شکیل ابن حنیف کا مکمل تعارف

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ امابعد:-
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
امید ہے کہ گروپ میں موجود تمام احباب بخیر وعافیت ہونگے 
انشاءاللہ 
آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ کہ آپ حضرات نے ناچیز کو 
معلون کذاب مدعئ مہدویت ومسیحیت شکیل ابن حنیف خان لعنۃ اللہ علیہ ۔
کے تئیں اظہار خیال کا موقع فراہم کیا 
شکیل ابن حنیف مردود
کے متعلق کیا لکھوں اور کیسے لکھوں میرے پاس الفاظ نہیں ہے 
مگر سوء اتفاق میرا تعلق بھی موضع عثمان پور ،پوسٹ رتن پورہ وایا لہیریا سرائے ضلع دربھنگہ بہار سے ہے 
اور یہ میرا دینی وایمانی فریضہ بھی ہے لھذا 
اس سلسلے میں جو میری  معلومات ہے آپ حضرات کے ساتھ شیر کروں گا تاکہ قوم و ملت کے دین و ایمان کا تحفظ ہو سکے اور امت مسلمہ کو اس عظیم فتنے سے بچایا جاسکے
حدیث مبارکہ میں ہے
بلغواعنی ولوایۃ 
پہنچا دو میری جانب سے اگرچہ ایک ہی بات ہو ۔
سن 2005میں میری پہلی ملاقات شکیل ابن حنیف خان سے ہوئ ہمارے آبائ گاؤں عثمان پور المعروف (عثماں رتن پورہ) میں ہوئ
جب وہ بہت لمبے عرصے بعد گاؤں آیا تھا 
درمیانہ قد سانولا رنگ پیشانی پر سجدے کا نشان آنکھوں میں سرمہ چہرے پرلمبی گھنی داڑھی گیروا رنگ کا  لمبا کرتا خوشبو سے معطر چھوٹا پاجامہ ہاتھوں میں تسبیح گویا دیکھنے والوں کو ایک بار دھوکہ جائے کہ کوئ بہت بڑا اللہ والا ہے
جب میں نے دیکھا تو مجھے بھی لگا کہ کو نیک آدمی ہے بہرحال سلام کلام ہوا
تعارف ہوا ایک دوسرے کا تو معلوم ہوا کہ گاؤں ہی آدمی ہے مجھے بےحد مسرت اس وقت ہوئ جب اس نے گاؤں کی مسجد میں  دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا
میں بھی کئ مجلس میں شریک ہوا ہمارے محلے کے اکثر نوجوان اس کے ساتھ ہوگئےہمارے گاؤں میں دو مساجد ہیں دونوں میں اس نے تبلیغ کا کام 
کیا خوب محنت کی یہاں تک کہ عصر بعد گشت ہونے لگی چائے ناشتے اہتمام شکیل کی طرف سے کیا جانے لگا ایک انقلاب برپا کردیا اس نے دونوں محلے میں خاص طور پر نوجوانوں میں دین کے تئیں بہت بیداری پیداکردی میں گاہے بگاہے اس سے ملنے لگا یہ سوچ کر کہ بدعت کے گہوارے میں حق کی شمع کو روشن کررہا تھا یہ بڑی خوش آئند بات تھی 
المختصر 
کہ آہستہ آہستہ  پس پردہ اپنے مشن پر کام کرنے لگا
نتیجتاً نوجوان اس سے کترانے لگے ان نوجوانوں میں میرے منجھلے بھائی جناب ایڈوکیٹ ظفر اقبال (جگنو) بھی تھے 
پہلی بار انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ شکیل خود کو مہدی علیہ السّلام اور عیسیٰ علیہ السّلام کہتا ہے 
جب یہ بات میں نے سنی تو محلے کے ایک نوجوان دوست محمد قتیل کے ساتھ اس خبر کی تصدیق کے لئے براہِ راست شکیل سے ملاقات کے لئے اس کے گھر گیا سلام وکلام کے بعد اس آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے اپنی بات رکھی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ خود حضرت مہدی علیہ الرضوان اور عیسیٰ علیہ السّلام کہتے ہیں ؟کیا یہ سچ ہے ؟
تو اسکے جواب میں اس نے کہا کہ 
((اگر کوئ شخص کسی چیز کا دعویٰ کرے تو اس سے دلیل مانگنی چاہئے اگر دلیل دے دے تو سچا ہے ورنہ چھوٹا ہے))
تو اسطرح کہ گول مول جواب سے میں سمجھ کیا کہ واقعی یہ شخص اسطرح کا دعویٰ کرتاہے 
میرا دوست قتیل جو زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے اس نے سوال کیا کہ اگر آپ مہدی علیہ السّلام ہیں تو کوئ کرامت دکھائیں تو اس کے جواب میں اس نے کہا کہ
((ایسا کسی حدیث میں لکھا ہے کیا کہ حضرت مہدی لوگوں کو کرامت دکھائیں گے))
میں نے اس کے بعد اس سے کوئ بات نہیں کی کیونکہ میں اسکی چالاکی اور عیاری کو سمجھ گیا تھا اس کے بعد میں وہاں سے آگیا
دوبارہ اس سلسلے میں کبھی کوئ بات میری اس سے نہیں ہوئ صرف ایک تھلوارا اسٹیشن سے آتے ہوئے راستے میں ملاقات ہوئی تو اس نے مجھ کہا کہ آپ حیدرآباد دکن میں رہتے ہیں وہاں ہمارے لوگ بہت سے ہیں
میں سمجھا دوست احباب ہوںگے بعد میں معلوم ہوا کہ اسکے متبعین ہیں وہاں ۔یہی میری آخری ملاقات تھی
اور بس 
وقت گذرتا گیا اور یہ ساری باتیں رفتہ رفتہ ذہن نکلتی چلی گئیں 
اور پھر ملک کے مختلف شہروں سے یہ اطلاعات موصول ہونے لگی کہ شکیل ابن حنیف خان لعنۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں پر ہزاروں نوجوان بیعت ہوکر مرتد ہوگئے آج دہلی کے لکشمی نگر علاقے میں تو کل اورنگ آباد میں بھوپال میں تو کبھی ممبئی کے اسی طرح حیدرآباد پٹنہ دربھنگہ، بیگوسرائے ،موتیہاری وغیرہ
میں لاکھوں نوجوان اس کے چنگل میں پھنس کر دائرہ اسلام سے خارج ہورہے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے 
ادھر گاؤں میں بھی چند نوجوانوں کے متعلق کچھ باتیں میرے علم میں آئ ایسی صورتحال میں میں نے علاقائی چند نوجوان علمائے کرام کے ساتھ مشاورت کرکے اور گاؤں اور علاقہ میں چل رہی اس ارتداد کی آندھی کو روکنے کے لئے 
مدرسہ سراج العلوم عثمان پور کی بنیاد 23-جولائ -2015ء
کو انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں رکھی گئ ۔
فللہ الحمد 
اور آج بھی ادارہ مختصر وسائل کے باوجود اپنے مشن پر گامزن ہے 
مطبخ میں پندرہ بچے ہیں جو اپنی علمی تشنگی بجھارہے ہیں
مقامی طلبہ وطالبات 35سے 40کے درمیان ہیں۔
ساتھ ہی ادارہ ردفتنئہ شکیلیت پر  حتی المقدور کام کررہا ہے اس سلسلے میں راقم الحروف نے ازہرہند دارالعلوم دیوبند کےمہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم کو مفصل ایک خط بھیج کر گاؤں کی صورتحال سے واقف کرایا اور حضرت مدعو کیا الحمد للہ حضرت نے بر وقت نوٹس لیا اور جوابی خط ارسال فرمایا 
اور کہا کہ اس سلسلے میں حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپوری زیادہ مناسب رہیں گے لھذا حضرت کی ایما پر مولانا شاہ عالم گورکھپوری صاحب نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور ایک اجلاس عام میں بعنوان تحفظ ختم نبوت ورد فتنئہ شکیلیت جامع خطاب فرمایا اسی جلسہ میں مدرسہ ھذا کے تین بچوں نے حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی اور انکی دستاربندی بھی کی گئ جس کے گواہ جناب انجنیر ذیشان بھائی جن کا تعلق پٹنہ سے ہیں دہلی  میں مقیم ہیں اور رد شکیلیت پر جن کی گرانقدر خدمات ہے اللہ تعالٰی قبول فرمائے جو اس گروپ میں الحمد للہ موجود ہیں ‌۔
گاؤں کے اکثر لوگ ناخواندہ ہیں اور عقائد صحیحہ سے دور یعنی کٹر سنی بریلوی ہیں۔
لھذا میری باتوں کو اگرچہ کتنی صحیح کیوں نہ ہو 
بالکل سننا پسند نہیں کرتے ہیں 
لھذا جلسے میں گاؤں کے بہت کم لوگ شریک ہوئے البتہ علاقہ کے ہزاروں لوگوں نے جلسے میں شرکت کی اور وہاں کتابیں پمفلٹس وغیرہ تقسیم کی گئ جس سے علاقے میں اس سلسلے میں بیداری پیدا ہوئ
اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے 
شکیل ابن حنیف خان کا گھرانہ گاؤں میں ایک شریف اور تعلیم یافتہ گھرانہ تسلیم کیا جاتاہے
اس نے عصری تعلیم شفیع مسلم ہائی اسکول دربھنگہ دسویں تک کی اور سی ایم سائنس کالج دربھنگہ میں آئ ایس سی داخلہ لیا دوران تعلیم تبلیغی جماعتوں میں وقت لگانے لگا اور بالآخر فائنل امتحان میں نہ شریک ہونے کی وجہ سے والد حنیف خان مرحوم نے ناراض ہوکر گھر سے نکال دیا تب سے وہ دہلی میں رہنے لگا شکیل ایک انتہائی ذہین اور چرب زبان شخص ہے انگلش زبان بہت اچھی بولتاہے اور جماعتوں میں وقت لگا لگا کر اردو میں بھی اچھی گفتگو کرنے لگا جو عموماً سماعت میں سکھایا بھی جاتاہے لوگوں کو تشکیل کرنا ذہن سازی کرنا نبض کو پکڑنا یہ سب اس نے تبلیغ سے ہی سیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اس فتنے کے شکار زیادہ تر جماعتوں میں نکلنے والے بھولے بھالے نوجوان زیادہ ہیں
امیر جماعت مرکز نظام الدین میں حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ کے زمانے سے تبلیغ سے وابستہ رہا ہے اور حضرت محبوبِ نظر بھی دین کا مطالعہ بھی اسی زمانے میں اردو کتابوں سے کیا ہے یہ نہ تو عالم ہے نہ حافظ اور نہ ہی عصری تعلیم میں کوئ اعلی ڈگری حاصل کیا سوائے میٹرک کے اور کچھ نہیں بہت شاطر ہے 
بہرحال 6بھائ ہے بڑا بھائی حافظ سہیل خان گاؤں سے لاپتہ ہے ایک لمبے عرصے سے
دوسرا شکیل خان 
ایک ماں سے 
دوسری ماں سے جو کہ شکیل خالہ ہیں سے چار بھائی 
ایڈوکیٹ شاداب خان عرف جمیل خان وکیل عدالت عظمیٰ دہلی۔
نسیم خان 
ارشاد خان 
وسیم خان 
یہ چاروں ایڈوکیٹ ہے تیس ہزاری کورٹ دہلی میں پریکٹس کرتاہے اور خوب مال کمارہاہے
جب کہ حنیف خان کا 2007 میں انتقال ہوا بہت غربت میں زندگی بسر کی مرحوم نے 
انکے تین بھائی ابھی حیات ہیں
نور محمد خاں
عثمان خاں
وغیرہ 
شکیل کے چاروں بھائی اس کو مہدی مسیح مانتے ہیں ایک  بہن کی شادی گاؤں میں ہے اعجاز خان سے جو  آٹو ڈرائیور ہے غالباً یہ بھی شکیل کا مرید ہے ڈاڑھی رکھے ہوا ہے چند سالوں سے اور اسکی اہلیہ یعنی شکیل کی بہن حافظہ ہے
عثمان خاں جو شکیل کے چچا ہیں انکے دو لڑکے ہیں قاری امام حسن ٹیچر امام عیدین ہےگاؤں 
مولانا حافظ امام حسین مصباحی مدرس اور امام ہے
مگر ان لوگوں نے کبھی شکیل یا انکے بھائیوں کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ دونوں مساجد کے ائمہ نے مسجد میں شکیل کے رد میں بیان کیا تو الٹا ان لوگوں کو دھمکی دی ان لوگوں نے کہ آئندہ شکیل کے بارے میں کچھ بھی بیان نہیں کرنا ہے 
شکیل کے والد حنیف خان اس سے بہت ناراض تھے اسی ناراضگی میں انتقال بھی کر گئے ملعون نہ جنازے میں آیا نہ اسکے بعد پرسے میں آیا 2005کے بعد عثمان پور میں کسی نے نہیں دیکھا
سنا ہے اورنگ آباد مہاراشٹر میں مہدی کالونی بنا لیا ہے وہیں رہتاہے اپنے مریدوں کے ساتھ عیسائی مشنریوں کی طرف سے بہت پیسہ مل رہا ہے اس کو ہی شکیلیت کوئ نہیں چیز نہیں ہے بلکہ قادیانیت کا نیا چہرہ ہے سب کچھ اسی انداز سے کررہا ہے مثلاً 
قادیانی بھی کہتا تھا کہ مہدی مسیح موعود ایک ہی شخص ہے اور اسکا بھی یہی کہنا ہے
اور دلیل کیا دیتا ہے 
لا مھدی الا عیسیٰ ابن ماجہ 
کوئ مہدی نہیں سوائے عیسیٰ کے
مگر اسکا ترجمہ اصل یہ ہے کہ
کسی کے ذریعے ہدایت یافتہ نہیں ہوں گے سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اخیر زمانے میں 
اس حدیث میں مھدی کا جو لفظ ہے اس سے مراد حضرت مہدی نہیں کیونکہ مھدی لقب ہے نہ کہ نام حضرت مہدی علیہ الرضوان کا نام محمد ہے انکے والد کا عبداللہ ہے وہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوگی بنو فاطمہ حسنی سید ہوں گے 
تو اس لفظ مہدی کا ترجمہ کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے 
اسی محمد نام کے بارے میں کہتا ہے میرا نام محمد شکیل ہے جبکہ ایسا نہیں ہے میں اسکا میٹرک کا ایڈمٹ کارڈ دیکھا ہے چچا نور محمد خاں کی تحریر دیکھی ہے دونوں صرف شکیل خاں لکھا محمد بالکل نہیں 
اسی طرح باپ کے نام کے بارے میں اسکا کہنا ہے کہ حقیقی باپ مراد نہیں بلکہ مزاجی ہے دلیل اسطرح دیتاہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا باپ کہا ہے اور اسی کو اللہ تعالٰی قرآن کریم میں ابراہیم حنیف کہا ہے قل بل ملت ابراھیم حنیفا
اور میرے والد کا نام بھی حنیف ہے لھذا میں ہی وہ شخص جن کی آمد پیشنگوئی کی حدیث میں کی گئی ہے 
اور مدینہ سے مراد مدینہ منورہ نہیں بلکہ کوئ بھی شہر مدینہ کہتے ہی شہر کو ہیں حدیث میں ہے انا مدینۃ العلم وعلی بابھا
میں علم کا شہر ہوں اور اس کا دروازہ علی ہے
اس لئے مدینہ منورہ اس مراد نہیں لیا جاۓ گا بلکہ دربھنگہ شہر مراد ہے
حضرت عیسی اور حضرت مہدی دو الگ الگ شخصیات نہیں ہے بلکہ ایک ہی شخصیت کے دو الگ الگ نام ہیں اور حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل نہیں ہوں گے بلکہ انزل ینزل کے معنی اترنے کے اس مراد آسمان سے اترنا نہیں بلکہ ٹرین سے اترنا ہے جیسے حضرت جی شکیل ابن حنیف خان ٹرین سے دہلی اسٹیشن پر اترے 
اس طرح کی بے سروپا تاویلات سے کام لیتا ہے اور لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے 
اللہ تعالٰی امت مسلمہ کو اس فتنے سے محفوظ رکھے آمین 

والسلام 

خاکپائے درویشاں 
محمد اظہر القاسمی بانی ومہتمم مدرسہ سراج العلوم عثمان پور رتن پورہ دربھنگہ بہار انڈیا 
26اکتوبر2024
بروز ہفتہ

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم