امام ابن تیمیہ کے زمانے میں تاتاری فوجی شراب پی رہے تھے تو اس پر امام کے شاگردوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ انہیں منکر سے روکتے کیوں نہیں؟ اس موقع پر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ "انہیں ان کے حال میں مست رہنے دو" اگر میں انہیں روکوں گا تو وہ قتل و غارت گری کریں گے -حالانکہ اصول تو یہی ہے کہ منکر سے روکا جائے لیکن اس معاملے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اصول کی بجائے اصل پر استدلال کیا ہے -
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جب کفار نے کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا تو وہ اسی حالت میں رسول اللہ صلعم کے پاس پہنچے اور اپنا ماجرا کہہ سنایا، اس پر رسول اللہ صلعم نے پوچھا، دل کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے، ایمان پر مطمئن ہے - اس وقت رسول اللہ صلعم نےحضرت عمار رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے رخصت عطا کر دی کہ وہ اگر دوبارہ ایسا کریں تو پھر یہی کلمات دہرا دینا -
قرآن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخصوص صورتحال کے پیش نظر حرام و حلال کے سلسلے میں بھی اصول کی بجائے اصل کا اعتبار کر کے رعایت دی ہے -
اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ مخصوص حالات میں اصول کی بجائے اصل کا اعتبار کرتے ہوئے اپنے اندر لچک اور گنجائش کا پہلو رکھتا ہے -
اصول کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ "اصول سے کوئی سمجھوتہ نہیں" بلکہ بعض حالات میں اصول کی عظمت کو تسلیم کرنے کے باوجود عملی دشواریوں کے پیش نظر اصل سے ڈیل کرنا ہی وقت اور حالات کا تقاضا ہوتا ہے -
جماعت اسلامی کے نزدیک حکومت کے سلسلے میں "حاکمیت الہ" کا اصول اپنی جگہ مسلم ہے لیکن موجودہ سیاسی پس منظر میں اس کا اطلاق ابھی چونکہ ممکن نہیں ہے لہذا اصل کے اعتبار سے رائج سیاسی نظام کے تحت وہی لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت ہمارے لئے موزوں اور قابل عمل ہو سکتا ہے -
اقامت دین کے سفر میں میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ، جیسے مراحل بھی آتے ہیں جنہیں عبور کرتے ہوئے آگے بڑھنا پڑتا ہے لہذا موجودہ سیاسی نظام کی بعض خرابیوں سے بچتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اسے مصلحتاً گوارا کرنا بلکہ اسے ممکنہ حد تک اپنے کاذ کے لئے استعمال کرنا ہی عملی رویہ ہے -
ویسے اس معاملے میں دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ علمائے دیوبند اور دیگر مکاتب فکر کے نزدیک موجودہ جمہوری نظام میں ووٹ کی با ضابطہ شرعی حیثیت ہے اور وہ اسےقرآنی دلائل سے ثابت کرکے ایک گواہی، سفارش، وکالت، اور امانت کے طور پر پیش بھی کرتے ہیں نیز اس کے صحیح استعمال کو جائز اور نیکی قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے غلط استعمال کو ناجائز اور بازپرس کا سبب مانتے ہیں -
اس وقت جو لوگ بھی انتخابات لڑ رہے ہیں ان کے بارے میں یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ وہ اہل امانت ہیں لیکن اگر ہم لوگ اس محاذ پر ڈٹے رہیں تو قوی امید ہے کہ اقدار پر مبنی سیاست کے لئے ڈسکورس کھڑا کر سکیں -
موجودہ انتخابات میں ہمارا اصل ہدف فسطائی طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنا ہے - اور ظالم کو *بلیٹ* سے روکیں یا *بیلیٹ* سے بہرحال یہ نیکی ہے -