میاں بیوی کے تعلقات میں کمی کی وجوہات اور علاج

*"جذباتی انقطاع ۔ چپ کا روزہ (Emotional Detachment)" (23)*

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری کی زیر اشاعت کتاب 
*سکون خانہ ۔ازدواجی تنازعات سے رفاقتی ہم آہنگی تک کا شعوری سفرِ A conscious journey from Marital discord to companionate Harmony* 
9224599910
####################

 *جذباتی انقطاع ایک خاموش رکاوٹ*

(Emotional Detachment – A Silent Barrier in Marital Harmony)
✦ تعارف:
ازدواجی زندگی کا اصل حسن "جذباتی قربت" (Emotional Intimacy) میں پوشیدہ ہے ، لیکن جب یہ قربت وقت ، مسائل یا ماضی کی زنجیروں کے باعث ختم ہونے لگے تو رشتہ صرف ایک رسمی معاہدہ رہ جاتا ہے ۔ یہی کیفیت جذباتی انقطاع کہلاتی ہے ، جو کئی جوڑوں میں خاموش تباہی بن کر سرایت کر چکی ہے ۔
✦ تعریف:
> "Emotional Detachment is a psychological condition where a person distances themselves emotionally from others, especially from close relationships, often to protect themselves from pain or vulnerability."

"جذباتی انقطاع ایسی کیفیت ہے جس میں انسان اپنے شریکِ حیات یا عزیزوں سے جذباتی طور پر کٹ جاتا ہے ، نہ دل کی بات کرتا ہے ، نہ دوسروں کے جذبات کو محسوس کرتا ہے ، نہ ہی تعلق میں دلچسپی لیتا ہے"۔
✦ اسباب:
شمار سبب وضاحت
1 بچپن کی محرومیاں ، جذباتی یا جسمانی نظراندازی کا تجربہ ۔
2 ازدواجی زخم ، مسلسل بے عزتی ، جھگڑے ، یا نظراندازی ۔
3 نفسیاتی بیماری ڈپریشن، اینگزائٹی ، یا (PTSD ) Post Traumatic Strees Disirder اس میں دماغی صدمہ یا تکلیف ، خوف ناک خواب ، شدید بے چینی ، جذباتی بے حسی ، چڑچڑاپن ، شدید غصہ ، آتا ہے ۔ علاج کے لیے CBT ادویات میں ہے ۔
4 دفاعی رویہ خود کو مزید زخموں سے بچانے کی کوشش ۔
5 جدید لائف اسٹائل ڈیجیٹل مصروفیت ، تنہائی ، ورک پریشر ۔
✦ علامات :
* جذباتی اظہار کا فقدان ۔
* تنہائی پسندی ۔
* شریکِ حیات کے جذبات کو نظرانداز کرنا ۔
* جسمانی قربت سے دوری ۔
* گفتگو میں سرد مہری ۔
* رشتے میں بیزاری ۔
*✦ اسلامی نقطۂ نظر :*
> "وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً"
"اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔"
(سورہ روم: 21)
> "مومن مومن کا آئینہ ہے۔"
(ابو داود)
"بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہترین ہو۔"۔ (ترمذی)
اسلام جذباتی تعلق ، حسنِ سلوک ، اور دلجوئی پر زور دیتا ہے ۔ جذباتی انقطاع تعلقات کو سرد اور بے روح بنا دیتا ہے ، جو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے ۔
✦ سائنسی و نفسیاتی تحقیق :
🔹 ڈاکٹر جان گاٹ مین کے مطابق، "خطرناک رشتے وہ ہوتے ہیں جن میں 'Emotional Withdrawal' یعنی جذباتی پیچھے ہٹنا موجود ہو۔"
🔹 Harvard Medical Review میں شائع تحقیق کہتی ہے:

> "Emotional neglect is more harmful than verbal abuse in long-term relationships."
پھر یہ دل کیوں اداس ہے ؟"
> "You can be married and still feel incredibly alone."
— Esther Perel

✦ جدول : جذباتی تعلق بمقابلہ جذباتی انقطاع
  --پہلو جذباتی تعلق جذباتی انقطاع ۔
بات چیت کھلی ، محبت بھری محدود یا سرد ۔
جذبات کا تبادلہ - روزمرہ کا معمول تقریباً ناپید ۔
جسمانی زبان ، قربت ، لمس سے گریز ، لاتعلقی ہے ۔
اعتماد مضبوط - کمزور یا ختم
✦ سوالنامہ برائے تشخیص (Self-Assessment Quiz) :

اپنے تعلق کی کیفیت جاننے کے لیے ہر سوال کا جواب دیں (ہاں / نہیں) ۔
1. کیا آپ شریکِ حیات کے ساتھ دل کی بات کرتے ہیں ؟
2. کیا آپ کو اس کے احساسات سمجھ آتے ہیں ؟
3. کیا وہ آپ کے جذبات کا احترام کرتا / کرتی ہے ؟
4. کیا آپ ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں؟
5. کیا آپ دونوں کے درمیان ہمدردی ہے؟
🔸 4 سے زائد "نہیں" کا مطلب ہے ۔ جذباتی انقطاع کا خطرہ موجود ہے ۔
✦ عملی مشقیں (Practical Exercises):
1. "روزانہ پانچ منٹ کا جذباتی رابطہ":
دن میں صرف پانچ منٹ بغیر موبائلب، صرف آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں ۔
2. "دل کی ڈائری":
ہر رات لکھیں: آج میں نے اپنے شریکِ حیات سے کیسا برتاؤ کیا ؟
3. "شکرگزاری کی مشق :
ہر روز ایک خوبی اس کی لکھیں یا بولیں ۔
✦ کیس اسٹڈی :(13)
❖ کیس: "خاموش دیواریں"
نام: رضوان اور حنا( نام بدل کر)
مسئلہ: شادی کے 8 سال بعد دونوں میں بات چیت کم ہو گئی ۔ حنا احساس کرتی ہے کہ رضوان اس سے بات نہیں کرتا ، اس کی بات کو سنتا نہیں ، صرف بچوں یا گھر کی ضرورت پر ہی بولتا ہے ۔
*تجزیہ: Analysis* 
 رضوان بچپن میں ایک جذباتی طور پر سرد ماحول میں پلا ۔ شادی کے بعد شروع میں بہتر تھا ، لیکن جب بچوں کی ذمہ داریاں اور مالی دباؤ بڑھا تو وہ اندرونی طور پر کٹتا چلا گیا ۔
*علاج: Therapy* 
* کاؤنسلنگ سیشن
* مشترکہ وقت
*جذباتی مشقیں
* اسلامی تعلیمات کا مطالعہ
* نتیجہ : تین ماہ کی تھراپی کے بعد جذباتی تعلق بحال ہونا شروع ہوا ۔
✦ علاج و مشاورت (Counseling & Healing Steps) :
1. کمیونیکیشن تھراپی
2. کپل تھراپی spouse 
3. اسلامی روحانی مشقیں
4. Mindfulness and Emotional Intelligence Training
5. معاف کرنے کی طاقت پیدا کرنا ۔
6. ✦ نتیجہ:
جذباتی انقطاع کو نظرانداز کرنا تعلق کے زوال کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اگر بروقت توجہ دی جائے ، تو محبت کی وہی روشنی دوبارہ جگائی جا سکتی ہے ۔ ازدواجی رشتے دل کے رشتے ہوتے ہیں . جب دل بند ہو جائے تو رشتہ باقی نہیں رہتا ۔ زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ وہ ہوتا ہے ، جب شوہر اور بیوی بنا کچھ کہے ایک دوسرے کی کیفیت سمجھ جاتے ہیں ۔
*"جذباتی ہم آہنگی کا مطلب ، میں تمہیں سمجھتا ہوں کہنا نہیں ۔ بلکہ واقعی سمجھئا اور محسوس کرنا ہے ۔"*

نہ ہم سفر سے نہ ہم نشیں سے نکلے گا 

ہمارے پاؤں کا کانٹا ہم ہی سے نکلے گا

دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ ۔ بیٹی کی اہمیت سمجھے😭

دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ😭
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت تھے۔ تفسیر نگار لکھتے ہیں کہ آپ کا حسن اس قدر تھا کہ عرب کی عورتیں دروازوں کے پیچھے کھڑے ہو کر یعنی چھپ کر حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کرتی تھیں۔ لیکن اس وقت آپ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن سرورِ کونین تاجدارِ مدینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر حضرت دحیہ قلبی پر پڑی۔ آپؐ نے حضرت دحیہ قلبی کے چہرہ کو دیکھا کہ اتنا حیسن نوجوان ہے۔ آپ نے رات کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی؛ یا اللہ اتنا خوبصورت نوجوان بنایا ہے، اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے، اسے مسلمان کر دے، اتنے حسین نوجوان کو جہنم سے بچا لے۔ رات کو آپ نے دعا فرمائی، صبح حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ 
حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ کہنے لگے؛ اے اللہ کے رسول ! بتائیں آپؐ کیا احکام لے کر آئے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر توحید و رسالت کے بارے میں حضرت دحیہ قلبی کو بتایا۔ حضرت دحیہ نے کہا؛ اللہ کے نبی میں مسلمان تو ہو جاؤں لیکن ایک بات کا ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے ایک گناہ میں نے ایسا کیا ہے کہ آپ کا اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا؛ اے دحیہ بتا تونے کیسا گناہ کیا ہے؟ تو حضرت دحیہ قلبی نے کہا؛ یا رسول اللہ میں اپنے قبیلے کا سربراہ ہوں۔ اور ہمارے ہاں بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کیا جاتا ہے۔ میں کیونکہ قبیلے کا سردار ہوں اس لیے میں نے ستر گھروں کی بیٹیوں کو زندہ دفن کیا ہے۔ آپ کا رب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اسی وقت حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر ہوئے؛ 
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اسے کہیں اب تک جو ہو گیا وہ ہو گیا اس کے بعد ایسا گناہ کبھی نہ کرنا۔ ہم نے معاف کر دیا ۔
حضرت دحیہ آپ کی زبان سے یہ بات سن کر رونے لگے۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ اب کیا ہوا ہے؟ کیوں روتے ہو ؟ حضرت دحیہ قلبی کہنے لگے؛ یا رسول اللہ، میرا ایک گناہ اور بھی ہے جسے آپ کا رب کبھی معاف نہیں کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا دحیہ کیسا گناہ ؟ بتاؤ ؟ 
حضرت دحیہ قلب فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ، میری بیوی حاملہ تھی اور مجھے کسی کام کی غرض سے دوسرے ملک جانا تھا۔ میں نے جاتے ہوئے بیوی کو کہا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کی پرورش کرنا اگر بیٹی ہوئی تو اسے زندہ دفن کر دینا۔ دحیہ روتے جا رہے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ میں واپس بہت عرصہ بعد گھر آیا تو میں نے دروازے پر دستک دی۔ اتنے میں ایک چھوٹی سی بچی نے دروازہ کھولا اور پوچھا کون؟ میں نے کہا: تم کون ہو؟ تو وہ بچی بولی؛ میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں۔ آپ کون ہیں؟ دحیہ فرمانے لگے؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، میرے منہ سے نکل گیا: اگر تم بیٹی ہو اس گھر کے مالک کی تو میں مالک ہوں اس گھر کا۔ یا رسول اللہ! میرے منہ سے یہ بات نکلنے کی دیر تھی کہ چھوٹی سی اس بچی نے میری ٹانگوں سے مجھے پکڑ لیا اور بولنے لگی؛ بابا بابا بابا بابا آپ کہاں چلے گئے تھے؟ بابا میں کس دن سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ حضرت دحیہ قلبی روتے جا رہے ہیں اور فرماتے ہیں؛ اے اللہ کے نبی! میں نے بیٹی کو دھکا دیا اور جا کر بیوی سے پوچھا؛ یہ بچی کون ہے؟ بیوی رونے لگ گئی اور کہنے لگی؛ دحیہ! یہ تمہاری بیٹی ہے۔ یا رسول اللہ! مجھے ذرا ترس نہ آیا۔ میں نے سوچا میں قبیلے کا سردار ہوں۔ اگر اپنی بیٹی کو دفن نہ کیا تو لوگ کہیں گے ہماری بیٹیوں کو دفن کرتا رہا اور اپنی بیٹی سے پیار کرتا ہے۔ حضرت دحیہ کی آنکھوں سے اشک زارو قطار نکلنے لگے۔ یا رسول اللہ وہ بچی بہت خوبصورت، بہت حیسن تھی۔ میرا دل کر رہا تھا اسے سینے سے لگا لوں۔ پھر سوچتا تھا کہیں لوگ بعد میں یہ باتیں نہ کہیں کہ اپنی بیٹی کی باری آئی تو اسے زندہ دفن کیوں نہیں کیا؟ میں گھر سے بیٹی کو تیار کروا کر نکلا تو بیوی نے میرے پاؤں پکڑ لیے۔ دحیہ نہ مارنا اسے۔ دحیہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ 
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ میں نے بیوی کو پیچھے دھکا دیا اور بچی کو لے کر چل پڑا۔ رستے میں میری بیٹی نے کہا؛ بابا مجھے نانی کے گھر لے کر جا رہے ہو؟ بابا کیا مجھے کھلونے لے کر دینے جا رہے ہو؟ بابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟ دحیہ قلبی روتے جاتے ہیں اور واقعہ سناتے جا رہے ہیں۔ یا رسول اللہ ! میں بچی کے سوالوں کاجواب ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ پوچھتی جا رہی ہے بابا کدھر چلے گئے تھے؟ کبھی میرا منہ چومتی ہے، کبھی بازو گردن کے گرد دے لیتی ہے۔ لیکن میں کچھ نہیں بولتا۔ ایک مقام پر جا کر میں نے اسے بٹھا دیا اور خود اس کی قبر کھودنے لگ گیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دحیہ کی زبان سے واقعہ سنتے جارہے ہیں اور روتے جا رہے ہیں۔ میری بیٹی نے جب دیکھا کہ میرا باپ دھوپ میں سخت کام کر رہا ہے، تو اٹھ کر میرےپاس آئی۔ اپنے گلے میں جو چھوٹا سا دوپٹہ تھا وہ اتار کر میرے چہرے سے ریت صاف کرتے ہوئے کہتی ہے؛ بابا دھوپ میں کیوں کام کر رہے ہیں؟ چھاؤں میں آ جائیں۔ بابا یہ کیوں کھود رہے ہیں اس جگہ؟ بابا گرمی ہے چھاؤں میں آ جائیں۔ اور ساتھ ساتھ میرا پسینہ اور مٹی صاف کرتی جا رہی ہے۔ لیکن مجھے ترس نہ آیا۔ آخر جب قبر کھود لی تو میری بیٹی پاس آئی۔ میں نے دھکا دے دیا۔ وہ قبر میں گر گئی اور میں ریت ڈالنے لگ گیا۔ بچی ریت میں سے روتی ہوئی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرے سامنے جوڑ کر کہنے لگی؛ بابا میں نہیں لیتی کھلونے۔ بابا میں نہیں جاتی نانی کے گھر۔ بابا میری شکل پسند نہیں آئی تو میں کبھی نہیں آتی آپ کے سامنے۔ بابا مجھے ایسے نہ ماریں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ریت ڈالتا گیا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بھی ترس نہیں آیا۔ میری بیٹی پر جب مٹی مکمل ہو گئی اور اس کا سر رہ گیا تو میری بیٹی نے میری طرف سے توجہ ختم کی اور بولی؛ اے میرے مالک میں نے سنا ہے تیرا ایک نبی آئے گا جو بیٹیوں کو عزت دے گا۔ جو بیٹیوں کی عزت بچائے گا۔ اے اللہ وہ نبی بھیج دے بیٹیاں مر رہی ہیں۔ پھر میں نے اسے ریت میں دفنا دیا۔ حضرت دحیہ قلبی رضی اللہ عنہ واقعہ سناتے ہوئے بے انتہا روئے۔ یہ واقعہ جب بتا دیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اتنا رو رہے ہیں کہ آپؐ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے گیلی ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا؛ دحیہ ذرا پھر سے اپنی بیٹی کا واقعہ سناؤ۔ اس بیٹی کا واقعہ جو مجھ محمد کے انتظار میں دنیا سے چلی گئی۔ آپؐ نے تین دفعہ یہ واقعہ سنا اور اتنا روئے کہ آپ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رونے لگ گئے اور کہنے لگے؛ اے دحیہ کیوں رلاتا ہے ہمارے آقا کو؟ ہم سے برداشت نہیں ہو رہا۔ آپؐ نے حضرت دحیہ سے تین بار واقعہ سنا تو حضرت دحیہ کی رو رو کر کوئی حالت نہ رہی۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ اسلام حاضر ہوئے اور فرمایا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! اللہ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم! دحیہ کو کہہ دیں وہ اُس وقت تھا جب اس نے اللہ اور آپؐ کو نہیں مانا تھا۔ اب مجھ کو اور آپ کو اس نے مان لیا ہے تو دحیہ کا یہ گناہ بھی ہم نے معاف کر دیا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی کفالت کی، انہیں بڑا کیا، ان کے فرائض ادا کیے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہو گا جس طرح شہادت کی اور ساتھ والی انگلی آپس میں ہیں. 
۔
جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اس کی یہ اہمیت ہے تو جس نے تین یا چار یا پانچ بیٹیوں کی پرورش کی اس کی کیا اہمیت ہو گی؟ 
بیٹیوں کی پیدائش پر گھبرایا نہ کریں انہیں والدین پر بڑا مان ہوتا ہےاور یہ بیٹیاں اللہ کی خاص رحمت ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی کہ موجودہ دور کے اسلامی ممالک، درحقیقت کتنے "اسلامی" ہیں؟بڑے حیرت کی بات ہے

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی کہ موجودہ دور کے اسلامی ممالک، درحقیقت کتنے "اسلامی" ہیں؟

جب انہوں نے یہ جانچنا چاہا کہ کون سے ممالک اسلام کے ریاستی اور سماجی اصولوں پر عمل کرتے ہیں، تو حیران کن طور پر یہ انکشاف ہوا کہ جو ممالک عملی زندگی میں اسلامی اصولوں پر کاربند ہیں — وہ دراصل "مسلمان ممالک" نہیں ہیں۔

تحقیق میں یہ بات سامنے آئی:

👉 دنیا میں سب سے زیادہ اسلامی اصولوں پر عمل کرنے والا ملک نیوزی لینڈ ہے۔
اس کے بعد لکسمبرگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک اور ساتویں نمبر پر کینیڈا آتا ہے۔

جبکہ
👉 ملائیشیا 38ویں، کویت 48ویں اور بحرین 64ویں نمبر پر ہیں۔
اور حیران کن بات یہ ہے کہ
👉 سعودی عرب 131ویں نمبر پر ہے،
جبکہ بنگلہ دیش بھی سعودی عرب سے نیچے آتا ہے۔

یہ تحقیق "گلوبل اکانومی جرنل" میں شائع ہوئی تھی۔


اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا:

🔹 مسلمان افراد نماز، روزہ، سنت، قرآن، حدیث، حجاب، داڑھی اور لباس پر تو بہت زور دیتے ہیں،
مگر ریاستی، سماجی اور تجارتی زندگی میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔

مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی تقاریر، وعظ، نصیحتیں سنی جاتی ہیں،
لیکن آج تک کوئی بھی مسلم ملک دنیا کا بہترین، منصفانہ اور ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکا۔

ایک سادہ حساب کے مطابق:
👉 ایک عام مسلمان نے گزشتہ 60 سالوں میں تقریباً 3000 جمعہ کے خطبے سنے ہوں گے،
مگر پھر بھی سماجی انصاف اور عدل میں مسلمان دنیا سب سے پیچھے ہے۔


ایک چینی تاجر کا بیان:

"مسلمان تاجر ہمارے پاس آکر جعلی اور نقلی چیزیں بنانے کا آرڈر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر مشہور کمپنی کا لیبل لگا دو۔
لیکن جب ہم انہیں کھانے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں: ’یہ حلال نہیں ہے، میں نہیں کھاؤں گا۔‘
تو سوال یہ ہے: کیا جعل سازی اور دھوکہ دہی حلال ہے؟"


ایک جاپانی نومسلم کہتا ہے:

"میں نے مغربی ممالک میں غیر مسلموں کو اسلامی اصولوں پر عمل کرتے دیکھا ہے،
اور مشرقی ممالک میں اسلام دیکھا ہے، مگر مسلمان نہیں دیکھے۔
الحمد للہ! میں نے اس فرق کو پہچان کر اسلام قبول کیا۔"


اسلام صرف نماز اور روزے کا نام نہیں ہے،
بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،
جس کا اظہار ہمارے باہمی رویے، معاشرت، کاروبار اور انصاف میں بھی ہونا چاہیے۔


نیکی کا ظاہر ہونا، نجات کی ضمانت نہیں:

کوئی شخص جلدی جلدی نماز پڑھے اور اس کے ماتھے پر نشان ہو،
یہ ضروری نہیں کہ وہ اللہ کی نظر میں نیک ہو
یہ ریا کاری (دکھاوا) بھی ہو سکتا ہے۔


رسول اللہ ﷺ کا فرمان:

"اصل مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز، روزہ، حج اور صدقے کے ساتھ آئے گا،
مگر اس نے کسی پر ظلم کیا ہوگا،
کسی کی عزت پامال کی ہوگی،
کسی کا مال غصب کیا ہوگا،
تو اس کے نیک اعمال مظلوموں کو دے دیے جائیں گے،
اور جب اعمال ختم ہو جائیں گے،
تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال کر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔"


اسلام کے دو بنیادی حصے:

  1. ایمان — یعنی زبان سے کلمہ پڑھنا۔
  2. احسان — یعنی کردار، سلوک اور سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی۔

جب تک یہ دونوں اکٹھے نہیں ہوں گے، اسلام مکمل نہیں ہوگا۔
اور یہی نامکمل پن آج ہر مسلم ملک میں نظر آتا ہے۔


🧭 ذاتی عبادات — جیسے روزہ، نماز — اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہیں،
مگر سماجی انصاف، حقوق کی ادائیگی اور دیانتداری — یہ معاشرے کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہے۔

اگر مسلمان اپنے شخصی اور اجتماعی رویے میں اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کریں گے،
تو مسلم معاشرہ زوال پذیر اور ذلت کا شکار ہوتا رہے گا۔


لارڈ برنارڈ شا کا قول:

"اسلام سب سے بہترین مذہب ہے،
اور مسلمان اس کے سب سے بدترین پیروکار ہیں۔"


📿 اللہ تعالیٰ ہمیں صرف اسلام کا دعوے دار نہ بنائے،
بلکہ اسلام پر عمل کرنے والا سچا مسلمان بنائے — آمین۔ 🤲


ایران اسرا ئیل جنگ میں یقیناً ہم اسر ائیل کو تباہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں

ایران اسرا ئیل جنگ میں یقیناً ہم اسر ائیل کو تباہ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں.

یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے ایرانی روافض  نے پچھلی چند  دہائیوں میں 20 لاکھ سے زائد اہل السنہ کا قتل عام کیا، اہل السنہ کی قوت کو ریزہ ریزہ کر دیا جس کی وجہ سے آج اسرا ئیل اتنا طاقتور بن گیا،اگر ایران اتنا اسلام کا ہمدرد ہوتا تو اس وقت اسرا ئی ل کو نشانہ بناتا بجائے حمص و حلب و درعا و ادلب و یمن و اعراق  کے اہل السنہ پہ خون کی ہولی کھیلنے کے،جب اپنے سر پہ آئی تو اپنے دفاع کیلئے بڑے بڑے میزائل نکل آئے،اس ظالم نے صرف اپنے خمینی جعفری رافضی دین کے نفاذ کیلئے مبارک دین اسلام و اہل السنہ کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا اتنا بڑا نقصان اسرا ئیل نہ پہنچا سکا ،ان کی آج بھی ویڈیوز موجود ہیں جن میں کہتے تھے ہم مکہ پہ جاکر قابض ہوجائیں گے،خانہ کعبہ کو گرائیں گے نعوذباللہ اور سنیوں کا خاتمہ کریں گے ،اسر ا ئیل تو القدس کو گرانا چاہتا ہے لیکن ایرانی روفض نے مکہ مکرمہ کو گرانے کے عزائم کیے تھے جسے رب نے ناکام بنایا الحمدللہ 

اس کے علاوہ یہ بدبخت قرآن مقدس کو مکمل نہیں سمجھتے کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی مرضی سے بدل دیا تھا نعوذباللہ،یہ بدبخت شیخین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے منکر ہیں، انکی نماز الگ ہے، ان کا کلمہ الگ  ہے،کہاں سے مسلمان و اسلامی ہوگئے..... ؟؟؟ یہ دینِ اسلام ہے یہاں یا تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم رہیں گے یا پھر راوفض اور یقینا روافض نہیں رہ سکتے کیوں کہ قیامت کی صبح تک اسلام ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم کا ہے 

امام ابن تیمیہ رح کے بقول روافض یہو د کے گدھے ہیں جن کے ذریعے وہ اسلام و اہل السنہ کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کا قتل عام کرتے ہیں، یقینا کبھی گدھا بھی غصے میں آکر اپنے آقا کو پچھلی ٹانگیں مار دیتا ہے کبھی آقا بھی ڈنڈا لے کر اپنے گدھے کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے یہ تو چلتا رہتا ہے 

آج کچھ گدھے دماغ ایران اسر ا ئیل جنگ کو اسلام و عقیدہ کی جنگ کہ رہے ،اسلام و عقیدہ کی جنگ میں مدد و نصرة رب سے مانگی جاتی ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ،نہ کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم و امی عائشہ رضی اللہ عنھا و دیگر صحابہ کرام کو گالیاں بک کر نعوذباللہ 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر شخصیت و مبارک صحابی ہیں جن کی رائے اور مشورے کو رب تعالی قرآن بنا دیتے تھے (قربان جاؤں میں ان کی ناموس پہ) آج قاتل عمر ابولولو فروز ملعون کا مزار ایران میں ہے،اس ملعون کو حکومتی سرپرستی و اعزاز و تحفظ حاصل ہے کہ اس نے رب کے محبوب عمر کو ممبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہ خنجروں کے وار سے شہید کیا تھا، لعنت ہو رب کی ایسی سرزمین و حکومت  پہ جہاں اس ملعون کا مزار ہے 

یہ رب متعال کا وعدہ ہے وہ ایک متعین وقت تک ظالم کو چھوٹ دیتا ہے لیکن اس متعین گھڑی کے بعد اس پہ اپنے قہر کی صورت میں بڑا ظالم مسلط کر دیتا ہے

آج امت کے کچھ دیندار کی  یہی جہالت ہے ،جدھر نفس گھماتا ہے سب کچھ ماضی بھول کر وہاں گھوم جاتی ہے 

ہم نے اتنا کہا کہ " جنگ میں رب العالمین سے مدد مانگی جاتی ہے نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنھم سے،کچھ بدعقیدہ حضرات کو برا لگ گیا،ایسے بدعقیدہ حضرات کی رب اصلاح فرمائے جن کے ہاں توحید و ناموس صحابہ کرام رض و ناموس امی عائشہ رضی اللہ عنھا اتنی سستی ہے " اگر اصلاح نہیں تو بھاڑ میں جائیں ہماری پروفائل پہ کیا کررہے ہو.......

جان لو ہماری دوستی و دشمنی کی بنیاد توحید ہے عقیدہ الولاء والبراء ہے الحمدللہ

اگر آپ چاہتے ہیں صحت ۔۔۔۔

.

💢 *اگر آپ چاہتے ہیں ....👇🏻*

*صحت :*
پیر اور جمعرات کو روزہ رکھیں۔

*تندرستی :*
ایام بیض ( ہر قمری مہینے کی 13، 14، 15 تاریخ) کے روزے رکھیں۔

*خوشی :* 
روزانہ قرآن کی تلاوت کریں۔

*چہرے کا نور :* 
رات کے قیام میں چاہے دو رکعت ہی سہی
اطمینان قلب اللہ کا کثرت سے ذکر کریں
مال اور اولاد کثرت سے استغفار کریں۔

*غم کا خاتمہ:*
کثرت سے دعا و استغفار کریں۔

*مصیبتوں کا خاتمہ :*
لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیں۔

*برکت :*
زیادہ سے زیادہ  نبی کریم ﷺ پر درود بھیجیں۔

*بلا کا دفع ہونا:* 
صدقہ دیں چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔

*اللہ کی محبت :*
والدین سے حسن سلوک کریں۔

*اللہ کی معافی :*
جس نے تم پر ظلم کیا اسے معاف کرو۔

*اللہ کی رحمت :*
زمین والوں پر رحم کرو

*اللہ کی رضا اور جنت :*
وقت پر توبہ اور نماز پڑھو۔

*حسن خاتمہ :*
لا إله إلا الله کا کثرت سے ورد کرو

کہیں آپ اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ پیشکش/ م۔ م۔ ق۔ ن

کہیں آپ اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟ 
پیشکش/ م۔ م۔ ق۔ ن 

نرگسیت ایک خوف ناک مرض
نرگسیت کے شکار ہوں تو کسی سائیکالوجسٹ سے ضرور علاج کرائیں
نرگسیت کیا ہے؟
اپنی اہمیت کا حد سے زیادہ احساس یا اپنی قابلیت اور صلاحیت سے زیادہ اہمیت کی تمنا کرنا نرگسیت کہلاتا ہے ۔
 یہ ایک بے حد خوف ناک بیماری ہے،جس کو نارسیسٹک پرسنیلیٹی ڈس آرڈر (این پی ڈی) کہا جاتا ہے۔یعنی یہ خیال ہونا کہ آپ بہت اہم ہیں۔
آپ اس ڈس آرڈر کے شکار ہیں یا نہیں؟اس کو سمجھنے کے لیے آپنے آپ میں غور کرنا ہوگا کہ آپ میں یہ عوارض قبیحہ تو نہیں پائے جاتے ہیں۔اگر ان میں سے دو فاسد عوارض ہیں تو فورا کسی سائیکائٹرسٹ (Psychiatrist سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ورنہ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ یہ مرض بڑھاپا کو بے حد مشکل بنا دیتا ہے۔ہر قریبی انسان کو اس بوڑھے انسان سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔
نرگسیت کے عوارض فاسدہ
ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی کے مطابق اس بیماری کو پرکھنے کے نو نکات ہیں:
1- اپنی اہمیت کا انتہائی احساس
2- اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا
3ـ سراہے جانے کی حد سے زیادہ طلب
4- ہمدردی کے احساس کی کمی
5- ہر ایک پر رشک کرنا
6- مغرور اور گھمنڈی رویے رکھنا
7ـ ہر جگہ نمایاں رہنے کی تڑپ
8- تصویر میں بنے رہنے کی لت
9- کسی کی بات مکمل سمجھنے سے پہلے قطع کلام کرتے ہوئےاپنی بات شروع کر دینے کی لت۔
(رپورٹ بی بی سی)
یہ نو عوارض ہیں ،جن میں سے دو عوارض کسی میں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوپر نرگسیت کا حملہ ہو چکا ہے۔اسے جلد اس خوف ناک بیماری کے متعلق بے سنجیدہ ہو جانا چاہیے۔اگر دو سے زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں تو اسے سائکا ئٹرسٹ کی مکمل نگرانی کی سخت ضرورت ہے۔
اس بیماری کا اثر اس مریض کی سماجی زندگی پر پڑتا ہے۔اس مریض کی اولاد اور اس کے قریبی متعلقین پر بھی اس کے نرگسی رویوں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان اس مریض کے بڑھاپے اور بیکاری کی زندگی پر پڑتا ہے۔ایسے مریض سے ہر شخص بلکہ اس کے قریب ترین لوگوں کو شدید نفرت ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے اس کا بڑھاپا بے حد مشکل بھرا ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خوف ناک بیماری سے محفوظ رکھے۔آمین۔

انسانیت پر ظلم کا عجیب کھیل

دو دن میں 50,000 مسلمانوں کا قتل !!!
‏اٹھایئس سال قبل اگست 1995 کاواقعہ ھے

حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔‏سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔ 

ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:
"گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا. جو شہر سے باہر جانا چاہے گا اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔"
‏زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔ 

شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے ‏زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان. جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔ 

ایک طرف سے آواز آئی فائر۔

سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بہ یک وقت گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں
‏برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ ‏کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ 

ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔ 

اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں اور معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے۔ ‏جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئیں۔ 

شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑے بڑے گڑھے کھود کر پانچ پانچ سو، ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ ‏نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔

لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔‏انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے ‏پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔ 

یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں، نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا ‏دورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995 کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔
‏اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا

نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں
‏نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے ‏بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔ 

اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج ‏نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔ 

اگست  1995 سے اگست 2023 تک اٹھائیس سال گذر گئے۔
‏آج بھی مہذب دنیا اس داغ کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین آج تک جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔ 

جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے
‏پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔ 

گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی ‏مانگی گئیں۔ مگر ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

اب تو یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام یاد نہیں۔

غیروں سے کیا گلہ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی ‏واقعہ ہوا بھی تھا؟
 پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟ یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو
‏ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔
اپنے دوستوں کو روزانہ پھول ضرور بھیجیں مگر خدارا ایسی تحریریں ضرور بھیجیں جس سے ھمارے ایمان اور عمل میں اضافہ ھوتا ھو درخواست ہے کہ دس دوستوں کو بھیج دیں
آخری بات
اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو اور اپنی جنگیں اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہیں

صراط مستقیم

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم