طرف میلان
95. نظریاتی کمزوری
96. انفرادی و اجتماعی نقصان
97. وقت کا ضیاع
98. نفس پرستی
99. حق سے دوری
100. انسان “انسان” نہیں رہتا۔

علماء کی اصل کمائی: تنخواہ یا ذمہ داری کا احساس

علماء کی اصل کمائی: تنخواہ یا ذمہ داری کا احساس
✒️تحریر: *نجم الثریا* 🌟

ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں اسلام محض رسموں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، روحانیت معدوم، شعائرِ دین کمزور، مساجد سنسان، مدارس خالی، اور نوجوان نسل مغرب زدگی و مادہ پرستی کے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ ہر طرف بے دینی کا طوفان، فحاشی کا سیلاب، ارتداد کا زہر، اور ایمان کا زوال نظر آرہا ہے۔ یہ سب محض اتفاقات نہیں بلکہ ایک بڑی دینی غفلت اور اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ اور اس غفلت میں جس طبقے کی کوتاہی سب سے زیادہ دردناک ہے، وہ ہے علمائے کرام، ائمہ مساجد، اور دینی اساتذہ کا طبقہ۔
*وہ طبقہ جو کبھی امت کے سروں کا تاج ہوا کرتا تھا، جو دلوں کا طبیب، مسجد کا چراغ، قوم کی امید، اور اللہ کے دین کا سپاہی ہوتا تھا، آج بہت بڑی تعداد میں محض ایک تنخواہ دار ملازم بن کر رہ گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "العلماء ورثة الأنبياء، وإن الأنبياء لم یورثوا دینارًا ولا درہمًا، إنما ورثوا العلم، فمن أخذه أخذ بحظ وافر" (سنن ابی داؤد، حدیث 3641)*
علماء انبیاء کے وارث ہیں، ان کا مقام محض درس و تدریس نہیں، بلکہ وہ دین کے علم، دعوت، کردار، تربیت، صبر، قربانی اور اخلاص کے وارث ہیں۔ لیکن جب یہی ورثاء اپنے منصب کو تجارت بنا لیں، اپنے فرائض کو اجرت کے ترازوں میں تولیں، اور دین کی دعوت کو "نوکری" سمجھ لیں، تو پھر دین کی جڑیں کھوکھلی ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
*آج ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی علما، ائمہ، اور دینی اساتذہ ایسے ہیں جو معمولی معمولی بات پر دینی فرائض سے غائب ہو جاتے ہیں۔ تھوڑا سا موسم سخت ہو گیا، طبیعت بوجھل ہوئی، کسی دنیاوی مجلس میں شرکت کا موقع آیا، یا کہیں کسی نے وقت پر کھانا نہ دیا، تو پوری ڈیوٹی سے چھٹی لے لی جاتی ہے۔ مدارس دیر سے آنا، نمازوں میں سستی، جمعہ کا بیان رسمی، محلے کی برائیوں پر خاموشی، طلبہ کی تربیت سے لاپروائی، اور جب توجہ دلائی جائے تو جواب ہوتا ہے: "یہ میرے ذمہ میں نہیں، مجھے اس کا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔"*
*کیا یہی رویہ انبیاء کے وارث کا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے امت کو روشنی ملنی چاہیے تھی؟ قرآن کہتا ہے: "يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ" (سورۃ ھود، آیت 29) (اے میری قوم! میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے۔)*
حضرت نوح، ہود، صالح، شعیب علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو یہی پیغام دیا کہ ہم تمہیں اللہ کے دین کی دعوت کسی دنیاوی فائدے کے لیے نہیں دے رہے۔ اب اگر آج ان کے وارث ہر ہر قدم پر تنخواہ کا تقاضا کریں، اور جس کام میں پیسے نہ ہوں وہ نہ کریں، تو انبیاء کی وراثت کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اسلاف کا حال اس کے بالکل برعکس تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، جو خود بہت بڑے تاجر تھے، نے کبھی دین کی تعلیم کو اجرت سے مشروط نہیں کیا۔ وہ اپنے طلبہ کے اخراجات خود اٹھاتے، ان پر مال خرچ کرتے، اور راتوں کو جاگ کر ان کی اصلاح کی فکر کرتے۔ امام مالکؒ نے خلیفہ وقت کی تنخواہ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ دین کا علم اللہ کے لیے ہے، دنیا کے سودے کے لیے نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی جان، عزت، سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا لیکن حق کے ایک حرف سے پیچھے نہ ہٹے۔
*علامہ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں: "جب علم دنیا کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو علم نور کے بجائے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔"*
آج کے بعض علماء کے رویے بالکل اسی المیے کو ظاہر کرتے ہیں۔ وقت کی پابندی کا حال یہ ہے کہ درس گاہ میں تاخیر، بغیر اطلاع کے غیر حاضری، دینی تقاضوں میں غفلت، اور اخلاص کی کمی ایک عمومی رویہ بن چکا ہے۔ دین کی دعوت اور طلبہ کی تربیت کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ گویا مقصد صرف تنخواہ لینا، اور کام صرف اتنا کرنا ہے جتنا مقرر کیا گیا ہو۔ یہ وہی مزدورانہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے آج علماء کا وقار مجروح ہو رہا ہے اور دین کی برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته" (صحیح بخاری، صحیح مسلم) (تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔)
*علمائے کرام امت کے دینی رہنما، مربی، اور نگہبان ہیں۔ ان کے ایک بول سے نسلوں کا مقدر بدل سکتا ہے، لیکن جب وہی غفلت کے شکار ہوں، تو پھر معاشرہ گمراہی کی طرف نہ بڑھے تو کیا ہو؟ امت کی امانت کو جب محض نوکری بنا دیا جائے تو پھر فتنوں کی یلغار قدرتی ہے۔*
*اس پر بھی غور ضروری ہے کہ علمائے کرام کو جو تنخواہ دی جاتی ہے، وہ عوام کی محنت کی کمائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ رقم ہوتی ہے جو مزدور پسینہ بہا کر کماتا ہے، ریڑھی والا پیٹ کاٹ کر دیتا ہے، غریب لوگ اپنے بچوں کی ضروریات چھوڑ کر مسجد و مدرسہ کے لیے دیتے ہیں۔ یہ پیسہ کوئی سرمایہ دار، جاگیردار، یا حکومت نہیں دیتی، بلکہ وہ محنت کش طبقہ دیتا ہے جو دین سے محبت کرتا ہے، جو امید رکھتا ہے کہ علماء ان کی دینی رہنمائی کریں گے، ان کے بچوں کو سنواریں گے، اور ان کے ایمان کی حفاظت کریں گے۔ اب اگر اس رقم کا بدلہ محض رسمی عمل اور تنخواہ تک محدود خدمات کی صورت میں ملے، تو اللہ کے ہاں اس کی سخت بازپرس ہوگی۔*
قرآن اعلان کرتا ہے: "وَقِفُوهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ" (سورۃ الصافات، آیت 24 (ان کو روک لو، ان سے پوچھا جائے گا۔)
پوچھا جائے گا کہ تم نے دین کے نام پر کیا کمایا؟ کتنے لوگوں کی اصلاح کی؟ کتنی نمازیں وقت پر پڑھائیں؟ کتنے طلبہ کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا کیا؟ کتنے نوجوانوں کو فتنوں سے بچایا؟ اور اگر کچھ نہ کر سکے، تو وہ مزدور کی محنت کی کمائی کا حساب کیا دو گے؟
*اس سب کے ساتھ یہ پہلو بھی توجہ کا طالب ہے کہ دین کی ذمہ داری کو محض کمائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے اگر علمائے کرام اپنی روزی کے لیے تجارت یا کسی اور حلال پیشے کا انتخاب کریں، اور دین کی خدمت کو صرف اللہ کی رضا کے لیے انجام دیں، تو یہ طریقہ ان کے لیے دین و دنیا دونوں میں عزت و سربلندی کا ذریعہ بنے گا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "التاجر الصدوق الأمین مع النبيين والصديقين والشهداء" (جامع ترمذی، حدیث 1209) (سچا اور دیانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔)*
اگر علماء اپنی معاش کا ذریعہ تجارت، زراعت، تدریس یا دیگر حلال شعبے بنائیں، اور دینی خدمات بغیر تنخواہ یا محض معمولی وظیفے پر انجام دیں، تو اس میں ان کے اخلاص، توقیر، اور دینی وقار کا تحفظ ہوگا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے تجارت کی، لیکن علم دین کی خدمت بلا معاوضہ انجام دی۔ حضرت حسن بصریؒ نے کاتبی (Clerical) ملازمت کی، اور دین کی دعوت کا فریضہ عبادت سمجھ کر نبھایا۔
یہی قانون قدرت ہے کہ محنت، دیانت اور لگن کے ساتھ جو دنیاوی میدان میں بھی قدم رکھے گا، اللہ اسے دنیا میں بھی ترقی دے گا اور آخرت میں بھی بلند مقام عطا فرمائے گا۔ دین دار، امانت دار عالم اگر تجارت کرے گا تو وہ عام تاجروں سے آگے نکل جائے گا، اگر وہ کسی سروس یا ملازمت کے میدان میں قدم رکھے گا تو اس کی دیانتداری اور حسنِ کردار اسے دوسروں سے ممتاز کر دے گی۔
قرآن مجید کا صاف اعلان ہے: "وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ، وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ" (سورۃ النجم، آیات 39-40)
"اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی، اور بے شک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔"
*یہی وہ ربانی اصول ہے جس پر دنیا و آخرت کی کامیابیاں قائم ہیں۔ اگر علماء دین محنت و اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت اور دنیا کی تدبیر کو ساتھ لے کر چلیں تو وہ دنیا والوں سے آگے نکل سکتے ہیں، اور ان کے کردار و علم کی روشنی سے معاشرہ بھی منور ہو سکتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے: خلوص، مسلسل جدوجہد، اور اللہ پر یقین۔*
*اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء دین محض مدارس، مکاتب اور مساجد کی محدود تنخواہ پر انحصار کرنے کے بجائے، اگر ضرورت ہو تو کسی مناسب ذریعہ معاش کو اپنائیں، اور دین کی خدمت کو اپنے لیے خالص عبادت بنائیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف دین محفوظ رہے گا، بلکہ علما کا وقار بھی بحال ہوگا، اور وہ امت کی نظروں میں بطور قائد و مربی سرخرو ہوں گے۔*
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے صحیح فہم، اخلاص عمل، اور دین و دنیا دونوں میں کامیابی عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

میاں بیوی کے تعلقات میں کمی کی وجوہات اور علاج

*"جذباتی انقطاع ۔ چپ کا روزہ (Emotional Detachment)" (23)*

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری کی زیر اشاعت کتاب 
*سکون خانہ ۔ازدواجی تنازعات سے رفاقتی ہم آہنگی تک کا شعوری سفرِ A conscious journey from Marital discord to companionate Harmony* 
9224599910
####################

 *جذباتی انقطاع ایک خاموش رکاوٹ*

(Emotional Detachment – A Silent Barrier in Marital Harmony)
✦ تعارف:
ازدواجی زندگی کا اصل حسن "جذباتی قربت" (Emotional Intimacy) میں پوشیدہ ہے ، لیکن جب یہ قربت وقت ، مسائل یا ماضی کی زنجیروں کے باعث ختم ہونے لگے تو رشتہ صرف ایک رسمی معاہدہ رہ جاتا ہے ۔ یہی کیفیت جذباتی انقطاع کہلاتی ہے ، جو کئی جوڑوں میں خاموش تباہی بن کر سرایت کر چکی ہے ۔
✦ تعریف:
> "Emotional Detachment is a psychological condition where a person distances themselves emotionally from others, especially from close relationships, often to protect themselves from pain or vulnerability."

"جذباتی انقطاع ایسی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے شریکِ حیات یا عزیزوں سے جذباتی طور پر کٹ جاتا ہے ، نہ دل کی بات کرتا ہے ، نہ دوسروں کے جذبات کو محسوس کرتا ہے ، نہ ہی تعلق میں دلچسپی لیتا ہے"۔
✦ اسباب:
شمار سبب وضاحت
1 بچپن کی محرومیاں ، جذباتی یا جسمانی نظراندازی کا تجربہ ۔
2 ازدواجی زخم ، مسلسل بے عزتی ، جھگڑے ، یا نظراندازی ۔
3 نفسیاتی بیماری ڈپریشن، اینگزائٹی ، یا (PTSD ) Post Traumatic Strees Disirder اس میں دماغی صدمہ یا تکلیف ، خوف ناک خواب ، شدید بے چینی ، جذباتی بے حسی ، چڑچڑاپن ، شدید غصہ ، آتا ہے ۔ علاج کے لیے CBT ادویات میں ہے ۔
4 دفاعی رویہ خود کو مزید زخموں سے بچانے کی کوشش ۔
5 جدید لائف اسٹائل ڈیجیٹل مصروفیت ، تنہائی ، ورک پریشر ۔
✦ علامات :
* جذباتی اظہار کا فقدان ۔
* تنہائی پسندی ۔
* شریکِ حیات کے جذبات کو نظرانداز کرنا ۔
* جسمانی قربت سے دوری ۔
* گفتگو میں سرد مہری ۔
* رشتے میں بیزاری ۔
*✦ اسلامی نقطۂ نظر :*
> "وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً"
"اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔"
(سورہ روم: 21)
> "مومن مومن کا آئینہ ہے۔"
(ابو داود)
"بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہترین ہو۔"۔ (ترمذی)
اسلام جذباتی تعلق ، حسنِ سلوک ، اور دلجوئی پر زور دیتا ہے ۔ جذباتی انقطاع تعلقات کو سرد اور بے روح بنا دیتا ہے ، جو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے ۔
✦ سائنسی و نفسیاتی تحقیق :
🔹 ڈاکٹر جان گاٹ مین کے مطابق، "خطرناک رشتے وہ ہوتے ہیں جن میں 'Emotional Withdrawal' یعنی جذباتی پیچھے ہٹنا موجود ہو۔"
🔹 Harvard Medical Review میں شائع تحقیق کہتی ہے:

> "Emotional neglect is more harmful than verbal abuse in long-term relationships."
پھر یہ دل کیوں اداس ہے ؟"
> "You can be married and still feel incredibly alone."
— Esther Perel

✦ جدول : جذباتی تعلق بمقابلہ جذباتی انقطاع
  --پہلو جذباتی تعلق جذباتی انقطاع ۔
بات چیت کھلی ، محبت بھری محدود یا سرد ۔
جذبات کا تبادلہ - روزمرہ کا معمول تقریباً ناپید ۔
جسمانی زبان ، قربت ، لمس سے گریز ، لاتعلقی ہے ۔
اعتماد مضبوط - کمزور یا ختم
✦ سوالنامہ برائے تشخیص (Self-Assessment Quiz) :

اپنے تعلق کی کیفیت جاننے کے لیے ہر سوال کا جواب دیں (ہاں / نہیں) ۔
1. کیا آپ شریکِ حیات کے ساتھ دل کی بات کرتے ہیں ؟
2. کیا آپ کو اس کے احساسات سمجھ آتے ہیں ؟
3. کیا وہ آپ کے جذبات کا احترام کرتا / کرتی ہے ؟
4. کیا آپ ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں؟
5. کیا آپ دونوں کے درمیان ہمدردی ہے؟
🔸 4 سے زائد "نہیں" کا مطلب ہے ۔ جذباتی انقطاع کا خطرہ موجود ہے ۔
✦ عملی مشقیں (Practical Exercises):
1. "روزانہ پانچ منٹ کا جذباتی رابطہ":
دن میں صرف پانچ منٹ بغیر موبائلب، صرف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں ۔
2. "دل کی ڈائری":
ہر رات لکھیں: آج میں نے اپنے شریکِ حیات سے کیسا برتاؤ کیا ؟
3. "شکرگزاری کی مشق :
ہر روز ایک خوبی اس کی لکھیں یا بولیں ۔
✦ کیس اسٹڈی :(13)
❖ کیس: "خاموش دیواریں"
نام: رضوان اور حنا( نام بدل کر)
مسئلہ: شادی کے 8 سال بعد دونوں میں بات چیت کم ہو گئی ۔ حنا احساس کرتی ہے کہ رضوان اس سے بات نہیں کرتا ، اس کی بات کو سنتا نہیں ، صرف بچوں یا گھر کی ضرورت پر ہی بولتا ہے ۔
*تجزیہ: Analysis* 
 رضوان بچپن میں ایک جذباتی طور پر سرد ماحول میں پلا ۔ شادی کے بعد شروع میں بہتر تھا ، لیکن جب بچوں کی ذمہ داریاں اور مالی دباؤ بڑھا تو وہ اندرونی طور پر کٹتا چلا گیا ۔
*علاج: Therapy* 
* کاؤنسلنگ سیشن
* مشترکہ وقت
*جذباتی مشقیں
* اسلامی تعلیمات کا مطالعہ
* نتیجہ : تین ماہ کی تھراپی کے بعد جذباتی تعلق بحال ہونا شروع ہوا ۔
✦ علاج و مشاورت (Counseling & Healing Steps) :
1. کمیونیکیشن تھراپی
2. کپل تھراپی spouse 
3. اسلامی روحانی مشقیں
4. Mindfulness and Emotional Intelligence Training
5. معاف کرنے کی طاقت پیدا کرنا ۔
6. ✦ نتیجہ:
جذباتی انقطاع کو نظرانداز کرنا تعلق کے زوال کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اگر بروقت توجہ دی جائے ، تو محبت کی وہی روشنی دوبارہ جگائی جا سکتی ہے ۔ ازدواجی رشتے دل کے رشتے ہوتے ہیں . جب دل بند ہو جائے تو رشتہ باقی نہیں رہتا ۔ زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ وہ ہوتا ہے ، جب شوہر اور بیوی بنا کچھ کہے ایک دوسرے کی کیفیت سمجھ جاتے ہیں ۔
*"جذباتی ہم آہنگی کا مطلب ، میں تمہیں سمجھتا ہوں کہنا نہیں ۔ بلکہ واقعی سمجھئا اور محسوس کرنا ہے ۔"*

نہ ہم سفر سے نہ ہم نشیں سے نکلے گا 

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہم ہی سے نکلے گا

دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ ۔ بیٹی کی اہمیت سمجھے😭

دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ😭
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہو کر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔ آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حیسن نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کر دے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچا لے۔ رات کو آپ نے دعا فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ 
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛ اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لے کر آئے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر توحید و رسالت کے بارے میں حضرت دحیہ قلبی کو بتایا۔ حضرت دحیہ نے کہا؛ اللہ کے نبی میں مسلمان تو ہو جاؤں لیکن ایک بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے ایک گناہ میں نے ایسا کیا ہے کہ آپ کا اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا؛ اے دحیہ بتا تونے کیسا گناہ کیا ہے؟ تو حضرت دحیہ قلبی نے کہا؛ یا رسول اللہ میں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔ اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کیا جاتا ہے۔ میں کیونکہ قبیلے کا سردار ہوں اس لیے میں نے ستر گھروں کی بیٹیوں کو زندہ دفن کیا ہے۔ آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوئے؛ 
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اسے کہیں اب تک جو ہو گیا وہ ہو گیا اس کے بعد ایسا گناہ کبھی نہ کرنا۔ ہم نے معاف کر دیا ۔
حضرت دحیہ آپ کی زبان سے یہ بات سن کر رونے لگے۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ اب کیا ہوا ہے؟ کیوں روتے ہو ؟ حضرت دحیہ قلبی کہنے لگے؛ یا رسول اللہ، میرا ایک گناہ اور بھی ہے جسے آپ کا رب کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ کیسا گناہ ؟ بتاؤ ؟ 
حضرت دحیہ قلب فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ، میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے کسی کام کی غرض سے دوسرے ملک جانا تھا۔ میں نے جاتے ہوئے بیوی کو کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اگر بیٹی ہوئی تو اسے زندہ دفن کر دینا۔ دحیہ روتے جا رہے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ میں واپس بہت عرصہ بعد گھر آیا تو میں نے دروازے پر دستک دی۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون؟ میں نے کہا: تم کون ہو؟ تو وہ بچی بولی؛ میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں۔ آپ کون ہیں؟ دحیہ فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، میرے منہ سے نکل گیا: اگر تم بیٹی ہو اس گھر کے مالک کی تو میں مالک ہوں اس گھر کا۔ یا رسول اللہ! میرے منہ سے یہ بات نکلنے کی دیر تھی کہ چھوٹی سی اس بچی نے میری ٹانگوں سے مجھے پکڑ لیا اور بولنے لگی؛ بابا بابا بابا بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ بابا میں کس دن سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ حضرت دحیہ قلبی روتے جا رہے ہیں اور فرماتے ہیں؛ اے اللہ کے نبی! میں نے بیٹی کو دھکا دیا اور جا کر بیوی سے پوچھا؛ یہ بچی کون ہے؟ بیوی رونے لگ گئی اور کہنے لگی؛ دحیہ! یہ تمہاری بیٹی ہے۔ یا رسول اللہ! مجھے ذرا ترس نہ آیا۔ میں نے سوچا میں قبیلے کا سردار ہوں۔ اگر اپنی بیٹی کو دفن نہ کیا تو لوگ کہیں گے ہماری بیٹیوں کو دفن کرتا رہا اور اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ حضرت دحیہ کی آنکھوں سے اشک زارو قطار نکلنے لگے۔ یا رسول اللہ وہ بچی بہت خوبصورت، بہت حیسن تھی۔ میرا دل کر رہا تھا اسے سینے سے لگا لوں۔ پھر سوچتا تھا کہیں لوگ بعد میں یہ باتیں نہ کہیں کہ اپنی بیٹی کی باری آئی تو اسے زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟ میں گھر سے بیٹی کو تیار کروا کر نکلا تو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ لیے۔ دحیہ نہ مارنا اسے۔ دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ 
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ میں نے بیوی کو پیچھے دھکا دیا اور بچی کو لے کر چل پڑا۔ رستے میں میری بیٹی نے کہا؛ بابا مجھے نانی کے گھر لے کر جا رہے ہو؟ بابا کیا مجھے کھلونے لے کر دینے جا رہے ہو؟ بابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دحیہ قلبی روتے جاتے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ یا رسول اللہ ! میں بچی کے سوالوں کاجواب ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ پوچھتی جا رہی ہے بابا کدھر چلے گئے تھے؟ کبھی میرا منہ چومتی ہے، کبھی بازو گردن کے گرد دے لیتی ہے۔ لیکن میں کچھ نہیں بولتا۔ ایک مقام پر جا کر میں نے اسے بٹھا دیا اور خود اس کی قبر کھودنے لگ گیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دحیہ کی زبان سے واقعہ سنتے جارہے ہیں اور روتے جا رہے ہیں۔ میری بیٹی نے جب دیکھا کہ میرا باپ دھوپ میں سخت کام کر رہا ہے، تو اٹھ کر میرےپاس آئی۔ اپنے گلے میں جو چھوٹا سا دوپٹہ تھا وہ اتار کر میرے چہرے سے ریت صاف کرتے ہوئے کہتی ہے؛ بابا دھوپ میں کیوں کام کر رہے ہیں؟ چھاؤں میں آ جائیں۔ بابا یہ کیوں کھود رہے ہیں اس جگہ؟ بابا گرمی ہے چھاؤں میں آ جائیں۔ اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جا رہی ہے۔ لیکن مجھے ترس نہ آیا۔ آخر جب قبر کھود لی تو میری بیٹی پاس آئی۔ میں نے دھکا دے دیا۔ وہ قبر میں گر گئی اور میں ریت ڈالنے لگ گیا۔ بچی ریت میں سے روتی ہوئی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرے سامنے جوڑ کر کہنے لگی؛ بابا میں نہیں لیتی کھلونے۔ بابا میں نہیں جاتی نانی کے گھر۔ بابا میری شکل پسند نہیں آئی تو میں کبھی نہیں آتی آپ کے سامنے۔ بابا مجھے ایسے نہ ماریں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ریت ڈالتا گیا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بھی ترس نہیں آیا۔ میری بیٹی پر جب مٹی مکمل ہو گئی اور اس کا سر رہ گیا تو میری بیٹی نے میری طرف سے توجہ ختم کی اور بولی؛ اے میرے مالک میں نے سنا ہے تیرا ایک نبی آئے گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا۔ جو بیٹیوں کی عزت بچائے گا۔ اے اللہ وہ نبی بھیج دے بیٹیاں مر رہی ہیں۔ پھر میں نے اسے ریت میں دفنا دیا۔ حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ واقعہ سناتے ہوئے بے انتہا روئے۔ یہ واقعہ جب بتا دیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنا رو رہے ہیں کہ آپؐ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے گیلی ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا؛ دحیہ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ۔ اس بیٹی کا واقعہ جو مجھ محمد کے انتظار میں دنیا سے چلی گئی۔ آپؐ نے تین دفعہ یہ واقعہ سنا اور اتنا روئے کہ آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رونے لگ گئے اور کہنے لگے؛ اے دحیہ کیوں رلاتا ہے ہمارے آقا کو؟ ہم سے برداشت نہیں ہو رہا۔ آپؐ نے حضرت دحیہ سے تین بار واقعہ سنا تو حضرت دحیہ کی رو رو کر کوئی حالت نہ رہی۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام حاضر ہوئے اور فرمایا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! دحیہ کو کہہ دیں وہ اُس وقت تھا جب اس نے اللہ اور آپؐ کو نہیں مانا تھا۔ اب مجھ کو اور آپ کو اس نے مان لیا ہے تو دحیہ کا یہ گناہ بھی ہم نے معاف کر دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی کفالت کی، انہیں بڑا کیا، ان کے فرائض ادا کیے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہو گا جس طرح شہادت کی اور ساتھ والی انگلی آپس میں ہیں. 
۔
جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اس کی یہ اہمیت ہے تو جس نے تین یا چار یا پانچ بیٹیوں کی پرورش کی اس کی کیا اہمیت ہو گی؟ 
بیٹیوں کی پیدائش پر گھبرایا نہ کریں انہیں والدین پر بڑا مان ہوتا ہےاور یہ بیٹیاں اللہ کی خاص رحمت ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی کہ موجودہ دور کے اسلامی ممالک، درحقیقت کتنے "اسلامی" ہیں؟بڑے حیرت کی بات ہے

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی کہ موجودہ دور کے اسلامی ممالک، درحقیقت کتنے "اسلامی" ہیں؟

جب انہوں نے یہ جانچنا چاہا کہ کون سے ممالک اسلام کے ریاستی اور سماجی اصولوں پر عمل کرتے ہیں، تو حیران کن طور پر یہ انکشاف ہوا کہ جو ممالک عملی زندگی میں اسلامی اصولوں پر کاربند ہیں — وہ دراصل "مسلمان ممالک" نہیں ہیں۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی:

👉 دنیا میں سب سے زیادہ اسلامی اصولوں پر عمل کرنے والا ملک نیوزی لینڈ ہے۔
اس کے بعد لکسمبرگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک اور ساتویں نمبر پر کینیڈا آتا ہے۔

جبکہ
👉 ملائیشیا 38ویں، کویت 48ویں اور بحرین 64ویں نمبر پر ہیں۔
اور حیران کن بات یہ ہے کہ
👉 سعودی عرب 131ویں نمبر پر ہے،
جبکہ بنگلہ دیش بھی سعودی عرب سے نیچے آتا ہے۔

یہ تحقیق "گلوبل اکانومی جرنل" میں شائع ہوئی تھی۔


اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا:

🔹 مسلمان افراد نماز، روزہ، سنت، قرآن، حدیث، حجاب، داڑھی اور لباس پر تو بہت زور دیتے ہیں،
مگر ریاستی، سماجی اور تجارتی زندگی میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔

مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی تقاریر، وعظ، نصیحتیں سنی جاتی ہیں،
لیکن آج تک کوئی بھی مسلم ملک دنیا کا بہترین، منصفانہ اور ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکا۔

ایک سادہ حساب کے مطابق:
👉 ایک عام مسلمان نے گزشتہ 60 سالوں میں تقریباً 3000 جمعہ کے خطبے سنے ہوں گے،
مگر پھر بھی سماجی انصاف اور عدل میں مسلمان دنیا سب سے پیچھے ہے۔


ایک چینی تاجر کا بیان:

"مسلمان تاجر ہمارے پاس آکر جعلی اور نقلی چیزیں بنانے کا آرڈر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر مشہور کمپنی کا لیبل لگا دو۔
لیکن جب ہم انہیں کھانے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: ’یہ حلال نہیں ہے، میں نہیں کھاؤں گا۔‘
تو سوال یہ ہے: کیا جعل سازی اور دھوکہ دہی حلال ہے؟"


ایک جاپانی نومسلم کہتا ہے:

"میں نے مغربی ممالک میں غیر مسلموں کو اسلامی اصولوں پر عمل کرتے دیکھا ہے،
اور مشرقی ممالک میں اسلام دیکھا ہے، مگر مسلمان نہیں دیکھے۔
الحمد للہ! میں نے اس فرق کو پہچان کر اسلام قبول کیا۔"


اسلام صرف نماز اور روزے کا نام نہیں ہے،
بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،
جس کا اظہار ہمارے باہمی رویے، معاشرت، کاروبار اور انصاف میں بھی ہونا چاہیے۔


نیکی کا ظاہر ہونا، نجات کی ضمانت نہیں:

کوئی شخص جلدی جلدی نماز پڑھے اور اس کے ماتھے پر نشان ہو،
یہ ضروری نہیں کہ وہ اللہ کی نظر میں نیک ہو
یہ ریا کاری (دکھاوا) بھی ہو سکتا ہے۔


رسول اللہ ﷺ کا فرمان:

"اصل مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز، روزہ، حج اور صدقے کے ساتھ آئے گا،
مگر اس نے کسی پر ظلم کیا ہوگا،
کسی کی عزت پامال کی ہوگی،
کسی کا مال غصب کیا ہوگا،
تو اس کے نیک اعمال مظلوموں کو دے دیے جائیں گے،
اور جب اعمال ختم ہو جائیں گے،
تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال کر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔"


اسلام کے دو بنیادی حصے:

  1. ایمان — یعنی زبان سے کلمہ پڑھنا۔
  2. احسان — یعنی کردار، سلوک اور سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی۔

جب تک یہ دونوں اکٹھے نہیں ہوں گے، اسلام مکمل نہیں ہوگا۔
اور یہی نامکمل پن آج ہر مسلم ملک میں نظر آتا ہے۔


🧭 ذاتی عبادات — جیسے روزہ، نماز — اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہیں،
مگر سماجی انصاف، حقوق کی ادائیگی اور دیانتداری — یہ معاشرے کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہے۔

اگر مسلمان اپنے شخصی اور اجتماعی رویے میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کریں گے،
تو مسلم معاشرہ زوال پذیر اور ذلت کا شکار ہوتا رہے گا۔


لارڈ برنارڈ شا کا قول:

"اسلام سب سے بہترین مذہب ہے،
اور مسلمان اس کے سب سے بدترین پیروکار ہیں۔"


📿 اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اسلام کا دعوے دار نہ بنائے،
بلکہ اسلام پر عمل کرنے والا سچا مسلمان بنائے — آمین۔ 🤲


ایران اسرا ئیل جنگ میں یقیناً ہم اسر ائیل کو تباہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں

ایران اسرا ئیل جنگ میں یقیناً ہم اسر ائیل کو تباہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں.

یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے ایرانی روافض  نے پچھلی چند  دہائیوں میں 20 لاکھ سے زائد اہل السنہ کا قتل عام کیا، اہل السنہ کی قوت کو ریزہ ریزہ کر دیا جس کی وجہ سے آج اسرا ئیل اتنا طاقتور بن گیا،اگر ایران اتنا اسلام کا ہمدرد ہوتا تو اس وقت اسرا ئی ل کو نشانہ بناتا بجائے حمص و حلب و درعا و ادلب و یمن و اعراق  کے اہل السنہ پہ خون کی ہولی کھیلنے کے،جب اپنے سر پہ آئی تو اپنے دفاع کیلئے بڑے بڑے میزائل نکل آئے،اس ظالم نے صرف اپنے خمینی جعفری رافضی دین کے نفاذ کیلئے مبارک دین اسلام و اہل السنہ کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا اتنا بڑا نقصان اسرا ئیل نہ پہنچا سکا ،ان کی آج بھی ویڈیوز موجود ہیں جن میں کہتے تھے ہم مکہ پہ جاکر قابض ہوجائیں گے،خانہ کعبہ کو گرائیں گے نعوذباللہ اور سنیوں کا خاتمہ کریں گے ،اسر ا ئیل تو القدس کو گرانا چاہتا ہے لیکن ایرانی روفض نے مکہ مکرمہ کو گرانے کے عزائم کیے تھے جسے رب نے ناکام بنایا الحمدللہ 

اس کے علاوہ یہ بدبخت قرآن مقدس کو مکمل نہیں سمجھتے کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی مرضی سے بدل دیا تھا نعوذباللہ،یہ بدبخت شیخین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے منکر ہیں، انکی نماز الگ ہے، ان کا کلمہ الگ  ہے،کہاں سے مسلمان و اسلامی ہوگئے..... ؟؟؟ یہ دینِ اسلام ہے یہاں یا تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم رہیں گے یا پھر راوفض اور یقینا روافض نہیں رہ سکتے کیوں کہ قیامت کی صبح تک اسلام ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم کا ہے 

امام ابن تیمیہ رح کے بقول روافض یہو د کے گدھے ہیں جن کے ذریعے وہ اسلام و اہل السنہ کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کا قتل عام کرتے ہیں، یقینا کبھی گدھا بھی غصے میں آکر اپنے آقا کو پچھلی ٹانگیں مار دیتا ہے کبھی آقا بھی ڈنڈا لے کر اپنے گدھے کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے یہ تو چلتا رہتا ہے 

آج کچھ گدھے دماغ ایران اسر ا ئیل جنگ کو اسلام و عقیدہ کی جنگ کہ رہے ،اسلام و عقیدہ کی جنگ میں مدد و نصرة رب سے مانگی جاتی ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ،نہ کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم و امی عائشہ رضی اللہ عنھا و دیگر صحابہ کرام کو گالیاں بک کر نعوذباللہ 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر شخصیت و مبارک صحابی ہیں جن کی رائے اور مشورے کو رب تعالی قرآن بنا دیتے تھے (قربان جاؤں میں ان کی ناموس پہ) آج قاتل عمر ابولولو فروز ملعون کا مزار ایران میں ہے،اس ملعون کو حکومتی سرپرستی و اعزاز و تحفظ حاصل ہے کہ اس نے رب کے محبوب عمر کو ممبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہ خنجروں کے وار سے شہید کیا تھا، لعنت ہو رب کی ایسی سرزمین و حکومت  پہ جہاں اس ملعون کا مزار ہے 

یہ رب متعال کا وعدہ ہے وہ ایک متعین وقت تک ظالم کو چھوٹ دیتا ہے لیکن اس متعین گھڑی کے بعد اس پہ اپنے قہر کی صورت میں بڑا ظالم مسلط کر دیتا ہے

آج امت کے کچھ دیندار کی  یہی جہالت ہے ،جدھر نفس گھماتا ہے سب کچھ ماضی بھول کر وہاں گھوم جاتی ہے 

ہم نے اتنا کہا کہ " جنگ میں رب العالمین سے مدد مانگی جاتی ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنھم سے،کچھ بدعقیدہ حضرات کو برا لگ گیا،ایسے بدعقیدہ حضرات کی رب اصلاح فرمائے جن کے ہاں توحید و ناموس صحابہ کرام رض و ناموس امی عائشہ رضی اللہ عنھا اتنی سستی ہے " اگر اصلاح نہیں تو بھاڑ میں جائیں ہماری پروفائل پہ کیا کررہے ہو.......

جان لو ہماری دوستی و دشمنی کی بنیاد توحید ہے عقیدہ الولاء والبراء ہے الحمدللہ

اگر آپ چاہتے ہیں صحت ۔۔۔۔

.

💢 *اگر آپ چاہتے ہیں ....👇🏻*

*صحت :*
پیر اور جمعرات کو روزہ رکھیں۔

*تندرستی :*
ایام بیض ( ہر قمری مہینے کی 13، 14، 15 تاریخ) کے روزے رکھیں۔

*خوشی :* 
روزانہ قرآن کی تلاوت کریں۔

*چہرے کا نور :* 
رات کے قیام میں چاہے دو رکعت ہی سہی
اطمینان قلب اللہ کا کثرت سے ذکر کریں
مال اور اولاد کثرت سے استغفار کریں۔

*غم کا خاتمہ:*
کثرت سے دعا و استغفار کریں۔

*مصیبتوں کا خاتمہ :*
لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیں۔

*برکت :*
زیادہ سے زیادہ  نبی کریم ﷺ پر درود بھیجیں۔

*بلا کا دفع ہونا:* 
صدقہ دیں چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔

*اللہ کی محبت :*
والدین سے حسن سلوک کریں۔

*اللہ کی معافی :*
جس نے تم پر ظلم کیا اسے معاف کرو۔

*اللہ کی رحمت :*
زمین والوں پر رحم کرو

*اللہ کی رضا اور جنت :*
وقت پر توبہ اور نماز پڑھو۔

*حسن خاتمہ :*
لا إله إلا الله کا کثرت سے ورد کرو

کہیں آپ اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ پیشکش/ م۔ م۔ ق۔ ن

کہیں آپ اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ 
پیشکش/ م۔ م۔ ق۔ ن 

نرگسیت ایک خوف ناک مرض
نرگسیت کے شکار ہوں تو کسی سائیکالوجسٹ سے ضرور علاج کرائیں
نرگسیت کیا ہے؟
اپنی اہمیت کا حد سے زیادہ احساس یا اپنی قابلیت اور صلاحیت سے زیادہ اہمیت کی تمنا کرنا نرگسیت کہلاتا ہے ۔
 یہ ایک بے حد خوف ناک بیماری ہے،جس کو نارسیسٹک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر (این پی ڈی) کہا جاتا ہے۔یعنی یہ خیال ہونا کہ آپ بہت اہم ہیں۔
آپ اس ڈس آرڈر کے شکار ہیں یا نہیں؟اس کو سمجھنے کے لیے آپنے آپ میں غور کرنا ہوگا کہ آپ میں یہ عوارض قبیحہ تو نہیں پائے جاتے ہیں۔اگر ان میں سے دو فاسد عوارض ہیں تو فورا کسی سائیکائٹرسٹ (Psychiatrist سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ورنہ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ یہ مرض بڑھاپا کو بے حد مشکل بنا دیتا ہے۔ہر قریبی انسان کو اس بوڑھے انسان سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔
نرگسیت کے عوارض فاسدہ
ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی کے مطابق اس بیماری کو پرکھنے کے نو نکات ہیں:
1- اپنی اہمیت کا انتہائی احساس
2- اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا
3ـ سراہے جانے کی حد سے زیادہ طلب
4- ہمدردی کے احساس کی کمی
5- ہر ایک پر رشک کرنا
6- مغرور اور گھمنڈی رویے رکھنا
7ـ ہر جگہ نمایاں رہنے کی تڑپ
8- تصویر میں بنے رہنے کی لت
9- کسی کی بات مکمل سمجھنے سے پہلے قطع کلام کرتے ہوئےاپنی بات شروع کر دینے کی لت۔
(رپورٹ بی بی سی)
یہ نو عوارض ہیں ،جن میں سے دو عوارض کسی میں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوپر نرگسیت کا حملہ ہو چکا ہے۔اسے جلد اس خوف ناک بیماری کے متعلق بے سنجیدہ ہو جانا چاہیے۔اگر دو سے زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں تو اسے سائکا ئٹرسٹ کی مکمل نگرانی کی سخت ضرورت ہے۔
اس بیماری کا اثر اس مریض کی سماجی زندگی پر پڑتا ہے۔اس مریض کی اولاد اور اس کے قریبی متعلقین پر بھی اس کے نرگسی رویوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان اس مریض کے بڑھاپے اور بیکاری کی زندگی پر پڑتا ہے۔ایسے مریض سے ہر شخص بلکہ اس کے قریب ترین لوگوں کو شدید نفرت ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے اس کا بڑھاپا بے حد مشکل بھرا ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خوف ناک بیماری سے محفوظ رکھے۔آمین۔

انسانیت پر ظلم کا عجیب کھیل

دو دن میں 50,000 مسلمانوں کا قتل !!!
‏اٹھایئس سال قبل اگست 1995 کاواقعہ ھے

حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔‏سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔ 

ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:
"گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا. جو شہر سے باہر جانا چاہے گا اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔"
‏زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔ 

شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے ‏زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان. جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔ 

ایک طرف سے آواز آئی فائر۔

سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بہ یک وقت گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں
‏برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ ‏کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ 

ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔ 

اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں اور معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے۔ ‏جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئیں۔ 

شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑے بڑے گڑھے کھود کر پانچ پانچ سو، ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ ‏نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔

لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔‏انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے ‏پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔ 

یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں، نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا ‏دورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995 کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔
‏اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا

نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں
‏نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے ‏بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔ 

اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج ‏نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔ 

اگست  1995 سے اگست 2023 تک اٹھائیس سال گذر گئے۔
‏آج بھی مہذب دنیا اس داغ کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین آج تک جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔ 

جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے
‏پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔ 

گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی ‏مانگی گئیں۔ مگر ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

اب تو یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام یاد نہیں۔

غیروں سے کیا گلہ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی ‏واقعہ ہوا بھی تھا؟
 پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟ یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو
‏ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔
اپنے دوستوں کو روزانہ پھول ضرور بھیجیں مگر خدارا ایسی تحریریں ضرور بھیجیں جس سے ھمارے ایمان اور عمل میں اضافہ ھوتا ھو درخواست ہے کہ دس دوستوں کو بھیج دیں
آخری بات
اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو اور اپنی جنگیں اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہیں

اورنگ زیب عالمگیرؒ انصاف کی ترازو میں

اورنگ زیب عالمگیرؒ 
انصاف کی ترازو میں!

(قسط-1)

 اورنگ زیب ؒکے بارے میں جدوناتھ سرکار جیسے تنگ نظر ، متعصب، فرقہ پرست اور حقیقت بے زار مصنف کو بھی یہ کہنا پڑا کہ اورنگ زیب ؒکے اقتدار نے مغل حکومت کے ہلال کو بدر کامل بنا دیا ، اب اگر کوئی چاند پر تھوکنے کی کوشش کرے تو یہ تھوک اسی کی طرف واپس آئے گا ؛ اس لئے ایسی باتوں سے صَرف نظر کرجانا مناسب ہوتا ؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہندوستان کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے ؛ بلکہ نئی تاریخ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو مسئلہ کی اصل حقیقت بتائی جائے اور سچائی کی روشنی پھیلائی جائے ۔
 ہندوستان پر جن مسلم خاندانوں نے حکومت کی ہے ، ان میں غالباً سب سے طویل عرصہ مغلوں کے حصہ میں آیا ہے ، جو ۱۵۲۶ء سے لے کر ۱۸۵۷ء یعنی تقریباً ساڑھے تین سو سال کے عرصہ پر محیط ہے ، اس دوران اگرچہ ہمیشہ پورے ملک پر مغلوں کو دورِ اقتدار حاصل نہیں رہا اوربہت سے علاقے ان کے قبضہ میں آتے اور جاتے رہے ؛ لیکن تقریباً اس پورے عرصہ میں وہ قوتِ اقتدار کی علامت بنے رہے ، اس خاندان کا چھٹا فرمانر وا اورنگ زیب عالمگیرؒ تھا ، عالمگیر ۱۶۱۸ء میں ممتاز محل کے بطن سے پیدا ہوئے اور ۱۷۰۷ء میں وفات پائی ، گویا پورے نوے سال کی طویل عمر پائی ، پھر اس کی خوش قسمتی ہے کہ ۱۶۵۷ء سے لے کر ۱۷۰۷ء تک یعنی تقریباً پچاس سال اس نے حکومت کی اور اس کے عہد میں ہندوستان کا رقبہ جتنا وسیع ہوا ، اتنا وسیع نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ اس کے بعد ، یعنی موجودہ افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش کی آخری سرحدوں اورلداخ و تبت سے لے کر جنوب میں کیرالہ تک وسیع و عریض سلطنت کا قیام اسی بادشاہ کی دَین ہے ۔
 اس کی اخلاقی خوبیوں پر تمام مؤرخین یہاں تک کہ اس کے مخالفین بھی متفق ہیں کہ یہ تخت شاہی پر بیٹھنے والا ایک درویش تھا ، جو قرآن مجید کی کتابت اور ٹوپیوں کی سلائی سے اپنی ضروریات پوری کرتا تھا ، یہاں تک کہ اس نے اپنی موت کے وقت وصیت کی کہ اس کی اسی آمدنی سے تجہیز و تکفین کی جائے ، ایسے زاہد ، درویش صفت ، قناعت پسند اور عیش و عشرت سے دُور بادشاہ کی نہ صرف ہندوستان بلکہ تاریخِ عالم میں کم مثالیں مل پائیں گی ، یہ تو اس کی ذاتی زندگی کے اوصاف ہیں ، اس کے علاوہ اورنگ زیبؒ نے اپنے عہد میں غیر معمولی اصلاحات بھی کیں ، ترقیاتی کام کئے ، نامنصفانہ احکام کو ختم کیا ، اور سرکاری خزانوں کو عوام پر خرچ کرنے اور رفاہی کاموں کو انجام دینے کی تدبیر کی ، اس سلسلہ میں چند نکات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے :
 (۱) اب تک عوام پر بہت سارے ٹیکس لگائے جاتے تھے ، اور یہ صرف مغل حکمرانوں کا ہی طریقہ نہیں تھا ؛ بلکہ اس زمانہ میں جو راجے رجواڑے اور ان کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں ، وہ بھی اس طرح کے ٹیکس لیا کرتی تھیں ، شیواجی تو اپنے مقبوضہ علاقہ میں چوتھ یعنی پیداوار کا چوتھائی حصہ وصول کیا کرتے تھے ، اورنگ زیب عالمگیرؒ نے مال گذاری کے علاوہ جو ٹیکس لئے جاتے تھے ، جن کی تعداد اَسّی (۸۰) ذکر کی گئی ہے ، ان سب کو نامنصفانہ اور کسان مخالف قرار دیتے ہوئے ختم کردیا ؛ حالاںکہ اس کی آمدنی کروڑوں ہوتی تھیں ، یہ بات قابل غور ہے کہ عام طورپر اورنگ زیب ؒکو ہندو مخالف پیش کیا جاتا ہے ؛ لیکن اس نے متعدد ایسے ٹیکسوں کو معاف کردیا ، جن کا تعلق ہندوؤں سے تھا ، جیسے گنگا پوجا ٹیکس ، گنگااشنان ٹیکس اور گنگا میں مُردوں کو بہانے کا ٹیکس ۔
 (۲) اس نے مال گذاری کا قانون مرتب کیا اور اس کے نظم و نسق کو پختہ بنایا ، یہاں تک کہ شاہجہاں کے دور میں ڈھائی کروڑ پونڈ کے قریب سلطنت کی آمدنی تھی ، تو وہ عالمگیر کے دور میں چار کروڑ پونڈ کے قریب پہنچ گئی ۔
 (۳) حکومتوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی عہدہ دار کا انتقال ہوجاتا تو اس کی ساری جائداد ضبط کرلی جاتی اور حکومت کے خزانہ میں داخل ہوجاتی ، آج بھی بعض مغربی ملکوں میں ایسا قانون موجود ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کے بغیر دنیا سے گزر جائے تو اس کا پورا ترکہ حکومت کی تحویل میں چلا جاتا ہے ، عالمگیر نے اس طریقہ کو ختم کیا ؛ تاکہ عہدہ دار کے وارثوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو ۔
 (۴) اس نے اس بات کی کوشش کی کہ مظلوموں کے لئے انصاف کا حاصل کرنا آسان ہوجائے ، وہ روزانہ دو تین بار دربار عام کرتا تھا ، یہاں حاضری میں کسی کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں تھی ، ہر چھوٹا بڑا ، غریب و امیر ، مسلمان و غیر مسلم ، بے تکلف اپنی فریاد پیش کرسکتا تھا اور بلا تاخیر اس کو انصاف فراہم کیا جاتا تھا ، وہ اپنے خاندان کے لوگوں ، شہزادوں اور مقرب عہدہ داروں کے خلاف فیصلہ کرنے میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیتا تھا ؛ لیکن اس کے علاوہ اس نے دور دراز کے لوگوں کے لئے ۱۰۸۲ھ میں ایک فرمان کے ذریعہ ہر ضلع میں سرکاری نمائندے مقرر کئے کہ اگر لوگوں کو باشاہ اور حکومت کے خلاف کوئی دعویٰ کرنا ہو تو وہ ان کے سامنے پیش کریں اور ان کی تحقیق کے بعد عوام کے حقوق ادا کردیں ۔
 (۵) عالمگیر کا ایک بڑا کار نامہ حکومت کی باخبری کے لئے واقعہ نگاری اور پرچہ نویسی کا نظام تھا ، جس کے ذریعہ ملک کے کونے کونے سے بادشاہ کے پاس اطلاعات آتی رہتی تھیں ، اور حکومت تمام حالات سے باخبر رہ کرمناسب قدم اُٹھاتی تھی ، اس نظام کے ذریعہ ملک کا تحفظ بھی ہوتا تھا ، عوام کوبروقت مدد بھی پہنچائی جاتی تھی ، اور عہدہ داروں کو ان کی غلطیوں پر سرزنش بھی کی جاتی تھی ، اس کا سب سے بڑا فائدہ رشوت ستانی کے سدباب کی شکل میں سامنے آیا ۔
 عام طورپر حکومت کے اعلیٰ عہدہ داروں کو رشوت ’گفٹ ‘ کے نام پر دی جاتی ہے ، یہ نام کرپشن کے لئے ایک پردہ کا کام کرتا تھا ، اُس زمانہ میں یہ رقم نذرانہ کے نام سے دی جاتی تھی ، جو بادشاہوں کو حکومت کے عہدہ داران اور اصحاب ِثروت کی جانب سے اور عہدہ داروں کو ان کے زیر اثر رعایا کی جانب سے ملا کرتی تھی ، اورنگ زیبؒ نے ہر طرح کے نذرانہ پر پابندی لگادی ، خاص کر نوروز کے جشن پر تمام امراء بادشاہ کی خدمت میں بڑے بڑے نذرانے پیش کرتے تھے ، اورنگ زیبؒ نے اپنی حکومت کے اکیسویں سال اس جشن ہی کو موقوف کردیا اور فرمان جاری کردیا کہ خود اس کو کسی قسم کا نذرانہ پیش نہ کیا جائے ۔
 (۶) عام طورپر جہاں بھی شخصی حکومتیں رہی ہیں ، وہاں عوام کو اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رکھنے کے لئے بادشاہ کے بارے میں مبالغہ آمیز تصورات کا اسیر بنایا جاتا ہے ، اسی لئے تیمور لنگ کہا کرتا تھا کہ جیسے آسمان پر خدا ہے ، زمین میں وہی درجہ ایک بادشاہ کا ہے ، اسی لئے مغلوں کے یہاں بھی ہندوانہ طریقہ کے مطابق ایک طرح کی باشاہ پرستی مروج رہی ہے ، اکبر کے یہاں تو بادشاہ کا دیدار اور سجدہ کرنا ایک عبادت تھا اور ہر دن بے شمار لوگ یہ عبادت بجالاتے تھے ، جہانگیر نے سجدہ ختم کیا ؛ لیکن زمین بوسی باقی رہی ، عالمگیر نے جھروکا درشن بالکلیہ ختم کردیا ، جس میں لوگ صبح کو بطور عبادت بادشاہ کا دیدار کرتے تھے اور اس وقت تک کھاتے پیتے نہیں تھے ؛ البتہ اس بات کی اجازت تھی کہ اگر کوئی ضرورت مند آئے تو اس کی درخواست رسی میں باندھ کر اوپر بادشاہ کے پاس پہنچا دی جائے ۔
 (۷) عموماً حکمرانوں کی شاہ خرچی اور حکمرانوں کے چونچلے غریب عوام کی کمر توڑ دیتے ہیں ، اورنگ زیب عالمگیرؒ نے ایسے تکلفات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی ، جیساکہ گذرا ، شاہی نذرانوں کو بند کیا ، دربار شاہی میں بادشاہوں کی تعریف کرنے والے شعراء ہوا کرتے تھے اوران پر ایک ذمہ دار ہوا کرتا تھا ، جو ’ ملک الشعراء ‘ کہلاتا تھا ، اورنگ زیبؒ نے اس شعبہ کو ختم کردیا ، وہ اپنی شان میں کسی بڑائی اور مبالغہ آمیز شاعری کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے ، بادشاہ کا دل بہلانے کے لئے دربار شاہی میں گانے بجانے کا خصوصی انتظام ہوتا تھا ، قوال اور رقاصائیں گاکر اور ناچ کر بادشاہ کا دل خوش کرتی تھیں اور ان پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی تھیں ، عالمگیر نے اس سلسلہ کو بھی موقوف کردیا ، بادشاہ کے لکھنے کے لئے سونے اور چاندی کی دواتیں رکھی جاتی تھیں ، عالمگیر نے اس کے بجائے چینی کی دواتیں رکھنے کی تلقین کی ، انعام کی رقمیں چاندی کے بڑے طشت میں لائی جاتی تھی ، اس طشت کی رسم کو بھی اورنگ زیبؒ نے موقوف کردیا ، عام طورپر بادشاہوں کی جیب خرچ کے لئے کروڑوں روپے کی آمدنی مخصوص کردی جاتی تھی ، آج بھی جمہوری ملکوں میں سربراہ حکومت کے لئے رہائش ، سفر اور ضروریات وغیرہ پر جو رقمیں صرف کی جاتی ہیں اور رہائش کے لئے جو وسیع مکان اور اعلیٰ درجہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ، وہ گذشتہ بادشاہوں کی شاہ خرچی کو بھی شرمندہ کرتی ہیں ؛ لیکن اورنگ زیب نے اپنے لئے نہ کوئی عظیم الشان محل تعمیر کرایا ، نہ اپنی تفریح کے لئے کوئی باغ بنوایا ، اور اپنے مصارف کے لئے بھی محض چند گاؤں کو اپنی حصہ میں رکھا اور بقیہ سارے مصارف کو حکومت کے خزانہ میں شامل کردیا ۔
 (۸) اس نے تعلیم کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ، ہر شہر اور ہر قصبہ میں اساتذہ مقرر ہوئے ، نہ صرف اساتذہ کے لئے وظائف مقرر کئے گئے اور جاگیریں دی گئیں ؛ بلکہ طلبہ کے اخراجات اور مدد معاش کے لئے بھی حکومت کی طرف سے سہولتیں فراہم کی گئیں ، کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیبؒ کے زیادہ تر فرامین تعلیم ہی سے متعلق ہیں ، جن کو ان کے بعض تذکرہ نگاروں نے نقل بھی کیا ہے ۔
 (۹) اس زمانہ میں صنعت و حرفت کو آج کی طرح ترقی نہیں ہوئی تھی اور معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت تھی ، اورنگ زیبؒ نے زرعی ترقی پر خصوصی توجہ دی ، کسانوں کی حوصلہ افزائی کی ، جن کسانوں کے پاس کاشتکاری کے لئے پیسہ نہیں ہوتا ، ان کو سرکاری خزانوں سے پیسہ فراہم کئے جاتے ، حسب ِضرورت کسانوں سے مال گذاری معاف کی گئی ، جو زمینیں اُفتادہ تھیں اور ان میں کاشت نہیں کی جاتی تھی ، ان کو ایسے کسانوں کے حوالہ کیا گیا ، جو ان کو آباد کرنے کے لئے آمادہ تھے ، اپنے عہدہ داروں کو ہدایت کی کہ کسانوں کو اتنا ہی لگان لگایا جائے ، جتنا وہ بآسانی ادا کرسکیں اور بخوشی ادا کرسکیں ، اگر وہ نقد کے بجائے جنس دینا چاہیں تو قبول کرلیا جائے ، انھوںنے کسانوں کے لئے کنواں کھودوانے ، قدیم کنوؤں کو درست کرانے اور آبِ پاشی کے وسائل کو بہتر بنانے کو حکومت کی ایک ذمہ داری قرار دیا ، انھوںنے زمین کے سروے کرنے پر خصوصی توجہ کی ؛ تاکہ معلوم ہوا کہ کونسی اراضی اُفتادہ ہیں اور اُن کو قابل کاشت بنانے کی کیا صورت ہے ، انھوںنے اپنے فرمان میں لکھا ہے :
بادشاہ کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ زراعت ترقی کرے ، اس ملک کی رزعی پیداوار بڑھے ، کاشتکار خوشحال ہوں اور عام رعایا کو فراغت نصیب ہو ، جو خدا کی طرف سے امانت کے طورپر ایک بادشاہ کو سونپی گئی ہے ۔
 زرعی پیداوار کی طرف اسی توجہ کا نتیجہ تھا کہ عالمگیرؒ کے دور میں فتح ہونے والے بہت سے علاقے ایسے تھے ، جہاں کے اخراجات وہاں کی آمدنی سے زیادہ تھے ؛ لیکن پھر بھی کہیں غذائی اشیاء کی قلت محسوس نہیں کی گئی ، اگر یہ صورتِ حال نہیں ہوتی تو اتنے طویل و عریض رقبہ پر پچاس سال تک اورنگ زیب حکومت نہیں کرپاتے اور عوام کی بغاوت کے نتیجہ میں مملکت پارہ پارہ ہوجاتی ۔
 (۱۰) اورنگ زیبؒ کا ایک بڑا کارنامہ سماجی اصلاح بھی ہے ، اس نے بھنگ کی کاشت پر بابندی لگائی ، شراب و جوئے کی ممانعت کردی ، قحبہ گری کو روکا اور فاحشہ عورتوں کو شادی کرنے پر مجبور کیا ، لونڈی ، غلام بناکر رکھنے ، یا خواجہ سرا رکھنے پر پابندی لگائی ۔
 (۱۱) ہندو سماج میں عرصۂ دراز سے ستی کا طریقہ مروج تھا ، جس کے تحت شوہر کے مرنے کے بعد بیوی شوہر کی چتا کے ساتھ نذر آتش کردی جاتی تھی ، ہندو سماج میں اسے مذہبی عمل سمجھا جاتا تھا ، مغلوں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ، غیر مسلموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے ، اس لئے اورنگ زیبؒ نے قانونی طورپر اس کو بالکلیہ تو منع نہ کیا ؛ لیکن اصلاح اور ذہن سازی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے عہدہ داروں کو ہدایت دی کہ وہ عورتوں کو اس رسم سے باز رکھنے کی کوشش کریں اور اپنی خواتین کے ذریعہ بھی ان کو اس کی دعوت دیں ، نیز پابندی عائد کردی کہ علاقہ کے صوبہ دار کی اجازت کے بغیر ستی نہ کی جائے ؛ تاکہ کسی عورت کو اس عمل پر اس کے میکہ یا سسرال والے ، یا سوسائٹی کے دوسرے لوگ مجبور نہ کرسکیں ، اس طرح عملاً ستی کا رواج تقریباً ختم ہوگیا ۔ (جاری)


٭٭٭

ہندستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں

"گاہے گاہے باز خواں"
(ہندستان میں مسلمانوں کی 
موجودہ صورت حال اور حضرت 
تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں)
ملک کی ٓازادی میں علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا جو کردار رہا ہے وہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے۔آرایس ایس اور کٹر ہندو تنظیمیں لاکھ تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش کریں لیکن حق کے متلاشی کو اصل حقیقت تک رسائی ہو ہی جاتی ہے۔ملک کی آزادی کے آخری دور کی جدوجہد میں علمائے دیوبند کا نام سر فہرست ہے۔ان علماءمیں قائد کی حیثیت سے شیخ الھند مولانا محمودالحسن دیوبندی ؒ ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اورمولانا عبید اللہ سندھیؒ کا نام آتا ہے۔ان کی قیادت میں علماءو طلبائے دیوبند آزادی ہند کی تحریک چلا رہے تھے ۔ہندوستان کو آزادی تو مل گئی لیکن تقسیم کے ساتھ۔ یعنی پاکستان کے نام سے ایک علاحدہ ملک بھی وجود میں آگیا۔ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری ان ہی علماءکی رہی جنہوں نے بٹوارے کی مخالفت کی تھی۔ چنانچہ ہمیں صرف تصویر کا ایک رخ دکھایا گیا یعنی ہمیں صرف یہ بتایا کہ علمائے دیوبند ملک کے بٹوارے کے مخالف تھے۔ مسلمانوں کے لئے علاحدہ مملکت کا مطالبہ دیندار طبقے کی طرف سے نہیں کیا گیاتھا بلکہ یہ مطالبہ محمد علی جناح کا تھا جو ایک سیکولر آدمی تھے اور مذہب کا نام صرف اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے لیا کرتے تھے۔علماءنے جناح کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ افسوس صد افسوس کہ ہندستان کے مسلمانوں کو صرف آدھا سچ بتایا اور باقی آدھا سچ کسی سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جید علما دیوبند کا ایک بہت بڑا طبقہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں کانگریس سے بدظن تھا. کانگریس کو مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سمجھتا تھا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کٹر دشمن ہندوﺅں کا غلبہ تھا لیکن معلوم نہیں کہ کیوں اس تاریخی حقیقت کو ہندستانی مسلمانوں سے چھپایا گیا؟
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جمیعة علماء ہند کو بار بار متنبہ کیا کہ: ہندوﺅں پر بھروسہ کرنا غیردانشمندی ہے۔انگریزوں سے زیادہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں. برسراقتدار ہونے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناکچھ رعایت کا معاملہ کرتے ہیں لیکن اگر یہ ہندو برسراقتدار آگئے تو وہ مسلمانوں کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے.
خلافت کا معاملہ مسلمانوں کا ایک شرعی مسئلہ ہے لیکن تحریک خلافت کے دوران جو طریقہ کار اختیار کئے گئے نیز تحریک کو گاندھی کے ذریعے اچک لئے جانے کے سبب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تحریک سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔ چناں چہ ایک مجلس میں فرمایا کہ تدابیر کو کون منع کرتا ہے تدابیر کریں مگرحدود شرعیہ میں رہ کرچونکہ مسلمانوں نے تدابیر غیر شرعیہ کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا ہے تو اس صورت میں اول تو کامیابی مشکل ہے اگر ہو بھی گئی تو ہندوﺅں کو ہوگی اور اگر مسلمانوں کو ہوئی توہندو نما مسلمانوں کو ہوگی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ 278) 
 تحریک خلافت کے دوران ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کی غرض سے مسلمان بہت سی غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ماتھے پہ قشقے لگائے اور جئے کے کفریہ نعرے بلند کئے۔ ہندوﺅں کی ارتھی کو کندھے دیئے۔ مساجد میں کافروں کو بٹھاکر منبر رسول ﷺ کی بے حرمتی کی۔ رام لیلا کا انتظام کیا. ایک عالم دین نے انکشاف کیا کہ اگر ختم نبوت نہ ہوتی گاندھی مستحق نبوت تھا
 یہ تمام قابل اعتراض امور مولانا کو سخت ناپسند اور ناگوار گزرے. اس لئے آپ کے ملفوظات میں بار بار ان باتوں کی مذمت ملے گی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ109)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان لیڈروں نے گاندھی کے اقوال کو حجت بنا لیا ہے۔ وہ لیڈر اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ جوں ہی *گاندھی کے منھ سے کوئی بات نکلے اس کو فوراً قرآن و حدیث پر منطبق کردیا جائے.
 فرماتے ہیں:
 اس تحریک میں کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو کسی مسلمان یا عالم کی تجویز ہو، دیکھئے ہوم رول گاندھی کی تجویز ،بائیکاٹ گاندھی کی تجویز ،کھدر گاندھی کی تجویز، ہجرت کا مسئلہ گاندھی کی تجویز غرض کہ جملہ تجویزیں اس کی ہیں‘ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس نے جو کہا لبیک کہہ کر اس کے ساتھ ہوگئے‘ کچھ تو غیرت آنی چاہئے۔ ایسے بدفہموں نے اسلام کو سخت بدنام کیا ہے۔ سخت صدمہ ہے ‘سخت افسوس ہے‘ اس کی باتوں کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
(الافادات یومیہ جلد اول صفحہ 89-90)
اس سلسلے میں آپ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ سہارن پور میں ایک وعظ ہوا ۔ایک مقرر نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سوراج مل گیا تو ہندو اذان نہ ہونے دیں گے تو کیا بلا اذان نماز نہیں ہوسکتی۔ کہتے ہیں گائے کی قربانی بند کر دیں گے تو کیا بکرے کی قربانی نہیں ہوسکتی‘ کیا گائے کی قربانی واجب ہے۔
 یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرزفکر پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ:
اس مقرر کے بیان میں ایک بات باقی رہ گئی، اگر وہ یہ بھی کہہ دیتا تو جھگڑا ہی باقی نہ رہتا کہ اگر ہندوﺅں نے اسلام اور ایمان پر زندہ رہنے نہ دیا تو کیا بغیر اسلام اور ایمان کے زندہ نہ رہیں گے.
یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے دوست نما دشمن ہیں. (الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 86)
ہندو مسلم اتحاد کے جوش میں کچھ مسلمانوں نے مشہور متعصب ہندو لیڈر سردھانند (جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے خلاف شدھی کی تحریک چلائی) کو جامع مسجد دہلی میں لے جا کر اس کا وعظ کروایا.
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ وہ یہ حرکت کر کے منبر رسول ﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں.
 ۔تحریک خلافت کے دوران ہندوﺅں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنے لیڈروں کی جئے بولا کرتے تھے۔
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لفظ جئے چوں کہ شعار کفر ہے اس لئے مسلمانوں کا یہ فعل بھی شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض تھا۔
(الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 611 )
جو لوگ آپ کی تحریک خلافت میں عد م شمولیت پر اعتراض کرتے تھے آپ انہیں جواب دیتے کہ *اگر تمہاری موافقت کی جائے تو ایمان جائے ہے اس میں حدود شریعت کا تحفظ نہیں.
( الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 65)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہندو مسلمانوں کے اول درجہ دشمن تھے۔ آپ کے ملفوظات میں جہاں کہیں ہندوﺅں کا ذکر آیا ہے آپ نے ان کے لئے سخت ترین الفاظ استعمال کئے ہیں. مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات پر ہندوﺅں سے سخت گلہ شکوہ تھا کہ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑی اور وہ بھی اس میں برابر کے شریک تھے مگر جنگ آزادی کے خاتمے پر وہ نہ صرف انگریزوں سے مل گئے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کی مخبری کرکے انہیں پھانسی پر چڑھوادیا. 
۔اسی سلسلے میں فرمایا کہ:
”یہ قوم (ہندو) نہایت احسان فراموش ہے. مسلمانوں کو تو اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ انگریزوں کی خدمت کے صلے میں جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا وہ ظاہر ہے. دیکھو غدر سب کے مشورے سے شروع ہوا جو کچھ بھی ہوا مگر اس پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا. بڑے بڑے رئیس و نواب ان کی (ہندو) بدولت تختہ پر سوار ہوگئے پھر تحریک کانگریس میں مسلمان شامل ہوئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ اس کا صلہ شدھی کے مسئلے سے ادا ہوا۔ آئے دن کے واقعات اسی کے شاہد ہیں کہ ہر جگہ مسلمانوں کی جہاں آبادی مسلمانوں کی قلیل دیکھی پریشان کر دیا مگر ان باتوں کے ہوتے ہوئے بھی بعض بدفہم اور بے سمجھ ان کو دوست سمجھ کر ان کی بغلوں میں گھستے ہیں۔)
الا فاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (529)

اور ایک مجلس میں ہندوﺅں کے اس طرزعمل کے متعلق فرمایا کہ ہندوﺅں کی قوم عالی حوصلہ نہیں ان کے وعدے وعید کا اعتبار نہیں. انگریزوں سے اگر دشمنی کی بنا یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ہیں تو ہندو ان سے زیادہ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں.
(الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (493-494)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سگرچہ انگریزوں کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیتے تھے لیکن ہندوﺅں کے مسلم کش رویے کو دیکھتے ہوئے آپ اس قطعی نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندو انگریزوں سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں.
۔ایک مرتبہ فرمایا کہ:
گورے سانپ سے زیادہ زہریلا کالا سانپ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر گورے سانپ کو گھر سے نکال دیاجائے تو کالا تو ڈسنے کو موجود ہے اور جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا ہی مشکل ہے.
 الافاضات یومیہ جلد ششم صفحہ (197)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہندوﺅں کے اس وجہ سے مخالف تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ ایک مجلس میں فرمایا کہ 
بعض کفار پر تو مجھے بہت ہی غیض ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق سکھایا۔ شدھی کا مسئلہ اٹھایا. مسلمانوں کو عرب جانے کی آواز اٹھائی. قربانی گاﺅ پر انہوں نے اشتعال دیا. یہ لوگ مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں بلکہ ایمان ‘ جان و مال مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔
(الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 150)

۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ:
جب تک ہم کلمہ پڑھتے ہیں تمام غیرمسلم ہمارے دشمن ہیں۔ اس میں گورے کالے کی قید نہیں 
 ۔مولانا اس امر پر حیرت کا اظہار فرماتے کہ
ہندستان میں دو کافر قومیں موجود ہیں پھر کیا بات کہ ایک ہی قوم سے اس قدر دشمنی دوسرے قوم سے کیوں نہیں؟ (الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 177)

ایک اور مجلس میں فرمایا:
بعض لوگ کفار کی ایک جماعت کو برا کہتے ہیں اور بعض دوسری کو‘ میں کہتا ہوں دونوں برے ہیں‘ فرق صرف یہ ہے کہ ایک نجاست مرئیہ ہے اور دوسری غیرمرئیہ لیکن ہیں دونوں نجاست. ( ایضاً صفحہ 256)

مولانا کے نزدیک اہل کتاب کی دشمنی اور مشرکین کی دشمنی کے درمیان ایک فرق موجود تھا ۔آپ کے خیال میں اہل کتاب دین کے دشمن نہیں دنیا کے دشمن ہیں گو اس کے ضمن میں وہ دین کی دشمنی بھی کرجاتے ہیں- اس کے مقابلے میں مشرکین دین کے دشمن ہیں. اس کا معیار یہ ہے کہ جس قدر قوت اور سطوت اہل کتاب کو حاصل ہے ‘اگر مشرکین کو حاصل ہوجائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کا بیج تک نہ چھوڑیں۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 83)

 ایک اور موقع پہ فرمایا کہ: 
اگر ہندوﺅں کو انگریزوں کی طرح قوت حاصل ہوتی تو ہندوستان میں ایک بچہ بھی زندہ نہ چھوڑتے۔ 
(الافاضات یومیہ جلد سوم صفحہ 71)
ہندوﺅں کی مسلم دشمنی کو مدنظر مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نتیجے پر پہنچے تھے کہ قیامت آجائے ہندو کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ اور ہمدرد نہیں ہوسکتے۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 638)
( #ایس_اے_ساگر )

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم