مراٹھواڑہ میں اردو ادب

اردو ادب مراٹھواڑہ میں

ریاست مہاراشٹرپر ایک اجمالی نظراردو ادب کے تناظر میں

ہندوستان کی عظیم الشان ریاست مہاراشٹر یکم مئی ۱۹۶۰ء کو وجود میں آئی۔ اس کا افتتاح پنڈت جواہر لال نہرو کے دستِ مبارک سے ہوا۔ اس کے شمال مشرق میں ریاست مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ، شمال مغرب میں گجرات، جنوب میں آندھرا پردیش اور کرناٹک اور مغرب میں بحر عرب ہے۔ اس کا رقبہ تین لاکھ سات ہزار سات سو باسٹھ(307762)  کلومیٹر اور آبادی تقریباً آٹھ کروڑ نفوسِ انسانی پر مشتمل ہے۔ یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اس ملک کی تیسرے نمبر کی ریاست ہے۔ انتظامی سہولت کے پیشِ نظر اسے ۳۵اضلاع اور چھ ڈیویژن (Division)  کوکن، پونہ، ناسک، اور نگ آباد، امراؤتی اور ناگپور میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مذکورہ چھ ڈیویژن میں کوکن کا علاقہ مناظر قدرت سے بھرپور ہے۔ اس کا اہم اور مشہور شہر ممبئی ہے جو ریاست کا صدرمقام ہے۔ پونہ و ناسک ڈیویژن مغربی مہاراشٹر کہلاتا ہے۔ اور نگ آباد کو مراٹھواڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح امراؤتی اور ناگپور ڈیویژن کو ودربھ کہا جاتا ہے۔ ناگپور، ریاست کا دوسرا صدرمقام ہے جہاں ہر سال اسمبلی کا سرمائی اجلاس ہوتا ہے۔
اس ریاست میں کالا پتھر بسالٹ پایا جاتا ہے۔ یہاں کوہ سہیادری کی چوٹیاں ، ست پڑا کا پہاڑی سلسلہ، سطح مرتفع، ندیاں ، وادیاں قابلِ ذکر ہیں۔ جانوروں میں شیر، ہرن، چیتل، سانبھر، نیل گائے، لومڑی، ریچھ، خرگوش اور پرندوں میں طوطا، تیتر، مور اور جنگلی مرغ پائے جاتے ہیں۔ جانوروں کی حفاظت کے لیے کئی حفاظت گاہیں ہیں۔ قومی عوامی باغ میں تاڑوبا، پینچ، نوئے گاؤں باندھ، میل گھاٹ اور سنجے گاندھی باغ اہمیت کے حامل ہیں۔
مہابلیشور، ماتھیران، امبولی، کھنڈالا، لوناولہ، چکھلدرا اور تورن مال صحت افزا مقامات ہیں۔ بلڈانہ میں کھارے پانی کی مشہور لونار جھیل ہے۔ ساوتری، تاپتی، گود اور ی، وین گنگا، پین گنگا، وردھا، بھیما اور کرشنا یہاں کی اہم ندیاں ہیں۔ ان کے کنارے کئی مقدس مقامات ہیں۔ مغرب میں ایک طرف نیلا سمندر اور دوسری طرف ہرے بھرے جنگلات سے لدا ہوا کوہ سہیادری ہے۔ ان کے درمیان کوکن واقع ہے۔ یہاں آم، کاجو، کٹھل، ناریل اور سپاری کے باغ ہیں۔ معدنیات میں باکسائیٹ اور کرومائیٹ ملتا ہے۔ مشرق میں ودربھ کا علاقہ ہے۔ جس میں بانس اور ساگون کے جنگلات ہیں۔ یہ کوئلہ، مینگنیز، کرومائیٹ، تانبا ، ابرق اور لوہا جیسی معدنیات سے مالامال ہے۔
اس ریاست کا اہم پیشہ کاشتکاری ہے۔ یہاں جوار، چاول، گیہوں ، باجرہ جیسی اہم فصلیں ہوتی ہیں۔ گنا، کپاس، تمباکو اور تلہن بھی کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ یہاں کے کئی شہروں میں کپڑا سازی کی صنعت پائی جاتی ہے۔ شولاپور، ناگپور، بھیونڈی، مالیگاؤں اور اچل کرنجی وغیرہ ہینڈلوم اور پاور لوم کے مرکز ہیں۔ یہاں کے بنکر طرح طرح کے سوتی، ریشمی اور اونی کپڑے تیار کرتے ہیں۔ یہاں چادریں اور غالیچے بھی بنائے جاتے ہیں۔ کئی ضلعوں میں برتن سازی، بیڑی سازی اور کھلونے سازی کا کام ہوتا ہے۔ ایسی صنعتیں بھی ہیں جو زراعت پر منحصر ہیں۔ مثلاً یہاں شکر سازی کے کارخانے اور سوتی کپڑوں کی ملیں بھی کافی تعداد میں ہیں۔
یہ پھلوں کی کاشت میں بہت آگے ہیں۔ ناگپور کے سنترے، جل گاؤں اور ناندیڑ کے کیلے، ناسک کے انگور اور رتناگیری و سندھودرگ کے ہاپوس آم سارے ملک میں مشہور ہیں۔ کوئنا بجلی گھر، جائیک واڑی بند، تاراپور کا جوہری توانائی مرکز، بحر عرب کے تیل کے ذخیرے کی وجہ سے ریاست یہ نمایاں ہے۔
یہ ریاست تاریخی و ثقافتی لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ اس میں قابلِ دید قلعے ہیں۔ اس اعتبار سے گاول گڑھ، نرنالا، دولت آباد اور جنجیرہ کا قلعہ امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کی آزادی میں بھی اس نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کی خاک سے بہت سے سنت و صوفی اور سماج کی اصلاح کرنے والے بزرگ ابھرے جن کی مخلصانہ کار گزاریوں سے تاریخ کے صفحات روشن ہیں۔ اس اعتبار سے سنت گیانیشور، سنت نام دیو، سنت تکا رام، سنت گاڈگے مہاراج، سنت گجانن مہاراج، سنت ایکناتھ، سنت تکڑوجی، سائیں بابا، شیخ مخدوم ماہمی، حاجی علی، حاجی ملنگ، شیخ حیات قلندر، شاہ دولہا عبدالرحمن، شیخ شاہ بابو اور حضرت بابا تاج الدین کے اسمائے گرامی قابل احترام ہیں۔ یہاں کئی تاریخی مندر، مسجد اور گرجا ہے۔ اس کے تاریخی غار اجنتا اور ایلورا کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ ان میں نقاشی و سنگ تراشی کے جاذب نظر نمونے پائے جاتے ہیں۔ یہ ریاست موسیقی، ڈراما اور فلمی صنعت میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہے۔
مہاراشٹر ہندوستان کی پرانی تہذیب کا گہوارہ ہے۔ اس کے کچھ مقامات ہزاروں برس کی کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ اس ملک کی تاریخ کے ہر دور میں اپنے کارناموں کی وجہ سے نمایاں رہا ہے۔ کسی زمانے میں اس کا نام  دکشناپتھ تھا۔ یہ نام ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید میں بھی ملتا ہے۔ اگرچہ دکشناپتھ کی تعریف ہمیشہ بدلتی رہی لیکن ہندو مذہب کی کتابوں میں ودربھ اور کنڈن پور(کوڈینہ پور) کا ذکر آتا ہے۔ جواس علاقے کی قدیم تہذیب کی شہادت دیتا ہے۔ یہ علاقہ آج کے مہاراشٹر میں شامل ہیں۔
یہ ایک طویل داستان ہے کہ یہ علاقہ کیوں کر مہاراشٹر کے نام سے موسوم ہوا۔ مشہور و معروف مورّخ وشوناتھ کاشی ناتھ راجواڑے نے لکھا ہے کہ قدیم ہندوستان میں چھوٹی بڑی بہت سی ریاستیں تھیں ان کو راشڑ یا مہاراشٹر کہا جاتا تھا۔ مہاراشٹر کے حاکموں کو مہاراجہ اور رعیت کو مہاراشٹریا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ چوتھی صدی اور اس کے بعد کے کندہ پتھروں میں یہی نام مہاراشٹر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بدھوں کی مقدس کتاب مہادنش پران میں لکھا ہے کہ مشہور درویش یتھراس صوبے میں تشریف لائے تھے۔
زمانۂ قدیم سے دیو گری (دولت آباد، مہاراشٹر) پر علاء الدین خلجی کے حملے (۱۲۹۴ء) تک ریاست مہاراشٹر کا ایک بڑا حصہ مرویہ خاندان (زوال ۱۸۴ق م)، سنگا خاندان (۱۸۰ق م) ستواہن خاندان (۲۰۰ق م۔ ۲۵۰ء) وکاٹک خاندان (۲۵۰ء۔ ۵۵۰)، کلچوری مہیشتمی خاندان (۵۵۰ء۔ ۶۶۰ء)، چالوکیہ خاندان (۶۲۰ء سے نصف آٹھویں صدی عیسوی تک) راشٹرکوٹ خاندان(منیا کھیڑا) چالوکیہ کلیانی خاندان اور یادو خاندان دیو گیری کے یکے بعد دیگرے زیر اقتدار رہا۔ یادو حکومت کے زوال (۱۳۱۷ء)کے بعد یہ مسلم حکمرانوں کے قبضے میں آیا۔ اسی کے بعد یہاں اردو زبان و ادب کی نشو و نما کے لیے فضا ہموار ہوئی۔
نوٹ      :یہ باب مندرجہ ذیل کتب و رسائل کی مدد سے ترتیب دیا گیا ہے:
۱۔          ریاست مہاراشٹر کا جغرافیہ، مطبوعہ مہاراشٹر راجیہ پاٹھیہ پستک نرمتی منڈل، پونے، ۲۰۰۱ء
۲۔         قومی راج، بمبئی، ۱۶اگست ۱۹۷۴ء، ص: ۳۲
۳۔         قومی راج، بمبئی، یکم مئی۱۹۷۴ء، ص: ۱۴
۴۔         قومی راج، بمبئی، ۱۶اپریل ۱۹۷۴ء، ص: ۱۴
۵۔         قومی راج، بمبئی، ۱۶دسمبر ۱۹۷۴ء، ص: ۳
۶۔         قومی راج، بمبئی، ۱۶فروری۱۹۷۵ء، ص: ۱۴
۷۔         قومی راج، بمبئی، یکم مئی۱۹۷۶ء، ص: ۱۳
۸۔         قومی راج، بمبئی، یکم دسمبر۱۹۷۶ء، ص: ۷

No comments:

Post a Comment

ہر قسم کےمضامین کا پلیٹ فارم

Followers

Label

Recent Comments

Popular Posts

Argyle Creme Template © by beKreaTief | Copyright © صراط مستقیم