Mar
Tuesday,
25,

ہندستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں

"گاہے گاہے باز خواں"
(ہندستان میں مسلمانوں کی 
موجودہ صورت حال اور حضرت 
تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئیاں)
ملک کی ٓازادی میں علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا جو کردار رہا ہے وہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے۔آرایس ایس اور کٹر ہندو تنظیمیں لاکھ تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش کریں لیکن حق کے متلاشی کو اصل حقیقت تک رسائی ہو ہی جاتی ہے۔ملک کی آزادی کے آخری دور کی جدوجہد میں علمائے دیوبند کا نام سر فہرست ہے۔ان علماءمیں قائد کی حیثیت سے شیخ الھند مولانا محمودالحسن دیوبندی ؒ ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اورمولانا عبید اللہ سندھیؒ کا نام آتا ہے۔ان کی قیادت میں علماءو طلبائے دیوبند آزادی ہند کی تحریک چلا رہے تھے ۔ہندوستان کو آزادی تو مل گئی لیکن تقسیم کے ساتھ۔ یعنی پاکستان کے نام سے ایک علاحدہ ملک بھی وجود میں آگیا۔ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری ان ہی علماءکی رہی جنہوں نے بٹوارے کی مخالفت کی تھی۔ چنانچہ ہمیں صرف تصویر کا ایک رخ دکھایا گیا یعنی ہمیں صرف یہ بتایا کہ علمائے دیوبند ملک کے بٹوارے کے مخالف تھے۔ مسلمانوں کے لئے علاحدہ مملکت کا مطالبہ دیندار طبقے کی طرف سے نہیں کیا گیاتھا بلکہ یہ مطالبہ محمد علی جناح کا تھا جو ایک سیکولر آدمی تھے اور مذہب کا نام صرف اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے لیا کرتے تھے۔علماءنے جناح کا ساتھ دینے سے گریز کیا۔ افسوس صد افسوس کہ ہندستان کے مسلمانوں کو صرف آدھا سچ بتایا اور باقی آدھا سچ کسی سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جید علما دیوبند کا ایک بہت بڑا طبقہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں کانگریس سے بدظن تھا. کانگریس کو مسلمانوں کے لئے زہر ہلاہل سمجھتا تھا کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کٹر دشمن ہندوﺅں کا غلبہ تھا لیکن معلوم نہیں کہ کیوں اس تاریخی حقیقت کو ہندستانی مسلمانوں سے چھپایا گیا؟
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جمیعة علماء ہند کو بار بار متنبہ کیا کہ: ہندوﺅں پر بھروسہ کرنا غیردانشمندی ہے۔انگریزوں سے زیادہ ہندو مسلمانوں کے دشمن ہیں. برسراقتدار ہونے کے باوجود انگریز مسلمانوں کے ساتھ کچھ ناکچھ رعایت کا معاملہ کرتے ہیں لیکن اگر یہ ہندو برسراقتدار آگئے تو وہ مسلمانوں کو جڑ سمیت اکھاڑ پھینکیں گے.
خلافت کا معاملہ مسلمانوں کا ایک شرعی مسئلہ ہے لیکن تحریک خلافت کے دوران جو طریقہ کار اختیار کئے گئے نیز تحریک کو گاندھی کے ذریعے اچک لئے جانے کے سبب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تحریک سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔ چناں چہ ایک مجلس میں فرمایا کہ تدابیر کو کون منع کرتا ہے تدابیر کریں مگرحدود شرعیہ میں رہ کرچونکہ مسلمانوں نے تدابیر غیر شرعیہ کو اپنی کامیابی کا زینہ بنایا ہے تو اس صورت میں اول تو کامیابی مشکل ہے اگر ہو بھی گئی تو ہندوﺅں کو ہوگی اور اگر مسلمانوں کو ہوئی توہندو نما مسلمانوں کو ہوگی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ 278) 
 تحریک خلافت کے دوران ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط بنانے کی غرض سے مسلمان بہت سی غیر اسلامی حرکات کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ماتھے پہ قشقے لگائے اور جئے کے کفریہ نعرے بلند کئے۔ ہندوﺅں کی ارتھی کو کندھے دیئے۔ مساجد میں کافروں کو بٹھاکر منبر رسول ﷺ کی بے حرمتی کی۔ رام لیلا کا انتظام کیا. ایک عالم دین نے انکشاف کیا کہ اگر ختم نبوت نہ ہوتی گاندھی مستحق نبوت تھا
 یہ تمام قابل اعتراض امور مولانا کو سخت ناپسند اور ناگوار گزرے. اس لئے آپ کے ملفوظات میں بار بار ان باتوں کی مذمت ملے گی.
(الافادات یومیہ جلد ششم صفحہ109)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مسلمان لیڈروں نے گاندھی کے اقوال کو حجت بنا لیا ہے۔ وہ لیڈر اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ جوں ہی *گاندھی کے منھ سے کوئی بات نکلے اس کو فوراً قرآن و حدیث پر منطبق کردیا جائے.
 فرماتے ہیں:
 اس تحریک میں کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جو کسی مسلمان یا عالم کی تجویز ہو، دیکھئے ہوم رول گاندھی کی تجویز ،بائیکاٹ گاندھی کی تجویز ،کھدر گاندھی کی تجویز، ہجرت کا مسئلہ گاندھی کی تجویز غرض کہ جملہ تجویزیں اس کی ہیں‘ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس نے جو کہا لبیک کہہ کر اس کے ساتھ ہوگئے‘ کچھ تو غیرت آنی چاہئے۔ ایسے بدفہموں نے اسلام کو سخت بدنام کیا ہے۔ سخت صدمہ ہے ‘سخت افسوس ہے‘ اس کی باتوں کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
(الافادات یومیہ جلد اول صفحہ 89-90)
اس سلسلے میں آپ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ سہارن پور میں ایک وعظ ہوا ۔ایک مقرر نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سوراج مل گیا تو ہندو اذان نہ ہونے دیں گے تو کیا بلا اذان نماز نہیں ہوسکتی۔ کہتے ہیں گائے کی قربانی بند کر دیں گے تو کیا بکرے کی قربانی نہیں ہوسکتی‘ کیا گائے کی قربانی واجب ہے۔
 یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرزفکر پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے فرمایاکہ:
اس مقرر کے بیان میں ایک بات باقی رہ گئی، اگر وہ یہ بھی کہہ دیتا تو جھگڑا ہی باقی نہ رہتا کہ اگر ہندوﺅں نے اسلام اور ایمان پر زندہ رہنے نہ دیا تو کیا بغیر اسلام اور ایمان کے زندہ نہ رہیں گے.
یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے دوست نما دشمن ہیں. (الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 86)
ہندو مسلم اتحاد کے جوش میں کچھ مسلمانوں نے مشہور متعصب ہندو لیڈر سردھانند (جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے خلاف شدھی کی تحریک چلائی) کو جامع مسجد دہلی میں لے جا کر اس کا وعظ کروایا.
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ وہ یہ حرکت کر کے منبر رسول ﷺ کی بے ادبی کے مرتکب ہوئے ہیں.
 ۔تحریک خلافت کے دوران ہندوﺅں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی اپنے لیڈروں کی جئے بولا کرتے تھے۔
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لفظ جئے چوں کہ شعار کفر ہے اس لئے مسلمانوں کا یہ فعل بھی شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض تھا۔
(الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 611 )
جو لوگ آپ کی تحریک خلافت میں عد م شمولیت پر اعتراض کرتے تھے آپ انہیں جواب دیتے کہ *اگر تمہاری موافقت کی جائے تو ایمان جائے ہے اس میں حدود شریعت کا تحفظ نہیں.
( الافادات یومیہ جلد چہارم صفحہ 65)
مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہندو مسلمانوں کے اول درجہ دشمن تھے۔ آپ کے ملفوظات میں جہاں کہیں ہندوﺅں کا ذکر آیا ہے آپ نے ان کے لئے سخت ترین الفاظ استعمال کئے ہیں. مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات پر ہندوﺅں سے سخت گلہ شکوہ تھا کہ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑی اور وہ بھی اس میں برابر کے شریک تھے مگر جنگ آزادی کے خاتمے پر وہ نہ صرف انگریزوں سے مل گئے بلکہ انہوں نے مسلمانوں کی مخبری کرکے انہیں پھانسی پر چڑھوادیا. 
۔اسی سلسلے میں فرمایا کہ:
”یہ قوم (ہندو) نہایت احسان فراموش ہے. مسلمانوں کو تو اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ انگریزوں کی خدمت کے صلے میں جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا وہ ظاہر ہے. دیکھو غدر سب کے مشورے سے شروع ہوا جو کچھ بھی ہوا مگر اس پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا. بڑے بڑے رئیس و نواب ان کی (ہندو) بدولت تختہ پر سوار ہوگئے پھر تحریک کانگریس میں مسلمان شامل ہوئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ اس کا صلہ شدھی کے مسئلے سے ادا ہوا۔ آئے دن کے واقعات اسی کے شاہد ہیں کہ ہر جگہ مسلمانوں کی جہاں آبادی مسلمانوں کی قلیل دیکھی پریشان کر دیا مگر ان باتوں کے ہوتے ہوئے بھی بعض بدفہم اور بے سمجھ ان کو دوست سمجھ کر ان کی بغلوں میں گھستے ہیں۔)
الا فاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (529)

اور ایک مجلس میں ہندوﺅں کے اس طرزعمل کے متعلق فرمایا کہ ہندوﺅں کی قوم عالی حوصلہ نہیں ان کے وعدے وعید کا اعتبار نہیں. انگریزوں سے اگر دشمنی کی بنا یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ہیں تو ہندو ان سے زیادہ مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں.
(الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ (493-494)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سگرچہ انگریزوں کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیتے تھے لیکن ہندوﺅں کے مسلم کش رویے کو دیکھتے ہوئے آپ اس قطعی نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندو انگریزوں سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں.
۔ایک مرتبہ فرمایا کہ:
گورے سانپ سے زیادہ زہریلا کالا سانپ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر گورے سانپ کو گھر سے نکال دیاجائے تو کالا تو ڈسنے کو موجود ہے اور جس کا ڈسا ہوا زندہ رہنا ہی مشکل ہے.
 الافاضات یومیہ جلد ششم صفحہ (197)

مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہندوﺅں کے اس وجہ سے مخالف تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ ایک مجلس میں فرمایا کہ 
بعض کفار پر تو مجھے بہت ہی غیض ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق سکھایا۔ شدھی کا مسئلہ اٹھایا. مسلمانوں کو عرب جانے کی آواز اٹھائی. قربانی گاﺅ پر انہوں نے اشتعال دیا. یہ لوگ مسلمانوں کے جانی دشمن ہیں بلکہ ایمان ‘ جان و مال مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔
(الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 150)

۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ:
جب تک ہم کلمہ پڑھتے ہیں تمام غیرمسلم ہمارے دشمن ہیں۔ اس میں گورے کالے کی قید نہیں 
 ۔مولانا اس امر پر حیرت کا اظہار فرماتے کہ
ہندستان میں دو کافر قومیں موجود ہیں پھر کیا بات کہ ایک ہی قوم سے اس قدر دشمنی دوسرے قوم سے کیوں نہیں؟ (الافاضات یومیہ جلد پنجم صفحہ 177)

ایک اور مجلس میں فرمایا:
بعض لوگ کفار کی ایک جماعت کو برا کہتے ہیں اور بعض دوسری کو‘ میں کہتا ہوں دونوں برے ہیں‘ فرق صرف یہ ہے کہ ایک نجاست مرئیہ ہے اور دوسری غیرمرئیہ لیکن ہیں دونوں نجاست. ( ایضاً صفحہ 256)

مولانا کے نزدیک اہل کتاب کی دشمنی اور مشرکین کی دشمنی کے درمیان ایک فرق موجود تھا ۔آپ کے خیال میں اہل کتاب دین کے دشمن نہیں دنیا کے دشمن ہیں گو اس کے ضمن میں وہ دین کی دشمنی بھی کرجاتے ہیں- اس کے مقابلے میں مشرکین دین کے دشمن ہیں. اس کا معیار یہ ہے کہ جس قدر قوت اور سطوت اہل کتاب کو حاصل ہے ‘اگر مشرکین کو حاصل ہوجائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کا بیج تک نہ چھوڑیں۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 83)

 ایک اور موقع پہ فرمایا کہ: 
اگر ہندوﺅں کو انگریزوں کی طرح قوت حاصل ہوتی تو ہندوستان میں ایک بچہ بھی زندہ نہ چھوڑتے۔ 
(الافاضات یومیہ جلد سوم صفحہ 71)
ہندوﺅں کی مسلم دشمنی کو مدنظر مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نتیجے پر پہنچے تھے کہ قیامت آجائے ہندو کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ اور ہمدرد نہیں ہوسکتے۔ (الافاضات یومیہ جلد چہارم صفحہ 638)
( #ایس_اے_ساگر )
Jan
Sunday,
12,

بریلوی مسلک بھائیوں سے تین سوالات

*میرے استاذ محترم مفتی یوسف صاحب تاولی حفظہ اللہ نے دوران درس ایک واقعہ سنایا بغور پڑھیں* 
ایک مرتبہ میرا صابر کلیریؒ کے مزار پر جانا ہوا وہاں متولی حضرات کو جب پتہ چلا دیوبند سے ایک بہت بڑے مفتی صاحب آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے میرا پر جوش استقبال کیا، حضرت کی قبر پر گیا ایصال ثواب کر کے جب واپس ہونے لگا تو متولی صاحب نے بڑی عاجزی و انکساری اور احترام کے ساتھ درخواست کی حضرت برکتًا ہمارے دسترخوان پر تشریف لے آئیں، میں نے بخوشی قبول کیا، 
حضرت نے آگے فرمایا جب میں آنے لگا تو میں نے ان متولی صاحب سے تین سوال کئے، 
سوال نمبر: ۱۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تھی؟    
ان صاحب نے جواب دیا جی بالکل اور جنکا یہ عقیدہ نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ 
سوال نمبر: ۲۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی؟ 
ان صاحب نے پھر وہی جواب دیا، 
سوال نمبر: ۳۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کل قیامت کے دن اپنے امتیوں کے لئے سفارش کرینگے؟ 
ان صاحب نے بڑی تاکید کے ساتھ وہی جواب دیا، 

آگے حضرت فرماتے ہیں  میں نے ان سے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو عالم الغیب ہیں پھر وحی کی کیا ضرورت تھی؟،
آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو حاضر و ناظر ہیں پھر معراج کی کیا ضرورت تھی؟، 
آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو خود مختار ہیں تو پھر سفارش کی کیا ضرورت ہے؟، 
حضرت نے فرمایا وہ شخص ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ 
یہ تین عقائد ایسے ہیں جن میں بریلوی حضرات نے بہت ہی زیادہ افراط سے کام لیا ہے،
اور ہمارے بزرگوں نے ان کے غلط عقائد کو چٹکیوں میں تار تار کر دیا۔

🖋️✏️
Jan
Thursday,
2,

اقبال بیت بازیقسط نمبر

اقبال بیت بازی
قسط نمبر 1

(الف) 

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا


آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں. 

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

آئین جواں مرداں حق گوئی وبیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی 

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں 
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر 

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شائد کہ ترے دل میں اتر جاے مری بات


الفاظ ومعانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر ونظر کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں

اے شیخ بہت اچھی مکتب کی فضا لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی

امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہوتو لاحاصل
نہ زور حیدری تجھ میں، نہ استغناے سلمانی

اسی روزو شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
Dec
Sunday,
29,

*قلتِ تنخواہ کا قہر اور مدارس سے بدکتے فضلاء

قلتِ تنخواہ کا قہر اور مدارس سے بدکتے فضلاء

*ایک شاگرد سے ملاقات*

گزشتہ دنوں ممبئی میں اپنے ایک شاگرد سے ملاقات ہوئی، یہ مولوی فرقان تھے، دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور مرکزالمعارف ممبئی سے سند یافتہ- یہ دارالعلوم عزیزیہ میرا روڈ میں میرے پاس متعدد کتابیں پڑھ چکے تھے، میں کبھی کبھی "گلزارِ دبستاں "کا جملہ "ملاّ فرقان خود را خراب کرد "ان پر چسپاں کرتا، تو مسکراتے اور مزہ لیتے- سکڑا ہوا چہرہ، چھوارے سا بدن، داڑھی کے عنوان سے چند بال ٹھوڑی سے لٹکے ہوے- پہلے کی طرح اب بھی چھوئی موئی ہی تھے، مجھے دیکھ کر کھل اٹھے، آؤ بھگت اور سلام و نیاز- ایک عرصے کے بعد انہیں دیکھا تو میری خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہ تھا، علیک سلیک کے بعد حال احوال کا تبادلہ ہوا تو پتہ چلا کہ ممبئی کی کسی ایمبیسی میں مترجم کا کام کر رہے ہیں- میں نے تنخواہ معلوم کی تو انہوں نے بتایا: تیس ہزار روپے - مجھے بڑی مسرت ہوئی، اکہرے جسم اور بے گوشت چہرے کے باوجود اطمینان کی چمک ان کی پیشانی پر نمایاں تھی- میں نے پوچھا کہ بیٹے! تم تو اچھی صلاحیت کے مالک تھے، کتب فہمی تمہاری مثالی تھی، حاضر باشی میں بھی اساتذہ میں تمہارے چرچے تھے، اتنی اچھی استعداد اور خدمت ایمبیسی میں؟

*وحشت ہے مجھے قلتِ تنخواہ سے یارو!*

کہنے لگا: مدارسِ اسلامیہ میں ہمارے لیے گنجائش ہی کہاں ہیں؟ خدمات زیادہ، مگر تنخواہ اس قدر کم کہ ہم جیسے غریبوں کا گزر بسر ہی ممکن نہیں- مجھے سمجھ سے پرے ہے کہ مدارس والے تنخواہیں کیوں نہیں بڑھاتے؟ ابھی تک وہی فرسودہ فکر اور وہی پٹا پٹایا نظام - اب تو ہر چیز بدل گئی، مدارس کا زاویۂ فکر بھی تبدیل ہونا چاہیے-

*مساجد بھی مدارس کے شانہ بشانہ*

اربابِ مدارس کی دیکھا دیکھی مساجد نے بھی اپنا قبلہ اب تک درست نہیں کیا، وہی پرانی روش اور وہی کج ادائیاں- تنخواہیں بے حد قلیل، ائمہ کا اکرام ندارد- آزار، جھڑکیاں اور قید و بند ان کا مقدر- مسجدیں بڑی خوب صورت، تاج محل کو ٹکر دیتی ہوئی، حسن و دل کشی میں لازوال، مگر ائمہ کی یافت وہی مختصر، اونٹ کے منہ میں زیرے جیسی- بے چارے ائمہ اپنی علمیت بھی ضائع کریں، تقریریں بھی ٹرسٹیوں کے مطابق ہوں، زندانی کیفیت میں شب وروز بھی گزاریں، معاشی بہتری کے لیے دوسری راہیں بھی مسدود، بایں ہمہ تنخواہ کا وہ معیار کہ:

آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

کی مصداق- بھلا بتائیے، ایسے میں امامت کی ہمت کون کرے اور جرأتِ رندانہ کہاں سے لاے؟ 

*مدارس مجاھدہ گاہ ہیں، معیشت گاہ نہیں*

میں اپنے عزیز کی اس تقریر پر دنگ تھا، میں نے کہا: بیٹے! تم تو جانتے ہی ہو کہ دنیا کو مؤمن کا "قیدخانہ "کہا گیا ہے، بعض احادیث میں اس پر "مسافر خانے "کا بھی اطلاق ہوا ہے، قید خانہ ہو یا مسافر خانہ، دل لگانے کی جگہ نہ یہ ہے، نہ وہ- امتِ مسلمہ "امتِ مجاھدہ "بھی ہے، مدارسِ اسلامیہ اور مساجد اساتذہ اور ائمہ کو یہی مجاھدے سکھاتے ہیں، قلیل تنخواہوں کے پیچھے ان کا یہی نقطۂ نظر کار فرما ہے، عہدِ نبوی سے لے کر قریب کے ماضئ مرحوم تک کے اکابر محض اشاعتِ اسلام کے لیے دینی اداروں سے وابستہ رہے، دنیا ان کے پیچھے ناک رگڑتی ہوئی آئی، مگر انہوں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا، لہذا قلتِ تنخواہ کا عذر "عذرِ لنگ "سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا-

*مجاھدے کی نوعیتیں بدل گئیں تو تنخواہوں کی نوعیتیں تبدیل کیوں نہ ہوں؟*

کہنے لگا: اب تو سب کچھ بدل چکا، ماضی کی زمین اور کل کا آسمان اپنا وجود کھو بیٹھا ہے، تبدیلی کی لہر نے جن جہانوں کو زیر و زبر کیا ہے، مدارس بھی اس سے اچھوتے نہیں رہے، مثلاً دیکھیے! پچھے ادوار میں طلبہ کی پٹائی کا بڑا ماحول تھا، اساتذہ ہر وقت عصا بدست اور "کف در فضا " رہتے، تنبیہ کے لیے دست و عصا کا استعمال ایک عام سی بات تھی، والدین کا ذہن بھی یہی تھا کہ تہدید و ضربت طلبہ کی استعداد کو جگاتی اور فنکاری کو ابھارتی ہے، اسی لیے داخلے کے وقت بچوں کے ذمے دار کہتے کہ ہڈی ہماری ہے اور کھال آپ کی- لیکن اب مار دھاڑ بالکل بند ہے، طلبہ جسمانی آزار سے مکمل محفوظ ہیں، اساتذہ کو سخت تاکید ہے کہ حرب و ضرب نہیں چلے گی، گوشِ شنوا نہ رکھنے والے مدرّسین کو فوراً سے پیش تر "باب الخروج "تک دکھا دیا جاتا ہے- دوسری مثال بھی لے لیجیے! پچھلے زمانے میں طلبہ کی صلاحیت سازی کے لیے مختلف علوم و فنون کی اہم کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، اب وہ کتابیں "طاقِ نسیاں "کی یادگار بن چکی ہیں، ان کتابوں کے اخراج کی وجہ یہی بیان کی گئی کہ طلبہ کی برق طبعی پہلے جیسی نہیں رہی، یہ کمزور ہو گئے ہیں، اساتذہ بھی عدمِ مہارت کے سبب ان کتابوں کی تدریس کی اہلیت کھو بیٹھے - آج صدرا اور شمس بازغہ کا نام کتنوں کو معلوم ہے؟ اگر معلوم بھی ہو تو ان کی فنی وابستگی کون بتا سکتا ہے؟ جب اتنی تبدیلیاں نصابِ تعلیم وغیرہ میں واقع ہو گئیں اور اساتذہ و طلبہ کو مجاھدے سے بچا لیا گیا تو تنخواہ بے چاری نے کیا قصور کیا ہے کہ یہ "بَونی " بڑھتی ہی نہیں، اس کا نصاب آسانیاں پیدا کرنے سے آج بھی قاصر ہے، اب بھی چار ہزار، پانچ ہزار اور چھ ہزار روپے کو "معقول تنخواہ "نام زد کیا جا رہا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟

*جدید باصلاحیت فضلا اسی لیے بھاگ رہے ہیں*

سلسلۂ کلام میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ تنخواہ کے تئیں مدارس اور مساجد کے قدامت پسندانہ رجحان نے نوجوان فضلا کو پریشان کر رکھا ہے، کم زور اور متوسط استعداد کے حاملین نانِ شعیر پر ہی قناعت کر لیتے ہیں، کیوں کہ ان کا دائرۂ فکر و عمل آگے بڑھنے نہیں دیتا، وہ اپنی بے مائیگی، گھریلو پریشانی، تنگ دست پس منظر اور ناگفتہ بہ افلاس کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، ان کے پاس قناعت پسندی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا، جب کہ باصلاحیت فضلا ان مقامات کی خدمت سے گریزاں رہتے ہیں اور کثیرالمشاہرہ ادارے کی طرف رجوع ان کا ہدف ہوتا ہے- باتوں کا سلسلہ یہیں تک چلا تھا کہ ہمارے راستے جدا ہوگئے، سلامِ وداع کے بعد وہ اپنی منزل کی جانب، میں اپنے مستقر کی طرف-

*فضلاے مدارس حکومتی اداروں کی پناہ میں*

 اپنی منزل کی طرف میں جوں جوں بڑھ رہا تھا، عزیز مکرم کے خیالات ذہن میں گردش کر رہے تھے، دیر تک میں اسی سوچ میں غرق رہا کہ ممتاز صلاحیتیں اگر اسی طرح مدارس اور مساجد سے بھاگتی رہیں اور امت کی قیادت مفقودالاستعداد علما کے حصے میں آنے لگی تو اس قوم کا کیا ہوگا؟

دیکھا یہ گیا ہے کہ ممتاز ترین فضلاے ندوہ بالعموم خلیجی ممالک میں سرکاری محمکوں کے کلرک ہوتے ہیں، ان کی یافت زوردار اور مرفہ الحالی اپنے جوبن پر ہوتی ہے، اقتصاد کی یہ کیفیت ان کے لیے کتنی ہی پرکشش کیوں نہ ہو، لیکن مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی صاحب اس رجحان سے نالاں رہتے اور فرماتے کہ ندوہ نے تعلیمی سلسلہ حکومتی اداروں کو کلرک دینے کے لیے جاری نہیں کیا تھا، اس کا مقصد دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت ہے، فضلا کی موجودہ صورتِ حال میرے لیے مایوس کن ہے- یہ بات حضرت علی ندوی کی فضلاے ندوہ سے متعلق ہے، مگر اس باب میں وہ بھی تنہا نہیں رہے، تازہ ترین حقائق یہ ہیں کہ فضلاے دارالعلوم بھی حکومتی اداروں سے مربوط رہنے میں اپنی سلامتی باور کرتے ہیں، فراغت پاتے ہی ذی استعداد فضلا کا رخ یونیورسٹیوں کی جانب ہو جاتا ہے، قال اللہ اور قال الرسول کے زمزموں سے دارالحدیثوں کو معمور کر دینے والے طلبہ علوم عصریہ کی طرف ایسے لپکتے ہیں گویا ان کے دامن زر و گوہر سے ہنوز خالی ہوں-

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ عصری دانش گاہیں خوبیوں سمیت اپنے ساتھ بڑی خرابیاں بھی لاتی ہیں، ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر تازہ کر لیجیے:

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ

چناں چہ مشاھدہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں داخلہ ہوتے ہی سب سے پہلا حملہ ان کے حلیہ پر ہی ہوتا ہے، مشرقیت ختم ہو جاتی ہے اور مغربیت ان کے انگ انگ سے مترشح - ستم بالاے ستم یہ کہ علماے اسلام اور ان کے مراکز ان کی نگاہوں میں نہیں جچتے ، خوش عیشی اور تن آسانی انہیں اسلام بیزار بنا دیتی ہے- یہ دینی علوم کی بے توقیری نہیں تو اور کیا ہے؟ 

*بورڈ کے مدارس میں علما کی بھیڑ*

 سرکار سے ناوابستہ دینی اداروں میں تنخواہوں کی خرگوش روی کا ایک مذموم اثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بورڈ کے مدارس پر فضلاے مدارس دیوانہ وار گرنے لگے ہیں، قرض لے لے کر اور بھاری بھرکم رشوت دے دے کر یہ لوگ ان سے مربوط ہو رہے ہیں، جاہل اور غیرمستند فضلا اپنی مثالی رشوت کے بل پر بڑے بڑے عہدوں پر بھی براجمان ہیں، اساتذۂ حکومت کا خیال ہے کہ یہاں کی تدریس سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے،  ہر طرح منفعت بخش ، اخراج کا خوف دل میں نہیں رہتا، تنخواہ معقول ترین اور دل خواہ ہوتی ہے، اس کے بڑھنے کی رفتار بھی برق آسا- یہاں بلا وجہ کی محکومی بھی نہیں، حریفوں کا دباؤ بھی نہیں، اور آزادی کی آزادی بھی ہے- 

*عزل تو مکروہ ہے*

بورڈ کے ایک مدرس سے میری ملاقات ہوئی، کہنے لگے: مولانا! آپ حضرات مدرسہ بورڈ کو نگاہِ حقارت سے دیکھتے ہیں اور ہماری کمائی کو مکروہ گردانتے ہیں، ایسا کیوں؟ میں نے کہا کہ بورڈ کے مدارس میں تعلیم صفر ہوتی ہے اور آمدنی محنت سے زائد، کہنے لگے کہ ایک لطیفہ یاد آیا، اجازت ہو تو سناؤں! میں نے کہا: جی ضرور، کہنے لگے کہ ایک شخص زنا میں ملوث ہوا، نتیجتاً عورت حاملہ ہوگئی، لوگوں نے زانی کا پتہ پوچھا تو ناچاروناچار عورت کو بتانا پڑا، زانی پکڑا گیا اور اسے سزا ملی، کسی دوست نے اس سے پوچھا کہ نفس کی شرارت سے اگر تو نے زنا کر ہی لیا تو "عزل "سے کام لے لیتا تا کہ عورت کو علوق ہی نہ ہو اور تو بچ جاتا! کہنے لگا کہ عزل کیسے کرتا؟ عزل تو مکروہ ہے- ٹھیک یہی حال ہمارے بعض علما کا ہے، الٹی سیدھی رسیدیں چھپا کر چندہ کرتے ہیں، فرضی مدارس کے عنوان سے مال کی فراہمی ہوتی ہے، دین کے نام پر اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں، اساتذہ کی ضروریات کا خیال بالکل نہیں رکھتے مگر جب ان سے کہا جاے کہ مدرسہ بورڈ سے منسلک ہو جائیے! تو بے تکلف کہتے ہیں کہ بورڈ کی تنخواہ مکروہ ہے- ایں چہ بوالعجبی ست؟

*لہذا مدارس والے بھی تنخواہ کا معیار بلند کریں*

کوئی مانے یا نہ مانے، وقت بہت کچھ بدل چکا، مادیت ہر جگہ اپنے پاؤں پسار چکی ہے، گرانی در گرانی سے حالات دگرگوں ہیں - وقت کا تقاضا ہے کہ مدارس اور مساجد والے بھی اساتذہ اور ائمہ کی تنخواہوں کا معیار بلند ترین کریں - پچھلے دور میں اخراجات کم تھے،اس لیے چل جاتا تھا، اب بڑھ گئے ہیں، ہر استاذ اور امام اپنے بچوں کو عصری علوم دلانا چاہتے ہیں، عصری علوم کی گرانی کون نہیں جانتا، داخلے کی فیس اتنی مہنگی ہوتی ہے کہ ہوش اڑ جائیں، پھر کتابوں کی خرید، ان کے ماسوا دیگر اخراجات- سالانہ حساب لگائیے تو ابتدائی جماعتوں میں ہی ایک بچے پر ساٹھ ہزار خرچ ہو جاتے ہیں، اگر علما و ائمہ کی تنخواہیں وہی چھ ہزار ہوں اور ساٹھ ہزار بچے کی پڑھائی میں چلے گئے تو گھر کے دیگر اخراجات کی سبیل کیا ہوگی؟ اس پہلو پر کون غور کرے گا؟ لہذا مدارس اور مساجد پر لازم ہے کہ اساتذہ اور ائمہ کی تنخواہیں بڑھائیں، الحمدللہ ہمارے دیوبند میں تنخواہیں معقول ہیں، دارالعلوم دیوبند سمیت تقریباً تمام ہی بڑے ادارے اپنے اساتذہ کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، مگر بیشتر ملک کے دیگر مدارس میں تنخواہ کے تئیں پرانی روایتیں اب بھی برقرار ہیں، وہاں اب بھی وہی چار، پانچ اور چھ ہزار کو بیس ہزار کا مساوی سمجھا جاتا ہے اور برکت برکت کی رٹ لگا کر اساتذہ کی دل شکنی کی جاتی ہے، کام خوب لیتے ہیں اور تنخواہ وہی گئی گزری اور پژمردہ- آج کے ماحول میں تنخواہ کی شروعات پندرہ ہزار سے ہونی چاہیے، پھر درجہ بدرجہ مزید اور مزیدتر - اس سے نیچے کی تنخواہ کو تنخواہ کہنا علم دین کی توہین ہے- مشہور محدث سفیان ثوری فرماتے ہیں: اگر علما کے پاس دولت نہ ہو تو دنیا دار لوگ علما کو رومال بنالیتے ہیں، جسے استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے-

*مدارس کا نظام اللہ چلاتا ہے*

جو شے زیادہ استعمال ہوتی ہے وہ زیادہ بڑھتی ہے، تنخواہیں بڑھائیں گے تو مدرسے کی آمدنی میں مزید اضافہ ہوگا، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تنخواہ کس بنیاد پر بڑھائی جاے، ادارے کا سالانہ بجٹ اس کی اجازت نہیں دیتا، ان کی فکر کا قبلہ درست نہیں ہے- قوم دینے کو تیار ہے، آپ تنخواہیں بڑھائیے،پھر دیکھیے: خوش دل اساتذہ اپنی خدمات کس طرح پیش کرتے ہیں! دارالعلوم کے رابطۂ مدارس اجلاس میں بار بار اس موضوع کو اساتذۂ دارالعلوم نے اٹھایا، مگر اس موضوع پر سنجیدہ نظر شاید ڈالنا نہیں چاہتے- اللہ جانے کیوں؟

"مفتی" کون ؟؟

"مفتی" کون ؟؟

استاد محترم حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ پاکستان میں مفتی کورس کا کوئی تصور ہی نہیں تھا،جب ہم دونوں بھائیوں نے درس نظامی مکمل کیا تو ہمارے والد صاحب نے فقہ میں مہارت حاصل کرنے اور فتوی دینے کے لئے ہمیں ایک نصاب بنا کر پڑھایا اور اس کے بعد دوسری شرط یہ رکھی کہ اس نصاب کو پڑھنے کے بعد آپ نے بیس تیس سال کسی ماہر مفتی کے نگرانی میں مشق کرنا ہے اس تربیت کے بعد بڑے مشورہ کریں گے اگر ان کو تسلی ہوئی تو آپ کو "مفتی" لقب مل سکتا ہے ورنہ نہیں۔
آج بھی دارالعلوم کراچی میں کئی سفید ریش علماء کو مفتی لکھنے کی اجازت تاحال نہیں مل سکی۔

گویا نصاب کے ساتھ "مفتی" بننے کے لئے دو چیزیں لازم تھیں:
 (1) کم ازکم بیس سال تربیت و تمرین، 
(2) بڑوں کا اعتماد۔

استاد جی نے شکوہ کیا ہے کہ آج کل تو تخصص کے کلاس میں داخلہ لیتے ہی بعض طالب علم اپنے نام کے ساتھ "مفتی" لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔یہی بے احتیاطی ہے کہ ہر جگہ مفتی ملتا ہے۔
فرماتے ہیں کہ حضرت مفتی شفیع رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ دار العلوم دیوبند میں جب کو سائل مسئلہ پوچھنے آتا تو ہر مفتی یہ کہہ کر اس کو دوسرے کے پاس بھجتے کہ میں چھوٹا ہوں اس عالم سے پوچھیئے وہ مجھ سے بڑا ہے، آج کل ہر کوئی خود کو بڑا کہتا ہے۔
۔۔۔۔۔

 اصل میں المیہ یہ ہے کہ صرف یک سالہ و دو سالہ نصاب رہ گیا، تربیت کی شرط کو حذف کر دیا گیا اور بلا کسی امتحان و اطمینان کے، ہر کوئی خود کو ہی مفتی لکھنا شروع کر دیتا ہے۔بلکہ بعض تو اس شوق میں خود کو مفتی لکھتے ہیں کہ مفتی سے انسان بڑا سمجھا جاتاہے ۔

ہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ مفتی اللہ تعالی کا خلیفہ ہوتا ہے اس کے مہر سے عام آدمی کے لئے کوئی چیز حرام بھی بن جاتا ہے اور حلال بھی۔

یاد رکھئے!
اہلیت کے بغیر جب کوئی کسی منصب و عہدہ کو سنبھالتا ہے تو اداروں کے ادارے بلکہ معاشرے برباد ہو جاتے ہیں۔
مفتی کوئی عہدہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے، حتی المقدور خود کو بلا ضرورت اس ذمہ داری سے بچانا چاہئے ...
Dec
Tuesday,
24,

برتھ سرٹیفکیٹ کیوں ضروری

*کیا زیادہ تر مسلمان بھائی اسکول کے سرٹیفکیٹ پر درج تاریخ پیدائش کو پیدائش کے ثبوت کے طور پر سمجھتے ہیں؟*

اہم خبر 

جن شہریوں کی پیدائش کی رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے، وہ صرف 27 اپریل 2026 تک رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔ اس کے بعد حکومت نے واضح کیا ہے کہ یہ مدت کسی بھی صورت میں نہیں بڑھائی جائے گی۔

اس کے علاوہ، پورے ملک میں یکم اکتوبر 2023 سے پیدائش و وفات کی رجسٹریشن (ترمیمی) قانون 2023 نافذ کیا گیا ہے، جس کے تحت پیدائش کا سرٹیفکیٹ اب مختلف سرکاری کاموں کے لیے ثبوت کے طور پر استعمال ہوگا۔

مسلمان بھائیوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ شہری ہونے کا سب سے مضبوط ثبوت پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ اسکول کے سرٹیفکیٹ پر درج تاریخ کو ہی پیدائش کی تاریخ سمجھ لیتے ہیں، جو غلط ہے۔

🔹 پیدائش کی رجسٹریشن میں نام شامل کرنے کی آخری تاریخ پہلے 14 مئی 2020 تھی، جسے اب بڑھا کر 27 اپریل 2026 کر دیا گیا ہے۔

پیدائش کے سرٹیفکیٹ میں نام شامل کرنے کے لیے شہریوں کو درخواست کے ساتھ درج ذیل میں سے کسی دو ثبوت جمع کرانے ہوں گے:

اسکول چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ

تعلیمی سرٹیفکیٹ (دسویں یا بارہویں جماعت)

پاسپورٹ

پین کارڈ

آدھار کارڈ


🔹 1969 سے پہلے یا اس کے بعد جن شہریوں کی پیدائش کی رجسٹریشن صرف نام کے بغیر ہوئی ہے، وہ دوبارہ یہ موقع حاصل کر سکتے ہیں۔

🔹 جن کے انتقال ہو چکے ہیں اور ان کی وفات یا پیدائش کا اندراج نہیں ہوا، ان کے اہل خانہ یہ اندراج کروائیں۔

🔹 اب پیدائش کی رجسٹریشن عدالتی طریقہ کار کے بجائے تحصیل آفس کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے۔

مسلمان بھائیوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ مستقبل میں یہ ان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

🔹 اسکول، کالج میں داخلہ، نوکری، اہم سرکاری کام، یا بیرون ملک سفر کے لیے پیدائش کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

🔹 حکومت نے ایک بار پھر ان لوگوں کو موقع فراہم کیا ہے جو اپنے یا اپنے بچوں کی پیدائش کا اندراج کروانے سے محروم رہ گئے تھے۔

🔹 1969 سے پہلے کے پیدائش کے اندراجات، جن میں نام شامل نہیں ہیں، ان کے لیے بھی درخواست دی جا سکتی ہے۔

🔹 حکومت کے صحت عامہ کے ڈائریکٹر نے تمام مقامی انتظامیہ کو اس سلسلے میں ہدایات جاری کی ہیں۔

🔹 15 سال سے زیادہ پرانے پیدائش کے اندراج میں بھی اب نام شامل کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ سہولت صرف 27 اپریل 2026 تک دستیاب ہوگی۔

🔹 اب پیدائش و وفات کا سرٹیفکیٹ آدھار کارڈ کی طرح ایک مستند شناختی دستاویز کے طور پر استعمال ہوگا۔

*مسلمان بھائیوں کو یہ بات ضرور سمجھانی چاہیے تاکہ وہ اس معاملے میں غفلت نہ برتیں۔
Dec
Sunday,
22,

شکیل ابن حنیف کا مکمل تعارف

الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ امابعد:-
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
امید ہے کہ گروپ میں موجود تمام احباب بخیر وعافیت ہونگے 
انشاءاللہ 
آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ کہ آپ حضرات نے ناچیز کو 
معلون کذاب مدعئ مہدویت ومسیحیت شکیل ابن حنیف خان لعنۃ اللہ علیہ ۔
کے تئیں اظہار خیال کا موقع فراہم کیا 
شکیل ابن حنیف مردود
کے متعلق کیا لکھوں اور کیسے لکھوں میرے پاس الفاظ نہیں ہے 
مگر سوء اتفاق میرا تعلق بھی موضع عثمان پور ،پوسٹ رتن پورہ وایا لہیریا سرائے ضلع دربھنگہ بہار سے ہے 
اور یہ میرا دینی وایمانی فریضہ بھی ہے لھذا 
اس سلسلے میں جو میری  معلومات ہے آپ حضرات کے ساتھ شیر کروں گا تاکہ قوم و ملت کے دین و ایمان کا تحفظ ہو سکے اور امت مسلمہ کو اس عظیم فتنے سے بچایا جاسکے
حدیث مبارکہ میں ہے
بلغواعنی ولوایۃ 
پہنچا دو میری جانب سے اگرچہ ایک ہی بات ہو ۔
سن 2005میں میری پہلی ملاقات شکیل ابن حنیف خان سے ہوئ ہمارے آبائ گاؤں عثمان پور المعروف (عثماں رتن پورہ) میں ہوئ
جب وہ بہت لمبے عرصے بعد گاؤں آیا تھا 
درمیانہ قد سانولا رنگ پیشانی پر سجدے کا نشان آنکھوں میں سرمہ چہرے پرلمبی گھنی داڑھی گیروا رنگ کا  لمبا کرتا خوشبو سے معطر چھوٹا پاجامہ ہاتھوں میں تسبیح گویا دیکھنے والوں کو ایک بار دھوکہ جائے کہ کوئ بہت بڑا اللہ والا ہے
جب میں نے دیکھا تو مجھے بھی لگا کہ کو نیک آدمی ہے بہرحال سلام کلام ہوا
تعارف ہوا ایک دوسرے کا تو معلوم ہوا کہ گاؤں ہی آدمی ہے مجھے بےحد مسرت اس وقت ہوئ جب اس نے گاؤں کی مسجد میں  دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا
میں بھی کئ مجلس میں شریک ہوا ہمارے محلے کے اکثر نوجوان اس کے ساتھ ہوگئےہمارے گاؤں میں دو مساجد ہیں دونوں میں اس نے تبلیغ کا کام 
کیا خوب محنت کی یہاں تک کہ عصر بعد گشت ہونے لگی چائے ناشتے اہتمام شکیل کی طرف سے کیا جانے لگا ایک انقلاب برپا کردیا اس نے دونوں محلے میں خاص طور پر نوجوانوں میں دین کے تئیں بہت بیداری پیداکردی میں گاہے بگاہے اس سے ملنے لگا یہ سوچ کر کہ بدعت کے گہوارے میں حق کی شمع کو روشن کررہا تھا یہ بڑی خوش آئند بات تھی 
المختصر 
کہ آہستہ آہستہ  پس پردہ اپنے مشن پر کام کرنے لگا
نتیجتاً نوجوان اس سے کترانے لگے ان نوجوانوں میں میرے منجھلے بھائی جناب ایڈوکیٹ ظفر اقبال (جگنو) بھی تھے 
پہلی بار انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ شکیل خود کو مہدی علیہ السّلام اور عیسیٰ علیہ السّلام کہتا ہے 
جب یہ بات میں نے سنی تو محلے کے ایک نوجوان دوست محمد قتیل کے ساتھ اس خبر کی تصدیق کے لئے براہِ راست شکیل سے ملاقات کے لئے اس کے گھر گیا سلام وکلام کے بعد اس آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے اپنی بات رکھی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ خود حضرت مہدی علیہ الرضوان اور عیسیٰ علیہ السّلام کہتے ہیں ؟کیا یہ سچ ہے ؟
تو اسکے جواب میں اس نے کہا کہ 
((اگر کوئ شخص کسی چیز کا دعویٰ کرے تو اس سے دلیل مانگنی چاہئے اگر دلیل دے دے تو سچا ہے ورنہ چھوٹا ہے))
تو اسطرح کہ گول مول جواب سے میں سمجھ کیا کہ واقعی یہ شخص اسطرح کا دعویٰ کرتاہے 
میرا دوست قتیل جو زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے اس نے سوال کیا کہ اگر آپ مہدی علیہ السّلام ہیں تو کوئ کرامت دکھائیں تو اس کے جواب میں اس نے کہا کہ
((ایسا کسی حدیث میں لکھا ہے کیا کہ حضرت مہدی لوگوں کو کرامت دکھائیں گے))
میں نے اس کے بعد اس سے کوئ بات نہیں کی کیونکہ میں اسکی چالاکی اور عیاری کو سمجھ گیا تھا اس کے بعد میں وہاں سے آگیا
دوبارہ اس سلسلے میں کبھی کوئ بات میری اس سے نہیں ہوئ صرف ایک تھلوارا اسٹیشن سے آتے ہوئے راستے میں ملاقات ہوئی تو اس نے مجھ کہا کہ آپ حیدرآباد دکن میں رہتے ہیں وہاں ہمارے لوگ بہت سے ہیں
میں سمجھا دوست احباب ہوںگے بعد میں معلوم ہوا کہ اسکے متبعین ہیں وہاں ۔یہی میری آخری ملاقات تھی
اور بس 
وقت گذرتا گیا اور یہ ساری باتیں رفتہ رفتہ ذہن نکلتی چلی گئیں 
اور پھر ملک کے مختلف شہروں سے یہ اطلاعات موصول ہونے لگی کہ شکیل ابن حنیف خان لعنۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں پر ہزاروں نوجوان بیعت ہوکر مرتد ہوگئے آج دہلی کے لکشمی نگر علاقے میں تو کل اورنگ آباد میں بھوپال میں تو کبھی ممبئی کے اسی طرح حیدرآباد پٹنہ دربھنگہ، بیگوسرائے ،موتیہاری وغیرہ
میں لاکھوں نوجوان اس کے چنگل میں پھنس کر دائرہ اسلام سے خارج ہورہے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے 
ادھر گاؤں میں بھی چند نوجوانوں کے متعلق کچھ باتیں میرے علم میں آئ ایسی صورتحال میں میں نے علاقائی چند نوجوان علمائے کرام کے ساتھ مشاورت کرکے اور گاؤں اور علاقہ میں چل رہی اس ارتداد کی آندھی کو روکنے کے لئے 
مدرسہ سراج العلوم عثمان پور کی بنیاد 23-جولائ -2015ء
کو انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں رکھی گئ ۔
فللہ الحمد 
اور آج بھی ادارہ مختصر وسائل کے باوجود اپنے مشن پر گامزن ہے 
مطبخ میں پندرہ بچے ہیں جو اپنی علمی تشنگی بجھارہے ہیں
مقامی طلبہ وطالبات 35سے 40کے درمیان ہیں۔
ساتھ ہی ادارہ ردفتنئہ شکیلیت پر  حتی المقدور کام کررہا ہے اس سلسلے میں راقم الحروف نے ازہرہند دارالعلوم دیوبند کےمہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم کو مفصل ایک خط بھیج کر گاؤں کی صورتحال سے واقف کرایا اور حضرت مدعو کیا الحمد للہ حضرت نے بر وقت نوٹس لیا اور جوابی خط ارسال فرمایا 
اور کہا کہ اس سلسلے میں حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپوری زیادہ مناسب رہیں گے لھذا حضرت کی ایما پر مولانا شاہ عالم گورکھپوری صاحب نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور ایک اجلاس عام میں بعنوان تحفظ ختم نبوت ورد فتنئہ شکیلیت جامع خطاب فرمایا اسی جلسہ میں مدرسہ ھذا کے تین بچوں نے حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی اور انکی دستاربندی بھی کی گئ جس کے گواہ جناب انجنیر ذیشان بھائی جن کا تعلق پٹنہ سے ہیں دہلی  میں مقیم ہیں اور رد شکیلیت پر جن کی گرانقدر خدمات ہے اللہ تعالٰی قبول فرمائے جو اس گروپ میں الحمد للہ موجود ہیں ‌۔
گاؤں کے اکثر لوگ ناخواندہ ہیں اور عقائد صحیحہ سے دور یعنی کٹر سنی بریلوی ہیں۔
لھذا میری باتوں کو اگرچہ کتنی صحیح کیوں نہ ہو 
بالکل سننا پسند نہیں کرتے ہیں 
لھذا جلسے میں گاؤں کے بہت کم لوگ شریک ہوئے البتہ علاقہ کے ہزاروں لوگوں نے جلسے میں شرکت کی اور وہاں کتابیں پمفلٹس وغیرہ تقسیم کی گئ جس سے علاقے میں اس سلسلے میں بیداری پیدا ہوئ
اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے 
شکیل ابن حنیف خان کا گھرانہ گاؤں میں ایک شریف اور تعلیم یافتہ گھرانہ تسلیم کیا جاتاہے
اس نے عصری تعلیم شفیع مسلم ہائی اسکول دربھنگہ دسویں تک کی اور سی ایم سائنس کالج دربھنگہ میں آئ ایس سی داخلہ لیا دوران تعلیم تبلیغی جماعتوں میں وقت لگانے لگا اور بالآخر فائنل امتحان میں نہ شریک ہونے کی وجہ سے والد حنیف خان مرحوم نے ناراض ہوکر گھر سے نکال دیا تب سے وہ دہلی میں رہنے لگا شکیل ایک انتہائی ذہین اور چرب زبان شخص ہے انگلش زبان بہت اچھی بولتاہے اور جماعتوں میں وقت لگا لگا کر اردو میں بھی اچھی گفتگو کرنے لگا جو عموماً سماعت میں سکھایا بھی جاتاہے لوگوں کو تشکیل کرنا ذہن سازی کرنا نبض کو پکڑنا یہ سب اس نے تبلیغ سے ہی سیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اس فتنے کے شکار زیادہ تر جماعتوں میں نکلنے والے بھولے بھالے نوجوان زیادہ ہیں
امیر جماعت مرکز نظام الدین میں حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ کے زمانے سے تبلیغ سے وابستہ رہا ہے اور حضرت محبوبِ نظر بھی دین کا مطالعہ بھی اسی زمانے میں اردو کتابوں سے کیا ہے یہ نہ تو عالم ہے نہ حافظ اور نہ ہی عصری تعلیم میں کوئ اعلی ڈگری حاصل کیا سوائے میٹرک کے اور کچھ نہیں بہت شاطر ہے 
بہرحال 6بھائ ہے بڑا بھائی حافظ سہیل خان گاؤں سے لاپتہ ہے ایک لمبے عرصے سے
دوسرا شکیل خان 
ایک ماں سے 
دوسری ماں سے جو کہ شکیل خالہ ہیں سے چار بھائی 
ایڈوکیٹ شاداب خان عرف جمیل خان وکیل عدالت عظمیٰ دہلی۔
نسیم خان 
ارشاد خان 
وسیم خان 
یہ چاروں ایڈوکیٹ ہے تیس ہزاری کورٹ دہلی میں پریکٹس کرتاہے اور خوب مال کمارہاہے
جب کہ حنیف خان کا 2007 میں انتقال ہوا بہت غربت میں زندگی بسر کی مرحوم نے 
انکے تین بھائی ابھی حیات ہیں
نور محمد خاں
عثمان خاں
وغیرہ 
شکیل کے چاروں بھائی اس کو مہدی مسیح مانتے ہیں ایک  بہن کی شادی گاؤں میں ہے اعجاز خان سے جو  آٹو ڈرائیور ہے غالباً یہ بھی شکیل کا مرید ہے ڈاڑھی رکھے ہوا ہے چند سالوں سے اور اسکی اہلیہ یعنی شکیل کی بہن حافظہ ہے
عثمان خاں جو شکیل کے چچا ہیں انکے دو لڑکے ہیں قاری امام حسن ٹیچر امام عیدین ہےگاؤں 
مولانا حافظ امام حسین مصباحی مدرس اور امام ہے
مگر ان لوگوں نے کبھی شکیل یا انکے بھائیوں کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ دونوں مساجد کے ائمہ نے مسجد میں شکیل کے رد میں بیان کیا تو الٹا ان لوگوں کو دھمکی دی ان لوگوں نے کہ آئندہ شکیل کے بارے میں کچھ بھی بیان نہیں کرنا ہے 
شکیل کے والد حنیف خان اس سے بہت ناراض تھے اسی ناراضگی میں انتقال بھی کر گئے ملعون نہ جنازے میں آیا نہ اسکے بعد پرسے میں آیا 2005کے بعد عثمان پور میں کسی نے نہیں دیکھا
سنا ہے اورنگ آباد مہاراشٹر میں مہدی کالونی بنا لیا ہے وہیں رہتاہے اپنے مریدوں کے ساتھ عیسائی مشنریوں کی طرف سے بہت پیسہ مل رہا ہے اس کو ہی شکیلیت کوئ نہیں چیز نہیں ہے بلکہ قادیانیت کا نیا چہرہ ہے سب کچھ اسی انداز سے کررہا ہے مثلاً 
قادیانی بھی کہتا تھا کہ مہدی مسیح موعود ایک ہی شخص ہے اور اسکا بھی یہی کہنا ہے
اور دلیل کیا دیتا ہے 
لا مھدی الا عیسیٰ ابن ماجہ 
کوئ مہدی نہیں سوائے عیسیٰ کے
مگر اسکا ترجمہ اصل یہ ہے کہ
کسی کے ذریعے ہدایت یافتہ نہیں ہوں گے سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اخیر زمانے میں 
اس حدیث میں مھدی کا جو لفظ ہے اس سے مراد حضرت مہدی نہیں کیونکہ مھدی لقب ہے نہ کہ نام حضرت مہدی علیہ الرضوان کا نام محمد ہے انکے والد کا عبداللہ ہے وہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوگی بنو فاطمہ حسنی سید ہوں گے 
تو اس لفظ مہدی کا ترجمہ کرکے لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے 
اسی محمد نام کے بارے میں کہتا ہے میرا نام محمد شکیل ہے جبکہ ایسا نہیں ہے میں اسکا میٹرک کا ایڈمٹ کارڈ دیکھا ہے چچا نور محمد خاں کی تحریر دیکھی ہے دونوں صرف شکیل خاں لکھا محمد بالکل نہیں 
اسی طرح باپ کے نام کے بارے میں اسکا کہنا ہے کہ حقیقی باپ مراد نہیں بلکہ مزاجی ہے دلیل اسطرح دیتاہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا باپ کہا ہے اور اسی کو اللہ تعالٰی قرآن کریم میں ابراہیم حنیف کہا ہے قل بل ملت ابراھیم حنیفا
اور میرے والد کا نام بھی حنیف ہے لھذا میں ہی وہ شخص جن کی آمد پیشنگوئی کی حدیث میں کی گئی ہے 
اور مدینہ سے مراد مدینہ منورہ نہیں بلکہ کوئ بھی شہر مدینہ کہتے ہی شہر کو ہیں حدیث میں ہے انا مدینۃ العلم وعلی بابھا
میں علم کا شہر ہوں اور اس کا دروازہ علی ہے
اس لئے مدینہ منورہ اس مراد نہیں لیا جاۓ گا بلکہ دربھنگہ شہر مراد ہے
حضرت عیسی اور حضرت مہدی دو الگ الگ شخصیات نہیں ہے بلکہ ایک ہی شخصیت کے دو الگ الگ نام ہیں اور حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل نہیں ہوں گے بلکہ انزل ینزل کے معنی اترنے کے اس مراد آسمان سے اترنا نہیں بلکہ ٹرین سے اترنا ہے جیسے حضرت جی شکیل ابن حنیف خان ٹرین سے دہلی اسٹیشن پر اترے 
اس طرح کی بے سروپا تاویلات سے کام لیتا ہے اور لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے 
اللہ تعالٰی امت مسلمہ کو اس فتنے سے محفوظ رکھے آمین 

والسلام 

خاکپائے درویشاں 
محمد اظہر القاسمی بانی ومہتمم مدرسہ سراج العلوم عثمان پور رتن پورہ دربھنگہ بہار انڈیا 
26اکتوبر2024
بروز ہفتہ

صراط مستقیم

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © 2025 صراط مستقیم