دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ😭

دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ😭
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہو کر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔ آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حیسن نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کر دے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچا لے۔ رات کو آپ نے دعا فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ 
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛ اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لے کر آئے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر توحید و رسالت کے بارے میں حضرت دحیہ قلبی کو بتایا۔ حضرت دحیہ نے کہا؛ اللہ کے نبی میں مسلمان تو ہو جاؤں لیکن ایک بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے ایک گناہ میں نے ایسا کیا ہے کہ آپ کا اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا؛ اے دحیہ بتا تونے کیسا گناہ کیا ہے؟ تو حضرت دحیہ قلبی نے کہا؛ یا رسول اللہ میں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔ اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کیا جاتا ہے۔ میں کیونکہ قبیلے کا سردار ہوں اس لیے میں نے ستر گھروں کی بیٹیوں کو زندہ دفن کیا ہے۔ آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوئے؛ 
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اسے کہیں اب تک جو ہو گیا وہ ہو گیا اس کے بعد ایسا گناہ کبھی نہ کرنا۔ ہم نے معاف کر دیا ۔
حضرت دحیہ آپ کی زبان سے یہ بات سن کر رونے لگے۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ اب کیا ہوا ہے؟ کیوں روتے ہو ؟ حضرت دحیہ قلبی کہنے لگے؛ یا رسول اللہ، میرا ایک گناہ اور بھی ہے جسے آپ کا رب کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ کیسا گناہ ؟ بتاؤ ؟ 
حضرت دحیہ قلب فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ، میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے کسی کام کی غرض سے دوسرے ملک جانا تھا۔ میں نے جاتے ہوئے بیوی کو کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اگر بیٹی ہوئی تو اسے زندہ دفن کر دینا۔ دحیہ روتے جا رہے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ میں واپس بہت عرصہ بعد گھر آیا تو میں نے دروازے پر دستک دی۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون؟ میں نے کہا: تم کون ہو؟ تو وہ بچی بولی؛ میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں۔ آپ کون ہیں؟ دحیہ فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، میرے منہ سے نکل گیا: اگر تم بیٹی ہو اس گھر کے مالک کی تو میں مالک ہوں اس گھر کا۔ یا رسول اللہ! میرے منہ سے یہ بات نکلنے کی دیر تھی کہ چھوٹی سی اس بچی نے میری ٹانگوں سے مجھے پکڑ لیا اور بولنے لگی؛ بابا بابا بابا بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ بابا میں کس دن سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ حضرت دحیہ قلبی روتے جا رہے ہیں اور فرماتے ہیں؛ اے اللہ کے نبی! میں نے بیٹی کو دھکا دیا اور جا کر بیوی سے پوچھا؛ یہ بچی کون ہے؟ بیوی رونے لگ گئی اور کہنے لگی؛ دحیہ! یہ تمہاری بیٹی ہے۔ یا رسول اللہ! مجھے ذرا ترس نہ آیا۔ میں نے سوچا میں قبیلے کا سردار ہوں۔ اگر اپنی بیٹی کو دفن نہ کیا تو لوگ کہیں گے ہماری بیٹیوں کو دفن کرتا رہا اور اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ حضرت دحیہ کی آنکھوں سے اشک زارو قطار نکلنے لگے۔ یا رسول اللہ وہ بچی بہت خوبصورت، بہت حیسن تھی۔ میرا دل کر رہا تھا اسے سینے سے لگا لوں۔ پھر سوچتا تھا کہیں لوگ بعد میں یہ باتیں نہ کہیں کہ اپنی بیٹی کی باری آئی تو اسے زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟ میں گھر سے بیٹی کو تیار کروا کر نکلا تو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ لیے۔ دحیہ نہ مارنا اسے۔ دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ 
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ میں نے بیوی کو پیچھے دھکا دیا اور بچی کو لے کر چل پڑا۔ رستے میں میری بیٹی نے کہا؛ بابا مجھے نانی کے گھر لے کر جا رہے ہو؟ بابا کیا مجھے کھلونے لے کر دینے جا رہے ہو؟ بابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دحیہ قلبی روتے جاتے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ یا رسول اللہ ! میں بچی کے سوالوں کاجواب ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ پوچھتی جا رہی ہے بابا کدھر چلے گئے تھے؟ کبھی میرا منہ چومتی ہے، کبھی بازو گردن کے گرد دے لیتی ہے۔ لیکن میں کچھ نہیں بولتا۔ ایک مقام پر جا کر میں نے اسے بٹھا دیا اور خود اس کی قبر کھودنے لگ گیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دحیہ کی زبان سے واقعہ سنتے جارہے ہیں اور روتے جا رہے ہیں۔ میری بیٹی نے جب دیکھا کہ میرا باپ دھوپ میں سخت کام کر رہا ہے، تو اٹھ کر میرےپاس آئی۔ اپنے گلے میں جو چھوٹا سا دوپٹہ تھا وہ اتار کر میرے چہرے سے ریت صاف کرتے ہوئے کہتی ہے؛ بابا دھوپ میں کیوں کام کر رہے ہیں؟ چھاؤں میں آ جائیں۔ بابا یہ کیوں کھود رہے ہیں اس جگہ؟ بابا گرمی ہے چھاؤں میں آ جائیں۔ اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جا رہی ہے۔ لیکن مجھے ترس نہ آیا۔ آخر جب قبر کھود لی تو میری بیٹی پاس آئی۔ میں نے دھکا دے دیا۔ وہ قبر میں گر گئی اور میں ریت ڈالنے لگ گیا۔ بچی ریت میں سے روتی ہوئی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرے سامنے جوڑ کر کہنے لگی؛ بابا میں نہیں لیتی کھلونے۔ بابا میں نہیں جاتی نانی کے گھر۔ بابا میری شکل پسند نہیں آئی تو میں کبھی نہیں آتی آپ کے سامنے۔ بابا مجھے ایسے نہ ماریں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ریت ڈالتا گیا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بھی ترس نہیں آیا۔ میری بیٹی پر جب مٹی مکمل ہو گئی اور اس کا سر رہ گیا تو میری بیٹی نے میری طرف سے توجہ ختم کی اور بولی؛ اے میرے مالک میں نے سنا ہے تیرا ایک نبی آئے گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا۔ جو بیٹیوں کی عزت بچائے گا۔ اے اللہ وہ نبی بھیج دے بیٹیاں مر رہی ہیں۔ پھر میں نے اسے ریت میں دفنا دیا۔ حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ واقعہ سناتے ہوئے بے انتہا روئے۔ یہ واقعہ جب بتا دیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنا رو رہے ہیں کہ آپؐ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے گیلی ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا؛ دحیہ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ۔ اس بیٹی کا واقعہ جو مجھ محمد کے انتظار میں دنیا سے چلی گئی۔ آپؐ نے تین دفعہ یہ واقعہ سنا اور اتنا روئے کہ آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رونے لگ گئے اور کہنے لگے؛ اے دحیہ کیوں رلاتا ہے ہمارے آقا کو؟ ہم سے برداشت نہیں ہو رہا۔ آپؐ نے حضرت دحیہ سے تین بار واقعہ سنا تو حضرت دحیہ کی رو رو کر کوئی حالت نہ رہی۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام حاضر ہوئے اور فرمایا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! دحیہ کو کہہ دیں وہ اُس وقت تھا جب اس نے اللہ اور آپؐ کو نہیں مانا تھا۔ اب مجھ کو اور آپ کو اس نے مان لیا ہے تو دحیہ کا یہ گناہ بھی ہم نے معاف کر دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی کفالت کی، انہیں بڑا کیا، ان کے فرائض ادا کیے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہو گا جس طرح شہادت کی اور ساتھ والی انگلی آپس میں ہیں. 
۔
جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اس کی یہ اہمیت ہے تو جس نے تین یا چار یا پانچ بیٹیوں کی پرورش کی اس کی کیا اہمیت ہو گی؟ 
بیٹیوں کی پیدائش پر گھبرایا نہ کریں انہیں والدین پر بڑا مان ہوتا ہےاور یہ بیٹیاں اللہ کی خاص رحمت ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی کہ موجودہ دور کے اسلامی ممالک، درحقیقت کتنے "اسلامی" ہیں؟بڑے حیرت کی بات ہے

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی کہ موجودہ دور کے اسلامی ممالک، درحقیقت کتنے "اسلامی" ہیں؟

جب انہوں نے یہ جانچنا چاہا کہ کون سے ممالک اسلام کے ریاستی اور سماجی اصولوں پر عمل کرتے ہیں، تو حیران کن طور پر یہ انکشاف ہوا کہ جو ممالک عملی زندگی میں اسلامی اصولوں پر کاربند ہیں — وہ دراصل "مسلمان ممالک" نہیں ہیں۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی:

👉 دنیا میں سب سے زیادہ اسلامی اصولوں پر عمل کرنے والا ملک نیوزی لینڈ ہے۔
اس کے بعد لکسمبرگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک اور ساتویں نمبر پر کینیڈا آتا ہے۔

جبکہ
👉 ملائیشیا 38ویں، کویت 48ویں اور بحرین 64ویں نمبر پر ہیں۔
اور حیران کن بات یہ ہے کہ
👉 سعودی عرب 131ویں نمبر پر ہے،
جبکہ بنگلہ دیش بھی سعودی عرب سے نیچے آتا ہے۔

یہ تحقیق "گلوبل اکانومی جرنل" میں شائع ہوئی تھی۔


اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا:

🔹 مسلمان افراد نماز، روزہ، سنت، قرآن، حدیث، حجاب، داڑھی اور لباس پر تو بہت زور دیتے ہیں،
مگر ریاستی، سماجی اور تجارتی زندگی میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔

مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی تقاریر، وعظ، نصیحتیں سنی جاتی ہیں،
لیکن آج تک کوئی بھی مسلم ملک دنیا کا بہترین، منصفانہ اور ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکا۔

ایک سادہ حساب کے مطابق:
👉 ایک عام مسلمان نے گزشتہ 60 سالوں میں تقریباً 3000 جمعہ کے خطبے سنے ہوں گے،
مگر پھر بھی سماجی انصاف اور عدل میں مسلمان دنیا سب سے پیچھے ہے۔


ایک چینی تاجر کا بیان:

"مسلمان تاجر ہمارے پاس آکر جعلی اور نقلی چیزیں بنانے کا آرڈر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر مشہور کمپنی کا لیبل لگا دو۔
لیکن جب ہم انہیں کھانے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: ’یہ حلال نہیں ہے، میں نہیں کھاؤں گا۔‘
تو سوال یہ ہے: کیا جعل سازی اور دھوکہ دہی حلال ہے؟"


ایک جاپانی نومسلم کہتا ہے:

"میں نے مغربی ممالک میں غیر مسلموں کو اسلامی اصولوں پر عمل کرتے دیکھا ہے،
اور مشرقی ممالک میں اسلام دیکھا ہے، مگر مسلمان نہیں دیکھے۔
الحمد للہ! میں نے اس فرق کو پہچان کر اسلام قبول کیا۔"


اسلام صرف نماز اور روزے کا نام نہیں ہے،
بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،
جس کا اظہار ہمارے باہمی رویے، معاشرت، کاروبار اور انصاف میں بھی ہونا چاہیے۔


نیکی کا ظاہر ہونا، نجات کی ضمانت نہیں:

کوئی شخص جلدی جلدی نماز پڑھے اور اس کے ماتھے پر نشان ہو،
یہ ضروری نہیں کہ وہ اللہ کی نظر میں نیک ہو
یہ ریا کاری (دکھاوا) بھی ہو سکتا ہے۔


رسول اللہ ﷺ کا فرمان:

"اصل مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز، روزہ، حج اور صدقے کے ساتھ آئے گا،
مگر اس نے کسی پر ظلم کیا ہوگا،
کسی کی عزت پامال کی ہوگی،
کسی کا مال غصب کیا ہوگا،
تو اس کے نیک اعمال مظلوموں کو دے دیے جائیں گے،
اور جب اعمال ختم ہو جائیں گے،
تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال کر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔"


اسلام کے دو بنیادی حصے:

  1. ایمان — یعنی زبان سے کلمہ پڑھنا۔
  2. احسان — یعنی کردار، سلوک اور سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی۔

جب تک یہ دونوں اکٹھے نہیں ہوں گے، اسلام مکمل نہیں ہوگا۔
اور یہی نامکمل پن آج ہر مسلم ملک میں نظر آتا ہے۔


🧭 ذاتی عبادات — جیسے روزہ، نماز — اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہیں،
مگر سماجی انصاف، حقوق کی ادائیگی اور دیانتداری — یہ معاشرے کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہے۔

اگر مسلمان اپنے شخصی اور اجتماعی رویے میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کریں گے،
تو مسلم معاشرہ زوال پذیر اور ذلت کا شکار ہوتا رہے گا۔


لارڈ برنارڈ شا کا قول:

"اسلام سب سے بہترین مذہب ہے،
اور مسلمان اس کے سب سے بدترین پیروکار ہیں۔"


📿 اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اسلام کا دعوے دار نہ بنائے،
بلکہ اسلام پر عمل کرنے والا سچا مسلمان بنائے — آمین۔ 🤲


ایران اسرا ئیل جنگ میں یقیناً ہم اسر ائیل کو تباہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں

ایران اسرا ئیل جنگ میں یقیناً ہم اسر ائیل کو تباہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں.

یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے ایرانی روافض  نے پچھلی چند  دہائیوں میں 20 لاکھ سے زائد اہل السنہ کا قتل عام کیا، اہل السنہ کی قوت کو ریزہ ریزہ کر دیا جس کی وجہ سے آج اسرا ئیل اتنا طاقتور بن گیا،اگر ایران اتنا اسلام کا ہمدرد ہوتا تو اس وقت اسرا ئی ل کو نشانہ بناتا بجائے حمص و حلب و درعا و ادلب و یمن و اعراق  کے اہل السنہ پہ خون کی ہولی کھیلنے کے،جب اپنے سر پہ آئی تو اپنے دفاع کیلئے بڑے بڑے میزائل نکل آئے،اس ظالم نے صرف اپنے خمینی جعفری رافضی دین کے نفاذ کیلئے مبارک دین اسلام و اہل السنہ کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا اتنا بڑا نقصان اسرا ئیل نہ پہنچا سکا ،ان کی آج بھی ویڈیوز موجود ہیں جن میں کہتے تھے ہم مکہ پہ جاکر قابض ہوجائیں گے،خانہ کعبہ کو گرائیں گے نعوذباللہ اور سنیوں کا خاتمہ کریں گے ،اسر ا ئیل تو القدس کو گرانا چاہتا ہے لیکن ایرانی روفض نے مکہ مکرمہ کو گرانے کے عزائم کیے تھے جسے رب نے ناکام بنایا الحمدللہ 

اس کے علاوہ یہ بدبخت قرآن مقدس کو مکمل نہیں سمجھتے کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی مرضی سے بدل دیا تھا نعوذباللہ،یہ بدبخت شیخین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے منکر ہیں، انکی نماز الگ ہے، ان کا کلمہ الگ  ہے،کہاں سے مسلمان و اسلامی ہوگئے..... ؟؟؟ یہ دینِ اسلام ہے یہاں یا تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم رہیں گے یا پھر راوفض اور یقینا روافض نہیں رہ سکتے کیوں کہ قیامت کی صبح تک اسلام ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم کا ہے 

امام ابن تیمیہ رح کے بقول روافض یہو د کے گدھے ہیں جن کے ذریعے وہ اسلام و اہل السنہ کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کا قتل عام کرتے ہیں، یقینا کبھی گدھا بھی غصے میں آکر اپنے آقا کو پچھلی ٹانگیں مار دیتا ہے کبھی آقا بھی ڈنڈا لے کر اپنے گدھے کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے یہ تو چلتا رہتا ہے 

آج کچھ گدھے دماغ ایران اسر ا ئیل جنگ کو اسلام و عقیدہ کی جنگ کہ رہے ،اسلام و عقیدہ کی جنگ میں مدد و نصرة رب سے مانگی جاتی ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ،نہ کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم و امی عائشہ رضی اللہ عنھا و دیگر صحابہ کرام کو گالیاں بک کر نعوذباللہ 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر شخصیت و مبارک صحابی ہیں جن کی رائے اور مشورے کو رب تعالی قرآن بنا دیتے تھے (قربان جاؤں میں ان کی ناموس پہ) آج قاتل عمر ابولولو فروز ملعون کا مزار ایران میں ہے،اس ملعون کو حکومتی سرپرستی و اعزاز و تحفظ حاصل ہے کہ اس نے رب کے محبوب عمر کو ممبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہ خنجروں کے وار سے شہید کیا تھا، لعنت ہو رب کی ایسی سرزمین و حکومت  پہ جہاں اس ملعون کا مزار ہے 

یہ رب متعال کا وعدہ ہے وہ ایک متعین وقت تک ظالم کو چھوٹ دیتا ہے لیکن اس متعین گھڑی کے بعد اس پہ اپنے قہر کی صورت میں بڑا ظالم مسلط کر دیتا ہے

آج امت کے کچھ دیندار کی  یہی جہالت ہے ،جدھر نفس گھماتا ہے سب کچھ ماضی بھول کر وہاں گھوم جاتی ہے 

ہم نے اتنا کہا کہ " جنگ میں رب العالمین سے مدد مانگی جاتی ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنھم سے،کچھ بدعقیدہ حضرات کو برا لگ گیا،ایسے بدعقیدہ حضرات کی رب اصلاح فرمائے جن کے ہاں توحید و ناموس صحابہ کرام رض و ناموس امی عائشہ رضی اللہ عنھا اتنی سستی ہے " اگر اصلاح نہیں تو بھاڑ میں جائیں ہماری پروفائل پہ کیا کررہے ہو.......

جان لو ہماری دوستی و دشمنی کی بنیاد توحید ہے عقیدہ الولاء والبراء ہے الحمدللہ

اگر آپ چاہتے ہیں صحت ۔۔۔۔

.

💢 *اگر آپ چاہتے ہیں ....👇🏻*

*صحت :*
پیر اور جمعرات کو روزہ رکھیں۔

*تندرستی :*
ایام بیض ( ہر قمری مہینے کی 13، 14، 15 تاریخ) کے روزے رکھیں۔

*خوشی :* 
روزانہ قرآن کی تلاوت کریں۔

*چہرے کا نور :* 
رات کے قیام میں چاہے دو رکعت ہی سہی
اطمینان قلب اللہ کا کثرت سے ذکر کریں
مال اور اولاد کثرت سے استغفار کریں۔

*غم کا خاتمہ:*
کثرت سے دعا و استغفار کریں۔

*مصیبتوں کا خاتمہ :*
لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیں۔

*برکت :*
زیادہ سے زیادہ  نبی کریم ﷺ پر درود بھیجیں۔

*بلا کا دفع ہونا:* 
صدقہ دیں چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔

*اللہ کی محبت :*
والدین سے حسن سلوک کریں۔

*اللہ کی معافی :*
جس نے تم پر ظلم کیا اسے معاف کرو۔

*اللہ کی رحمت :*
زمین والوں پر رحم کرو

*اللہ کی رضا اور جنت :*
وقت پر توبہ اور نماز پڑھو۔

*حسن خاتمہ :*
لا إله إلا الله کا کثرت سے ورد کرو

کہیں آپ اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ پیشکش/ م۔ م۔ ق۔ ن

کہیں آپ اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ 
پیشکش/ م۔ م۔ ق۔ ن 

نرگسیت ایک خوف ناک مرض
نرگسیت کے شکار ہوں تو کسی سائیکالوجسٹ سے ضرور علاج کرائیں
نرگسیت کیا ہے؟
اپنی اہمیت کا حد سے زیادہ احساس یا اپنی قابلیت اور صلاحیت سے زیادہ اہمیت کی تمنا کرنا نرگسیت کہلاتا ہے ۔
 یہ ایک بے حد خوف ناک بیماری ہے،جس کو نارسیسٹک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر (این پی ڈی) کہا جاتا ہے۔یعنی یہ خیال ہونا کہ آپ بہت اہم ہیں۔
آپ اس ڈس آرڈر کے شکار ہیں یا نہیں؟اس کو سمجھنے کے لیے آپنے آپ میں غور کرنا ہوگا کہ آپ میں یہ عوارض قبیحہ تو نہیں پائے جاتے ہیں۔اگر ان میں سے دو فاسد عوارض ہیں تو فورا کسی سائیکائٹرسٹ (Psychiatrist سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ورنہ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ یہ مرض بڑھاپا کو بے حد مشکل بنا دیتا ہے۔ہر قریبی انسان کو اس بوڑھے انسان سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔
نرگسیت کے عوارض فاسدہ
ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی کے مطابق اس بیماری کو پرکھنے کے نو نکات ہیں:
1- اپنی اہمیت کا انتہائی احساس
2- اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا
3ـ سراہے جانے کی حد سے زیادہ طلب
4- ہمدردی کے احساس کی کمی
5- ہر ایک پر رشک کرنا
6- مغرور اور گھمنڈی رویے رکھنا
7ـ ہر جگہ نمایاں رہنے کی تڑپ
8- تصویر میں بنے رہنے کی لت
9- کسی کی بات مکمل سمجھنے سے پہلے قطع کلام کرتے ہوئےاپنی بات شروع کر دینے کی لت۔
(رپورٹ بی بی سی)
یہ نو عوارض ہیں ،جن میں سے دو عوارض کسی میں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوپر نرگسیت کا حملہ ہو چکا ہے۔اسے جلد اس خوف ناک بیماری کے متعلق بے سنجیدہ ہو جانا چاہیے۔اگر دو سے زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں تو اسے سائکا ئٹرسٹ کی مکمل نگرانی کی سخت ضرورت ہے۔
اس بیماری کا اثر اس مریض کی سماجی زندگی پر پڑتا ہے۔اس مریض کی اولاد اور اس کے قریبی متعلقین پر بھی اس کے نرگسی رویوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان اس مریض کے بڑھاپے اور بیکاری کی زندگی پر پڑتا ہے۔ایسے مریض سے ہر شخص بلکہ اس کے قریب ترین لوگوں کو شدید نفرت ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے اس کا بڑھاپا بے حد مشکل بھرا ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خوف ناک بیماری سے محفوظ رکھے۔آمین۔

انسانیت پر ظلم کا عجیب کھیل

دو دن میں 50,000 مسلمانوں کا قتل !!!
‏اٹھایئس سال قبل اگست 1995 کاواقعہ ھے

حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔‏سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔ 

ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:
"گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا. جو شہر سے باہر جانا چاہے گا اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔"
‏زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔ 

شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے ‏زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان. جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔ 

ایک طرف سے آواز آئی فائر۔

سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بہ یک وقت گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں
‏برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ ‏کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ 

ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔ 

اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں اور معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے۔ ‏جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئیں۔ 

شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑے بڑے گڑھے کھود کر پانچ پانچ سو، ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ ‏نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔

لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔‏انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے ‏پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔ 

یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں، نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا ‏دورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995 کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔
‏اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا

نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں
‏نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے ‏بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔ 

اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج ‏نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔ 

اگست  1995 سے اگست 2023 تک اٹھائیس سال گذر گئے۔
‏آج بھی مہذب دنیا اس داغ کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین آج تک جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔ 

جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے
‏پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔ 

گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی ‏مانگی گئیں۔ مگر ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

اب تو یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام یاد نہیں۔

غیروں سے کیا گلہ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی ‏واقعہ ہوا بھی تھا؟
 پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟ یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو
‏ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔
اپنے دوستوں کو روزانہ پھول ضرور بھیجیں مگر خدارا ایسی تحریریں ضرور بھیجیں جس سے ھمارے ایمان اور عمل میں اضافہ ھوتا ھو درخواست ہے کہ دس دوستوں کو بھیج دیں
آخری بات
اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو اور اپنی جنگیں اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہیں

اورنگ زیب عالمگیرؒ انصاف کی ترازو میں

اورنگ زیب عالمگیرؒ 
انصاف کی ترازو میں!

(قسط-1)

 اورنگ زیب ؒکے بارے میں جدوناتھ سرکار جیسے تنگ نظر ، متعصب، فرقہ پرست اور حقیقت بے زار مصنف کو بھی یہ کہنا پڑا کہ اورنگ زیب ؒکے اقتدار نے مغل حکومت کے ہلال کو بدر کامل بنا دیا ، اب اگر کوئی چاند پر تھوکنے کی کوشش کرے تو یہ تھوک اسی کی طرف واپس آئے گا ؛ اس لئے ایسی باتوں سے صَرف نظر کرجانا مناسب ہوتا ؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہندوستان کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے ؛ بلکہ نئی تاریخ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو مسئلہ کی اصل حقیقت بتائی جائے اور سچائی کی روشنی پھیلائی جائے ۔
 ہندوستان پر جن مسلم خاندانوں نے حکومت کی ہے ، ان میں غالباً سب سے طویل عرصہ مغلوں کے حصہ میں آیا ہے ، جو ۱۵۲۶ء سے لے کر ۱۸۵۷ء یعنی تقریباً ساڑھے تین سو سال کے عرصہ پر محیط ہے ، اس دوران اگرچہ ہمیشہ پورے ملک پر مغلوں کو دورِ اقتدار حاصل نہیں رہا اوربہت سے علاقے ان کے قبضہ میں آتے اور جاتے رہے ؛ لیکن تقریباً اس پورے عرصہ میں وہ قوتِ اقتدار کی علامت بنے رہے ، اس خاندان کا چھٹا فرمانر وا اورنگ زیب عالمگیرؒ تھا ، عالمگیر ۱۶۱۸ء میں ممتاز محل کے بطن سے پیدا ہوئے اور ۱۷۰۷ء میں وفات پائی ، گویا پورے نوے سال کی طویل عمر پائی ، پھر اس کی خوش قسمتی ہے کہ ۱۶۵۷ء سے لے کر ۱۷۰۷ء تک یعنی تقریباً پچاس سال اس نے حکومت کی اور اس کے عہد میں ہندوستان کا رقبہ جتنا وسیع ہوا ، اتنا وسیع نہ اس سے پہلے ہوا اور نہ اس کے بعد ، یعنی موجودہ افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش کی آخری سرحدوں اورلداخ و تبت سے لے کر جنوب میں کیرالہ تک وسیع و عریض سلطنت کا قیام اسی بادشاہ کی دَین ہے ۔
 اس کی اخلاقی خوبیوں پر تمام مؤرخین یہاں تک کہ اس کے مخالفین بھی متفق ہیں کہ یہ تخت شاہی پر بیٹھنے والا ایک درویش تھا ، جو قرآن مجید کی کتابت اور ٹوپیوں کی سلائی سے اپنی ضروریات پوری کرتا تھا ، یہاں تک کہ اس نے اپنی موت کے وقت وصیت کی کہ اس کی اسی آمدنی سے تجہیز و تکفین کی جائے ، ایسے زاہد ، درویش صفت ، قناعت پسند اور عیش و عشرت سے دُور بادشاہ کی نہ صرف ہندوستان بلکہ تاریخِ عالم میں کم مثالیں مل پائیں گی ، یہ تو اس کی ذاتی زندگی کے اوصاف ہیں ، اس کے علاوہ اورنگ زیبؒ نے اپنے عہد میں غیر معمولی اصلاحات بھی کیں ، ترقیاتی کام کئے ، نامنصفانہ احکام کو ختم کیا ، اور سرکاری خزانوں کو عوام پر خرچ کرنے اور رفاہی کاموں کو انجام دینے کی تدبیر کی ، اس سلسلہ میں چند نکات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے :
 (۱) اب تک عوام پر بہت سارے ٹیکس لگائے جاتے تھے ، اور یہ صرف مغل حکمرانوں کا ہی طریقہ نہیں تھا ؛ بلکہ اس زمانہ میں جو راجے رجواڑے اور ان کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں تھیں ، وہ بھی اس طرح کے ٹیکس لیا کرتی تھیں ، شیواجی تو اپنے مقبوضہ علاقہ میں چوتھ یعنی پیداوار کا چوتھائی حصہ وصول کیا کرتے تھے ، اورنگ زیب عالمگیرؒ نے مال گذاری کے علاوہ جو ٹیکس لئے جاتے تھے ، جن کی تعداد اَسّی (۸۰) ذکر کی گئی ہے ، ان سب کو نامنصفانہ اور کسان مخالف قرار دیتے ہوئے ختم کردیا ؛ حالاںکہ اس کی آمدنی کروڑوں ہوتی تھیں ، یہ بات قابل غور ہے کہ عام طورپر اورنگ زیب ؒکو ہندو مخالف پیش کیا جاتا ہے ؛ لیکن اس نے متعدد ایسے ٹیکسوں کو معاف کردیا ، جن کا تعلق ہندوؤں سے تھا ، جیسے گنگا پوجا ٹیکس ، گنگااشنان ٹیکس اور گنگا میں مُردوں کو بہانے کا ٹیکس ۔
 (۲) اس نے مال گذاری کا قانون مرتب کیا اور اس کے نظم و نسق کو پختہ بنایا ، یہاں تک کہ شاہجہاں کے دور میں ڈھائی کروڑ پونڈ کے قریب سلطنت کی آمدنی تھی ، تو وہ عالمگیر کے دور میں چار کروڑ پونڈ کے قریب پہنچ گئی ۔
 (۳) حکومتوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی عہدہ دار کا انتقال ہوجاتا تو اس کی ساری جائداد ضبط کرلی جاتی اور حکومت کے خزانہ میں داخل ہوجاتی ، آج بھی بعض مغربی ملکوں میں ایسا قانون موجود ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کے بغیر دنیا سے گزر جائے تو اس کا پورا ترکہ حکومت کی تحویل میں چلا جاتا ہے ، عالمگیر نے اس طریقہ کو ختم کیا ؛ تاکہ عہدہ دار کے وارثوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو ۔
 (۴) اس نے اس بات کی کوشش کی کہ مظلوموں کے لئے انصاف کا حاصل کرنا آسان ہوجائے ، وہ روزانہ دو تین بار دربار عام کرتا تھا ، یہاں حاضری میں کسی کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں تھی ، ہر چھوٹا بڑا ، غریب و امیر ، مسلمان و غیر مسلم ، بے تکلف اپنی فریاد پیش کرسکتا تھا اور بلا تاخیر اس کو انصاف فراہم کیا جاتا تھا ، وہ اپنے خاندان کے لوگوں ، شہزادوں اور مقرب عہدہ داروں کے خلاف فیصلہ کرنے میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیتا تھا ؛ لیکن اس کے علاوہ اس نے دور دراز کے لوگوں کے لئے ۱۰۸۲ھ میں ایک فرمان کے ذریعہ ہر ضلع میں سرکاری نمائندے مقرر کئے کہ اگر لوگوں کو باشاہ اور حکومت کے خلاف کوئی دعویٰ کرنا ہو تو وہ ان کے سامنے پیش کریں اور ان کی تحقیق کے بعد عوام کے حقوق ادا کردیں ۔
 (۵) عالمگیر کا ایک بڑا کار نامہ حکومت کی باخبری کے لئے واقعہ نگاری اور پرچہ نویسی کا نظام تھا ، جس کے ذریعہ ملک کے کونے کونے سے بادشاہ کے پاس اطلاعات آتی رہتی تھیں ، اور حکومت تمام حالات سے باخبر رہ کرمناسب قدم اُٹھاتی تھی ، اس نظام کے ذریعہ ملک کا تحفظ بھی ہوتا تھا ، عوام کوبروقت مدد بھی پہنچائی جاتی تھی ، اور عہدہ داروں کو ان کی غلطیوں پر سرزنش بھی کی جاتی تھی ، اس کا سب سے بڑا فائدہ رشوت ستانی کے سدباب کی شکل میں سامنے آیا ۔
 عام طورپر حکومت کے اعلیٰ عہدہ داروں کو رشوت ’گفٹ ‘ کے نام پر دی جاتی ہے ، یہ نام کرپشن کے لئے ایک پردہ کا کام کرتا تھا ، اُس زمانہ میں یہ رقم نذرانہ کے نام سے دی جاتی تھی ، جو بادشاہوں کو حکومت کے عہدہ داران اور اصحاب ِثروت کی جانب سے اور عہدہ داروں کو ان کے زیر اثر رعایا کی جانب سے ملا کرتی تھی ، اورنگ زیبؒ نے ہر طرح کے نذرانہ پر پابندی لگادی ، خاص کر نوروز کے جشن پر تمام امراء بادشاہ کی خدمت میں بڑے بڑے نذرانے پیش کرتے تھے ، اورنگ زیبؒ نے اپنی حکومت کے اکیسویں سال اس جشن ہی کو موقوف کردیا اور فرمان جاری کردیا کہ خود اس کو کسی قسم کا نذرانہ پیش نہ کیا جائے ۔
 (۶) عام طورپر جہاں بھی شخصی حکومتیں رہی ہیں ، وہاں عوام کو اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رکھنے کے لئے بادشاہ کے بارے میں مبالغہ آمیز تصورات کا اسیر بنایا جاتا ہے ، اسی لئے تیمور لنگ کہا کرتا تھا کہ جیسے آسمان پر خدا ہے ، زمین میں وہی درجہ ایک بادشاہ کا ہے ، اسی لئے مغلوں کے یہاں بھی ہندوانہ طریقہ کے مطابق ایک طرح کی باشاہ پرستی مروج رہی ہے ، اکبر کے یہاں تو بادشاہ کا دیدار اور سجدہ کرنا ایک عبادت تھا اور ہر دن بے شمار لوگ یہ عبادت بجالاتے تھے ، جہانگیر نے سجدہ ختم کیا ؛ لیکن زمین بوسی باقی رہی ، عالمگیر نے جھروکا درشن بالکلیہ ختم کردیا ، جس میں لوگ صبح کو بطور عبادت بادشاہ کا دیدار کرتے تھے اور اس وقت تک کھاتے پیتے نہیں تھے ؛ البتہ اس بات کی اجازت تھی کہ اگر کوئی ضرورت مند آئے تو اس کی درخواست رسی میں باندھ کر اوپر بادشاہ کے پاس پہنچا دی جائے ۔
 (۷) عموماً حکمرانوں کی شاہ خرچی اور حکمرانوں کے چونچلے غریب عوام کی کمر توڑ دیتے ہیں ، اورنگ زیب عالمگیرؒ نے ایسے تکلفات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی ، جیساکہ گذرا ، شاہی نذرانوں کو بند کیا ، دربار شاہی میں بادشاہوں کی تعریف کرنے والے شعراء ہوا کرتے تھے اوران پر ایک ذمہ دار ہوا کرتا تھا ، جو ’ ملک الشعراء ‘ کہلاتا تھا ، اورنگ زیبؒ نے اس شعبہ کو ختم کردیا ، وہ اپنی شان میں کسی بڑائی اور مبالغہ آمیز شاعری کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے ، بادشاہ کا دل بہلانے کے لئے دربار شاہی میں گانے بجانے کا خصوصی انتظام ہوتا تھا ، قوال اور رقاصائیں گاکر اور ناچ کر بادشاہ کا دل خوش کرتی تھیں اور ان پر بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی تھیں ، عالمگیر نے اس سلسلہ کو بھی موقوف کردیا ، بادشاہ کے لکھنے کے لئے سونے اور چاندی کی دواتیں رکھی جاتی تھیں ، عالمگیر نے اس کے بجائے چینی کی دواتیں رکھنے کی تلقین کی ، انعام کی رقمیں چاندی کے بڑے طشت میں لائی جاتی تھی ، اس طشت کی رسم کو بھی اورنگ زیبؒ نے موقوف کردیا ، عام طورپر بادشاہوں کی جیب خرچ کے لئے کروڑوں روپے کی آمدنی مخصوص کردی جاتی تھی ، آج بھی جمہوری ملکوں میں سربراہ حکومت کے لئے رہائش ، سفر اور ضروریات وغیرہ پر جو رقمیں صرف کی جاتی ہیں اور رہائش کے لئے جو وسیع مکان اور اعلیٰ درجہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ، وہ گذشتہ بادشاہوں کی شاہ خرچی کو بھی شرمندہ کرتی ہیں ؛ لیکن اورنگ زیب نے اپنے لئے نہ کوئی عظیم الشان محل تعمیر کرایا ، نہ اپنی تفریح کے لئے کوئی باغ بنوایا ، اور اپنے مصارف کے لئے بھی محض چند گاؤں کو اپنی حصہ میں رکھا اور بقیہ سارے مصارف کو حکومت کے خزانہ میں شامل کردیا ۔
 (۸) اس نے تعلیم کی ترقی پر خصوصی توجہ دی ، ہر شہر اور ہر قصبہ میں اساتذہ مقرر ہوئے ، نہ صرف اساتذہ کے لئے وظائف مقرر کئے گئے اور جاگیریں دی گئیں ؛ بلکہ طلبہ کے اخراجات اور مدد معاش کے لئے بھی حکومت کی طرف سے سہولتیں فراہم کی گئیں ، کہا جاتا ہے کہ اورنگ زیبؒ کے زیادہ تر فرامین تعلیم ہی سے متعلق ہیں ، جن کو ان کے بعض تذکرہ نگاروں نے نقل بھی کیا ہے ۔
 (۹) اس زمانہ میں صنعت و حرفت کو آج کی طرح ترقی نہیں ہوئی تھی اور معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت تھی ، اورنگ زیبؒ نے زرعی ترقی پر خصوصی توجہ دی ، کسانوں کی حوصلہ افزائی کی ، جن کسانوں کے پاس کاشتکاری کے لئے پیسہ نہیں ہوتا ، ان کو سرکاری خزانوں سے پیسہ فراہم کئے جاتے ، حسب ِضرورت کسانوں سے مال گذاری معاف کی گئی ، جو زمینیں اُفتادہ تھیں اور ان میں کاشت نہیں کی جاتی تھی ، ان کو ایسے کسانوں کے حوالہ کیا گیا ، جو ان کو آباد کرنے کے لئے آمادہ تھے ، اپنے عہدہ داروں کو ہدایت کی کہ کسانوں کو اتنا ہی لگان لگایا جائے ، جتنا وہ بآسانی ادا کرسکیں اور بخوشی ادا کرسکیں ، اگر وہ نقد کے بجائے جنس دینا چاہیں تو قبول کرلیا جائے ، انھوںنے کسانوں کے لئے کنواں کھودوانے ، قدیم کنوؤں کو درست کرانے اور آبِ پاشی کے وسائل کو بہتر بنانے کو حکومت کی ایک ذمہ داری قرار دیا ، انھوںنے زمین کے سروے کرنے پر خصوصی توجہ کی ؛ تاکہ معلوم ہوا کہ کونسی اراضی اُفتادہ ہیں اور اُن کو قابل کاشت بنانے کی کیا صورت ہے ، انھوںنے اپنے فرمان میں لکھا ہے :
بادشاہ کی سب سے بڑی خواہش اور آرزو یہ ہے کہ زراعت ترقی کرے ، اس ملک کی رزعی پیداوار بڑھے ، کاشتکار خوشحال ہوں اور عام رعایا کو فراغت نصیب ہو ، جو خدا کی طرف سے امانت کے طورپر ایک بادشاہ کو سونپی گئی ہے ۔
 زرعی پیداوار کی طرف اسی توجہ کا نتیجہ تھا کہ عالمگیرؒ کے دور میں فتح ہونے والے بہت سے علاقے ایسے تھے ، جہاں کے اخراجات وہاں کی آمدنی سے زیادہ تھے ؛ لیکن پھر بھی کہیں غذائی اشیاء کی قلت محسوس نہیں کی گئی ، اگر یہ صورتِ حال نہیں ہوتی تو اتنے طویل و عریض رقبہ پر پچاس سال تک اورنگ زیب حکومت نہیں کرپاتے اور عوام کی بغاوت کے نتیجہ میں مملکت پارہ پارہ ہوجاتی ۔
 (۱۰) اورنگ زیبؒ کا ایک بڑا کارنامہ سماجی اصلاح بھی ہے ، اس نے بھنگ کی کاشت پر بابندی لگائی ، شراب و جوئے کی ممانعت کردی ، قحبہ گری کو روکا اور فاحشہ عورتوں کو شادی کرنے پر مجبور کیا ، لونڈی ، غلام بناکر رکھنے ، یا خواجہ سرا رکھنے پر پابندی لگائی ۔
 (۱۱) ہندو سماج میں عرصۂ دراز سے ستی کا طریقہ مروج تھا ، جس کے تحت شوہر کے مرنے کے بعد بیوی شوہر کی چتا کے ساتھ نذر آتش کردی جاتی تھی ، ہندو سماج میں اسے مذہبی عمل سمجھا جاتا تھا ، مغلوں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ، غیر مسلموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے ، اس لئے اورنگ زیبؒ نے قانونی طورپر اس کو بالکلیہ تو منع نہ کیا ؛ لیکن اصلاح اور ذہن سازی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے عہدہ داروں کو ہدایت دی کہ وہ عورتوں کو اس رسم سے باز رکھنے کی کوشش کریں اور اپنی خواتین کے ذریعہ بھی ان کو اس کی دعوت دیں ، نیز پابندی عائد کردی کہ علاقہ کے صوبہ دار کی اجازت کے بغیر ستی نہ کی جائے ؛ تاکہ کسی عورت کو اس عمل پر اس کے میکہ یا سسرال والے ، یا سوسائٹی کے دوسرے لوگ مجبور نہ کرسکیں ، اس طرح عملاً ستی کا رواج تقریباً ختم ہوگیا ۔ (جاری)


٭٭٭

ہندستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں

"گاہے گاہے باز خواں"
(ہندستان میں مسلمانوں کی 
موجودہ صورت حال اور حضرت 
تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں)
ملک کی ٓازادی میں علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا جو کردار رہا ہے وہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے۔آرایس ایس اور کٹر ہندو تنظیمیں لاکھ تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش کریں لیکن حق کے متلاشی کو اصل حقیقت تک رسائی ہو ہی جاتی ہے۔ملک کی آزادی کے آخری دور کی جدوجہد میں علمائے دیوبند کا نام سر فہرست ہے۔ان علماءمیں قائد کی حیثیت سے شیخ الھند مولانا محمودالحسن دیوبندی ؒ ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اورمولانا عبید اللہ سندھیؒ کا نام آتا ہے۔ان کی قیادت میں علماءو طلبائے دیوبند آزادی ہند کی تحریک چلا رہے تھے ۔ہندوستان کو آزادی تو مل گئی لیکن تقسیم کے ساتھ۔ یعنی پاکستان کے نام سے ایک علاحدہ ملک بھی وجود میں آگیا۔ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری ان ہی علماءکی رہی جنہوں نے بٹوارے کی مخالفت کی تھی۔ چنانچہ ہمیں صرف تصویر کا ایک رخ دکھایا گیا یعنی ہمیں صرف یہ بتایا کہ علمائے دیوبند ملک کے بٹوارے کے مخالف تھے۔ مسلمانوں کے لئے علاحدہ مملکت کا مطالبہ دیندار طبقے کی طرف سے نہیں کیا گیاتھا بلکہ یہ مطالبہ محمد علی جناح کا تھا جو ایک سیکولر آدمی تھے اور مذہب کا نام صرف اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے لیا کرتے تھے۔علماءنے جناح کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ افسوس صد افسوس کہ ہندستان کے مسلمانوں کو صرف آدھا سچ بتایا اور باقی آدھا سچ کسی سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جید علما دیوبند کا ایک بہت بڑا طبقہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں کانگریس سے بدظن تھا. کانگریس کو مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سمجھتا تھا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کٹر دشمن ہندوﺅں کا غلبہ تھا لیکن معلوم نہیں کہ کیوں اس تاریخی حقیقت کو ہندستانی مسلمانوں سے چھپایا گیا؟
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جمیعة علماء ہند کو بار بار متنبہ کیا کہ: ہندوﺅں پر بھروسہ کرنا غیردانشمندی ہے۔انگریزوں سے زیادہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں. برسراقتدار ہونے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناکچھ رعایت کا معاملہ کرتے ہیں لیکن اگر یہ ہندو برسراقتدار آگئے تو وہ مسلمانوں کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے.
خلافت کا معاملہ مسلمانوں کا ایک شرعی مسئلہ ہے لیکن تحریک خلافت کے دوران جو طریقہ کار اختیار کئے گئے نیز تحریک کو گاندھی کے ذریعے اچک لئے جانے کے سبب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تحریک سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔ چناں چہ ایک مجلس میں فرمایا کہ تدابیر کو کون منع کرتا ہے تدابیر کریں مگرحدود شرعیہ میں رہ کرچونکہ مسلمانوں نے تدابیر غیر شرعیہ کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا ہے تو اس صورت میں اول تو کامیابی مشکل ہے اگر ہو بھی گئی تو ہندوﺅں کو ہوگی اور اگر مسلمانوں کو ہوئی توہندو نما مسلمانوں کو ہوگی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ 278) 
 تحریک خلافت کے دوران ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کی غرض سے مسلمان بہت سی غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ماتھے پہ قشقے لگائے اور جئے کے کفریہ نعرے بلند کئے۔ ہندوﺅں کی ارتھی کو کندھے دیئے۔ مساجد میں کافروں کو بٹھاکر منبر رسول ﷺ کی بے حرمتی کی۔ رام لیلا کا انتظام کیا. ایک عالم دین نے انکشاف کیا کہ اگر ختم نبوت نہ ہوتی گاندھی مستحق نبوت تھا
 یہ تمام قابل اعتراض امور مولانا کو سخت ناپسند اور ناگوار گزرے. اس لئے آپ کے ملفوظات میں بار بار ان باتوں کی مذمت ملے گی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ109)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان لیڈروں نے گاندھی کے اقوال کو حجت بنا لیا ہے۔ وہ لیڈر اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ جوں ہی *گاندھی کے منھ سے کوئی بات نکلے اس کو فوراً قرآن و حدیث پر منطبق کردیا جائے.
 فرماتے ہیں:
 اس تحریک میں کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو کسی مسلمان یا عالم کی تجویز ہو، دیکھئے ہوم رول گاندھی کی تجویز ،بائیکاٹ گاندھی کی تجویز ،کھدر گاندھی کی تجویز، ہجرت کا مسئلہ گاندھی کی تجویز غرض کہ جملہ تجویزیں اس کی ہیں‘ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس نے جو کہا لبیک کہہ کر اس کے ساتھ ہوگئے‘ کچھ تو غیرت آنی چاہئے۔ ایسے بدفہموں نے اسلام کو سخت بدنام کیا ہے۔ سخت صدمہ ہے ‘سخت افسوس ہے‘ اس کی باتوں کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
(الافادات یومیہ جلد اول صفحہ 89-90)
اس سلسلے میں آپ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ سہارن پور میں ایک وعظ ہوا ۔ایک مقرر نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سوراج مل گیا تو ہندو اذان نہ ہونے دیں گے تو کیا بلا اذان نماز نہیں ہوسکتی۔ کہتے ہیں گائے کی قربانی بند کر دیں گے تو کیا بکرے کی قربانی نہیں ہوسکتی‘ کیا گائے کی قربانی واجب ہے۔
 یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرزفکر پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ:
اس مقرر کے بیان میں ایک بات باقی رہ گئی، اگر وہ یہ بھی کہہ دیتا تو جھگڑا ہی باقی نہ رہتا کہ اگر ہندوﺅں نے اسلام اور ایمان پر زندہ رہنے نہ دیا تو کیا بغیر اسلام اور ایمان کے زندہ نہ رہیں گے.
یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے دوست نما دشمن ہیں. (الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 86)
ہندو مسلم اتحاد کے جوش میں کچھ مسلمانوں نے مشہور متعصب ہندو لیڈر سردھانند (جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے خلاف شدھی کی تحریک چلائی) کو جامع مسجد دہلی میں لے جا کر اس کا وعظ کروایا.
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ وہ یہ حرکت کر کے منبر رسول ﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں.
 ۔تحریک خلافت کے دوران ہندوﺅں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنے لیڈروں کی جئے بولا کرتے تھے۔
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لفظ جئے چوں کہ شعار کفر ہے اس لئے مسلمانوں کا یہ فعل بھی شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض تھا۔
(الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 611 )
جو لوگ آپ کی تحریک خلافت میں عد م شمولیت پر اعتراض کرتے تھے آپ انہیں جواب دیتے کہ *اگر تمہاری موافقت کی جائے تو ایمان جائے ہے اس میں حدود شریعت کا تحفظ نہیں.
( الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 65)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہندو مسلمانوں کے اول درجہ دشمن تھے۔ آپ کے ملفوظات میں جہاں کہیں ہندوﺅں کا ذکر آیا ہے آپ نے ان کے لئے سخت ترین الفاظ استعمال کئے ہیں. مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات پر ہندوﺅں سے سخت گلہ شکوہ تھا کہ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑی اور وہ بھی اس میں برابر کے شریک تھے مگر جنگ آزادی کے خاتمے پر وہ نہ صرف انگریزوں سے مل گئے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کی مخبری کرکے انہیں پھانسی پر چڑھوادیا. 
۔اسی سلسلے میں فرمایا کہ:
”یہ قوم (ہندو) نہایت احسان فراموش ہے. مسلمانوں کو تو اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ انگریزوں کی خدمت کے صلے میں جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا وہ ظاہر ہے. دیکھو غدر سب کے مشورے سے شروع ہوا جو کچھ بھی ہوا مگر اس پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا. بڑے بڑے رئیس و نواب ان کی (ہندو) بدولت تختہ پر سوار ہوگئے پھر تحریک کانگریس میں مسلمان شامل ہوئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ اس کا صلہ شدھی کے مسئلے سے ادا ہوا۔ آئے دن کے واقعات اسی کے شاہد ہیں کہ ہر جگہ مسلمانوں کی جہاں آبادی مسلمانوں کی قلیل دیکھی پریشان کر دیا مگر ان باتوں کے ہوتے ہوئے بھی بعض بدفہم اور بے سمجھ ان کو دوست سمجھ کر ان کی بغلوں میں گھستے ہیں۔)
الا فاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (529)

اور ایک مجلس میں ہندوﺅں کے اس طرزعمل کے متعلق فرمایا کہ ہندوﺅں کی قوم عالی حوصلہ نہیں ان کے وعدے وعید کا اعتبار نہیں. انگریزوں سے اگر دشمنی کی بنا یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ہیں تو ہندو ان سے زیادہ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں.
(الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (493-494)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سگرچہ انگریزوں کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیتے تھے لیکن ہندوﺅں کے مسلم کش رویے کو دیکھتے ہوئے آپ اس قطعی نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندو انگریزوں سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں.
۔ایک مرتبہ فرمایا کہ:
گورے سانپ سے زیادہ زہریلا کالا سانپ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر گورے سانپ کو گھر سے نکال دیاجائے تو کالا تو ڈسنے کو موجود ہے اور جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا ہی مشکل ہے.
 الافاضات یومیہ جلد ششم صفحہ (197)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہندوﺅں کے اس وجہ سے مخالف تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ ایک مجلس میں فرمایا کہ 
بعض کفار پر تو مجھے بہت ہی غیض ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق سکھایا۔ شدھی کا مسئلہ اٹھایا. مسلمانوں کو عرب جانے کی آواز اٹھائی. قربانی گاﺅ پر انہوں نے اشتعال دیا. یہ لوگ مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں بلکہ ایمان ‘ جان و مال مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔
(الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 150)

۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ:
جب تک ہم کلمہ پڑھتے ہیں تمام غیرمسلم ہمارے دشمن ہیں۔ اس میں گورے کالے کی قید نہیں 
 ۔مولانا اس امر پر حیرت کا اظہار فرماتے کہ
ہندستان میں دو کافر قومیں موجود ہیں پھر کیا بات کہ ایک ہی قوم سے اس قدر دشمنی دوسرے قوم سے کیوں نہیں؟ (الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 177)

ایک اور مجلس میں فرمایا:
بعض لوگ کفار کی ایک جماعت کو برا کہتے ہیں اور بعض دوسری کو‘ میں کہتا ہوں دونوں برے ہیں‘ فرق صرف یہ ہے کہ ایک نجاست مرئیہ ہے اور دوسری غیرمرئیہ لیکن ہیں دونوں نجاست. ( ایضاً صفحہ 256)

مولانا کے نزدیک اہل کتاب کی دشمنی اور مشرکین کی دشمنی کے درمیان ایک فرق موجود تھا ۔آپ کے خیال میں اہل کتاب دین کے دشمن نہیں دنیا کے دشمن ہیں گو اس کے ضمن میں وہ دین کی دشمنی بھی کرجاتے ہیں- اس کے مقابلے میں مشرکین دین کے دشمن ہیں. اس کا معیار یہ ہے کہ جس قدر قوت اور سطوت اہل کتاب کو حاصل ہے ‘اگر مشرکین کو حاصل ہوجائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کا بیج تک نہ چھوڑیں۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 83)

 ایک اور موقع پہ فرمایا کہ: 
اگر ہندوﺅں کو انگریزوں کی طرح قوت حاصل ہوتی تو ہندوستان میں ایک بچہ بھی زندہ نہ چھوڑتے۔ 
(الافاضات یومیہ جلد سوم صفحہ 71)
ہندوﺅں کی مسلم دشمنی کو مدنظر مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نتیجے پر پہنچے تھے کہ قیامت آجائے ہندو کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ اور ہمدرد نہیں ہوسکتے۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 638)
( #ایس_اے_ساگر )

بریلوی مسلک بھائیوں سے تین سوالات

*میرے استاذ محترم مفتی یوسف صاحب تاولی حفظہ اللہ نے دوران درس ایک واقعہ سنایا بغور پڑھیں* 
ایک مرتبہ میرا صابر کلیریؒ کے مزار پر جانا ہوا وہاں متولی حضرات کو جب پتہ چلا دیوبند سے ایک بہت بڑے مفتی صاحب آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے میرا پر جوش استقبال کیا، حضرت کی قبر پر گیا ایصال ثواب کر کے جب واپس ہونے لگا تو متولی صاحب نے بڑی عاجزی و انکساری اور احترام کے ساتھ درخواست کی حضرت برکتًا ہمارے دسترخوان پر تشریف لے آئیں، میں نے بخوشی قبول کیا، 
حضرت نے آگے فرمایا جب میں آنے لگا تو میں نے ان متولی صاحب سے تین سوال کئے، 
سوال نمبر: ۱۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تھی؟    
ان صاحب نے جواب دیا جی بالکل اور جنکا یہ عقیدہ نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ 
سوال نمبر: ۲۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی؟ 
ان صاحب نے پھر وہی جواب دیا، 
سوال نمبر: ۳۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کل قیامت کے دن اپنے امتیوں کے لئے سفارش کرینگے؟ 
ان صاحب نے بڑی تاکید کے ساتھ وہی جواب دیا، 

آگے حضرت فرماتے ہیں  میں نے ان سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو عالم الغیب ہیں پھر وحی کی کیا ضرورت تھی؟،
آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو حاضر و ناظر ہیں پھر معراج کی کیا ضرورت تھی؟، 
آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو خود مختار ہیں تو پھر سفارش کی کیا ضرورت ہے؟، 
حضرت نے فرمایا وہ شخص ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ 
یہ تین عقائد ایسے ہیں جن میں بریلوی حضرات نے بہت ہی زیادہ افراط سے کام لیا ہے،
اور ہمارے بزرگوں نے ان کے غلط عقائد کو چٹکیوں میں تار تار کر دیا۔

🖋️✏️

اقبال بیت بازیقسط نمبر

اقبال بیت بازی
قسط نمبر 1

(الف) 

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا


آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں. 

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

آئین جواں مرداں حق گوئی وبیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی 

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں 
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر 

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شائد کہ ترے دل میں اتر جاے مری بات


الفاظ ومعانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر ونظر کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں

اے شیخ بہت اچھی مکتب کی فضا لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی

امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہوتو لاحاصل
نہ زور حیدری تجھ میں، نہ استغناے سلمانی

اسی روزو شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم