اپنی نسلوں کو یاد کروائیے، ان شاء اللہ ضرورت کے وقت کام آئیں گے

بابری مسجد کی مختصر تاریخ


بابری مسجد اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں واقع تھی۔
اس کی تعمیر 1528ء میں مغل فرمانروا ظہیرالدین محمد بابر کے حکم پر اس کے سالار میر باقی نے کروائی۔ صدیوں تک یہ مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔

برطانوی دور (1857ء کے بعد):
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مسجد کے مقام سے متعلق تنازع پیدا ہوا۔ انگریز حکومت نے جھگڑوں سے بچنے کے لیے مسجد کے اندرونی حصے مسلمانوں اور بیرونی صحن ہندوؤں کے لیے مخصوص کر دیا اور باڑ لگا دی۔

1949ء:
مسجد کے اندر رات کے وقت رام کی مورتی رکھ دی گئی، جس کے بعد تنازع شدید ہو گیا۔ حکومت نے مسجد کو مقفل (تالا بند) کر دیا۔

1986ء:
عدالتی حکم پر تالے کھول دیے گئے، جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔

6 دسمبر 1992ء:
ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا، جس کے بعد ملک بھر میں فسادات بھڑک اٹھے۔

عدالتی فیصلہ (2019ء):
سپریم کورٹ آف انڈیا نے متنازع زمین ہندو فریق کے حوالے کرنے اور مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی کسی اور مقام پر 5 ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا۔
.............................................

*مندر کے حق میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھے گئے یہ دس نکات یاد رکھیے اور اپنی نسلوں کو یاد کروائیے، ان شاء اللہ ضرورت کے وقت کام آئیں گے۔*

(1) میر باقی نے 1528 میں مسجد بنوائی، فیصلہ میں مانا گیا۔

 (2) 1857 سے 1949 تک قبضہ اور استعمال رہا، پھر زمین دوسرے گروہ کی کیسے؟

(3) بابری مسجد میں آخری نماز 16 دسمبر 1949 کو پڑھی گئی، فیصلہ میں مانا گیا۔

 (4) 22-23 دسمبر 1949 کو مورتیاں رکھنا غیرقانونی تھا، یہ فیصلہ میں کہا گیا۔

(5) گنبد کے نیچے کی زمین رام کی جائے پیدائش ہے، یہ ثابت نہیں ہوا۔

 (6) زمین پر دعویٰ میعاد کے اندر ہے، جس پر اب فیصلہ نظرِ ثانی کے لائق۔ 

(7) 6 دسمبر 1992 کو مسجد گرایا جانا غیر قانونی تھا، فیصلہ میں مانا گیا۔

(8) ہندو سینکڑوں سال سے پوجا کرتے رہے ہیں، اس بنیاد پر پوری زمین کیسے؟

 (9) یہ کیوں زیرِ غور نہیں ہوا کہ مسجد کی زمین کا تبادلہ یا منتقلی نہیں ہوسکتی؟

 (10) فیصلہ میں مانا گیا کہ مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔

اسی لیے کہا جاتا ہے:
“جو قوم اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے،
تاریخ اسے مٹا دیتی ہے۔”

بچہ میں کم اعتمادی

سوال) میرا بیٹا ماشاءاللہ 8 سال کا ہے۔ جسمانی طور پر تھوڑا صحت مند ہے، اسی وجہ سے بعض بچے اسے 'موٹا' کہہ دیتے ہیں، جس سے وہ دِل پر لے لیتا ہے۔ میں اسے کئی بار سمجھا چکی ہوں کہ میں بھی بچپن میں گول مٹول تھی اور وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جاتا ہے، مگر پھر بھی وہ اس بات سے متاثر ہوتا ہے۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ تھوڑا سا کم سوشَل ہے۔ نئے لوگوں سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر پاتا، معمولی بات پر گھبرا جاتا ہے اور بعض اوقات رونے لگتا ہے۔ جبکہ اس کی 6 سالہ بہن بہت جلد دوستی کر لیتی ہے۔
وہ اپنی ہر بات مجھ سے شیئر کرتا ہے، اور میں بھی پوری کوشش کرتی ہوں کہ اس کی ہر مشکل حل کروں۔ پڑھائی میں بھی بہترین ہے، میں اس پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتی کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ ہر بچہ وقت کے ساتھ سیکھتا ہے۔ موبائل پر کوئی غلط چیز نہیں دیکھتا، زیادہ تر ذہنی کھیل (mind games) کھیلتا ہے۔ گھر کے کاموں میں بھی میری مدد کرتا ہے۔
لیکن اس کی سب سے بڑی مشکل اس کا کم اعتماد (lack of confidence) ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہی کہ اسے کیسے سنبھالوں اور اس کا اعتماد کیسے بڑھاؤں۔ براہِ کرم کچھ مؤثر مشورے دیں؟؟؟

جواب......

آپ نے بہت خوبصورتی سے اپنے بیٹے کی پوری صورتحال بیان کی، اور یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ آپ اس کے جذبات، خود اعتمادی اور رویّے کے بارے میں اتنی سنجیدہ اور حساس ہیں۔
آپ کی باتوں سے یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ آپ ایک بہت سمجھدار، نرم دل اور بہترین ماں ہیں۔
آپ نے بہت خوبصورتی سے اپنے بیٹے کی پوری صورتحال بیان کی، اور یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ آپ اس کے جذبات، خود اعتمادی اور رویّے کے بارے میں اتنی سنجیدہ اور حساس ہیں۔
جو چیزیں آپ نے بتائیں، وہ آج کل بہت سے بچوں میں دیکھی جاتی ہیں، اور مناسب رہنمائی کے ساتھ بچے بہت اچھا فرق دکھاتے ہیں۔

⭐ آپ کے بیٹے کی جو باتیں بہت مثبت ہیں

پڑھائی میں بہترین, غور سے دیکھنے اور سمجھنے والا (keen observer)، گھر کے کاموں میں مدد کرتا ہے، موبائل کا غلط استعمال نہیں کرتا، حساس اور نرم دل، ماں سے ہر بات شیئر کرتا ہے۔ یہ سب بہت مضبوط خصوصیات ہیں… ایسے بچے آگے جا کر بہت پُرخلوص، ذہین اور متوازن نوجوان بنتے ہیں۔

⭐ جو چیز آپ کو پریشان کر رہی ہے (Self-confidence + Social Anxiety)

آپ کے بیٹے میں درج ذیل چیزیں نظر آتی ہیں:
نئے لوگوں سے نظریں نہیں ملانا، ہلکی بات پر گھبرا کر رونا، دوسرے بچوں کا “موٹا” کہنا اور اس کا دل دکھ جانا، جلدی کسی سے دوستی نہ کرنا، حساس مزاج، یہ رویّے Mild Social Anxiety یا Low Confidence کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو اس عمر میں بہت عام ہے، اچھی بات یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں صحیح ماحول اور والدین کی سپورٹ سے بہت بہتر ہو سکتی ہیں۔

ایک ایک مسئلے کو علیحدہ، مرحلہ وار، علاج کے ساتھ بیان کر رہا ہوں ، تاکہ آپ  سمجھ سکیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا کرنا ہے۔
آپ کے بیٹے میں چار اہم باتیں ہیں:
1) وزن کی وجہ سے دِل دکھ جانا (Body-Shaming Sensitivity)
2) نئے لوگوں کے سامنے گھبراہٹ (Social Anxiety)
3) نظریں نہ ملا پانا (Poor Eye Contact)
4) ذرا سی بات پر رونا یا ڈر جانا (Emotional Sensitivity)

ان چاروں چیزوں کے باوجود بچہ:

✔ ذہین✔ تعاون کرنے والا✔ صاف دِل ✔ ذمہ دار ✔ ماں پر اعتماد کرنے والا ✔ غلط سرگرمیوں سے دور ✔ پڑھائی میں بہترین،
یہ ساری خوبیاں بتاتی ہیں کہ بچہ اصل میں مضبوط ہے، مگر دل نازک ہے۔
ایسے بچے بہت کامیاب ہوتے ہیں، بس ان کے دل کو سہارا چاہیے۔

🌟 اب ہر مسئلے کو الگ الگ حل کرتے ہیں۔
🔶 مسئلہ نمبر 1: دوسرے بچوں کی طرف سے موٹا کہنے پر دِل ٹوٹ جانا۔
یہ سب سے پہلا اور سب سے گہرا زخم ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچے اپنی پہچان جسم سے جوڑ لیتے ہیں۔ کسی لفظ کے غلط استعمال سے ان کا دل چھلنی ہو جاتا ہے۔

اس کا حل تین حصوں میں ہے:

🔹 پہلا حصہ: بچہ گھر میں محفوظ ہو
روزانہ اس سے کہیں:
بیٹا، جسم بدل جاتا ہے… اصل خوبصورتی تمہاری نیت اور تمہارے دل میں ہے۔
تم میرے لیے بہترین ہو، جیسے ہو، ویسے ہی اچھے ہو۔
یہ جملے دل پر مرہم رکھتے ہیں۔

🔹 دوسرا حصہ: گھر میں کوئی جسمانی مذاق نہ ہو۔

اگر گھر پر کوئی رشتہ دار یا بہن بھائی جسمانی لفظ استعمال کرے تو فوراً روک کر کہیں کہ،
ہم کسی کے جسم کا مذاق نہیں اڑاتے۔ اس سے دل ٹوٹ جاتا ہے۔
بچہ یہ دیکھ کر اندر سے مضبوط ہو جاتا ہے کہ میری ماں میرے ساتھ کھڑی ہے۔

🔹 تیسرا حصہ: سکول میں بات کرنا۔

استاد کو آہستہ اور احترام سے بتائیں کہ بچے ایک دوسرے پر  جسمانی نام نہ رکھیں۔ اکثر استاد فوراً سنبھال لیتے ہیں اور دوسرے بچوں کو ادب سکھاتے ہیں۔

🔶 مسئلہ نمبر 2: نئے لوگوں کے سامنے گھبرا جانا (Social Anxiety)

یہ طبعی کمزوری نہیں ، یہ ایک سوشل ڈر ہے جو کئی بچوں میں ہوتا ہے اور پیار، مستقل مزاجی اور مشق سے مکمل ختم ہو جاتا ہے۔

اس کا علاج درج ذیل مراحل میں ہے:

🔹 پہلا مرحلہ: گھبراہٹ کو نام دینا
جب بچہ ڈر جائے تو فوراً اسے سمجھائیں:
بیٹا، یہ ڈر ہے… یہ خطرناک نہیں… چند لمحوں میں ختم ہو جائے گا۔
جذبات کو نام دینے سے بچے کا دماغ فوراً پرسکون ہونے لگتا ہے۔

🔹 دوسرا مرحلہ: سانس کی مشق

گھبراہٹ پر سب سے پہلی دوا:
3 بار لمبا سانس لینا ،3 سیکنڈ روکنا ، پھر آہستہ چھوڑنا

آپ بھی ساتھ کریں تاکہ وہ آپ کو دیکھ کر سیکھے۔

🔹 تیسرا مرحلہ: آہستہ آہستہ لوگوں سے بات کروانا

مثال کا شیڈول:
پہلے ہفتہ میں:
• روزانہ صرف سلام کرنے کی مشق
• گھر میں کسی جاننے والے سے ایک لفظ بولنا۔۔

دوسرا ہفتہ :
• ایک چھوٹا جملہ بولنا
• کسی بچے سے 30 سیکنڈ بات کرنا

تیسرا ہفتہ:
• کسی بچے کے ساتھ بیٹھنا
• کوئی چھوٹا سوال کرنا: آپ کون سی کلاس میں ہو؟

چھوتا ہفتہ:
آہستہ آہستہ وہ خود بولنے لگے گا۔ یہی طریقہ دنیا بھر میں بچوں کی سوشل گھبراہٹ کم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

🔶 مسئلہ نمبر 3: نظریں نہ ملانا۔۔
بچے نظریں اس لیے نہیں ملاتے کیونکہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ لوگ انہیں جانچ رہے ہیں۔
یہ ڈر ختم کرنے کا طریقہ کھیلوں کے ذریعے ہے۔

روزانہ کی 2–3 منٹ کی مشق:
✔ کھانا کھاتے وقت چند سیکنڈ نظریں ملا کر بات کریں
✔ کہانی سنائیں اور کہیں: میری طرف دیکھو، مجھے خوشی ہوتی ہے
✔ چھوٹا سا کھیل:  دیکھتے ہیں کون 5 سیکنڈ زیادہ دیکھتا ہے؟
یہ مشق چند ہفتوں میں واضح تبدیلی لاتی ہے۔

🔶 مسئلہ نمبر 4: ذرا سی بات پر گھبرا کر رونا۔
یہ عام طور پر حساس دماغ والے بچوں میں ہوتا ہے۔
یہ بچے بہتر اخلاق، زیادہ نرمی، اور زیادہ احساس رکھنے والے ہوتے ہیں۔
انہیں دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
🔹 پہلا: فوری تسلی دیں۔۔ نرم آواز میں کہیں:
میں ہوں تمہارے ساتھ، یہ احساس گزر جائے گا، تم بہادر ہو
اس سے رونے کے پیچھے کا خوف کم ہو جاتا ہے۔
🔹 دوسرا: جذبات کو سمجھنے کی تربیت۔
بچے کو سکھائیں: یہ ڈر ہے، یہ گھبراہٹ ہے ،یہ غصہ ہے، یہ اداسی ہے،جب بچہ جذبات پہچاننے لگے تو وہ ان سے overwhelmed نہیں ہوتا۔

🌟 اب آتے ہیں… اعتماد بڑھانے کے حتمی طریقے، یہ وہ طریقے ہیں جو 100٪ فائدہ دیتے ہیں:

1) روزانہ 3 جملے ضرور کہیں
تمہاری ہمت مجھے پسند ہے،
تم بہت اچھے ہو، تم اہم ہو
ماں کی زبان سب سے بڑی دوا ہے۔

2) اس کی مہارتیں سامنے لائیں
اگر وہ: • ذہین ہے • مدد کرتا ہے • سمجھدار ہے • اچھی عادتیں رکھتا ہے • نرمی رکھتا ہے
تو ان چیزوں کو بار بار ابھاریں۔

3) کھیل اور سرگرمیاں
یہ بچے کے اندر بیٹھا ہوا ڈر کم کرتی ہیں:
• فٹبال • دوڑ • ٹیبل ٹینس • آرٹ کلاس • تلاوت یا نعت • کسی ٹیم کی سرگرمی
ان سرگرمیوں میں بچہ خود کو "قابل" محسوس کرتا ہے۔

4) اس کے سامنے اپنی غلطیاں بتائیں
بچے کو بتائیں:
امی بھی بچپن میں گھبرا جاتی تھیں۔
میں بھی نئے لوگوں سے ڈرتی تھی۔
یہ سنتے ہی بچہ اندر سے سکون میں آ جاتا ہے۔

5) ہر کامیابی پر نہیں، ہر کوشش پر تعریف کریں

یہ خوبصورت جملے روزانہ لازمی:
✔ "تم نے بہت اچھی کوشش کی"
✔ "تم نے آج ہمت دکھائی"
✔ "مجھے تم پر فخر ہے"

یہ جملے بچے کے دل میں ایک نئی طاقت پیدا کرتے ہیں۔

🌟 آخر میں ایک بہت اہم بات
آپ کا بچہ کسی بیماری کا شکار نہیں… وہ صرف حساس ہے۔حساس بچے بہت بڑے انسان بنتے ہیں 
ان میں احساس، محبت، وفاداری، ذمہ داری… سب کچھ زیادہ ہوتا ہے۔
اور ایسے بچوں کے لیے آپ جیسی سمجھدار ماں سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔

        

مجرب وظیفہ برائے حج و عمرہ:📌 روزانہ 100 مرتبہ درود شریف

وظیفہ برائے حج و عمرہ کی سعادت — مجرب عمل، سچی روایت
تحریر ۔مولانا محمد زبیر احمد درخواستی حسن ابدال 

آج راقم الحروف کو حضرت مولانا حسین احمد طارق صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ حج بیت اللہ کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی حج و عمرہ کی سعادت عطا فرمائے۔
حضرت نے نہ صرف دعا فرمائی بلکہ ایک ایمان افروز واقعہ بھی سنایا:
انہوں نے فرمایا:
> "مولانا غلام احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں المدینہ مسجد میں ایک جلسہ تھا۔ اس میں حضرت مولانا سیف الرحمن درخواستی صاحب مدظلہ العالی (حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے) تشریف لائے اور بیان میں اپنے نانا کا ایک مجرب وظیفہ سنایا:
حضرت عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

> ‘جو شخص روزانہ 💯 مرتبہ درود شریف اور 💯 مرتبہ یہ کلمہ پڑھے:

اللّٰهُ اللّٰهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا

اسے ان شاء اللہ ہر سال حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہوگی۔’
حضرت سیف الرحمن درخواستی صاحب نے فرمایا کہ: "میں نے اپنے نانا سے یہ بات انیس (19) سال کی عمر میں سنی، اس وقت سے لے کر اب تک الحمدللہ مسلسل چھتیس (36) سال سے ہر سال حج اور متعدد عمرے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔"
اس بات سے متاثر ہو کر مولانا حسین احمد طارق صاحب نے بھی یہ وظیفہ شروع کیا۔ آپ فرماتے ہیں:
"اللہ کے فضل سے مجھے بھی حج و عمرے کی سعادت حاصل ہوئی، اور جب تیسری بار عمرہ کے لیے حرم نبوی میں گیا تو حضرت مولانا سیف الرحمن درخواستی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت، آپ کے بتائے ہوئے وظیفہ کی برکت سے تیسری بار عمرہ کی سعادت ملی ہے۔"

حضرت نے فوراً دو بچوں کو بلایا: زکریا اور یحییٰ، اور ان سے کہا: "بیٹا! بتاؤ تم کون سا وظیفہ کرتے ہو؟"
ان معصوم بچوں نے جواب دیا:
"ہم روزانہ 💯 مرتبہ درود شریف اور 💯 مرتبہ یہ پڑھتے ہیں:
اللّٰهُ اللّٰهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا"
حضرت نے مسکرا کر فرمایا:
> "دیکھو! یہ بچے بھی اسی وظیفے کی برکت سے آج یہاں (مدینہ منورہ) موجود ہیں۔"
🌹 لہٰذا تمام بہن بھائیوں، خواتین، بچوں اور بزرگوں سے درخواست ہے کہ اس مجرب وظیفے کو معمول بنا لیں۔
📿 مجرب وظیفہ برائے حج و عمرہ:
📌 روزانہ 100 مرتبہ درود شریف
📌 روزانہ 100 مرتبہ:
> اللّٰهُ اللّٰهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
💠 بہتر ہے درود شریف یہ پڑھا جائے:
 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ أَفْضَلَ صَلَاتِكَ
🌟 ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ!
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بار بار حرمین شریفین کی حاضری، مقبول حج، اور عمرے نصیب فرمائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنے ان نیک بندوں کی نیک صحبت، اخلاص اور اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا ارحم الراحمین.

سلسلہ شاذلیہ اورنگ آباد کا تعارف



ہزارہا شکر اُس خالقِ کائنات کے جِس نے اِس شر القرون میں اپنے بندوں کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کے لیے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں آپ ہی کی زرّیت طیبہ میں سے اپنے ایک بندہ کو قبول فرمایا اُسے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اُمت مرحومہ کی خدمت کے جذبہ سے سرشار فرمایا اور خدمت خلق کے اِس مشن کی تکمیل کے لیے اپنے اولیاء کاملین کے فیوض و برکات کا اُس خادم الامت کو امین بنایا اور کروڑہا احسان کہ ہم امتیوں کو اُس عظیم الشان اولیاء کے جانشین کا نام لیوا اور غُلام بنایا جسے آج پوری دُنیا خادم الامت حضرت سید نُور زمان نقشبندی شاذلی کے نام سے جانتی ہے 

رب العالمین نے اپنے فضل اور اسلاف کی علمی و روحانی وراثت سے حضرت والا کو ایسا بنایا کہ آپ کی ہدایات دریا کی مانند ہیں جو اپنی گہرائی میں غوطہ لگانے والے کو بے شمار موتیوں سے نواز دیتی ہیں، آپ کی دعاؤں کا اثر اُس دریا کی مانند ہے جو اپنی نرم لہروں میں دلوں کو سیراب کرتا ہے، آپ کی موجودگی ایک عطر کی طرح ہے جو فضا میں پھیل کر ہر گوشے کو معطر کر دیتی ہے، آپ کا لفظ لفظ ایسا ہے جیسے بہار کی پہلی جو ہر دل میں اُمید کی نئی کرن بکھیر دے 

ربّ کریم نے اپنے لُطف و کرم سے اپنے لاڈلے نبي کی لاڈلی اُمت کو سہارا دینے کے لیے, انہیں پھر سے بیدار کرنے کے لیے, اِس اُمت کو اپنے کام اور مقام پر لانے کے لیے ہمارے شیخ و مرشد حضرت سید نُور زمان نقشبندی مجددی شاذلی پر تمام سلاسل کے وہ علوم منکشف فرمائے جن میں اِس بے دینی کے دور میں اور تعلّق مع اللہ سے کنارہ کشی کے زمانے میں آپ نے اللہ فضل و توفیق سے تصوّف کو علمیت اور عملیت کے اُس آسان ترین اُسلوب میں پیش کیا کہ ہر صاحبِ ذوق اور ہر آنکھ والا اُسے قبول کر کے سلاسل کے فیوض سے اپنا حصہ حاصِل کر رہا ہے 

اللہ پاک نے اپنے خاص لطف و عنایت سے حضرت شاہ جی سید نُور زمان صاحب کے ذریعہ سِلسلہ عالیہ سِلسلہ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کو اب نئے رنگ ڈھنگ نئے اُسلوب اور زاویے عطا فرمائے جو وقت کی اشد ضرورت تھی 
اور سلاسل کا اُن نبوی فیوض و برکات کو وقت اور زمانے کے تقاضے عین مطابق نئے قالب میں پیش کرنا یہ خدائی حکمت کا متقاضی ہے 

وہ سِلسلہ نقشبندیہ جو ابتداء میں طریقہء صدیقیہ تھا پھر طیفوریہ ہوا پھر خواجگانیہ ہوا پھر نقشبندیہ کہلایا اب اللہ رب العالمین نے حضرت سید نُور زمان صاحب کے ذریعہ اسے سلسلہِ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کے نام سے سلاسل کا وہ حسین اور عظیم الشان سنگم بنا دیا جِس سلسلہ میں تمام سلاسل کے کمالات علوم فیوض و برکات کو ضم کر دیا گیا جِس میں وہ نورانی اعمال و اذکار شامل ہیں جو تاریکی میں راہ دکھاتے ہیں اِس میں وہ قوّت ہے جو دلوں کی مٹی کو سونا بنا دیتی ہے اِس میں وہ روحانی تاثیر ہے جِس نے کثرتِ ذکر اللہ کا وہ ساز چھیڑا ہے جو خیر القرون اور ثم الذین یلونہم کی طرف اُمت کی از سر نو عود کی کامیاب ترین اور اظہر من الشمس کوشش ہے جن عظیم الشان اذکار نے مسلسل ان تعبد اللہ کانک تراہ کا سماں باندھ رکھا ہے 
شیخنا و مرشدنا حضرت سید نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی ادام اللہ فيوضہم کی رہنمائی میں جو سکون و معرفت ہے اُس کا کوئی موازنہ نہیں آپ کا فیض نظر دل کی حقیقتوں کو دریافت کرنے کا ذریعہ بنا 

یہ حقیر پُر تقصیر (سیّد تفضل حسینی نقشبندی شاذلی) اور اِس کے اعزاء و اقرباء اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اِس بے لگام کو جو قرار میرے شیخ کی باطنی نگاہ اور علمی رہنمائی نے بخشا اور سچائی اور خدمت کی جس راہ پر ڈالا اور نیابت نبوّت کے بار امانت کو سنبھالنے اور اُس کے تقاضے پر عمل کے لیے آمادہ کیا اُس کا حق ہے کہ اُس محسن اُمت کی عقیدت و محبت کو حرز جاں بنایا جائے 

حضرت والا کے اسی فیضانِ نظر کا ایک اور احسان لا يُحصيٰ ہوا کہ اِس عظیم سلسلہ سِلسلہ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کے ملکی ترجمانی کے لیے اِس حقیر پُر تقصیر كا نام منتخب کیا گیا، گویا حضرت والا اور آپ کے اِس عظیم سلسلہ کی زبان بن کر ہند میں کفر کی دھند کو ذہنوں سے صاف کرنے اور کفر کے تاریک ترین خیموں میں توحید کی شمع جلانے کے لیے مُلکی ذمہ داری سے سرفراز کیا گیا یہ حقیر پُر تقصیر اپنے سارے قصوروں کے اعتراف کے ساتھ حضرت والا کی خدمتِ عالیہ میں درخواست گزار ہے کہ 

 کہاں میں اور کہاں یہ تیری ترجمانی 
مجھے معلوم ہے اپنے سخن کی تنگ دامانی
 
جیسے حضرت والا کے فیضانِ نظر نے اِس پتھر کو تراش کر دیدہ زیب بنایا اب اپنی فیض نظر کی کرشمہ سازی سے اپنے اعتماد اور ہند میں سلسلہ کی ترجمانی کے لائق بھی بنائے گے 

اللہ کی قسم، آپ کی نظرِ کرم سے ہی میری زندگی میں وہ روشنی آئی جس نے دل کی تاریکیوں کو جھاڑ پھینکا اور دنیا و آخرت کی حقیقت مجھے صاف دکھا دیا
آپ کی موجودگی میری روحانی تکمیل کا باعث ہے، اور آپ کی نظرِ کرم ہی وہ قوت ہے جو میرے اندر ہر دن نئی طاقت اور عزم پیدا کرتی ہے۔ اللہ کے حکم سے آپ کی دعا کی برکتوں سے میری زندگی کو سکون اور اطمینان ملا ہے
اللہ کی رضا اور آپ کی عنایت سے میں اس راہِ تصوف پر گامزن ہوں جس پر آپ کی ہدایت ہی میرا رہبر ہے۔ آپ کی دعا اور رہنمائی کے بغیر میری روح کی جستجو بے سمت ہوتی۔ میں اس کرم کے لیے ہمیشہ آپ کا شکر گزار رہوں گا
میرے دل کی گہرائیوں سے میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنی روحانی عنایتوں اور کرم سے مجھے اس دریا کی جانب رہنمائی کی جس میں غرق ہو کر میں نے سچائی اور معرفت کا دروازہ پایا


ربّ کریم کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس عظیم اور مقدس سلسلہِ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کا مُلکی ترجمان بننے کا موقع ملا۔ حق میرے اُن عظیم اساتذہ کرام کا کہ اِس موقعہ پر اُن کا شکریہ ادا کیا جائے جن کی تعلیم و تربیت اور مسلسل اور انتھک کوششوں نے مُجھ کانچ کے ٹکڑے کو ہیرا بنانے میں وہ عظیم کردار ادا کیا جس کا کبھی حق ادا نہیں ہو سکتا یہی تو ہیں وہ جنہوں نے حضرت خادم الامت کے فیضان کو مُجھ تک اور پورے صوبہ مہاراشٹر میں پہنچایا اور اب بفضل اللہ تعالیٰ حضرت والا نے پورے ملک کی ذمہ داری اور ہند میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کی نمائندگی کے لیے امیرِ ہند حضرت مولانا محمد اقبال صاحب نقشبندی شاذلی(نمائندہ و خلیفہ حضرت سیّد نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی عالمی امیرِ سِلسلہ) کو اور نائب امیر ہند حضرت مولانا عبد الکبیر صاحب ثاقبی نقشبندی شاذلی (نمائندہ و خلیفہ حضرت سیّد نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی عالمی امیرِ سِلسلہ) کو اور خازن سلسلہ میرے بڑے بھائی اور خیر خواہ محمد مطہر نقشبندی شاذلی (نمائندہ و خلیفہ حضرت سیّد نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی عالمی امیرِ سِلسلہ) کو منتخب کیا اور سِلسلہ کا بار امانت مُلکی پیمانہ پر اِن کے کندھوں پر ڈالا اور مُجھ حقیر پُر تقصیر کو اِن سب کی اور عالم کے امیر بلکہ کئی عالموں (جِس کو صاحبِ نظر جانتے ہیں) کے امیرِ سِلسلہ حضرت سید نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی حفظہ اللہ و رعاہ کی ہند میں زبان اور ترجمان بننے کا اعزاز بخشا بڑی نا سپاسی ہوگی اگر اُن محسنین کا یہاں ذکر نہ ہو جنہوں نے مُجھے اِس عظیم الشان سلسلہ کا تعارف کرایا میرے مشفق عزیز حافظ ارباز نقشبندی شاذلی اور حافظ ساجد خان نقشبندی شاذلی جنہوں نے حضرت مولانا امجد خان صاحب نقشبندی شاذلی ( نمائندہ و خلیفہ حضرت سیّد نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی ) سے ملایا جن کی اجازت سے چھوٹی فیوض النور کا آغاز ہوا تھا 

اس سلسلہ کی جدوجہد اور مقصد کو دنیا کے سامنے لانے کی یہ ذمہ داری مجھے نئی توانائی دیتی ہے۔ اس سفر میں پوری اُمت مسلمہ خصوصا آپ تمام شاذلیان کی حمایت اور رہنمائی کی ضرورت رہے گی۔

میں اس عظیم سلسلہ کا ترجمان بن کر اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کی کوشش کروں گا تاکہ اس کے پیغام کو صحیح طریقے سے عوام تک پہنچا سکوں۔

اس منصب پر فائز ہونے کا موقع ملنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ سلسلہ کی آواز بن کر اس کے پیغام کو بہتر طریقے سے عوام تک پہنچاؤں۔

اخیر میں پھر دست بستہ حضرت والا کی خدمتِ اقدس میں اور حضرت جانشین سِلسلہ حضرت سید ابراھیم صاحب ہاشمی نقشبندی شاذلی اطال اللہ بقاءہ کی خدمتِ اقدس میں عرض ہے کہ یہ عظیم زمہ داری آپ کی عظیم توجہات کی مرہون منت ہے اور آپ ہی کے فیضانِ نظر سے ادا ہو سکتی ہے مُجھ حقیر پُر تقصیر پر آپ کے فیوض لا تُحصيٰ کے ساتھ ساتھ مزید دعاؤں توجہات اور شرفِ زیارت اور آپ کے لقاء کی اجازت کا خواستگار ہوں 
سلّم علي المولي الحبيب و صِفْ له
شوقي إليه و انني مملوكه

أبداً يُحرِّكني إليه تشوّقي
جسمي به مملوكه منهوكه

لكن نحلتُ لبعده فكانني
 ألفٌ و ليس بممكن تحريكه

و السلام مع الاکرام 

خاکپائے خادم الامت 
بندہ سید تفضل حسینی نقشبندی شاذلی 
نمائندہ و خلیفہ حضرت سید نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی حفظہ اللہ و رعاہ

بچوں کو پابند کرنے کے لیے انعام

سیدنا زُبید ایامی رحمہ اللہ اپنے محلے کی مسجد میں مؤذن تھے۔ آپ بچوں کو کہا کرتے: “بچو! چلو نماز پڑھو، میں تمہیں اخروٹ دوں گا۔” بچے آ کر نماز پڑھتے، پھر آپ کے اردگرد جمع ہو جاتے۔ اُن سے کہا گیا: “آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟” فرمایا: “اس میں میرا کیا جاتا ہے کہ میں ان کے لئے پانچ درہم کے اخروٹ خریدوں اور وہ نماز کے عادی بن جائیں۔”

(حلیة الأولیاء لأبي نعيم، ٥/ الرقم:٦٢٢٠)

علماء سے چند گزارشات مفتی ابو بکر جابر قاسمی صاحب

خلاصۂ بیان حضرت مفتی ابوبکر جابر صاحب دامت برکاتہم 

بموقع : فکری و تربیتی پروگرام
زیر اہتمام: حلقہ ضیاء المکاتب 

ادارہ وفاق المکاتب تلنگانہ وآندھرا کے حلقہ ضیاء المکاتب ( یاقوت پورہ ، ملک پیٹ ، عنبر پیٹ وغیرہ) کے تحت وقتاً فوقتاً مکاتب کے اساتذہ کے لیے فکری و تربیتی پروگرام ہوتے رہتے ہیں ، جن میں مکاتب کے طریقہ تدریس ، بچوں کی نفسیات ، وغیرہ پر کسی عالم دین کی بات طے کی جاتی ہے ، اس مرتبہ (١٦ اکتوبر٢٥ مطابق ٢٣ربیع الثانی ٤٧ بروز جمعرات ) شہر بلکہ ملک کی مشہور و معروف شخصیت مفتی ابوبکر جابر صاحب دامت برکاتہم کا بیان طے ہوا ، حضرت اپنے نپے تلے الفاظ و مؤثر انداز بیان (جس کی وجہ سے کم وقت میں آپ کے بیان میں بہت ساری مفید باتیں آجاتی ہیں) کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، یہ بیان بھی اسی طرح دریابکوزے کے مصداق تھا ، عاجز نے جستہ جستہ بیان کے مشمولات نوٹ کیے تھے ، افادہ کے لیے یہ بیان عام کیا جارہا ہے 

 حمد و صلاۃ کے بعد ! 

 🌹مثال بنو ۔۔مسئلہ نہ بنو 
بعض اساتذہ مثال ہوتے ہیں اور بعض مسئلہ ہوتے ہیں ۔۔۔انہیں سنبھالنا پڑتا ہے ان کی وجہ سے مکتب یا مدرسہ پر آنچ آتے رہتی ہے اسے حل کرنا پڑتا ہے ایسے نہ بنو ۔۔۔بلکہ ایسے بنو کہ لوگ اور طلبہ خود مثال دیں ۔۔۔آگے چل کر وہ آپ کی طرح بننے کی فکر کریں

🌹جو طلبہ آپ کے پاس پڑھ رہے ہیں وہ معصوم و بے گناہ ہیں ، شرم کیوں نہیں آتی استاذ کو خود گنہگار ہے اور بےگناہ طلبہ کو مارتا ہے 

🌹مکتب کے طلبہ کو ڈاڑھی ٹوپی والے حلیہ سے متوحش نہ کرو 


🌹کمزور طلبہ کا نام لے کر تنہائی میں دعا کرو ۔۔۔اس میں بڑی طاقت ہے 
🌹بچوں کو سزا دیتے وقت ایسی کیفیت ہونے چاہیے جیسے ماں کی اولاد کو سزا دیتے وقت ہوتی ہے 
ماں کی سزا کیسی ہوتی ہے ؟۔۔۔وہ بچوں کو سزا دیتی ہے لیکن تنہائی میں روتی ہے 
ایسے ہی استاذ کو مشفق ہونا چاہیے 


🌹سخت سے سخت بات میٹھے میں لہجے کہی جاسکتی ہے ۔۔۔
کوئ شہد بیچنے والا بدزبان تھا تو اس کا شہد نہیں بکا، اور ایک سرکہ بیچنے والا شیریں زبان تھا ۔اس کا سرکہ بک گیا، اس لیے طلبہ سے نرم لہجے میں بات کریں ۔


🌹ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے مجھ سے پڑھا فلاں نے مجھ سے پڑھا ۔۔۔۔لیکن ہم سے متنفر ہوکر کس نے دین و تعلیم کو چھوڑا یہ میدان محشر میں معلوم ہوگا، اس لیے خدارا کسی بچے کی تعلیم چھوٹنے یا یہ لائن چھوٹنے کاسبب نہ بنو ۔

🌹جو استاد اپنی محنت کو تن خواہ میں تول رہا ہے اس نے اپنی محنت کو ذلیل کردیا،
کیسے خیال آیا کہ یہ دنیا میری اس محنت کا بدلہ دے گی ۔۔ یہ دنیا والے ایک مرتبہ کہے گئے سبحان اللہ کا بدلہ نہیں دے سکتے ، کیوں کہ اس کا بدلہ پوری دنیاو مافیہا سے زیادہ ہے ، اس لیے اہل دنیا سے اپنی محنت کے بدلہ کی امید نہ لگائیں ، بلکہ اس خدمت کا بدلہ آخرت کے لیے چھوڑ رکھیں 


🌹ملازم بن کر چلنے والا انقلابی نہیں بن سکتا ۔۔۔اس لیے اللہ سے معاملات کرکے کام کیجیے 

🌹تحفیظ سے زیادہ تفہیم کی ضرورت ہے 
میمورائز سے زیادہ موٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔کلمہ رٹائیں ۔۔۔مگر اس کو سمجھائیں بھی 
ایمان مفصل سمجھائیں 
چہل حدیث سمجھائیں 

🌹 محیی السنہ کی لکھی ہوئی کتاب چار امام کو مطالعہ میں رکھیں ۔۔۔اس سے ائمہ عظام کی وقعت دل میں بیٹھے گی اور طلبہ کو بھی بتا سکیں گے ، 

🌹یہ پڑھنے پڑھانے کا دینی ماحول جو ملاہے وہ بڑی نعمت ہے 
کیوں کہ اس ماحول نے اختیاری نہ سہی اضطراری طور پر کتنے سارے گناہوں سے بچارکھا ہے ۔۔۔؟؟ 
اس لیے بنے ہوئے ماحول کی قدر کریں ۔
مدرسہ نہ ہو تو کون فقہ وفتاویٰ کاکام کرے گا۔
جمعہ نہ ہوتو کتاب کون پڑھ تا ہے ؟
فجر کی امامت نہ ہو تو کتنے علماء وحفاظ کی فجر باجماعت ہوتی ہے ؟
اس لیے ماحول کی قدر کرلو ۔۔۔

🌹 ایک جگہ ہم لوگ نیم پاگلوں کے اسکول گئے ایک جگہ نابیناؤں کے اسکول کا دورہ کرنے کی توفیق ہوئ وہاں جانے پر بچے ڈر گئے ٹیچرز سے لپٹ گئے ، وہاں کے اساتذہ نے کہا کہ ہم ان کے کپڑے صاف کرتے ہیں ، ان کی ہر بات سنتے ہیں ، اور ان کے ماحول میں ڈھل کر انہیں پڑھاتے ہیں ، ایسے بے شمار 
 اسکول ہیں ، 
پڑھانے والے انہیں پڑھارہے ہیں ہمارے شاگرد تو ان سے گئے گزرے تو نہیں ہیں ، 
لوگ معذوروں کو ۔۔ اجڈ لوگوں کو دیہاتیوں کو اندھوں کو پڑھا سکتے ہیں
میں اچھے بچوں کو کیوں نہیں پڑھاسکتا؟
اس لیے ہر بچہ آپ کے پاس آنے والا قیمتی ہے اسے پڑھانے کی پوری کوشش کریں 


🌹آج اساتذہ کو تن خواہ کی کمی کا غم ہے ،اپنے صفات کی کمی کا غم نہیں ، 
ضرورتوں کا غم زیادہ ہے ، اس سے زیادہ ذمہ داریوں کا غم ہونا چاہیے

🌹فضولیات سے بچ جائیں گے تو ضروریات پوری کرنے کے اسباب و ذرائع مل جائیں گے۔


🌹 آج تنظیموں کے اختلاف اور بے کار کے جھگڑوں میں ہم پڑے ہوئے ہیں ، اس کی وجہ سے جو عالم چالیس سال ، تیس سال سے دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے اس کی برائیاں بیان کرنے انہیں پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ، 
یاد رکھو ! اس آدمی کی بدبختی آگئی ۔جو اپنے بڑوں کے عیوب کے پیچھے لگ گیا ۔۔۔
اس لیے بڑوں کے عیوب یا ان کی برائیوں کے پیچھے مت پڑو، 

🌹 تن خواہ کی کمی کی وجہ سے بعض علماء وحفاظ اس لائن کو چھوڑ دیتے ہیں ، سن لیجیے ! دینی ماحول وخدمات سے نکلنا آسان ہے ، لگنا مشکل ہے ، اس لیے اس لائن کو مت چھوڑیں 

🌹یہ تصور رہے کہ اگر مجھے مسجد سے نکالا گیا تو وہ صدر نے یا کمیٹی نے نہیں نکالا میری تنہائیوں نے نکالا ۔میری بداعمالیوں نے نکالا، 


🌹اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا اس آیت کے مطابق کیا ہم دنیا ہی میں اپنے نیکیوں وخدمات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ؟
صحابہ و اکابر نے دنیا کی خدمات کے معاوضے دنیا ہی میں ادا کردئے کہ کہیں یہ دنیا ہی میں بدلہ نہ دے دیا گیا ہو،
حضرت ابوبکر نے بیت المال کو اپنے وظائف لوٹادئے ، مفتی سعید صاحب پالنپوری رحمت اللہ علیہ نے دارالعلوم کی ساری تن خواہ واپس کردی ،
 اس لیے اپنے دنیاوی خدمات کابدلہ آخرت میں اللہ سے لینا ہے ، کیوں کہ 
اللہ کا قانون ہے کہ جو ان کے لیے،ان کی رضامندی کی خاطر دنیا چھوڑتا ہے ، اسے خوب دیتے ہیں ، یوسف علیہ السلام نے زلیخا کو چھوڑا تو اللہ نے جوانی کے ساتھ واپس کیا ، ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

🌹فرصت میں فساد ہے۔ اس لیے فرصت میں نہ رہیں ، نہ اپنے طلبہ کو فرصت میں رہنے دیں ۔

🌹 اپنے گھر سے محنت کریں ، آپ کے مکتب کا سب سے پہلا شاگرد آپ کی بیوی ہے، اپنے گھر پر پہلے محنت کرو ،
مفتی سعید صاحب رحمہ اللہ کے اسفار و خدمات سے زیادہ ان کی معاشرت(گھریلو زندگی) نے حیرت زدہ کیا ۔۔۔بیوی کو حافظ بنایا ۔۔۔بچوں کو حافظ بنایاگھر ہی میں ، ایک ایک 
بچے کی شادی کرتے سال بھر ساتھ رکھتے پھر سامنے ہی کسی گھر میں منتقل کردیتے اور فرماتے ! ہم مرے نہیں ہیں سامنے رہو اور زندگی گزارنا سیکھو ، کچھ کمی بیشی ہوگی ہم پوری کریں گے، 
اس لیے اپنے گھر سے تعلیم کا آغاز کریں ، 

🌹ہم مال کی کمی کا روناروتے رہتے ہیں، اور اس کی چکر میں بہت اہم اور ضروری چیزیں اپنی زندگی کی چھوڑ بیٹھتے ہیں ، کیا انسان مال کی کمی ہے تو مطالعہ نہیں کرسکتا؟
مال کی کمی ہے تو شیخ سے رابطہ نہیں کرسکتا؟ مال کی مکی ہے تو بیوی کو نہیں پڑھا سکتا؟ کیا مال کی کمی ان چیزوں میں مانع ہوسکتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔۔اس لیے مال کی کمی کا بہانہ بنا کر اپنی ان ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں ، 

🌹بچوں کے ایمان کی فکروں کے سلسلے میں مفتی سلمان بجنوری صاحب نے بڑی بات کہ دی _____ کہ زمانہ ایسا آچکا ہے کہ اسکول سے واپس آنے کے بعد بچوں کو کلمہ پڑھانا پڑے گا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے موت کے وقت اپنے چار بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ بچوں میں اس ملک کے مسلمانوں کا ایمان تمہارے پاس گروی رکھ کر جارہا ہوں ۔۔۔قیامت کے دن پوچھوں گا۔ آج یقیناً یہی حالات آچکے ہیں ، اس لیے مکاتب کے اساتذہ کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے ، 

🌹اس زمانے کے بچے جوانی سے پہلے بوڑھے ہورہے ہیں ، موبائل نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، 
اس لیے بچوں کے اخلاقیات بھی سنواریں ۔۔ان کی تنہائیوں کو پاک کرنے کی کو شش کریں
اللہ توفیق عمل نصیب فرمائے آمین 

ابو احسان ذکی 
خادم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

استاد کی غلطی کا اثر کیسا دور رس ہوتا ہے

انجینئر کی غلطی زمین پر نظر آتی ہے،
ڈاکٹر کی غلطی زمین کے نیچے دفن ہو جاتی ہے،
مگر استاد کی غلطی زمین پر چلتی پھرتی رہتی ہے۔

کیونکہ انجینئر اگر پل غلط بنائے تو چند جانیں جاتی ہیں،
ڈاکٹر اگر علاج میں خطا کرے تو ایک زندگی ختم ہو جاتی ہے،
لیکن استاد اگر تعلیم میں یا تربیت میں غلطی کرے —
تو پوری نسل غلط راستے پر چل پڑتی ہے۔

یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا ہمارا معاشرہ کر رہا ہے۔
یہاں غلطیاں صرف ٹھیکوں، منصوبوں یا پالیسیوں میں نہیں ہوتیں،
یہاں غلطیاں سوچوں، تربیت اور تعلیم میں نسل در نسل منتقل ہو جاتی ہیں۔

📚 جب استاد صرف نوکری سمجھ کر پڑھاتا ہے،
اور علم کو خدمت نہیں بلکہ کاروبار سمجھتا ہے،
تو پھر طلبہ امتحان پاس کرتے ہیں، مگر زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔

💭 ایک وقت تھا جب استاد قوم کا معمار کہلاتا تھا،
آج وہ ایک کمزور نظام کا حصہ بن کر رہ گیا ہے —
جہاں کتابیں رٹی جاتی ہیں مگر کردار نہیں بنتے،
جہاں ڈگری ملتی ہے مگر شعور نہیں۔

اگر ہم واقعی بدلنا چاہتے ہیں
تو صرف نصاب نہیں، نیت بدلنی ہوگی۔
استاد کو دوبارہ وہ مقام دینا ہوگا
جہاں علم امانت بنے، نہ کہ تجارت۔

کیونکہ یاد رکھو —
قوموں کی بنیاد عمارتوں پر نہیں، اساتذہ کے کردار پر ہوتی ہے۔
اور جب استاد غلطی کرتا ہے،
تو پوری قوم اس غلطی کا بوجھ اٹھاتی ہے۔

بہادر شاہ ظفر کی اخری گھڑیاں

17 اکتوبر 1858 کو بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کو مکنزی نامی سمندری جہاز کے ذریعے رنگون (برما) پہنچا دیا گیا۔
شاہی خاندان کے تقریباً پینتیس افراد اُس جہاز میں سوار تھے۔
رنگون کا انچارج کیپٹن نیلسن ڈیوس تھا، جس نے بندرگاہ پر بادشاہ اور اُن کے ہمراہیوں کا استقبال کیا،
اور پھر دنیا کی تیسری سب سے بڑی سلطنت کے بادشاہ کو اپنے ہی گھر لے گیا۔

بہادر شاہ ظفرؔ اگرچہ قیدی تھے، مگر بہرحال بادشاہ بھی تھے،
یہی وجہ تھی کہ نیلسن کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ بادشاہ کو کسی عام قیدخانے میں رکھا جائے۔
لہٰذا اُس نے اپنا گیراج خالی کروا کر بادشاہ کے قیام کا انتظام وہیں کیا۔

یوں 17 اکتوبر 1858 کو بہادر شاہ ظفرؔ اُس گیراج میں داخل ہوئے،
اور چار سال بعد 7 نومبر 1862 کو وہیں سے اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئے۔

اسی گیراج میں اُنہوں نے وہ مشہور غزل کہی جس کے اشعار آج بھی ہر حساس دل کو رُلا دیتے ہیں:

> لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں



اور یہ دردناک شعر:

> کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں




---

7 نومبر 1862 کی صبح، بادشاہ کی خادمہ پریشانی کی حالت میں نیلسن کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔
جب برمی خادم وجہ پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے:
“بادشاہ اپنی زندگی کے آخری سانس گن رہے ہیں، اور انہوں نے کھڑکی کھولنے کی فرمائش کی ہے تاکہ ذرا تازہ ہوا لے سکیں۔”

خادم جواب دیتا ہے:
“ابھی صاحب اپنے کتے کو کنگھی کر رہے ہیں، میں اُنہیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا۔”

یہ سن کر خادمہ زور زور سے رونے لگتی ہے۔
آواز سن کر نیلسن باہر آتا ہے، صورتِ حال جانتا ہے اور فوراً گیراج کی طرف دوڑتا ہے۔

وہاں پہنچ کر اُس نے جو منظر دیکھا، اُس نے اُس کے دل کو ہلا دیا۔
کمرے میں بدبو پھیلی ہوئی تھی، موت کی خاموشی طاری تھی۔
بادشاہ کا آدھا کمبل زمین پر اور آدھا بستر پر تھا،
ننگا سر تکیے پر تھا مگر گردن ایک طرف جھکی ہوئی تھی۔
آنکھیں کھڑکی کی سمت تھیں، اور سوکھے ہونٹوں پر ایک مکھی بھنبنا رہی تھی۔

نیلسن نے اپنی زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے،
لیکن اُس نے کبھی اتنی بےچارگی اور بے بسی کسی کے چہرے پر نہ دیکھی تھی۔
وہ چہرہ کسی بادشاہ کا نہیں، بلکہ دنیا کے سب سے بڑے فقیرو درویش کا لگتا تھا۔
اُس چہرے پر ایک ہی خواہش لکھی تھی —
"آزاد سانس کی!"


---

ہندوستان کے آخری تاجدار کی زندگی کا چراغ بجھ چکا تھا۔
کفن دفن کی تیاری ہوئی۔
شہزادہ جوان بخت اور حافظ محمد ابراہیم دہلوی نے بادشاہ کو غسل دیا۔
رنگون میں بادشاہ کے لیے کوئی زمین مخصوص نہ تھی،
لہٰذا سرکاری بنگلے کے پیچھے ایک چھوٹی سی جگہ کھود کر
خیرات میں ملی مٹی کے نیچے بادشاہِ ہند کو دفن کر دیا گیا۔

حافظ ابراہیم دہلوی کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا
جب 30 ستمبر 1837 کو بہادر شاہ ظفرؔ نے 62 برس کی عمر میں تخت نشینی کی تھی۔
تب دہلی کے لال قلعے میں چراغاں تھا، آج رنگون کے گیراج میں اندھیرا۔
تب شان و شوکت تھی، آج تنہائی اور جلاوطنی۔

ابراہیم دہلوی نے سورۂ توبہ کی تلاوت شروع کی۔
نیلسن نے قبر کو آخری سلامی دی۔
اور ایک سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

ڈابھیل میں قافلہٴ انوری کے ورود مسعود کے سلسلے میں ایک تاثراتی تحریر

*بسمﷲالرحمن الرحیم*


 _*کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے*

*ڈابھیل میں قافلہٴ انوری کے ورود مسعود کے سلسلے میں ایک تاثراتی تحریر*

     _*✍🏻تحریر: محمد عمرین محفوظ رحمانی*_ 
*(سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں)*


```﴿گذشتہ کل مورخہ۷؍ ربیع الاول ۱۴۴۷ھ مطابق ۳۱؍ اگست ۲۰۲۵ء جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے صد سالہ اجلاس میں شرکت کا موقع ملا، ویسے تو جامعہ کے قیام پر ۱۲۰؍ سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن یہ صد سالہ اجلاس ”قافلہٴ انوری“ کے ورودِ مسعود کے سو سال مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا،ماشاءﷲاجلاس کامیاب رہا، جامعہ کے فضلاء اور دیگر اہلِ علم وذوق نے بڑی تعداد میں شرکت کی،اور سکون ودلجمعی کے ساتھ پورے اجلاس کو سماعت کیا، ترتیب، حسن انتظام اور سلیقےکےاعتبارسے بھی اجلاس خوب رہا،حضرت مولانا مفتی محمود بارڈولی اور مفتی معاذ صاحب کی نظامت نے اجلاس کا حسن دوبالا کیا،اہلِ گجرات کی مہمان نوازی ویسے بھی مشہور ہے،اجلاس کے موقع پر اس کا خوب خوب مظاہرہ ہوا، البتہ مقالات کی کثرت نے اجلاس کو سیمینار کی شکل دے دی اور کئی مقالات میں مکررات کا ذکر بارِ خاطر ثابت ہوا، کتنا اچھا ہوتا کہ اجلاس کے آخر میں جامعہ کے فضلاء کے لیے ایک مبسوط اعلامیہ پیش کیا جاتا جس میں ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ان کے لیے راہِ عمل متعین کی جاتی اور ایک گائیڈ لائن ان کے سپرد کردی جاتی، دوپہر کی نشست میں حضرات اکابر نے یقینا فضلاءکی رہنمائی فرمائی، مگر اس طرح کے اجلاس کا ایک مضبوط، مربوط اور مبسوط اعلامیے پر اختتام زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا،اس موقع سے جامعہ نے جو رسالے اور کتابیں شائع کیں وہ بھی اہلِ ذوق کے لیے سرمہٴبصیرت ہیں،خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر مخدوم گرامی حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری زید مجدہم کا مقالہ بھی بصیرت افروز ہے، مجھے اس اجلاس میں برادرِ مکرم حضرت مولانا مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی صاحب کی معیت میں حاضری کی سعادت میسر آئی، اسٹیج پر بیٹھے ہوئے کچھ لکھنے کی طرف میلان ہوا، مختصر تحریر کے ارادے سے قلم اٹھایا، پھر ذہن میں مختلف باتیں آتی گئیں اور لکھتا چلا گیا،لکھنا یکسوئی چاہتا ہے، مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ اجلاس کی ہماہمی کے دوران یہ مضمون پورا ہوگیا،عزیزی حافظ عمار رحمانی سلمہ اللہ ساتھ تھے، انہوں نے کج مج تحریرکو ٹائپ کرکے پڑھنے کے قابل بنادیا،اس طرح میں بھی لہو لگاکر شہیدوں میں مل گیا، اللہ کرے کہ یہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔﴾``` 



ظاہری نگاہ کوبندکیجیے، تصور کی آنکھیں کھولیے، دیکھیے کہ دار العلوم دیوبند سے ایک قافلہ قدسی صفات رخت سفر باندھ کر ڈابھیل جیسے چھوٹے سے گاؤں میں پڑاؤ ڈال رہا ہے، ایک ایسا قافلہ قدسی صفات جس میں علم وفضل کی فراوانی اور عشق وعقل کی تابانی تھی، ایک ایسا مبارک کارواں جو صفاتِ مومنانہ اور اوصاف مخلصانہ سے مزین تھا، ایک ایسی جماعت علماء جس میں کردار کی مستی اور فولاد کی سی سختی تھی، وہی مبارک طائفہ جس میں مدبر بھی تھے، مفکر بھی، محدث بھی تھے مفسر بھی، محرر بھی تھے مقرر بھی، مردم شناس بھی مردم گر بھی، وہی قافلہٴ علم وعمل جس میں عزم تھا، عزیمت تھی، اخلاص تھا، شجاعت تھی، فہم تھا، فراست تھی،عدل تھا، عدالت تھی، ایثار تھا، سخاوت تھی، تقوی تھا، طہارت تھی، ورع تھا، خشیت تھی، توکل تھا، انابت تھی، تعلق مع اللہ کا جوہر تھا اور معرفت ربانی کا زیور بھی، خدمت خلق کا جذبہ تھا اور نشر وانتقال علم کا حوصلہ بھی، صیانت وحفاظت دین کا شوق تھا اور اشاعت قرآن کا ذوق بھی، جینے کا سلیقہ بھی، زندگی برتنے کا طریقہ بھی، یہ وہی قافلہ تھاجس میں علم بھی تھا، حلم بھی تھا، عجز بھی تھا، صبر بھی تھا، یہ قافلہ کیا تھا، یوں کہہ لیجیے کہ انوار کا گنجینہ تھا اور علوم ومعارف کا خزینہ! 
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
ذرا غور سے دیکھیے اس قافلے کی سیادت وقیادت کرنے والی شخصیت کون ہے؟ عالم ربانی، فضل وکمال کے امام، معرفت ربانی کے پیکر، نابغہٴ روزگار شخصیت، خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ، وہی جن کے وسعت علم، قوت حفظ اور درس وتدریس کی مہارت ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے، جن کے بارے میں شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ فتح الملہم میں لکھا ہے کہ ”لَمْ تَرَ الْعُیُوْنُ مِثْلَہُ، وَلَا رَأَیْ ھُوَ مِثْلَ نَفْسِہِ“، نگاہوں نے ان جیسا بے نظیر انسان نہیں دیکھا اور نہ خود انہوں نے اپنے جیسا کوئی صاحب علم کبھی دیکھا ہوگا، جن کی نیکی، پرہیز گاری اور تقوی شعاری کی گواہی حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں دی کہ ”جو شاہ صاحب کے پیچھے نماز پڑھ لے مجھے اس کی نجات کی توقع ہے“، شاہ صاحب کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ان کے بارے میں یہ بلیغ ارشاد ہے کہ ”اس دور میں مولانا انور شاہ حقانیت اسلام کی دلیل ہیں“، شاعر مشرق علامہ اقبال ان کی وفات پر درد کی تصویر بنے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ”اسلام کی آخر کی پانچ صدیوں میں دنیا میں اتنا بڑا عالم پیدا نہ ہوا“، شاہ صاحب کی فکر مندی اور درد مندی کی عکاسی کرتے ہوئے ان کے شاگرد رشید اور عظیم عالم ربانی حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ نے فرمایا کہ ”میں نے اپنی زندگی میں کسی بزرگ اور عالم کو اتنا درد مند نہیں دیکھا جتنا کہ حضرت امام العصر کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دل میں کوئی زخم ہے جس سے ہر وقت خون ٹپکتا رہتا ہے“، مشہور مفکر وعالم شیخ رشید رضا مصری شاہ صاحب کے تبحر علمی کو دیکھ کر مسحور ہوگئے اور یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ ”ھُو إِمامُ العصرِ، مُسْنَدُ الوَقتِ، المُحدِّثُ، المُفسِّر، الفَقیہُ الأُصُولِی، المُتکَلِّم النَّظَّار، الصُّوفِي،  البَصیر، المُؤَرِّخ، الأَدِیب، الشاعِر اللُّغَوِي، البَحَّاثَۃ، النَقَّاد، المُحقِّق المَوھوبُ، الشیخ الإمامُ محمد أنوَر شاہ الکشميري“، (زمانے کے امام ، مسند وقت،  محدث، مفسر، فقیہ ِ اصولی، نہایت زیرک متکلم، صوفی، دور اندیش انسان، مورخ، ادیب،قادر الکلام شاعر، مایہ ناز جویائے علم،بہترین نقاد، با توفیق محقق، شیخ امام محمد انور شاہ کشمیری)، اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ ” لَیْسَتْ ھذِہ الألقابُ مِن قَبِیل المَدْحِ والإِطْرَاءِ، وَلا المُبالَغَۃِ والتَّفْخِیمِ،  وإِنَّما ھِيَ منَ الحقائق الَّتي تَحَلَّی بِھا الإِمامُ الکشميريُّ“۔ (یہ سب القاب بے جا تعریف وتوصیف کی قبیل سے ہیں اور نہ مبالغہ اور غیر ضروری طور پر کسی کو اونچا مقام دینے کی کوشش ہے، بلکہ یہ سب وہ واقعی اوصاف وصفات ہیں جن سے امام کشمیر ی رحمۃ اللہ علیہ متصف تھے) بر صغیر کے سب سے بڑے اور عدیم المثال خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے تو یہ کہہ کر باب المناقب کی تائے تمت لکھ دی کہ ”بھائی! حضرت علامہ کشمیری کے بارے میں کیا کہوں، بس یہ سن لو کہ صحابہ کرام کا قافلہ جارہا تھا، انور شاہ تیرہ سو برس پیچھے رہ گئے“، سبحان اللہ! کیسی عظیم المرتبت شخصیت، علم وعمل کا کیسا جامع انسا ن تھا! مشرق مغرب، شمال جنوب کے علمی حلقوں، جامعہ زیتونہ اور جامعہ ازہر سے لے کر بر صغیر کی درسگاہوں تک ، حجاز کے دانش کدوں سے لے کر اقصائے مغرب کے علمی وفکری زاویوں تک نہ ان کی کوئی مثال نظر آتی ہے نہ نظیر! نہ مثیل نہ بدیل! آہ شورش کیسے موقع سے یاد آگئے! 
یہ جہاں فانی ہے کوئی بھی شے لا فانی نہیں
پھر بھی اس دنیا میں انور شاہ کا ثانی نہیں
اس مبارک کارواں کی سرپرستی جس بزرگ روحانی شخصیت نے فرمائی اس کا نام حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی ہے، یہ علم وعمل کے حامل، نورانی بزرگ تھے، تفقہ میں یگانہ اور تصوف میں اویس زمانہ تھے، حضرت سلطان باہوقدس اللہ سرہ کا ارشاد ہے: ”دنیا عمل کا گھر، آخرت جزا کا گھر اور مومن کا دل معرفت ربانی کا گھر ہے“، ایسے ہی مومن کامل تھے مفتی عزیز الرحمن عثمانی، صاحبِ دل، صاحب نسبت، محبت الہی اور معرفت یزدانی کے حامل،اہل نظر کا ان کے بارے میں یہ احساس ہے کہ وہ مادر زاد ولی تھے، ان کی سادگی، ان کی عاجزی، ان کا جذبہٴ خدمت، ہر ایک مثالی تھا، بے نفسی ایسی کہ دور دور تک کوئی دوسری مثال نہیں! ایک پاکیزہ وجود، ایک ملکوتی انسان! جنہوں نے ان کو دیکھا اور برتا ان کا یہ تأثر تھا کہ ”معصومیت کے پیکر، مرنجا مرنج، خاموشی پسند، اوپر کی سطح سمندر کی طرح خاموش، اور اس کی تہہ میں ذہانت، علم، عمل، تقوی وورع، دیانت اور امانت، اخلاص ودلسوزی، ہمدردی وشفقت کے آبدار موتی“، اقبال نے ایسوں کے بارے ہی میں کہا تھا ؎
جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس کی
الہی کیا چھپا رہتا ہے اہل دل کے سینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
دیوبند سے آنے والے” قافلہٴ نور“ میں علم تفسیر وکلام میں امتیازی شان ومقام رکھنے والے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے، ان کی تفسیر عثمانی ان کے فضل وکمال کا منہ بولتا ثبوت اور شاہد عدل ہے، وہ علمی انسان بھی تھے، تحریکی اور میدانی آدمی بھی! محمد علی جناح جیسا زیرک اور مدبر شخص ان کی فراست، تحریکی صلاحیت اور غیر معمولی لیاقت سے متاثر تھا، انہوں نے وصیت بھی کی تھی کہ میری نماز جنازہ مولوی شبیر احمد دیوبندی پڑھائیں، مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم کی زندگی علمیت،  فعالیت اور اقدام وعمل کا حسین نمونہ تھی ؎
ٹھہرا پانی کائی کھائے گھٹ گھٹ کر مرجائے
بہتا پانی پتھر چیرے اپنی راہ بنائے
اس قافلے میں اور بھی علماء وفضلاء تھے، درس وتدریس کے ماہر اور تربیت وتزکیہ میں ممتاز، ان اکابر کی کوششوں اور کاوشوں نے گجرات کو ہم دوش ثریا بنادیا، حضرت مولانا عبدالرحمن امروہوی، حضرت مولانا سراج احمد رشیدی، حضرت مولانا محمد ادریس سکھروڈوی، حضرت مولانا بد ر عالم میرٹھی، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، حضرت مولانا مفتی عتیق احمد عثمانی، حضرت مولانا یحیی تھانوی، حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی رحمہم اللہ میں سے ہر ایک اپنی جگہ فضل وکمال میں نمایاں مقام کا حامل تھا، ان بزرگوں کے قدوم میمنت لزوم سے” مدرسہ تعلیم الدین“ ” جامعہ تعلیم الدین“ بن گیا، اس قافلے کی برکتوں کو دیکھنا ہو تو فضلائے جامعہ کی خدمات جلیلہ پر ایک نظر ڈالیے، ان کے کارہائے نمایاں کے بارے میں تفصیل معلوم کیجیے، تب پتہ چلے گا کہ کس طرح چراغ سے چراغ روشن ہوئے، اور خدمت دین متین کی بڑی جماعت تیار ہوئی، شاید دور افق کے پیچھے سے گزرے ہوئے ان بزرگوں کی ارواح یوں مخاطب ہیں  ؎
ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اگر اب بھی نہ کھلتے تو قیامت کرتے
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑدیا
ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے
ہم نے غم کو محبت کا تسلسل جانا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے
”قافلہٴ نور “کی آمد کو سو سال بیت گئے، اس قافلے کے سارے افراد ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے، اجل نے اپنے شکار چن لئے، اور علم وعمل کے آسمانوں کو زمین نے اپنے اندر سمو لیا ؎
 مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تو نے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کیے
آئیے کہ اس قافلے کے چھوڑے ہوئے نقوش کو زندہ وتابندہ کریں، ان کے ماضی کے کارناموں سے اپنی مستقبل کی راہوں کو روشن کریں، اس وقت تاریکیوں کی یلغار ہے، ظلمتوں کی بوچھار ہے، مصائب کی آندھیاں ہیں، مشکلات کے طوفان ہیں، سفینہ ملت ہچکولے کھارہا ہے، ایسے میں اگلوں کا نمونہ ، اسلاف کا کردار، بڑوں اور بزرگوں کا طرز عمل، ہمارے لیے مشعل راہ اور مینارہٴ نور ہے ۔
علامہ انور شاہ کشمیری کی قیادت میں آنے والے قافلے نے صرف تدریس کی مسند کو زینت نہیں بخشی بلکہ ملت کی ہمہ جہت کی خدمت کی طرح ڈالی، آنے والوں کی درد مندی وفکر مندی ، ان کی جہد مسلسل اور کاوشِ پیہم میں بعد والوں کے لیے بڑا سبق ہے، اگر اس سبق کو دہرایا جائے اور” قافلہٴ انور“ کے اوصاف وصفات کے آئینے میں راہِ عمل متعین کی جائے تو فضلائے جامعہ کا دائرہ خدمت بھی وسیع ہوگا اور ان کے فیضان سے ملت سرشار ہوگی۔
کیا اس میں ہمارے لیے نمونہ عمل نہیں ہے کہ خاتم المحدثین حضرت شاہ صاحب ایک طرف مسند درس پر بیٹھ کر ابن حجر، نووی، عینی، عز الدین ابن عبدالسلام اور غزالی ورازی کی یاد تازہ کررہے ہیں اور دوسری طرف ڈابھیل واطراف واکناف کی مسجدوں میں از خود تشریف لے جاکر کسی نماز کے بعد خود سے یہ اعلان فرمارہےہیں کہ ”انور شاہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے، دین کی کچھ بات سنانا چاہتا ہے، آپ تھوڑی دیر کے لیے مجھ سے دین کی باتیں سن لیں“، کیا ارتداد کی لہروں کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی کوششیں اور ۱۹۴۷ء میں لٹی پٹی دلّی کے مسلمانوں کے قدم جمانے اور ان کی باز آباد کاری کے لیے کی جانے والی ان کی کاوشیں اپنے اندر درسِ عزم وعزیمت نہیں رکھتیں؟ کیا صرف مجاہد ملت کی یاد کافی ہے یا پھر مجاہد ملت بننا بھی ہمارے فرض کا حصہ ہے؟ ہر طرف اندھیریاں چھارہی ہیں، ہر سو جہالت ڈیرے ڈال رہی ہے، ان اندھیریوں کو دور کرنے کے لیے کون چراغ جلائے گا؟ ظلمت شب کے خلاف کون اجالوں کا سفیر بنے گا؟ یہ بات تو طے ہے کہ جہاں بارش نہیں ہوتی وہاں کی فصلیں خراب ہوجاتی ہیں، اور جہاں دین کی تعلیم نہیں ہوتی وہاں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں، تو کیا ہم اپنی نسلوں کو برباد ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم گاؤں دیہات میں آباد مسلمانوں کے دین، عقیدے اور ایمان کی حفاظت کی شمع زیادہ سے زیادہ روشن کرنے سے کترارہے ہیں؟ مجاہدِ ملت کے زمانے میں ارتداد کے جو واقعات ہورہے تھے وہ آج کے مقابلے میں کم ، بہت کم تھے، آج تو صورت حال زیادہ بگڑی ہوئی ہے، مسلمان بچیوں کو ارتداد کی لہروں سے بچانا نہایت ضروری ہے، ہمیں نئی نسل کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ دین کی توحید کی قدر وقیمت کیا ہے؟ ساتھ ہی انہیں ان کی عزت وعظمت سے بھی آگاہ کرنا ہوگا، اور یہ بتانا اور کسی کا نہیں، ہمارا فرض ہے کہ ایک مسلمان ماں اگر اپنے دائیں ہاتھ سے جھولے اور پالنے کو حرکت دے سکتی ہے تو اپنے بائیں ہاتھ سے وہ دنیا کو بھی ہلاسکتی ہے۔
قادیانیت کے فتنے نے اگر حضرت شاہ صاحب کے دل کو زخمی کررکھاتھا اور الحاد ودہریت کے مسئلے نے اگر مولانا شبیر احمد عثمانی کے خون جگر کو جلادیا تھا تو آج بھی شکیلیت اور گوہر شاہیت اور دین بیزار لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنے زہریلے سانپ کی طرح پھن پھیلائے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور لوگوں کے ذہن ودل اور افکار وخیالات کو مسموم بنارہے ہیں، دور کہیں سے کانوں میں حضرت شاہ صاحب کی یہ درد بھری آواز آرہی ہے کہ ”گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت کا کام نہ کرسکے “، ضرورت ہے کہ ہم ان فتنوں کے مقابلے اور ان دشواریوں کے سد باب کے لیے آگے بڑھیں اور جھوٹے مدعیان نبوت کا ہر محاذ پر مقابلہ کریں۔
تاریخ کے اوراقِ پریشاں یہ بتاتے ہیں کہ” قافلہٴ انوری “کے اسلاف ایک دوسرے سے برابر مربوط رہے، اور اتحاد فکر وعمل کے ساتھ اکرام واحترام کی روِش پر گامزن ہوئے، انہوں نے اپنے قال وحال سے یہ ثابت کیا کہ ہم ایک ہی کوثر کی موجیں اور ایک ہی لشکر کی فوجیں ہیں، ہم ایک ہی گلشن کے پھول ہیں، اس لیے کہ ہم عاشق رسول ہیں، ان کا یہ کردار وعمل فضلائے جامعہ سمیت سب علماء اور خدامِ دین کے لیے لائق تقلید اسوہ ہے، آپس کے انتشار اور فاصلوں نے ہمیشہ مشکل پیدا کی ہے، یہ سچائی ہے کہ جب تک ہم متحد رہے، زمانہ ہماری ٹھوکروں میں رہا، اور جب ہم منتشر ہوئے تو ہم زمانے کی ٹھوکروں میں آگئے۔
آج ڈابھیل کے صد سالہ اجلاس میں شریک ہوکر ماضی کی روشن تاریخ کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں اور یہ سمجھنے کی بھی کہ جن بزرگوں کی خدماتِ جلیلہ اور مساعی جمیلہ نے نور ونکہت کی کہکشاں روشن کی، ان کے بافیض ہونے کا راز کیا تھا؟ کیا صرف علوم ومعارف میں ان کا امتیازی مقام یا خلق خدا میں بوئے گل کی طرح پھیلی ہوئی ان کی شہرت ومقبولیت؟ یا پھر الگ الگ شعبوں میں کی جانے والی ان کی غیر معمولی کاوش ومحنت اور مثل شمع پگھلنے کی عادت؟ نہیں، اس کا بنیادی سبب تعلق مع اللہ کا جوہر اور محبت الہی کی نعمت ہے، ان کے یہاں دن کی محنت کا سرا، رات کے آنسوؤں سے جڑا ہوا تھا، اور یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو انسان بنادیتی ہے، اور انسان کو مسلمان کا روپ بخشتی ہے، اور مسلمان کو ”سلمان“ بناتی ہے، پھر یہ بھی کہ یہ جوہر گھر بیٹھے ہاتھ نہیں آتا اور نہ یہ گوہر بادشاہ کے خزانے سے میسر ہوتا ہے ؎
تمنا درد دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
صرف ”قافلہٴ انوری“ نہیں، اس کے ورودِ مسعود سے پہلے بھی یہاں مخلص اور باخدا لوگ آباد تھے، خود بانیٴ جامعہ مولانا احمد حسن بھام سملکی رحمۃ اللہ علیہ ایسے مخلص اور ذاکر انسان تھے کہ سوا لاکھ مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھر مدرسے کی بنیاد رکھی اور جب مدرسے کو ضرورت پڑی تو اپنی اہلیہ کے زیورات تک فروخت کردیئے، پھر بعد کے ہر دور میں بھی جامعہ ڈابھیل کے بزرگوں نے علم کے ساتھ ساتھ ذکر سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا اور اپنے سینے کو معرفت کا گنجینہ بنایا، یہاں کی فضاؤں میں جو نورانیت وروحانیت پھیلی ہوئی ہے وہ انہی نفوس قدسیہ کے انفاس قدسیہ کی برکت ہے ؎
بآں گروہ کہ از ساغر وفا مستند
سلام ما برسانید ہر کجا ہستند
آج بھی اس جامعہ میں دیگراہل دل کے علاوہ تاجدارِ اولیاء حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب زید مجدہم ”میخانہٴ معرفت“ اور” دوکانِ دل “سجاکر جلوہ افروز ہیں اور کوئی شک نہیں کہ وہ اس دورِ قحط الرجال میں سلفِ صالحین کی یاد گار اور دین وملّت کی آبرو ہیں، ان کے علم وعمل کی جامعیت گذرے ہوئے بزرگوں کے طرز عمل کا امتداد ہے، ضعف وپیرانہ سالی کے باوجود ان کی فیض رسانی جاری وساری ہے اور ہر اک دل کی یہ دعا ہے کہ ؂
دور میں ساغر رہے گردش میں پیمانہ رہے
مئے کشوں کے سر پہ یارب پیر میخانہ رہے
ساقیا ترے کرم سے دور پر چلتا رہے دور
اور مئے توحید سے لبریز پیمانہ رہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عبداللہ القمیسی ابن تیمیہ بلندی سے تنزلی کی طرف

عبداللہ 1907 میں سعودی عرب کے شہر بریدہ میں پیدا ہوئے،یہ بچپن سے ہی حساس اور بلا کے ذہین تھے -

جوانی تک پہنچتے ان کی صلاحیتوں کے جوہر کھلنے لگے،انہوں نے علمی دنیا میں بھونچال لایا -

1927 میں جامعہ ازہر مصر میں انہوں نے داخلہ لیا اور بیس سال کے اس طالب علم نے ازہر کے فلاسفرز اور اسکالرز کی ناک میں دم کرکے رکھا،انہوں نے ازہر کے نامور سکالر یوسف دجوی کی کتاب کے رد میں “البروق النجدية " کتاب لکھ کر تہلکہ مچا دیا،کتاب عرب دنیا میں پھیل گئی ازہر یونیورسٹی نے ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا،انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا -

ان کی دوسری کتاب “الصراع الإسلام و الوثنية"  اسلام اور نیشنل ازم کا ٹکراو اس کتاب نے تو دھوم ہی مچا دیا -

کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ عرب دنیا میں انہیں ابن تیمیہ ثانی سے پکارا جانے لگا،مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انکی مدح میں امام کعبہ نے خانہ کعبہ میں قصیدہ پڑھا -

علمی حلقوں میں کہا جانے لگا کہ عبداللہ نے یہ کتاب لکھ کر جنت کا مہر ادا کیا ہے -

 عبداللہ القصیمی اسلام کے دفاع میں شہرہ آفاق کتابیں لکھ کر اپنا لوہا منوا چکے تھے،پوری عرب دنیا میں ان کا طوطی بول رہا تھا کہ 

اچانک ان کا دماغ گھوم گیا،یہ 90 ڈگری الٹ ٹریک پہ چڑھ گئے،یہ دائرہ اسلام سے نکل گئے،یہ ملحد بن گئے -

جو شخص زندگی بھر اسلام کی وکالت اور دفاع کرتا رہا تھا اب وہ اپنی صلاحیتوں کو اسلام کے خلاف استعمال کرنے لگ گیا،انہوں نے نماز ،روزہ اور دیگر فرائض کو ٹائم کا ضیاع قرار دیتے کتاب لکھ ڈالی ۔
“هذي هي الاغلال "
انہوں نے لکھا کہ مسلمانوں کے پیچھے رہنے میں نمازوں کے اوقات سبب ہیں،عبادات کو انہوں نے گلے میں پڑی زنجیروں سے تشبیہ دی خدا کے وجود کا انکار کر دیا -

یہ اسی الحاد میں بدبختی کی زندگی مرا -

بدبختی بتا کر نہیں آتی جس کیلئے حرم میں دعا ہوتی تھی اس کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہیں تھا -

عبداللہ القصیمی کے متعلق میں نے پہلی کتاب مسجد نبوی شریف کی لائبریری میں پڑھی تھی،تب میں نے وہ وجوہات جاننے کی کوشش کی جن کے باعث یہ شخص گمراہ ہوگیا،اہل علم نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے -

کسی نے لکھا بیروت میں ایک عیسائی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوا تھا اسکی وجہ سے دماغ خراب ہوگیا -

لیکن سب سے معقول وجوہات قصیمی کے ایک دوست نے لکھی ہیں،ان کے مطابق تین بنیادی وجوہات تھیں جس کے باعث یہ ٹریک سے ہٹ گیا -

پہلی وجہ کبر و غرور یہ اپنے علمی مقام کے آگے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،ان کے اندر میں میں بہت تھی -

دوسری وجہ کثرت بحث و مباحثہ یہ بحث بہت کرتے تھے،یہ ہر چیز کو بحث کے میزان پر رکھتے شک کے ترازوں میں تولتے یہاں تک کہ یہ اپنے وجود پر بھی سوالات اٹھاتے تھے -

تیسری وجہ مخالف فکر کی کتب کا حد سے زیادہ غیر ضروری مطالعہ -

آپ کتنے بھی بڑے فلسفی ،سقراط ،بقراط اور ارسطو کیوں نہ ہوں مت بھولیں کہ دماغ خراب ہونے میں وقت نہیں لگتا ،چنانچہ ان محرکات سے خود کو دور رکھیں جو گمراہی کی طرف لیکر جاتے ہیں -
اور ہر پل اللہ تعالی سے استقامت کی دعا مانگیں،انسان بہت کمزور ہے،اللہ کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہے -
فردوس جمال

سوریہ نمسکار اور وندے ماترم

*سوریہ نمسکار اور وندے ماترم*

اس وقت جب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ باحیات تھے تو تب بھی اسکولوں میں سوریہ نمسکار کرنے اور وندے ماترم گانے کا مسلہ بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھا تھا۔ اور حضرت مولانا رح نے اسکی پرزور مخالفت کی تھی۔ اسی سلسلہ میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی خود دارالعلوم ندوة العلماء لکھنئو پہونچے تھے اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ سے بات کی تھی۔ 

ملاقات کے بعد حضرت مولانا نے جو تاریخی بیان میڈیا کو دیا تھا وہ سنہرے الفاظ میں لکھا گیا اور اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا... یہی ھمارے لیے مشعلِ  راہ ھے ہو سکتا ہے۔ 

"میری قوم کا ھر بچہ تعلیم سے محروم ہو جائے میں اس کو گوارا کرسکتا ھوں،لیکن اسکے عقیدے اور ایمان پر آنچ آیے میں اسکو کبھی برداشت نہیں کر سکتا"

مولانا جلال الدین رومیؒ اور شمس تبریزیؒ عزت صرف اللہ کے ہاتھ ہے۔

مولانا جلال الدین رومیؒ اور شمس تبریزیؒ

ایک رات مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے استاد حضرت شمس الدین تبریزیؒ کو اپنے گھر دعوت دی۔

مرشد شمسؒ تشریف لے آئے۔ کھانے کے سب برتن تیار ہو گئے تو شمسؒ نے رومیؒ سے فرمایا:
“کیا تم مجھے پینے کے لیے شراب لا سکتے ہو؟”

رومیؒ یہ سن کر حیران رہ گئے:
“کیا استاد بھی شراب پیتے ہیں؟”

شمسؒ نے کہا: “ہاں، بالکل۔”

رومیؒ نے عرض کیا: “مجھے معاف کیجیے، مجھے اس کا علم نہیں تھا۔”

شمسؒ نے فرمایا: “اب جان گئے ہو، لہٰذا شراب لا دو۔”

رومیؒ بولے: “اس وقت رات گئے کہاں سے لاؤں؟”

شمسؒ نے کہا: “اپنے کسی خادم کو بھیج دو۔”

رومیؒ نے کہا: “میرے نوکروں کے سامنے میری عزت ختم ہو جائے گی۔”

شمسؒ نے کہا: “پھر خود ہی جا کر لے آؤ۔”

رومیؒ پریشان ہوئے: “پورا شہر مجھے جانتا ہے، میں کیسے جا کر شراب خریدوں؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“اگر تم واقعی میرے شاگرد ہو تو وہی کرو جو میں کہتا ہوں۔ ورنہ آج نہ میں کھاؤں گا، نہ بات کروں گا، نہ سو سکوں گا۔”

استاد کی محبت اور اطاعت میں رومیؒ نے چادر اوڑھی، بوتل چھپائی اور عیسائیوں کے محلے کی طرف چل دیے۔

💠 جب تک وہ راستے میں تھے، کسی کو شک نہ ہوا۔ لیکن جیسے ہی وہ عیسائی محلے میں داخل ہوئے، لوگ حیران ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔

سب نے دیکھا کہ رومیؒ شراب خانے میں گئے اور بوتل خرید کر چادر کے نیچے چھپا لی۔ پھر وہ نکلے تو لوگ اور بھی زیادہ ہو گئے اور ان کے پیچھے پیچھے مسجد تک پہنچ گئے۔

مسجد کے دروازے پر ایک شخص نے شور مچا دیا:
“اے لوگو! تمہارا امام، شیخ جلال الدین رومیؒ، ابھی عیسائی محلے سے شراب خرید کر آ رہا ہے!”

یہ کہہ کر اس نے رومیؒ کی چادر ہٹا دی اور بوتل سب کے سامنے آگئی۔

ہجوم نے غصے میں آکر رومیؒ کے منہ پر تھوکا، انہیں مارا، یہاں تک کہ ان کی پگڑی بھی گر گئی۔

رومیؒ خاموش رہے، انہوں نے اپنی صفائی پیش نہیں کی۔

لوگ اور بھی یقین کر بیٹھے کہ وہ دھوکہ کھا گئے ہیں۔ انہوں نے رومیؒ کو بری طرح مارا اور کچھ نے تو قتل کرنے کا بھی ارادہ کیا۔

🔊 اسی وقت شمس تبریزیؒ کی آواز بلند ہوئی:
“اے بے شرم لوگو! تم نے ایک عالم اور فقیہ پر شراب نوشی کا الزام لگا دیا۔ جان لو کہ اس بوتل میں شراب نہیں بلکہ سرکہ ہے!”

ایک شخص بولا: “میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ شراب خانے سے بوتل لائے ہیں۔”

شمسؒ نے بوتل کھولی اور کچھ قطرے لوگوں کے ہاتھ پر ڈالے تاکہ وہ سونگھ سکیں۔ سب حیران رہ گئے کہ واقعی یہ تو سرکہ ہے!

اصل بات یہ تھی کہ شمسؒ پہلے ہی شراب خانے گئے تھے اور دکاندار کو کہہ دیا تھا کہ اگر رومیؒ بوتل لینے آئیں تو انہیں شراب کے بجائے سرکہ دیا جائے۔

اب لوگ اپنے سر پیٹنے لگے اور شرمندگی کے مارے رومیؒ کے قدموں میں گر گئے۔ سب نے معافی مانگی اور ان کے ہاتھ چومے، پھر آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے۔

رومیؒ نے شمسؒ سے عرض کیا:
“آج آپ نے مجھے کتنی بڑی آزمائش میں ڈال دیا، یہاں تک کہ میری عزت اور وقار میرے مریدوں کے سامنے خاک میں مل گئی۔ اس سب کا کیا مطلب تھا؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“تاکہ تم سمجھ لو کہ لوگوں کی عزت اور شہرت محض ایک فریب ہے۔
کیا تمہیں لگتا ہے کہ ان لوگوں کا احترام ہمیشہ قائم رہتا ہے؟
تم نے خود دیکھا، محض ایک بوتل کے شک پر وہ تمہارے دشمن بن گئے، تم پر تھوکا، مارا، اور قریب تھا کہ جان لے لیتے۔

یہی وہ عزت ہے جس پر تم نازاں تھے، جو ایک پل میں ختم ہو گئی!

آج کے بعد لوگوں کی عزت پر نہ بھروسہ کرنا۔ اصل عزت صرف اللہ کے پاس ہے جو وقت کے ساتھ نہ بدلتی اور نہ مٹتی ہے۔
وہی بہتر جانتا ہے کہ کون واقعی باعزت ہے اور کون جھوٹی عزت کا طلبگار۔
لہٰذا آئندہ اپنی نظر صرف اللہ پر رکھو۔”

---

✨ یہ واقعہ دراصل ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی عزت اور لوگوں کی رائے لمحوں میں بدل جاتی ہے۔ اصل عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو۔

ماں سے بدسلوکی کا انجام

*ماں کے گھر میں بیوی کے ساتھ رہنے والے سب سے بڑے بیٹے نے پہلے اپنی ماں سے یہ اصرار کیا کہ وہ مکان اس کے نام منتقل کر دے، مگر ماں نے انکار کر دیا۔ جب وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوا تو اس نے ایک اور راہ اختیار کی — اپنی بیوی کے سکون کے لیے ماں کو اسی کے گھر سے زبردستی نکال دیا۔*

*ظلم اس حد تک پہنچا کہ وہ اپنی ماں کا سامان بالکونی سے نیچے پھینکنے لگا۔ مگر اللہ کی پکڑ قریب تھی—جس نے ماں پر ظلم کیا، وہ خود اسی لمحے بالکونی سے گر کر زمین پر آ رہا۔ خون بہنے لگا اور زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔ جو شخص ماں کو بےدخل کر کے گھر کا مالک بننا چاہتا تھا، وہ خود قبرستان کا مکین بن گیا۔*

*جس بیوی نے تنہا گھر میں رہنے کی خواہش کی تھی، وہ انجام دیکھ کر اپنے میکے لوٹ گئی، اور جس ماں کو گھر سے نکالا گیا تھا، اللہ نے اُسی گھر میں عزت و وقار کے ساتھ واپس پہنچا دیا۔*

*`اللہ تعالیٰ والدین کے ساتھ بدسلوکی اور ظلم کی سزا دیر سے نہیں دیتا۔`*

*_اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا بِرَّ الْوَالِدَيْنِ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتاً، وَجَنِّبْنَا عُقُوقَهُمَا وَظُلْمَهُمَا، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ._*

ذریعہ معاش اور ہمارے اکابر

*ذریعہ معاش اور ہمارے اکابر* 

پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں پال کر فروخت کیں ، حضرت ابوبکر نے کپڑا ، حضرت عمر نے اونٹ ، حضرت عثمان نے چمڑا اور حضرت علی نے خَود اور زر ہیں فروخت کرکے اپنے گھر کے کچن کو سہارا دیا ۔۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف نے کھجوروں سے ، حضرت ابو عبیدہ نے پتھروں سے ، حضرت سعد نے لکڑی کے برادے سے ،حضرت امیر معاویہ نے اون سے ، حضرت سلمان فارسی نے کھجور کی چھال سے ، حضرت مقداد نے مشکیزوں سے 
اور حضرت بلال نے جنگل کی لکڑیوں سے اپنے گھر کی کفالت کا فریضہ سرانجام دیا ۔۔

امام غزالی کتابت کرتے ، اسحاق بن رہوے برتن بنا تے ، حضرت امام بخاری ٹوپیاں بناتے ،  ، امام مسلم خوشبو بیچتے ، امام نسائی بکریوں کے بچے فروخت کرتے ، ابن ماجہ رکاب اور لگامیں مہیا فرماتے رہے ۔۔

امام حضرت سالم بن عبداللہ بازار میں لین دین کیا کرتے تھے. حضرت ابو صالح سمان روغن زیتون کا کام کیا کرتے تھے ، حضرت امام یونس ، حضرت ابن عبید داؤد ، حضرت ابن ابی ہند،  حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت وثیمہ ریشمی پارچہ کاکام کرتے رہے۔

حافظ الحدیث غندر بصری نے چادروں کا ، امام القراء حمزہ نے زیتون، پنیر اور اخروٹ کا ، امام قدوری نے مٹی کے برتنوں کا ، امام بخاری کے استاد حسن بن ربیع نے کوفی بوریوں کاکاروبار سنبھالا ۔

حضرت امام احمد ابن خالد قرطبی نے جبہ فروش کی ، 
حضرت امام ابن جوزی نے تانبا بیچا ، حافظ الحدیث ابن رومیہ نے دوائیاں ، حضرت ابو یعقوب لغوی نے  چوبی لٹھا ، حضرت محمد ابن سلیمان نے گھوڑے اور مشہور ومعروف بزرگ سری سقطی نے ٹین ڈبے بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کیا !                           *: خوش خبری :* 

*کم سے کم پونجی سے روزگار کے موقعے ـ،
۔ دور نبوت سے لے کر دور صحابہ تک ، تابعین سے آئمہ کرام اور مجتہدین تک *سبھی لوگ کاروبار سے وابستہ رہے ۔۔*

جب اساتذہ روتے ہیں تو مدرسے ویران ہوتے ہیں

جب اساتذہ روتے ہیں تو مدرسے ویران ہوتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عتیق الرحمن الریاضی، استاذ کلیہ سمیہ بلکڈیہوا نیپال
  
(یہ تحریر صرف مضمون نہیں، ایک دل کو جھنجھوڑ دینے والی صدا ہے، جو ہر زندہ ضمیر کو جگائے گی، ان شاءاللہ۔)

مدرسے تو بہت ہیں… مگر بے نور کیوں؟
یہ درد صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو علم کو فقط کتابوں میں نہیں، دلوں میں اُترتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے ۔
آج مدرسے بہت ہی خوبصورت اور عالی شان ہیں، کتابیں سجی ہیں، اساتذہ بھی موجود ہیں، طلبہ بھی نظر آتے ہیں…
مگر ۔۔۔۔۔ نور کہاں ہے؟کہاں گئی وہ روحانیت؟
مدرسے کی عمارتیں بڑی ہو گئیں… پر دل چھوٹے ہو گئے!
پہلے چند کمرے ہوتے تھے، چند چٹائیاں اور ایک خاموش فضا…
وہاں سے امت کے سپاہی نکلتے تھے۔۔۔۔
آج آرام دہ آفسیں ہیں، بڑے ہال، بڑے ادارے، مگر…دلوں میں خشوع نہیں، آنکھوں میں نور نہیں، زبانوں میں سچائی نہیں۔
طلبِ دنیا علم سے زیادہ ہو گئی ہے… علم عمل سے جدا ہو گیا ہے…

محترم قارئین! مدرسہ صرف عمارت کا نام نہیں… مدرسہ ایک روح ہے۔۔۔۔ اگر روح نکل جائے تو دیواریں باقی رہتی ہیں، مگر چراغ بجھ جاتے ہیں۔۔۔‌۔
آج عموما ہمارے مدرسے بے نور ہیں… کیونکہ ہم نے ان کے چراغ — یعنی اساتذہ، ادب، اور اخلاص — کو بجھا دیا ہے۔۔۔۔۔
آج کے اس بےحس دور میں، اساتذہ کی ناقدری و بے توقیری اور ظلم و زیادتی نے وہ زخم دیے ہیں جو نہ صرف دل کو چیرتے ہیں بلکہ قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں۔

استاذ وہ ہستی جو اندھیروں میں چراغ بنتا ہے، جو کچے ذہنوں کو علم، اخلاق، اور کردار کی خوشبو سے مہکاتا ہے، جو مدرسہ کو علم کا گلشن بناتا ہے۔۔۔۔
مگر افسوس! آج یہی استاذ تنہائی، غربت، اور ناقدری کی چادر اوڑھے،کسی سنسان کمرے میں بیٹھا سسک رہا ہوتا ہے…
کبھی کسی استاذ کی آنکھوں میں جھانکو۔۔۔
کبھی اس کی خاموشی کو سمجھو۔۔۔۔
لیکن نہیں۔۔۔۔۔ ہم نے تو استاذ کو "نوکر" سمجھا، "خادم" جانا،
جبکہ وہ تو "رہبر" تھا، "محسن" تھا، "معمارِ قوم" تھا۔
استاذ کی آنکھ میں اگر آنسو ہو… تو سمجھ لو کہ علم رو رہا ہے، شعور سسک رہا ہے، اور قوم بربادی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ہم نے قلم اٹھانے والے ہاتھ کو کبھی عزت نہ دی، آج وہ ہاتھ خالی ہیں۔۔۔۔۔۔
کتنے استاذ ہیں جو چپکے سے گھر جاتے ہیں، بچوں کے سامنے تو ہنس لیتے ہیں مگر تنہائی میں جا کر وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی نے سوچا ؟
جو شخص لوگوں کو بولنا سکھاتا ہے،جب اسی پر بےحرمتی کے جملے کسے جاتے ہیں تو وہ کیا محسوس کرتا ہے؟
وہ جو لوگوں کو عزت و احترام کے قابل بناتا ہے،آج اپنی عزت کے چند سکے مانگتا ہے۔۔۔۔۔
وہ جو بچوں کے ذہنوں کو روشن کرتا ہے،آج اپنے دل کی اندھیری راتوں سے ڈرتا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ جو کردار سازی کے لیے خود کو جلاتا ہے۔۔۔۔
آج تنخواہ کی تاخیر، بداحترامی، اور معاشرتی بے حسی کا شکار ہے۔
 ناقدری کی وہ آگ جو کرداروں کو جلا دیتی ہے۔۔۔۔
کبھی استاذ کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھو
وہاں ایک سمندر ہے… جو برسوں سے بہنے کو ترس رہا ہے۔۔۔۔
کبھی اس کے الفاظ میں چھپی تھکن کو محسوس کرو
وہ تھکن صرف جسم کی نہیں… عزت کی بھوک کی بھی ہے۔
 اگر یہ ظلم نہ رکا…؟
اگر آج بھی ہم نے استاذ کی عظمت کو نہ پہچانا،تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے بچے سب کچھ جانتے ہوں گے،مگر کردار، حیا، علم اور ہدایت سے محروم ہوں گے…
تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے عمارتیں تو بنائیں، مگر معمار کو بھوکا مار دیا۔۔۔۔۔۔
قومیں اسکولوں، مدرسوں، اور مکتبوں سے بنتی ہیں،
اور ان اداروں کی بنیاد صرف دیواروں پر نہیں، بلکہ اساتذہ کے اخلاص، صبر، اور قربانیوں پر ہوتی ہے۔
اگر ہم نے استاذ کی قدر کھو دی،تو سمجھو ہم نے اپنا کل برباد کر دیا۔۔۔۔۔
ہم نے اس استاذ کو صرف "مولوی" کہا،کبھی اس کے درد کو نہ جانا،نہ اس کے خالی ہاتھ دیکھے،نہ اس کے دل کا بوجھ سنا…!
ہمیں سوچنا ہوگا، ہمیں بدلنا ہوگا۔
قوم کے ان معماروں کو عزت، محبت اور سہارا دینا ہوگا،تاکہ وہ آئندہ نسل کو سنوار سکیں۔
وہ جنہوں نے سینکڑوں بچوں کے خواب سنوارے،آج وہ خود اپنے بچوں کے لیے دعاؤں کے سہارے جیتے ہیں۔
کیا وہ ہماری محبت، عزت اور عنایت  کے مستحق نہیں؟
کبھی ہم نے غور کیا…؟
ہماری نسلیں جن کندھوں پر سوار ہو کر آسمانوں کو چھوتی ہیں،آج وہی کندھے جھک چکے ہیں…
کیوں؟ کیونکہ ہم نے انہیں وقت پر عزت نہ دی…
آج استاذ اپنی عزت کا سوال کرتا ہے اور جواب میں اسے طنز، تاخیر، اور "صبر کرو" جیسا زہر ملتا ہے۔
 یہ وہ وقت ہے… جب استاذ مر رہا ہے، اور قوم کا مستقبل بغیر کفن کے دفن ہو رہا ہے۔۔۔۔۔
ہم نے استاذ کو مارا نہیں ۔۔۔۔۔ہم نے صرف اس کی محنت کی قدر نہ کی، اس کی عزت کا تحفظ نہ کیا،اور اس کی زندگی کو بے معنی کر دیا۔۔۔۔
آج کا استاذ صرف تنخواہ سے نہیں مر رہا… وہ اس بےتوقیری، اس نظراندازی،اور اس احساسِ ندامت سے مر رہا ہے کہ اس کی قوم اسے بھول چکی ہے۔۔۔۔۔
 اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی…؟
تو وہ دن دور نہیں جب:‌علم ہوگا، مگر علم والے نہیں ہوں گے، مدرسے ہوں گے، مگر روشنی نہیں ہوگی ، بچے ہوں گے، مگر کردار سے عاری۔۔۔۔۔، قوم ہوگی مگر شعور سے خالی

اے قوم کے باشعور لوگو!
اگر تمہیں روشنی عزیز ہے تو… چراغ جلانے والوں کی حرمت سیکھو۔۔۔۔
اگر تمہیں علم سے محبت ہے تو…علم بانٹنے والوں کے قدموں میں جھکنا سیکھو۔
استاذ کو مت بھولو…
کیونکہ وہی چراغ ہے، جو خود کو جلا کر تمہارے اندھیروں کو روشنی دیتا ہے۔
آئیے! آج ایک عہد کریں…
ہم اساتذہ کے لیے صرف الفاظ سے نہیں، عمل سے عزت کریں گے اور ان کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔

اے اللہ!  اساتذہ کے دلوں کو تسکین دے، ان کے رزق میں کشادگی عطا فرما۔
اے رب العزت! ہمیں اس قابل بنا دے کہ ہم اپنے اساتذہ کی قدر کر سکیں، ان سے محبت کریں، ان کی خدمت کریں، اور ان کے احسانات کو یاد رکھتے ہوئے ان کے حق میں ہمیشہ دعاگو رہیں۔
یا اللہ! جن اساتذہ نے ہمیں دین سکھایا، کردار سنوارا، اور صبر سے ہماری تربیت کی… تو ان کے نامۂ اعمال کو نور سے بھر دے، ان کی قبروں کو جنت کے باغات میں تبدیل فرما دے، اور ان پر اپنی رحمت کے ایسے دروازے کھول دے کہ کبھی بند نہ ہوں۔

رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر تک سوناایک تباہ کن روایت، ایک بڑا نقصان

رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر تک سونا
ایک تباہ کن روایت، ایک بڑا نقصان 
 تحریر: عثمان بشیر | آئیڈیل لائف کاؤنسلنگ
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہماری زندگیاں بے ترتیب، بے سکون اور بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟
ہم میں سے اکثر لوگ ایک ایسی عادت کو معمولی سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں جو بظاہر کچھ نہیں… لیکن اندر ہی اندر ہمیں جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر کھوکھلا کر رہی ہے۔
اور وہ ہے رات دیر تک جاگنا اور دن چڑھے تک سونا۔
یہ فقط ایک معمول نہیں — یہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو انسان کو اللہ کے بنائے ہوئے نظامِ فطرت سے کاٹ دیتا ہے۔ اور جب کوئی انسان فطرت سے ٹکرائے، تو اس کے نصیب میں خسارے کے سودے ہی لکھے جاتے ہیں۔

☀️ صبح کی برکت کیوں جاتی رہی؟
ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے:
"دن چڑھے تک سونا نحوست لاتا ہے۔"
اور ہم کہتے ہیں:
"نیند تو نیند ہے… رات کو ہو یا دن کو!"
لیکن فرق ہے… بہت فرق ہے۔
رات کا وقت اللہ کی طرف سے ایک مخصوص روحانی اور جسمانی شفا کا وقت ہے۔ اس وقت میں سونا صرف آرام نہیں — یہ آپ کے لاشعور، جسم اور روح کو اللہ کی طرف سے ملی ہوئی قدرتی تھراپی ہے۔

جن گھروں میں صبح نہیں ہوتی… وہاں برکت نہیں ہوتی
میں نے ان گھروں کو بکھرتے دیکھا ہے جہاں دن ایک بجے ناشتہ ہوتا ہے، رات تین بجے نیند آتی ہے، اور فخر یہ کہ ہم “آزاد” ہیں۔
مگر ان گھروں میں:
ذہنی بیماریاں عام ہیں
دل بوجھل ہیں
بے چینی ہر کمرے میں گھومتی ہے
دعائیں سُنی نہیں جاتیں… کیونکہ سجدے ہی نہیں ہوتے

📉 رات جاگنے کے سائیڈ ایفیکٹس:
📍 جلدی بوڑھا ہونا
📍 یادداشت کمزور ہونا
📍 امیون سسٹم کا تباہ ہونا
📍 مشکلات میں ہمت ختم ہونا
📍 غلط فیصلے کرنا اور ہر بات پر غصہ آنا
📍 ڈیپریشن، اینگزائٹی اور خودکشی کی طرف جھکاؤ بڑھ جانا
یہ سب محض اتفاق نہیں۔ یہ نیند کی بے توقیری کا انجام ہے۔

 کیا آپ جانتے ہیں؟
رات کے پہلے پہر یعنی 1 سے 3 بجے کے درمیان خودکشی کا رسک سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
دماغی بیماریوں کا آغاز اسی وقت میں ہوتا ہے جب انسان کا سونا ختم اور جاگنا شروع ہوتا ہے۔
لاشعور کی مرمت کرنے والا نظام صرف رات میں، اور صرف اندھیرے میں، قدرتی انداز میں فعال ہوتا ہے — اور ہم اسے موبائل کی اسکرین سے جلا دیتے ہیں۔

📿 روحانی نقطۂ نظر:
اللہ نے رات کو سکون، سجدے، اور شفایابی کے لیے بنایا۔
قرآن کہتا ہے:
"اور ہم نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا…"
(سورۃ النبأ، آیت 10)
یعنی رات انسان کی روح اور بدن کے لیے ایک ڈھال ہے۔ جب آپ اس ڈھال کو چھوڑ دیتے ہیں، تو آپ دشمن کے وار کے لیے خود کو ننگا کر دیتے ہیں۔

🔁 اب سوال یہ ہے:
صبح اٹھ کر کرنا کیا ہے؟
اس سے بڑا سوال یہ ہے:
دن چڑھے تک سو کر آخر کرنا کیا ہے؟
پرانے وقتوں کے لوگ بغیر موبائل، بغیر شاپنگ، بغیر نیٹ فلکس کے بھی صبح فجر سے پہلے جاگتے تھے… کیونکہ ان کے دل اللہ سے جڑے ہوتے تھے۔ ہمیں سونا نہیں… واپس آنا ہے۔

✅ آئیڈیل لائف حل: رات کی نیند واپس لائیں
🌙 سونے سے پہلے موبائل بند کریں
🛏️ رات 10 سے پہلے بستر پر چلے جائیں
💧 وضو کر کے سونا شروع کریں
📿 سونے سے پہلے تسبیحات یا دعا پڑھیں
☀️ صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے بیدار ہوں
یہی وہ “ٹرکس” تھے جو "راہِ نور" کے طلال کو بھی سکون کی نیند دے گئے تھے۔

💬 آخر میں… صرف اتنا:
نیند صرف نیند نہیں — یہ آپ کی روح کا علاج ہے۔
جب آپ وقت پر سو جاتے ہیں، تو:
آپ کا زخم بھر جاتا ہے
آپ کی ہمت بڑھ جاتی ہے
آپ کا دل نرم ہو جاتا ہے
اور آپ کا اللہ سے رشتہ بحال ہونے لگتا ہے
لیکن جب آپ وقت پر سونا چھوڑ دیتے ہیں…
تو آپ خسارے کا سودا کر لیتے ہیں۔

تم قبر میں ہزاروں سال تک کیا کرو گے

تم قبر میں ہزاروں سال تک کیا کرو گے

*📝ڈاکٹر مصطفی محمود* لکھتے ہیں:

میں تمہیں ایک *طریقہ* بتاتا ہوں جو میرے ساتھ بہت کارآمد ثابت ہوا اور *جس سے میں اپنے اللہ سے تعلق پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے لگا ہوں۔*

🥀قبر خوفناک ہے، ظاہر ہے کہ نیک لوگوں کے علاوہ۔ 
میں نے اس کے بارے میں سوچا، اور اب میری عمر 54 سال ہے، اور میں دنیا سے اور اس کی چیزوں سے تنگ آ چکا ہوں۔ *اچھا، تو جب میں قبر میں جا کر اکیلا رہوں گا، سینکڑوں ہزاروں سال تک، تو میں کیا کروں گا؟*
*کیا تم نے کبھی اس کا تصور کیا ہے؟*

🗒️اس لیے میں نے مندرجہ ذیل طریقے پر عمل کرنا شروع کیا:

دیکھو میں مر جاؤں گا، اور میرے پاس ایک خالی، بالکل تاریک قبر ہوگی۔ 

*اس قبر کو سامان کی ضرورت ہوگی، لہٰذا میں ہر استغفار کو تصور کرنے لگا جیسے میں اسے اپنے قبر کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ وہاں میرا انتظار کرے اور میرے تنہائی کا ساتھی بنے۔*
اللہ کی قسم، میں مذاق نہیں کر رہا۔ 

*میں نے اپنی قبر کو مکمل ڈیکوریٹ کر دینے کا عمل شروع کر دیا ہے۔*

*قبر کے ایک کونے کو میں ہزاروں تسبیحات سے بھر* رہا ہوں۔ 

*یہاں میرے سر کے قریب قرآن ہو گا جسے میں روز پڑھتا تھا آرام دہ بستر کا سبب بنیے گا۔*

*ہر رکوع کو میں یہ تصور کر کے ادا کرتا ہوں کہ میں اسے قبر میں اپنا ذخیرہ* بنا رہا ہوں۔ 

ہر کوئی مجھے چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلا جائے گا، شاید ہزاروں سالوں تک قبر میں میں اکیلا رہونگا ۔ میرے بچے چند سالوں میں مجھے بھول چکے ہوں گے۔

*لہذا، مجھے قبر میں ساتھیوں، روشنیوں، اور جنت کے جیسے مناظر کی ضرورت ہوگی۔*

*میں تسبیحات، ذکر، قرآن، نماز اور صدقہ سب کو اپنے ساتھ تصور کرتا ہوں کہ وہ میرے دوست ہوں گے، میرے ساتھ وہاں ہنس رہے ہوں گے اور باتیں کر رہے ہوں گے۔* 

*نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنا میں نے اپنے معمولات کا ایک اہم عمل بنا لیا ہے، یہ وہاں ہماری محفلوں میں بھی شامل ہوگا ٹھنڈے پانی کی طرح، خوبصورت لباس کی طرح۔*

میں یہ چاہتا ہوں کہ میری قبر کی زندگی اس دنیا کی زندگی سے بھی زیادہ خوبصورت زندگی ہو۔ ان شاء اللہ۔

*کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں وہاں جا کر غیبت، چغلی، حسد اور دیگر دنیاوی گناہوں کے نتیجے میں بدبو دار کپڑوں، دیمک لگے فرنیچر اور سخت پتھریلے بستر کے بجائے اپنی قبر کو بہترین چیزوں سے آراستہ کروں۔*

میں نے دنیا میں اپنا گھر بنانے کے لیے ساری زندگی جان توڑ محنت کی لیکن یہ گھر تو میرے ورثاء کا ہوجائے گا، *اصل میں تو میری ساری محنت اپنے لیے ہے ہی نہیں، سارے فائدے تو اور لوگ اٹھائیں گے۔ تو میں نے سوچا کہ بس بہت ہوگیا ہے، مجھے اپنا گھر بنانا ہے جہاں صرف میں ہی ہوں گا اور ایک طویل عرصہ گزارنا ہے*۔

*اگر میرے تمام اعمال دنیا کی ضروریات کے لیے تھے اور اپنی قبر کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، تو پھر تو میرے قبر والے گھر کے لیے سوائے عذاب کے فرنیچر، مستقل اندھیرے، اور سخت حساب کے کچھ بھی نہ ہوگا۔ اور میں ایسے گھر میں اکیلا کیسے رہوں گا!*

میری آپ کو بھی نصیحت یہ ہے کہ آج سے:
*اپنی قبر کو اپنا بینک اکاؤنٹ بناؤ۔ اس میں زیادہ سے زیادہ ڈپازٹ کرو اور لانگ ٹرم والی پالیسی لو۔*

اپنی *عبادات کا خوب خیال* رکھو۔ اللہ کی قسم، جب تم قبر میں ہوگے، تو تم مجھے وہاں سے بھی شکریہ ادا کرو گے۔
*اپنی قبر کے گھر کا اس دنیا کے گھر سے زیادہ خیال رکھو۔* 

ابھی تم اپنے گھر والوں کے درمیان ہو، پہن رہے ہو، کھا پی رہے ہو، آرام سے گھر والوں کے درمیان سو رہے ہو، اور تمہیں تمہاری تمام ضروریات میسر ہیں، *پھر بھی تم اپنے حالت سے نالاں رہتے ہو، ہر وقت کوئی نہ کوئی شکایت کرتے رہتے ہو۔*

*تو سوچو جب تم زمین کے نیچے ہوگے اور سینکڑوں ہزاروں سالوں کے لیے ہوگے تو وہاں تمہارے ساتھ کون ہوگا؟*

تمہارے پسندیدہ سیاستدان، کھلاڑی، اداکار، تاجر۔۔۔۔۔ یہ تو تمہیں یہاں بھی نہیں جانتے اور نہ ہی انہیں تمہاری اتنی فکر ہے، *تم ہی ان سب کے پیچھے بیوقوفوں کی طرح اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔*

*تمہارے وہ بچے جن کی شادیوں پر تم لاکھوں روپے فضولیات پر خرچ کردیتے ہو، یقین کرو یہ خرچ تمہارے لیے وبال بن چکا ہوگا، اور بچے مکر جائیں گے کہ ہمارے باپ نے اور ہماری ماں نے خود ہمارے لیے بھی اور اپنے لیے بھی مصیبت کھڑی کی۔*

لہٰذا، اپنا خیال خود رکھو۔ 

اپنی ہر تسبیح اور ہر عمل کا خیال رکھو اور اس سے کہو کہ *وہ مجھ سے پہلے قبر میں جا کر میرا انتظار کرے۔ میری قبر کو خوشبوؤں سے مہکائے، شاندار باغیچہ بنائے، ہوادار کمرے ہوں، مہنگا ترین فرنیچر ہو، اور میرے ہمدرد دوست ہوں۔*

*ہم وہاں ملیں گے، اور میرا وہ گھر، میرا بہترین ساتھی اور بہترین رہنے کی جگہ ہوگی۔*

 *اللھم، ہمیں حسن خاتمہ عطا فرمائیے* 
 *اللھم، ہماری آخرت کو بہتر بنا دیجیے اور ہمیں قبر کے عذاب سے بچالیجیے* 
*اللھم، ہمیں اپنا ذکر، شکر، اور حسن عبادت کی توفیق عطا فرمائیے، ہم پر اپنی رضا اور جنت الفردوس میں نعمتیں نازل کریں، جہاں ہم نبی محمد ﷺ کی صحبت میں ہوں، جن پر بے شمار درود و سلام ہو۔*

تو پھر اپنا گھر بنانا شروع کردیجیے

*وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری*

*شیخ طریقت عارف بالله حضرت مولانا شاه محمد قمر الزمان صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم* 

*قسط۶*
*وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری*

حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کی دعا دیکھئے ! حضرت سیدنا موسی علیہ السلام فرعون کی طرف جارہے ہیں ، بھیجنے والے اللہ تعالی ہیں ، اللہ ہی کے حکم سے جارہے ہیں ، اور پھر اللہ کی طرف سے معجزات بھی ساتھ لے جارہے ہیں ، آپ کے ہاتھ میں عصا ہے جو اژدہا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور دوسرا معجزہ ید بیضا ہے یعنی ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالئے تو نہایت روشن سفید چمکتا ہوا نکلتا تھا ۔ ہر چیز سے مرصع ہیں لیکن حضرت موسی علیہ السلام کو اس پر ذرا بھی ناز نہیں ہوا غرور نہیں آیا کہ ہم کو اللہ نے معجزات سے نوازا ہے ہم کو کسی چیز کی کیا ضرورت ہے بلکہ جب فرعون کے یہاں جانے لگے تو کہا کہ اے اللہ ! یہ سب معجزات اپنی جگہ پر ہیں لیکن میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ میرے سینے کو کھول دیجئے : رب اشرح لی صدری ويسر لي أمري [ سورة طه : ۲۵ ] اے میرے رب ! میرے سینہ کو کھول دیجئے اور میرے ہر معاملہ کو آسان فرمائیے ۔ 
یہ عصا اسی وقت کام آسکتی ہے جب کہ آپ چاہیں گے ورنہ تو ہم عصا کو پٹکتے رہ جائیں گے اور وہ اژدہ نہیں بنے گی ، وہ بھی اللہ کی تائید ہی سے اژدہا بنتی ہے ، آپ فرعون جیسے جابر و ظالم کے پاس مجھے بھیچ رہے ہیں ، معجزات سے آپ نے نوازا ہے ، عجیب و غریب معجزات سے مشرف فرمایا ہے ۔ تاہم میرے سینے کو میرے لئے علم اور حلم سے کھول دیجئے علم بھی دیجئے اورحلم بھی دیجئے علم اسلئے کہ اس کی روشنی میں اس کو دین و ایمان کی دعوت دوں اور حلم اسلئے کہ اگر وہ فرعون سخت کلامی کرے ، سخت معاملہ کرے تو میں اس کو برداشت کرسکوں ، پس دونوں ہی کی ضرورت ہے ۔

*شرح صدر کا مطلب*
 اس وجہ سے شرح صدر کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ نے بیان القرآن میں لکھا ہے کہ علم بھی وسیع عطا فرمایا اور تبلیغ دین میں مخالفین کی مزاحمت سے ایذا پیش آتا ہے، اس میں تحمل اور حلم بھی دیا تا کہ اپنے کلام میں مزے کے ساتھ مخالفین کونصیحت کرسکیں ۔ علم کے ساتھ حلم کا ہونا ضروری ہے بہت سے لوگ تند مزاج ہوتے ہیں ، ان کے پاس علم تو ہوتا ہے لیکن حلم سے عاری ہوتے ہیں اسلئے اگر وہ کسی کے سامنے صحیح بات رکھیں اور صحیح مقصد کی طرف دعوت بھی دیں لیکن اگر مخاطب بھی تندخو ہو اور اس کی بات نہ مانے بلکہ سخت کلامی کرے تو ایسا شخص برداشت کرسکتا ہے ؟ بلکہ وہ خود اس سے گر جائیگا پھر کسی کی کیسے اصلاح ہوگی ، اسلئے داعی کو حلم کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے ۔ مخاطب تو بگڑا ہوا ہے ہی ، اس کیلئے نرمی کی ضرورت ہے ، اسلئے کہ وہ شریعت کو سخت سمجھ کر شریعت سے بھاگ رہا ہے ، لہذا ایسے موقع پر نرمی سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ تو شریعت کو سخت و کڑوا سمجھ کر دین سے دور ہورہا ہے اس لئے تم کو اپنے کلام میں نرمی اور شیرینی ملا کر دین کو پیش کرنا ہوگا ، ورنہ تو کریلا نیم چڑھا کا مصداق ہو جائیگا ، یعنی ایک تو دین کی کلفت و تلخی پھر تمہارے کلام کی تلخی و سختی ، اس طرح دو تلخی و سختی جمع ہو جائیں گے جس سے مزید دوری ہو جائیگی ، اس کو خوب سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں ، ابھی دیکھئے بیان میں آنے سے قبل موسمبی کا رس پینا چاہا تو وہ ترش معلوم ہوا ، میں نے کہا کہ بھائی یہ تو ترش ہے اور اس میں گل قند ملا دیا جس کی وجہ سے میٹھا ہو گیا ، کتنا خوش گوار ہو گیا اس کے بعد پی لیا ، اسی طریقہ سے کڑوی چیز میں جب شیرینی مل جاتی ہے تو وہ کڑوا پن غائب ہو جاتا ہے ، بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہوجاتے ہیں تو اس کیلئے جو دوا دی جاتی ہے وہ نہایت کڑوی ہوتی ہے اسلئے اسے بتاشہ میں رکھ کر دیتے ہیں تا کہ اسکی کڑواہٹ بچے کو محسوس نہ ہو بلکہ وہ میٹھا معلوم ہو اور باآسانی پی لے ، تو کڑوے کے ساتھ ہمیں میٹھا بننا پڑے گا تب جا کر اصلاح ہوگی ۔ 
ایک مصری عالم علامہ سید علی محفوظ رح “صاحب ابداع “اپنی تصنیف ہدایة المرشدين میں لکھتے ہیں کہ کلفت شریعت کی بناپرلوگ شریعت سے بھاگتے ہیں اگرتم نے اس کے اندر اپنی کلفت کو بھی ملا دیا تو لوگ اور زیادہ بھاگیں گے ، اس بنا پر کلفت کوشرینی سے لذیذ بنادو اور پھر لوگوں کو اپنے قریب کر لواس کے بعدان کے سامنے ٹھنڈے دل سے نرمی سے دین کو پیش کرو ، انشاء الله لوگ ضرور قبول کریں گے ۔ والله الموفق
📚 *🕌﴿☆٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد☆﴾🕌*

مطالعہ نہ کرنے کے 100 نقصانات*

مطالعہ نہ کرنے کے 100 نقصانات

1. جہالت میں اضافہ
2. عقل کا زوال
3. فکری پستی
4. زبان و بیان کی کمزوری
5. تحقیق سے دوری
6. شخصیت میں غیر سنجیدگی
7. فیصلہ سازی کی کمزوری
8. دلیل سے محرومی
9. کمزور حافظہ
10. غیر سنجیدہ گفتگو
11. سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی
12. روحانی کمزوری
13. دینی شعور کی کمی
14. سنت و سیرت سے لاعلمی
15. سطحی ذہنیت
16. جذباتی عدم توازن
17. منفی سوچ کا غلبہ
18. باطل نظریات کا شکار
19. دنیا کے فریب میں کھو جانا
20. زندگی کا مقصد بھول جانا
21. ضیاع وقت
22. سستی و کاہلی
23. تنہائی میں بے چینی
24. بے مقصد گفتگو
25. تخیل کی موت
26. دل کی سختی
27. فرقہ واریت کا شکار
28. شخصیت میں جھجک
29. شکوک و شبہات میں اضافہ
30. فکری غلامی
31. فتنوں کا شکار ہونا
32. دین سے دوری
33. نفاق کی علامات
34. حق و باطل میں تمیز کا فقدان
35. علم دشمنی
36. جاہلانہ انداز
37. تعصب میں شدت
38. سوالات کا سامنا نہ کر پانا
39. عقلی مغالطے
40. خود اعتمادی میں کمی
41. انسانیت سے بے خبری
42. دلائل سے خالی باتیں
43. اصلاح سے نفرت
44. علمی جرأت کا فقدان
45. گفتگو میں بدتمیزی
46. رائے زنی میں جلد بازی
47. معاشرے میں منفی کردار
48. شخصیت کا بکھراؤ
49. تعمیری سوچ کا فقدان
50. نصیحت کا اثر نہ ہونا
51. بات بات پر غصہ
52. دین کا محدود تصور
53. حدیث و قرآن سے ناآشنائی
54. سچائی سے فرار
55. کبر و غرور کا غلبہ
56. ظاہری نمود و نمائش
57. شعور کی کمی
58. فکر و تدبر سے محرومی
59. دینی معاملات میں جہالت
60. علم دشمن طبقے کی پیروی
61. کتابوں سے بے رخی
62. حق کے خلاف بولنا
63. تقلیدی ذہن
64. غلط فتووں کا شکار
65. وقت کی قدر کا فقدان
66. والدین و اساتذہ سے بدتمیزی
67. خود ساختہ دین
68. خواب و خیال میں رہنا
69. علمی مجالس سے دوری
70. قرآن سے انس نہ ہونا
71. شخصیت کا بحران
72. دلائل کے بغیر رائے دینا
73. تبلیغ میں کمزوری
74. قوم کی پستی کا حصہ بننا
75. امت کی فکر نہ ہونا
76. خود غرضی
77. تعمیری تنقید سے دوری
78. تعلیم دشمن سوچ
79. بے مقصد زندگی
80. معاشرتی زوال
81. بچوں کی غلط تربیت
82. استاد سے تعلق کی کمزوری
83. احساسِ برتری یا کمتری
84. معاشرتی تناؤ
85. جھوٹ کا سہارا
86. افواہوں پر یقین
87. سنی سنائی باتوں کا پرچار
88. علمی جرائم
89. قوم کی ترقی میں رکاوٹ
90. عبادت میں بے دلی
91. عقائد کی خرابی
92. شخصیت میں ناپختگی
93. فکری انتشار
94. فحاشی و عریانی کی طرف میلان
95. نظریاتی کمزوری
96. انفرادی و اجتماعی نقصان
97. وقت کا ضیاع
98. نفس پرستی
99. حق سے دوری
100. انسان “انسان” نہیں رہتا۔

علماء کی اصل کمائی: تنخواہ یا ذمہ داری کا احساس

علماء کی اصل کمائی: تنخواہ یا ذمہ داری کا احساس
✒️تحریر: *نجم الثریا* 🌟

ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں اسلام محض رسموں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، روحانیت معدوم، شعائرِ دین کمزور، مساجد سنسان، مدارس خالی، اور نوجوان نسل مغرب زدگی و مادہ پرستی کے دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ ہر طرف بے دینی کا طوفان، فحاشی کا سیلاب، ارتداد کا زہر، اور ایمان کا زوال نظر آرہا ہے۔ یہ سب محض اتفاقات نہیں بلکہ ایک بڑی دینی غفلت اور اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ اور اس غفلت میں جس طبقے کی کوتاہی سب سے زیادہ دردناک ہے، وہ ہے علمائے کرام، ائمہ مساجد، اور دینی اساتذہ کا طبقہ۔
*وہ طبقہ جو کبھی امت کے سروں کا تاج ہوا کرتا تھا، جو دلوں کا طبیب، مسجد کا چراغ، قوم کی امید، اور اللہ کے دین کا سپاہی ہوتا تھا، آج بہت بڑی تعداد میں محض ایک تنخواہ دار ملازم بن کر رہ گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "العلماء ورثة الأنبياء، وإن الأنبياء لم یورثوا دینارًا ولا درہمًا، إنما ورثوا العلم، فمن أخذه أخذ بحظ وافر" (سنن ابی داؤد، حدیث 3641)*
علماء انبیاء کے وارث ہیں، ان کا مقام محض درس و تدریس نہیں، بلکہ وہ دین کے علم، دعوت، کردار، تربیت، صبر، قربانی اور اخلاص کے وارث ہیں۔ لیکن جب یہی ورثاء اپنے منصب کو تجارت بنا لیں، اپنے فرائض کو اجرت کے ترازوں میں تولیں، اور دین کی دعوت کو "نوکری" سمجھ لیں، تو پھر دین کی جڑیں کھوکھلی ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
*آج ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی علما، ائمہ، اور دینی اساتذہ ایسے ہیں جو معمولی معمولی بات پر دینی فرائض سے غائب ہو جاتے ہیں۔ تھوڑا سا موسم سخت ہو گیا، طبیعت بوجھل ہوئی، کسی دنیاوی مجلس میں شرکت کا موقع آیا، یا کہیں کسی نے وقت پر کھانا نہ دیا، تو پوری ڈیوٹی سے چھٹی لے لی جاتی ہے۔ مدارس دیر سے آنا، نمازوں میں سستی، جمعہ کا بیان رسمی، محلے کی برائیوں پر خاموشی، طلبہ کی تربیت سے لاپروائی، اور جب توجہ دلائی جائے تو جواب ہوتا ہے: "یہ میرے ذمہ میں نہیں، مجھے اس کا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔"*
*کیا یہی رویہ انبیاء کے وارث کا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ وہ لوگ ہیں جن سے امت کو روشنی ملنی چاہیے تھی؟ قرآن کہتا ہے: "يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ" (سورۃ ھود، آیت 29) (اے میری قوم! میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے۔)*
حضرت نوح، ہود، صالح، شعیب علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو یہی پیغام دیا کہ ہم تمہیں اللہ کے دین کی دعوت کسی دنیاوی فائدے کے لیے نہیں دے رہے۔ اب اگر آج ان کے وارث ہر ہر قدم پر تنخواہ کا تقاضا کریں، اور جس کام میں پیسے نہ ہوں وہ نہ کریں، تو انبیاء کی وراثت کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اسلاف کا حال اس کے بالکل برعکس تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، جو خود بہت بڑے تاجر تھے، نے کبھی دین کی تعلیم کو اجرت سے مشروط نہیں کیا۔ وہ اپنے طلبہ کے اخراجات خود اٹھاتے، ان پر مال خرچ کرتے، اور راتوں کو جاگ کر ان کی اصلاح کی فکر کرتے۔ امام مالکؒ نے خلیفہ وقت کی تنخواہ کی پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ دین کا علم اللہ کے لیے ہے، دنیا کے سودے کے لیے نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی جان، عزت، سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا لیکن حق کے ایک حرف سے پیچھے نہ ہٹے۔
*علامہ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں: "جب علم دنیا کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو علم نور کے بجائے ایک بوجھ بن جاتا ہے۔"*
آج کے بعض علماء کے رویے بالکل اسی المیے کو ظاہر کرتے ہیں۔ وقت کی پابندی کا حال یہ ہے کہ درس گاہ میں تاخیر، بغیر اطلاع کے غیر حاضری، دینی تقاضوں میں غفلت، اور اخلاص کی کمی ایک عمومی رویہ بن چکا ہے۔ دین کی دعوت اور طلبہ کی تربیت کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ گویا مقصد صرف تنخواہ لینا، اور کام صرف اتنا کرنا ہے جتنا مقرر کیا گیا ہو۔ یہ وہی مزدورانہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے آج علماء کا وقار مجروح ہو رہا ہے اور دین کی برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته" (صحیح بخاری، صحیح مسلم) (تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔)
*علمائے کرام امت کے دینی رہنما، مربی، اور نگہبان ہیں۔ ان کے ایک بول سے نسلوں کا مقدر بدل سکتا ہے، لیکن جب وہی غفلت کے شکار ہوں، تو پھر معاشرہ گمراہی کی طرف نہ بڑھے تو کیا ہو؟ امت کی امانت کو جب محض نوکری بنا دیا جائے تو پھر فتنوں کی یلغار قدرتی ہے۔*
*اس پر بھی غور ضروری ہے کہ علمائے کرام کو جو تنخواہ دی جاتی ہے، وہ عوام کی محنت کی کمائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ رقم ہوتی ہے جو مزدور پسینہ بہا کر کماتا ہے، ریڑھی والا پیٹ کاٹ کر دیتا ہے، غریب لوگ اپنے بچوں کی ضروریات چھوڑ کر مسجد و مدرسہ کے لیے دیتے ہیں۔ یہ پیسہ کوئی سرمایہ دار، جاگیردار، یا حکومت نہیں دیتی، بلکہ وہ محنت کش طبقہ دیتا ہے جو دین سے محبت کرتا ہے، جو امید رکھتا ہے کہ علماء ان کی دینی رہنمائی کریں گے، ان کے بچوں کو سنواریں گے، اور ان کے ایمان کی حفاظت کریں گے۔ اب اگر اس رقم کا بدلہ محض رسمی عمل اور تنخواہ تک محدود خدمات کی صورت میں ملے، تو اللہ کے ہاں اس کی سخت بازپرس ہوگی۔*
قرآن اعلان کرتا ہے: "وَقِفُوهُمْ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ" (سورۃ الصافات، آیت 24 (ان کو روک لو، ان سے پوچھا جائے گا۔)
پوچھا جائے گا کہ تم نے دین کے نام پر کیا کمایا؟ کتنے لوگوں کی اصلاح کی؟ کتنی نمازیں وقت پر پڑھائیں؟ کتنے طلبہ کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا کیا؟ کتنے نوجوانوں کو فتنوں سے بچایا؟ اور اگر کچھ نہ کر سکے، تو وہ مزدور کی محنت کی کمائی کا حساب کیا دو گے؟
*اس سب کے ساتھ یہ پہلو بھی توجہ کا طالب ہے کہ دین کی ذمہ داری کو محض کمائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے اگر علمائے کرام اپنی روزی کے لیے تجارت یا کسی اور حلال پیشے کا انتخاب کریں، اور دین کی خدمت کو صرف اللہ کی رضا کے لیے انجام دیں، تو یہ طریقہ ان کے لیے دین و دنیا دونوں میں عزت و سربلندی کا ذریعہ بنے گا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "التاجر الصدوق الأمین مع النبيين والصديقين والشهداء" (جامع ترمذی، حدیث 1209) (سچا اور دیانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔)*
اگر علماء اپنی معاش کا ذریعہ تجارت، زراعت، تدریس یا دیگر حلال شعبے بنائیں، اور دینی خدمات بغیر تنخواہ یا محض معمولی وظیفے پر انجام دیں، تو اس میں ان کے اخلاص، توقیر، اور دینی وقار کا تحفظ ہوگا۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے تجارت کی، لیکن علم دین کی خدمت بلا معاوضہ انجام دی۔ حضرت حسن بصریؒ نے کاتبی (Clerical) ملازمت کی، اور دین کی دعوت کا فریضہ عبادت سمجھ کر نبھایا۔
یہی قانون قدرت ہے کہ محنت، دیانت اور لگن کے ساتھ جو دنیاوی میدان میں بھی قدم رکھے گا، اللہ اسے دنیا میں بھی ترقی دے گا اور آخرت میں بھی بلند مقام عطا فرمائے گا۔ دین دار، امانت دار عالم اگر تجارت کرے گا تو وہ عام تاجروں سے آگے نکل جائے گا، اگر وہ کسی سروس یا ملازمت کے میدان میں قدم رکھے گا تو اس کی دیانتداری اور حسنِ کردار اسے دوسروں سے ممتاز کر دے گی۔
قرآن مجید کا صاف اعلان ہے: "وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ، وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ" (سورۃ النجم، آیات 39-40)
"اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی، اور بے شک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔"
*یہی وہ ربانی اصول ہے جس پر دنیا و آخرت کی کامیابیاں قائم ہیں۔ اگر علماء دین محنت و اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت اور دنیا کی تدبیر کو ساتھ لے کر چلیں تو وہ دنیا والوں سے آگے نکل سکتے ہیں، اور ان کے کردار و علم کی روشنی سے معاشرہ بھی منور ہو سکتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے: خلوص، مسلسل جدوجہد، اور اللہ پر یقین۔*
*اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء دین محض مدارس، مکاتب اور مساجد کی محدود تنخواہ پر انحصار کرنے کے بجائے، اگر ضرورت ہو تو کسی مناسب ذریعہ معاش کو اپنائیں، اور دین کی خدمت کو اپنے لیے خالص عبادت بنائیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف دین محفوظ رہے گا، بلکہ علما کا وقار بھی بحال ہوگا، اور وہ امت کی نظروں میں بطور قائد و مربی سرخرو ہوں گے۔*
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے صحیح فہم، اخلاص عمل، اور دین و دنیا دونوں میں کامیابی عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

میاں بیوی کے تعلقات میں کمی کی وجوہات اور علاج

*"جذباتی انقطاع ۔ چپ کا روزہ (Emotional Detachment)" (23)*

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری کی زیر اشاعت کتاب 
*سکون خانہ ۔ازدواجی تنازعات سے رفاقتی ہم آہنگی تک کا شعوری سفرِ A conscious journey from Marital discord to companionate Harmony* 
9224599910
####################

 *جذباتی انقطاع ایک خاموش رکاوٹ*

(Emotional Detachment – A Silent Barrier in Marital Harmony)
✦ تعارف:
ازدواجی زندگی کا اصل حسن "جذباتی قربت" (Emotional Intimacy) میں پوشیدہ ہے ، لیکن جب یہ قربت وقت ، مسائل یا ماضی کی زنجیروں کے باعث ختم ہونے لگے تو رشتہ صرف ایک رسمی معاہدہ رہ جاتا ہے ۔ یہی کیفیت جذباتی انقطاع کہلاتی ہے ، جو کئی جوڑوں میں خاموش تباہی بن کر سرایت کر چکی ہے ۔
✦ تعریف:
> "Emotional Detachment is a psychological condition where a person distances themselves emotionally from others, especially from close relationships, often to protect themselves from pain or vulnerability."

"جذباتی انقطاع ایسی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے شریکِ حیات یا عزیزوں سے جذباتی طور پر کٹ جاتا ہے ، نہ دل کی بات کرتا ہے ، نہ دوسروں کے جذبات کو محسوس کرتا ہے ، نہ ہی تعلق میں دلچسپی لیتا ہے"۔
✦ اسباب:
شمار سبب وضاحت
1 بچپن کی محرومیاں ، جذباتی یا جسمانی نظراندازی کا تجربہ ۔
2 ازدواجی زخم ، مسلسل بے عزتی ، جھگڑے ، یا نظراندازی ۔
3 نفسیاتی بیماری ڈپریشن، اینگزائٹی ، یا (PTSD ) Post Traumatic Strees Disirder اس میں دماغی صدمہ یا تکلیف ، خوف ناک خواب ، شدید بے چینی ، جذباتی بے حسی ، چڑچڑاپن ، شدید غصہ ، آتا ہے ۔ علاج کے لیے CBT ادویات میں ہے ۔
4 دفاعی رویہ خود کو مزید زخموں سے بچانے کی کوشش ۔
5 جدید لائف اسٹائل ڈیجیٹل مصروفیت ، تنہائی ، ورک پریشر ۔
✦ علامات :
* جذباتی اظہار کا فقدان ۔
* تنہائی پسندی ۔
* شریکِ حیات کے جذبات کو نظرانداز کرنا ۔
* جسمانی قربت سے دوری ۔
* گفتگو میں سرد مہری ۔
* رشتے میں بیزاری ۔
*✦ اسلامی نقطۂ نظر :*
> "وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً"
"اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔"
(سورہ روم: 21)
> "مومن مومن کا آئینہ ہے۔"
(ابو داود)
"بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہترین ہو۔"۔ (ترمذی)
اسلام جذباتی تعلق ، حسنِ سلوک ، اور دلجوئی پر زور دیتا ہے ۔ جذباتی انقطاع تعلقات کو سرد اور بے روح بنا دیتا ہے ، جو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے ۔
✦ سائنسی و نفسیاتی تحقیق :
🔹 ڈاکٹر جان گاٹ مین کے مطابق، "خطرناک رشتے وہ ہوتے ہیں جن میں 'Emotional Withdrawal' یعنی جذباتی پیچھے ہٹنا موجود ہو۔"
🔹 Harvard Medical Review میں شائع تحقیق کہتی ہے:

> "Emotional neglect is more harmful than verbal abuse in long-term relationships."
پھر یہ دل کیوں اداس ہے ؟"
> "You can be married and still feel incredibly alone."
— Esther Perel

✦ جدول : جذباتی تعلق بمقابلہ جذباتی انقطاع
  --پہلو جذباتی تعلق جذباتی انقطاع ۔
بات چیت کھلی ، محبت بھری محدود یا سرد ۔
جذبات کا تبادلہ - روزمرہ کا معمول تقریباً ناپید ۔
جسمانی زبان ، قربت ، لمس سے گریز ، لاتعلقی ہے ۔
اعتماد مضبوط - کمزور یا ختم
✦ سوالنامہ برائے تشخیص (Self-Assessment Quiz) :

اپنے تعلق کی کیفیت جاننے کے لیے ہر سوال کا جواب دیں (ہاں / نہیں) ۔
1. کیا آپ شریکِ حیات کے ساتھ دل کی بات کرتے ہیں ؟
2. کیا آپ کو اس کے احساسات سمجھ آتے ہیں ؟
3. کیا وہ آپ کے جذبات کا احترام کرتا / کرتی ہے ؟
4. کیا آپ ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں؟
5. کیا آپ دونوں کے درمیان ہمدردی ہے؟
🔸 4 سے زائد "نہیں" کا مطلب ہے ۔ جذباتی انقطاع کا خطرہ موجود ہے ۔
✦ عملی مشقیں (Practical Exercises):
1. "روزانہ پانچ منٹ کا جذباتی رابطہ":
دن میں صرف پانچ منٹ بغیر موبائلب، صرف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں ۔
2. "دل کی ڈائری":
ہر رات لکھیں: آج میں نے اپنے شریکِ حیات سے کیسا برتاؤ کیا ؟
3. "شکرگزاری کی مشق :
ہر روز ایک خوبی اس کی لکھیں یا بولیں ۔
✦ کیس اسٹڈی :(13)
❖ کیس: "خاموش دیواریں"
نام: رضوان اور حنا( نام بدل کر)
مسئلہ: شادی کے 8 سال بعد دونوں میں بات چیت کم ہو گئی ۔ حنا احساس کرتی ہے کہ رضوان اس سے بات نہیں کرتا ، اس کی بات کو سنتا نہیں ، صرف بچوں یا گھر کی ضرورت پر ہی بولتا ہے ۔
*تجزیہ: Analysis* 
 رضوان بچپن میں ایک جذباتی طور پر سرد ماحول میں پلا ۔ شادی کے بعد شروع میں بہتر تھا ، لیکن جب بچوں کی ذمہ داریاں اور مالی دباؤ بڑھا تو وہ اندرونی طور پر کٹتا چلا گیا ۔
*علاج: Therapy* 
* کاؤنسلنگ سیشن
* مشترکہ وقت
*جذباتی مشقیں
* اسلامی تعلیمات کا مطالعہ
* نتیجہ : تین ماہ کی تھراپی کے بعد جذباتی تعلق بحال ہونا شروع ہوا ۔
✦ علاج و مشاورت (Counseling & Healing Steps) :
1. کمیونیکیشن تھراپی
2. کپل تھراپی spouse 
3. اسلامی روحانی مشقیں
4. Mindfulness and Emotional Intelligence Training
5. معاف کرنے کی طاقت پیدا کرنا ۔
6. ✦ نتیجہ:
جذباتی انقطاع کو نظرانداز کرنا تعلق کے زوال کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اگر بروقت توجہ دی جائے ، تو محبت کی وہی روشنی دوبارہ جگائی جا سکتی ہے ۔ ازدواجی رشتے دل کے رشتے ہوتے ہیں . جب دل بند ہو جائے تو رشتہ باقی نہیں رہتا ۔ زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ وہ ہوتا ہے ، جب شوہر اور بیوی بنا کچھ کہے ایک دوسرے کی کیفیت سمجھ جاتے ہیں ۔
*"جذباتی ہم آہنگی کا مطلب ، میں تمہیں سمجھتا ہوں کہنا نہیں ۔ بلکہ واقعی سمجھئا اور محسوس کرنا ہے ۔"*

نہ ہم سفر سے نہ ہم نشیں سے نکلے گا 

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہم ہی سے نکلے گا

دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ ۔ بیٹی کی اہمیت سمجھے😭

دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ😭
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہو کر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔ آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حیسن نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کر دے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچا لے۔ رات کو آپ نے دعا فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ 
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛ اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لے کر آئے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر توحید و رسالت کے بارے میں حضرت دحیہ قلبی کو بتایا۔ حضرت دحیہ نے کہا؛ اللہ کے نبی میں مسلمان تو ہو جاؤں لیکن ایک بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے ایک گناہ میں نے ایسا کیا ہے کہ آپ کا اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا؛ اے دحیہ بتا تونے کیسا گناہ کیا ہے؟ تو حضرت دحیہ قلبی نے کہا؛ یا رسول اللہ میں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔ اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کیا جاتا ہے۔ میں کیونکہ قبیلے کا سردار ہوں اس لیے میں نے ستر گھروں کی بیٹیوں کو زندہ دفن کیا ہے۔ آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوئے؛ 
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اسے کہیں اب تک جو ہو گیا وہ ہو گیا اس کے بعد ایسا گناہ کبھی نہ کرنا۔ ہم نے معاف کر دیا ۔
حضرت دحیہ آپ کی زبان سے یہ بات سن کر رونے لگے۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ اب کیا ہوا ہے؟ کیوں روتے ہو ؟ حضرت دحیہ قلبی کہنے لگے؛ یا رسول اللہ، میرا ایک گناہ اور بھی ہے جسے آپ کا رب کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ کیسا گناہ ؟ بتاؤ ؟ 
حضرت دحیہ قلب فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ، میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے کسی کام کی غرض سے دوسرے ملک جانا تھا۔ میں نے جاتے ہوئے بیوی کو کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اگر بیٹی ہوئی تو اسے زندہ دفن کر دینا۔ دحیہ روتے جا رہے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ میں واپس بہت عرصہ بعد گھر آیا تو میں نے دروازے پر دستک دی۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون؟ میں نے کہا: تم کون ہو؟ تو وہ بچی بولی؛ میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں۔ آپ کون ہیں؟ دحیہ فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، میرے منہ سے نکل گیا: اگر تم بیٹی ہو اس گھر کے مالک کی تو میں مالک ہوں اس گھر کا۔ یا رسول اللہ! میرے منہ سے یہ بات نکلنے کی دیر تھی کہ چھوٹی سی اس بچی نے میری ٹانگوں سے مجھے پکڑ لیا اور بولنے لگی؛ بابا بابا بابا بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ بابا میں کس دن سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ حضرت دحیہ قلبی روتے جا رہے ہیں اور فرماتے ہیں؛ اے اللہ کے نبی! میں نے بیٹی کو دھکا دیا اور جا کر بیوی سے پوچھا؛ یہ بچی کون ہے؟ بیوی رونے لگ گئی اور کہنے لگی؛ دحیہ! یہ تمہاری بیٹی ہے۔ یا رسول اللہ! مجھے ذرا ترس نہ آیا۔ میں نے سوچا میں قبیلے کا سردار ہوں۔ اگر اپنی بیٹی کو دفن نہ کیا تو لوگ کہیں گے ہماری بیٹیوں کو دفن کرتا رہا اور اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ حضرت دحیہ کی آنکھوں سے اشک زارو قطار نکلنے لگے۔ یا رسول اللہ وہ بچی بہت خوبصورت، بہت حیسن تھی۔ میرا دل کر رہا تھا اسے سینے سے لگا لوں۔ پھر سوچتا تھا کہیں لوگ بعد میں یہ باتیں نہ کہیں کہ اپنی بیٹی کی باری آئی تو اسے زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟ میں گھر سے بیٹی کو تیار کروا کر نکلا تو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ لیے۔ دحیہ نہ مارنا اسے۔ دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ 
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ میں نے بیوی کو پیچھے دھکا دیا اور بچی کو لے کر چل پڑا۔ رستے میں میری بیٹی نے کہا؛ بابا مجھے نانی کے گھر لے کر جا رہے ہو؟ بابا کیا مجھے کھلونے لے کر دینے جا رہے ہو؟ بابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دحیہ قلبی روتے جاتے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ یا رسول اللہ ! میں بچی کے سوالوں کاجواب ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ پوچھتی جا رہی ہے بابا کدھر چلے گئے تھے؟ کبھی میرا منہ چومتی ہے، کبھی بازو گردن کے گرد دے لیتی ہے۔ لیکن میں کچھ نہیں بولتا۔ ایک مقام پر جا کر میں نے اسے بٹھا دیا اور خود اس کی قبر کھودنے لگ گیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دحیہ کی زبان سے واقعہ سنتے جارہے ہیں اور روتے جا رہے ہیں۔ میری بیٹی نے جب دیکھا کہ میرا باپ دھوپ میں سخت کام کر رہا ہے، تو اٹھ کر میرےپاس آئی۔ اپنے گلے میں جو چھوٹا سا دوپٹہ تھا وہ اتار کر میرے چہرے سے ریت صاف کرتے ہوئے کہتی ہے؛ بابا دھوپ میں کیوں کام کر رہے ہیں؟ چھاؤں میں آ جائیں۔ بابا یہ کیوں کھود رہے ہیں اس جگہ؟ بابا گرمی ہے چھاؤں میں آ جائیں۔ اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جا رہی ہے۔ لیکن مجھے ترس نہ آیا۔ آخر جب قبر کھود لی تو میری بیٹی پاس آئی۔ میں نے دھکا دے دیا۔ وہ قبر میں گر گئی اور میں ریت ڈالنے لگ گیا۔ بچی ریت میں سے روتی ہوئی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرے سامنے جوڑ کر کہنے لگی؛ بابا میں نہیں لیتی کھلونے۔ بابا میں نہیں جاتی نانی کے گھر۔ بابا میری شکل پسند نہیں آئی تو میں کبھی نہیں آتی آپ کے سامنے۔ بابا مجھے ایسے نہ ماریں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ریت ڈالتا گیا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بھی ترس نہیں آیا۔ میری بیٹی پر جب مٹی مکمل ہو گئی اور اس کا سر رہ گیا تو میری بیٹی نے میری طرف سے توجہ ختم کی اور بولی؛ اے میرے مالک میں نے سنا ہے تیرا ایک نبی آئے گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا۔ جو بیٹیوں کی عزت بچائے گا۔ اے اللہ وہ نبی بھیج دے بیٹیاں مر رہی ہیں۔ پھر میں نے اسے ریت میں دفنا دیا۔ حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ واقعہ سناتے ہوئے بے انتہا روئے۔ یہ واقعہ جب بتا دیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنا رو رہے ہیں کہ آپؐ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے گیلی ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا؛ دحیہ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ۔ اس بیٹی کا واقعہ جو مجھ محمد کے انتظار میں دنیا سے چلی گئی۔ آپؐ نے تین دفعہ یہ واقعہ سنا اور اتنا روئے کہ آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رونے لگ گئے اور کہنے لگے؛ اے دحیہ کیوں رلاتا ہے ہمارے آقا کو؟ ہم سے برداشت نہیں ہو رہا۔ آپؐ نے حضرت دحیہ سے تین بار واقعہ سنا تو حضرت دحیہ کی رو رو کر کوئی حالت نہ رہی۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام حاضر ہوئے اور فرمایا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! دحیہ کو کہہ دیں وہ اُس وقت تھا جب اس نے اللہ اور آپؐ کو نہیں مانا تھا۔ اب مجھ کو اور آپ کو اس نے مان لیا ہے تو دحیہ کا یہ گناہ بھی ہم نے معاف کر دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی کفالت کی، انہیں بڑا کیا، ان کے فرائض ادا کیے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہو گا جس طرح شہادت کی اور ساتھ والی انگلی آپس میں ہیں. 
۔
جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اس کی یہ اہمیت ہے تو جس نے تین یا چار یا پانچ بیٹیوں کی پرورش کی اس کی کیا اہمیت ہو گی؟ 
بیٹیوں کی پیدائش پر گھبرایا نہ کریں انہیں والدین پر بڑا مان ہوتا ہےاور یہ بیٹیاں اللہ کی خاص رحمت ہے۔

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Blog Archive

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم