سوریہ نمسکار اور وندے ماترم

*سوریہ نمسکار اور وندے ماترم*

اس وقت جب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ باحیات تھے تو تب بھی اسکولوں میں سوریہ نمسکار کرنے اور وندے ماترم گانے کا مسلہ بڑے زور و شور کے ساتھ اٹھا تھا۔ اور حضرت مولانا رح نے اسکی پرزور مخالفت کی تھی۔ اسی سلسلہ میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی خود دارالعلوم ندوة العلماء لکھنئو پہونچے تھے اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ سے بات کی تھی۔ 

ملاقات کے بعد حضرت مولانا نے جو تاریخی بیان میڈیا کو دیا تھا وہ سنہرے الفاظ میں لکھا گیا اور اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا... یہی ھمارے لیے مشعلِ  راہ ھے ہو سکتا ہے۔ 

"میری قوم کا ھر بچہ تعلیم سے محروم ہو جائے میں اس کو گوارا کرسکتا ھوں،لیکن اسکے عقیدے اور ایمان پر آنچ آیے میں اسکو کبھی برداشت نہیں کر سکتا"

مولانا جلال الدین رومیؒ اور شمس تبریزیؒ عزت صرف اللہ کے ہاتھ ہے۔

مولانا جلال الدین رومیؒ اور شمس تبریزیؒ

ایک رات مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے استاد حضرت شمس الدین تبریزیؒ کو اپنے گھر دعوت دی۔

مرشد شمسؒ تشریف لے آئے۔ کھانے کے سب برتن تیار ہو گئے تو شمسؒ نے رومیؒ سے فرمایا:
“کیا تم مجھے پینے کے لیے شراب لا سکتے ہو؟”

رومیؒ یہ سن کر حیران رہ گئے:
“کیا استاد بھی شراب پیتے ہیں؟”

شمسؒ نے کہا: “ہاں، بالکل۔”

رومیؒ نے عرض کیا: “مجھے معاف کیجیے، مجھے اس کا علم نہیں تھا۔”

شمسؒ نے فرمایا: “اب جان گئے ہو، لہٰذا شراب لا دو۔”

رومیؒ بولے: “اس وقت رات گئے کہاں سے لاؤں؟”

شمسؒ نے کہا: “اپنے کسی خادم کو بھیج دو۔”

رومیؒ نے کہا: “میرے نوکروں کے سامنے میری عزت ختم ہو جائے گی۔”

شمسؒ نے کہا: “پھر خود ہی جا کر لے آؤ۔”

رومیؒ پریشان ہوئے: “پورا شہر مجھے جانتا ہے، میں کیسے جا کر شراب خریدوں؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“اگر تم واقعی میرے شاگرد ہو تو وہی کرو جو میں کہتا ہوں۔ ورنہ آج نہ میں کھاؤں گا، نہ بات کروں گا، نہ سو سکوں گا۔”

استاد کی محبت اور اطاعت میں رومیؒ نے چادر اوڑھی، بوتل چھپائی اور عیسائیوں کے محلے کی طرف چل دیے۔

💠 جب تک وہ راستے میں تھے، کسی کو شک نہ ہوا۔ لیکن جیسے ہی وہ عیسائی محلے میں داخل ہوئے، لوگ حیران ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔

سب نے دیکھا کہ رومیؒ شراب خانے میں گئے اور بوتل خرید کر چادر کے نیچے چھپا لی۔ پھر وہ نکلے تو لوگ اور بھی زیادہ ہو گئے اور ان کے پیچھے پیچھے مسجد تک پہنچ گئے۔

مسجد کے دروازے پر ایک شخص نے شور مچا دیا:
“اے لوگو! تمہارا امام، شیخ جلال الدین رومیؒ، ابھی عیسائی محلے سے شراب خرید کر آ رہا ہے!”

یہ کہہ کر اس نے رومیؒ کی چادر ہٹا دی اور بوتل سب کے سامنے آگئی۔

ہجوم نے غصے میں آکر رومیؒ کے منہ پر تھوکا، انہیں مارا، یہاں تک کہ ان کی پگڑی بھی گر گئی۔

رومیؒ خاموش رہے، انہوں نے اپنی صفائی پیش نہیں کی۔

لوگ اور بھی یقین کر بیٹھے کہ وہ دھوکہ کھا گئے ہیں۔ انہوں نے رومیؒ کو بری طرح مارا اور کچھ نے تو قتل کرنے کا بھی ارادہ کیا۔

🔊 اسی وقت شمس تبریزیؒ کی آواز بلند ہوئی:
“اے بے شرم لوگو! تم نے ایک عالم اور فقیہ پر شراب نوشی کا الزام لگا دیا۔ جان لو کہ اس بوتل میں شراب نہیں بلکہ سرکہ ہے!”

ایک شخص بولا: “میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ شراب خانے سے بوتل لائے ہیں۔”

شمسؒ نے بوتل کھولی اور کچھ قطرے لوگوں کے ہاتھ پر ڈالے تاکہ وہ سونگھ سکیں۔ سب حیران رہ گئے کہ واقعی یہ تو سرکہ ہے!

اصل بات یہ تھی کہ شمسؒ پہلے ہی شراب خانے گئے تھے اور دکاندار کو کہہ دیا تھا کہ اگر رومیؒ بوتل لینے آئیں تو انہیں شراب کے بجائے سرکہ دیا جائے۔

اب لوگ اپنے سر پیٹنے لگے اور شرمندگی کے مارے رومیؒ کے قدموں میں گر گئے۔ سب نے معافی مانگی اور ان کے ہاتھ چومے، پھر آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے۔

رومیؒ نے شمسؒ سے عرض کیا:
“آج آپ نے مجھے کتنی بڑی آزمائش میں ڈال دیا، یہاں تک کہ میری عزت اور وقار میرے مریدوں کے سامنے خاک میں مل گئی۔ اس سب کا کیا مطلب تھا؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“تاکہ تم سمجھ لو کہ لوگوں کی عزت اور شہرت محض ایک فریب ہے۔
کیا تمہیں لگتا ہے کہ ان لوگوں کا احترام ہمیشہ قائم رہتا ہے؟
تم نے خود دیکھا، محض ایک بوتل کے شک پر وہ تمہارے دشمن بن گئے، تم پر تھوکا، مارا، اور قریب تھا کہ جان لے لیتے۔

یہی وہ عزت ہے جس پر تم نازاں تھے، جو ایک پل میں ختم ہو گئی!

آج کے بعد لوگوں کی عزت پر نہ بھروسہ کرنا۔ اصل عزت صرف اللہ کے پاس ہے جو وقت کے ساتھ نہ بدلتی اور نہ مٹتی ہے۔
وہی بہتر جانتا ہے کہ کون واقعی باعزت ہے اور کون جھوٹی عزت کا طلبگار۔
لہٰذا آئندہ اپنی نظر صرف اللہ پر رکھو۔”

---

✨ یہ واقعہ دراصل ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دنیا کی عزت اور لوگوں کی رائے لمحوں میں بدل جاتی ہے۔ اصل عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو۔

ماں سے بدسلوکی کا انجام

*ماں کے گھر میں بیوی کے ساتھ رہنے والے سب سے بڑے بیٹے نے پہلے اپنی ماں سے یہ اصرار کیا کہ وہ مکان اس کے نام منتقل کر دے، مگر ماں نے انکار کر دیا۔ جب وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوا تو اس نے ایک اور راہ اختیار کی — اپنی بیوی کے سکون کے لیے ماں کو اسی کے گھر سے زبردستی نکال دیا۔*

*ظلم اس حد تک پہنچا کہ وہ اپنی ماں کا سامان بالکونی سے نیچے پھینکنے لگا۔ مگر اللہ کی پکڑ قریب تھی—جس نے ماں پر ظلم کیا، وہ خود اسی لمحے بالکونی سے گر کر زمین پر آ رہا۔ خون بہنے لگا اور زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔ جو شخص ماں کو بےدخل کر کے گھر کا مالک بننا چاہتا تھا، وہ خود قبرستان کا مکین بن گیا۔*

*جس بیوی نے تنہا گھر میں رہنے کی خواہش کی تھی، وہ انجام دیکھ کر اپنے میکے لوٹ گئی، اور جس ماں کو گھر سے نکالا گیا تھا، اللہ نے اُسی گھر میں عزت و وقار کے ساتھ واپس پہنچا دیا۔*

*`اللہ تعالیٰ والدین کے ساتھ بدسلوکی اور ظلم کی سزا دیر سے نہیں دیتا۔`*

*_اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا بِرَّ الْوَالِدَيْنِ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتاً، وَجَنِّبْنَا عُقُوقَهُمَا وَظُلْمَهُمَا، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ._*

ذریعہ معاش اور ہمارے اکابر

*ذریعہ معاش اور ہمارے اکابر* 

پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں پال کر فروخت کیں ، حضرت ابوبکر نے کپڑا ، حضرت عمر نے اونٹ ، حضرت عثمان نے چمڑا اور حضرت علی نے خَود اور زر ہیں فروخت کرکے اپنے گھر کے کچن کو سہارا دیا ۔۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف نے کھجوروں سے ، حضرت ابو عبیدہ نے پتھروں سے ، حضرت سعد نے لکڑی کے برادے سے ،حضرت امیر معاویہ نے اون سے ، حضرت سلمان فارسی نے کھجور کی چھال سے ، حضرت مقداد نے مشکیزوں سے 
اور حضرت بلال نے جنگل کی لکڑیوں سے اپنے گھر کی کفالت کا فریضہ سرانجام دیا ۔۔

امام غزالی کتابت کرتے ، اسحاق بن رہوے برتن بنا تے ، حضرت امام بخاری ٹوپیاں بناتے ،  ، امام مسلم خوشبو بیچتے ، امام نسائی بکریوں کے بچے فروخت کرتے ، ابن ماجہ رکاب اور لگامیں مہیا فرماتے رہے ۔۔

امام حضرت سالم بن عبداللہ بازار میں لین دین کیا کرتے تھے. حضرت ابو صالح سمان روغن زیتون کا کام کیا کرتے تھے ، حضرت امام یونس ، حضرت ابن عبید داؤد ، حضرت ابن ابی ہند،  حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت وثیمہ ریشمی پارچہ کاکام کرتے رہے۔

حافظ الحدیث غندر بصری نے چادروں کا ، امام القراء حمزہ نے زیتون، پنیر اور اخروٹ کا ، امام قدوری نے مٹی کے برتنوں کا ، امام بخاری کے استاد حسن بن ربیع نے کوفی بوریوں کاکاروبار سنبھالا ۔

حضرت امام احمد ابن خالد قرطبی نے جبہ فروش کی ، 
حضرت امام ابن جوزی نے تانبا بیچا ، حافظ الحدیث ابن رومیہ نے دوائیاں ، حضرت ابو یعقوب لغوی نے  چوبی لٹھا ، حضرت محمد ابن سلیمان نے گھوڑے اور مشہور ومعروف بزرگ سری سقطی نے ٹین ڈبے بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کیا !                           *: خوش خبری :* 

*کم سے کم پونجی سے روزگار کے موقعے ـ،
۔ دور نبوت سے لے کر دور صحابہ تک ، تابعین سے آئمہ کرام اور مجتہدین تک *سبھی لوگ کاروبار سے وابستہ رہے ۔۔*

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم