اپنی نسلوں کو یاد کروائیے، ان شاء اللہ ضرورت کے وقت کام آئیں گے

بابری مسجد کی مختصر تاریخ


بابری مسجد اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں واقع تھی۔
اس کی تعمیر 1528ء میں مغل فرمانروا ظہیرالدین محمد بابر کے حکم پر اس کے سالار میر باقی نے کروائی۔ صدیوں تک یہ مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔

برطانوی دور (1857ء کے بعد):
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مسجد کے مقام سے متعلق تنازع پیدا ہوا۔ انگریز حکومت نے جھگڑوں سے بچنے کے لیے مسجد کے اندرونی حصے مسلمانوں اور بیرونی صحن ہندوؤں کے لیے مخصوص کر دیا اور باڑ لگا دی۔

1949ء:
مسجد کے اندر رات کے وقت رام کی مورتی رکھ دی گئی، جس کے بعد تنازع شدید ہو گیا۔ حکومت نے مسجد کو مقفل (تالا بند) کر دیا۔

1986ء:
عدالتی حکم پر تالے کھول دیے گئے، جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔

6 دسمبر 1992ء:
ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا، جس کے بعد ملک بھر میں فسادات بھڑک اٹھے۔

عدالتی فیصلہ (2019ء):
سپریم کورٹ آف انڈیا نے متنازع زمین ہندو فریق کے حوالے کرنے اور مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی کسی اور مقام پر 5 ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا۔
.............................................

*مندر کے حق میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھے گئے یہ دس نکات یاد رکھیے اور اپنی نسلوں کو یاد کروائیے، ان شاء اللہ ضرورت کے وقت کام آئیں گے۔*

(1) میر باقی نے 1528 میں مسجد بنوائی، فیصلہ میں مانا گیا۔

 (2) 1857 سے 1949 تک قبضہ اور استعمال رہا، پھر زمین دوسرے گروہ کی کیسے؟

(3) بابری مسجد میں آخری نماز 16 دسمبر 1949 کو پڑھی گئی، فیصلہ میں مانا گیا۔

 (4) 22-23 دسمبر 1949 کو مورتیاں رکھنا غیرقانونی تھا، یہ فیصلہ میں کہا گیا۔

(5) گنبد کے نیچے کی زمین رام کی جائے پیدائش ہے، یہ ثابت نہیں ہوا۔

 (6) زمین پر دعویٰ میعاد کے اندر ہے، جس پر اب فیصلہ نظرِ ثانی کے لائق۔ 

(7) 6 دسمبر 1992 کو مسجد گرایا جانا غیر قانونی تھا، فیصلہ میں مانا گیا۔

(8) ہندو سینکڑوں سال سے پوجا کرتے رہے ہیں، اس بنیاد پر پوری زمین کیسے؟

 (9) یہ کیوں زیرِ غور نہیں ہوا کہ مسجد کی زمین کا تبادلہ یا منتقلی نہیں ہوسکتی؟

 (10) فیصلہ میں مانا گیا کہ مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔

اسی لیے کہا جاتا ہے:
“جو قوم اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے،
تاریخ اسے مٹا دیتی ہے۔”

بچہ میں کم اعتمادی

سوال) میرا بیٹا ماشاءاللہ 8 سال کا ہے۔ جسمانی طور پر تھوڑا صحت مند ہے، اسی وجہ سے بعض بچے اسے 'موٹا' کہہ دیتے ہیں، جس سے وہ دِل پر لے لیتا ہے۔ میں اسے کئی بار سمجھا چکی ہوں کہ میں بھی بچپن میں گول مٹول تھی اور وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جاتا ہے، مگر پھر بھی وہ اس بات سے متاثر ہوتا ہے۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ تھوڑا سا کم سوشَل ہے۔ نئے لوگوں سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر پاتا، معمولی بات پر گھبرا جاتا ہے اور بعض اوقات رونے لگتا ہے۔ جبکہ اس کی 6 سالہ بہن بہت جلد دوستی کر لیتی ہے۔
وہ اپنی ہر بات مجھ سے شیئر کرتا ہے، اور میں بھی پوری کوشش کرتی ہوں کہ اس کی ہر مشکل حل کروں۔ پڑھائی میں بھی بہترین ہے، میں اس پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتی کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ ہر بچہ وقت کے ساتھ سیکھتا ہے۔ موبائل پر کوئی غلط چیز نہیں دیکھتا، زیادہ تر ذہنی کھیل (mind games) کھیلتا ہے۔ گھر کے کاموں میں بھی میری مدد کرتا ہے۔
لیکن اس کی سب سے بڑی مشکل اس کا کم اعتماد (lack of confidence) ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہی کہ اسے کیسے سنبھالوں اور اس کا اعتماد کیسے بڑھاؤں۔ براہِ کرم کچھ مؤثر مشورے دیں؟؟؟

جواب......

آپ نے بہت خوبصورتی سے اپنے بیٹے کی پوری صورتحال بیان کی، اور یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ آپ اس کے جذبات، خود اعتمادی اور رویّے کے بارے میں اتنی سنجیدہ اور حساس ہیں۔
آپ کی باتوں سے یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ آپ ایک بہت سمجھدار، نرم دل اور بہترین ماں ہیں۔
آپ نے بہت خوبصورتی سے اپنے بیٹے کی پوری صورتحال بیان کی، اور یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ آپ اس کے جذبات، خود اعتمادی اور رویّے کے بارے میں اتنی سنجیدہ اور حساس ہیں۔
جو چیزیں آپ نے بتائیں، وہ آج کل بہت سے بچوں میں دیکھی جاتی ہیں، اور مناسب رہنمائی کے ساتھ بچے بہت اچھا فرق دکھاتے ہیں۔

⭐ آپ کے بیٹے کی جو باتیں بہت مثبت ہیں

پڑھائی میں بہترین, غور سے دیکھنے اور سمجھنے والا (keen observer)، گھر کے کاموں میں مدد کرتا ہے، موبائل کا غلط استعمال نہیں کرتا، حساس اور نرم دل، ماں سے ہر بات شیئر کرتا ہے۔ یہ سب بہت مضبوط خصوصیات ہیں… ایسے بچے آگے جا کر بہت پُرخلوص، ذہین اور متوازن نوجوان بنتے ہیں۔

⭐ جو چیز آپ کو پریشان کر رہی ہے (Self-confidence + Social Anxiety)

آپ کے بیٹے میں درج ذیل چیزیں نظر آتی ہیں:
نئے لوگوں سے نظریں نہیں ملانا، ہلکی بات پر گھبرا کر رونا، دوسرے بچوں کا “موٹا” کہنا اور اس کا دل دکھ جانا، جلدی کسی سے دوستی نہ کرنا، حساس مزاج، یہ رویّے Mild Social Anxiety یا Low Confidence کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو اس عمر میں بہت عام ہے، اچھی بات یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں صحیح ماحول اور والدین کی سپورٹ سے بہت بہتر ہو سکتی ہیں۔

ایک ایک مسئلے کو علیحدہ، مرحلہ وار، علاج کے ساتھ بیان کر رہا ہوں ، تاکہ آپ  سمجھ سکیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا کرنا ہے۔
آپ کے بیٹے میں چار اہم باتیں ہیں:
1) وزن کی وجہ سے دِل دکھ جانا (Body-Shaming Sensitivity)
2) نئے لوگوں کے سامنے گھبراہٹ (Social Anxiety)
3) نظریں نہ ملا پانا (Poor Eye Contact)
4) ذرا سی بات پر رونا یا ڈر جانا (Emotional Sensitivity)

ان چاروں چیزوں کے باوجود بچہ:

✔ ذہین✔ تعاون کرنے والا✔ صاف دِل ✔ ذمہ دار ✔ ماں پر اعتماد کرنے والا ✔ غلط سرگرمیوں سے دور ✔ پڑھائی میں بہترین،
یہ ساری خوبیاں بتاتی ہیں کہ بچہ اصل میں مضبوط ہے، مگر دل نازک ہے۔
ایسے بچے بہت کامیاب ہوتے ہیں، بس ان کے دل کو سہارا چاہیے۔

🌟 اب ہر مسئلے کو الگ الگ حل کرتے ہیں۔
🔶 مسئلہ نمبر 1: دوسرے بچوں کی طرف سے موٹا کہنے پر دِل ٹوٹ جانا۔
یہ سب سے پہلا اور سب سے گہرا زخم ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچے اپنی پہچان جسم سے جوڑ لیتے ہیں۔ کسی لفظ کے غلط استعمال سے ان کا دل چھلنی ہو جاتا ہے۔

اس کا حل تین حصوں میں ہے:

🔹 پہلا حصہ: بچہ گھر میں محفوظ ہو
روزانہ اس سے کہیں:
بیٹا، جسم بدل جاتا ہے… اصل خوبصورتی تمہاری نیت اور تمہارے دل میں ہے۔
تم میرے لیے بہترین ہو، جیسے ہو، ویسے ہی اچھے ہو۔
یہ جملے دل پر مرہم رکھتے ہیں۔

🔹 دوسرا حصہ: گھر میں کوئی جسمانی مذاق نہ ہو۔

اگر گھر پر کوئی رشتہ دار یا بہن بھائی جسمانی لفظ استعمال کرے تو فوراً روک کر کہیں کہ،
ہم کسی کے جسم کا مذاق نہیں اڑاتے۔ اس سے دل ٹوٹ جاتا ہے۔
بچہ یہ دیکھ کر اندر سے مضبوط ہو جاتا ہے کہ میری ماں میرے ساتھ کھڑی ہے۔

🔹 تیسرا حصہ: سکول میں بات کرنا۔

استاد کو آہستہ اور احترام سے بتائیں کہ بچے ایک دوسرے پر  جسمانی نام نہ رکھیں۔ اکثر استاد فوراً سنبھال لیتے ہیں اور دوسرے بچوں کو ادب سکھاتے ہیں۔

🔶 مسئلہ نمبر 2: نئے لوگوں کے سامنے گھبرا جانا (Social Anxiety)

یہ طبعی کمزوری نہیں ، یہ ایک سوشل ڈر ہے جو کئی بچوں میں ہوتا ہے اور پیار، مستقل مزاجی اور مشق سے مکمل ختم ہو جاتا ہے۔

اس کا علاج درج ذیل مراحل میں ہے:

🔹 پہلا مرحلہ: گھبراہٹ کو نام دینا
جب بچہ ڈر جائے تو فوراً اسے سمجھائیں:
بیٹا، یہ ڈر ہے… یہ خطرناک نہیں… چند لمحوں میں ختم ہو جائے گا۔
جذبات کو نام دینے سے بچے کا دماغ فوراً پرسکون ہونے لگتا ہے۔

🔹 دوسرا مرحلہ: سانس کی مشق

گھبراہٹ پر سب سے پہلی دوا:
3 بار لمبا سانس لینا ،3 سیکنڈ روکنا ، پھر آہستہ چھوڑنا

آپ بھی ساتھ کریں تاکہ وہ آپ کو دیکھ کر سیکھے۔

🔹 تیسرا مرحلہ: آہستہ آہستہ لوگوں سے بات کروانا

مثال کا شیڈول:
پہلے ہفتہ میں:
• روزانہ صرف سلام کرنے کی مشق
• گھر میں کسی جاننے والے سے ایک لفظ بولنا۔۔

دوسرا ہفتہ :
• ایک چھوٹا جملہ بولنا
• کسی بچے سے 30 سیکنڈ بات کرنا

تیسرا ہفتہ:
• کسی بچے کے ساتھ بیٹھنا
• کوئی چھوٹا سوال کرنا: آپ کون سی کلاس میں ہو؟

چھوتا ہفتہ:
آہستہ آہستہ وہ خود بولنے لگے گا۔ یہی طریقہ دنیا بھر میں بچوں کی سوشل گھبراہٹ کم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

🔶 مسئلہ نمبر 3: نظریں نہ ملانا۔۔
بچے نظریں اس لیے نہیں ملاتے کیونکہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ لوگ انہیں جانچ رہے ہیں۔
یہ ڈر ختم کرنے کا طریقہ کھیلوں کے ذریعے ہے۔

روزانہ کی 2–3 منٹ کی مشق:
✔ کھانا کھاتے وقت چند سیکنڈ نظریں ملا کر بات کریں
✔ کہانی سنائیں اور کہیں: میری طرف دیکھو، مجھے خوشی ہوتی ہے
✔ چھوٹا سا کھیل:  دیکھتے ہیں کون 5 سیکنڈ زیادہ دیکھتا ہے؟
یہ مشق چند ہفتوں میں واضح تبدیلی لاتی ہے۔

🔶 مسئلہ نمبر 4: ذرا سی بات پر گھبرا کر رونا۔
یہ عام طور پر حساس دماغ والے بچوں میں ہوتا ہے۔
یہ بچے بہتر اخلاق، زیادہ نرمی، اور زیادہ احساس رکھنے والے ہوتے ہیں۔
انہیں دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے:
🔹 پہلا: فوری تسلی دیں۔۔ نرم آواز میں کہیں:
میں ہوں تمہارے ساتھ، یہ احساس گزر جائے گا، تم بہادر ہو
اس سے رونے کے پیچھے کا خوف کم ہو جاتا ہے۔
🔹 دوسرا: جذبات کو سمجھنے کی تربیت۔
بچے کو سکھائیں: یہ ڈر ہے، یہ گھبراہٹ ہے ،یہ غصہ ہے، یہ اداسی ہے،جب بچہ جذبات پہچاننے لگے تو وہ ان سے overwhelmed نہیں ہوتا۔

🌟 اب آتے ہیں… اعتماد بڑھانے کے حتمی طریقے، یہ وہ طریقے ہیں جو 100٪ فائدہ دیتے ہیں:

1) روزانہ 3 جملے ضرور کہیں
تمہاری ہمت مجھے پسند ہے،
تم بہت اچھے ہو، تم اہم ہو
ماں کی زبان سب سے بڑی دوا ہے۔

2) اس کی مہارتیں سامنے لائیں
اگر وہ: • ذہین ہے • مدد کرتا ہے • سمجھدار ہے • اچھی عادتیں رکھتا ہے • نرمی رکھتا ہے
تو ان چیزوں کو بار بار ابھاریں۔

3) کھیل اور سرگرمیاں
یہ بچے کے اندر بیٹھا ہوا ڈر کم کرتی ہیں:
• فٹبال • دوڑ • ٹیبل ٹینس • آرٹ کلاس • تلاوت یا نعت • کسی ٹیم کی سرگرمی
ان سرگرمیوں میں بچہ خود کو "قابل" محسوس کرتا ہے۔

4) اس کے سامنے اپنی غلطیاں بتائیں
بچے کو بتائیں:
امی بھی بچپن میں گھبرا جاتی تھیں۔
میں بھی نئے لوگوں سے ڈرتی تھی۔
یہ سنتے ہی بچہ اندر سے سکون میں آ جاتا ہے۔

5) ہر کامیابی پر نہیں، ہر کوشش پر تعریف کریں

یہ خوبصورت جملے روزانہ لازمی:
✔ "تم نے بہت اچھی کوشش کی"
✔ "تم نے آج ہمت دکھائی"
✔ "مجھے تم پر فخر ہے"

یہ جملے بچے کے دل میں ایک نئی طاقت پیدا کرتے ہیں۔

🌟 آخر میں ایک بہت اہم بات
آپ کا بچہ کسی بیماری کا شکار نہیں… وہ صرف حساس ہے۔حساس بچے بہت بڑے انسان بنتے ہیں 
ان میں احساس، محبت، وفاداری، ذمہ داری… سب کچھ زیادہ ہوتا ہے۔
اور ایسے بچوں کے لیے آپ جیسی سمجھدار ماں سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔

        

مجرب وظیفہ برائے حج و عمرہ:📌 روزانہ 100 مرتبہ درود شریف

وظیفہ برائے حج و عمرہ کی سعادت — مجرب عمل، سچی روایت
تحریر ۔مولانا محمد زبیر احمد درخواستی حسن ابدال 

آج راقم الحروف کو حضرت مولانا حسین احمد طارق صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ حج بیت اللہ کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی حج و عمرہ کی سعادت عطا فرمائے۔
حضرت نے نہ صرف دعا فرمائی بلکہ ایک ایمان افروز واقعہ بھی سنایا:
انہوں نے فرمایا:
> "مولانا غلام احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں المدینہ مسجد میں ایک جلسہ تھا۔ اس میں حضرت مولانا سیف الرحمن درخواستی صاحب مدظلہ العالی (حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے) تشریف لائے اور بیان میں اپنے نانا کا ایک مجرب وظیفہ سنایا:
حضرت عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

> ‘جو شخص روزانہ 💯 مرتبہ درود شریف اور 💯 مرتبہ یہ کلمہ پڑھے:

اللّٰهُ اللّٰهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا

اسے ان شاء اللہ ہر سال حج و عمرہ کی سعادت نصیب ہوگی۔’
حضرت سیف الرحمن درخواستی صاحب نے فرمایا کہ: "میں نے اپنے نانا سے یہ بات انیس (19) سال کی عمر میں سنی، اس وقت سے لے کر اب تک الحمدللہ مسلسل چھتیس (36) سال سے ہر سال حج اور متعدد عمرے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔"
اس بات سے متاثر ہو کر مولانا حسین احمد طارق صاحب نے بھی یہ وظیفہ شروع کیا۔ آپ فرماتے ہیں:
"اللہ کے فضل سے مجھے بھی حج و عمرے کی سعادت حاصل ہوئی، اور جب تیسری بار عمرہ کے لیے حرم نبوی میں گیا تو حضرت مولانا سیف الرحمن درخواستی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت، آپ کے بتائے ہوئے وظیفہ کی برکت سے تیسری بار عمرہ کی سعادت ملی ہے۔"

حضرت نے فوراً دو بچوں کو بلایا: زکریا اور یحییٰ، اور ان سے کہا: "بیٹا! بتاؤ تم کون سا وظیفہ کرتے ہو؟"
ان معصوم بچوں نے جواب دیا:
"ہم روزانہ 💯 مرتبہ درود شریف اور 💯 مرتبہ یہ پڑھتے ہیں:
اللّٰهُ اللّٰهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا"
حضرت نے مسکرا کر فرمایا:
> "دیکھو! یہ بچے بھی اسی وظیفے کی برکت سے آج یہاں (مدینہ منورہ) موجود ہیں۔"
🌹 لہٰذا تمام بہن بھائیوں، خواتین، بچوں اور بزرگوں سے درخواست ہے کہ اس مجرب وظیفے کو معمول بنا لیں۔
📿 مجرب وظیفہ برائے حج و عمرہ:
📌 روزانہ 100 مرتبہ درود شریف
📌 روزانہ 100 مرتبہ:
> اللّٰهُ اللّٰهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
💠 بہتر ہے درود شریف یہ پڑھا جائے:
 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ أَفْضَلَ صَلَاتِكَ
🌟 ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ!
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بار بار حرمین شریفین کی حاضری، مقبول حج، اور عمرے نصیب فرمائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اپنے ان نیک بندوں کی نیک صحبت، اخلاص اور اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا ارحم الراحمین.

سلسلہ شاذلیہ اورنگ آباد کا تعارف



ہزارہا شکر اُس خالقِ کائنات کے جِس نے اِس شر القرون میں اپنے بندوں کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کے لیے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں آپ ہی کی زرّیت طیبہ میں سے اپنے ایک بندہ کو قبول فرمایا اُسے اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اُمت مرحومہ کی خدمت کے جذبہ سے سرشار فرمایا اور خدمت خلق کے اِس مشن کی تکمیل کے لیے اپنے اولیاء کاملین کے فیوض و برکات کا اُس خادم الامت کو امین بنایا اور کروڑہا احسان کہ ہم امتیوں کو اُس عظیم الشان اولیاء کے جانشین کا نام لیوا اور غُلام بنایا جسے آج پوری دُنیا خادم الامت حضرت سید نُور زمان نقشبندی شاذلی کے نام سے جانتی ہے 

رب العالمین نے اپنے فضل اور اسلاف کی علمی و روحانی وراثت سے حضرت والا کو ایسا بنایا کہ آپ کی ہدایات دریا کی مانند ہیں جو اپنی گہرائی میں غوطہ لگانے والے کو بے شمار موتیوں سے نواز دیتی ہیں، آپ کی دعاؤں کا اثر اُس دریا کی مانند ہے جو اپنی نرم لہروں میں دلوں کو سیراب کرتا ہے، آپ کی موجودگی ایک عطر کی طرح ہے جو فضا میں پھیل کر ہر گوشے کو معطر کر دیتی ہے، آپ کا لفظ لفظ ایسا ہے جیسے بہار کی پہلی جو ہر دل میں اُمید کی نئی کرن بکھیر دے 

ربّ کریم نے اپنے لُطف و کرم سے اپنے لاڈلے نبي کی لاڈلی اُمت کو سہارا دینے کے لیے, انہیں پھر سے بیدار کرنے کے لیے, اِس اُمت کو اپنے کام اور مقام پر لانے کے لیے ہمارے شیخ و مرشد حضرت سید نُور زمان نقشبندی مجددی شاذلی پر تمام سلاسل کے وہ علوم منکشف فرمائے جن میں اِس بے دینی کے دور میں اور تعلّق مع اللہ سے کنارہ کشی کے زمانے میں آپ نے اللہ فضل و توفیق سے تصوّف کو علمیت اور عملیت کے اُس آسان ترین اُسلوب میں پیش کیا کہ ہر صاحبِ ذوق اور ہر آنکھ والا اُسے قبول کر کے سلاسل کے فیوض سے اپنا حصہ حاصِل کر رہا ہے 

اللہ پاک نے اپنے خاص لطف و عنایت سے حضرت شاہ جی سید نُور زمان صاحب کے ذریعہ سِلسلہ عالیہ سِلسلہ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کو اب نئے رنگ ڈھنگ نئے اُسلوب اور زاویے عطا فرمائے جو وقت کی اشد ضرورت تھی 
اور سلاسل کا اُن نبوی فیوض و برکات کو وقت اور زمانے کے تقاضے عین مطابق نئے قالب میں پیش کرنا یہ خدائی حکمت کا متقاضی ہے 

وہ سِلسلہ نقشبندیہ جو ابتداء میں طریقہء صدیقیہ تھا پھر طیفوریہ ہوا پھر خواجگانیہ ہوا پھر نقشبندیہ کہلایا اب اللہ رب العالمین نے حضرت سید نُور زمان صاحب کے ذریعہ اسے سلسلہِ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کے نام سے سلاسل کا وہ حسین اور عظیم الشان سنگم بنا دیا جِس سلسلہ میں تمام سلاسل کے کمالات علوم فیوض و برکات کو ضم کر دیا گیا جِس میں وہ نورانی اعمال و اذکار شامل ہیں جو تاریکی میں راہ دکھاتے ہیں اِس میں وہ قوّت ہے جو دلوں کی مٹی کو سونا بنا دیتی ہے اِس میں وہ روحانی تاثیر ہے جِس نے کثرتِ ذکر اللہ کا وہ ساز چھیڑا ہے جو خیر القرون اور ثم الذین یلونہم کی طرف اُمت کی از سر نو عود کی کامیاب ترین اور اظہر من الشمس کوشش ہے جن عظیم الشان اذکار نے مسلسل ان تعبد اللہ کانک تراہ کا سماں باندھ رکھا ہے 
شیخنا و مرشدنا حضرت سید نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی ادام اللہ فيوضہم کی رہنمائی میں جو سکون و معرفت ہے اُس کا کوئی موازنہ نہیں آپ کا فیض نظر دل کی حقیقتوں کو دریافت کرنے کا ذریعہ بنا 

یہ حقیر پُر تقصیر (سیّد تفضل حسینی نقشبندی شاذلی) اور اِس کے اعزاء و اقرباء اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اِس بے لگام کو جو قرار میرے شیخ کی باطنی نگاہ اور علمی رہنمائی نے بخشا اور سچائی اور خدمت کی جس راہ پر ڈالا اور نیابت نبوّت کے بار امانت کو سنبھالنے اور اُس کے تقاضے پر عمل کے لیے آمادہ کیا اُس کا حق ہے کہ اُس محسن اُمت کی عقیدت و محبت کو حرز جاں بنایا جائے 

حضرت والا کے اسی فیضانِ نظر کا ایک اور احسان لا يُحصيٰ ہوا کہ اِس عظیم سلسلہ سِلسلہ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کے ملکی ترجمانی کے لیے اِس حقیر پُر تقصیر كا نام منتخب کیا گیا، گویا حضرت والا اور آپ کے اِس عظیم سلسلہ کی زبان بن کر ہند میں کفر کی دھند کو ذہنوں سے صاف کرنے اور کفر کے تاریک ترین خیموں میں توحید کی شمع جلانے کے لیے مُلکی ذمہ داری سے سرفراز کیا گیا یہ حقیر پُر تقصیر اپنے سارے قصوروں کے اعتراف کے ساتھ حضرت والا کی خدمتِ عالیہ میں درخواست گزار ہے کہ 

 کہاں میں اور کہاں یہ تیری ترجمانی 
مجھے معلوم ہے اپنے سخن کی تنگ دامانی
 
جیسے حضرت والا کے فیضانِ نظر نے اِس پتھر کو تراش کر دیدہ زیب بنایا اب اپنی فیض نظر کی کرشمہ سازی سے اپنے اعتماد اور ہند میں سلسلہ کی ترجمانی کے لائق بھی بنائے گے 

اللہ کی قسم، آپ کی نظرِ کرم سے ہی میری زندگی میں وہ روشنی آئی جس نے دل کی تاریکیوں کو جھاڑ پھینکا اور دنیا و آخرت کی حقیقت مجھے صاف دکھا دیا
آپ کی موجودگی میری روحانی تکمیل کا باعث ہے، اور آپ کی نظرِ کرم ہی وہ قوت ہے جو میرے اندر ہر دن نئی طاقت اور عزم پیدا کرتی ہے۔ اللہ کے حکم سے آپ کی دعا کی برکتوں سے میری زندگی کو سکون اور اطمینان ملا ہے
اللہ کی رضا اور آپ کی عنایت سے میں اس راہِ تصوف پر گامزن ہوں جس پر آپ کی ہدایت ہی میرا رہبر ہے۔ آپ کی دعا اور رہنمائی کے بغیر میری روح کی جستجو بے سمت ہوتی۔ میں اس کرم کے لیے ہمیشہ آپ کا شکر گزار رہوں گا
میرے دل کی گہرائیوں سے میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنی روحانی عنایتوں اور کرم سے مجھے اس دریا کی جانب رہنمائی کی جس میں غرق ہو کر میں نے سچائی اور معرفت کا دروازہ پایا


ربّ کریم کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس عظیم اور مقدس سلسلہِ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کا مُلکی ترجمان بننے کا موقع ملا۔ حق میرے اُن عظیم اساتذہ کرام کا کہ اِس موقعہ پر اُن کا شکریہ ادا کیا جائے جن کی تعلیم و تربیت اور مسلسل اور انتھک کوششوں نے مُجھ کانچ کے ٹکڑے کو ہیرا بنانے میں وہ عظیم کردار ادا کیا جس کا کبھی حق ادا نہیں ہو سکتا یہی تو ہیں وہ جنہوں نے حضرت خادم الامت کے فیضان کو مُجھ تک اور پورے صوبہ مہاراشٹر میں پہنچایا اور اب بفضل اللہ تعالیٰ حضرت والا نے پورے ملک کی ذمہ داری اور ہند میں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ شاذلیہ کی نمائندگی کے لیے امیرِ ہند حضرت مولانا محمد اقبال صاحب نقشبندی شاذلی(نمائندہ و خلیفہ حضرت سیّد نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی عالمی امیرِ سِلسلہ) کو اور نائب امیر ہند حضرت مولانا عبد الکبیر صاحب ثاقبی نقشبندی شاذلی (نمائندہ و خلیفہ حضرت سیّد نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی عالمی امیرِ سِلسلہ) کو اور خازن سلسلہ میرے بڑے بھائی اور خیر خواہ محمد مطہر نقشبندی شاذلی (نمائندہ و خلیفہ حضرت سیّد نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی عالمی امیرِ سِلسلہ) کو منتخب کیا اور سِلسلہ کا بار امانت مُلکی پیمانہ پر اِن کے کندھوں پر ڈالا اور مُجھ حقیر پُر تقصیر کو اِن سب کی اور عالم کے امیر بلکہ کئی عالموں (جِس کو صاحبِ نظر جانتے ہیں) کے امیرِ سِلسلہ حضرت سید نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی حفظہ اللہ و رعاہ کی ہند میں زبان اور ترجمان بننے کا اعزاز بخشا بڑی نا سپاسی ہوگی اگر اُن محسنین کا یہاں ذکر نہ ہو جنہوں نے مُجھے اِس عظیم الشان سلسلہ کا تعارف کرایا میرے مشفق عزیز حافظ ارباز نقشبندی شاذلی اور حافظ ساجد خان نقشبندی شاذلی جنہوں نے حضرت مولانا امجد خان صاحب نقشبندی شاذلی ( نمائندہ و خلیفہ حضرت سیّد نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی ) سے ملایا جن کی اجازت سے چھوٹی فیوض النور کا آغاز ہوا تھا 

اس سلسلہ کی جدوجہد اور مقصد کو دنیا کے سامنے لانے کی یہ ذمہ داری مجھے نئی توانائی دیتی ہے۔ اس سفر میں پوری اُمت مسلمہ خصوصا آپ تمام شاذلیان کی حمایت اور رہنمائی کی ضرورت رہے گی۔

میں اس عظیم سلسلہ کا ترجمان بن کر اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کی کوشش کروں گا تاکہ اس کے پیغام کو صحیح طریقے سے عوام تک پہنچا سکوں۔

اس منصب پر فائز ہونے کا موقع ملنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ سلسلہ کی آواز بن کر اس کے پیغام کو بہتر طریقے سے عوام تک پہنچاؤں۔

اخیر میں پھر دست بستہ حضرت والا کی خدمتِ اقدس میں اور حضرت جانشین سِلسلہ حضرت سید ابراھیم صاحب ہاشمی نقشبندی شاذلی اطال اللہ بقاءہ کی خدمتِ اقدس میں عرض ہے کہ یہ عظیم زمہ داری آپ کی عظیم توجہات کی مرہون منت ہے اور آپ ہی کے فیضانِ نظر سے ادا ہو سکتی ہے مُجھ حقیر پُر تقصیر پر آپ کے فیوض لا تُحصيٰ کے ساتھ ساتھ مزید دعاؤں توجہات اور شرفِ زیارت اور آپ کے لقاء کی اجازت کا خواستگار ہوں 
سلّم علي المولي الحبيب و صِفْ له
شوقي إليه و انني مملوكه

أبداً يُحرِّكني إليه تشوّقي
جسمي به مملوكه منهوكه

لكن نحلتُ لبعده فكانني
 ألفٌ و ليس بممكن تحريكه

و السلام مع الاکرام 

خاکپائے خادم الامت 
بندہ سید تفضل حسینی نقشبندی شاذلی 
نمائندہ و خلیفہ حضرت سید نُور زمان صاحب نقشبندی مجددی شاذلی حفظہ اللہ و رعاہ

بچوں کو پابند کرنے کے لیے انعام

سیدنا زُبید ایامی رحمہ اللہ اپنے محلے کی مسجد میں مؤذن تھے۔ آپ بچوں کو کہا کرتے: “بچو! چلو نماز پڑھو، میں تمہیں اخروٹ دوں گا۔” بچے آ کر نماز پڑھتے، پھر آپ کے اردگرد جمع ہو جاتے۔ اُن سے کہا گیا: “آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟” فرمایا: “اس میں میرا کیا جاتا ہے کہ میں ان کے لئے پانچ درہم کے اخروٹ خریدوں اور وہ نماز کے عادی بن جائیں۔”

(حلیة الأولیاء لأبي نعيم، ٥/ الرقم:٦٢٢٠)

علماء سے چند گزارشات مفتی ابو بکر جابر قاسمی صاحب

خلاصۂ بیان حضرت مفتی ابوبکر جابر صاحب دامت برکاتہم 

بموقع : فکری و تربیتی پروگرام
زیر اہتمام: حلقہ ضیاء المکاتب 

ادارہ وفاق المکاتب تلنگانہ وآندھرا کے حلقہ ضیاء المکاتب ( یاقوت پورہ ، ملک پیٹ ، عنبر پیٹ وغیرہ) کے تحت وقتاً فوقتاً مکاتب کے اساتذہ کے لیے فکری و تربیتی پروگرام ہوتے رہتے ہیں ، جن میں مکاتب کے طریقہ تدریس ، بچوں کی نفسیات ، وغیرہ پر کسی عالم دین کی بات طے کی جاتی ہے ، اس مرتبہ (١٦ اکتوبر٢٥ مطابق ٢٣ربیع الثانی ٤٧ بروز جمعرات ) شہر بلکہ ملک کی مشہور و معروف شخصیت مفتی ابوبکر جابر صاحب دامت برکاتہم کا بیان طے ہوا ، حضرت اپنے نپے تلے الفاظ و مؤثر انداز بیان (جس کی وجہ سے کم وقت میں آپ کے بیان میں بہت ساری مفید باتیں آجاتی ہیں) کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، یہ بیان بھی اسی طرح دریابکوزے کے مصداق تھا ، عاجز نے جستہ جستہ بیان کے مشمولات نوٹ کیے تھے ، افادہ کے لیے یہ بیان عام کیا جارہا ہے 

 حمد و صلاۃ کے بعد ! 

 🌹مثال بنو ۔۔مسئلہ نہ بنو 
بعض اساتذہ مثال ہوتے ہیں اور بعض مسئلہ ہوتے ہیں ۔۔۔انہیں سنبھالنا پڑتا ہے ان کی وجہ سے مکتب یا مدرسہ پر آنچ آتے رہتی ہے اسے حل کرنا پڑتا ہے ایسے نہ بنو ۔۔۔بلکہ ایسے بنو کہ لوگ اور طلبہ خود مثال دیں ۔۔۔آگے چل کر وہ آپ کی طرح بننے کی فکر کریں

🌹جو طلبہ آپ کے پاس پڑھ رہے ہیں وہ معصوم و بے گناہ ہیں ، شرم کیوں نہیں آتی استاذ کو خود گنہگار ہے اور بےگناہ طلبہ کو مارتا ہے 

🌹مکتب کے طلبہ کو ڈاڑھی ٹوپی والے حلیہ سے متوحش نہ کرو 


🌹کمزور طلبہ کا نام لے کر تنہائی میں دعا کرو ۔۔۔اس میں بڑی طاقت ہے 
🌹بچوں کو سزا دیتے وقت ایسی کیفیت ہونے چاہیے جیسے ماں کی اولاد کو سزا دیتے وقت ہوتی ہے 
ماں کی سزا کیسی ہوتی ہے ؟۔۔۔وہ بچوں کو سزا دیتی ہے لیکن تنہائی میں روتی ہے 
ایسے ہی استاذ کو مشفق ہونا چاہیے 


🌹سخت سے سخت بات میٹھے میں لہجے کہی جاسکتی ہے ۔۔۔
کوئ شہد بیچنے والا بدزبان تھا تو اس کا شہد نہیں بکا، اور ایک سرکہ بیچنے والا شیریں زبان تھا ۔اس کا سرکہ بک گیا، اس لیے طلبہ سے نرم لہجے میں بات کریں ۔


🌹ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے مجھ سے پڑھا فلاں نے مجھ سے پڑھا ۔۔۔۔لیکن ہم سے متنفر ہوکر کس نے دین و تعلیم کو چھوڑا یہ میدان محشر میں معلوم ہوگا، اس لیے خدارا کسی بچے کی تعلیم چھوٹنے یا یہ لائن چھوٹنے کاسبب نہ بنو ۔

🌹جو استاد اپنی محنت کو تن خواہ میں تول رہا ہے اس نے اپنی محنت کو ذلیل کردیا،
کیسے خیال آیا کہ یہ دنیا میری اس محنت کا بدلہ دے گی ۔۔ یہ دنیا والے ایک مرتبہ کہے گئے سبحان اللہ کا بدلہ نہیں دے سکتے ، کیوں کہ اس کا بدلہ پوری دنیاو مافیہا سے زیادہ ہے ، اس لیے اہل دنیا سے اپنی محنت کے بدلہ کی امید نہ لگائیں ، بلکہ اس خدمت کا بدلہ آخرت کے لیے چھوڑ رکھیں 


🌹ملازم بن کر چلنے والا انقلابی نہیں بن سکتا ۔۔۔اس لیے اللہ سے معاملات کرکے کام کیجیے 

🌹تحفیظ سے زیادہ تفہیم کی ضرورت ہے 
میمورائز سے زیادہ موٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔کلمہ رٹائیں ۔۔۔مگر اس کو سمجھائیں بھی 
ایمان مفصل سمجھائیں 
چہل حدیث سمجھائیں 

🌹 محیی السنہ کی لکھی ہوئی کتاب چار امام کو مطالعہ میں رکھیں ۔۔۔اس سے ائمہ عظام کی وقعت دل میں بیٹھے گی اور طلبہ کو بھی بتا سکیں گے ، 

🌹یہ پڑھنے پڑھانے کا دینی ماحول جو ملاہے وہ بڑی نعمت ہے 
کیوں کہ اس ماحول نے اختیاری نہ سہی اضطراری طور پر کتنے سارے گناہوں سے بچارکھا ہے ۔۔۔؟؟ 
اس لیے بنے ہوئے ماحول کی قدر کریں ۔
مدرسہ نہ ہو تو کون فقہ وفتاویٰ کاکام کرے گا۔
جمعہ نہ ہوتو کتاب کون پڑھ تا ہے ؟
فجر کی امامت نہ ہو تو کتنے علماء وحفاظ کی فجر باجماعت ہوتی ہے ؟
اس لیے ماحول کی قدر کرلو ۔۔۔

🌹 ایک جگہ ہم لوگ نیم پاگلوں کے اسکول گئے ایک جگہ نابیناؤں کے اسکول کا دورہ کرنے کی توفیق ہوئ وہاں جانے پر بچے ڈر گئے ٹیچرز سے لپٹ گئے ، وہاں کے اساتذہ نے کہا کہ ہم ان کے کپڑے صاف کرتے ہیں ، ان کی ہر بات سنتے ہیں ، اور ان کے ماحول میں ڈھل کر انہیں پڑھاتے ہیں ، ایسے بے شمار 
 اسکول ہیں ، 
پڑھانے والے انہیں پڑھارہے ہیں ہمارے شاگرد تو ان سے گئے گزرے تو نہیں ہیں ، 
لوگ معذوروں کو ۔۔ اجڈ لوگوں کو دیہاتیوں کو اندھوں کو پڑھا سکتے ہیں
میں اچھے بچوں کو کیوں نہیں پڑھاسکتا؟
اس لیے ہر بچہ آپ کے پاس آنے والا قیمتی ہے اسے پڑھانے کی پوری کوشش کریں 


🌹آج اساتذہ کو تن خواہ کی کمی کا غم ہے ،اپنے صفات کی کمی کا غم نہیں ، 
ضرورتوں کا غم زیادہ ہے ، اس سے زیادہ ذمہ داریوں کا غم ہونا چاہیے

🌹فضولیات سے بچ جائیں گے تو ضروریات پوری کرنے کے اسباب و ذرائع مل جائیں گے۔


🌹 آج تنظیموں کے اختلاف اور بے کار کے جھگڑوں میں ہم پڑے ہوئے ہیں ، اس کی وجہ سے جو عالم چالیس سال ، تیس سال سے دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے اس کی برائیاں بیان کرنے انہیں پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ، 
یاد رکھو ! اس آدمی کی بدبختی آگئی ۔جو اپنے بڑوں کے عیوب کے پیچھے لگ گیا ۔۔۔
اس لیے بڑوں کے عیوب یا ان کی برائیوں کے پیچھے مت پڑو، 

🌹 تن خواہ کی کمی کی وجہ سے بعض علماء وحفاظ اس لائن کو چھوڑ دیتے ہیں ، سن لیجیے ! دینی ماحول وخدمات سے نکلنا آسان ہے ، لگنا مشکل ہے ، اس لیے اس لائن کو مت چھوڑیں 

🌹یہ تصور رہے کہ اگر مجھے مسجد سے نکالا گیا تو وہ صدر نے یا کمیٹی نے نہیں نکالا میری تنہائیوں نے نکالا ۔میری بداعمالیوں نے نکالا، 


🌹اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا اس آیت کے مطابق کیا ہم دنیا ہی میں اپنے نیکیوں وخدمات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ؟
صحابہ و اکابر نے دنیا کی خدمات کے معاوضے دنیا ہی میں ادا کردئے کہ کہیں یہ دنیا ہی میں بدلہ نہ دے دیا گیا ہو،
حضرت ابوبکر نے بیت المال کو اپنے وظائف لوٹادئے ، مفتی سعید صاحب پالنپوری رحمت اللہ علیہ نے دارالعلوم کی ساری تن خواہ واپس کردی ،
 اس لیے اپنے دنیاوی خدمات کابدلہ آخرت میں اللہ سے لینا ہے ، کیوں کہ 
اللہ کا قانون ہے کہ جو ان کے لیے،ان کی رضامندی کی خاطر دنیا چھوڑتا ہے ، اسے خوب دیتے ہیں ، یوسف علیہ السلام نے زلیخا کو چھوڑا تو اللہ نے جوانی کے ساتھ واپس کیا ، ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

🌹فرصت میں فساد ہے۔ اس لیے فرصت میں نہ رہیں ، نہ اپنے طلبہ کو فرصت میں رہنے دیں ۔

🌹 اپنے گھر سے محنت کریں ، آپ کے مکتب کا سب سے پہلا شاگرد آپ کی بیوی ہے، اپنے گھر پر پہلے محنت کرو ،
مفتی سعید صاحب رحمہ اللہ کے اسفار و خدمات سے زیادہ ان کی معاشرت(گھریلو زندگی) نے حیرت زدہ کیا ۔۔۔بیوی کو حافظ بنایا ۔۔۔بچوں کو حافظ بنایاگھر ہی میں ، ایک ایک 
بچے کی شادی کرتے سال بھر ساتھ رکھتے پھر سامنے ہی کسی گھر میں منتقل کردیتے اور فرماتے ! ہم مرے نہیں ہیں سامنے رہو اور زندگی گزارنا سیکھو ، کچھ کمی بیشی ہوگی ہم پوری کریں گے، 
اس لیے اپنے گھر سے تعلیم کا آغاز کریں ، 

🌹ہم مال کی کمی کا روناروتے رہتے ہیں، اور اس کی چکر میں بہت اہم اور ضروری چیزیں اپنی زندگی کی چھوڑ بیٹھتے ہیں ، کیا انسان مال کی کمی ہے تو مطالعہ نہیں کرسکتا؟
مال کی کمی ہے تو شیخ سے رابطہ نہیں کرسکتا؟ مال کی مکی ہے تو بیوی کو نہیں پڑھا سکتا؟ کیا مال کی کمی ان چیزوں میں مانع ہوسکتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔۔اس لیے مال کی کمی کا بہانہ بنا کر اپنی ان ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں ، 

🌹بچوں کے ایمان کی فکروں کے سلسلے میں مفتی سلمان بجنوری صاحب نے بڑی بات کہ دی _____ کہ زمانہ ایسا آچکا ہے کہ اسکول سے واپس آنے کے بعد بچوں کو کلمہ پڑھانا پڑے گا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے موت کے وقت اپنے چار بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ بچوں میں اس ملک کے مسلمانوں کا ایمان تمہارے پاس گروی رکھ کر جارہا ہوں ۔۔۔قیامت کے دن پوچھوں گا۔ آج یقیناً یہی حالات آچکے ہیں ، اس لیے مکاتب کے اساتذہ کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے ، 

🌹اس زمانے کے بچے جوانی سے پہلے بوڑھے ہورہے ہیں ، موبائل نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، 
اس لیے بچوں کے اخلاقیات بھی سنواریں ۔۔ان کی تنہائیوں کو پاک کرنے کی کو شش کریں
اللہ توفیق عمل نصیب فرمائے آمین 

ابو احسان ذکی 
خادم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

استاد کی غلطی کا اثر کیسا دور رس ہوتا ہے

انجینئر کی غلطی زمین پر نظر آتی ہے،
ڈاکٹر کی غلطی زمین کے نیچے دفن ہو جاتی ہے،
مگر استاد کی غلطی زمین پر چلتی پھرتی رہتی ہے۔

کیونکہ انجینئر اگر پل غلط بنائے تو چند جانیں جاتی ہیں،
ڈاکٹر اگر علاج میں خطا کرے تو ایک زندگی ختم ہو جاتی ہے،
لیکن استاد اگر تعلیم میں یا تربیت میں غلطی کرے —
تو پوری نسل غلط راستے پر چل پڑتی ہے۔

یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا ہمارا معاشرہ کر رہا ہے۔
یہاں غلطیاں صرف ٹھیکوں، منصوبوں یا پالیسیوں میں نہیں ہوتیں،
یہاں غلطیاں سوچوں، تربیت اور تعلیم میں نسل در نسل منتقل ہو جاتی ہیں۔

📚 جب استاد صرف نوکری سمجھ کر پڑھاتا ہے،
اور علم کو خدمت نہیں بلکہ کاروبار سمجھتا ہے،
تو پھر طلبہ امتحان پاس کرتے ہیں، مگر زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔

💭 ایک وقت تھا جب استاد قوم کا معمار کہلاتا تھا،
آج وہ ایک کمزور نظام کا حصہ بن کر رہ گیا ہے —
جہاں کتابیں رٹی جاتی ہیں مگر کردار نہیں بنتے،
جہاں ڈگری ملتی ہے مگر شعور نہیں۔

اگر ہم واقعی بدلنا چاہتے ہیں
تو صرف نصاب نہیں، نیت بدلنی ہوگی۔
استاد کو دوبارہ وہ مقام دینا ہوگا
جہاں علم امانت بنے، نہ کہ تجارت۔

کیونکہ یاد رکھو —
قوموں کی بنیاد عمارتوں پر نہیں، اساتذہ کے کردار پر ہوتی ہے۔
اور جب استاد غلطی کرتا ہے،
تو پوری قوم اس غلطی کا بوجھ اٹھاتی ہے۔

صراط مستقیم

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم