*اصل ... *اور* ... *اصول *



     امام ابن تیمیہ کے زمانے میں تاتاری فوجی شراب پی رہے تھے تو اس پر امام کے شاگردوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ انہیں منکر سے روکتے کیوں نہیں؟ اس موقع پر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ "انہیں ان کے حال میں مست رہنے دو" اگر میں انہیں روکوں گا تو وہ قتل و غارت گری کریں گے -حالانکہ اصول تو یہی ہے کہ منکر سے روکا جائے لیکن اس معاملے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اصول کی بجائے اصل پر استدلال کیا ہے - 
  
   عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جب کفار نے کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا تو وہ اسی حالت میں رسول اللہ صلعم کے پاس پہنچے اور اپنا ماجرا کہہ سنایا، اس پر رسول اللہ صلعم نے پوچھا، دل کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے، ایمان پر مطمئن ہے - اس وقت رسول اللہ صلعم نےحضرت عمار رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے رخصت عطا کر دی کہ وہ اگر دوبارہ ایسا کریں تو پھر یہی کلمات دہرا دینا -

     قرآن سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخصوص صورتحال کے پیش نظر حرام و حلال کے سلسلے میں بھی اصول کی بجائے اصل کا اعتبار کر کے رعایت دی ہے - 

     اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ مخصوص حالات میں اصول کی بجائے اصل کا اعتبار کرتے ہوئے اپنے اندر لچک اور گنجائش کا پہلو رکھتا ہے - 

     اصول کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ "اصول سے کوئی سمجھوتہ نہیں" بلکہ بعض حالات میں اصول کی عظمت کو تسلیم کرنے کے باوجود عملی دشواریوں کے پیش نظر اصل سے ڈیل کرنا ہی وقت اور حالات کا تقاضا ہوتا ہے - 

     جماعت اسلامی کے نزدیک حکومت کے سلسلے میں "حاکمیت الہ" کا اصول اپنی جگہ مسلم ہے لیکن موجودہ سیاسی پس منظر میں اس کا اطلاق ابھی چونکہ ممکن نہیں ہے لہذا اصل کے اعتبار سے رائج سیاسی نظام کے تحت وہی لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت ہمارے لئے موزوں اور قابل عمل ہو سکتا ہے - 

     اقامت دین کے سفر میں میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ، جیسے مراحل بھی آتے ہیں جنہیں عبور کرتے ہوئے آگے بڑھنا پڑتا ہے لہذا موجودہ سیاسی نظام کی بعض خرابیوں سے بچتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اسے مصلحتاً گوارا کرنا بلکہ اسے ممکنہ حد تک اپنے کاذ کے لئے استعمال کرنا ہی عملی رویہ ہے - 

     ویسے اس معاملے میں دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ علمائے دیوبند اور دیگر مکاتب فکر کے نزدیک موجودہ جمہوری نظام میں ووٹ کی با ضابطہ شرعی حیثیت ہے اور وہ اسےقرآنی دلائل سے ثابت کرکے ایک گواہی، سفارش، وکالت، اور امانت کے طور پر پیش بھی کرتے ہیں نیز اس کے صحیح استعمال کو جائز اور نیکی قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے غلط استعمال کو ناجائز اور بازپرس کا سبب مانتے ہیں - 

     اس وقت جو لوگ بھی انتخابات لڑ رہے ہیں ان کے بارے میں یہ کہنا تو بہت مشکل ہے کہ وہ اہل امانت ہیں لیکن اگر ہم لوگ اس محاذ پر ڈٹے رہیں تو قوی امید ہے کہ اقدار پر مبنی سیاست کے لئے ڈسکورس کھڑا کر سکیں - 

     موجودہ انتخابات میں ہمارا اصل ہدف فسطائی طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنا ہے - اور ظالم کو *بلیٹ* سے روکیں یا *بیلیٹ* سے بہرحال یہ نیکی ہے -

یہ انبیائی مشن کے وارثین، مسجد اقصی کے متولی

یہ انبیائی مشن کے وارثین


 انہیں مٹایا نہیں جاسکتا ،یہ حوصلے سے نہیں جیتے بلکہ حوصلہ ان سے بھیک مانگتا ہے ،یہ امید کے پہاڑ نہیں بلکہ امید انکی پناہ میں ہے ،ہاں یہ وہ لوگ جنہیں عزم واستقلال جھک کر سلام کرتا ہے ، یہ صدق و وفا کے پیکر ہیں یہ ایمان و یقین کے نگہبان ہے دنیا نے انہیں بے سہارا چھوڑ دیا انہوں نے *دنیا کو زندگی کا سبق دیا ،جینے کا ہنر دیا ، صبر واستقامت کا درس دیا ، ایمان و یقین کا پیغام دیا*
 
ایک طرف لاشیں ہیں ، تڑپتے زخمی ہیں ، آسمان سے بموں کی بارش ہے ، بارودی دھویں کی بدبو ہے ، اپنے بچھڑ گیے ،ماں باپ چلے گیے ،بھائ بہن نہیں رہے ، گھر نہیں ، کھانہ نہیں ، پانی نہیں، علاج نہیں ، ظالم نے اسپتال کو مسمار کردیا ،اسکولوں کو تباہ کردیا ،مدرسوں کو مٹادیا ، ملبے کے ڈھیر ہیں سنسان اور ویران آبادیاں ۔۔۔
*لیکن جو بچ گیے انکے اندر خوف نہیں ، ڈر نہیں ،مایوسی نہیں ، آہ بکا نہیں ، رونا دھونا نہیں ، شکوہ شکایت نہیں ، انکے سامنے ایک مشن ہے یہ وہی مشن ہے جو انبیاء کا مشن تھا ، انکے سامنے جینے کا ایک مقصد ہے*
 اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے سب کچھ قربان کرنا کوئی ان سے سیکھے ، یہ حرم ثالث کے متولی ہیں یہ ارض مقدس کے رکھوالے ہیں یہ مسجد اقصی کے مصلی ہیں ، نسلوں کو کیسے تیار کیا جاتا ہے کوئی ان سے سیکھے ،
سب کچھ ختم ہونے بعد بھی انہیں فکر ہے اپنی نسل کی تربیت کی اور بے سروسامانی میں مدرسہ قائم کرتے ہیں ان بچوں کی مسکراہٹ دیکھ کر کوئی کہ سکتا ہے کہ انکا سب کچھ چھین لیا گیا انکے گھر اجاڑ دیے گیے ہیں ؟ 
*جسموں کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن فکر کو نہیں ،حوصلے اور ہمت کو نہیں جزبہ ایمانی کو نہیں ، ارض مقدس سے عشق ومحبت کو نہیں ہاں ہاں بالکل بھی نہیں* 
دشمن حیران ہے یہ کس مٹی کے لوگ ہیں کیا یہ اسی دنیا کے لوگ ہیں ؟  
*دشمن اپنی تمام تر طاقت و قوت کے ساتھ ہار گیا اور یہ تمام تر بے سروسامانی کے باوجود جیت گیے* 
وہ دن دور نہیں جب دشمن وہاں سے بھاگے گا انشاءاللہ 

*الا ان نصراللہ قریب* 

*یہ خان یونس کیمپ غزہ میں ایک نئے مدرسے کے افتتاح کی ویڈیو ہے جس میں تقریباًً 1200 بچے ہیں*  

عبد العلام ندوی 
جامعہ نگر دہلی

بچوں کی آپس کی لڑائی اور ناراضگی ختم کروانے کے لیے 10 سادہ طریقے

بچوں کی آپس کی لڑائی اور ناراضگی ختم کروانے کے لیے 10 سادہ طریقے 

ماہرین نفسیات کے مُطابق چھوٹے بہن بھائیوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا اُن کی دماغی نشوونما پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے مگر اس لڑائی جھگڑے کے ساتھ اُنہیں یہ بھی سیکھنا ضروری ہے کہ آپس کے معاملات اگر بگڑ جائیں تو اُنہیں ٹھیک کیسے کرنا چاہیے اور سمجھوتا کیسے کرنا چاہیے۔

بچوں کے ایک دُوسرے کے ساتھ معاملات اگر بگڑ جائیں اور اُنہیں ان معاملات کو ٹھیک کرنے کا پتہ نہ چلے تو لڑائی لمبی ہوجاتی ہے اور بچے جب جوان ہوجاتے ہیں تو معاملات سلجھانے کی سمجھ نہ ہونے کے باعث جب وہ اپنے بہن بھائیوں سے خفا ہوتے ہیں تو کئی کئی برس ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھتے اور آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔

اس آرٹیکل میں والدین کے لیے چند ایسی سادی تراکیب شامل کی جارہی ہیں جس سے وہ بچوں کی آپس کی لڑائی کو ختم کروا سکتے ہیں اور اُن میں سمجھوتا کرنے اور معاملات کو از خود درست کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں۔

 *نمبر 1 بچوں کو کہانیوں کے نتائج بتائیں:* 
ان کہانیوں کے علاوہ بچوں کو نبی ﷺ کی فتح مکہ کی کہانی بھی سُنائیں اور بتائیں کے کیسے ہمارے نبی ﷺ نے مکہ فتح کرنے کے بعد سب کو معاف کر دیا تھا اور کیوں وہ کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیتے تھے۔

 *نمبر 2 جرمانہ بکس اور جاب بکس:* 
بچوں کے لیے ایک ڈبہ مختص کریں اور اُنہیں بتائیں کے اگر اُنہوں نے آپس میں لڑائی کی تو ایک دن کا جیب خرچ جرمانے کے طور پر ادا کرنا پڑے گا اور اگر بچوں کو جیب خرچ نہیں ملتا تو ایک ڈبے میں کاغذوں پر مختلف کام لکھ کر ڈبہ بھر دیں اور اگر وہ آپس میں جھگڑا کریں تو اُنہیں ڈبے سے ایک پرچی نکالنے کا کہیں اور گھر کا جو بھی کام اُس پرچی پر لکھا ہو اُن سے کروائیں اس طریقے سے اُن کی لڑنے کی عادت ڈانٹ ڈپٹ کے بغیر ختم ہو سکتی ہے۔

 *نمبر 3 بچوں سے خط لکھوائیں:* 

اگر بچے آپس میں جھگڑ رہے ہیں اور آپ کے پاس ایک دُوسرے کی شکایت لیکر آرہے ہیں تو دونوں کو ایک ایک خالی پیپر دیکر اپنے اپنے جذبات اور احساسات لکھنے کا کہیں۔ اور اگر وہ چھوٹے ہیں تو ان کو کہیں کہ وہ اپنے جذبات کو آپ کے سامنے بلند آواز میں بیان کریں۔ اس عمل سے بچوں کو محسوسات کا خود بھی پتہ چلے گا اور وہ بات کو بڑھا چڑھا کر کرنے کے عمل سے بچیں گے اور اگر لکھنا پسند نہیں کرتے تو وہ کوشش کریں گے کے لڑائی سے بچیں تاکہ اُنہیں لکھنے کی کوفت گوارہ نہ کرنی پڑے۔

 *نمبر 4 بچوں کو علیحدہ علیحدہ وقت دیں:* 
بچوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ وقت گُزارنا اور اُن کی دلچسپیوں میں شامل ہونا، دُوسرے بچوں میں تھوڑا حسد پیدا کر سکتا ہے مگر اگر سب کو برابر برابر وقت مل رہا ہے تو اس کے بہت سے فائدے ہیں۔ اس سے بچوں کو پتہ چلتا ہے کہ اُن کی بڑی اہمیت ہے اور اُن کے والدین اُن پر توجہ دیتے ہیں اور اُن سے باخبر رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ لڑائی جھگڑے سے بچنے کی کوشش کریں گے تاکہ اُن کو علیحدگی میں جواب دہ نہ ہونا پڑے۔

اس عمل سے بچوں کے درمیان آپس میں ایک اچھا فاصلہ بھی قائم ہوگا جو اُن کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے لیکن والدین ہمیشہ کوشش کریں کے مساوات قائم رہے۔

 *نمبر 5 کسی ایک بچے کا* *بلاوجہ دفاع نہ کریں* :
جب آپ کسی ایک بچے کا دفاع کرتے ہیں اور دوسرے کو ڈانٹ پلاتے ہیں تو اُس ڈانٹ کھانے والے کے ذہن میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اُسے کم پسند کیا جاتا ہے۔ لہذا بچوں کو اُن کے آپس کے مسئلے خُود سلجھانے دیں اور اُنہیں بتائیں کے ایک دُوسرے کی ضروریات کو کیسے پُورا کرتے ہیں۔

 *نمبر 6 بچوں کے پزل:* 
بچوں کے لیے ایسے پزل کھلونے یا لیگو وغیرہ خریدیں جسے وہ مل کر کر حل کر سکیں اور بچوں کو ایسے کھیل کھیلنے کے لیے دیں جسے وہ مل کر کھیل سکیں۔ اس سے اُن میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی قوت پیداہوگی۔

 *نمبر 7 بچوں کو اکھٹے باہر لے کر جائیں:* 
بچوں کو پارک وغیرہ میں لے کر جائیں اور اُن کو جسمانی مشقت والے کھیل آپس میں کھلوائیں جیسے فُٹ بال، کرکٹ، وغیرہ اس سے جہاں اُن کے اندر موجود انرجی پازیٹیو کاموں میں خرچ ہوگی وہاں وہ تھکاؤٹ کے بعد لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں گے۔

 *نمبر 8 سیر و سیاحت:* 
بچوں کے ساتھ سیر و سیاحت بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے جب اکھٹے کسی مقام کی سیر کے لیے جاتے ہیں تو اُنہیں ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنے کا موقع ملتا ہے۔

 *نمبر 9 بچوں کی تعریف* :
والدین کا بچوں کے اچھے کام کی تعریف کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور دوسرے بچوں میں بھی رغبت پیدا ہوتی ہے کہ وہ کُچھ اچھا کریں تاکہ اُن کی بھی تعریف ہو۔*نمبر 10 بچوں میں سوچنے کی قوت:* 
deep thinking
بچوں کو اُن کے کاموں پر غور کراوئیں اور اُنہیں خود سے سوچنے دیں کے کوئی کام ٹھیک ہے یا غلط، ایسا کرنے سے بچوں کو مختلف چیزوں اور معاملات کا پتہ چلے گا کے اُسے ٹھیک طرح کیسے سرانجام دینا ہے اور غلطی سے کیسے بچنا ہے۔

بچوں کی تربیت اور والدین

بچوں کی تربیت اور والدین

آج کل کے جدید دور میں بچوں کی تربیت ایک اہم مسئلہ ہے۔ والدین اس بارے میں مختلف کورسز بھی کرتے نظر آرہے ہیں اور جہاں ممکن ہو آگاہی بھی حاصل کرتے ہیں کہ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے یا کن باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تربیت کی جائے۔ 

ماہر نفسیات ہونے کے ناطے میں سمجھتی ہوں کہ مسئلہ یہ نہیں کہ بچوں کو کیا سکھائیں۔۔ 
_مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ کیا سکھیں_
فطری طریقہ کار سے گزرتے ہوئے بچوں کہ تربیت کے اہداف حاصل کریں۔ 
والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچے میں حق الیقین پیدا کریں اور یہ تبھی ممکن ہے جب والدین بھی حکم ربی کے پابند ہونگے۔ 
پیدا ہونے سے سات سال کی عمر تک بچے کا  Habbit pattern بن جاتا ہے۔ اس دوران جو بھی بچے سے کرنے کے لیے کہیں، کوشش کریں کہ خود کو بھی ان باتوں کا پابند رکھیں۔  کیونکہ بچے دیکھ کر زیادہ سکھتے ہیں۔ ان میں modeling یعنی نقل کرتے ہوئے سکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔

شیطانی ہتھکنڈے اورمشاغل

*شیطانی مشاغل* 

علامہ بدرالدین بن شبلی اپنی مشہو رکتاب"آکام المرجان فی احکام الجا ن"میں نقل کرتے ہیں کہ شیطان لعین کے انسان کو نقصان پہنچانے کے ۶ درجات ہیں: 
(۱) پہلے مرحلہ میں وہ انسانکوکفر وشرک میں ملوث کرنے پرمحنت کر تا ہے،اگراس میں اُسے کامیابی مل جائے تو پھراس آدمی پراُسے مزید کسی محنت کی ضرورت باقی نہیں رہتی،کیوں کہ کفروشرک سے بڑھکر کوئی نقصان کی بات نہیں ہے۔ 
(۲) اگر آدمی (بفضل خداوندی) کفر وشرک پرراضی نہ ہو،تودوسرے مر حلہ میں شیطان لعین اُسے بدعات میں مبتلا کر دیتا ہے۔
حضرت سفیان ثوری رح فرماتے ہیں کہ شیطان کوفسق وفجوراور معصیت کے مقابلہ میں بدعت زیادہ پسند ہے؛ اس لئے کہ دیگر گناہوں سے تو آدمی کو توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے،مگربدعتی کوتوبہ کی تو فیق نہیں ہوتی(اسلئے کہ وہ بدعت کوثواب سمجھ کرانجام دیتا ہے توا س سے توبہ کاخیال بھی نہیں آتا)۔
(۳)اگرآدمی بدعت سے بھی محفوظ رہے توتیسرے مرحلہ میں اسے شیطا ن فسق وفجوراور بڑے بڑے گناہوں میں ملوث کرنے کی کوشش کرتا ہے ( مثلابدکاری قتل،جھوٹ یا تکبر، حسد وغیره)۔
(۴)اگرآدمی بڑے گناہوں سے بھی بچ جائے توشیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم ازکم آدمی کوصغیرہ گناہوں کا ہی عادی بنادے؛ کیوں کہ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ کبھی اتنی مقدارمیں جمع ہوجاتے ہیں کہ وہ انھیں کی وجہ سے مستحق سزا بن جاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ” تم لوگ حقیر سمجھے جانے والے گناہوں سے بچتے رہو؛ اس لئے کہ اُن کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ کسی جنگل میں پڑاؤڈا لیں اورہرآدمی ایک ایک لکڑی ایند ھن لائے ؛ تا آں کہ ان کے ذریعہ بڑا الاؤجلاکرکھاناپکایااورکھایاجائے ، تو یہی حال چھوٹے گناہوں کا ہے کہ وہ جمع ہوتے ہوتے بڑی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں(رواہ احمد،التر غیب والترہیب مکمل رقم : ۳۷۶۰ بیت الافکار )
(۵) اورجب شیطان کامذکورہ کا موں میں سے کسی مرحلہ میں بھی بس نہیں چلتاتواس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو ایسے مباح کاموں میں لگادے جن میں کسی ثو ابکی امید نہیں ہوتی۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس وقت میں انسان نیکیاں کرکے عظیم ثوابکامستحق بن سکتا ہے، وہ وقت بلا کسی نفع کے گذر کر ضائع ہو جاتا ہے۔
(۶) اگر آدمی مذکورہ بالا ہر مرحلہ پر شیطان کے دام فریب میں آنے سے بچ جائے ،تو آخری مرحلہ میں شیطان انسان کو افضل اور زیادہ نفع بخش کام سے ہٹاکرمعمولی اور کم نفع بخش کام میں لگانے کی کو شش کرتا ہے؛ تاکہ جہاں تک ہو سکے انسان کو فضیلت کے ثواب سے محر وم کرسکے(آکام المرجان فی احکام الجان ۱۲۶ - ۱۲۷)
معلوم ہوا کہ شیطان انسان کو نقصا ن پہنچانے کا کوئی موقع بھی ضائع کرنانہیں چاہتا، افسوس ہے کہ ایسے بدترین دشمن سے آج ہم غافل ہی نہیں ؛ بلکہ اس کے پکے دوست بنے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے دین دار بھی کسی نہ کسی مرحلہ پر شیطان کے فریب میں مبتلا نظر آتے ہیں، اور انھیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہمارے دشمن نے ہمارے ساتھ دشمنی کے کیا گل کھلا رکھے ہیں۔(رحمن کے خاص بندے/ ص:۳۶۰-۳۶۱)

ھارون الرشید نے بہلول کو ھدایت کی

ھارون الرشید نے بہلول کو ھدایت کی 
 کہ بازار جائیں اور قصائیوں کے ترازو اور جن پتھروں سے وہ گوشت تولتے ھیں وہ چیک کریں اور جن کے تول والا پتھر کم نکلے انھیں گرفتار کرکے دربار میں حاضر کریں 
بہلول بازار جاتے ہیں پہلے قصائی کا تول والا پتھر چیک کرتے ہیں تو وہ کم نکلتا ھے قصائی سے پوچھتے ہیں کہ حالات کیسے چل رھے ھیں..؟
قصائی کہتا ہے کہ بہت برے دن ھیں دل کرتا ہے کہ یہ گوشت کاٹنے والی چھری بدن میں گھسا دوں اور ابدی ننید سوجاوں 
بہلول آگے دوسرے قصائی کے تول والے پتھر کو چیک کرتے ہیں وہ بھی کم نکلتا ھے قصائی سے پوچھتے ہیں کہ کیا حالات ہیں گھر کے وہ کہتا ہے کہ کاش اللہ نے پیدا ھی نہ کیا ھوتا بہت ذلالت کی زندگی گزار رھا ھوں بہلول اگے بڑھے 
تیسرے قصائی کے پاس پہنچے تول والا پتھر چیک کیا تو بلکل درست پایا قصائی سے پوچھا کہ زندگی کیسے گزر رھی ھے.... ؟
قصائی نے کہا کہ اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر ھے بہت خوش ھوں اللہ تعالٰی نے بڑا کرم کیا ھے اولاد نیک ھے زندگی بہت اچھی گزر رھی ھے
بہلول واپس آتے ہیں سلطان ھارون الرشید پوچھتے ہیں کہ کیا پراگرس ھے... ؟
بہلول کہتے ہیں کہ کئی قصائیوں کے تول والے پتھر کم نکلے ھیں.
سلطان نے غصے سے کہا کہ پھر انھیں گرفتار کرکے لائے کیوں نہیں بہلول نے کہا اللہ تعالٰی انھیں خود سزا دے رھا تھا ان پر دنیا تنگ کردی تھی تو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی 
آج ھمارے بھی کچھ یہی حالات ھیں 
ھم نے بھی دنیا کو اپنایا ہے اسی کی فکر ھے، حرام حلال اور آخرت کی فکر ھی نہیں 
اس کو شیئر کردیں کیا پتہ اپ کے اک شیئر کی وجہ سے کتنے لوگ سدھر.

جو نیوٹرل رہتے ہیں وہ معاشرے کے منافق ہوتے ہیں

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک 22 منزلہ عمارت میں لگنے والی آگ کے دوران ایک بچہ سوچ رہا تھا کہ وہ آگ بجھانے میں کس طرح مدد کر سکتا ہے، اسی دوران اسے آگ بجھانے والے کینوس کے پائپ میں ایک سوراخ نظر آیا جہاں سے پانی لیک ہو رہا تھا، اس نے تھیلی اٹھائی اور لیکیج بند کرکے خود اگلے دو گھنٹے تک اس کے اوپر بیٹھا رہا تاکہ آگ بجھانے والے عملے کو تھوڑا سا زیادہ پانی مل سکے۔تاریخ میں ہمیشہ اس بچے کا نام آگ لگانے والوں میں نہیں بلکہ بجھانے والوں میں لکھا جائے گا۔ اسی کو موقف کہتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ برا وہ شخص ہے جو ہر اچھا برا کام ہوتا ہوا دیکھے اور یہ کہے کہ وہ نیوٹرل ہے چاہے وہ مذہب ہو یا سیاست یا زندگی کا کوئی اورشعبہ اپنی بساط کے مطابق اپنا موقف ضرور رکھیں۔
جو نیوٹرل رہتے ہیں وہ معاشرے کے منافق ہوتے ہیں
انہیں معاشرے سے سب کچھ چاہیئے ہوتا ہے لیکن بہتر معاشرے کے لئے خود سے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتے انہیں صرف اپنا مفاد عزیزہوتا ہے۔

صراط مستقیم

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم