علماء سے چند گزارشات مفتی ابو بکر جابر قاسمی صاحب

خلاصۂ بیان حضرت مفتی ابوبکر جابر صاحب دامت برکاتہم 

بموقع : فکری و تربیتی پروگرام
زیر اہتمام: حلقہ ضیاء المکاتب 

ادارہ وفاق المکاتب تلنگانہ وآندھرا کے حلقہ ضیاء المکاتب ( یاقوت پورہ ، ملک پیٹ ، عنبر پیٹ وغیرہ) کے تحت وقتاً فوقتاً مکاتب کے اساتذہ کے لیے فکری و تربیتی پروگرام ہوتے رہتے ہیں ، جن میں مکاتب کے طریقہ تدریس ، بچوں کی نفسیات ، وغیرہ پر کسی عالم دین کی بات طے کی جاتی ہے ، اس مرتبہ (١٦ اکتوبر٢٥ مطابق ٢٣ربیع الثانی ٤٧ بروز جمعرات ) شہر بلکہ ملک کی مشہور و معروف شخصیت مفتی ابوبکر جابر صاحب دامت برکاتہم کا بیان طے ہوا ، حضرت اپنے نپے تلے الفاظ و مؤثر انداز بیان (جس کی وجہ سے کم وقت میں آپ کے بیان میں بہت ساری مفید باتیں آجاتی ہیں) کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، یہ بیان بھی اسی طرح دریابکوزے کے مصداق تھا ، عاجز نے جستہ جستہ بیان کے مشمولات نوٹ کیے تھے ، افادہ کے لیے یہ بیان عام کیا جارہا ہے 

 حمد و صلاۃ کے بعد ! 

 🌹مثال بنو ۔۔مسئلہ نہ بنو 
بعض اساتذہ مثال ہوتے ہیں اور بعض مسئلہ ہوتے ہیں ۔۔۔انہیں سنبھالنا پڑتا ہے ان کی وجہ سے مکتب یا مدرسہ پر آنچ آتے رہتی ہے اسے حل کرنا پڑتا ہے ایسے نہ بنو ۔۔۔بلکہ ایسے بنو کہ لوگ اور طلبہ خود مثال دیں ۔۔۔آگے چل کر وہ آپ کی طرح بننے کی فکر کریں

🌹جو طلبہ آپ کے پاس پڑھ رہے ہیں وہ معصوم و بے گناہ ہیں ، شرم کیوں نہیں آتی استاذ کو خود گنہگار ہے اور بےگناہ طلبہ کو مارتا ہے 

🌹مکتب کے طلبہ کو ڈاڑھی ٹوپی والے حلیہ سے متوحش نہ کرو 


🌹کمزور طلبہ کا نام لے کر تنہائی میں دعا کرو ۔۔۔اس میں بڑی طاقت ہے 
🌹بچوں کو سزا دیتے وقت ایسی کیفیت ہونے چاہیے جیسے ماں کی اولاد کو سزا دیتے وقت ہوتی ہے 
ماں کی سزا کیسی ہوتی ہے ؟۔۔۔وہ بچوں کو سزا دیتی ہے لیکن تنہائی میں روتی ہے 
ایسے ہی استاذ کو مشفق ہونا چاہیے 


🌹سخت سے سخت بات میٹھے میں لہجے کہی جاسکتی ہے ۔۔۔
کوئ شہد بیچنے والا بدزبان تھا تو اس کا شہد نہیں بکا، اور ایک سرکہ بیچنے والا شیریں زبان تھا ۔اس کا سرکہ بک گیا، اس لیے طلبہ سے نرم لہجے میں بات کریں ۔


🌹ہم کہتے ہیں کہ فلاں نے مجھ سے پڑھا فلاں نے مجھ سے پڑھا ۔۔۔۔لیکن ہم سے متنفر ہوکر کس نے دین و تعلیم کو چھوڑا یہ میدان محشر میں معلوم ہوگا، اس لیے خدارا کسی بچے کی تعلیم چھوٹنے یا یہ لائن چھوٹنے کاسبب نہ بنو ۔

🌹جو استاد اپنی محنت کو تن خواہ میں تول رہا ہے اس نے اپنی محنت کو ذلیل کردیا،
کیسے خیال آیا کہ یہ دنیا میری اس محنت کا بدلہ دے گی ۔۔ یہ دنیا والے ایک مرتبہ کہے گئے سبحان اللہ کا بدلہ نہیں دے سکتے ، کیوں کہ اس کا بدلہ پوری دنیاو مافیہا سے زیادہ ہے ، اس لیے اہل دنیا سے اپنی محنت کے بدلہ کی امید نہ لگائیں ، بلکہ اس خدمت کا بدلہ آخرت کے لیے چھوڑ رکھیں 


🌹ملازم بن کر چلنے والا انقلابی نہیں بن سکتا ۔۔۔اس لیے اللہ سے معاملات کرکے کام کیجیے 

🌹تحفیظ سے زیادہ تفہیم کی ضرورت ہے 
میمورائز سے زیادہ موٹیویٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔کلمہ رٹائیں ۔۔۔مگر اس کو سمجھائیں بھی 
ایمان مفصل سمجھائیں 
چہل حدیث سمجھائیں 

🌹 محیی السنہ کی لکھی ہوئی کتاب چار امام کو مطالعہ میں رکھیں ۔۔۔اس سے ائمہ عظام کی وقعت دل میں بیٹھے گی اور طلبہ کو بھی بتا سکیں گے ، 

🌹یہ پڑھنے پڑھانے کا دینی ماحول جو ملاہے وہ بڑی نعمت ہے 
کیوں کہ اس ماحول نے اختیاری نہ سہی اضطراری طور پر کتنے سارے گناہوں سے بچارکھا ہے ۔۔۔؟؟ 
اس لیے بنے ہوئے ماحول کی قدر کریں ۔
مدرسہ نہ ہو تو کون فقہ وفتاویٰ کاکام کرے گا۔
جمعہ نہ ہوتو کتاب کون پڑھ تا ہے ؟
فجر کی امامت نہ ہو تو کتنے علماء وحفاظ کی فجر باجماعت ہوتی ہے ؟
اس لیے ماحول کی قدر کرلو ۔۔۔

🌹 ایک جگہ ہم لوگ نیم پاگلوں کے اسکول گئے ایک جگہ نابیناؤں کے اسکول کا دورہ کرنے کی توفیق ہوئ وہاں جانے پر بچے ڈر گئے ٹیچرز سے لپٹ گئے ، وہاں کے اساتذہ نے کہا کہ ہم ان کے کپڑے صاف کرتے ہیں ، ان کی ہر بات سنتے ہیں ، اور ان کے ماحول میں ڈھل کر انہیں پڑھاتے ہیں ، ایسے بے شمار 
 اسکول ہیں ، 
پڑھانے والے انہیں پڑھارہے ہیں ہمارے شاگرد تو ان سے گئے گزرے تو نہیں ہیں ، 
لوگ معذوروں کو ۔۔ اجڈ لوگوں کو دیہاتیوں کو اندھوں کو پڑھا سکتے ہیں
میں اچھے بچوں کو کیوں نہیں پڑھاسکتا؟
اس لیے ہر بچہ آپ کے پاس آنے والا قیمتی ہے اسے پڑھانے کی پوری کوشش کریں 


🌹آج اساتذہ کو تن خواہ کی کمی کا غم ہے ،اپنے صفات کی کمی کا غم نہیں ، 
ضرورتوں کا غم زیادہ ہے ، اس سے زیادہ ذمہ داریوں کا غم ہونا چاہیے

🌹فضولیات سے بچ جائیں گے تو ضروریات پوری کرنے کے اسباب و ذرائع مل جائیں گے۔


🌹 آج تنظیموں کے اختلاف اور بے کار کے جھگڑوں میں ہم پڑے ہوئے ہیں ، اس کی وجہ سے جو عالم چالیس سال ، تیس سال سے دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے اس کی برائیاں بیان کرنے انہیں پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ، 
یاد رکھو ! اس آدمی کی بدبختی آگئی ۔جو اپنے بڑوں کے عیوب کے پیچھے لگ گیا ۔۔۔
اس لیے بڑوں کے عیوب یا ان کی برائیوں کے پیچھے مت پڑو، 

🌹 تن خواہ کی کمی کی وجہ سے بعض علماء وحفاظ اس لائن کو چھوڑ دیتے ہیں ، سن لیجیے ! دینی ماحول وخدمات سے نکلنا آسان ہے ، لگنا مشکل ہے ، اس لیے اس لائن کو مت چھوڑیں 

🌹یہ تصور رہے کہ اگر مجھے مسجد سے نکالا گیا تو وہ صدر نے یا کمیٹی نے نہیں نکالا میری تنہائیوں نے نکالا ۔میری بداعمالیوں نے نکالا، 


🌹اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا اس آیت کے مطابق کیا ہم دنیا ہی میں اپنے نیکیوں وخدمات کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ؟
صحابہ و اکابر نے دنیا کی خدمات کے معاوضے دنیا ہی میں ادا کردئے کہ کہیں یہ دنیا ہی میں بدلہ نہ دے دیا گیا ہو،
حضرت ابوبکر نے بیت المال کو اپنے وظائف لوٹادئے ، مفتی سعید صاحب پالنپوری رحمت اللہ علیہ نے دارالعلوم کی ساری تن خواہ واپس کردی ،
 اس لیے اپنے دنیاوی خدمات کابدلہ آخرت میں اللہ سے لینا ہے ، کیوں کہ 
اللہ کا قانون ہے کہ جو ان کے لیے،ان کی رضامندی کی خاطر دنیا چھوڑتا ہے ، اسے خوب دیتے ہیں ، یوسف علیہ السلام نے زلیخا کو چھوڑا تو اللہ نے جوانی کے ساتھ واپس کیا ، ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

🌹فرصت میں فساد ہے۔ اس لیے فرصت میں نہ رہیں ، نہ اپنے طلبہ کو فرصت میں رہنے دیں ۔

🌹 اپنے گھر سے محنت کریں ، آپ کے مکتب کا سب سے پہلا شاگرد آپ کی بیوی ہے، اپنے گھر پر پہلے محنت کرو ،
مفتی سعید صاحب رحمہ اللہ کے اسفار و خدمات سے زیادہ ان کی معاشرت(گھریلو زندگی) نے حیرت زدہ کیا ۔۔۔بیوی کو حافظ بنایا ۔۔۔بچوں کو حافظ بنایاگھر ہی میں ، ایک ایک 
بچے کی شادی کرتے سال بھر ساتھ رکھتے پھر سامنے ہی کسی گھر میں منتقل کردیتے اور فرماتے ! ہم مرے نہیں ہیں سامنے رہو اور زندگی گزارنا سیکھو ، کچھ کمی بیشی ہوگی ہم پوری کریں گے، 
اس لیے اپنے گھر سے تعلیم کا آغاز کریں ، 

🌹ہم مال کی کمی کا روناروتے رہتے ہیں، اور اس کی چکر میں بہت اہم اور ضروری چیزیں اپنی زندگی کی چھوڑ بیٹھتے ہیں ، کیا انسان مال کی کمی ہے تو مطالعہ نہیں کرسکتا؟
مال کی کمی ہے تو شیخ سے رابطہ نہیں کرسکتا؟ مال کی مکی ہے تو بیوی کو نہیں پڑھا سکتا؟ کیا مال کی کمی ان چیزوں میں مانع ہوسکتی ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔۔اس لیے مال کی کمی کا بہانہ بنا کر اپنی ان ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں ، 

🌹بچوں کے ایمان کی فکروں کے سلسلے میں مفتی سلمان بجنوری صاحب نے بڑی بات کہ دی _____ کہ زمانہ ایسا آچکا ہے کہ اسکول سے واپس آنے کے بعد بچوں کو کلمہ پڑھانا پڑے گا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے موت کے وقت اپنے چار بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ بچوں میں اس ملک کے مسلمانوں کا ایمان تمہارے پاس گروی رکھ کر جارہا ہوں ۔۔۔قیامت کے دن پوچھوں گا۔ آج یقیناً یہی حالات آچکے ہیں ، اس لیے مکاتب کے اساتذہ کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے ، 

🌹اس زمانے کے بچے جوانی سے پہلے بوڑھے ہورہے ہیں ، موبائل نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ، 
اس لیے بچوں کے اخلاقیات بھی سنواریں ۔۔ان کی تنہائیوں کو پاک کرنے کی کو شش کریں
اللہ توفیق عمل نصیب فرمائے آمین 

ابو احسان ذکی 
خادم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

استاد کی غلطی کا اثر کیسا دور رس ہوتا ہے

انجینئر کی غلطی زمین پر نظر آتی ہے،
ڈاکٹر کی غلطی زمین کے نیچے دفن ہو جاتی ہے،
مگر استاد کی غلطی زمین پر چلتی پھرتی رہتی ہے۔

کیونکہ انجینئر اگر پل غلط بنائے تو چند جانیں جاتی ہیں،
ڈاکٹر اگر علاج میں خطا کرے تو ایک زندگی ختم ہو جاتی ہے،
لیکن استاد اگر تعلیم میں یا تربیت میں غلطی کرے —
تو پوری نسل غلط راستے پر چل پڑتی ہے۔

یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس کا سامنا ہمارا معاشرہ کر رہا ہے۔
یہاں غلطیاں صرف ٹھیکوں، منصوبوں یا پالیسیوں میں نہیں ہوتیں،
یہاں غلطیاں سوچوں، تربیت اور تعلیم میں نسل در نسل منتقل ہو جاتی ہیں۔

📚 جب استاد صرف نوکری سمجھ کر پڑھاتا ہے،
اور علم کو خدمت نہیں بلکہ کاروبار سمجھتا ہے،
تو پھر طلبہ امتحان پاس کرتے ہیں، مگر زندگی میں ناکام رہتے ہیں۔

💭 ایک وقت تھا جب استاد قوم کا معمار کہلاتا تھا،
آج وہ ایک کمزور نظام کا حصہ بن کر رہ گیا ہے —
جہاں کتابیں رٹی جاتی ہیں مگر کردار نہیں بنتے،
جہاں ڈگری ملتی ہے مگر شعور نہیں۔

اگر ہم واقعی بدلنا چاہتے ہیں
تو صرف نصاب نہیں، نیت بدلنی ہوگی۔
استاد کو دوبارہ وہ مقام دینا ہوگا
جہاں علم امانت بنے، نہ کہ تجارت۔

کیونکہ یاد رکھو —
قوموں کی بنیاد عمارتوں پر نہیں، اساتذہ کے کردار پر ہوتی ہے۔
اور جب استاد غلطی کرتا ہے،
تو پوری قوم اس غلطی کا بوجھ اٹھاتی ہے۔

بہادر شاہ ظفر کی اخری گھڑیاں

17 اکتوبر 1858 کو بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کو مکنزی نامی سمندری جہاز کے ذریعے رنگون (برما) پہنچا دیا گیا۔
شاہی خاندان کے تقریباً پینتیس افراد اُس جہاز میں سوار تھے۔
رنگون کا انچارج کیپٹن نیلسن ڈیوس تھا، جس نے بندرگاہ پر بادشاہ اور اُن کے ہمراہیوں کا استقبال کیا،
اور پھر دنیا کی تیسری سب سے بڑی سلطنت کے بادشاہ کو اپنے ہی گھر لے گیا۔

بہادر شاہ ظفرؔ اگرچہ قیدی تھے، مگر بہرحال بادشاہ بھی تھے،
یہی وجہ تھی کہ نیلسن کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ بادشاہ کو کسی عام قیدخانے میں رکھا جائے۔
لہٰذا اُس نے اپنا گیراج خالی کروا کر بادشاہ کے قیام کا انتظام وہیں کیا۔

یوں 17 اکتوبر 1858 کو بہادر شاہ ظفرؔ اُس گیراج میں داخل ہوئے،
اور چار سال بعد 7 نومبر 1862 کو وہیں سے اپنے آخری سفر پر روانہ ہوئے۔

اسی گیراج میں اُنہوں نے وہ مشہور غزل کہی جس کے اشعار آج بھی ہر حساس دل کو رُلا دیتے ہیں:

> لگتا نہیں ہے دل مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں



اور یہ دردناک شعر:

> کتنا بدنصیب ہے ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں




---

7 نومبر 1862 کی صبح، بادشاہ کی خادمہ پریشانی کی حالت میں نیلسن کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔
جب برمی خادم وجہ پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے:
“بادشاہ اپنی زندگی کے آخری سانس گن رہے ہیں، اور انہوں نے کھڑکی کھولنے کی فرمائش کی ہے تاکہ ذرا تازہ ہوا لے سکیں۔”

خادم جواب دیتا ہے:
“ابھی صاحب اپنے کتے کو کنگھی کر رہے ہیں، میں اُنہیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا۔”

یہ سن کر خادمہ زور زور سے رونے لگتی ہے۔
آواز سن کر نیلسن باہر آتا ہے، صورتِ حال جانتا ہے اور فوراً گیراج کی طرف دوڑتا ہے۔

وہاں پہنچ کر اُس نے جو منظر دیکھا، اُس نے اُس کے دل کو ہلا دیا۔
کمرے میں بدبو پھیلی ہوئی تھی، موت کی خاموشی طاری تھی۔
بادشاہ کا آدھا کمبل زمین پر اور آدھا بستر پر تھا،
ننگا سر تکیے پر تھا مگر گردن ایک طرف جھکی ہوئی تھی۔
آنکھیں کھڑکی کی سمت تھیں، اور سوکھے ہونٹوں پر ایک مکھی بھنبنا رہی تھی۔

نیلسن نے اپنی زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے،
لیکن اُس نے کبھی اتنی بےچارگی اور بے بسی کسی کے چہرے پر نہ دیکھی تھی۔
وہ چہرہ کسی بادشاہ کا نہیں، بلکہ دنیا کے سب سے بڑے فقیرو درویش کا لگتا تھا۔
اُس چہرے پر ایک ہی خواہش لکھی تھی —
"آزاد سانس کی!"


---

ہندوستان کے آخری تاجدار کی زندگی کا چراغ بجھ چکا تھا۔
کفن دفن کی تیاری ہوئی۔
شہزادہ جوان بخت اور حافظ محمد ابراہیم دہلوی نے بادشاہ کو غسل دیا۔
رنگون میں بادشاہ کے لیے کوئی زمین مخصوص نہ تھی،
لہٰذا سرکاری بنگلے کے پیچھے ایک چھوٹی سی جگہ کھود کر
خیرات میں ملی مٹی کے نیچے بادشاہِ ہند کو دفن کر دیا گیا۔

حافظ ابراہیم دہلوی کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا
جب 30 ستمبر 1837 کو بہادر شاہ ظفرؔ نے 62 برس کی عمر میں تخت نشینی کی تھی۔
تب دہلی کے لال قلعے میں چراغاں تھا، آج رنگون کے گیراج میں اندھیرا۔
تب شان و شوکت تھی، آج تنہائی اور جلاوطنی۔

ابراہیم دہلوی نے سورۂ توبہ کی تلاوت شروع کی۔
نیلسن نے قبر کو آخری سلامی دی۔
اور ایک سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

ڈابھیل میں قافلہٴ انوری کے ورود مسعود کے سلسلے میں ایک تاثراتی تحریر

*بسمﷲالرحمن الرحیم*


 _*کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے*

*ڈابھیل میں قافلہٴ انوری کے ورود مسعود کے سلسلے میں ایک تاثراتی تحریر*

     _*✍🏻تحریر: محمد عمرین محفوظ رحمانی*_ 
*(سجادہ نشیں خانقاہ رحمانیہ مالیگاؤں)*


```﴿گذشتہ کل مورخہ۷؍ ربیع الاول ۱۴۴۷ھ مطابق ۳۱؍ اگست ۲۰۲۵ء جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے صد سالہ اجلاس میں شرکت کا موقع ملا، ویسے تو جامعہ کے قیام پر ۱۲۰؍ سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن یہ صد سالہ اجلاس ”قافلہٴ انوری“ کے ورودِ مسعود کے سو سال مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد کیا گیا تھا،ماشاءﷲاجلاس کامیاب رہا، جامعہ کے فضلاء اور دیگر اہلِ علم وذوق نے بڑی تعداد میں شرکت کی،اور سکون ودلجمعی کے ساتھ پورے اجلاس کو سماعت کیا، ترتیب، حسن انتظام اور سلیقےکےاعتبارسے بھی اجلاس خوب رہا،حضرت مولانا مفتی محمود بارڈولی اور مفتی معاذ صاحب کی نظامت نے اجلاس کا حسن دوبالا کیا،اہلِ گجرات کی مہمان نوازی ویسے بھی مشہور ہے،اجلاس کے موقع پر اس کا خوب خوب مظاہرہ ہوا، البتہ مقالات کی کثرت نے اجلاس کو سیمینار کی شکل دے دی اور کئی مقالات میں مکررات کا ذکر بارِ خاطر ثابت ہوا، کتنا اچھا ہوتا کہ اجلاس کے آخر میں جامعہ کے فضلاء کے لیے ایک مبسوط اعلامیہ پیش کیا جاتا جس میں ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ان کے لیے راہِ عمل متعین کی جاتی اور ایک گائیڈ لائن ان کے سپرد کردی جاتی، دوپہر کی نشست میں حضرات اکابر نے یقینا فضلاءکی رہنمائی فرمائی، مگر اس طرح کے اجلاس کا ایک مضبوط، مربوط اور مبسوط اعلامیے پر اختتام زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا،اس موقع سے جامعہ نے جو رسالے اور کتابیں شائع کیں وہ بھی اہلِ ذوق کے لیے سرمہٴبصیرت ہیں،خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر مخدوم گرامی حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری زید مجدہم کا مقالہ بھی بصیرت افروز ہے، مجھے اس اجلاس میں برادرِ مکرم حضرت مولانا مفتی محمد حسنین محفوظ نعمانی صاحب کی معیت میں حاضری کی سعادت میسر آئی، اسٹیج پر بیٹھے ہوئے کچھ لکھنے کی طرف میلان ہوا، مختصر تحریر کے ارادے سے قلم اٹھایا، پھر ذہن میں مختلف باتیں آتی گئیں اور لکھتا چلا گیا،لکھنا یکسوئی چاہتا ہے، مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ اجلاس کی ہماہمی کے دوران یہ مضمون پورا ہوگیا،عزیزی حافظ عمار رحمانی سلمہ اللہ ساتھ تھے، انہوں نے کج مج تحریرکو ٹائپ کرکے پڑھنے کے قابل بنادیا،اس طرح میں بھی لہو لگاکر شہیدوں میں مل گیا، اللہ کرے کہ یہ تحریر پڑھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔﴾``` 



ظاہری نگاہ کوبندکیجیے، تصور کی آنکھیں کھولیے، دیکھیے کہ دار العلوم دیوبند سے ایک قافلہ قدسی صفات رخت سفر باندھ کر ڈابھیل جیسے چھوٹے سے گاؤں میں پڑاؤ ڈال رہا ہے، ایک ایسا قافلہ قدسی صفات جس میں علم وفضل کی فراوانی اور عشق وعقل کی تابانی تھی، ایک ایسا مبارک کارواں جو صفاتِ مومنانہ اور اوصاف مخلصانہ سے مزین تھا، ایک ایسی جماعت علماء جس میں کردار کی مستی اور فولاد کی سی سختی تھی، وہی مبارک طائفہ جس میں مدبر بھی تھے، مفکر بھی، محدث بھی تھے مفسر بھی، محرر بھی تھے مقرر بھی، مردم شناس بھی مردم گر بھی، وہی قافلہٴ علم وعمل جس میں عزم تھا، عزیمت تھی، اخلاص تھا، شجاعت تھی، فہم تھا، فراست تھی،عدل تھا، عدالت تھی، ایثار تھا، سخاوت تھی، تقوی تھا، طہارت تھی، ورع تھا، خشیت تھی، توکل تھا، انابت تھی، تعلق مع اللہ کا جوہر تھا اور معرفت ربانی کا زیور بھی، خدمت خلق کا جذبہ تھا اور نشر وانتقال علم کا حوصلہ بھی، صیانت وحفاظت دین کا شوق تھا اور اشاعت قرآن کا ذوق بھی، جینے کا سلیقہ بھی، زندگی برتنے کا طریقہ بھی، یہ وہی قافلہ تھاجس میں علم بھی تھا، حلم بھی تھا، عجز بھی تھا، صبر بھی تھا، یہ قافلہ کیا تھا، یوں کہہ لیجیے کہ انوار کا گنجینہ تھا اور علوم ومعارف کا خزینہ! 
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
ذرا غور سے دیکھیے اس قافلے کی سیادت وقیادت کرنے والی شخصیت کون ہے؟ عالم ربانی، فضل وکمال کے امام، معرفت ربانی کے پیکر، نابغہٴ روزگار شخصیت، خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس اللہ سرہ، وہی جن کے وسعت علم، قوت حفظ اور درس وتدریس کی مہارت ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے، جن کے بارے میں شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ فتح الملہم میں لکھا ہے کہ ”لَمْ تَرَ الْعُیُوْنُ مِثْلَہُ، وَلَا رَأَیْ ھُوَ مِثْلَ نَفْسِہِ“، نگاہوں نے ان جیسا بے نظیر انسان نہیں دیکھا اور نہ خود انہوں نے اپنے جیسا کوئی صاحب علم کبھی دیکھا ہوگا، جن کی نیکی، پرہیز گاری اور تقوی شعاری کی گواہی حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں دی کہ ”جو شاہ صاحب کے پیچھے نماز پڑھ لے مجھے اس کی نجات کی توقع ہے“، شاہ صاحب کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ان کے بارے میں یہ بلیغ ارشاد ہے کہ ”اس دور میں مولانا انور شاہ حقانیت اسلام کی دلیل ہیں“، شاعر مشرق علامہ اقبال ان کی وفات پر درد کی تصویر بنے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ”اسلام کی آخر کی پانچ صدیوں میں دنیا میں اتنا بڑا عالم پیدا نہ ہوا“، شاہ صاحب کی فکر مندی اور درد مندی کی عکاسی کرتے ہوئے ان کے شاگرد رشید اور عظیم عالم ربانی حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ نے فرمایا کہ ”میں نے اپنی زندگی میں کسی بزرگ اور عالم کو اتنا درد مند نہیں دیکھا جتنا کہ حضرت امام العصر کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دل میں کوئی زخم ہے جس سے ہر وقت خون ٹپکتا رہتا ہے“، مشہور مفکر وعالم شیخ رشید رضا مصری شاہ صاحب کے تبحر علمی کو دیکھ کر مسحور ہوگئے اور یہ لکھنے پر مجبور ہوئے کہ ”ھُو إِمامُ العصرِ، مُسْنَدُ الوَقتِ، المُحدِّثُ، المُفسِّر، الفَقیہُ الأُصُولِی، المُتکَلِّم النَّظَّار، الصُّوفِي،  البَصیر، المُؤَرِّخ، الأَدِیب، الشاعِر اللُّغَوِي، البَحَّاثَۃ، النَقَّاد، المُحقِّق المَوھوبُ، الشیخ الإمامُ محمد أنوَر شاہ الکشميري“، (زمانے کے امام ، مسند وقت،  محدث، مفسر، فقیہ ِ اصولی، نہایت زیرک متکلم، صوفی، دور اندیش انسان، مورخ، ادیب،قادر الکلام شاعر، مایہ ناز جویائے علم،بہترین نقاد، با توفیق محقق، شیخ امام محمد انور شاہ کشمیری)، اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ ” لَیْسَتْ ھذِہ الألقابُ مِن قَبِیل المَدْحِ والإِطْرَاءِ، وَلا المُبالَغَۃِ والتَّفْخِیمِ،  وإِنَّما ھِيَ منَ الحقائق الَّتي تَحَلَّی بِھا الإِمامُ الکشميريُّ“۔ (یہ سب القاب بے جا تعریف وتوصیف کی قبیل سے ہیں اور نہ مبالغہ اور غیر ضروری طور پر کسی کو اونچا مقام دینے کی کوشش ہے، بلکہ یہ سب وہ واقعی اوصاف وصفات ہیں جن سے امام کشمیر ی رحمۃ اللہ علیہ متصف تھے) بر صغیر کے سب سے بڑے اور عدیم المثال خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے تو یہ کہہ کر باب المناقب کی تائے تمت لکھ دی کہ ”بھائی! حضرت علامہ کشمیری کے بارے میں کیا کہوں، بس یہ سن لو کہ صحابہ کرام کا قافلہ جارہا تھا، انور شاہ تیرہ سو برس پیچھے رہ گئے“، سبحان اللہ! کیسی عظیم المرتبت شخصیت، علم وعمل کا کیسا جامع انسا ن تھا! مشرق مغرب، شمال جنوب کے علمی حلقوں، جامعہ زیتونہ اور جامعہ ازہر سے لے کر بر صغیر کی درسگاہوں تک ، حجاز کے دانش کدوں سے لے کر اقصائے مغرب کے علمی وفکری زاویوں تک نہ ان کی کوئی مثال نظر آتی ہے نہ نظیر! نہ مثیل نہ بدیل! آہ شورش کیسے موقع سے یاد آگئے! 
یہ جہاں فانی ہے کوئی بھی شے لا فانی نہیں
پھر بھی اس دنیا میں انور شاہ کا ثانی نہیں
اس مبارک کارواں کی سرپرستی جس بزرگ روحانی شخصیت نے فرمائی اس کا نام حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی ہے، یہ علم وعمل کے حامل، نورانی بزرگ تھے، تفقہ میں یگانہ اور تصوف میں اویس زمانہ تھے، حضرت سلطان باہوقدس اللہ سرہ کا ارشاد ہے: ”دنیا عمل کا گھر، آخرت جزا کا گھر اور مومن کا دل معرفت ربانی کا گھر ہے“، ایسے ہی مومن کامل تھے مفتی عزیز الرحمن عثمانی، صاحبِ دل، صاحب نسبت، محبت الہی اور معرفت یزدانی کے حامل،اہل نظر کا ان کے بارے میں یہ احساس ہے کہ وہ مادر زاد ولی تھے، ان کی سادگی، ان کی عاجزی، ان کا جذبہٴ خدمت، ہر ایک مثالی تھا، بے نفسی ایسی کہ دور دور تک کوئی دوسری مثال نہیں! ایک پاکیزہ وجود، ایک ملکوتی انسان! جنہوں نے ان کو دیکھا اور برتا ان کا یہ تأثر تھا کہ ”معصومیت کے پیکر، مرنجا مرنج، خاموشی پسند، اوپر کی سطح سمندر کی طرح خاموش، اور اس کی تہہ میں ذہانت، علم، عمل، تقوی وورع، دیانت اور امانت، اخلاص ودلسوزی، ہمدردی وشفقت کے آبدار موتی“، اقبال نے ایسوں کے بارے ہی میں کہا تھا ؎
جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس کی
الہی کیا چھپا رہتا ہے اہل دل کے سینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
دیوبند سے آنے والے” قافلہٴ نور“ میں علم تفسیر وکلام میں امتیازی شان ومقام رکھنے والے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے، ان کی تفسیر عثمانی ان کے فضل وکمال کا منہ بولتا ثبوت اور شاہد عدل ہے، وہ علمی انسان بھی تھے، تحریکی اور میدانی آدمی بھی! محمد علی جناح جیسا زیرک اور مدبر شخص ان کی فراست، تحریکی صلاحیت اور غیر معمولی لیاقت سے متاثر تھا، انہوں نے وصیت بھی کی تھی کہ میری نماز جنازہ مولوی شبیر احمد دیوبندی پڑھائیں، مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم کی زندگی علمیت،  فعالیت اور اقدام وعمل کا حسین نمونہ تھی ؎
ٹھہرا پانی کائی کھائے گھٹ گھٹ کر مرجائے
بہتا پانی پتھر چیرے اپنی راہ بنائے
اس قافلے میں اور بھی علماء وفضلاء تھے، درس وتدریس کے ماہر اور تربیت وتزکیہ میں ممتاز، ان اکابر کی کوششوں اور کاوشوں نے گجرات کو ہم دوش ثریا بنادیا، حضرت مولانا عبدالرحمن امروہوی، حضرت مولانا سراج احمد رشیدی، حضرت مولانا محمد ادریس سکھروڈوی، حضرت مولانا بد ر عالم میرٹھی، حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، حضرت مولانا مفتی عتیق احمد عثمانی، حضرت مولانا یحیی تھانوی، حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی رحمہم اللہ میں سے ہر ایک اپنی جگہ فضل وکمال میں نمایاں مقام کا حامل تھا، ان بزرگوں کے قدوم میمنت لزوم سے” مدرسہ تعلیم الدین“ ” جامعہ تعلیم الدین“ بن گیا، اس قافلے کی برکتوں کو دیکھنا ہو تو فضلائے جامعہ کی خدمات جلیلہ پر ایک نظر ڈالیے، ان کے کارہائے نمایاں کے بارے میں تفصیل معلوم کیجیے، تب پتہ چلے گا کہ کس طرح چراغ سے چراغ روشن ہوئے، اور خدمت دین متین کی بڑی جماعت تیار ہوئی، شاید دور افق کے پیچھے سے گزرے ہوئے ان بزرگوں کی ارواح یوں مخاطب ہیں  ؎
ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اگر اب بھی نہ کھلتے تو قیامت کرتے
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑدیا
ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے
ہم نے غم کو محبت کا تسلسل جانا
ہم کوئی تم تھے کہ دنیا سے شکایت کرتے
”قافلہٴ نور “کی آمد کو سو سال بیت گئے، اس قافلے کے سارے افراد ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے، اجل نے اپنے شکار چن لئے، اور علم وعمل کے آسمانوں کو زمین نے اپنے اندر سمو لیا ؎
 مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تو نے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کیے
آئیے کہ اس قافلے کے چھوڑے ہوئے نقوش کو زندہ وتابندہ کریں، ان کے ماضی کے کارناموں سے اپنی مستقبل کی راہوں کو روشن کریں، اس وقت تاریکیوں کی یلغار ہے، ظلمتوں کی بوچھار ہے، مصائب کی آندھیاں ہیں، مشکلات کے طوفان ہیں، سفینہ ملت ہچکولے کھارہا ہے، ایسے میں اگلوں کا نمونہ ، اسلاف کا کردار، بڑوں اور بزرگوں کا طرز عمل، ہمارے لیے مشعل راہ اور مینارہٴ نور ہے ۔
علامہ انور شاہ کشمیری کی قیادت میں آنے والے قافلے نے صرف تدریس کی مسند کو زینت نہیں بخشی بلکہ ملت کی ہمہ جہت کی خدمت کی طرح ڈالی، آنے والوں کی درد مندی وفکر مندی ، ان کی جہد مسلسل اور کاوشِ پیہم میں بعد والوں کے لیے بڑا سبق ہے، اگر اس سبق کو دہرایا جائے اور” قافلہٴ انور“ کے اوصاف وصفات کے آئینے میں راہِ عمل متعین کی جائے تو فضلائے جامعہ کا دائرہ خدمت بھی وسیع ہوگا اور ان کے فیضان سے ملت سرشار ہوگی۔
کیا اس میں ہمارے لیے نمونہ عمل نہیں ہے کہ خاتم المحدثین حضرت شاہ صاحب ایک طرف مسند درس پر بیٹھ کر ابن حجر، نووی، عینی، عز الدین ابن عبدالسلام اور غزالی ورازی کی یاد تازہ کررہے ہیں اور دوسری طرف ڈابھیل واطراف واکناف کی مسجدوں میں از خود تشریف لے جاکر کسی نماز کے بعد خود سے یہ اعلان فرمارہےہیں کہ ”انور شاہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے، دین کی کچھ بات سنانا چاہتا ہے، آپ تھوڑی دیر کے لیے مجھ سے دین کی باتیں سن لیں“، کیا ارتداد کی لہروں کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی کوششیں اور ۱۹۴۷ء میں لٹی پٹی دلّی کے مسلمانوں کے قدم جمانے اور ان کی باز آباد کاری کے لیے کی جانے والی ان کی کاوشیں اپنے اندر درسِ عزم وعزیمت نہیں رکھتیں؟ کیا صرف مجاہد ملت کی یاد کافی ہے یا پھر مجاہد ملت بننا بھی ہمارے فرض کا حصہ ہے؟ ہر طرف اندھیریاں چھارہی ہیں، ہر سو جہالت ڈیرے ڈال رہی ہے، ان اندھیریوں کو دور کرنے کے لیے کون چراغ جلائے گا؟ ظلمت شب کے خلاف کون اجالوں کا سفیر بنے گا؟ یہ بات تو طے ہے کہ جہاں بارش نہیں ہوتی وہاں کی فصلیں خراب ہوجاتی ہیں، اور جہاں دین کی تعلیم نہیں ہوتی وہاں کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں، تو کیا ہم اپنی نسلوں کو برباد ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم گاؤں دیہات میں آباد مسلمانوں کے دین، عقیدے اور ایمان کی حفاظت کی شمع زیادہ سے زیادہ روشن کرنے سے کترارہے ہیں؟ مجاہدِ ملت کے زمانے میں ارتداد کے جو واقعات ہورہے تھے وہ آج کے مقابلے میں کم ، بہت کم تھے، آج تو صورت حال زیادہ بگڑی ہوئی ہے، مسلمان بچیوں کو ارتداد کی لہروں سے بچانا نہایت ضروری ہے، ہمیں نئی نسل کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ دین کی توحید کی قدر وقیمت کیا ہے؟ ساتھ ہی انہیں ان کی عزت وعظمت سے بھی آگاہ کرنا ہوگا، اور یہ بتانا اور کسی کا نہیں، ہمارا فرض ہے کہ ایک مسلمان ماں اگر اپنے دائیں ہاتھ سے جھولے اور پالنے کو حرکت دے سکتی ہے تو اپنے بائیں ہاتھ سے وہ دنیا کو بھی ہلاسکتی ہے۔
قادیانیت کے فتنے نے اگر حضرت شاہ صاحب کے دل کو زخمی کررکھاتھا اور الحاد ودہریت کے مسئلے نے اگر مولانا شبیر احمد عثمانی کے خون جگر کو جلادیا تھا تو آج بھی شکیلیت اور گوہر شاہیت اور دین بیزار لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنے زہریلے سانپ کی طرح پھن پھیلائے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور لوگوں کے ذہن ودل اور افکار وخیالات کو مسموم بنارہے ہیں، دور کہیں سے کانوں میں حضرت شاہ صاحب کی یہ درد بھری آواز آرہی ہے کہ ”گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت کا کام نہ کرسکے “، ضرورت ہے کہ ہم ان فتنوں کے مقابلے اور ان دشواریوں کے سد باب کے لیے آگے بڑھیں اور جھوٹے مدعیان نبوت کا ہر محاذ پر مقابلہ کریں۔
تاریخ کے اوراقِ پریشاں یہ بتاتے ہیں کہ” قافلہٴ انوری “کے اسلاف ایک دوسرے سے برابر مربوط رہے، اور اتحاد فکر وعمل کے ساتھ اکرام واحترام کی روِش پر گامزن ہوئے، انہوں نے اپنے قال وحال سے یہ ثابت کیا کہ ہم ایک ہی کوثر کی موجیں اور ایک ہی لشکر کی فوجیں ہیں، ہم ایک ہی گلشن کے پھول ہیں، اس لیے کہ ہم عاشق رسول ہیں، ان کا یہ کردار وعمل فضلائے جامعہ سمیت سب علماء اور خدامِ دین کے لیے لائق تقلید اسوہ ہے، آپس کے انتشار اور فاصلوں نے ہمیشہ مشکل پیدا کی ہے، یہ سچائی ہے کہ جب تک ہم متحد رہے، زمانہ ہماری ٹھوکروں میں رہا، اور جب ہم منتشر ہوئے تو ہم زمانے کی ٹھوکروں میں آگئے۔
آج ڈابھیل کے صد سالہ اجلاس میں شریک ہوکر ماضی کی روشن تاریخ کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں اور یہ سمجھنے کی بھی کہ جن بزرگوں کی خدماتِ جلیلہ اور مساعی جمیلہ نے نور ونکہت کی کہکشاں روشن کی، ان کے بافیض ہونے کا راز کیا تھا؟ کیا صرف علوم ومعارف میں ان کا امتیازی مقام یا خلق خدا میں بوئے گل کی طرح پھیلی ہوئی ان کی شہرت ومقبولیت؟ یا پھر الگ الگ شعبوں میں کی جانے والی ان کی غیر معمولی کاوش ومحنت اور مثل شمع پگھلنے کی عادت؟ نہیں، اس کا بنیادی سبب تعلق مع اللہ کا جوہر اور محبت الہی کی نعمت ہے، ان کے یہاں دن کی محنت کا سرا، رات کے آنسوؤں سے جڑا ہوا تھا، اور یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو انسان بنادیتی ہے، اور انسان کو مسلمان کا روپ بخشتی ہے، اور مسلمان کو ”سلمان“ بناتی ہے، پھر یہ بھی کہ یہ جوہر گھر بیٹھے ہاتھ نہیں آتا اور نہ یہ گوہر بادشاہ کے خزانے سے میسر ہوتا ہے ؎
تمنا درد دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
صرف ”قافلہٴ انوری“ نہیں، اس کے ورودِ مسعود سے پہلے بھی یہاں مخلص اور باخدا لوگ آباد تھے، خود بانیٴ جامعہ مولانا احمد حسن بھام سملکی رحمۃ اللہ علیہ ایسے مخلص اور ذاکر انسان تھے کہ سوا لاکھ مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھر مدرسے کی بنیاد رکھی اور جب مدرسے کو ضرورت پڑی تو اپنی اہلیہ کے زیورات تک فروخت کردیئے، پھر بعد کے ہر دور میں بھی جامعہ ڈابھیل کے بزرگوں نے علم کے ساتھ ساتھ ذکر سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا اور اپنے سینے کو معرفت کا گنجینہ بنایا، یہاں کی فضاؤں میں جو نورانیت وروحانیت پھیلی ہوئی ہے وہ انہی نفوس قدسیہ کے انفاس قدسیہ کی برکت ہے ؎
بآں گروہ کہ از ساغر وفا مستند
سلام ما برسانید ہر کجا ہستند
آج بھی اس جامعہ میں دیگراہل دل کے علاوہ تاجدارِ اولیاء حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب زید مجدہم ”میخانہٴ معرفت“ اور” دوکانِ دل “سجاکر جلوہ افروز ہیں اور کوئی شک نہیں کہ وہ اس دورِ قحط الرجال میں سلفِ صالحین کی یاد گار اور دین وملّت کی آبرو ہیں، ان کے علم وعمل کی جامعیت گذرے ہوئے بزرگوں کے طرز عمل کا امتداد ہے، ضعف وپیرانہ سالی کے باوجود ان کی فیض رسانی جاری وساری ہے اور ہر اک دل کی یہ دعا ہے کہ ؂
دور میں ساغر رہے گردش میں پیمانہ رہے
مئے کشوں کے سر پہ یارب پیر میخانہ رہے
ساقیا ترے کرم سے دور پر چلتا رہے دور
اور مئے توحید سے لبریز پیمانہ رہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عبداللہ القمیسی ابن تیمیہ بلندی سے تنزلی کی طرف

عبداللہ 1907 میں سعودی عرب کے شہر بریدہ میں پیدا ہوئے،یہ بچپن سے ہی حساس اور بلا کے ذہین تھے -

جوانی تک پہنچتے ان کی صلاحیتوں کے جوہر کھلنے لگے،انہوں نے علمی دنیا میں بھونچال لایا -

1927 میں جامعہ ازہر مصر میں انہوں نے داخلہ لیا اور بیس سال کے اس طالب علم نے ازہر کے فلاسفرز اور اسکالرز کی ناک میں دم کرکے رکھا،انہوں نے ازہر کے نامور سکالر یوسف دجوی کی کتاب کے رد میں “البروق النجدية " کتاب لکھ کر تہلکہ مچا دیا،کتاب عرب دنیا میں پھیل گئی ازہر یونیورسٹی نے ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا،انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا -

ان کی دوسری کتاب “الصراع الإسلام و الوثنية"  اسلام اور نیشنل ازم کا ٹکراو اس کتاب نے تو دھوم ہی مچا دیا -

کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ عرب دنیا میں انہیں ابن تیمیہ ثانی سے پکارا جانے لگا،مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انکی مدح میں امام کعبہ نے خانہ کعبہ میں قصیدہ پڑھا -

علمی حلقوں میں کہا جانے لگا کہ عبداللہ نے یہ کتاب لکھ کر جنت کا مہر ادا کیا ہے -

 عبداللہ القصیمی اسلام کے دفاع میں شہرہ آفاق کتابیں لکھ کر اپنا لوہا منوا چکے تھے،پوری عرب دنیا میں ان کا طوطی بول رہا تھا کہ 

اچانک ان کا دماغ گھوم گیا،یہ 90 ڈگری الٹ ٹریک پہ چڑھ گئے،یہ دائرہ اسلام سے نکل گئے،یہ ملحد بن گئے -

جو شخص زندگی بھر اسلام کی وکالت اور دفاع کرتا رہا تھا اب وہ اپنی صلاحیتوں کو اسلام کے خلاف استعمال کرنے لگ گیا،انہوں نے نماز ،روزہ اور دیگر فرائض کو ٹائم کا ضیاع قرار دیتے کتاب لکھ ڈالی ۔
“هذي هي الاغلال "
انہوں نے لکھا کہ مسلمانوں کے پیچھے رہنے میں نمازوں کے اوقات سبب ہیں،عبادات کو انہوں نے گلے میں پڑی زنجیروں سے تشبیہ دی خدا کے وجود کا انکار کر دیا -

یہ اسی الحاد میں بدبختی کی زندگی مرا -

بدبختی بتا کر نہیں آتی جس کیلئے حرم میں دعا ہوتی تھی اس کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہیں تھا -

عبداللہ القصیمی کے متعلق میں نے پہلی کتاب مسجد نبوی شریف کی لائبریری میں پڑھی تھی،تب میں نے وہ وجوہات جاننے کی کوشش کی جن کے باعث یہ شخص گمراہ ہوگیا،اہل علم نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے -

کسی نے لکھا بیروت میں ایک عیسائی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوا تھا اسکی وجہ سے دماغ خراب ہوگیا -

لیکن سب سے معقول وجوہات قصیمی کے ایک دوست نے لکھی ہیں،ان کے مطابق تین بنیادی وجوہات تھیں جس کے باعث یہ ٹریک سے ہٹ گیا -

پہلی وجہ کبر و غرور یہ اپنے علمی مقام کے آگے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے،ان کے اندر میں میں بہت تھی -

دوسری وجہ کثرت بحث و مباحثہ یہ بحث بہت کرتے تھے،یہ ہر چیز کو بحث کے میزان پر رکھتے شک کے ترازوں میں تولتے یہاں تک کہ یہ اپنے وجود پر بھی سوالات اٹھاتے تھے -

تیسری وجہ مخالف فکر کی کتب کا حد سے زیادہ غیر ضروری مطالعہ -

آپ کتنے بھی بڑے فلسفی ،سقراط ،بقراط اور ارسطو کیوں نہ ہوں مت بھولیں کہ دماغ خراب ہونے میں وقت نہیں لگتا ،چنانچہ ان محرکات سے خود کو دور رکھیں جو گمراہی کی طرف لیکر جاتے ہیں -
اور ہر پل اللہ تعالی سے استقامت کی دعا مانگیں،انسان بہت کمزور ہے،اللہ کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہے -
فردوس جمال

سوریہ نمسکار اور وندے ماترم

*سوریہ نمسکار اور وندے ماترم*

اس وقت جب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ باحیات تھے تو تب بھی اسکولوں میں سوریہ نمسکار کرنے اور وندے ماترم گانے کا مسلہ بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھا تھا۔ اور حضرت مولانا رح نے اسکی پرزور مخالفت کی تھی۔ اسی سلسلہ میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی خود دارالعلوم ندوة العلماء لکھنئو پہونچے تھے اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ سے بات کی تھی۔ 

ملاقات کے بعد حضرت مولانا نے جو تاریخی بیان میڈیا کو دیا تھا وہ سنہرے الفاظ میں لکھا گیا اور اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا... یہی ھمارے لیے مشعلِ  راہ ھے ہو سکتا ہے۔ 

"میری قوم کا ھر بچہ تعلیم سے محروم ہو جائے میں اس کو گوارا کرسکتا ھوں،لیکن اسکے عقیدے اور ایمان پر آنچ آیے میں اسکو کبھی برداشت نہیں کر سکتا"

مولانا جلال الدین رومیؒ اور شمس تبریزیؒ عزت صرف اللہ کے ہاتھ ہے۔

مولانا جلال الدین رومیؒ اور شمس تبریزیؒ

ایک رات مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے استاد حضرت شمس الدین تبریزیؒ کو اپنے گھر دعوت دی۔

مرشد شمسؒ تشریف لے آئے۔ کھانے کے سب برتن تیار ہو گئے تو شمسؒ نے رومیؒ سے فرمایا:
“کیا تم مجھے پینے کے لیے شراب لا سکتے ہو؟”

رومیؒ یہ سن کر حیران رہ گئے:
“کیا استاد بھی شراب پیتے ہیں؟”

شمسؒ نے کہا: “ہاں، بالکل۔”

رومیؒ نے عرض کیا: “مجھے معاف کیجیے، مجھے اس کا علم نہیں تھا۔”

شمسؒ نے فرمایا: “اب جان گئے ہو، لہٰذا شراب لا دو۔”

رومیؒ بولے: “اس وقت رات گئے کہاں سے لاؤں؟”

شمسؒ نے کہا: “اپنے کسی خادم کو بھیج دو۔”

رومیؒ نے کہا: “میرے نوکروں کے سامنے میری عزت ختم ہو جائے گی۔”

شمسؒ نے کہا: “پھر خود ہی جا کر لے آؤ۔”

رومیؒ پریشان ہوئے: “پورا شہر مجھے جانتا ہے، میں کیسے جا کر شراب خریدوں؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“اگر تم واقعی میرے شاگرد ہو تو وہی کرو جو میں کہتا ہوں۔ ورنہ آج نہ میں کھاؤں گا، نہ بات کروں گا، نہ سو سکوں گا۔”

استاد کی محبت اور اطاعت میں رومیؒ نے چادر اوڑھی، بوتل چھپائی اور عیسائیوں کے محلے کی طرف چل دیے۔

💠 جب تک وہ راستے میں تھے، کسی کو شک نہ ہوا۔ لیکن جیسے ہی وہ عیسائی محلے میں داخل ہوئے، لوگ حیران ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔

سب نے دیکھا کہ رومیؒ شراب خانے میں گئے اور بوتل خرید کر چادر کے نیچے چھپا لی۔ پھر وہ نکلے تو لوگ اور بھی زیادہ ہو گئے اور ان کے پیچھے پیچھے مسجد تک پہنچ گئے۔

مسجد کے دروازے پر ایک شخص نے شور مچا دیا:
“اے لوگو! تمہارا امام، شیخ جلال الدین رومیؒ، ابھی عیسائی محلے سے شراب خرید کر آ رہا ہے!”

یہ کہہ کر اس نے رومیؒ کی چادر ہٹا دی اور بوتل سب کے سامنے آگئی۔

ہجوم نے غصے میں آکر رومیؒ کے منہ پر تھوکا، انہیں مارا، یہاں تک کہ ان کی پگڑی بھی گر گئی۔

رومیؒ خاموش رہے، انہوں نے اپنی صفائی پیش نہیں کی۔

لوگ اور بھی یقین کر بیٹھے کہ وہ دھوکہ کھا گئے ہیں۔ انہوں نے رومیؒ کو بری طرح مارا اور کچھ نے تو قتل کرنے کا بھی ارادہ کیا۔

🔊 اسی وقت شمس تبریزیؒ کی آواز بلند ہوئی:
“اے بے شرم لوگو! تم نے ایک عالم اور فقیہ پر شراب نوشی کا الزام لگا دیا۔ جان لو کہ اس بوتل میں شراب نہیں بلکہ سرکہ ہے!”

ایک شخص بولا: “میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ شراب خانے سے بوتل لائے ہیں۔”

شمسؒ نے بوتل کھولی اور کچھ قطرے لوگوں کے ہاتھ پر ڈالے تاکہ وہ سونگھ سکیں۔ سب حیران رہ گئے کہ واقعی یہ تو سرکہ ہے!

اصل بات یہ تھی کہ شمسؒ پہلے ہی شراب خانے گئے تھے اور دکاندار کو کہہ دیا تھا کہ اگر رومیؒ بوتل لینے آئیں تو انہیں شراب کے بجائے سرکہ دیا جائے۔

اب لوگ اپنے سر پیٹنے لگے اور شرمندگی کے مارے رومیؒ کے قدموں میں گر گئے۔ سب نے معافی مانگی اور ان کے ہاتھ چومے، پھر آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے۔

رومیؒ نے شمسؒ سے عرض کیا:
“آج آپ نے مجھے کتنی بڑی آزمائش میں ڈال دیا، یہاں تک کہ میری عزت اور وقار میرے مریدوں کے سامنے خاک میں مل گئی۔ اس سب کا کیا مطلب تھا؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“تاکہ تم سمجھ لو کہ لوگوں کی عزت اور شہرت محض ایک فریب ہے۔
کیا تمہیں لگتا ہے کہ ان لوگوں کا احترام ہمیشہ قائم رہتا ہے؟
تم نے خود دیکھا، محض ایک بوتل کے شک پر وہ تمہارے دشمن بن گئے، تم پر تھوکا، مارا، اور قریب تھا کہ جان لے لیتے۔

یہی وہ عزت ہے جس پر تم نازاں تھے، جو ایک پل میں ختم ہو گئی!

آج کے بعد لوگوں کی عزت پر نہ بھروسہ کرنا۔ اصل عزت صرف اللہ کے پاس ہے جو وقت کے ساتھ نہ بدلتی اور نہ مٹتی ہے۔
وہی بہتر جانتا ہے کہ کون واقعی باعزت ہے اور کون جھوٹی عزت کا طلبگار۔
لہٰذا آئندہ اپنی نظر صرف اللہ پر رکھو۔”

---

✨ یہ واقعہ دراصل ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی عزت اور لوگوں کی رائے لمحوں میں بدل جاتی ہے۔ اصل عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو۔

صراط مستقیم

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم